متفرق مضامین

بالآخر سیرالیون میں آزادی اور حریت کی علامت۲۳۰؍سال پرانا کاٹن ٹری گر گیا!

(ذیشان محمود۔ مربی سلسلہ سیرالیون)

چھاؤں دیتا ہے سبھی کو اب تک

آؤ وہ بوڑھا شجر دیکھیں گے

(آغاز بلڈانوی)

۲۴ ؍مئی ۲۰۲۳ء بروز بدھ فری ٹاون سیرالیون میں شدید طوفانی بارش ہوئی۔ اس طوفانی بارش نے رات 9:40 بجے سیرالیون میں آزادی کی امنگ جگانے والے اور اس امید کو قائم رکھنے والے کاٹن ٹری کو گرا دیا۔ ستّر میٹر بلند اور پندرہ میٹر چوڑا بلند و بالا کاٹن ٹری ۲۳۰؍ سال سے زائد عرصے سے حوادث و مصائب اور موسمی اثرات سے لڑتا دنیا کی اس ٹھکرائی ہوئی قوم کو آزادی کی امید دلا رہا تھا۔ دنیا کے متعدد چھوٹے بڑے اخبارات نے اس سانحہ کی خبر لگائی اور ایک قیمتی اثاثے کے یوں اچانک ختم ہوجانے پر افسوس کا اظہار کیا۔ صدر مملکت جولیس مادا بیو (Dr. Brg. (Rtd) Julius Maada Bio) نے اسے ایک بڑا قومی نقصان قرار دیا۔

۱۷۸۷ء میں چار ہزار سے زائد نو آزاد شدہ افریقی غلاموں کو بلا امتیاز کہ وہ افریقہ کے کس رنگ و نسل اور قوم و ملک سے تعلق رکھتے ہیں یہاں لا کر بسایا گیا تھا۔ اس کے پانچ سال بعد Nova Scotia سے بھی مزید سیاہ فام یہاں آ گئے۔ اس کاٹن ٹری کو ۱۷۹۲ء میں اس وقت اہمیت حاصل ہوئی جب امریکہ سے آئے ان افریقن غلاموں کے ایک گروپ نے جدید فری ٹاؤن کی جگہ کو آباد کیا۔ اس گروپ نے امریکی جنگ آزادی کے دوران برطانیہ  کے تاج کے ساتھ لڑ کر اپنی آزادی حاصل کی تھی۔ یہ سابق سیاہ فام وفادار سپاہی، جنہیں بلیک نووا سکاٹیئنز Black Nova Scotiansبھی کہا جاتا ہے (کیونکہ وہ USAچھوڑنے کے بعد Nova Scotiaسے آئے تھے)، سیرا لیون میں دوبارہ آباد ہوئے اور ۱۱؍مارچ ۱۷۹۲ء کو فری ٹاؤن کی بنیاد رکھی۔Nova Scotia کے آباد کاروں کی اولاد آج سیرالیون کی کریول نسل کا حصہ ہے۔

کاٹن ٹری اصل میں Ceiba pentandra کا درخت تھا جسے کاپوک ٹری kapok tree بھی کہا جاتا ہے۔ پاکستان میں اس کی ایک قسم سنبل کا درخت کہلاتی ہے جسے Bombax کہا جاتا ہے۔ کاٹن ٹری فری ٹاؤن، سیرا لیون میں سب سے قدیم درخت تھا۔ فری ٹاؤن کی مرکزی سڑک پر یہ درخت سپریم کورٹ اور نیشنل میوزیم کی عمارات کے درمیان ایستادہ تھا۔ یہاں سے ایک سڑک صدارتی رہائش گاہ کو بھی جاتی ہے۔ اس درخت کے شمال میں وہ wharf بندرگاہ ہے جہاں ایک لمبے عرصے تک بڑے بڑے جہاز لنگر انداز ہوتے تھے۔ معروف روایت کے مطابق نووا سکوشیا کے آباد کاروں نے سیرالیون اترنے پر اس درخت کے نیچےThanksgiving service منعقد  کی، بھجن گائے اوردعا کی کہ وہ آزاد لوگوں کے طور پر اپنی نئی زندگی شروع کریں۔ تب سے وہ اسے اپنی آزادی اور آزادی کی علامت سمجھتے تھے۔ جیسا کہ ذکر ہوا کہ ان نئے آزاد شدہ افریقیوں کے پہنچنے سے پہلے، سیرا لیون آباد ہوچکا تھا۔ ان نئے آنے والے افریقیوں نے دارالحکومت کو وہ نام دیا جو یہ آج رکھتا ہے یعنی فری ٹاؤن۔ سیرا لیون کے باشندے اب بھی اس درخت کے نیچے امن اور خوشحالی کے لیے اپنے آباؤ اجداد کو دعائیں دیتے اور نذرانے پیش کرتے ہیں۔

اس درخت کی معین عمر تو معلوم نہیں لیکن فری ٹاؤن کی آبادکاری کے وقت ۱۷۹۲ء میں یہ درخت موجود تھا۔ مقامی روایات اور انٹرنیٹ پر مختلف مضامین میں اس کی عمر ۴۰۰ سال بھی بیان کی گئی ہے۔ چونکہ یہ میکسیکو اور جنوبی امریکہ سے تعلق رکھتا ہے۔ اس لیے ممکن ہے کہ امریکی ہی اس کو لائے ہوں اور یہاں لگایاہو۔ یا اس کے برعکس یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ یہ مغربی افریقی درخت ہے جسے امریکی اپنے ساتھ لے گئے ہوں۔

کاٹن ٹری ایک قومی یادگار اور اثاثہ ہے۔ یہ درخت سیرالیون کی علامت ہے۔ دس ہزار کے پرانے نوٹ اور دس لیون کے نئے نوٹ کی پشت پر اس کا عکس موجود ہے۔ کئی ڈاک ٹکٹوں اور پوسٹ کارڈز پر اس کا عکس ایک عرصے سے سیرالیون سے اپنے پیاروں کے احوال بیان کرتا رہا ہے۔ کہا جاتاہے کہ کاٹن ٹری آسمانی بجلی کا شکار ہوا تھا اور سنہ ۲۰۲۰ء میں نامعلوم وجہ سے اس کو آگ نے بھی متاثر کیا تھا۔

اس کے سائے میں کئی عہد گزارے گئے ہیں

راستے میں جو مرے بوڑھا شجر آتا ہے

(نور الحسن نور)

سیرالیون میں رہنے والے ہر شخص کا اس سے دلی لگاؤ ہے۔ فری ٹاؤن کے مرکز کے سارے پتے (address) اس کے بغیر نامکمل ہیں۔  ہم نے بھی فری ٹاؤن آنے کے بعد اس شہر کی گلیاں دیکھنے کے لیے پہلی سیر اسی کی جانب کی اور یوں کاٹن ٹری کا پتہ ہمیشہ کے لیے ازبر ہو گیا۔ جب بھی اس درخت کے پاس سے گزر ہوا اس کے سایہ تلے کئی فقیر، بھکاری لائن بنا کے بیٹھے اور کئی محنت کش کاجو اور دوسری کئی قسم کے اشیا ہاتھوں، کندھوں اور سر پر اٹھائے بیچتے نظر آئے کیونکہ ان بیسیوں سالوں میں اس شجر کے سایہ تلے سینکڑوں اسیروں نے اور ان تھکے ماندہ لوگوں نے کبھی دم بھر سانس لیا تو کبھی اپنی تھکاوٹ اتاری۔

اس درخت نے دو سو سال میں دنیا کے کئی نشیب و فراز دیکھے۔ اس شجر نے شمال میں Bunce Island سے کئی افریقیوں کو غلام بن کر بے بسی سے جاتے دیکھا۔ اور اس کے بعد ان کی آزاد واپسی پراپنے سایہ تلے ان کے آزادی کے جشن میں جھوم گیا ہوگا۔ امریکی، برطانوی حکومتوں کے عروج و زوال دیکھے۔ چھوٹی کشتیوں کے مسافروں سے لے کر بڑے بڑے جہازوں کے مسافر دیکھے۔ سائیکل، موٹر سائیکل، پرانی گاڑیوں سے نئی گاڑیوں تک کا سفر، ریل کے قیام سے اس کے اجڑنے تک کا مشاہدہ گیا۔ فضا میں رنگ برنگے پرندوں کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلتے اچانک جہاز کومحوِ پرواز کرتے دیکھا۔ پھر یہ عینی شاہد ہے ۲۶ اور ۲۷؍ اپریل۱۹۶۱ء کی درمیانی شب برطانوی راج سے آزادی کا۔ جنگ اور امن کے زمانہ کا۔ اس پست قوم کے دنیا میں کھڑے ہونے اور ترقی کرتے دیکھنے کا۔ برطانوی راج سے آزادی کے بعد ۱۹۶۱ء میں ہی اس نے کھلے دل سے ملکہ برطانیہ کوئین الزبیتھ کوبھی خوش آمدید کہا۔

اس درخت کے عین سامنے مغربی افریقہ کے اس خطہ ارض پر اسلام احمدیت کا پیغام لیے مسیح محمدی کا پہلا مبلغ پہنچا۔ حضرت مولانا عبد الرحیم نیّر صاحبؓ کا جہازابنسی (Abinsi) اس کے سامنے لنگر انداز ہوا۔ ان کااستقبال کرنے کےعلاوہ اس درخت کے سامنے ہی کھڑے جہاز پر اس سرزمین پردستی بیعت بھی ہوئی۔ گذشتہ سو سال سے یہ احمدیت کی روز بروز ترقی کا بھی عینی شاہد ہے۔  اس کے نیچے قائم کاٹن ٹری سٹیشن سے کئی مبلغین احمدیت پیغام حق کے لیے اندرونِ ملک روانہ ہوئے ہوں گے۔ دو خلفائے احمدیت کے اس سر زمین کی جانب سے قدم بوسی کے زمانہ کو دیکھنا بھی اس کے لیے باعث شرف رہا ہو گا۔

 ہر حکومت کے نئےوعدوں کا خاموش گواہ اور اپنوں اور غیر ملکی مہمانوں کو خوش دلی سے بانہوں میں بھرنے والا یہ بوڑھا شجر بالآخر ہواؤں کے دوش پر لہراتا ہوا زمین بوس ہو گیا۔ سیرالیون کے صدر مملکت اور وزارت سیاحت و ثقافت و ورثہ کی جانب سے کہا گیا ہے کہ اس کاٹن ٹری کی باقیات کو آئندہ آنے والی نسلوں کے لیے نیشنل میوزیم میں محفوظ کر لیا جائے گا۔ ہم سب مل کر اپنے مشہور کاٹن ٹری کے اتحاد، آزادی اورحریت کی میراث کو محفوظ رکھیں گے۔(ٹوئٹر)

یہ درخت صرف افریقہ کی میراث نہ تھا بلکہ انسانیت کی بقا کی میراث بھی تھا۔ دو صدیوں سے آزادی کی امید دینے والا یہ درخت تو گر گیا۔ لیکن یہ سوال پیچھے چھوڑ گیا کہ کیا ہم اب بھی آزادہیں؟

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button