متفرق مضامین

اللہ کی رسّی کو سب کے سب مضبوطی سے پکڑ لو

(خالد محمود شرما۔ کینیڈا)

’’قدیم سے سنت اللہ یہی ہے کہ خداتعالیٰ دو قدرتیں دکھلاتاہے
تامخالفوں کی دو جھوٹی خوشیوں کو پامال کرکے دکھلادے
‘‘

قرآن کریم،احادیث اور مذہبی تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ یوں تو انبیاء کی پیدائش اور وفات کے دن قوموں نے نہیں منائے مگر جہاں تک بعد میں جاری ہونے والی رسموں اور عادات کا تعلق ہے یہ دن ضرور منائے گئے ہیں اور آج بھی منائے جاتے ہیں۔جماعت احمدیہ انبیاء کی پیدائش اور وصال کے دنوں کو ظاہری رسم ورواج کا شکار ہوئے بغیر،ان مقدس ایام کو جو دراصل شعائراللہ ہیں اس احترام سے مناتی ہےکہ اللہ کے ذکر کو بلند کرنے کے ساتھ ساتھ اس پیغام کو مدنظر رکھتی ہے جو پیغام لے کر یہ خدا کے مقرب اور برگزیدہ بندے اس دنیا میں آیا کرتے ہیں۔

۲۶؍مئی کادن حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے وصال کا دن ہے۔اس مناسبت سے قرآن کریم کی درج ذیل آیت میں جماعت احمدیہ کے لیے بہت اہم پیغامات ہیں۔ سورہ ٔآل عمران کا اکثر حصہ آنحضرتﷺ کی آخری عمر میں نازل ہوا ہے۔جس سے اشارہ ملتا ہے کہ ان آیات کا تعلق آنحضرتﷺکی وفات قریب آنے سے تھا اور آنحضرتﷺ کے بعد جو ایک بڑا خلا پیداہونے کا خدشہ تھا اس سے بچنے کے لیے مومنین کوان آیات میں اہم نصائح کی گئی ہیں۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ حَقَّ تُقٰتِہٖ وَلَا تَمُوۡتُنَّ اِلَّا وَاَنۡتُمۡ مُّسۡلِمُوۡنَ۔ وَاعۡتَصِمُوۡا بِحَبۡلِ اللّٰہِ جَمِیۡعًا وَّلَا تَفَرَّقُوۡا ۪ وَاذۡکُرُوۡا نِعۡمَتَ اللّٰہِ عَلَیۡکُمۡ اِذۡ کُنۡتُمۡ اَعۡدَآءً فَاَلَّفَ بَیۡنَ قُلُوۡبِکُمۡ فَاَصۡبَحۡتُمۡ بِنِعۡمَتِہٖۤ اِخۡوَانًاۚ وَکُنۡتُمۡ عَلٰی شَفَا حُفۡرَۃٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنۡقَذَکُمۡ مِّنۡہَا ؕ کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمۡ اٰیٰتِہٖ لَعَلَّکُمۡ تَہۡتَدُوۡنَ۔(آل عمران ۱۰۳۔ ۱۰۴)اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کا ایسا تقویٰ اختیار کرو جیسا اس کے تقویٰ کا حق ہے اور ہرگز نہ مرو مگر اس حالت میں کہ تم پورے فرمانبردار ہو۔اور اللہ کی رسّی کو سب کے سب مضبوطی سے پکڑ لو اور تفرقہ نہ کرو اور اپنے اوپر اللہ کی نعمت کو یاد کرو کہ جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں کو آپس میں باندھ دیا اور پھر اس کی نعمت سے تم بھائی بھائی ہو گئے۔ اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے پر (کھڑے) تھے تو اس نے تمہیں اس سے بچا لیا۔ اسی طرح اللہ تمہارے لئے اپنی آیات کھول کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ شاید تم ہدایت پا جاؤ۔

تقویٰ کا حق کیسے ادا ہوگا

اس آیت میں ایسا مشکل پیغام ہے کہ تقویٰ کاحق ادا کرنا ہر کسی کے لیے ناممکن دکھائی دیتا ہے۔ہر کسی کو یہ توفیق نہیں مل سکتی کہ اس حکم پر عمل کرسکے چونکہ استطاعتیں ہر انسان کی مختلف ہیںاور ساتھ ہی یہ بھی فرمادیا کہ تم نے جان نہیں دینی جب تک یہ یقین نہ ہو کہ پورے طور پر مسلمان ہوچکے ہو۔تقویٰ کا حق ادا کرنا قرآن کریم کی رو سے ایسا فرض ہے جو زندگی کے ہر لمحہ میںساتھ رہتا ہے کیونکہ موت کا کوئی وقت مقرر نہیں کہ انسان کہہ سکے کہ میں فلاں لمحے مروں گا اس وقت تقویٰ اختیار کر لوں گا۔ مسلمان ہونے کی حالت میں وفات پانے کے لیےاپنی زندگی کے ہر لمحے پر اپنے تقویٰ کا نگران ہونا۔ایسی مشکل شرط رکھی گئی ہے کہ سوائے اس بندے پر جس پر خدا تعالیٰ کا غیرمعمولی فضل ہو،عام انسان کی قدرت میں بظاہر یہ حکم پورا کرنا مشکل دکھائی دیتا ہے۔یہاں انسان کامل وہ کامل مسلم حضرت محمد مصطفیٰﷺجس نے خدا کے تقویٰ کا ایساحق ادا کیا کہ اس کی وفات کامل اسلام پر ہوئی اس کے متبعین کو یہ پیغام دیا جارہا ہے کہ تم میں تو یہ اکثر کوطاقت حاصل نہیں ہوسکتی کہ ایسا تقویٰ حاصل ہوجائے کہ کامل سپردگی کی حالت میں جان دولیکن اگر تم آنحضرتﷺ کے تقویٰ کو نمونہ بناتے ہوئے ہمیشہ اس تقویٰ کے حصول کی کوششیں کرتے رہو گے تو ہم تمہیں خوشخبری دیتے ہیں کہ گرتے پڑتے جس حالت میں بھی تم جان دوگے وہی حالت تمہاری کامل سپردگی کی ہوگی اور تمہارا شمار خدا کے مطیع اور فرمانبردار بندوں میں ہوگا۔

اگلی آیت میں اس مشکل کا ایک اور حل بھی ہمیں سمجھا دیا جس پر عمل کرکے ہم کمزور بندوںپر بھی تقویٰ کی حالت میں جان دینا آسان بنا دیا وہ یہ ہے کہ سب مل کر خدا کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو۔ اور آپس میں تفرقہ نہ کرو،پھٹ نہ جاؤ،ایک دوسرے کے ساتھ رہو اور اپنی جمعیت کو منتشر نہ ہونے دو تم اگر اس بات پر قائم ہوجاؤ تو تمہاری بدیوں سے درگزر کیا جائے گا اور تمہاری نیکیاں قبول کی جائیں گی۔

دنیا کا سب سے بڑا متقی جو تقویٰ میں کمال درجہ کو پہنچا ہوا تھا یعنی حضرت محمد مصطفیﷺ وہ کامل اسلام کی حالت میں خدا کے حضور حاضر ہونے والا ہے تم اگر افتراق سے بچنا چاہتے ہو،اگر چاہتے ہو کہ اس سے جدائی کے بعد وہ بلائیں تمہیں گھیر نہ لیں جو عموماً ایسے نازک دور میں قوموں کو گھیر لیا کرتی ہیں تو ویسے ہی تقویٰ کے رنگ اختیار کرنے کی کوشش کرو اور اس کے بعد اس کے نظام کی رسی کواور وہ قدرت ثانیہ جو اس کے بعد آنے والی ہے اس کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو۔تقویٰ پر مرنے کا بھی یہی طریقہ ہے۔

اللہ کی رسی کیاہے

یہی وہ رسی ہے جس کو پکڑ کرصحابہؓ ایک لڑی میں پرو ئے گئے گویا یک جان دو قالب۔ہم آنحضرتﷺ کی بعثت سے قبل کے واقعات تاریخ میں پڑھتے ہیں اور پھر آپؐ کی بعثت کے بعد کے حالات بھی ہمارے سامنے ہیں کہ کس طرح محبتیں بڑھیں اور ایک دوسرے سے کس طرح اخوت کا رشتہ قائم ہوا۔ کس طرح ایک دوسرے کے بھائی بھائی بنے۔اور یہ صرف اس لیے تھا کہ ان صحابہؓ نے اللہ کی ر سی کو پہچانااور اسے مضبوطی سے پکڑا۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اس رسی کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’ہم سب جانتے ہیں کہ وہ رسّی کون سی تھی یا کون سی ہے جس کو پکڑ کر ان میں اتنی روحانی اور اخلاقی طاقت پیدا ہوئی، قربانی کا مادہ پیدا ہوا، قربانی کے اعلیٰ معیار قائم ہوئے۔ جس نے ان میں انقلابی تبدیلیاں پیدا کرتے ہوئے انہیں اس حد تک اعلیٰ قربانیاں کرنے کے قابل بنادیا۔ وہ رسّی تھی اللہ تعالیٰ کی آخری شرعی کتاب قرآن کریم، جو احکامات اور نصائح سے پُر ہے۔ جس کے حکموں پر سچے دل سے عمل کرنے والا خداتعالیٰ کا قرب پانے والا بن جاتا ہے۔ وہ رسّی تھی نبی کریمﷺ کی ذات کہ آپؐ کے ہر حکم پر قربان ہونے کے لیے صحابہؓ ہر وقت منتظر رہتے تھے۔ ان صحابہؓ نے اپنی زندگی کا یہ مقصد بنالیا تھا کہ اللہ اور اس کے رسول کے احکامات سے باہر نہیں نکلنا۔ اور پھر آنحضرتﷺ کے بعد آپؐ کے پہلے چار خلفاء جو خلفاء راشدین کہلاتے ہیں، ان کے توسط سے مسلمانوں نے اُس رسّی کو پکڑا جو اللہ کی رسّی اور اس کی طرف لے جانے والی رسّی تھی۔ اور جب تک مسلمانوں نے اس رسّی کو پکڑے رکھا وہ صحیح راستے پر چلتے رہے۔ اور جب فتنہ پردازوں نے ان میں پھوٹ ڈال دی اور انہوں نے فتنہ پردازوں کی باتوں میں آکر اس رسّی کو کاٹنے کی کوشش کی تو ان کی طاقت جاتی رہی۔ مسلمانوں کو وقتاً فوقتاً مختلف جگہوں میں اس کے بعد کامیابیاں تو ملتی رہیں لیکن اجتماعی قوت اور رعب جو تھا وہ جاتا رہا۔ وہ قوت جو تھی وہ پارہ پارہ ہوگئی۔ آپس میں بھی لڑائیاں ہوئیں۔ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے ہاتھوں قتل ہوا۔ اور یہ سب کچھ اس لئے ہوا کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کا انکار کیا تھا۔‘‘(خطبہ جمعہ ۲۶؍اگست۲۰۰۵ء)

پھر حضور انور احباب جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’بہرحال واضح ہو کہ اب اللہ کی رسّی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا وجود ہی ہے، آپؑ کی تعلیم پر عمل کرنا ہے۔ اور پھر خلافت سے چمٹے رہنا بھی تمہیں مضبوط کرتا چلا جائے گا۔ خلافت تمہاری اکائی ہوگی اور خلافت تمہاری مضبوطی ہوگی۔ خلافت تمہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور آنحضرتﷺ کے واسطے سے اللہ تعالیٰ سے جوڑنے والی ہوگی۔ پس اس رسّی کو بھی مضبوطی سے پکڑے رکھو۔ ورنہ جو نہیں پکڑے گا وہ بکھر جائے گا۔ نہ صرف خود برباد ہوگا بلکہ اپنی نسلوں کی بربادی کے سامان بھی کررہا ہوگا۔ اس لئے ہر وہ آدمی جس کا اس کے خلاف نظریہ ہے وہ ہوش کرے۔

اس رسّی کو پکڑنا کس طرح ہوگا؟ یہ صرف بیعت کرکے، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مان لینے سے ہی نہیں ہوگا بلکہ ان شرائط بیعت پر عمل کرنا بھی ضروری ہے جو آپؑ نے مقرر فرمائی ہیں۔ دیکھیں کتنی کڑی شرائط ہیں۔ بعض تو بعض عمل کرنے والوں کوبڑی بڑی لگتی ہیں۔ لیکن کس درد سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں اس طرف توجہ دلائی ہے۔ کس طرح ایک ایک بات کو لے کر ہمیں سمجھایا ہے کہ میری بیعت میں آنے کے بعد کس طرح تمہیں اپنے اندر تبدیلیاں پیدا کرنی ہوں گی۔ عبادات اور توحید کے قیام سے لے کر چھوٹی سے چھوٹی نیکیاں اختیار کرنے، تقویٰ کی باریک راہوں پر چلنے اور اپنے بھائیوں کے حقوق ادا کرنے کی طرف ہمیں توجہ دلائی تاکہ اللہ کے احکامات کی رسّی کو تھام کر ہم اللہ تعالیٰ تک پہنچ سکیں، اس کی رضا حاصل کرنے والے بن سکیں۔ اور یہی باتیں ہیں جن کی آپؑ کے بعد خلفائے وقت نے تلقین کی اور نصیحت فرماتے رہے۔(خطبہ جمعہ ۲۶؍ اگست ۲۰۰۵ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۱۶؍ستمبر ۲۰۰۵ء)

حبل اللہ کو تھامنے والے وہ تھے جنہوں نے حضرت محمد مصطفیﷺ کا ہاتھ تھاما اور پھر وہ ہاتھ کاٹے تو گئے لیکن الگ نہیں ہوئےجس کی وضاحت قرآن کریم میں اس طرح ملتی ہے:فَقَدِ اسۡتَمۡسَکَ بِالۡعُرۡوَۃِ الۡوُثۡقٰی لَا انۡفِصَامَ لَہَا (البقرہ:۲۵۷) تو یقیناً اس نے ایک ایسے مضبوط کڑے کو پکڑ لیا جس کا ٹوٹنا ممکن نہیں۔

تو فرمایا کہ اگر تم اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو اور حضرت محمد مصطفیﷺکے دامن سے چمٹے رہو تو جس آن بھی تمہاری موت آئے گی وہ تقویٰ کی حالت ہوگی۔

وحدت کی لڑی میں پروئے جانے کاراز

جب انبیاء وفات پاجاتے ہیں تو خلفاء ان کی نمائندگی کر رہے ہوتے ہیں۔بیعت خلافت بھی اسی لیے لی جاتی ہے۔درحقیقت جب ہم بیعت کے وقت خلافت کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ تھما رہے ہوتے ہیں توحضرت محمدﷺ کی غلامی اور پھرسلسلہ بہ سلسلہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی غلامی کا عہد کر رہے ہوتے ہیں۔جب ہماری توجہ اس طرف مبذول ہوتی ہے تو بیعت کی اہمیت اور اس کے ساتھ اس کی ذمہ داریاں بھی بہت بڑھ جاتی ہیں اور وَلَا تَفَرَّقُوا کے نتیجے میں جو انذار ہے اس کی طرف توجہ بھی جاتی ہے کہ جو شخص. بیعت کے بعد اس کے تقاضوں پر عمل نہیں کرتا تو گویا وہ افتراق پیداکرتا ہے اور اپنےتقویٰ پر ضرب لگاتا ہے۔

ہر گھر میں اختلافات ہوتے ہیں لیکن اگر گھر میں کوئی بڑا معزز گھر کا سربراہ موجودہو جس سے سب کو پیار ہو اور اس کی ایک آواز پر سب اٹھتے اور بیٹھتے ہوں،اس بڑے کی عظمت دلوں میں قائم ہوتو اختلافات کے باوجود وہ خاندان یکجا رہتا ہے۔جیسے پرانے وقتوں میں مشترکہ خاندانی نظام ہوتا تھا۔تو اس میں ہمارےلیے یہ نصیحت ہے کہ اگر ہمارا تعلق خلافت سے اس طرح قائم ہو جو تعلق نبوت سکھاتی ہے اور عطا کرتی ہے تو اس نبوت کا فیض خلافت کے ذریعے پوری جماعت میں جاری وساری ہو جائے گا۔اور خلیفہ وقت آنحضرتﷺ کی غلامی اور اس کی برکت سےہمارے سب اختلافات دور کرکے ایک لڑی میں پروئے رکھے گا۔چنانچہ اگر ہمارا تعلق خلیفہ وقت سے ایک خاندان کے سربراہ جیسا ہوگا۔جس میں گھر کا ہر فرد بشر اپنی چیز اپنی نہیں سمجھتابلکہ اس کی سمجھتا ہے اور اس کے ایک اشارے پر لبیک کہتا ہوا عمل کرتا ہے تو ایسی صورت میں کوئی اختلاف باقی رہ ہی نہیں سکتا اگر ہوگا بھی تو دور ہوجایا کرے گا۔

قدرت ثانیہ کی خوشخبری

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں یہ خوشخبری دی ہے کہ یہ رسی اب قیامت تک دراز کردی گئی ہےاور اس قدرت ثانیہ کے ساتھ اگر ہم چمٹے رہےتو ہم ہمیشہ وحدت کی لڑی میں پروئے رہیں گے اور اس کا فیض ہماری نسلوں میں منتقل ہوتا رہے گا۔ان شاء اللہ۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:’’سو اے عزیزو! جبکہ قدیم سے سنت اللہ یہی ہے کہ خداتعالیٰ دو قدرتیں دکھلاتاہے تامخالفوں کی دو جھوٹی خوشیوں کو پامال کرکے دکھلادے۔ سو اب ممکن نہیں ہے کہ خداتعالیٰ اپنی قدیم سنت کو ترک کردیوے۔ اس لئے تم میری اس بات سے جو مَیں نے تمہارے پاس بیان کی غمگین مت ہو اور تمہارے دل پریشان نہ ہو جائیں کیونکہ تمہارے لئے دوسری قدرت کا بھی دیکھنا ضروری ہے اور اس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ وہ دائمی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا‘‘۔(الوصیت، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۳۰۶،۳۰۵)

پس قدرت ثانیہ خدا کی طرف سے ایک بڑا انعام ہے جس کا مقصد جماعت کو متحد کرنا اور تفرقہ سے محفوظ رکھناہے۔یہ وہ لڑی ہے جس میں جماعت موتیوں کی مانند پروئی ہوئی ہےاور آج کے دن ہم خلافت کے ساتھ اپنے اس عہد کو دہرائیں کہ یہ قدرت جو جماعت احمدیہ کے ساتھ ہمیشہ رہے گی ہم بھی اس قدرت کے ساتھ ہمیشہ رہیں اور کبھی اس سے بے وفائی نہ کریں۔اللہ کرے ایسا ہی ہو۔آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button