سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

حضرت اقدس مسیح موعودؑ کا اسوۂ حفظانِ صحت۔ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں

(احسان احمد۔ متعلم جامعہ احمدیہ یوکے)

’’صحت عمدہ شے ہے تمام کاروبار دینی اور دنیاوی صحت پر موقوف ہیں۔ صحت نہ ہو تو عمر ضائع ہوجاتی ہے‘‘

قرآن کریم نے بنی آدم کی تفضیل اور تکریم کا ذکر فرمایا ہے اور انسان کو ’’احسنِ تقویم‘‘ سے نوازا ہے۔ اس احسنِ تقویم کی سب سے بہترین مثال اللہ تعالیٰ کے انعام یافتہ گروہ کے سرخیل انبیائے کرام تھے جو جسمانی اور روحانی صحت کا بہترین نمونہ تھے۔ قرآن کریم میں مختلف انبیاء کے تذکرے میں ان کی عمدہ جسمانی صحت مترشح ہوتی ہے۔ اگر ہم حضرت نوح علیہ السلام کی مثال لیں تو قرآن کریم اور بائبل سے پتا چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ایک مناسب حجم کی محفوظ کشتی بنانے کا حکم دیا تھا جس کے لیے جسمانی صحت اور استقلال درکار تھا جس کے بغیر اس کی تکمیل ممکن نہ تھی۔اسی طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ہزاروں کلومیٹر کا سفر کرنا، خانہ کعبہ کی ازسر نو تعمیر کرنا، حضرت مو سیٰ علیہ السلام کا پیدل سفر مدین، اپنی قوم کے ساتھ صحرا سیناکا لمبا سفر، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی سیاحت اورسفر ہجرت۔اسی طرح رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں بھی کثرت سے ایسے واقعات ملتے ہیں جن سے پتہ لگتا ہےکہ رسول اللہ ﷺ ایک مضبوط اورقوی انسان تھے۔ رسول اللہ ﷺ کی عبادات کو ہی لے لیا جائے تو یہ کسی عام انسان کا کام نہیں۔ اتنی لمبی لمبی نمازیں پڑھنا کہ کھڑے کھڑے پاؤں کا متورِّم ہو جانا یہ کمزور انسان کا کام نہیں ہے۔ چنانچہ حدیث میں آتا ہے: كَانَ يَقُوْمُ مِنَ اللَّيْلِ حَتّٰى تَتَفَطَّرَ قَدَمَاهُ(صحیح بخاری۔ کتاب التفسیر)

چنانچہ اس زمانہ میں آپﷺ کے غلام صادق حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کا قلمی جہاد کرنا اور بیسیوں کتب لکھنا نیز کثرت سے وعظ و نصائح کرنا اور عبادت الٰہی کو بھی اس کے لوازمات کے ساتھ بجا لانا یہ سب ایک مضبوط جسم اور مضبوط ذہن والے آدمی کا ہی کام ہوسکتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام صحت کی اہمیت واضح کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’صحت عمدہ شئے ہے تمام کاروبار دینی اور دنیاوی صحت پر موقوف ہیں۔ صحت نہ ہو تو عمر ضائع ہوجاتی ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد پنجم صفحہ۲۴۲)

صحت مند جسم اور دماغ کے لیے متوازن اور صحت بخش غذا کا استعمال بہت ضروری ہے۔ اس توازن کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اس طرح فرمایا ہےکہکُلُوۡا وَاشۡرَبُوۡا وَلَا تُسۡرِفُوۡا ۚ اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الۡمُسۡرِفِیۡنَ۔ (الاعراف:۳۲) یعنی کھاؤ اور پیو لیکن حد سے تجاوز نہ کرو یقیناًوہ حد سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔

چنانچہ جب ہم اس قرآنی حکم کا نظارہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں دیکھتے ہیں تو ہمیں پتا چلتا ہے کہ حضرت اقدس علیہ السلام متوازن فی الطعام تھے اور اس کام اور محنت کے مقابل پر جس میں حضوردن رات لگے رہتے تھے اکثر حضور کی غذا دیکھی جاتی تو بعض اوقات حیرانی سے بےاختیار لوگ یہ کہہ اُٹھتے کہ اتنی خوراک پر یہ شخص زندہ کیونکر رہ سکتا ہے۔ خواہ کھانا کیسا ہی عمدہ اور لذیذ ہو اور کیسی ہی بھوک ہو آپ کبھی سیر ہو کر نہیں کھاتے تھے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اپنا کھانا لذت حاصل کرنے کے لیے نہیں بلکہ قوت قائم رکھنے کی خاطر تناول فرماتے تھے۔ اس لیے آپ صرف وہ چیزیں ہی کھاتے تھے جو آپ کی طبیعت کے موافق ہوتیں اور جن سے دماغی قوت قائم رہتی تا کہ آپ کے کام میں ہرج نہ ہو۔

دودھ کا استعمال آپ اکثر کیا کرتے تھے،سوتے وقت تو ایک گلاس ضرور پیتے تھے اور دن کو بھی۔بلکہ آپ اپنی حیات مبارکہ کے آخری ایام میں زیادہ دودھ نوش فرمایا کرتے تھے۔کبھی کبھی رفع ضعف کے لیے آپ کچھ دن متواتر گوشت یا پائے کی یخنی پیا کرتے تھے۔نیزرمضان کی سحری میں آپ کے لیے عام طور پر سالن یا مرغی کی ایک ران اور فرنی تیار ہوتی جس کے ساتھ ایک پراٹھا ہوا کرتا تھا۔ اگر چہ آپ اس میں سے تھوڑا سا ہی کھاتے تھے۔

انسانی صحت کے قائم کرنے کے لیے پھلوں کا استعمال بھی بہت ضروری ہے۔ آپ علیہ السلام پھلوں کو بھی پسند کیا کرتے تھے۔

حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ پسندیدہ پھلوں میں آپ کو انگور، بمبئی کا کیلا، ناگپوری سنگترے، سیب،سردے اور آم ہواکرتے تھے۔ اور خشک میووں میں سے صرف بادام کو ترجیح دیتے تھے۔ (سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد ۱ صفحہ۴۵-۵۱) یوں آپ علیہ السلام کھانے پینے میں حفظان صحت کو مد نظر رکھتے تھے۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام روحانیت پر طعام کے اثر کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’واضح ہو کہ قرآن شریف کے رو سے انسان کی طبعی حالتوں کو اس کی اخلاقی اور روحانی حالتوں سے نہایت ہی شدید تعلقات واقع ہیں یہاں تک کہ انسان کے کھانے پینے کے طریقے بھی انسان کی اخلاقی اور روحانی حالتوں پر اثر کرتے ہیں… ایسا ہی یہ تمام حالتیں اخلاقی ہی ہو جاتی ہیں اور روحانیت پر نہایت گہرا اثر کرتی ہیں۔ اسی واسطے قرآن شریف نے تمام عبادات اور اندرونی پاکیزگی کے اغراض اور خشوع خضوع کے مقاصد میں جسمانی طہارتوں اور جسمانی آداب اور جسمانی تعدیل کو بہت ملحوظ رکھا ہے۔ اور غور کرنے کے وقت یہی فلاسفی نہایت صحیح معلوم ہوتی ہے کہ جسمانی اوضاع کا روح پر بہت قوی اثر ہے… ایسا ہی تجربہ ہم پر ظاہر کرتا ہے کہ طرح طرح کی غذاؤں کا بھی دماغی اور دلی قوتوں پر ضرور اثر ہے۔‘‘ (اسلامی اصول کی فلاسفی،روحانی خزائن جلد ۱۰صفحہ ۳۱۹-۳۲۰)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت کے مطالعہ سے یہ بات بھی پتا لگتی ہے کہ آپ علیہ السلام ایک مضبوط جسم کے مالک تھے۔ چنانچہ جو کام آپ کے ہاتھوں سے ہوا اور جس طرح اسلام کی راہ میں آپ نے قلمی جہاد کیا وہ ایک معمولی بات نہ تھی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بچپن سے ہی گھڑ سواری، تیراکی اور پیدل چلنا جیسی چیزوں میں مشاق تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کثرت سے پیدل چلتے تھے اور یہ آپ کا روزانہ کا معمول تھاکہ کئی کئی میل سیر کے لیے پیدل چلتے۔اور یہ سلسلہ آپؑ کے بچپن سے اخیر عمر تک بدستور جاری رہا اور سفرو حضر میں بھی بند نہیں ہوا۔ یعنی جب آپ کہیں باہر تشریف لے جاتے مثلاً لدھیانہ، لاہور، سیالکوٹ، دہلی وغیرہ تب بھی آپ نے سیر کے سلسلہ کو بند نہیں کیا۔نیز آپ علیہ السلام سیر کے علاوہ بھی ورزش کے مختلف ذرائع استعمال کرتے تھے۔چنانچہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ’’حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مونگریاں اور مگدَر [dumbbell]پھیرا کرتے تھے۔ بلکہ وفات سے سال دو سال قبل مجھے فرمایا کہ کہیں سے مونگر یاں تلاش کرو جسم میں کمزوری محسوس ہوتی ہے۔ چنانچہ مَیں نے کسی سے لا کر دیں اور آپ کچھ دن انہیں پھیراتے رہے بلکہ مجھے بھی بتاتے تھے کہ اس اس رنگ میں اگر پھیری جائیں تو زیادہ مفید ہیں۔‘‘ (تذکار مہدی، صفحہ۴۶۸)

حفظانِ صحت کے واسطے ایک ضروری امر جسمانی صفائی بھی ہے۔ چنانچہ حضور علیہ السلام روحانی صفائی کے ساتھ ساتھ جسمانی صفائی پر بھی خاص زور دیا کرتے تھے۔آپ علیہ السلام کھانے سے پہلے اور بعد میں ضرور ہاتھ دھویا کرتے تھے۔ کپڑے یا تولیہ سے ہاتھ پونچھا کرتے تھے۔ بعض مولویوں کی طرح داڑھی سے چکنے ہاتھ پونچھنے کی عادت ہرگز نہ تھی۔ کھانےکے بعد کلّی بھی فرماتے تھے۔ اسی طرح دانتوں کاخلال بھی ضرور رکھتے جو اکثر کھانے کے بعد کیا کرتے تھے۔

آپ علیہ السلام جسمانی صفائی کے متعلق قرآن کریم کی آیت وَالرُّجْزَ فَاھْجُرْ کے تناظر میں فرماتے ہیں: ’’یہ احکام اسی لئے ہیں کہ تا انسان حفظانِ صحت کے اسباب کی رعایت رکھ کر اپنے تئیں جسمانی بلاؤں سے بچاوے۔… قرآن کہتا ہے کہ تم غسل کرکے اپنے بدنوں کو پاک رکھو اور مسواک کرو، خلال کرو اور ہر ایک جسمانی پلیدی سے اپنے تئیں اور اپنے گھر کو بچاؤ۔ اور بدبوؤں سے دور رہو اور مردار اور گندی چیزوں کو مت کھاؤ…سو یہ خداتعالیٰ کا ان پر[یعنی عربوں پر] اور تمام دنیاپر احسان تھا کہ حفظان صحت کے قواعد مقرر فرمائے۔ یہاں تک کہ یہ بھی فرما دیا کہ کُلُوْا وَاشْرَبُوْا وَلَا تُسْرِفُوْا۔‘‘ (ایام الصلح،روحانی خزائن جلد ۱۴صفحہ ۳۳۲)

ابھی دنیا کوروناوائرس کی عالمی وبا سے گزری ہے اس میں دیگرضروری احتیاطی تدابیر کے علاوہ عمومی صفائی اور جسمانی صفائی کی خاص تلقین بھی کی جاتی رہی۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں جب طاعون پھیلا توتمام مذہبی لوگ اُن تدابیر کے سخت مخالف تھے جو گورنمنٹ نے اِنسدادِ طاعون کے متعلق نافذ کی تھیں۔ آپ نے بڑے زور سے گورنمنٹ کی تائید کی اور اپنی جماعت کو آگاہ کیا کہ اِن تدابیر کو اختیار کرنے میں کوئی ہرج نہیں بلکہ اسلام کا حکم ہے کہ ہر قسم کی تدابیر جو حفظانِ صحت کے متعلق ہوں اُن پر عمل کیاجائے۔ ایسے وقت میں آپ کے اعلان اور آپ کی جماعت کے عمل کو دیکھ کر دوسرے لوگوں کو بھی ہدایت ہوئی۔

حضرت مفتی محمدصادق صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس کے متعلق فرماتے ہیں: ’’جب قادیان میں طاعون ہوئی… توحضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے مکان کے صحن میں ایک بڑاڈھیرلکڑیوں کاروزانہ جلایاکرتے تھے۔فرماتے تھے کہ اِس سے طاعونی جرم[یعنی جراثیم] ہلاک ہوجاتے ہیں اورخودہمیشہ اوپرکی منزل میں مقیم رہتے تھےاوراحباب کوبھی فرمایاکرتے تھے کہ حتی الوسع اوپرکی منزلوں میں رہاکریں۔‘‘ (ذکرِ حبیب ازحضرت مفتی محمدصادق صاحب رضی اللہ عنہ صفحہ ۸۳)

اسی طرح طاعون کے ایام میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک دو اجس کا نام ’’درونجِ عقربی‘‘ ہے اور اس کی شکل بچھُوکی طرح ہوتی ہے تاگے میں باندھ کر گھر میں کئی جگہ لٹکا دی تھی۔اور فرماتے تھے کہ حکماء نے اس کی بابت لکھا ہے کہ یہ ہوا کو صاف کرتی ہے۔ (سیرۃ المہدی جلد اوّل صفحہ۷۷۳ روایت نمبر۸۷۴)

صحت قائم رکھنے کے لیے بہت ضروری ہے کہ انسان مضر اشیا سے پرہیز رکھے۔حضرت مسیح موعود علیہ اسلام مضرِصحت اشیا کے چھوڑنے کے بارے میں فرماتے ہیں: ’’حدیث میں آیا ہے وَمِنْ حُسْنِ اِسْلَامِ الْمَرْءِ تَرْکُہٗ مَا لَایَعْنِیْہِ۔یعنی اسلام کا حسن یہ بھی ہے کہ جو چیز ضروری نہ ہو وہ چھوڑدی جاوے۔ اسی طرح پر یہ پان، حقّہ، زر دہ (تمباکو) ا فیون وغیرہ ایسی ہی چیزیں ہیں۔ بڑی سادگی یہ ہے کہ ان چیزوں سے پرہیز کرے۔ کیونکہ اگر کوئی اوربھی نقصان ان کا بفر ض محال نہ ہو تو بھی اس سے ابتلا آ جاتے ہیں اور انسان مشکلات میں پھنس جاتاہے…عمدہ صحت کو کسی بیہودہ سہار ے سے کبھی ضائع کرنانہیں چاہئے۔ شریعت نے خوب فیصلہ کیا ہے کہ ان مضرِصحت چیزوں کو مضر ِایمان قرار دیا ہے اور ان سب کی سردار شراب ہے۔ یہ سچی بات ہے کہ نشوں اور تقویٰ میں عداوت ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد ۳۔صفحہ ۹۰-۹۱،ایڈیشن ۲۰۲۲ء)

جہاں حضرت اقدس علیہ السلام نے اپنے قول و فعل سے حفظانِ صحت کے معیار سمجھائے ہیں وہاں اسے قائم رکھنے کے لیے خدا کی طرف جھکنے اور دعا کرنے کی تلقین بھی فرمائی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک مومن کی زندگی اور صحت کو کمال درجہ حقیقت کے ساتھ ایک دنیاوی عمارت سے تشبیہ دے کر زندگی اور صحت کو جہاں خدا تعالیٰ کا فضل قرار دیا ہے وہاں اس خدائے عز و جلّ کا فضل چاہنے کی طرف بھی درپردہ توجہ دلائی ہے۔ چنانچہ چند دعا ئیں جو حضور علیہ السلام خودکیا کرتے تھے اور تلقین بھی فرماتے تھے درج ذیل ہیں:

۱۸۸۰ء کی بات ہے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کو سخت قولنج،خونی پیچش کی حالت میں سولہ دن گزر گئے۔ اس لیے گھر والوں نے مایوس ہو کر آپ پر سورت یاسین بھی تین مرتبہ پڑھ دی تھی۔ حضورعلیہ السلام فرماتے ہیں: ’’جس طرح خدا تعالیٰ نے مصائب سے نجات پانے کے لئے بعض اپنے نبیوں کو دعائیں سکھلائی تھیں مجھے بھی خدا نے الہام کر کے ایک دعا سکھلائی اور وہ یہ ہے۔سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْمِ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِ مُحَمَّدٍ۔‘‘ (تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحہ ۲۰۸)یعنی پاک ہے اللہ اپنی حمد کے ساتھ، پاک ہے اللہ جو بہت عظیم ہے۔ اے اللہ! رحمتیں بھیج محمدﷺ پر اور آپ کی آل پر۔

خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کووبائی امراض کے علاج کے حوالے سےاِن ناموں کا ورد کرنے کی راہنمائی فرمائی: یَاحَفِیْظُ۔ یَا عَزِیْزُ۔ یَا رَفِیْقُ(ملفوظات جلد سوم صفحہ نمبر ۴۲۶-۴۲۷ ایڈیشن ۱۹۸۸ء)

۲۷؍جنوری ۱۹۰۵ءکو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دائیں رُخسار پر ایک پھوڑا نمودار ہونے سے بہت تکلیف ہوئی۔ دعا کرنے پر یہ فقرات الہام ہوئے جن کے دم کرنے سے فوراً صحت عطا ہوئی: ’’بِسْمِ اللّٰہِ الْکَافِیْ۔ بِسْمِ اللّٰہِ الشَّافِیْ۔بِسْمِ اللّٰہِ الْغَفُوْرِ الرَّحِیْمِ۔ بِسْمِ اللّٰہِ الْبَرِّ الْکَرِیْمِ۔ یَا حَفِیْظُ۔یَا عَزِیْزُ۔یَا رَفِیْقُ۔ یَا وَلِیُّ اشْفِنِیْ۔‘‘ یعنی میں اللہ کے نام سے مدد چاہتا ہوں جو کافی ہے۔ میں اللہ کے نام سے مدد چاہتا ہوں جو شافی ہے۔ اللہ کے نام کے سے مدد چاہتا ہوں جو غفور ورحیم ہے۔ میںاللہ کے نام کے ساتھ مدد چاہتا ہوں جو احسان کرنے والا کریم ہے۔ اے حفاظت کرنے والے! اے غالب! اے رفیق! اے ولی! مجھے شفا دے۔(تذکره صفحہ ۴۴۲ مطبوعہ ۲۰۰۴)

نیز۱۹۰۶ءمیں بیماری کی حالت میں یہ دعا الہام ہوئی: ’’اِشْفِنِیْ مِنْ لَّدُنْکَ وَارْحَمْنِیْ‘‘ (تذکرہ صفحہ ۵۲۳مطبوعہ ۲۰۰۴ء)یعنی مجھے اپنی طرف سے شفا بخش اور رحم کر۔

اسلام ایک ایسا کامل اور مکمل مذہب ہے جس میں بظاہر چھوٹی نظر آنے والی بات کے متعلق بھی احکامات موجودہیں۔ اس زمانہ کے امام حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے ہمارے لیے اللہ تعالیٰ کی رضا پر اور آنحضور ﷺ کی کامل تعلیم پر چلتے ہوئے ایک بہترین نمونہ پیش کیا کہ انسان کو اپنے نفس کا حق ادا کرتے ہوئے اس کی حفاظت کو کس ذریعہ سے اور کس شکل میں انجام دینا چاہیے۔

انبیائے کرام نے حفظان صحت کا خیال اسی لیے رکھا ہے کہ وہ اس حقیقت کو جان گئے تھے کہ ان کی زندگیاں جو خدا تعالیٰ کے لیے وقف ہیں در اصل اسی کی امانت ہیں جن کا خیال نہ رکھنا امانت میں خیانت ہے۔ اگر ہم بھی اپنی صحت کاخیال اس نظریہ کو مد نظر رکھتے ہوئے کریں گے تو خدا تعالیٰ ہمارے علم و عمل میں برکت ڈالے گا اور انبیاء کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دےگا۔ ان شا ء اللہ

اللہ تعالیٰ ہمیں آنحضور ﷺ اور آپ کے غلام صادق حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنی صحت کا خیال رکھنے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ ہمیں دین کے کاموں میں آسانی اور سہولت رہے۔ آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button