از افاضاتِ خلفائے احمدیت

ہمیں اللہ کافی ہے اور کیا ہی اچھا کارساز ہے

(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۵؍مارچ ۲۰۱۰ء)

جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ الٰہی جماعتوں کے افراد کی بھی وہی ذمہ داری ہوتی ہے جو ان کے قائم کرنے والے انبیاء کی۔ یعنی خدا تعالیٰ کی طرف بلانا اور لوگوں کے گمراہ کُن خیالات اور تعلیمات، جو زمانے کے گزرنے کے ساتھ مزید بگڑتے چلے جاتے ہیں، کی نشاندہی کر کے انہیں سچائی کا راستہ دکھانا۔ اور مذاہب کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ جب بھی انبیاء اور ان کے ماننے والوں نے، جو عموماً شروع میں بہت قلیل تعداد میں ہوتے ہیں، یہ کام کیا تو ان کی بھر پور مخالفت ہوئی۔ اور زمانے کے فرعون اور ہامان اور ان کے ٹولے اپنا پورا زور لگاتے ہیں کہ کس طرح انبیاء اور ان کی جماعت کو نیست و نابود کر دیا جائے۔ اور یہ سلوک مذاہب کے ساتھ ہوتا رہا ہے جب تک وہ اپنے حقیقی دین پر قائم رہے۔ پس جب کہ سنت اللہ یہی ہے تو ظاہر ہے کہ آنحضرتﷺ کے ساتھ بھی یہی سلوک دشمنانِ اسلام نے کرنا تھا۔ باوجود اس کے کہ آپؐ اللہ تعالیٰ کے سب سے زیادہ پیارے اور برگزیدہ تھے، آپ سے کوئی احسان نہیں ہوا۔ بلکہ ابتلاوٴں، آزمائشوں، تکلیفوں اور جنگوں وغیرہ سے جس طرح آپ کو گزرنا پڑا اس کی مثال گزشتہ انبیاء میں نہیں ملتی۔ سب سے بڑھ کر ہے۔ لیکن آپؐ جو استقلال اور عظمت کے انتہائی مقام پر فائز تھے ان سب سے کامیاب گزرتے چلے گئے۔ اور یہی ایمان کی پختگی اور چٹانوں کی طرح مضبوط عزم اور ایمان اور ایقان میں ترقی آپؐ نے اپنے جانثار صحابہ میں پیدا فرما دی۔ اور کوئی تکلیف، کوئی زخم، تعداد میں کمی، ہتھیاروں کی کمی ان صحابہ کے ایمان کو متزلزل نہیں کر سکی۔ چنانچہ قرآنِ کریم میں ان ایمان والوں کا اللہ تعالیٰ نے اس طرح ذکر فرمایا ہے۔ سورة آلِ عمران میں۔ دو آیتیں ہیں 173,174اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ اَلَّذِیۡنَ اسۡتَجَابُوۡا لِلّٰہِ وَ الرَّسُوۡلِ مِنۡۢ بَعۡدِ مَاۤ اَصَابَہُمُ الۡقَرۡحُ ؕۛ لِلَّذِیۡنَ اَحۡسَنُوۡا مِنۡہُمۡ وَ اتَّقَوۡا اَجۡرٌ عَظِیۡمٌ (آل عمران: 173)کہ وہ لوگ جنہوں نے اللہ اور رسول کو لبیک کہا بعد اس کے کہ انہیں زخم پہنچ چکے تھے، ان میں سے ان لوگوں کے لئے جنہوں نے احسان کیا اور تقویٰ اختیار کیا بہت بڑا اجر ہے۔

پھر فرماتا ہے اَلَّذِیۡنَ قَالَ لَہُمُ النَّاسُ اِنَّ النَّاسَ قَدۡ جَمَعُوۡا لَکُمۡ فَاخۡشَوۡہُمۡ فَزَادَہُمۡ اِیۡمَانًا ٭ۖ وَّ قَالُوۡا حَسۡبُنَا اللّٰہُ وَ نِعۡمَ الۡوَکِیۡلُ۔(آل عمران: 174) یعنی وہ جن سے لوگوں نے کہا کہ تمہارے خلاف لوگ اکٹھے ہو گئے ہیں پس ان سے ڈرو۔ تو اس بات نے ان کو ایمان میں بڑھا دیا اور انہوں نے کہا ہمیں اللہ کافی ہے اور کیا ہی اچھا کارساز ہے۔

ایمان کی اس مضبوطی اور خدا تعالیٰ کی رضا کی خاطر اپنی جان قربان کرنے کا نظارہ ہمیں جنگِ اُحد میں اس طرح نظر آتا ہے کہ جب مسلمانوں کے ایک دستے کی غلطی کی وجہ سے واضح طور پر جوجیتی ہوئی جنگ تھی اس کا پانسا پلٹا اور کفار نے دوبارہ مڑ کر حملہ کیا تو مسلمانوں کا بہت جانی نقصان ہوا یہاں تک کہ آنحضرتﷺ کو بھی زخم آئے۔ آپ کا دانت بھی شہید ہوا۔ لیکن اس وقت آپ کے صحابہ اس طرح مضبوط دیوار بن کر کھڑے ہو گئے تھے کہ کوئی طاقت ان کو وہاں سے ہلا نہیں سکتی تھی۔ اور اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر آنحضرتﷺ پر دشمن کے ہر وار اور حملے کو ناکام و نامراد کر رہے تھے۔ جس کا ایک عجیب نظارہ مذاہب کی تاریخ میں نظر آتا ہے۔ بہر حال کفارِ مکہ گو دوسری دفعہ کے حملے میں بظاہر برتری حاصل کئے ہوئے لگتے تھے لیکن جنگی نقطۂ نظر سے یہ کوئی برتری نہیں تھی۔ جب کفار کا یہ لشکر جنگ سے واپس لوٹ رہا تھا تو بعض عرب قبائل نے ان پر طنز کیا کہ تم بڑے نعرے لگاتے ہو اور اپنے زُعم میں بدر کا بدلہ لے کر جا رہے ہوکہ جنگ جیت لی ہے۔ یہ کون سی جیت ہے؟ جس میں نہ کوئی مالِ غنیمت ہے اور نہ کوئی جنگی قیدی ہے اور دعویٰ کر رہے ہو کہ ہم نے مسلمانوں سے بدلہ لے لیا ہے۔ اس پر راستے میں ہی کفارِ مکہ نے سوچنا شروع کر دیا کہ یہیں راستے سے ہی واپس لوٹا جائے۔ اور مسلمان جو اس وقت زخموں سے چُور ہیں اور تھکے ہوئے ہوں گے، ان پر حملہ کر کے فتح کو مکمل کیا جائے۔ لیکن اس سوچ میں بھی دو گروہ بن گئے۔ ایک کا خیال تھا کہ جتنی فتح ہو گئی وہ ٹھیک ہے کیونکہ اب مسلمانوں کے ساتھ جنگ میں وہ مسلمان بھی شریک ہو جائیں گے جو اُحد میں شریک نہیں ہوئے تھے۔ اور پھر مدینہ پر حملے کی وجہ سے اب تمام ہی جان توڑ کر لڑیں گے۔ ادھر آنحضرتؐ کو بھی کسی طرح کفار کے اس ارادے کا پتا چل گیا۔ تو آپؐ نے اگلے دن ہی صحابہ کو جمع کیا اور کفار کا پیچھا کرنے کے لئے لشکر کی تیاری کے لئے کہا۔ لیکن ساتھ ہی یہ بھی شرط لگا دی کہ اس لشکر میں صرف وہی صحابہ شرکت کریں گے جو اُحد کی جنگ میں گئے تھے۔ اب ان کی حالت کا اندازہ لگائیں جو جنگ کی وجہ سے تھکے بھی ہوئے تھے اور اکثر ان میں سے زخمی حالت میں بھی تھے۔ چنانچہ 250 مسلمانوں کا یہ لشکر تشکیل دیا گیا جو مدینہ سے روانہ ہوا۔ یہ سب کے سب اس خوشی اور جوش سے نکلے تھے جیسے کوئی فاتح لشکر ہے جو دشمن کے تعاقب کے لئے نکلتا ہے۔ مدینہ سے 8میل کے فاصلے پر آپ نے حمراء الاسد کے میدان میں ڈیرہ ڈالا۔ اور آپ نے صحابہ کوحکم فرمایا کہ 500 مختلف جگہ پر آگیں روشن کر دو۔ اور جب یہ روشن کی گئیں تو دور سے ہی دیکھنے والوں کو مرعوب کرتی تھیں۔ مسلمانوں کے اس لشکر کی کفار کو بھی کسی طرح اطلاع مل گئی اور ابوسفیان اور دوسرے سرداروں نے اسی میں بہتری سمجھی کہ واپس مکہ لوٹ جائیں۔ کفار کے واپس چلے جانے کی اطلاع جب آنحضرتﷺ کو ملی تو آپ بھی ایک دو دن ٹھہر کر مدینہ واپس لوٹ آئے اور فرمایا کہ کفار پر یہ رعب اللہ تعالیٰ نے قائم فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان زخمیوں کی تعریف فرما کر جو قربانیوں کی اعلیٰ ترین مثال قائم کئے ہوئے ہیں، ان تقوی شعاروں کو اجرِ عظیم کی خوشخبری دیتا ہے۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزاء الثانی صفحہ 274باب غزوہ رسول اللہﷺ حمراء الاسد مطبوعہ بیروت1996) (السیرۃ النبویۃ لابن ھشام باب غزوہ حمراء الاسد صفحہ 546,547مطبوعہ بیروت 2001)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button