متفرق مضامین

رمضان میں امی جان کے ساتھ ایک نشست

(بنتِ کوثر پروین)

آج اپنی امی جان کے ساتھ جڑی رمضان المبارک کی کچھ یادیں سننے کا بہت مزہ آیا۔ سوچا کہ آپ کو اس کےمتعلق بتایا جائے۔

امی جان ماشاءاللہ گیارہ بہن بھائی ہیں اور پڑھائی کے سلسلہ میں کچھ ان کی چچا زاد بہنیں اور بھائی بھی میرے نانا ابو کے ہاں گاؤں میں رہتے تھے۔ قریباً سب ہم عمر تھے۔ امی جان بتاتی ہیں کہ ہماری گلی میں چار گھر احمدیوں کے اور دو غیراحمدیوں کے اور گھر کے پیچھے بھی غیر از جماعت تھے۔ احمدیوں کی مسجد بھی ہماری گلی کے شروع میں تھی اور گلی کا آخری گھر ہمارا تھا۔ پرانے وقتوں میں گھر کچے ہونے کی وجہ سے چھتوں اور فرش پر مٹی لگانے کا رواج تھا۔ ہم رمضان شروع ہونے سے پہلے گھروں میں مٹی لگاتے تا کہ گھر ٹھنڈا رہے۔ مسجد کو بھی سب مل کر اچھی طرح صاف کرتے اور سجاتے۔

ان وقتوں میں بجلی تو عام نہیں تھی اس لیے دیے اور لالٹین گھروں اور مساجد میں جگہ جگہ رکھے جاتے تا کہ رات میں عبادت کرنے والوں کو روشنی کی کمی کی وجہ سے دقت نہ ہو۔

امی جان مزید بتاتی ہیں کہ ان وقتوں میں خواتین گھروں میں افطاری بناتیں اور بڑے برتنوں میں ڈال کر مساجد بھیج دیتیں، جہاں مرد حضرات سب مل کر مسجد میں افطاری کرتے۔ سحری اور افطاری گھر کے افراد کے علاوہ محلہ میں موجود گھرانوں میں بھی لازماً بھجوائی جاتی۔ الحمدللہ ہم جو احمدی گھرانے تھے سب اچھے کھاتے پیتے تھے، اسی وجہ سے دوسرے گھروں میں تمام احمدی گھرانے لازماً افطاری بھیجتے۔ بلکہ عید کی تیاریوں اور خوشیوں میں بھی برابر شریک رکھتے۔ ہمارے والدین نے اپنے اور ہمسایوں کے بچوں میں کبھی فرق نہیں رکھا تھا۔

امی جان نے بتایا کہ رمضان المبارک میں اکثر نماز تراویح کے بعد مربی صاحب کے ساتھ سوال و جواب ہوتے۔ سحری کے بعد نماز فجر اور درس القرآن ہوتا۔

آخری عشرہ میں تو بہت زیادہ اہتمام کیا جاتا۔ اعتکاف میں بیٹھنے والے افراد کی سحری اور افطاری زیادہ تر ہمارے گھر سے جاتی۔

چاند رات کو سب اپنی اپنی چھتوں پر کھڑے ہو کر چاند دیکھتے۔ اور رات بھر لڑکیاں مہندی لگاتیں، چوڑیاں پہنتیں۔ اور صبح کے لیے میٹھے تیار کیے جاتے۔

ہمارے گھر میں زیادہ اہتمام کی بہت خاص وجہ یہ بھی تھی کہ نماز عید کے بعد لجنہ ممبرات کو سال بھر میں ہونے والے پروگراموں کے انعامات دیے جاتے۔ جبکہ ناصرات، واقفات، واقفین، اور طفل ہمارے گھر میں اکٹھے ہوتے۔ مربی صاحب بچوں کو انعامات دیتے، سب مل کر کھانا کھاتے۔ اور گلی میں رہنے والے غیر از جماعت بچے بھی اس تقریب میں شامل ہوتے۔ ان کو بھی اس وقت کوئی نہ کوئی دعا سن کر انعام دیا جاتا۔

میں نے امی جان سے پوچھا کہ آج کل تو سموسے پکوڑے اور اتنے مشروبات ہیں، آپ کے دور میں سحر و افطار کیسے ہوتا تھا ؟

امی جان نے بتایا کہ سحری میں چاٹی کی لسی، مکھن، روٹی اور سالن ہوتا اور افطار میں کھجور میٹھی لسی، ستو یا سکنجبین ہوتی۔ اور موسمی پھلوں میں بھی زیادہ تربوز، خربوزہ، آم ، مالٹا یا امرود ہوتے۔ امی جان نے بتایا کہ ایک فروٹ ہوتا تھا کوئی سا۔ اور بعض اوقات کھجور سے روزہ کھولتے اور ساتھ ہی شام کی روٹی کھالی جاتی۔

بتاتی ہیں کہ بس ستائیسویں روزہ کو پکوڑے ہوتے تھے۔ باقی زیادہ توجہ اپنی عبادت وغیرہ میں ہی ہوتی۔

پھر میں نے پوچھا کہ اتنی محدود خوراک میں متوازن غذا کیسے ہوتی؟ تو امی جان ہنس کر کہتیں کہ ہمارے وقتوں میں کم چیزیں مگر صحت بخش ہوتیں، تم لوگوں کی طرح چسکے دار نہیں ہوتی تھیں۔ بس زبان کا چسکا دیکھو صحت نہیں۔ تم لوگوں کی طرح نہیں کہ بس زبان کا مزا دیکھا اورصحت بخش کھانے کی طرف دھیان نہیں۔

امی جان نے اپنا پسندیدہ رمضان کا مشروب بتایا جو کہ آپ کو بتاتی ہوں۔

ملائی والا دودھ ایک گلاس

پانی ایک گلاس

شکر حسب ذائقہ ( چینی نہیں شکر)

ان کو مکس کریں اور پی لیں۔

بتاتی ہیں کہ اُسے پی کر نہ صرف سکون آتا ہے بلکہ گرمی اور لُو کا توڑ بھی ہے۔

میری امی جان کو اپنی دعاؤں میں خاص طور پر یاد رکھیے گا۔ اللہ تعالیٰ تمام بیماروں کو صحت عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button