الفضل ڈائجسٹ

الفضل ڈائجسٹ

(محمود احمد ملک)

اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔

محترم ملک غلام محمد صاحب معلّم وقف جدید

روزنامہ ’’الفضل‘‘ربوہ 21؍نومبر2013ء میں مکرم بشارت احمد ملک صاحب کے قلم سے اُن کے پھوپھا مکرم ملک غلام محمد صاحب معلّم وقف جدید کا ذکرخیر شامل اشاعت ہے۔

محترم ملک غلام محمد صاحب کی پیدائش قریباً 1931ء میں لودھراں میں ایسے گھرانے میں ہوئی جو اپنے علاقے میں اکیلا احمدی گھرانہ تھا۔ آپ محترم ملک عبدالرحمٰن صاحب کے اکلوتے بیٹے تھے۔ گھریلو ماحول زمیندارانہ تھا لیکن آپ کو دنیاداری سے رغبت نہ تھی۔ بچپن سے ہی نماز پڑھنے اور قرآن سیکھنے کا بےحد شوق تھا۔ حضرت مسیح موعودؑ کی کتب ہمیشہ زیرمطالعہ رکھتے۔ تیرہ سال کی عمر سے باقاعدہ تہجدگزار تھے۔ پہلے قادیان میں اپنے والد محترم کے ہمراہ اور پھر ربوہ میں جلسہ سالانہ میں شامل ہوتے رہے۔حضرت مصلح موعودؓ سے ایک ملاقات میں اپنی زندگی وقف کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تو حضورؓ نے آپ کو سندھ کی زمینوں پر بھجوادیا۔ 1957ء میں جب تحریک وقف جدید کا اعلان ہوا تو آپ کی درخواست پر حضورؓ نے بطور معلّم آپ کے نام کی منظوری عطا فرمائی اور اس طرح آپ کا شمار وقف جدید کے ابتدائی معلّمین میں ہوتا ہے۔

جب مَیں نے جامعہ سے شاہد کرکے میدان عمل میں قدم رکھا تو آپ نے مجھے دو نصائح کیں۔ اوّل فرمایا کہ دعا سے کبھی غافل نہ ہونا سب کام اسی سے ہوں گے۔ اور دوم یہ کہ مطالعہ کثرت سے کرنا تو تبلیغ اور تربیت کا کام آسان ہوجائے گا۔

آپ کا دینی علم بہت گہرا تھا۔ علمی نکات سے دوسروں کے علم میں اضافہ کرتے۔ حافظہ بھی کمال کا تھا۔ علم کلام کے سینکڑوں حوالے اور ’درّثمین‘ و ’کلام محمود‘ کا اکثر کلام ازبر تھا۔ اپنی بات کو شعروں سے مزین کرکے پیش کرتے۔

بہت سادگی پسند تھے اور تکلّفات سے کوسوں دُور تھے۔ صاف ستھرا سفید لباس پسند کرتے۔پُروقار طبیعت کے مالک تھے۔ پگڑی کا استعمال کرتے۔ گھر سے باہر کبھی ہم نے آپ کو ننگے سر نہیں دیکھا۔ مجھے بھی نصیحت کی کہ گھر سے باہر مناسب لباس میں ہمیشہ ٹوپی اور بوٹ پہن کر نکلا کروں۔

آپ ہمیشہ تقویٰ کی باریک راہوں پر گامزن رہے۔ ایک جلسہ سالانہ پر آپ کی ڈیوٹی لنگرخانے سے کھانا حاصل کرنے کے لیے پرچی دینے پر تھی۔ مَیں پرچی بنوانے گیا تو گھر میں موجود مہمانوں کی تعداد سے دو زائد بتائی۔ آپ نے کہا کہ تم نے دو مہمان زائد بتائے ہیں۔ خاکسار نے وضاحت کی کہ دو مزید مہمان آنے والے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ پرچی بنوانے کے وقت تو وہ نہیں آئے اس طرح یہ غلط بیانی ہوجاتی ہے جو تقویٰ کی باریک راہوں کے خلاف ہے۔ اس سے خدا ناراض ہوجاتا ہے۔ یہ حضرت مسیح موعودؑ کا لنگر ہے جس میں خدا نے بہت برکت رکھی ہے۔ اگر مزید مہمان آبھی گئے تو یہی کھانا اُن کے لیے کفایت کرے گا۔

اس طرح آپ نے عملاً میری اصلاح کرکے تقویٰ کی طرف توجہ دلائی۔ آپ کی اولاد بھی کسی نہ کسی رنگ میں خدمتِ دین کی توفیق پارہی ہے۔

………٭………٭………٭………

20ویں صدی کا عظیم ترین کینیڈین ایتھلیٹ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ12؍دسمبر 2014ء میں مکرم محمد سلطان ظفر صاحب کے قلم سےعظیم ایتھلیٹ ٹیرنس سٹینلے فاکس (Terrance Stanley Fox )المعروف ٹیری فاکس کے بارے میں ایک معلوماتی مضمون شائع ہوا ہے۔

ٹیری فاکس 28؍جولائی 1958ءکو کینیڈا کے شہر Winnipeg میں پیدا ہوئے۔ وہ سکول میں لمبی دوڑ اور باسکٹ بال کے کھلاڑی تھے۔ 12؍نومبر 1976ء کو ڈرائیونگ کے دوران اُن کو ایک حادثہ پیش آیا جس میں اُن کے دائیں گھٹنے پر چوٹ آئی جس کے بعد اُن کے گھٹنے میں درد شروع ہوگیا۔ 1977ء میں اُن کی دائیں ٹانگ میں ہڈیوں کے کینسرکی تشخیص ہوئی۔ مجبوراً اُن کی ٹانگ کاٹ دی گئی لیکن اُن کو جلد ہی پتا چل گیا کہ اُن کا کینسر جسم میں پھیل رہا ہے اور زندگی بہت تھوڑی رہ گئی ہے۔ تاہم ٹیری نے سسک سسک کر مرنے سے انکار کردیا۔ انہوں نے وہیل چیئر پر بیٹھ کر وینکور میں ہونے والی قومی چیمپئن شپ تین دفعہ جیتی۔

ٹیری فاکس نے فیصلہ کیا کہ وہ کینسر کے علاج کے لیے آگہی اور اس کے لیے فنڈز اکٹھا کرنے کے لیے، رقبے کے لحاظ سے دُنیا کے دوسرے بڑے ملک ’کینیڈا‘ کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک میراتھن دوڑ لگائیں گے اور 24ملین کی آبادی سے ایک ایک ڈالر لے کر 24 ملین ڈالر کی خطیر رقم بطور عطیہ اکٹھا کریں گے۔ ٹیری کے ڈاکٹروں سمیت بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ ٹیری کا یہ فیصلہ انتہائی احمقانہ ہے۔

12؍اپریل 1980ء کوٹیری فاکس نے نیوفاؤنڈلینڈ کے شہر St. Johns میں بحر اٹلانٹک میں اپنی مصنوعی ٹانگ ڈبو کر، اپنی تاریخی Terry’s Marathon of Hope کا آغاز کیا۔ ٹیری فاکس روزانہ ایک نارمل میراتھن ریس جتنا دوڑتے تھے۔ اگرچہ ٹانگ کی درد بڑھتی جارہی تھی لیکن وہ صبر اور ہمت سے برداشت کرتے رہے تاہم راستے میں ملنے والے لوگوں کا رویہ بعض اوقات بہت تکلیف دہ ہوتا۔ وہ آوازے کستے اور ہارن بجاکراپنے غصے کا اظہار کرتے۔وہ نہیں جانتے تھے کہ یہ لڑکا کون ہے اور کیوں دوڑ رہا ہے۔

کینیڈین میڈیا کو جب ٹیری فاکس کے عزم اور دوڑ کی خبر ملی تو اُس نے اُن کی دوڑ کی خبریں واضح طورپر شائع کرنا شروع کیں۔ لوگوں کو جوں جوں اُن کے بارہ میں علم ہوتا گیا وہ بڑھ چڑھ کر اُن کی مدد کرنے لگ گئے۔ اب لوگ اپنے اپنے شہر، گاؤں اور قصبے میں ٹیری کی آمد کا انتظار کرنے لگے اور جب ٹیری اُن کے شہر میں پہنچتے تو وہ بھی اپنے شہر کی حدود میں اُن کے ساتھ ساتھ دوڑتے رہتے۔ پھر ٹیری فاکس کو ایک گاڑی بھی مل گئی جس میں اُن کا سامان اور دوائیں ہوتی تھیں۔ نیز اکثر شہروں میں پولیس کے سپاہی اُن کے لیے راستہ صاف رکھنے کی کوشش کرتے۔ صوبہ انٹاریو تک پہنچتے پہنچتے ٹیری فاکس پورے ملک کے ہیرو بن چکے تھے۔

اپنی ریس کے پندرھویں دن اُن کا کہنا تھا کہ اگر مَیں مرجاتا ہوں تو میرے لیے بڑی خوش قسمتی ہوگی کہ وہ کام کرتے ہوئے مارا گیا جو مَیں کرنا چاہ رہا تھا۔ کتنے لوگ ایسا کہہ سکتے ہیں؟ مَیں ایک ایسی مثال قائم کرنا چاہتا ہوں جو کبھی نہ بھلائی جاسکے۔ اب کم از کم 26کلومیٹر روزانہ دوڑنا میرا معمول بن چکا ہے۔

ٹیری فاکس کا ایک ایک دن مشکلات سے بھرپور اور نشیب و فراز سے پُر تھا۔ 11؍جون کو اُن کا کہنا تھا: آج سارا دن تیز مخالف ہَوا مجھے روکنے کی کوشش کرتی رہی۔ ہَوا کے مخالف دوڑنا سخت دشوار تھا۔ یہ میرے اندر گھسی جارہی تھی۔یہاں اکثر لوگوں کو معلوم بھی نہ تھا کہ میں کون ہوں۔ کئی ٹرک ڈرائیوروں نے ترس کھا کر مجھے لفٹ کی پیشکش کی سڑک تنگ تھی اور گزرنے والی گاڑیوں کے لیے میں رکاوٹ بن رہا تھا۔ وہ مسلسل ہارن بجا کر ناراضگی کا اظہار کررہے تھے۔ ایک گاڑی کی ٹکر سے مَیں گر بھی گیا اور مجھے چوٹ بھی آئی۔

14؍جولائی کو جب ٹیری فاکس Hamiltonسے گزر رہے تھے تو 1960ء کے کینیڈین میراتھن چیمپئن Gord Dickson نے اپنا گولڈ میڈل اُن کی نذرکردیا۔

12؍اگست کو ریڈیو پر یہ خبر نشر ہوئی کہ ٹیری فاکس کی مصنوعی ٹانگ کا سپرنگ ٹوٹ گیا ہے جس کی وجہ سے وہ ناقابل استعمال ہوگئی ہے۔ یہ خبر سن کر ایک مکینک اپنے اوزار لے کر وہاں پہنچ گیا اور نوے منٹ کے اندر مصنوعی ٹانگ کو مرمت کرکے ٹیری فاکس کو دوبارہ دوڑنے کے قابل بنا دیا۔

ٹیری فاکس کے بقول اُن کے لیے سب سے زیادہ جذباتی لمحہ انٹاریو کے ایک شہر ٹیرس بے میں پیش آیا جب ہڈیوں کے کینسر میں مبتلا اور ایک ٹانگ سے محروم دس سالہ بچے گریگ اسکاٹ نے چھ میل تک ٹیری کے پیچھے پیچھے اپنی سائیکل چلائی۔

یکم ستمبر 1980ء کو جب ٹیری فاکس Thunder Bay پہنچے تو ڈاکٹروں نے، اُن کی تشویشناک حالت کی بدولت یہ دوڑ زبردستی رکوا دی۔ وہ اُس وقت تک 5373 کلومیٹر دوڑ چکے تھے اور اس دوڑ نے اُن کی صحت پر بہت برا اثر ڈالا تھا اوراُن کی حالت انتہائی بگڑ گئی تھی۔

9؍ستمبر 1980ء کوایک ٹی وی چینلCTV نے ٹیری فاکس سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے خصوصی نشریات پیش کیں جس کے دوران 10.5ملین ڈالر اکٹھے کیے گئے۔ فروری 1981ء میں بالآخر ٹیری فاکس کا ہدف 24ملین ڈالر حاصل ہوگیا۔

ٹیری فاکس 21؍ جون 1981ء کو اس دارِ فانی سے 22 سال 11ماہ کی عمر میں کوچ کرگئے۔ تاہم آج ساٹھ سے زائد ممالک میں اُن کی یاد میں سالانہ تقریبات ہوتی ہیں اور ان میں روز بروز اضافہ ہورہاہے۔

کینسر کے ایک اَور مریضSteve Fonyo کو بھی ٹانگ میں کینسر تھا، تاہم اُن کی ٹانگ کاٹنے کی وجہ سے، کینسر اُن کے باقی جسم میں نہیں پہنچ سکا تھا۔ اُنہوں نے مصنوعی ٹانگ لگا کر ٹیری کی نامکمل دوڑ کو 1984ء اور 1985ء میں مکمل کیا۔

ٹیری فاکس کی دوڑ کی وجہ سے لوگوں میں کینسر کے بارہ میں آگہی ہوئی، کینسر کے علاج کی ریسرچ میں بڑی بڑی رقوم عطیہ کی گئیں۔ ٹیری فاکس کی جرأت اور بہادری نے پوری قوم کو ایک کردیا۔ ٹیری فاکس کو کینیڈا کے سب سے بڑے اعزازآرڈر آف کینیڈا سے نوازا گیا۔وہ یہ اعزاز پانے والے کم عمر ترین شخص ہیں۔ اُن کے اعزاز میں کینیڈا میں 32 سڑکیں اور ہائی ویز، 14 سکول، 14 سرکاری عمارات، 9 صحت کے مراکز، ایک پہاڑی سلسلہ، ایک صوبائی پارک، ایک برف توڑنے والا بحری جہاز اور دوسرے کئی مقامات ٹیری فاکس سے منسوب کردیے گئے۔ اُن کے آٹھ مجسمے، کینیڈا کی اہم عمارات بشمول پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے نصب ہیں۔

محکمہ ڈاک نے اپنا قانون (کہ کسی شخص کے اعزاز میں اُس کی وفات کے دس سال بعد ہی کوئی ٹکٹ طبع ہوسکتا ہے) تبدیل کرکے 1981ء میں ٹیری فاکس کے اعزاز میں ٹکٹ جاری کیا۔ 5؍اپریل2004ء کو کینیڈین عوام نے بذریعہ ووٹ، ٹیری فاکس کو بیسویں صدی کا عظیم ترین کینیڈین قرار دیا۔ 2008ء میں کینیڈین حکومت نے اُن کو National Historic Person of Canada قرار دیا۔ 1981ء سےہر سال کینیڈا اور دیگر ساٹھ ممالک میں ٹیری فاکس کی یاد میں میراتھن ریسز ہوتی ہیں اور کینسر ریسرچ کے لیے فنڈز اکٹھے کیے جاتے ہیں۔

………٭………٭………٭………

روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ 28؍مئی 2014ء میں مکرم ض۔ مبشر صاحب کی ایک نظم شامل اشاعت ہے جو حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے دورۂ جاپان کے حوالے سے کہی گئی تھی۔ اس نظم میں سے انتخاب پیش ہے:

میرے مولا نے کیسا کرم کر دیا
میرے دل کی دعا کو امر کر دیا
آج مشرق میں مغرب سے سورج چڑھا
آگیا پاس میرے مرا دلربا

اُن کے آنے سے آئی بہارِ چمن
مل گئی مُردہ جسموں کو روحِ بدن
جامِ عرفان ہر بادہ کش نے پیا
آگیا پاس میرے مرا دلربا

میرے آقا یونہی آپ آتے رہیں
تشنہ روحوں کو شربت پلاتے رہیں
لب پہ نغمے خوشی کے یہ مچلیں سدا
آگئے پاس جو آپ جانِ وفا
آئیے میری جاں مرحبا مرحبا
مرحبا مرحبا مرحبا مرحبا

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button