متفرق مضامین

وہ جدھر جائے فرشتے ساتھ ہوں خدمت گزار

(مبارک صدیقی)

تین سال بعد مسجد بیت الفتوح میں حضور پُرنور کے نمازِ جمعہ کے لیے تشریف لانے کی مختصر داستان

آج مورخہ 5؍ اپریل 2023ء ہے۔ رات کے تقریباً گیارہ بج رہے ہیں. میرے فون کی گھنٹی بجتی ہے۔ فون پر دوسری طرف مکرم و محترم رفیق احمد حیات صاحب امیرجماعت احمدیہ یوکے ہیں:’’بہت مبارک ہو ۔ انشاءاللہ، اس جمعۃ المبارک کے روز حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالی بنصرہ العزیز خطبہ جمعہ مسجد بیت الفتوح میں ارشاد فرمائیں گے‘‘ میں کہتا ہوں اچھا! واقعی! میری زبان پر خوشی کے مارے بے اختیار الحمدللہ! الحمدللہ! کے الفاظ جاری ہوگئے ہیں۔

’’چل کے خود آئے مسیحا کسی بیمار کے پاس‘‘

سنہ 2020ء کے بعد ایک بار پھر مسجد بیت الفتوح کو یہ اعزاز حاصل ہونے والا ہے۔ محترم امیر صاحب مجھے کچھ ضروری ہدایات فرماتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی مَیں بیت الفتوح ریجن کے سب صدران کو یہ خوشخبری سنا رہا ہوں۔ رقت آمیز آوازوں میں الحمدللہ! الحمدللہ! کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں۔ بات یہ ہے کہ افرادِ جماعت کے دلوں میں، روحوں میں ایمانوں میں اور جذبوں میں اپنے محبوب امام ایدہ اللہ تعالی بنصرہ العزیز کے لئے جو پیار محبت عشق اور عقیدت کے جذبات ہیں انہیں صرف اور صرف احمدی احباب ہی سمجھ سکتے ہیں۔ اور انہیں الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں ہے۔

آج جمعرات کا دن ہے۔صبح سے ہی بیت الفتوح میں کارکنان انتظامات میں مصروف نظر آ رہے ہیں۔ مسجد بیت الفتوح کئی منزلہ بہت عظیم الشان عمارت ہے۔ آج ہر طرف کارکنان مصروفِ وقارِعمل ہیں. کچھ وقت گزرتا ہے اوراب شام کے چھ بج رہے ہیں۔ مکرم و محترم امیر صاحب انتظامات کا جائزہ لینے کے لیے تشریف لائے ہوئے ہیں۔ ساتھ محترم ناصر خان صاحب، محترم نصیر دین صاحب، بعض ممبران نیشنل عاملہ اور خدام الاحمدیہ کے نمائندے بھی موجود ہیں۔ حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کل نماز جمعہ پڑھانے بیت الفتوح میں تشریف لا رہے ہیں اور اسی سلسلے میں محترم امیر صاحب بیت الفتوح کی وسیع و عریض عمارت کا جائزہ لے رہے ہیں اور ساتھ ساتھ ہمیں کچھ ضروری ہدایات دے رہے ہیں۔ بیت الفتوح کی قریبی جماعتوں کے صدران اپنے ممبران کے ساتھ انتظامات میں مصروف نظر آتے ہیں۔

جمعہ کا دن آن پہنچا ہے۔ آج کئی سالوں کے وقفے کے بعد ایسا جمعہ ہے جب ہم سب کے محبوب امام ایدہ اللہ تعالی بنصرہ العزیز بیت الفتوح میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمانے کے لیےرونق افروز ہو رہے ہیں۔ جمعہ کا دن ساڑھے دس بجے کا وقت ہے۔ اس وقت میں بیت الفتوح کے کار پارک میں موجود ہوں۔ مسجد میں داخل ہونے والا دروازہ تو ابھی بہت آگے ہے مگر صبح ساڑھے دس بجے یہ اتنی لمبی لائن کن لوگوں کی ہے؟ جمعہ تو ایک بجے ہے۔ میں ڈیوٹی پر موجود ایک خادم سے پوچھ رہا ہوں کہ یہ کن لوگوں کی لائن ہے۔ وہ انگریزی زبان میں مجھے جو کہہ رہا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ان عشاقانِ خلافت کی قطار ہے جو چاہتے ہیں کہ اگلی صفوں میں بیٹھ کر اپنے محبوب امام ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی زیادہ سے زیادہ قریب سے زیارت کر سکیں۔ بقول ثاقب زیرو ی صاحب

’’طوافِ شمع کو پھر آگئے ہیں پروانے‘‘

خدام الاحمدیہ کی ایک بڑی ٹیم اپنے اپنے فرائض سرانجام دینے میں مصروف ہے۔ ایمز کارڈز چیک کر کے مسجد میں داخل ہونے کی اجازت دی جا رہی ہے۔ اس قطار میں پانچ سالہ بچے بھی ہیں اور اسّی نوّے سالہ بزرگ بھی ہیں۔ میں اس وقت مسجد میں ہوں۔ ایم ٹی اے کے نوجوان کیمرے لگا رہے ہیں۔ یوکے سمعی بصری کے سیکرٹری عمران علی صاحب ساؤنڈ سسٹم چیک کر رہے ہیں۔ مسجد بیت الفتوح کی پہلی چار صفیں بھر چکی ہیں۔ یاد رہے کہ مردوں کے لیے آج مسجد کے مرکزی حصے اور ملحقہ راہداریوں کے علاوہ ناصر ہال اور نور ہال بھی مختص کیے گئے ہیں جبکہ خواتین کے لیے مسجد اور طاہر ہال مختص ہے۔ اب گیارہ بج چکے ہیں۔ محترم امیر صاحب و دیگر کارکنان مجھے بیت الفتوح کے مختلف حصوں میں انتظامات کا جائزہ لینے میں مصروف نظر آتے ہیں۔

اب ساڑھے بارہ بج چکے ہیں اور قریبی دوست بتا رہے ہیں کہ حضور پرنور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا قافلہ کسی وقت بھی بیت الفتوح پہنچ سکتا ہے۔ ایم ٹی اے کے کیمرے اور کارکنان یہ بابرکت مناظر براہ راست دکھانے کے لیے مستعد ہیں۔ میں بھی مسجد کے گیٹ کے قریب یہ سوچتے ہوئے کھڑا ہوں کہ

’’گو کہ عاشق ہزاروں کھڑے ہیں اُدھر

چشمِ نَم ہم بھی جائیں گے اُس رہگزر

ہم خطاکار ہیں جانتے ہیں مگر

اُس کی پڑ جائے ہم پہ بھی شاید نظر

آؤ اس سے ملیں۔ آؤ اس سے ملیں‘‘

تھوڑی ہی دیر بعد جگمگ سا، پیارے حضورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا قافلہ بیت الفتوح میں داخل ہوتا نظر آرہا ہے۔ میں شاعر ہوں، آنکھوں کی آوازیں سن لیتا ہوں اور چہروں کی تحریریں پڑھ لیتا ہوں۔ بہت سی آنکھیں شُکر کے جذبات کے ساتھ اشکبار دیکھ رہا ہوں۔ بہت سی آنکھیں وصالِ یار کی آرزو میں جگمگاتی دیکھ رہا ہوں. الحمدللہ! الحمدللہ! کی صدائیں سن رہا ہوں اور ایک بزرگ جن کی عمر نوّے برس کی ہوگی، فرطِ جذبات سے ان کے دعا کے لیے اٹھائے گئے ہاتھوں میں لرزش دیکھ سکتا ہوں۔ ایک بچہ جس کی عمرغالباََ تین چار سال ہوگی ہاتھ ہلاتے ہوئے ’پیارے حضور! السلام علیکم‘ کہہ رہا ہے۔پیارے حضور کی گاڑی میرے قریب سے بھی گزرتی ہے۔ میری نظر اُس پرنُور امام زمانہ ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز پر پڑتی ہے

’’جو کہے بس جیو تو خدا کے لیے

ہر عمل ہو خدا کی رضا کے لیے

سیدُ الانبیاء مصطفیٰ کے لیے

وقف ہو جاؤ سارے دعا کے لیے

جس کا ہر پل ثنا ربِ رحمان کی

جس کا ہر بول تفسیر قرآن کی

جس کے لہجے میں لذت ہے ایمان کی

جس کی باتوں میں خوشبو ہے آذان کی‘‘

سبحان اللہ! کیا ہی آنکھوں کو شاداب اور روح کو سیراب کرنے والی ایک پل کی جھلک تھی۔

اب ایک بجنے میں بیس منٹ باقی ہیں۔ مسجد بیت الفتوح تو بھر چکی ہے۔ میں اس وقت ناصر ہال میں موجود ہوں۔ کئی نائب امراء اور نیشنل عاملہ کے ممبران کو بھی مسجد کے حصے میں جگہ نہیں ملی، وہ بھی ناصر ہال میں ہیں۔ ڈاکٹر مقبول ثانی صاحب ہمارے جنرل سیکرٹری یوکے بھی یہیں موجود ہیں۔ ناصر ہال اب نمازیوں سے بھر چکا ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ مزید نمازیوں کے بیٹھنے کی جگہ نہیں ہے۔ سوچ رہا ہوں کہ اوپر نُور ہال کا جائزہ لے آؤں شاید وہاں بھی لوگوں کو بھجوانا پڑے۔ لفٹ کے ذریعے جب نور ہال پہنچتا ہوں تو حیرت انگیز منظر دیکھتا ہوں نور ہال بھی کب سے نمازیوں سے بھر چکا ہے۔

ابراہیم اخلف صاحب، جنرل سیکرٹری آفس والے ملک مبشر صاحب، عبد السمیع صاحب بھی یہیں موجود ہیں۔ اچھا میں پھراب ناصر ہال کے باہر کی راہداری دیکھتا ہوں۔ ظہیر جتوئی صاحب راہداری میں ملتے ہیں۔ مسکراتے ہوئے کہہ رہے ہیں سوچ رہا ہوں شاید یہاں بھی جائے نمازیں بچھائی جائیں۔ خدام اب سب سے باہر والے برآمدے میں جائے نمازیں بچھا رہے ہیں جو ساتھ نمازیوں سے بھرتی جارہی ہیں۔ خاکسار ظہیر جتوئی صاحب سے اور خدام سے مشورہ کر رہا ہے کہ اب کیا کیا جائے ۔ کوئی اور چارہ نہیں ہے سوائے یہ کہ بیت الفتوح میں لندن روڈ سے جب داخل ہوتے ہیں تو وہاں کنکریٹ والے فرش پر کارپٹ بچھا دئیے جائیں ۔ انتظامیہ سے اجازت ملتی ہے اور ساتھ ہی خدام الاحمدیہ کی مستعد ٹیم کام شروع کرتی ہے ۔ اب کارپٹ بچھ چکے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ نمازیوں سے بھی بھر رہے ہیں۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا وہ الہام یاد آرہا ہے ’’وَسِّعْ مَکَانَکَ‘‘ یعنی اپنے مکان کو وسیع کرلے۔ اور خدا کی قدرت کہ یہ الہام اُن دنوں ہوا جب چند گنتی کے لوگ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی مجلس میں بیٹھا کرتے تھے۔ اب یہ مسجد بیت الفتوح اتنی وسیع و عریض ہے، اس کے باوجود سینکڑوں ہزاروں احباب مسجد کے اس فرش پر بچھائے گئے کارپٹ اور جائے نماز پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ جس کے فوراً بعد سڑک شروع ہو جاتی ہے۔

میں نے ریجنل صدر صاحبہ سے درخواست کی ہوئی تھی کہ مجھے خواتین کی تعداد گن کر بتا دیں کیونکہ مجھے کچھ جماعتی اخبارات کو، محترم امیر صاحب کو فوراً تعداد سے متعلق رپورٹ بھجوانی ہے۔ ان کا ٹیکسٹ آتا ہے کہ اب تک اللہ تعالی کے فضل کے ساتھ پانچ ہزار کے قریب خواتین نمازی آ چکی ہیں۔

اب میں مسجد کے مرکزی حصے کا رخ کرتا ہوں۔ ایک بج کر دو منٹ پر مسجد بیت الفتوح کے مرکزی ہال میں حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالی بنصرہ العزیز داخل ہوتے ہیں اور حضور پرنور کی ’السلام علیکم‘کی آواز آتی ہے۔ پوری مسجد کے نمازیوں کی طرف سے وعلیکم السلام کی صدا آتی ہے۔ اب محترم مولانا فیروز عالم صاحب نماز جمعہ کی دوسری اذان دے رہے ہیں۔ اذان اب ختم ہوچکی ہے۔ گہرے رنگ کی اچکن اور پگڑی میں ملبوس امیرالمومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حسب معمول، تشہد اور سورت فاتحہ کی تلاوت کے ساتھ خطبہ جمعہ کا آغاز فرمایا ہے۔ مسجد میں موجود کئی آنکھیں خدا تعالیٰ کے حضور شکر کے جذبات لیے اشک بار ہو گئی ہیں کہ ایک عرصہ بعد ہمارے پیارے حضور مسجد بیت الفتوح میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمانے کے لیے جلوہ افروز ہیں۔

حضور پُرنور کا آج کا پرمعارف خطبہ جمعہ، حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ارشادات کی روشنی میں قرآنِ کریم کے کامل اور مکمل شریعت ہونے پر ہے۔ خطبہ جمعہ کا مکمل متن اور خلاصہ آپ بعد میں اخبارات میں پڑھ سکیں گے۔ خلاصۃً عرض کرتا ہوں ۔ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا اللہ تعالی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم پر دین اور شریعت کو کامل کیا، مکمل کیا تو قرآن کریم میں یہ اعلان فرمایا کہ اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا۔ آج کے دن میں نے تمہارے لیے تمہارا دین کامل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت تمام کردی اور میں نے اسلام کو تمہارے لیے دین کے طور پر پسند کر لیا۔ پس یہ اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا احسان ہے مسلمانوں پر کہ ان کے لیے ایک کامل اور مکمل شریعت عطا فرمائی۔

خطبے کے اختتام پر حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ہمیں دعا دیتے ہوئے اور نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن کریم پر حقیقی عمل کرنے والا اور اس کی تعلیم کے مطابق عمل کرنے والا اور اس کو سمجھنے والا اور اپنی زندگیاں اس کے مطابق گزارنے والا بنائے۔ رمضان کے بعد بھی اس نعمت سے فیض اُٹھانے کی اِسی طرح کوشش کرتے رہیں جس طرح رمضان میں کر رہے ہیں۔

اب خطبہ جمعہ اور نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد پیارے حضور کا قافلہ اسلام آباد کے لیے واپس روانہ ہو رہا ہے۔ عشاقانِ خلافت عقیدت و احترام سے ہاتھ اٹھا کر اپنے پیارے امام کو خدا حافظ کہہ رہے ہیں۔ خدا تعالی کے فضل سے مسجد میں گیارہ ہزار کے قریب موجود احمدی احباب ایک دوسرے کو مبارکباد دے رہے ہیں۔ کوئی دس منٹ بعد میں اب اپنے گھر واپس جانے کے لئے اپنی کار میں بیٹھ چکا ہوں ۔ مسجد میں کاروں کی اتنی زیادہ تعداد ہے کہ مجھے لگ رہا ہے کہ باہر نکلنے میں ابھی کافی وقت لگ سکتا ہے۔ ایڈیٹر صاحب روزنامہ الفضل انٹرنیشنل کا فون آرہا ہے۔ مبارکباد دیتے ہوئے پوچھ رہے ہیں کہ نمازیوں کی کتنی تعداد تھی آج۔ گنتی کرنے والے منتظمین کی طرف سے بتائی گئی تعداد سے انہیں آگاہ کیا۔ میں نے پوچھا آپ کہاں ہیں اس وقت۔ کہنے لگے میں بھی یہیں ہوں۔ اور ساتھ ہی میرے فون پر میسیج کی ہلکی سی کلک کی آواز آتی ہے۔ یہ محترم ایڈیٹر صاحب روزنامہ الفضل کا ہی میسیج ہے جس میں الفضل کی طرف سے آج کے دن کی رپورٹ مع تصاویر موجود ہے اور یہ میسیج ساری دنیائے احمدیت میں پہنچ چکا ہے۔

اب محترم عطاء القدوس صاحب نائب امیر یوکے کا فون ہے۔ ہدایت کر رہے ہیں کہ آج بیت الفتوح میں جو ماحول ہے حضور کی آمد کا خلاصہ اور جو وہاں موجود احباب کے تاثرات ہیں اس پر مشتمل رپورٹ ماہانہ اخبار احمدیہ کے لیے لکھ دیں۔سو آنکھوں دیکھا حال لکھ رہا ہوں۔آخر میں اپنے ربّ کے حضور ملتجی ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے پیارے امام سے عشق و وفا کے تقاضے نبھانے کی توفیق عطا فرمائے، ہمیں ان کا حقیقی اطاعت گزار بنا دے۔ آمین

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button