متفرق مضامین

رمضان المبارک کیسے گزاریں

(محمود احمد ناصر۔ جرمنی)

’’روزے سے یہی مطلب ہے کہ انسان ایک روٹی کو چھوڑ کر جو صرف جسم کی پرورش کرتی ہے دوسری روٹی کو حاصل کرے جو روح کی تسلی اور سیری کا باعث ہے‘‘

اللہ تعالیٰ نے یہ مہینہ اپنی عبادت کے لیے بنایا ہے۔ اللہ تعالیٰ نامعلوم کیا کیا رحمتیں اس مہینہ میں اپنے بندوں کی طرف مبذول فرماتا ہے۔ ہم ان رحمتوں کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔اس مہینے کے اندر بعض اعمال ایسے ہیں جن کو ہر مسلمان جانتا ہے اور اس پر عمل بھی کرتا ہے۔

قرآن کریم میں ارشاد خداوندی ہے کہیٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُتِبَ عَلَیۡکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تَتَّقُوۡنَ ۔(البقرۃ: ۱۸۴)اے لوگو! جو ایمان لائے ہو تم پر (بھی) روزوں کا رکھنا (اسی طرح) فرض کیاگیا ہے جس طرح ان لوگوں پر فرض کیا گیا تھا۔ جو تم سے پہلے گذر چکے ہیں تا کہ تم (روحانی اور اخلاقی کمزوریوں سے) بچو۔ایک اور آیتِ مبارکہ میں رمضان المبارک میں نازل کردہ ایک روحانی مائدہ کا ذکر ان الفاظ میں کیا گیا ہے: شَہۡرُ رَمَضَانَ الَّذِیۡۤ اُنۡزِلَ فِیۡہِ الۡقُرۡاٰنُ ہُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنٰتٍ مِّنَ الۡہُدٰی وَالۡفُرۡقَانِ ۚ فَمَنۡ شَہِدَ مِنۡکُمُ الشَّہۡرَ فَلۡیَصُمۡہُ (البقرۃ: ۱۸۶)رمضان کا مہینہ وہ (مہینہ) ہے کہ جس میں قرآن اتار اگیا یہ تمام لوگوں کے لیے ہدایت اور کھلے دلائل اور حق و باطل میں امتیاز کا درس اپنے اندر رکھتا ہے۔ پس جو شخص نہ مریض ہو اور نہ مسافر، اس ماہ کو پائے تو اسے چاہیے کہ اس کے روزے رکھے۔

اس مہینے میں اگر کوئی شخص اپنے آپ کو عبادت کے لیے فارغ کر لے تو سبحان اللہ، اور اگر کوئی شخص بالکل فارغ نہیں ہو سکتا۔تو پھر یہ دیکھے کہ کون کون سے کام ایک ماہ کے لیے چھوڑ سکتا ہے، ان کو چھوڑے۔ اور کن مصروفیات کو کم کر سکتا ہے ان کو کم کرے، اور جن کاموں کو رمضان کے بعد تک مؤخر کر سکتا ہے ان کو مؤخر کرے۔ اور رمضان کے زیادہ سے زیادہ اوقات کو عبادت میں لگانے کی فکر کرے۔

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ابن آدم کا ہر عمل اس کی ذات کے لیے ہوتا ہے سوائے روزوں کے۔ روزہ میری خاطر رکھا جاتا ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا۔ اور روزے ڈھال ہیں اور جب تم میں سے کسی کا روزہ ہو تو وہ شہوانی باتیں اور گالی گلوچ نہ کرے اور اگر اس کو کوئی گالی دے یا اس سے جھگڑا کرے تو اسے جواب میں صرف یہ کہنا چاہئے کہ میں تو روزہ دار ہوں…اس ذات کی قسم! کہ جس کے قبضہ قدرت میں محمدؐ کی جان ہے کہ روزہ دار کے منہ کی بو اللہ تعالیٰ کے نزدیک کستوری سے زیادہ طیب ہے۔ روزے دار کے لیے دو خوشیاں ہیں جو اسے خوش کرتی ہیں۔ ایک جب وہ روز ہ افطار کرتا ہے تو خوش ہوتا ہے اور دوسرے جب وہ اپنے رب سے ملے گا تو اپنے روزہ کی وجہ سے خوش ہو گا۔(بخاری کتاب الصوم باب ھل یقول إنی صائم اذا شتم)

حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ میں نے آنحضورﷺ سے سنا۔ آپؐ فرما رہے تھے رمضان آ گیا ہے۔ اس میں جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے مقفل کر دیے جاتے ہیں اور شیاطین کو اس میں زنجیروں سے جکڑ دیا جاتا ہے۔ ہلاکت ہو اس شخص کے لیے جس نے رمضان کو پایا اور اس سے بخشانہ گیا۔ اور اگر وہ رمضان میں نہیں بخشا گیا تو پھر کب بخشا جائے گا۔ (الترغیب والترہیب کتاب الصوم۔ الترغیب فی صیام رمضان حدیث نمبر ۱۴۹۵) ’’پس اس حدیث سے مزید بات کھلتی ہے کہ بخشے جانے کے لیے صرف رمضان کا آنا ضروری نہیں ہے ۔جب تک اس میں روزے اس کوشش کے ساتھ نہ رکھے جائیں گے کہ تقویٰ کی راہوں کو اختیار کرنا ہے، ان تبدیلیوں کو مستقل اپنی زندگیوں کا حصہ بنانا ہے۔ صرف ایک سال یا ایک مہینہ کے عمل سے تو نہیں بخشے جائیں گے۔ یہ مسلسل عمل ہے۔ باوجود اس کے کہ ذکر ہے کہ جہنم کے دروازے مقفل کر دیے جاتے ہیں۔ لیکن پھر بھی آگے یہ بتایا کہ اس کے باوجود ضروری نہیں کہ سارے بخشے جائیں۔ اس کے لیے عمل کرنے ہوں گے۔ پس اس طریق سے ہمیں اپنے روزوں کو سنوارنا چاہئے تاکہ یہ نیکیاں اور اللہ تعالیٰ کی بخشش ہماری زندگیوں کا حصہ بن جائیں۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ ۷؍اکتوبر۲۰۰۵ء)

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے، آپ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جس شخص نے رمضان کے روزے ایمان کی حالت میں اور اپنا محاسبہ نفس کرتے ہوئے رکھے اس کے گزشتہ گناہ معاف کر دیے جائیں گے۔ (صحیح البخاری کتاب الایمان باب صوم رمضان احتساباً من الایمان حدیث ۳۸)اور اگر تمہیں معلوم ہوتا کہ رمضان کی کیا کیا فضیلتیں ہیں تو تم ضرور اس بات کے خواہشمند ہوتے کہ سارا سال ہی رمضان ہو۔

’’پس رمضان کی فضیلت نہ صرف مہینے کے دنوں سے ہے، نہ صرف ایک وقت تک کھانے پینے کے رکنے سے ہے۔ صرف اس بات کے لیے سارا سال اللہ تعالیٰ کی جنت کے لیے تیاری نہیں ہو رہی ہوتی۔ اس لیے آنحضرت ﷺ نے جو دوسری حدیث ہے اس میں واضح طور پر فرما دیا کہ ایمان کی حالت میں روزہ رکھنے اور اپنے نفس کا محاسبہ کرتے ہوئے اپنے روز و شب رمضان میں گزارنے سے ہی یہ مقام ملتا ہے اور جب یہ حالت ہو گی تو تبھی گزشتہ گناہ بھی معاف ہوتے ہیں۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ۲؍جون۲۰۱۷ء)

پس رمضان کے مہینہ کا دعاؤں کی قبولیت کے ساتھ نہایت گہرا تعلق ہے۔حدیث میں آتاہے۔ حضرت عمرؓ روایت کرتے ہیں آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ رمضان میں اللہ کا ذکر کرنے والا بخشا جاتاہے اور اس ماہ اللہ سے مانگنے والا کبھی نامراد نہیں رہتا۔پھر ایک حدیث ہے کہ روزہ دار کے لیے اس کی افطاری کے وقت کی دعا ایسی ہے جو ر دّ نہیں کی جاتی۔ (ابن ماجہ کتاب الصیام باب فی الصائم لاتردد …)

رمضان وہ مہینہ ہے جس کی راتیں روح پرور اور سرور انگیز ہوتی ہیں۔دن بھر اللہ کی رضا کی خاطر بھوک پیاس برداشت کرنے کے بعد ربّ کے حضور کھڑےہونا اور رکوع و سجود میں مصروف رہنا بڑی سعادت کی بات ہے۔ ماہ صیام میں راتوں کی عبادت اور تراویح اور رات کے قیام کا بہت اجر ہے۔اور ایک مسلمان کی خوش قسمتی ہے کہ یہ موقع اس کی زندگی میں بار بار آئے۔رمضان المبارک کی راتوں میں قیام اور تلاوت قرآن کریم مغفرت کا ذریعہ ہے۔رمضان المبارک کا پہلا عشرہ رحمت ہے دوسرا عشرہ مغفرت کا ہے اور تیسرا عشرہ جہنم سے نجات کا ہے۔حضرت سلمان فارسیؓ بیان کرتے ہیں کہ شعبان کے آخری روز آنحضرت ﷺ نے ہمیں خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ’’اے لوگو! ایک عظیم مہینہ آ گیا ہے۔ ایک ایسا مہینہ جو بہت مبارک ہے۔ اس میں ایک ایسی رات بھی ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس مہینے کے دنوں میں روزہ کو فرض اور اس کی راتوں کے قیام کو طوعی نیکی قرار دیا ہے۔ اس مہینے میں جس نے عام نیکی کے ذریعہ قرب پانے کی کوشش کی تو اس کی مثال اس شخص کی مانند ہو گی جو دوسرے مہینوں میں کوئی فرض ادا کرتا ہے۔ اور جو کوئی اس مہینے میں ایک فرض ادا کرے گا تو اس کا اجر عام دنوں کی ستر نیکیوں کے برابر ہو گا۔ اور یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے۔ یہ باہمی ہمدردی اور دلداری کا مہینہ ہے۔ یہ ایسا مہینہ ہے کہ اس میں مومن کے رزق میں برکت اور اضافہ کیا جاتا ہے۔ جو شخص اس ماہ میں کسی روزہ دار کی افطاری کرائے اس کے گناہ بخشے جاتے ہیںاور اس کی گردن آگ سے آزاد ہو جاتی ہے اور اسے روزہ دار کی طرح ثواب ملتا ہے۔ اگرچہ روزہ دار کے اجر میں سے کوئی کمی واقع نہیں ہوتی۔ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! ہم میں سے ہر ایک کو یہ توفیق کہاں کہ وہ روزہ دار کی افطاری کا حق ادا کر سکے۔ آپؐ نے فرمایا: یہ اجر تو اس شخص کو بھی ملتا ہے جو ایک گھونٹ دودھ یا ایک کھجور یا صرف پانی کے ایک گھونٹ سے ہی روزہ کھلواتا ہے۔ البتہ جو شخص روزہ دار کو پیٹ بھر کر کھلائے گا تو اسے اللہ تعالیٰ میرے حوض سے ایسا سیراب کرے گاکہ وہ جنت میں جانے تک پیاس محسوس نہیں کرے گا۔یہ رمضان کا مہینہ ایسا بابرکت ہے کہ اس کے ابتدا میں رحمت ہے۔ درمیان میں مغفرت ہے۔ آخر میں آگ سے نجات ہے۔ جو شخص اس ماہ میں غلام یا مزدور کے روزہ دار ہونے کے باعث اس کے کام میں تخفیف کرے گا اللہ تعالیٰ اس کے کام میں تخفیف کرے گا۔ اللہ تعالیٰ اسے معاف فرمائے گا اور اسے عذاب سے مخلصی بخشے گا۔‘‘(مشکوٰۃ کتاب الصوم الفصل الثانی صفحہ۱۷۳-۱۷۴)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:’’تیسری بات جو اسلام کارکن ہے وہ روزہ ہے۔روزہ کی حقیقت سے بھی لوگ ناواقف ہیں۔ اصل یہ ہے کہ جس ملک میں انسان جاتانہیں اورجس عالم سے واقف نہیں اس کے حالات کیا بیان کرے۔روزہ اتنا ہی نہیں کہ اس میں انسان بھوکا پیاسا رہتاہے بلکہ اس کی حقیقت اور اس کا اثر ہے جو تجربہ سے معلوم ہوتاہے۔ انسانی فطرت میں ہے کہ جس قدر کم کھاتاہے اسی قدر تزکیہ نفس ہوتاہے اورکشفی قوتیں بڑھتی ہیں۔ خدا تعالیٰ کا منشاء اس سے یہ ہے کہ ایک غذا کو کم کرو اور دوسری کو بڑھاؤ۔ ہمیشہ روزہ دارکو یہ مدنظر رکھناچاہئے کہ اس سے اتنا ہی مطلب نہیں ہے کہ بھوکا رہے بلکہ اسے چاہئے کہ خداتعالیٰ کے ذکر میں مصروف رہے تا کہ تبتل اور انقطاع حاصل ہو۔پس روزے سے یہی مطلب ہے کہ انسان ایک روٹی کو چھوڑ کر جو صرف جسم کی پرورش کرتی ہے دوسری روٹی کو حاصل کرے جو روح کی تسلی اور سیری کا باعث ہے اور جولوگ محض خدا کے لئے روزے رکھتے ہیں اورنرے رسم کے طورپر نہیں رکھتے انہیں چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی حمد اور تسبیح اور تہلیل میں لگے رہیں۔ جس سے دوسری غذا انہیں مل جاوے۔(ملفوظات جلد۵ صفحہ۱۰۲۔ایڈیشن ۱۹۸۸ء)

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مزیدفرماتے ہیں: ’’آنحضرت ﷺ رمضان شریف میں بہت عبادت کرتے تھے۔ ان ایام میں کھانے پینے کے خیالات سے فارغ ہو کر اور ان ضرورتوں سے انقطاع کرکے تبتل الی اللہ حاصل کرنا چاہئے‘‘۔(تقاریر جلسہ سالانہ ۱۹۰۶ء صفحہ ۲۰، ۲۱)

حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل ؓ فر ماتے ہیں کہ’’یاد رکھو اسی مہینہ میں ہی قرآن مجید نازل ہونا شروع ہوا تھا اور قرآن مجید لوگوں کے لئے ہدایت اور نور ہے …روزہ سے فارغ البالی پیدا ہوتی ہے اور دنیا کے کاموں میں سُکھ حاصل کرنے کی راہیں حاصل ہوتی ہیں… روزہ سے… انسان قرب حاصل کرسکتا اور متقی بن سکتا ہے۔ اور اگر لوگ پوچھیں کہ روزہ سے کیسے قرب حاصل ہو سکتا ہے تو کہہ دے … یعنی میں قریب ہوں اور اس مہینہ میں دعائیں کرنے والوں کی دعائیں سنتا ہوں۔‘‘( خطبات ِ نور صفحہ 263)

حضورؓ مزید فر ماتے ہیں: ’’روزہ جو رکھا جاتا ہے تو اس لئے کہ انسان متقی بننا سیکھے۔ ہمارے امام فر مایا کرتے ہیں کہ بڑا ہی بد قسمت ہے وہ انسان جس نے رمضان تو پایا مگر اپنے اندر کوئی تغیر نہ پایا‘‘(خطباتِ نور صفحہ ۲۶۵ خطبہ یکم نومبر ۱۹۰۷ء)

سیدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:’’رمضان کلام الٰہی کو یاد کرانے کا مہینہ ہے۔ اسی لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا کہ اس مہینہ میں قرآن کریم کی تلاوت زیادہ کرنی چاہیے۔ اور اسی وجہ سے ہم بھی اس مہینہ میں درس قرآن کا انتظام کرتے ہیں۔ دوستوں کوچاہیے کہ اس مہینہ میں زیادہ سے زیادہ تلاوت کیاکریں اور قرآن کریم کے معانی پر غور کیاکریں تا کہ ان کے اندر قربانی کی روح پیدا ہو جس کے بغیر کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی‘‘۔ (تفسیر کبیر جلد۶صفحہ۳۹۳از حضرت مصلح موعودؓ سورۃ البقرہ زیر آیت ۱۸۶)

حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ فر ماتے ہیں کہ’’ماہِ رمضان بہت سی برکتیں لے کر آتا ہے …. اس ماہ میں صرف روزے ہی رکھنے کا حکم نہیں …. یہ ماہ دعائیں کرنے کا ہے، نوافل ادا کرنے کا ہے، ذکر الٰہی سے اپنے اوقات کو معمور کرنے کا ہے، نیز مستحقین کا خاص طور پر خیال رکھنے کا مہینہ ہے اور اگر انسان غور کرے تو یہ ایک ایسا مہینہ ہے جو بڑے اور چھوٹے کو ایک مقام پر لا کھڑا کر دیتا ہے اور برابر کر دیتا ہے۔‘‘

حضورؒ رمضان کی عظمت بیان کرتے ہوئے فر ماتے ہیں:’’اس ماہ کی ایک عظمت یہ بھی ہے کہ احادیث میں آتا ہے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام ماہِ رمضان میں جتنا قرآن کریم اس وقت تک نازل ہو چکا ہوتا تھا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ساتھ اُس کا دور کیا کرتے تھے۔‘‘(خطبات ِ ناصر جلد ہفتم صفحہ ۱۴۵-۱۴۶ خطبہ جمعہ بیان فرمودہ ۱۹؍ اگست ۱۹۷۷ء)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’اپنی اگلی نسلوں کی تربیت کی کوشش کریں۔ ان کو باربار یہ بتائیں کہ عبادت کے بغیر تمہاری زندگی بالکل بے معنی اور بےحقیقت بلکہ باطل ہے۔ ایک ایسی چیزہے جو خدا تعالیٰ کے ہاں کسی شمارمیں نہیں آئے گی اس لئے جانوروں کی طرح یہیں مرکرمٹی ہو جاؤ گے۔ مگر فرق صرف یہ ہے کہ جانور تومرکر نجات پا جاتے ہیں تم مرنے کے بعد جزا سزا کے میدان میں حاضر کئے جاؤگے۔ پس یہ شعور ہے جسے ہمیں اگلی نسلوں میں پیدا کرناہے اور رمضانِ مبارک میں ایک بہت اچھا موقع ہے کیونکہ فضا سازگار ہو جاتی ہے۔

رمضان ایک ایسامہینہ ہے جس میں ایسے چہرے بھی دکھائی دیتے ہیں مسجدوں میںجو پہلے کبھی دکھائی نہیں دیتے اور ان کو دیکھ کر دل میں کسی قسم کی تحقیر کے جذبے نہیں پیدا ہوتے کیونکہ اگر انسان ان چہروں کو دیکھے اور تحقیر کی نظر سے کہ اب آگیا ہے رمضان میں، پہلے کہاں تھا تو میرا یہ ایمان ہے کہ ایسی نظرسے دیکھنے والے کی اپنی عبادتیں بھی سب باطل ہو جائیں گی اور ضائع ہو جائیں گی۔کیونکہ اللہ کے دربار میں اگر کوئی حاضر ہوتاہے، ایک دفعہ بھی حاضر ہوتاہے، اگر آپ کو اللہ سے محبت ہے تو پیار کی نظر ڈالنی چاہئے اس پر اور کوشش کرنی چاہئے کہ اس کو اور قریب کریں اور اس کو بتائیں کہ الحمدللہ تمہیں دیکھ کر بہت ہی خوشی ہوتی ہے۔ تم اٹھے، تکلیف کی ہے، پہلے عادت نہیں تھی، اب آ گئے ہو۔بسم اللہ، جی آیاں نوںکہو اس کو اور اس کو پیار کے ساتھ سینے سے لگائیں تا کہ آپ کے ذریعے سے اور آپ کے اخلاص کے اظہار کے ذریعے سے وہ ہمیشہ کے لئے خدا کا ہو جائے۔

یہ وہ طریق ہے جس سے آپ اپنے گھر میں اپنے بچوں کی بہت عمدہ تربیت کر سکتے ہیں۔ جب وہ صبح اٹھتے ہیں تو ان کو پیار اور محبت کی نظر سے دیکھیں، ان کی حوصلہ افزائی کریں۔ ان کو بتائیں کہ تم جو اٹھے ہو توخدا کی خاطر اٹھے ہو اور ان سے یہ گفتگو کیا کریں کہ بتاؤ آج نماز میں تم نے کیا کیا۔ کیا اللہ سے باتیں کیں، کیا دعائیں کیں اور اس طریق پر ان کے دل میں بچپن ہی سے خدا تعالیٰ کی محبت کے بیج مضبوطی سے گاڑے جائیں گے یعنی جڑیں ان کی مضبوط ہونگی۔ ان میں وہ تمام صلاحیتیں جو خدا کی محبت کے بیج میں ہوا کرتی ہیں وہ نشوونما پاکر کونپلیں نکالیں گی۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۷؍جنوری ۱۹۹۷ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۷؍مارچ ۱۹۹۷ء)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں: ’’دوسری بات رمضان میں یہ ہے کہ بچوں کو سحری کے وقت اٹھا کر کھانے سے پہلے نوافل پڑھنے کی عادت ڈالی جائے۔ قادیان میں یہی دستور تھا جو بہت ہی ضروری اور مفید تھا۔ جسے اب بہت سے گھرو ں میں ترک کر دیا گیا ہے۔ قادیان میں یہ بات رائج تھی کہ روزہ شروع ہونے سے پہلے بچوں کو عین اس وقت نہیں اٹھاتے تھے کہ صرف کھانے کاوقت رہ جائے بلکہ لازماً اتنی دیر پہلے اٹھاتے تھے کہ بچہ کم سے کم دو چار نوافل پڑھ لے۔ چنانچہ مائیں بچوں کو کھانا نہیں دیتی تھیں جب تک پہلے نفل پڑھنے سے فارغ نہ ہو جائیں۔

سب سے پہلے اٹھ کر وضو کرواتی تھیں اور پھر ان کو نوافل پڑھاتی تھیں تا کہ ان کو پتا لگے کہ روزہ کااصل مقصد روحانیت حاصل کرنا ہے۔ اس امر کا اہتمام کیا جاتا تھاکہ بچے پہلے تہجد پڑھیں، قرآن کریم کی تلاوت کریں پھرکھانے پہ آئیں۔ اور اکثر اوقات الا ما شاء اللہ تہجد کا وقت کھانے کے وقت سے بہت زیادہ ہوتاتھا۔ کھاناتو آخری دس پندرہ منٹ میں بڑی تیزی سے کھا کرفارغ ہو جاتے تھے جب کہ تہجد کے لیے ان کو آدھ پون گھنٹہ مل جاتا تھا۔ اب جن گھروں میں بچوں کو روزہ رکھنے کی ترغیب بھی دی جاتی ہے ان کو اس سلیقے اور اہتمام کے ساتھ روزہ نہیں رکھوایا جاتا بلکہ آخری منٹوں میں جب کہ کھانے کا وقت ہوتاہے ان کو کہہ دیا جاتا ہے آؤ روزہ رکھ لو اور اسی کو کافی سمجھا جاتا ہے۔

یہ تو درست ہے کہ اسلام توازن کا مذہب ہے، میانہ روی کا مذہب ہے لیکن کم روی کا مذہب تو نہیں۔ اس لیے میانہ روی اختیار کرنی چاہیے۔ جہا ں روزہ رکھنا فرض قرار دیا ہے وہاں فرض سمجھنا چاہیے۔ جہاں روزہ فرض قرار نہیں دیا وہاں اس رخصت سے خدا کی خاطراستفادہ کرنا چاہیے۔ یہ نیکی ہے۔ اس کا نام میانہ روی ہے۔ اس لیے جماعت کو اپنے روز مرہ کے معیار کی طرف بھی توجہ کرنی چاہیے اورروزہ کھلوانے کی طرف بھی توجہ کرنی چاہیے اور روزہ کا معیار بڑھانے کی طرف بھی توجہ کرنی چاہیے‘‘۔ (خطبہ جمعہ فرمودہ ۳۰؍ مئی ۱۹۸۶ءخطبات طاہر جلد۵ صفحہ ۳۹۲۔۳۹۳)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:’’آنحضرت ﷺ نے ایک رمضان سے دوسرے رمضان کے درمیان ہونے والے گناہوں کی معافی کے بارے میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ایک رمضان سے دوسرے رمضان تک ہونے والے چھوٹے گناہوں کو بھی معاف فرما دیتا ہے۔ لیکن یہ واضح ہونا چاہئے کہ آنحضرت ﷺ نے گناہوں سے معافی کے جو ذرائع بتائے ہیں وہ آپ ایک ترتیب سے بیان فرما رہے ہیں۔ پہلے نماز، پھر جمعہ، پھر رمضان۔ پس اس ترتیب سے یہ غلط فہمی دُور ہو جانی چاہئے کہ صرف سال کے بعد رمضان کی عبادتیں ہی گناہوں سے معافی کا ذریعہ ہیں۔ بلکہ یہ ترتیب اس طرف توجہ دلا رہی ہے کہ نمازوں کی پانچ وقت روزانہ ادائیگی اپنے حصار میں لئے ہوئے ساتویں دن جمعہ میں داخل کر کے جمعہ کی برکات سے حصہ دلائے گی۔ اور سال بھر کے جمعے رمضان میں داخل کرتے ہوئے رمضان المبارک کے فیض سے فیضیاب کریں گے۔ روزانہ کی پانچ نمازیں اللہ تعالیٰ کے حضور عرض کریں گی کہ یہ تیرا بندہ تیرے خوف اور تیری محبت کی وجہ سے بڑے گناہوں سے بچتے ہوئے پانچ وقت تیرے حضور حاضر ہوتا رہا۔ ہر جمعہ عرض کرے گا کہ تیرا یہ بندہ سات دن اپنے آپ کو بڑے گناہوں سے بچاتے ہوئے جمعہ کے دن جس میں تیرے پیارے نبی ﷺ کا یہ بھی ارشاد ہے کہ اس میں ایک قبولیت دعا کا لمحہ بھی آتا ہے۔ (صحیح البخاری کتاب الدعوات حدیث6400) اپنی دعاؤں کی قبولیت کی آرزو لے کر تیرے حضور حاضر ہوتا رہا۔ رمضان کہے گا کہ اے خدا! یہ بندہ رمضان کا حق ادا کرنے کے بعد گناہوں سے بچتے ہوئے اور نیکیاں بجالاتے ہوئے اس رمضان میں اس امید پر داخل ہوا کہ تو اسے بھی اپنی رحمت، بخشش اور آگ سے بچانے کے عشروں سے فیضیاب کرے گا۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۳؍ جون ۲۰۱۷ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۲۴؍جولائی۲۰۱۷ء)

قرآن و حدیث اور حضرت مسیح موعودؑ اور آپؑ کے خلفاء کے چند پُر معارف اقتباسات سے ہمیں رمضان المبارک کی فضیلت کا بخوبی اندازہ ہو گیا ہوگا کہ ہمیں یہ بابرکت ایام کیسے گزارنے چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اِن ارشادات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فر مائے اور اِس رمضان میں ہم پہلے سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والے بنیں۔ آمین

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button