حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

ہم کوئی ایسی حرکت نہ کر بیٹھیں جس سے احمدیت اور اسلام کمزور ہو

(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۶؍ اکتوبر ۲۰۰۶ء)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ’’ جماعت کے باہم اتفاق و محبت پر میں پہلے بہت دفعہ کہہ چکا ہوں کہ تم باہم اتفاق رکھو اور اجتماع کرو۔ خداتعالیٰ نے مسلمانوں کو یہی تعلیم دی تھی کہ تم وجود واحد رکھو ورنہ ہوا نکل جائے گی۔ نماز میں ایک دوسرے کے ساتھ جڑ کر کھڑے ہونے کا حکم اسی لئے ہے کہ باہم اتحاد ہو۔ برقی طاقت کی طرح ایک کی خیر دوسرے میں سرایت کرے گی۔ اگر اختلاف ہو، اتحاد نہ ہو تو پھر بے نصیب رہو گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ آپس میں محبت کرو اور ایک دوسرے کے لئے غائبانہ دعا کرو۔ اگر ایک شخص غائبانہ دعا کرے تو فرشتہ کہتا ہے کہ تیرے لئے بھی ایسا ہو۔ کیسی اعلیٰ درجہ کی بات ہے۔ اگر انسان کی دعا منظور نہ ہو تو فرشتہ کی تو منظور ہی ہوتی ہے۔ مَیں نصیحت کرتا ہوں اور کہنا چاہتا ہوں کہ آپس میں اختلاف نہ ہو‘‘۔

فرمایا ’’میں دو ہی مسئلے لے کر آیا ہوں۔ اوّل خدا کی توحید اختیار کرو۔ دوسرے آپس میں محبت اور ہمدردی ظاہر کرو۔ وہ نمونہ دکھلاؤ کہ غیر وں کے لئے کرامت ہو۔ یہی دلیل تھی جو صحابہ ؓ میں پید اہوئی تھی۔ کُنۡتُمۡ اَعۡدَآءً فَاَلَّفَ بَیۡنَ قُلُوۡبِکُمۡ (آل عمران:104) یاد رکھو تالیف ایک اعجاز ہے۔ یاد رکھو جب تک تم میں ہر ایک ایسا نہ ہو کہ جو اپنے لئے پسند کرتا ہے وہی اپنے بھائی کے لئے پسندکرے، وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے۔ وہ مصیبت اور بلا میں ہے۔ اس کا انجام اچھا نہیں۔ مَیں ایک کتاب بنانے والا ہوں ‘‘۔ آگے ذکر کیا ہے کہ اس میں نام چھاپوں گا۔

فرمایا کہ ’’چھوٹی چھوٹی باتوں پر لڑائی ہوتی ہے۔ مثلاً ایک شخص کہتا ہے کہ کسی بازیگر نے دس گز کی چھلانگ ماری ہے۔ دوسرا اس میں بحث کرنے بیٹھتا ہے اور اس طرح پھر کینہ کا وجود پیدا ہو جاتا ہے۔ یاد رکھو بغض کا جدا ہونا مہدی کی علامت ہے اور کیا وہ علامت پوری نہ ہو گی۔ وہ ضرور ہو گی۔ تم کیوں صبر نہیں کرتے۔ جیسے طبّی مسئلہ ہے کہ جب تک بعض امراض میں قلع قمع نہ کیا جاوے مرض دفع نہیں ہوتا۔ میرے وجود سے انشاء اللہ تعالیٰ ایک صالح جماعت پید اہو گی۔ باہمی عداوت کا سبب کیا ہے۔ بخل ہے، رعونت ہے، خود پسندی ہے اور جذبات ہیں … جو اپنے جذبات پر قابو نہیں پا سکتے اور باہم محبت اور اخوت سے نہیں رہ سکتے۔ جو ایسے ہیں وہ یاد رکھیں کہ وہ چند روزہ مہمان ہیں، جب تک کہ عمدہ نمونہ نہ دکھائیں۔ مَیں کسی کے سبب سے اپنے اوپر اعتراض لینا نہیں چاہتا۔ ایسا شخص جو میری جماعت میں ہو کر میرے منشاء کے موافق نہ ہو وہ خشک ٹہنی ہے۔ اس کو اگر باغبان کاٹے نہیں تو کیا کرے۔ خشک ٹہنی دوسری سبز شاخ کے ساتھ رہ کر پانی تو چوستی ہے مگر وہ اس کو سرسبز نہیں کر سکتا۔ بلکہ وہ شاخ دوسری کو بھی لے بیٹھتی ہے، پس ڈرو۔ میرے ساتھ وہ نہ رہے گا جو اپنا علاج نہ کرے گا‘‘۔ (ملفوظات جلد اوّل صفحہ 336 ایڈیشن 1988ء)

پھر مخالفین کے شر سے بچنے کے لئے اور مغفرت کے لئے اور قوم کے سیدھے راستے پر چلنے کے لئے بھی ایک دعا ہے۔ فرمایا: رَبَّنَا عَلَیۡکَ تَوَکَّلۡنَا وَاِلَیۡکَ اَنَبۡنَا وَاِلَیۡکَ الۡمَصِیۡرُرَبَّنَا لَا تَجۡعَلۡنَا فِتۡنَۃً لِّلَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَاغۡفِرۡ لَنَا رَبَّنَا ۚ اِنَّکَ اَنۡتَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ۔(الممتحنۃ:5-6)۔ اے ہمارے رب تجھ پر ہی ہم تو کل کرتے ہیں اور تیری طرف ہی ہم جھکتے ہیں اور تیری طرف ہی لوٹ کر جانا ہے۔ اے ہمارے رب ہمیں ان لوگوں کے لئے ابتلاء نہ بنا جنہوں نے کفر کیا اور اے ہمارے رب ہمیں بخش دے۔ یقینا ًتو کامل غلبے والا اور صاحب حکمت ہے۔

رَبَّنَا لَا تَجۡعَلۡنَا فِتۡنَۃً لِّلَّذِیۡنَ کَفَرُوۡافرما کر اس طرف توجہ دلائی ہے کہ اے اللہ تیری باتوں اور حکموں پر عمل نہ کرکے ہم کوئی ایسی حرکت نہ کر بیٹھیں جس سے احمدیت اور اسلام کمزور ہو اور اس وجہ سے مخالفین اور کفار کو موقع ملے کہ وہ اسلام پر حملہ کریں۔ دیکھیں آج کل یہی ہو رہا ہے، جس کو موقع ملتا ہے اسلام پر حملہ کرنے کے لئے کھڑا ہو جاتا ہے۔ پس اس دُعا کی فی زمانہ بہت ضرورت ہے اور جہاں اپنے لئے دعا کریں وہاں ان دوسرے مسلمانوں کے لئے بھی دعا کریں جو کفار کو، غیر مسلموں کو یہ موقع فراہم کر رہے ہیں کہ وہ اسلام پر حملے کریں۔ مسلمانوں کو نعرے لگانے اور توڑ پھوڑ کی حد تک تو فکر ہے، ذرا سی کوئی بات ہو جائے تو توڑ پھوڑ شروع ہوجاتی ہے، نعرے شروع ہو جاتے ہیں، جلوس نکل آتے ہیں۔ اس کے علاوہ اور کوئی فکر نہیں۔ یہ کرنے کے بعد وہ سمجھتے ہیں کہ مقصد پورا ہو گیا۔ اسی وجہ سے اور ان کے انہی عملوں کی وجہ سے پھر مخالفوں کو مختلف طریقوں سے اسلام پر حملے کرنے کا مزید موقع ملتا ہے اور جو جری اللہ ان حملوں سے اسلام کو بچا رہا ہے، جس کو اللہ تعالیٰ نے بھیجا تھا یہ مسلمان اس کی مخالفت کر رہے ہیں اور اللہ اور رسولؐ کا حکم نہ مان کر کافروں کے لئے اسلام کے خلاف فتنے کے سامان پیدا کر رہے ہیں اور نتیجۃً پھر اللہ تعالیٰ کی بخشش سے بھی محروم ہو رہے ہیں۔ پس یہ دعا کرنی چاہئے کہ اے اللہ جو غالب اور حکمت والا ہے ہمیں اور تمام امت کو اپنی اس صفت سے متصف کرتے ہوئے حکمت عطا فرما تاکہ ایسی باتوں سے باز رہیں جو اسلام کو نقصان پہنچانے والی ہیں اور ہم جلد تیرے دین کے غلبے کے دن ہم جلد دیکھیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک دعا غیر ضروری سوالات سے بچنے کے لئے سکھائی ہے۔ وہ دعا یہ ہے کہرَبِّ اِنِّیۡۤ اَعُوۡذُبِکَ اَنۡ اَسۡـَٔلَکَ مَا لَـیۡسَ لِیۡ بِہٖ عِلۡمٌ ؕ وَاِلَّا تَغۡفِرۡ لِیۡ وَتَرۡحَمۡنِیۡۤ اَکُنۡ مِّنَ الۡخٰسِرِیۡنَ(ھود:48) کہ اے میرے ربّ یقیناًمَیں اس بات سے تیری پناہ مانگتا ہوں کہ تجھ سے وہ بات پوچھوں کہ جس کے مخفی رکھنے کی وجہ کا مجھے کوئی علم نہیں ہے۔ اور اگر تُو نے مجھے معاف نہ کیا اور مجھ پر رحم نہ کیا تو مَیں ضرور نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو جاؤں گا۔ یہ دعا سکھا کر اس امر سے بچنے کی تلقین فرمائی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے پُر حکمت کاموں کے بارے میں کوئی شکوہ نہ کیا جائے۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button