حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

انبیاء کی بعثت اور مخالفت

(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 28؍مئی2010ء)

اس زمانے میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ آنحضرتﷺ کے عاشقِ صادق کے ساتھ بھی اللہ تعالیٰ کا یہ سلوک ہے جسے اللہ تعالیٰ نے آدم کہہ کر مخاطب کیا ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ یاد رکھو خدا کے فرستادہ کی توہین خدا کی توہین ہے۔ تمہارا اختیار ہے چاہو تو مجھے گالیاں دو کیونکہ آسمانی سلطنت تمہارے نزدیک حقیر ہے۔ پس آج بھی جو مقابلہ کر رہے ہیں وہ خدا تعالیٰ سے مقابلہ کر رہے ہیں۔ حضرت مسیح موعودؑ یا آپ کی جماعت سے مقابلہ نہیں ہے۔ پھر ایک تفصیل بیان فرماتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ ’’حقیقی خلافت میری ہے یعنی میں خلیفۃ اللہ ہوں اور پھر اپنے ایک الہام کا ذکر فرمایا کہ اَرَدْتُ اَنْ اَسْتَخْلِفَ فَخَلَقْتُ آدَمَ خَلِیْفَۃَ اللّٰہِ السُّلْطَانَ۔ کہ میں نے چاہا کہ اپنا خلیفہ بناوٴں تو آدم کو پیدا کیا جو اللہ کا خلیفہ اور سلطان ہے۔‘‘

آپ فرماتے ہیں:’’ہماری خلافت روحانی ہے۔ اور آسمانی ہے، نہ زمینی‘‘۔ (ماخوذ از مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحہ111اشتہار مورخہ 7؍جون 1897ء)

پس یہ آدم کا مقام خدا تعالیٰ نے آنحضرتﷺ کی غلامی کی وجہ سے آپ کو عطا فرمایا۔ اور جب یہ مقام دیا تو جیساکہ خدا تعالیٰ کا قانون ہے، فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو۔ اس خاص بشر کو سجدہ کرو جس کو میں نے اپنے دین کو پھیلانے کے لئے چن لیا ہے۔ تو غیر معمولی تائیدات کا ایک سلسلہ بھی آپ کے ساتھ شروع ہو گیا۔ وہ ایک آدمی کروڑوں میں بن گیا۔ آپ کو الہاماً یہ تسلی دی گئی کہ میں تیرے ساتھ ہوں اور میرے فرشتے بھی تیری مدد کے لئے ہمہ وقت مستعد ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو فرمایا۔’’فَاِنِّیْ مَعَ الرَّسُوْلِ اَقُوْمُ وَیَنْصُرُہُ الْمَلٓئِکَۃُ ‘‘ پس میں اپنے رسول کے ساتھ کھڑا ہوں گا اور ملائکہ بھی اس کی مدد کریں گے۔ (تذکرہ صفحہ 309 ایڈیشن چہارم)

اور یہ خدا تعالیٰ کی مدد کوئی پرانے قصے نہیں ہیں بلکہ اپنے وعدے کے مطابق آج تک خدا تعالیٰ کی مدد کے نظارے ہم دیکھتے ہیں۔ شیطان بھی اپنا کام کئے چلا جا رہا ہے اور فرشتے بھی۔ جب اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں کے ذریعے سینے کھولتا ہے تو اس کی تمام روکیں دور ہو جاتی ہیں۔ ایک جگہ ظلم کر کے جماعت کو دبایا جاتا ہے تو دوسری جگہ نئی نئی جماعتیں پیدا ہو جاتی ہیں۔ گزشتہ دنوں مَیں عربوں کے متعلق الفضل میں ندیم صاحب جو ایک صفحہ لکھتے ہیں اس میں ایک واقعہ دیکھ رہا تھااس میں حلمی شافعی صاحب کی قبولیتِ احمدیت کا واقعہ تھا کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے ان کو احمدیت کی طرف مائل کیا؟ مصطفیٰ ثابت صاحب جو پہلے احمدی تھے۔ وہ اور حلمی شافعی صاحب صنعاء کے صحرا میں جس کمپنی میں وہ کام کرتے تھے ایک جگہ اکٹھے ہو گئے۔ تو کہتے ہیں میں دیکھتا تھا ایک نوجوان ہے جو دوسروں سے الگ تھلگ رہتا ہے۔ نمازیں بھی باقاعدہ پڑھتا ہے۔ پہلے مجھے خیال ہوا کہ یہ بہائی ہے یا کوئی اور ہے۔ پھر دیکھا جو باقاعدہ نمازیں پڑھتا ہے تو خیال ہوا بہائی تو نہیں ہو سکتا۔ پھر اور بعض فرقوں کی طرف دھیان گیا۔ پھر میں نے آہستہ آہستہ اس سے تعلق پیدا کرنا شروع کیا تو دیکھا کہ وہ نوجوان یعنی مصطفیٰ ثابت صاحب اسلام کے جو نظریات پیش کرتا تھا اور جو دلیلیں دیتا تھا وہ ایسی ہوتی تھیں کہ میرے پاس جواب ہی نہیں ہوتا تھا۔ علماء سے بھی مَیں جواب مانگتا لیکن تسلی نہیں ہوتی تھی۔ ایک موقع ایسا آیا کہ مجھے وہاں سے کام چھوڑ کے آنا پڑا اور انہوں نے اپنی کتابوں کا بکس میرے سپرد کر دیا کہ یہ لے جاوٴ۔ تو میں نے کہا کہ اس شرط پہ لے جاوٴں گا کہ یہ کتابیں میں پڑھوں۔ اس میں مَیں نے قرآنِ کریم کی تفسیر جو فائیو والیم میں ہے وہ اور بعض اور کتب پڑھیں، اسلامی اصول کی فلاسفی پڑھی۔ توکہتے ہیں کہ ہر کتاب کو پڑھ کے جس طرح غیر از جماعت علماء کی اور پڑھے لکھوں کی بھی عادت ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب میں اعتراض تلاش کرنا اور آج کل پاکستان میں یہ اعتراض کی صورت بڑی انتہا پر گئی ہوئی ہے کتابیں نکال نکال کر اس پر اعتراض کرتے ہیں اور یہ اعتراض کرنے والا جس طرح کے بودے اعتراض کر رہا ہوتا ہے اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اس کی کم علمی ہے اور فطرت صحیحہ کی بجائے وہ شیطان کے پیچھے چلنے والے لوگ ہیں۔ بہر حال یہ کہتے ہیں کہ میں بھی اعتراض تلاش کرتا تھا۔ اور اعتراض نکالنے کے بعد جب میں علماء سے تسلی کروانے جاتا تھا تووہاں میری تسلی نہیں ہوتی تھی۔ پھر کہتے ہیں میں نے اسلامی اصول کی فلاسفی پڑھی تو اس نے میرے دل میں ایک ہلچل مچا دی۔ میں نے اپنے والد صاحب کو بھی سنائی تو میں نے کہا یہ کیسا ہے؟ لکھنے والا کون شخص ہو سکتا ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ اس کتاب کا لکھنے والا یقیناً کوئی ولی اللہ ہے۔ اس پر میں نے کہا اگر یہ مسیح موعود کا دعویٰ کر رہا ہو تو پھر؟ تو سوچ میں پڑ گئے اور کہا کہ ٹھیک ہے۔ بہر حال میں اس پر کوئی اعتراض نہیں کر سکتا کیونکہ ایسی اعلیٰ پائے کی چیز اللہ تعالیٰ کا کوئی انتہائی مقرب ہی لکھ سکتا ہے۔ لیکن میں تو اب بوڑھا ہو رہا ہوں اس لئے مذہب کے معاملے میں پکا ہو چکا ہوں تو میں تو قبول نہیں کر سکتا۔ لیکن بہرحال حلمی شافعی صاحب کے دل میں آہستہ آہستہ تبدیلیاں پیدا ہوئیں۔ وہ سعید فطرت تھی جس نے اعتراضوں کی تلاش کے باوجود ان کو حق پہچاننے کی توفیق عطا فرمائی اور انہوں نے بیعت کر لی۔ (ماخوذ از الفضل انٹرنیشنل موٴرخہ 28؍ مئی 2010ء صفحہ 3-4)

تو اس طرح کے واقعات بے شمار ہیں۔ آج کل بھی ہوتے ہیں۔ کچھ لوگوں کو اللہ تعالیٰ خوابوں کے ذریعہ سے دکھاتا ہے۔ اب خوابوں کے ذریعے سے جو پیغام پہنچتا ہے اس میں تو کسی انسان کا ہاتھ نہیں ہوتا۔ تو یہ سب اس کی تائید میں ان فرشتوں کی ایک ہلچل ہے جو سارے نظام میں مچی ہوئی ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ اپنے فرستادے کے لئے ظاہر کر رہا ہوتا ہے۔ اور پھر اس طرح سے جو سعید فطرت ہیں وہ حق کی طرف آتے چلے جاتے ہیں لیکن دوسری طرف شیطان کے قدموں پر چلنے والے مخالفت میں بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ وہ روکیں ڈالتے ہیں اور ان کے پیچھے ان کا وہ تکبر کام کر رہا ہوتا ہے جس کی اللہ تعالیٰ نے نشاندہی فرمائی تھی جو انہیں ملائکہ کے زمرہ سے نکال کر بغاوت پر آمادہ کرتے ہیں اور شیطان کے پیچھے چلنے پر مجبور کرتے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ کے بندے تو خدائی صفات کا پرتَو بنتے ہیں اور ان کا خدا تعالیٰ سے تعلق بڑھتا چلا جاتا ہے۔ روحانی ترقی میں بھی ان کے قدم بڑھتے ہیں۔ اور اس طرح دنیاوی اور مادی معاملات میں بھی خدا تعالیٰ کی رضا کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے وہ ترقی کرتے چلے جاتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس کی جو تفسیر ایک جگہ فرمائی ہے یہ میں ابھی آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ آپ فرماتے ہیں: ’’تکبر ایسی بلا ہے کہ انسان کا پیچھا نہیں چھوڑتی۔ یاد رکھو! تکبر شیطان سے آتا ہے اور تکبر کرنے والے کو شیطان بنا دیتا ہے۔ جب تک انسان اس راہ سے قطعاً دور نہ ہو قبولِ حق و فیضانِ الوہیت ہرگز پا نہیں سکتا‘‘۔ (بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد 2 صفحہ 520 سورة الاعراف زیر آیت 13)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button