الفضل ڈائجسٹ

الفضل ڈائجسٹ

(محمود احمد ملک)

اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا حُسنِ معاشرت

لجنہ اماءاللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘ 2013ء میں مکرمہ عذرا عباسی صاحبہ کا مضمون بعنوان ’حضرت مسیح موعودؑ کا حُسن معاشرت‘ شائع ہوا ہے۔ اس مضمون کا دوسرا اور آخری حصہ پیش ہے۔ تسلسل کے لیے دیکھیں مسیح موعود نمبر۔

٭…مہمان نوازی ان اخلاق فاضلہ میں سے ہے جو تہذیب و تمدن میں بحیثیت ایک روح کے ہے۔ 23؍مارچ 1889ء کے بعد بیعت کرنے اور قادیان میں قیام کرنے والوں کا ایک سلسلہ شروع ہوگیا ان مخلصین کو حضرت مسیح موعودؑ کی میزبانی اور مہمان نوازی کا شرف حاصل کرنے کا موقع ملنے لگا۔ حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ فرماتے ہیں: ’’حضرت مسیح موعودؑ کوتو خصوصیت سے اس کی طرف توجہ تھی اور اس کی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قبل از وقت آپؑ کو وحی الٰہی کے ذریعہ ایک آنے والی مخلوق کی خبر دی تھی اور فرمادیا تھا کہ تیرے پاس دُوردراز سے لوگ آئیں گے اور ایسا ہی فرمایاتھا: لَا تُصَعِّرْ لِخَلْقِ اللّٰہِ وَلاَ تَسْئَمْ مِّنَ النَّاسِ۔غرض یہاں تو پہلے ہی سے مہمانوں کے بکثرت آنے کی خبر دی گئی تھی اور پہلے ہی سے اللہ تعالیٰ نے آپؑ کے قلب کو وسعت اور دل میں حوصلہ پیدا کر رکھاتھااور مہمان نوازی کے لیے آپؑ گویا بنائے گئے تھے …آپؑ مہمان کے آنے سے بہت خوش ہوتے تھے اور آپؑ کی انتہائی کو شش ہوتی تھی کہ مہمان کو ہر ممکن آرام پہنچے اور آپؑ نے خدام لنگرخانہ کو ہدایت کی ہوئی تھی کہ فوراً آپؑ کو اطلاع دی جائے۔ اور یہ بھی ہدایت تھی کہ جس ملک اور مزاج کا مہمان ہو اس کے کھانے پینے کے لیے اسی قسم کا کھانا تیار کیا جاوے۔ مثلاً اگر کوئی مدراسی ،بنگالی یا کشمیری آگیا تو ان کے لیے چاول تیار ہوتے تھے۔ ایسے موقع پر فرمایا کرتے تھے کہ اگر ان کی صحت ہی درست نہ رہی تو وہ دین کیا سیکھیں گے۔‘‘

٭…حضرت مولانا عبدالکریم سیالکوٹی صاحبؓ تحریر فرماتے ہیں: حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ ہمیں کسی مکان سے کوئی انس نہیں ہم اپنے مکانوں کو اپنے اور اپنے دوستوں میںمشترک جانتے ہیں اور بڑی آرزو ہے کہ مل کر چندروز گذارہ کر لیں ‘‘۔ اور فرمایا: ’’میری بڑی آرزو ہے کہ ایسا مکان ہو کہ چاروں طرف ہمارے احباب کے گھر ہوں اور درمیان میں میرا گھر ہو اور ہر ایک گھر میں میری ایک کھڑکی ہو کہ ہرایک سے ہر ایک وقت واسطہ و رابطہ رہے۔‘‘

برادران یہ باتیں سچی ہیں اور واقعات ان کے گواہ ہیں۔ مکان اندر اور باہر نیچے اور اوپر مہمانوں سے کشتی کی طرح بھرا ہوا ہے اور حضرت کو بھی بقدر حصہ رسدی بلکہ تھوڑا سا ایک حصہ رہنے کو ملا ہوا ہے اور آپؑ اس میں یوں رہتے ہیں جیسے سرائے میںکوئی گذارہ کرتا ہے اور اس کے جی میں کبھی نہیں گذرتا کہ یہ میری کو ٹھڑی ہے…حضرت کبھی پسند نہیں کرتے کہ خدام ان کے پاس سے جائیں۔ آنے پر بڑے خوش ہوتے ہیں اور جانے پرکراہ سے رخصت دیتے ہیںاور کثرت سے آنے جانے والوں کو بہت ہی پسند فرماتے ہیں۔ اب کی دفعہ دسمبر میںبہت کم لوگ آئے۔ اس پر بہت اظہار افسوس کیا اور فرمایا: ’’ہنوز لوگ ہمارے اغراض سے واقف نہیں کہ ہم کیا چاہتے ہیں کہ وہ کیا بن جائیں وہ غرض جو ہم چاہتے ہیں اور جس کے لیے ہمیں خدا تعالیٰ نے مبعوث فرمایا ہے وہ پوری نہیں ہوسکتی جب تک لوگ یہاں بار بار نہ آئیں اور آنے سے ذرا بھی نہ اکتائیں ‘‘۔ اور فرمایا ’’جو شخص ایسا خیال کرتا ہے کہ آنے میں اس پر بوجھ پڑتا ہے یا ایسا سمجھتا ہے کہ یہاں ٹھہرنے میں ہم پر بوجھ ہو گا اسے ڈرنا چاہئے کہ وہ شرک میں مبتلا ہے۔ ہمارا تو یہ اعتقاد ہے کہ اگر سارا جہان ہمارا عیال ہو جائے تو ہماری مہمات کا متکفل خدا ہے ہم پر ذرا بھی بوجھ نہیں۔ ہمیں تو دوستوں کے وجود سے بڑی راحت پہنچتی ہے۔‘‘

٭…حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ فرماتے ہیں: حضرت مسیح موعودؑ اپنے خدام کے ساتھ بہت بےتکلف رہتے تھے جس کے نتیجہ میں خدا م بھی حضورؑ کے ساتھ ادب و احترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے بے تکلفی سے بات کرلیتے تھے۔ چنانچہ ایک دفعہ میں لاہور سے حضورؑ کی ملاقات کے لیے آیا اور وہ سردیوں کے دن تھے اور میرے پاس رضائی وغیرہ نہیں تھی۔ میں نے حضرتؑ کی خدمت میں کہلا بھیجا کہ حضورؑ رات کو سردی لگنے کا اندیشہ ہے حضور مہربانی کر کے کوئی کپڑا عنایت فرمائیں۔ آپؑ نے ایک ہلکی رضائی اور ایک دُھسّا ارسال فرمائے اور ساتھ ہی پیغام بھیجا کہ رضائی محمود کی ہے اور دُھسّامیرا۔ آپ ان میں سے جو پسند کریں رکھ لیںاور چاہیں تو دونوں رکھ لیں۔ میں نے رضائی رکھ لی اور دھسّا واپس بھیج دیا۔

جب مَیں قادیان سے واپس لاہور جایا کرتا تھا تو حضورؑ اندر سے میرے لیے ساتھ لے جانے کے واسطے کھانابھجوایا کرتے تھے۔ ایک دفعہ جب میںشام کے قریب قادیان سے آنے لگا تو حضرت صاحبؑ نے اندر سے میرے واسطے کھانا منگوایا۔ جو خادم کھانا لایا وہ یونہی کھلا کھانا لے آیا۔ حضرت صاحبؑ نے فرمایا کہ مفتی صاحب یہ کھانا کس طرح ساتھ لے جائیں گے کوئی رومال بھی تو ساتھ لانا تھا جس میں کھانا باندھ دیا جاتا۔ اچھا میں کچھ انتظام کرتا ہوں اور پھر اپنے سر کی پگڑی کا ایک کنارہ کاٹ کر اس میں وہ کھانا باندھ دیا۔

٭…حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشیدالدین صاحبؓ کی اہلیہ محترمہ بیان فرماتی ہیں کہ میری والدہ صاحبہ بھی قادیان میں ہی رہا کرتی تھیں۔ ہم قادیان آتے تو حضورؑ کہتے تھے کہ تم ہمارے مہمان ہو ہمارے مکان پر رہو۔ مَیں ڈاکٹر صاحب سے کہلوا تی کہ حضور دس روز کی رخصت ہے یہ اپنی ماں کے پاس رہنا چاہتی ہیں۔ حضورؑ فرماتے:کوئی حرج نہیں ان کی والدہ بھی یہیں رہیں گی۔ فوراً آدمی میری امّاں کی طرف بھیج دیتے کہ جب تک ڈاکٹر صاحب یہاں ہیں آپ بھی یہاں رہیں۔ چنانچہ کئی بار ایسا ہوا کہ میری والدہ صاحبہ اور میری بھاوج فاطمہ جو ڈاکٹر فیض علی صاحب کی بیوی ہیں یہاں رہتیں۔ میرے بھائی باہر نوکری پر ہوتے تو میری والدہ کہتیں کہ بہو گھر میں اکیلی ہے۔ حضرت صاحبؑ فرماتے: ڈاکٹر صاحب ہمارے مہمان ہیں ان کو بھی کہو کہ یہاں پر آجائیں۔کھانا لنگرخانہ سے آتا۔ حضورؑ کی سخت تاکید ہوتی تھی کہ ڈاکٹر صاحب کے لیے کھاناعمدہ ہو۔ کریم بخش باورچی روز آکر پوچھا کرتا کہ کیا پکایا جائے؟ پھر آپؑ خود پوچھتے:کھانا خراب تو نہیں تھا،کوئی تکلیف تو نہیں ہے؟کہنا:نہیں حضور کوئی تکلیف نہیں۔ پھر بھی حضورؑ کی تسلی نہ ہوتی۔ گھر سے کبھی کبھی کوئی چیز ضرور بھیج دیتے۔

تین ماہ کی رخصت لے کر ڈاکٹر صاحب آئے حضورؑ کبھی بھی مہمان نوازی سے نہ گھبراتے اور اپنی ملازمہ سے کہتے: ’’دیکھو ڈاکٹر صاحب تنور کی روٹی کھانے کے عادی نہیں ان کو پھلکے پکا کر بھیجا کرو۔‘‘ روز کھانے کے وقت حضورؑ آواز دے کر پوچھتے: صفیہ کی اماں ! ڈاکٹر صاحب کے لیے پُھلکے بھیج دیے؟ تو وہ کہتی بھیجتی ہوں۔ تو فرماتے:جلدی کرو وہ کھانا کھاچکے ہوں گے۔ حضور علیہ السلام مہمانوں کا یوں خیال رکھتے جیسے ماں بچے کا خیال رکھتی ہے۔

٭…حضرت مسیح موعودؑ اپنے ہاتھوں سے مہمانوں کی خدمت کرنا پسند کرتے تھے۔ چنانچہ حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ فرماتے ہیں غالباً 1897ء یا 1898ء کا واقعہ ہوگا۔ مجھے حضرت صاحب نے مسجد میں بٹھایا جو کہ اس وقت چھوٹی سی جگہ تھی۔ فرمایا:آپ بیٹھیے میں آپ کے لیے کھانا لاتا ہوں۔یہ کہہ کر آپؑ اندر تشریف لے گئے۔ میرا خیال تھا کہ کسی خادم کے ہاتھ کھانا بھیج دیں گے۔ مگرچند منٹ کے بعد کھڑکی کھلی تو کیا دیکھتا ہوں کہ اپنے ہاتھ سے سینی اٹھائے ہوئے میرے لیے کھانا لائے ہیں۔ فرمایا:آپ کھانا کھائیے میں پانی لاتا ہوں۔ بےاختیار رقت سے میرے آنسو نکل آئے کہ جب حضرتؑ ہمارے مقتدا اور پیشوا ہو کر ہماری یہ خدمت کرتے ہیں تو ہمیں آپس میں ایک دوسرے کی کس قدر خدمت کرنی چاہیے۔

٭…حضرت اقدسؑ مہمانوں کے جذبات کا پورا خیال رکھتے تھے اور اپنے خدام سے بھی یہی توقع رکھتے تھے کہ وہ مہمانوں کا پورا احترام کریں اور وہ رنجیدہ خاطر نہ ہوں۔ حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلویؓ فرماتے ہیں: دو شخص منی پور آسام سے قادیان آئے اور مہمان خانہ میں آکر انہوں نے خادمان مہمان خانہ سے کہا کہ ہمارا سامان اتارا جائے اور چارپائی بچھائی جائے۔ خادمان نے کہا کہ آپ خود اپنا سامان اتروائیں چارپائیاں بھی مل جائیں گی۔ دونوں مہمان اس بات پر رنجیدہ ہو گئے اور فوراً یکہ پر سوار ہو کر واپس روانہ ہو گئے۔ حضرت اقدسؑ کو جب اس واقعہ کا علم ہوا تو نہایت جلدی سے ایسی حالت میں کہ جوتا پہننا بھی مشکل ہوگیا آپؑ ان کے پیچھے نہایت تیز قدم چل پڑے چند خدام بھی ہمراہ تھے، میں بھی ساتھ تھا۔ نہر کے قریب پہنچ کر ان کا یکہ مل گیا اور حضرت صاحبؑ کو آتا دیکھ کر وہ یکہ سے اتر پڑے۔ حضرت صاحبؑ نے انہیں واپس چلنے کے لیے فرمایا کہ آپ کے واپس ہونے کا مجھے بہت درد پہنچا۔ چنانچہ وہ واپس ہوئے۔ حضرت صاحبؑ نے انہیں یکہ میں سوار ہونے کے لیے فرمایا اور فرمایا کہ میں ساتھ چلتا ہوں۔ مگر وہ شرمندہ ہوئے اور سوار نہ ہوئے اس کے بعد مہمان خانہ میں پہنچ کر حضرت صاحبؑ نے خود ان کے بستر اتارنے کے لیے ہاتھ بڑھائے مگر خدام نے اتار لیے۔ حضرت صاحبؑ نے اسی وقت دو نواری پلنگ منگوائے اور ان پر ان کے بستر کروائے اور ان سے پوچھاکہ آپ کیا کھائیں گے؟ اور خود بھی فرمایا کہ اس طرف تو چاول کھائے جاتے ہیں۔ پھر رات کو دودھ کے لیے پوچھا۔ غرض کہ تمام ضروریات اپنے سامنے پیش فرمائیں اور جب تک کھانا آیا وہیں ٹھہرے رہے۔

٭…حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحبؓ فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے اخلاق میں کامل تھے …کوئی لغو حرکت نہ کرتے تھے،کوئی لغوبات نہ کیا کرتے تھے۔ خدا کی عزت اور دین کی غیرت کے آگے کسی کی پرواہ نہیں کرتے تھے۔ آپؑ نے ایک دفعہ اعلانیہ ذبّ تہمت بھی کیا۔ ایک مرتبہ دشمن پرمقدمہ میں خرچہ پڑاتو آپؑ نے اس کی درخواست پر اسے معاف کر دیا۔ ایک فریق نے آپؑ کو قتل کا الزام لگا کر پھانسی دلانا چاہی مگر حاکم پر حق ظاہر ہوگیا اور اُس نے آپؑ کو کہا کہ آپ ان پر قانوناً دعویٰ کرکے سزا دلاسکتے ہیں۔ مگر آپؑ نے در گزر کیا۔ آپؑ کے وکیل نے عدالت میں آپؑ کے دشمن پر اس کے نسب کے متعلق جرح کرنی چاہی مگر آپؑ نے اسے روک دیا۔ غرض یہ کہ آپؑ نے اخلاق کا وہ پہلو دنیا کے سامنے پیش کیا ،جو معجزانہ تھا۔ سراپا حسن تھے۔ سراسر احسان تھے،اور اگر کسی شخص کا مثیل آپؑ کو کہا جاسکتا ہے تو وہ صرف محمد رسول اللہ ﷺ ہے اور بس۔ آپؑ کے اخلاق کے اس بیان کے وقت قریباً ہر خلق کے متعلق میں نے دیکھا کہ اس کی مثال بیان کر سکتا ہوں۔ یہ نہیں کہ میں نے یونہی کہہ دیا ہے،میں نے آپؑ کو اس وقت دیکھا جب میں دوبرس کا بچہ تھا۔ پھر آپؑ میری ان آنکھوں سے اس وقت غائب ہوئے جب میں ستائیس سال کا جوان تھا۔ مگر میں خدا کی قسم کھاکر بیان کرتا ہوں کہ میں نے آپؑ سے بہتر آپؑ سے زیادہ خلیق ،آپؑ سے زیادہ نیک آپؑ سے زیادہ بزرگ،آپؑ سے زیادہ اللہ اور رسولؐ کی محبت میں غرق کوئی شخص نہیں دیکھا۔ آپؑ ایک نور تھے ،جو انسانوں کے لیے دنیا پر ظاہر ہوا۔ اور ایک رحمت کی بارش تھے جو ایمان کی لمبی خشک سالی کے بعد اس زمین پر برسی اور اسے شاداب کر گئی۔ اگر حضرت عائشہؓ نے آنحضرت ﷺ کی نسبت یہ بات سچی کہی تھے کہ کَانَ خُلُقُہٗ الْقُرْآنتو ہم حضرت مسیح موعود ؑکی نسبت اسی طرح یہ کہہ سکتے ہیں کہ کان خلقہ حب محمد واتباعہ علیہ الصلوٰۃ والسلام

٭…کسی نے آنحضرت ﷺ کے متعلق کہا ہے ؎

حُسنِ یوسف ، دَمِ عیسیٰ ، یَدِ بیضا داری

آنچہ خوباں ہمہ دارند تُو تنہا داری

یہی ورثہ آپؑ کے ظل کامل نے بھی پایا۔ آپؑ کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’جری اللّٰہ فی حلل الانبیاء‘‘ یعنی خدا کا رسول جو تمام نبیوں کے لباس میں ظاہر ہوا۔ اس فقرہ سے بڑھ کر حضرت مسیح موعودؑ کی کوئی جامع تعریف نہیں ہوسکتی۔ آپؑ ہر نبی کے ظلّ اور بروز تھے اور ہر نبی کی اعلیٰ صفات اور اعلیٰ اخلاقی طاقتیں آپؑ میں جلوہ فگن تھیں۔

………٭………٭………٭………

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button