خلاصہ خطبہ جمعہ

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۱۷؍مارچ۲۰۲۳ء

حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ و السلام کے پُر معارف ارشادات کی روشنی میںقرآن کریم کے فضائل، مقام و مرتبہ اور عظمت کا بیان

٭… قرآن جواہرات کی تھیلی ہے اور لوگ اس سے بےخبر ہیں افسوس ہے کہ لوگ جوش اور سرگرمی کے ساتھ قرآن شریف کی طرف توجہ نہیں کرتے

٭… ہمیں قرآن شریف پر غور و تدبر کی طرف زیادہ توجہ دینی چاہیےتاکہ ہم اپنی روحانی اور علمی حالت بھی بہتر کریں اور مخالفین کا ردّ بھی کرسکیں

٭… ہمارا مذہب اور عقیدہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں اور قرآن شریف خاتم الکتب ہے

٭…اگلے ہفتے شروع ہونے والے رمضان میں خاص طور پر ہمیں قرآن کریم پڑھنے ،پڑھانے اور سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے

٭…احباب جماعت کوپاکستان، برکینا فاسو اور بنگلہ دیش کے احمدیوں کے لیے دعا کی مکرر تحریک

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۱۷؍مارچ۲۰۲۳ء بمطابق ۱۷؍امان ۱۴۰۲ ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے

اميرالمومنين حضرت خليفةالمسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيزنے مورخہ ۱۷؍مارچ ۲۰۲۳ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسّط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔جمعہ کي اذان دينےکي سعادت صہیب احمد صاحب(مربی سلسلہ) کے حصے ميں آئي۔

تشہد،تعوذاور سورة الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنےفرمایا:

گذشتہ چند ہفتوں سے قرآن کریم کا مقام و مرتبہ اور محاسن بیان ہورہے ہیں۔قرآن شریف کے نزدیک مذہب کا منصب کیا ہے اور انسانی قویٰ پر اس کا کیا تصرف ہے اور ہونا چاہیے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ انجیل نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا کیونکہ انجیل حکمت کے طریقوں سے دُور ہے لیکن قرآن شریف بڑی تفصیل سے بار بار اس مسئلے کو حل کرتا ہے کہ مذہب کا یہ منصب نہیں ہے کہ انسانوں کے فطرتی قویٰ کو تبدیل کرے اور بھیڑیئے کو بکری بنا کر دکھلائے یعنی طاقتور کو کمزور بنا کر دکھائےبلکہ مذہب کی علت غائی یہ ہے کہ جوقویٰ اورملکات فطرتاًانسان کے اندر موجود ہیں، جو صلاحیتیں اور طاقتیں ہیں ان کو اپنےمحل اور موقع پر لگانے کے لیے راہبری کرے۔ مذہب کا یہ اختیار نہیں ہے کہ کسی فطرتی قوت کو بدل ڈالےبلکہ یہ اختیار ہے کہ اس کو محل پر استعمال کرنے کے لیے ہدایت کرے۔صرف ایک قوت پر زور نہ ڈالے بلکہ تمام قوتوں کے استعمال کے لیے وصیت فرمائے۔ اصل غرض اصلاح اور بہتری ہے۔اور یہ مقصد جس طرح بھی پورا ہو اُس کی کوشش کرنی چاہیے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ یہ بات واقعی سچی ہے کہ مسلمان قرآن کو بالکل نہیں سمجھتے لیکن اب خدا کا ارادہ ہے کہ صحیح معنی قرآن کے ظاہر کرے۔ خدا نے مجھے اسی لیے مامور کیا ہے اور میں اس کے الہام اور وحی سے قرآن کریم کو سمجھتا ہوں۔ قرآن کریم کی ایسی تعلیم ہے کہ اس پر کوئی اعتراض نہیں آسکتا اور معقولات سے ایسی پُر ہے کہ ایک فلاسفر کو بھی اعتراض کا موقع نہیں ملتا۔ قرآن شریف پر تدبر کرو اس میں نیکیوں اور بدیوں کی تفصیل ہے اور آئندہ ز مانے کی خبریں ہیں۔یہ وہ مذہب پیش کرتا ہے جس پر کوئی اعتراض نہیں ہوسکتا کیونکہ اس کے برکات اور ثمرات تازہ بتازہ ملتے ہیں۔یہ فخرقرآن مجید کوہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر مرض کا علاج اس میں بتایا،تمام قویٰ کی تربیت فرمائی ہے اور جو بدی ظاہر کی ہے اُس کے دُور کرنے کا طریق بھی بتایا ہے۔اس لیے قرآن مجید کی تلاوت کرتے رہو ،دعا کرتے رہو اور اپنے چال چلن کو اس کی تعلیم کے ماتحت رکھنے کی کوشش کرو۔

حضور انور نے فرمایا کہ بدعات سے ہمیں بچنا چاہیے اور قرآن شریف کا ترجمہ اور تفسیر پڑھنے کی طرف زیادہ توجہ دینی چاہیے۔اگلے ہفتے رمضان بھی شروع ہورہا ہےتو اس رمضان میں خاص طور پر ہمیں قرآن کریم پڑھنے،پڑھانے اور سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ دل کی سختی کو نرم کرنے کے لیے یہی طریق ہے کہ قرآن شریف کو ہی بار بار پڑھے۔ جہاں جہاں دعا ہوتی ہے وہاں مومن کا بھی دل چاہتا ہے کہ یہی رحمت الٰہی میرے بھی شامل حال ہو۔قرآن کریم کی مثال ایک باغ کی ہے کہ ایک مقام سے پھول چُنتا ہےپھر آگے چل کر اور قسم کا چُنتا ہے۔ پس چاہیے کہ ہر مقام کے مناسب حال فائدہ اُٹھاوے۔اس سے روحانی ترقی ہوتی ہے کہ انسان احکامات اور نواہی کو اپنے اوپر لاگو کرے۔ جوحکم اللہ تعالیٰ نے دیے ہیں وہ کرے اور جن سے روکا ہے اُن سے روکنے کی کوشش کرے یہی پھول ہیں جو انسان اس باغ سے چُنتا ہے۔

ایک مرتبہ حضرت عمرؓ کسی معاملہ پر فیصلہ کرنے لگے تو ایک بوڑھی عورت نےکہا کہ حدیث میں یہ لکھا ہے لیکن آپؓ نے فرمایا کہ میں ایک بڑھیا کے لیے کتاب اللہ کو ترک نہیں کرسکتا۔ پس حقیقت یہی ہے اسی کوہمیں اختیار کرنا چاہیے۔ اگر یہ نہیں ہوگا تو بدعات پھیلتی چلی جائیں گی اور اسی وجہ سے مسلمانوں میں بدعات پھیلتی جارہی ہیں اور قرآن کریم کی اصل تعلیم سے دُور کررہی ہیں۔عامۃ المسلمین کی اکثریت تو جاہل ہے۔نام نہاد علماءاُن کو جس طرف لے جاتے ہیں وہ چل پڑتے ہیں اور بدعات پھیلتی جاتی ہیں لیکن اس کے باوجود ہم پر الزام ہے کہ ہم قرآن کریم کی تحریف کرتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ جب تک مسلمان قرآن شریف کے پورے متبع اور پابند نہیں ہوتے وہ کسی قسم کی ترقی نہیں کرسکتے۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ قرآن جواہرات کی تھیلی ہے اور لوگ اس سے بےخبر ہیں۔افسوس ہے کہ لوگ جوش اور سرگرمی کے ساتھ قرآن شریف کی طرف توجہ نہیں کرتے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ قرآن شریف استدلالی رنگ رکھتا ہے۔ کوئی بات ایسی بیان نہیں کرتا جس کے ساتھ اس نےقوی اور مستحکم دلیل نہ دی ہو۔جیسی قرآن شریف کی فصاحت اور بلاغت اپنے اندر ایک جذب رکھتی ہے، جس طرح پر اس کی تعلیم میں معقولیت اور کشش ہے ویسے ہی اُس کے دلائل مؤثر ہیں۔ پس کوئی اور کتاب قرآن کریم کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔جب قرآن پڑھو اور کوئی بات قرآن کریم میں دیکھوتو وہیں اُس کی دلیل بھی تلاش کرو۔آپؑ فرماتے ہیں کہ یاد رکھنا چاہیےکہ ہم تو قرآن شریف پیش کرتے ہیں جس سے جادو بھاگتا ہے۔اس کے بالمقابل کوئی باطل اور سحر نہیں ٹھہر سکتا۔ قرآن کریم وہ عظیم الشان حربہ ہے جس کے بالمقابل کسی باطل کو قائم رہنے کی ہمت ہی نہیں ہوسکتی۔یہ آسمانی ہتھیار ہے جو کبھی کند نہیں ہوسکتا۔ پس ہمیں قرآن شریف پر غور و تدبر کی طرف زیادہ توجہ دینی چاہیےتاکہ ہم اپنی روحانی اور علمی حالت بھی بہتر کریں اور مخالفین کا ردّ بھی کرسکیں۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ قرآن شریف قابل تعظیم کتاب ہے جس نےقوموں میں صلح کی بنیاد ڈالی اور ہر ایک قوم کے نبی کو مان لیا۔ تمام دنیا میں یہ فخر خاص قران شریف کو حاصل ہے جس نےیہ تعلیم دی کہ لَا نُفَرِّقُ بَیۡنَ اَحَدٍ مِّنۡہُمۡ وَنَحۡنُ لَہٗ مُسۡلِمُوۡنَ۔یعنی مسلمانوں یہ کہو کہ ہم دنیا کے تمام نبیوں پر ایمان لاتے ہیں اور ان میں تفرقہ نہیں ڈالتے کہ بعض کو مانیں اور بعض کو ردّکردیں۔ آپؑ نے چیلنج فرمایا کہ اگر ایسی صلح کار کوئی اور کتاب ہے تو اُس کا نام لو۔آپؑ نے فرمایا کہ قرآن شریف ایک ایسی کتاب ہے جس کی متابعت سے اسی جہان میں آثارنجات کے ظاہر ہوجاتے ہیں۔اس کا بیان ایساجامع دقائق اور حقائق ہے کہ جس قدر ایسے شبہات دنیا میں پائے جاتے ہیں کہ جو خدا تک پہنچنے سے روکتے ہیں ان سب کا ردّمعقولی طور پر اس میں موجود ہے۔قرآن کریم یقینی اور قطعی کلام ہے جو شک اور ظن کی آلائشوں سے پاک ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ خدا نے پہلے متفرق طور پر ہر ایک امت کو جدا جدا دستور العمل بھیجا اور پھر چاہا کہ جیسا کہ خدا ایک ہے وہ بھی ایک ہوجائیں تب سب کو اکٹھا کرنے کے لیے قرآن کو بھیجا۔ قرآن شریف نے پہلی کتابوں اور نبیوں پر احسان کیا ہے کہ ان کی تعلیموں کو جو قصوں کے رنگ میں تھیں علمی رنگ دے دیا ہے۔ کوئی شخص ان قصوں سے نجات نہیں پاسکتا جب تک وہ قرآن شریف کو نہ پڑھے۔ جو لوگ قرآن شریف کو پڑھتے اور اس کو قصہ سمجھتے ہیں اُنہوں نے اس کی بے حرمتی کی ہے۔ ہمارے مخالف ہماری مخالفت میں اس لیے تیز ہیں کہ ہم دنیا کو دکھانا چاہتے ہیں کہ قرآن شریف سراسر نو ر، حکمت اور معرفت ہے۔ خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے ہم پر کھول دیا ہے کہ قرآن شریف ایک زندہ اور روشن کتاب ہے اس لیے ہم اُن کی مخالفت کی کیوں پرواہ کریں۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ قرآن شریف میں ایسے عظیم الشان علوم ہیں جو توریت اور انجیل میں تلاش کرناعبث ہیں۔پس اس کے معنے اور مطالب پر غور کرنے کی ہر ایک کو عادت ڈالنی چاہیے تاکہ خدا تعالیٰ کے کلام کی خوبصورتی کا ہمیں پتا چلے۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ قرآن شریف میں شروع سے آخر تک اوامرو نواہی کی تفصیل موجود ہے۔ تلاوت کرتے ہوئے انہیں تلاش کرنا چاہیے اور ان کو اپنی زندگی کا حصہ بنانا چاہیےتبھی ہم خدا تعالیٰ کے کلام سے حقیقی فیض پاسکتے ہیں۔ قرآن شریف میں سب کچھ ہے مگر جب تک بصیرت نہ ہو کچھ حاصل نہیں ہوسکتا۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ قرآن شریف معارف کا خزانہ ہے۔ دنیا کی برکتیں بھی اسی کے ساتھ آتی ہیں۔اللہ تعالیٰ نے اسی لیے انبیاءکوبھیجا اوراپنی آخری کتاب نازل فرمائی کہ دنیا اس کی تاثیرات سے واقف ہو کر بچ جاوے۔پس ہر احمدی کا یہ بھی کام ہے کہ جہاں وہ قرآن کریم کی تعلیم کے مطابق اپنی حالت ڈھالنے کی کوشش کرے وہاں دنیا کو بھی اُس تعلیم سے آگاہ کرے اور رُوحانی اور مادی تباہی سے اُنہیں بچائے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں اور قرآن شریف خاتم الکتب۔ جو کچھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کرکے دکھایا اور جو کچھ قرآن شریف نے تعلیم دی اس کو چھوڑ کر نجات نہیں مل سکتی۔ یہ ہمارا مذہب اورعقیدہ ہے۔ کاش یہ بات عامۃ المسلمین کو بھی سمجھ آجائے اور وہ زمانے کے امام کوپہچاننے والے بنیں۔

خطبہ جمعہ کے آخرپر حضور انور نے پاکستان، برکینا فاسو اور بنگلہ دیش کے احمدیوں کے لیے دعا کی مکرر تحریک فرمائی۔ مزید تفصیلات کے لیے درج ذیل لنک ملاحظہ فرمائیں:

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button