از مرکز

اسلامی تعلیمات ہی قیامِ امنِ عالم کی ضامن ہیں (پیس سمپوزیم ۲۰۲۳ء سے حضورِ انور کا خطاب)

(ادارہ الفضل انٹرنیشنل)

مسجد بیت الفتوح لندن کی نو تعمیر شدہ عمارت کا افتتاح نیزجماعت احمدیہ برطانیہ کے سترہویں نیشنل امن کانفرنس کا کامیاب انعقاد

(مسجد بیت الفتوح، لندن،۴؍مارچ۲۰۲۳ء، نمائندگان الفضل انٹرنیشنل) اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے آج مورخہ ۴؍مارچ۲۰۲۳ء بروز ہفتہ مسجد بیت الفتوح کی نو تعمیر شدہ عمارت کا افتتاح کے ساتھ ہی جماعت احمدیہ برطانیہ کی سترھویں نیشنل امن کانفرنس کا کامیاب انعقاد ہوا۔ یاد رہے کہ امسال کورونا وبا کے باعث تین سال کے وقفے کے بعد امن کانفرنس منعقد ہوئی جس میں چالیس ممالک کی نمائندگی شامل تھی۔ اس بابرکت موقع پر سیدنا و امامنا امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز بنفس نفیس تشریف لائے اور کانفرنس کے شرکاء سے بصیرت افروز خطاب فرمایا جو ایم ٹی اے انٹرنیشنل کے توسط سے پوری دنیا میں براہِ راست سنا اور دیکھا گیا۔

نماز مغرب اور عشاء کی ادائیگی کے بعد چھ بج کر ۳۹ منٹ پر حضور انور آفتاب خان لائبریری سے ملحقہ نمائش میں تشریف لائے جہاں معززین پہلے سے موجود تھے۔ حضورِ انور نے بعض مہمانوں سے تعارف حاصل کیا۔ حضور نے مہمانوں کا شکریہ ادا کیا جس کے بعد حضورانور میٹینگ ہال میں تشریف لے گئے جہاں گذشتہ سالوں (۲۰۱۹ء اور۲۰۲۲ء) میں the Ahmadiyya Muslim Prize for the Advancement of Peace کے حقدار قرار پانے والے مہمانوں کے علاوہ بعض دیگر معززین نے بھی حضور انور سے شرفِ ملاقات حاصل کیا۔

بعد ازاں حضور انور ناصر ہال میں تشریف لائے جہاں پر موجود افراد نے حضور انور کا دیدار کیا۔ حضور انور کی آمد پر ہال نعرہ ہائے تکبیر سے گونج اٹھا۔ بعد ازاں حضورِ انورسات بج کر ۹ منٹ پر طاہر ہال میں تقریب کے لیے تشریف لے گئے جہاں پر موجود افراد پہلے سے اپنی نشستوں پر موجود تھے۔ حضور انور کرسیٔ صدارت پر رونق افروز ہوئے۔ حضور انور کی دائیں جانب محترم امیر صاحب یوکے کی کرسی تھی جبکہ حضور انور کے دائیں اور بائیں کُل ۱۶؍معززین بیٹھے تھے۔ اسٹیج کی پچھلی جانب دیوار پر اوپر خوبصورت انداز میں کلمہ طیبہ کے دائیں اور بائیں بالترتیب آیات کریمہ ’انَّ اللہ یحب المقسطین‘ اور ’لا اکراہ فی الدین‘ مع انگریزی ترجمہ لکھیں تھیں۔ اسٹیج کے بیک گراؤنڈ میں مسجد بیت الفتوح کی تعمیر نو کی تصویر لگائی گئی تھی۔

مکرم فرید احمد صاحب سیکرٹری امور خارجیہ جماعت یوکے نے کچھ انتظامی اعلانات کیے جس کے بعد باقاعدہ کارروائی کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا۔ مکرم احسان احمد صاحب نے سورۃ الاعراف کی آیات ۵۶ تا۵۹ کی تلاوت کی۔ متلو آیات کا انگریزی ترجمہ مکرم علیم ضیا صاحب نے پیش کیا۔ بعد ازاں محترم امیر صاحب یوکے نے تعارفی تقریر کی۔

 مکرم امیر صاحب نے تمام مہمانان کی تشریف آوری کا شکریہ ادا کیا اور بتایا کہ بیت الفتوح کا ۲۰۰۳ء میں حضور انور ایدہ اللہ نے افتتاح فرمایا تھا۔ ستمبر ۲۰۱۵ء میں آگ لگ جانے کے سبب ایک بڑے حصے کو نقصان پنچا ۔ اللہ کے فضل سے اس حادثہ میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا اور مسجد کا حصہ بھی محفوظ رہا۔ اس کے بعد تعمیر نو کے لیے افرادِ جماعت نے ۲۰ ملین کے عطیات دیے۔ یہ سفر آج مکمل ہو رہا ہے۔ یہ عمارت برطانیہ کے لیے ایک امن کی علامت ہوگی۔ اسی طرح آج ہم نیشنل پیس سمپوزیم کےلیے بھی جمع ہیں جس کا تھیم حقیقی امن کی بنیاد ہے۔ دنیا نے ابھی یوکرین رشیا جنگ کا ایک سال مکمل ہوتے دیکھا۔ جماعت احمدیہ امن کو فروغ دیتی ہے۔ بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام نے اسلام کے احیا کے ساتھ خدا اور بندے کے تعلق کو زندہ کیا۔ جماعت احمدیہ ۲۰۰ سے زائد ممالک میں پھیل چکی ہے۔ اور حضورِانور کی راہنمائی میں مزید پھل پھول رہی ہے۔ حضور انور نے مساجد کو مذاہب کے مابین ہم آہنگی کا ذریعہ بنانے کا ارشاد فرمایاہے۔ حضور امن عالم کے علمبردار ہیں کیونکہ یہی اسلام کا اصل پیغام ہے۔

بعد ازاں سیکرٹری صاحب امور خارجیہ نے وزیر اعظم برطانیہ رشی سونک کا تہنیتی پیغام پڑھاجس میں اس بات کا ذکر تھا کہ یہ بہت زبردست امر ہے کہ جماعت احمدیہ عالمگیر یہ تقریب منعقد کر رہی ہے۔ جماعت کی مساعی قابلِ ستائش ہے، جو عالگیر امن کو فروغ دے رہی ہے۔ اس موقع پر میری نیک تمنائیں آپ کے ساتھ ہیں۔

اس کے بعد محترم سیکرٹری صاحب امورِ خارجیہ نے بتایا کہ جن ممالک کے یہاں نمائندگان  موجود ہیں ان میں فلسطین، عراق، الجزائر، یمن، لٹویا، سیرالیون ، یوگنڈا ، بیلا روس ، کیوبا ، نائیجریا، گھانا، کینیڈا، جرمنی، بیلجیم، اٹلی ، فرانس، سپین، پورٹوریکو، آئس لینڈ، فن لینڈ، سویڈن، جاپان اور ناروے شامل ہیں۔

اس کے بعد ایم پی Ed Davey لیڈر آف لبرل ڈیموکریٹک پارٹی و وائس چیئر مین آل پارٹی پارلیمنٹری گروپ فار احمدیہ کمیونٹی نے اظہار خیال کیا۔ موصوف نے مسجد بیت الفتوح کی نو تعمیر شدہ عمارت پر مسرّت کا اظہار کیا۔ موصوف نے کہا کہ ابھی تین سال بعد پیس سمپوزیم ہو رہا ہے جو وقت کی اہم ضرورت ہے۔ جبکہ یوکرین کی جنگ جاری ہے۔ میں جانتا ہوں کہ حضور انور اس بارے دنیا کی راہنمائی فرما چکے ہیں۔

اگلے مقررایم پی Paul Scully نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میں اس تقریب میں شامل کرنے پر شکر گزار ہوں۔ میں کئی مواقع پر آپ کے پروگرام میں شامل ہوا ہوں اور نئی عمارت پر خوشنودی کا اظہار کیا۔

اس کے بعد Fleur Anderson جو پٹنی کی ممبر آف پارلیمنٹ ہیں کو اظہار خیال کا موقع ملا۔ آپ نے نئی عمارت پر مبارکباد پیش کی اور پاکستان میں جماعت احمدیہ کو درپیش مخالفت کا ذکر کیا۔ موصوفہ نے بتایا کہ ابھی حال ہی میں وہ ربوہ گئی تھیں جہاں جماعت کے مسائل کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔

احمدیہ مسلم پرائز برائے قیام امن

محترم امیر صاحب نے ۲۰۱۹ء اور ۲۰۲۲ء میں امن انعام حاصل کرنے والے افراد کا مختصر تعارف پیش کیا۔ حضور انور نے دونوں انعام وصول کرنے والوں کو انعامات سے نوازا۔

۲۰۱۹ء میں Barbara Hofmann اس انعام کے لیے نامزد ہوئی تھیں۔ انہوں نے Beira, Mozambique میں یتیموں کی فلاح وبہبود کے لیے اپنی زندگی وقف کر دی۔

محترمہ نے اپنے تہنیتی کلمات میں کہا کہ یہاں میں صرف میں نہیں بلکہ ہم ہیں۔ میں اس اعزاز کو اپنے لوگوں کے ساتھ بانٹتی ہوں ۔ میں ہر روز کچھ نہ کچھ سیکھتی ہوں۔ میں اس وقت دنیا کی سب سے بڑی یونیورسٹی میں پڑھ رہی ہوں جو کہ یونیورسٹی آف چلڈرن ہے۔ جہاں روزانہ کچھ نیا سیکھا جاتا ہے۔ میں نے کئی نازک مواقع دیکھے۔ ہم امن و بھائی چارا کی بات کرتے ہیں۔ لیکن ہم امن اس وقت تک نہیں دے سکتے جب تک کہ ہمارے اندر امن و بھائی چارا نہ ہو۔ ہمیں اپنے آپ سے شروع کرنا پڑے گا۔ اپنے چہرے کی جھریوں سے نہ ڈریں بلکہ خیال رکھیں کہ آپ کے دل پر جھریاں نہ پڑ جائیں۔

بعد ازاں محترم امیر صاحب ۲۰۲۲ء کے ۱۴ویں ایوارڈ برائے امن حاصل کرنے والے ڈاکٹرTadatoshi Akiba آف جاپان کا تعارف پیش کیا۔

حضو رانور نے ان کو انعام عطا فرمایا جس کے بعد موصوف نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس تقریب میں شامل ہونے پر شکر گزار ہیں۔ اور ایوارڈ کو ہیروشیما اور ناگاساکی کے متاثرین اور امن کے کارکنان کے نام کرتے ہیں۔ انہوں نے مذکورہ لوگوں کی طرف سے اس ایوارڈ کو قبول کیا۔ انہوں نے کہا کہ ناگاساکی پر بم گرایا گیا تھا لیکن یہ دنیا میں دوبارہ کبھی نہیں ہونا چاہیے۔ میں جماعت احمدیہ کو جانتا ہوں، آپ وہ پہلے ہیں جنہوں نے اس نیوکلیئر بم کی مخالفت کی۔

خطاب حضور انور

ٹھیک آٹھ بجے حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ منبر پر تشریف لائے۔ تعوذ اور تسمیہ کے بعد حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا معزز مہمانان!  السلام  علیکم و رحمة اللہ وبرکاتہٗ

سب سے پہلے مَیں آپ سب کا تہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ سب ہماری اس تقریب میں شرکت کےلیے تشریف لائے۔ گذشتہ برسوں  میں کورونا وبا کے باعث ہم اس  تقریب کا انعقاد نہیں کر  پارہےتھے  تاہم اب اس اعتبار سے نہایت خوشی اور مسرت کا موقع ہے  کہ ہم  اپنے نئے اور پرانے دوستوں کے ہم راہ آج اس تقریب میں شریک ہیں۔ آج امن کانفرنس کےساتھ مسجد بیت الفتوح کی تعمیرِنَو کا بھی موقع ہے اور اس طرح یہ دونوں تقاریب اکٹھی ہوگئی ہیں۔ مَیں آج مساجد کی اغراض و مقاصد  اور امن ِ عالَم کے قیام  اور اس کے طریق کے متعلق مختصراً کچھ ذکر کروں گا۔

حقوق اللہ بغیر ادائیگی حقوق العباد ہرگز ممکن نہیں۔حقیقی مؤمن وہی ہےجو امن کے ساتھ اپنے ماحول میں سلامتی کاعَلم بردار بنتے ہوئے  زندگی بسر کرے۔ ہم احمدی اس بات پر کامل اعتقاد رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے سیدنا حضرت اقدس مسیح موعودؑ کو اس بنیادی مقصد کے لیے مبعوث فرمایاتھا کہ آپؑ بنی نوع انسان کو اسلام کی حقیقی امن پسند تعلیمات کی طرف واپس لائیں۔ آپؑ نے ہمارے لیے اس بات کو بکلّی واضح فرمادیا ہے کہ خداتعالیٰ کی عبادت اور اس کے حقوق کی ادائیگی بنی نوع انسان کے حقوق کی ادائیگی کے ساتھ وابستہ اور پیوستہ ہے۔اسی مقصد کے تحت ہم ہرسال اس امن کانفرنس کا انعقاد کرتے ہیں اور یہی مساجد کے قیام کا بھی  بنیادی مقصد ہے تا خداکے حقوق اور بنی نوع انسان کے حقوق کی ادائیگی کا اہتمام ہوسکے۔قرآن کریم بھی یہی بات بیان فرماتا  ہے کہ وہ لوگ جو دوسروں کے حقوق کا خیال نہیں رکھتے ان کی عبادات اُن کے لیے ضرر اور نقصان کا ذریعہ ہیں۔ اسلام میں مساجد کے قیام کا وہی مقصد ہے کہ جس کےتحت کعبےکاقیام فرمایا گیا تھا۔قرآن کریم سے یہی علم ہوتا ہے کہ جو بھی اللہ تعالیٰ کے گھرمیں داخل ہوتا ہے وہ سلامتی اور امن میں داخل ہوتا ہے۔مساجد میں پنج وقتہ نمازوں کی ادائیگی  ہوتی ہے اور ان نمازوں کی ہر رکعت میں قرآن کریم کی پہلی سورة کی تلاوت کی جاتی ہے جس کی دوسری ہی آیتِ کریمہ میں ارشادِ ربّانی ہے کہ خداتعالیٰ رب العالمین ہے ۔ یعنی خدا تعالیٰ کی ربوبیت محض مسلمانوں تک محدود نہیں  بلکہ وہ تمام مذاہب سے تعلق رکھنے والی مخلوق   کا ربّ ہے ۔ خداتعالیٰ تمام بنی نوع کی ضروریات کواپنی  صفَتِ رحمانیت کے تابع پورا کرتا ہے۔ قرآن کریم کی ابتدا میں ہی خداتعالیٰ نے یہ بات بیان فرمادی ہے کہ وہ تمام مخلوقات کا ربّ ہے، وہ ان کی تمام ضروریات کا نہ صرف کفیل ہے بلکہ  وہ اُن کی کوششوں کو ثمر آور بھی فرماتا ہے۔اسلام کا پیش کردہ خدا وہ خدا ہے  کہ جس کی رحمت ہر ایک شئے پروسیع ہے۔

یہی وہ بنیادی مقصد ہے جو ایک حقیقی مسلمان کامطمح نظر ہونا چاہیے اور یہی  پیغام ہے جس کےپرچار کےلیےہر احمدی  کوشاں ہے۔ انیسویں صدی کے اواخر میں کہ جب سے جماعت احمدیہ کا قیام عمل میں آیا ہے تب سے اب تک ہم رواداری اور قیام امن کے بنیادی مقصد کے حصول کے لیے کوشاں اور سرگرمِ عمل ہیں۔

دنیا اس وقت ایک زبردست تباہی کے دہانے پر ہے۔  یہ ممکنہ تباہی محض آج کی نسل کےلیے ہلاکت خیز نہیں بلکہ آئندہ آنے والی نسلیں بھی اس   خوف ناک تباہی سے محفوظ نہ رہ سکیں گی۔پس!امن ہی وہ کنجی ہے جس کےذریعے معاشرے میں حقیقی خوش حالی  ممکن ہے یہی وہ راستہ  ہےجس کےذریعے ہم آنے والی نسلوں کی بقا اور فلاح کی ضمانت دے سکتے ہیں۔ افسوس! کہ آج کا انسان خدا سے دُور جانے کے سبب امن کی کوششوں کو سبوتاژ  کر رہا ہے۔  دنیا کی رنگینی کی لاحاصل کوششوں نے انسانیت  کو جنگ کے  دہانے پر پہنچادیا ہے اور یہ ہولناک منظر بیسویں صدی کی تباہ کُن جنگوں کی یاد دلا رہا ہے۔ جو مسلمان ظلم و بربریت کی راہ اختیار کرتےہیں اُن کا اسلام کی حقیقی تعلیمات سے کوئی تعلق نہیں، ان کی جتنی مذمت کی جائے وہ کم ہے۔   اسلام میں تو جنگ کی اجازت بڑےمخصوص حالات  میں دی گئی ہے۔جہاں مذہبی آزادی تلف کیےجانے کا خطرہ ہو  صرف وہاں جنگ کی اجازت ہے۔ اسلام کبھی بھی جارحانہ اوراپنی حدودکے پھیلاؤ کی خاطر  جنگوں کی اجازت نہیں دیتا۔قرآن کریم کی واضح ہدایت ہے کہ جب دو قومیں آپس میں جھگڑ پڑیں تو ان کی صلح کروانے کی کوشش کرو۔ اگر ظالم فریق باز نہ آئے تو اس پر حملے  کی اجازت ہے تاہم  جیسے ہی ظلم کا سلسلہ تھمے  جنگ روک دینے کی ہدایت ہے۔ قرآن کریم نے یہ ہدایت بھی فرمائی ہے کہ کسی قوم کی دشمنی بھی تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ  تم عدل و انصاف سے کام نہ لو۔پس اسلامی تعلیمات  کے تحت کسی قوم کی سالمیت اور خودمختاری پر حملہ نہیں ہونا چاہیے۔

چند دن پہلے ہی روس اور یوکرین کی جنگ  کو ایک سال مکمل ہوا ہے۔ بعض سیاست دانو ں کا کہنا ہے کہ جیسے ہی یہ جنگ اختتام پذیر ہو روس پر سخت ترین پابندیاں لگائی جائیں۔ ایک کالم نگار نے لکھا ہے کہ اس طرح کی باتیں امن کی کوششوں کو ضائع کرنے کے مترادف ہیں۔ امن کے لیے خلوص کے ساتھ کوشش کرنی چاہیے ورنہ اس جنگ کے بھیانک نتائج نکل سکتے ہیں۔ یہ وقت نہیں ہے کہ اس جنگ کو بھڑکانے والی کوششیں کی جائیں۔

حضورِانور نے فرمایا کہ میں ان کے خیال سے اتفاق کرتا ہوں۔ اسلام ہمیشہ امن کا راستہ دکھاتا ہے۔ آپس میں گفت و شنید کے راستے کھلے رکھنے چاہئیں۔ اگر کوئی ملک مسلسل جارحیت پر آمادہ ہو تو پھر اسلام اجازت دیتا ہے کہ مل کر اُس جارح کا ہاتھ روکا جائے اور امن کے قیام کی کوششیں کی جائیں۔ جس قوم کے خلاف کارروائی کی جائے گی تو پھر اُس میں بدلے کی آگ پیدا ہوسکتی ہے جس کے نتائج نقصان دہ ہوسکتے ہیں۔ یوکرین میں اس جنگ کے نتیجے میں مختلف دھڑے قائم ہورہے ہیں اور دونوں طرف سے غصہ والے بیانات دیے جارہے ہیں جو کہ جنگ میں مزید تیزی پیدا کرنے کا باعث ہوگا۔ اس لیے ہر جگہ سے اس جنگ کو روکنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ میڈیا کو بھی چاہیے کہ وہ مثبت انداز اختیار کرے اور اس جنگ کو روکنے میں اپنا کردار ادا کرے۔ اسی طرح مغرب کی جانب سے یوکرین میں جو ٹینک بھیجے جارہے ہیں اس کے نتیجے میں خدشہ ہے کہ اُس علاقے میں ایک بڑا حصہ قبرستان بن سکتا ہے۔ یورپ کو اس جنگ سے علیحدہ رہنا چاہیئے ورنہ انہیں بھی نقصان پہنچ سکتا ہے۔

ایک عالمی جنگ کے متعلق جو پیشگوئی کی جارہی تھی اس کے متعلق سائنسدان اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ اب اس میں بہت تھوڑا وقت رہ گیا ہے لٰہذا ضروررت اس بات کی ہے کہ اسلام کی تعلیم کو سمجھا جائے کیونکہ اسلام کہتا ہے کہ ظالم کے ہاتھ کو روکنا چاہیے ورنہ ظلم کی وجہ سے اُس کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ پس اگر اس بحران کو ختم نہ کیا گیا تو یہ جنگ دنیا کے لیے بھیانک نتائج پیدا کرے گی۔ اب بھی ممکن ہے کہ اس جنگ کو پُرامن طریقے سے ختم کیا جائے ورنہ یہ جنگ دوسرے براعظموں تک بھی پہنچ سکتی ہے۔ انتہائی افسوس کی بات ہے کہ بجائے جنگ کو ختم کرنے کے تیزی سے اس میں اضافہ کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ ہمیں آئندہ آنے والوں کے لئے زندگی کی اُمید چھوڑ کر جانا چاہیےنہ کہ تباہی و بربادی۔ اس زمانے میں اگر کسی قوم نےایک بھی ایٹم بم چلادیا تو دنیا میں بہت بڑی تباہی آجائے گی۔ ہمیں تو چاہیے کہ امن و سلامتی کے سفیر بنیں اور دنیا میں امن پھیلایا جائے۔ میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ لوگوں کو عقل دے اور وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق ایک دوسرے کے ساتھ پیار محبت اور امن کےساتھ رہنے والا سلوک کریں۔

اس کے بعد حضور انور نے دعا کروائی۔ جس کے بعد مہمانوں کی خدمت میں پُرتکلف عشائیہ پیش کیا گیا۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ مسجد بیت الفتوح کی تعمیرِ نو ہر لحاظ سے مبارک و بابرکت ہو اور دنیا تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی راہنمائی کو اپنا حرزِ جان بناتے ہوئے ہر قسم کی تباہی سے بچنے والی اور اپنے خالق و مالک کو پہچاننے والی بنے۔ آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button