متفرق مضامین

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے قبولیتِ دعا کے ایمان افروز واقعات (قسط دوم۔ آخری)

(ذیشان محمود۔ مربی سلسلہ سیرالیون)

ٹی بی سے شفایابی

مکرم محمد اقبال صاحب کنری ضلع عمر کوٹ لکھتے ہیں کہ’’خاکسار 2003ءماہ جنوری میں خدا کے فضل سے ربوہ گیا۔ خاکسار عرصہ دو سال سے کھانسی اور ٹی بی کے مرض میں مبتلا تھا جس کی وجہ سے بے حد کمزور اور لاغر ہو چکا تھا۔ چلنا پھرنا مشکل ہو گیا تھا۔ بدقسمتی یہ ہوئی کہ خاکسار نے نہ ہی ٹیسٹ کرائے تھے اور نہ ہی باقاعدگی سے دوائی لی تھی۔ کنری میں ڈاکٹر سے چیک کروایا تو ڈاکٹر نےکہاکہ آپ کی ٹی بی آخری سٹیج پر پہنچ چکی ہے۔ اس کے بعد خاکسار میرپور خاص ڈاکٹر عبدالمنان صدیقی صاحب کے پاس فضل عمر ہسپتال گیا، چیک اپ کروایا اور ڈاکٹر صاحب نے فرمایا آپ نے بڑی لاپرواہی کی ہے اور آپ نے اس بیماری کی طرف پوری توجہ نہ دی ہے انہوں نے دوا لکھ کر دی۔ خاکسار کے دل میں خیال آیا کہ میں ربوہ جاؤں اور میاں صاحب سے ملاقات کروں اور جوربوہ میں ڈاکٹر ہیں ان سے بھی چیک اپ کرواؤں۔ ربوہ میں خاکسار نے ایک ڈاکٹر صاحب کو چیک کروایا تو انہوں نے چیک کرنے کے بعد کہا کہ اقبال صاحب آپ نے علاج میں بہت سستی کی ہے۔ آپ دعا کریں میں دوائی دے دیتا ہوں اللہ تعالیٰ فضل کرے گا۔ میں چیک اپ کروانے کے بعد حضرت میاں صاحب کے پاس ملاقات کے لئے حاضر ہوا۔ میاں صاحب کو سب رپورٹس بتائیں۔ میری کیفیت کمزوری کی وجہ سے انتہائی جذباتی ہوگئی اور میاں صاحب کو عرض کیا کہ پتہ نہیں زندگی ہے کہ نہیں میں آپ سے ملنے آیا ہوں۔ ڈاکٹر صاحبان کے بقول خاکسار لاعلاج ہے میں جذباتی باتیں کر رہا تھا کہ آپ نے بڑے پیار اور شفقت سے فرمایا کہ کل ڈاکٹر نوری صاحب پنڈی سے ربوہ تشریف لا رہے ہیں وہ فضل عمر ہسپتال میں چیک کریں گے، آپ پرچی بنوا کر ان سے چیک کروالیں۔ خاکسار نے عرض کیا کہ ڈاکٹر نوری صاحب کے نام آپ اپنی کوئی پرچی دے دیں۔ آپ نے فرمایا کہ آپ ڈاکٹر صاحب کو صرف میرا حوالہ دیں میں ان کو کہہ دوں گا۔ اگلے روز خاکسار فضل عمر ہسپتال میں ڈاکٹر نوری صاحب کو چیک اپ کروانے گیا۔ وہاں کمرے میں ڈاکٹر نوری صاحب کے علاوہ دو اور ڈاکٹر صاحبان بھی تھے۔ میں کرسی پر بیٹھ گیا۔ ڈاکٹر صاحب میرے سامنے بیٹھے تھے انہوں نے بیٹھے بیٹھے ہی چیک کرنا شروع کر دیا۔ میں نے ان سے درخواست کی کہ میں منشی اقبال کنری سندھ سے آیا ہوں۔ مجھے میاں مسرور احمد صاحب نے فرمایا تھا کہ میرے نام کا حوالہ دے دیں۔ ڈاکٹر صاحب مسکراتے ہوئے فوراً اُٹھ کر کھڑے ہو گئے اور چیک اپ کیا۔ انہوں نے چیک کرنے کے بعد ایک سال کی دوائی لکھ کر دی اور فرمایا کہ ہر تین ماہ بعد چیک اپ کرواتے رہنا اللہ تعالیٰ فضل کرے گا۔ خاکسار بہت زیادہ مایوس تھا۔ چیک اپ کروانے کے بعد میںمیاں صاحب کے پاس دفتر حاضر ہوا تو میاں صاحب نے تفصیل پوچھی جو خاکسار نے بتادی۔ میاں صاحب غسل خانے میں وضو کرنے کے لئے تشریف لے گئے۔ نماز ظہر کا وقت ہو چکا تھا۔ وضو کر کے جب آپ واپس آئے تو خاکسار نے عرض کیا کہ چیک اپ تو میں نے کروا لیا ہے آپ ڈاکٹر نوری صاحب سے پوچھ کر بتائیں کہ مجھے کینسر تو نہیں ہے کیونکہ آٹھ دس سال قبل خاکسار کثرت سے سگریٹ نوشی کرتا تھا۔ میاں صاحب نے فرمایا آپ فکر مت کریں آج رات ایک دعوت میں ڈاکٹر نوری صاحب سے ملاقات ہوگی میں آپ کا ذکر کروں گا۔ کل آپ گھر آکر مجھ سے پوچھ لینا۔ خاکسار اگلے روز شام کو میاں صاحب سے ملنے ان کے گھر گیا۔ میاں صاحب نے مجھے ابلے ہوئے دو انڈے اور ایک دودھ کا گلاس دیا اور کہنے لگے یہ کام آپ نے روزانہ کرنا ہے ایک اُبلا ہوا انڈہ روز استعمال کرنا ہے کہیں زیادہ انڈے نہ کھا لیں یرقان ہو جائے گا۔ میاں صاحب نے فرمایا میں نے ڈاکٹر نوری صاحب سے پوچھا تھا کہ کوئی کینسر تو نہیں ہے لیکن انہوں نے کہا ہے کہ بعض دفعہ بیماری بگڑ کر کینسر میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ میاں صاحب نے فرمایا کہ اقبال صاحب آپ کو فکر کرنے کی ضرورت نہیں آپ کی عمر ماشاء اللہ کافی ہے پچھتر سال سے اوپر ہی ہوگی۔ آپ فکر مت کیا کریں۔ خدا کے فضل سے خاکسار میاں صاحب کے لفظ سن کر پُرسکون ہو گیا۔ میں نے اُٹھتے ہوئے کہا کہ رات کو اکثر میرا سانس کھانسی کی وجہ سے اُکھڑ جاتا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ اس بیماری میں ایسا ہوتا ہے۔ آپ ایسا کریں کہ پانی گرم کر کے بھاپ لیا کریں اس سے سانس درست ہو جاتا ہے۔

یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل اور حضور انور کی دعاؤں کا نتیجہ ہے کہ خاکسار ٹی بی کی بیماری سے ایک سال کے اندر اندر ٹھیک ہو گیا۔(تشحیذ الاذہان سیدنا مسرور نمبر 2008ء صفحہ 38-40)

دیگر واقعات

غانا کی زمین سے تیل

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز جب 2004ء میں غانا تشریف لے گئے تو ایک موقع پر سفر کے دوران حضورنے اہل غانا کو بشارت دی کہ غانا کی زمین سے تیل نکلے گا۔

چنانچہ جب 2008ء میں حضورانور خلافت جوبلی کے موقع پردوبارہ غانا تشریف لے گئے تو غانا کے صدر مملکت نے ملاقات کے دوران حضور سے کہاکہ حضور کی ہمارے ملک کے لیے دعائیں قبول ہو رہی ہیں۔ حضور نے اپنے گذشتہ دورہ کے دوران فرمایاتھا کہ غانا کی زمین میں تیل ہے اور یہاں سے تیل نکلے گا۔ حضورانور کی یہ دعا بڑی شان سے قبول ہوئی اور گذشتہ سال غانا سے تیل نکل اۤیا۔

چنانچہ اس حوالہ سے غانا کے مشہور نیشنل اخبار Daily Graphic نے اپنے 17؍اپریل 2008ء کے شمارہ میں پہلے صفحہ پر حضورانور اور صدر غانا کی ملاقات کی رپورٹ شائع کرتے ہوئے لکھا: ’’خلیفۃ المسیح نے اپنے دورہ غانا 2004ءکے دوران غانا میں تیل کی دریافت پر بڑے پرزور طریق سے اپنے یقین کا اظہارکیاتھا اور یہی یقین گذشتہ سال حقیقت میں بدل گیا۔ اور غانا کی سرزمین سے تیل نکل اۤیا۔‘‘(الفضل۔ دعا نمبر۔ 28؍دسمبر2015ء صفحہ43تا45)

اسیروں کے لیے دعا

ایک عرب ملک میں ہمارے ایک نہایت مخلص نو مبائع عرب احمدی دوست کو پولیس نے محض اس جرم میں قید کرلیا کہ اس نے احمدیت قبول کی ہے۔ انہیں وزنی بیڑیاں ڈال کر جیل میں پھینک دیاگیا اور ضمانت منسوخ کردی گئی اور میل ملاقات بند کردی گئی۔ انتہائی ظالمانہ سلوک کیا گیا۔ کوئی مقامی وکیل کیس لینے کے لیے تیار نہ تھا۔ بظاہر رہائی کے تمام دنیاوی راستے بند دکھائی دے رہے تھے۔ لیکن حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ ان کی رہائی کے لیے مسلسل دعائیں کررہے تھے۔ ایک دن حضور نے فرمایا انشاء اللہ یہ رہا ہوجائیں گے۔ ایک طرف حضورکی دعا تھی تو دوسری طرف رہائی کے تمام ممکنہ راستے بند تھے۔

حضورانور کی قبولیت دعا کا نشان اس طرح ظاہر ہواکہ اس عرب ریاست کے بادشاہ نے ایک تقریب کے موقع پر بعض قیدیوں کی رہائی کا اعلان کیا تو ان رہا ہونے والے قیدیوں میں پہلانام ہمارے نومبائع احمدی اسیر کا تھا۔ یہ کیسے ہو اکوئی نہیں جانتا۔ لیکن ہم یہ جانتے ہیں کہ خلیفہ کے لب سے یہ الفاظ نکلے تھے کہ انشاء اللہ یہ رہا ہوجائیں گے۔

عظیم نشانات عظیم اخلاص کو چاہتے ہیں۔ اس عرب دوست کے لیے خلیفہ وقت کی قبولیت کا یہ نشان یونہی ظاہر نہیں ہوا بلکہ اس کی وجہ ان کا خلیفۃ المسیح سے اخلاص اور تعلق وفا تھا۔جب انہیں جیل میں ڈالاگیاتو باربار کہاگیا کہ احمدیت سے دستبردار ہوجائیںتو رہاکردیے جاویں گے۔ لیکن ان کا جواب تھا ’’میں جان دے دوں گا لیکن احمدیت نہیں چھوڑوں گا۔‘‘

اس عرب دوست نے جیل سے خلیفۃ المسیح کی خدمت میں لکھا کہ ’’میرے علاقہ میں نو پہاڑ ہیں اور اس علاقے کا دسواں پہاڑ میں ہوں۔ کوئی دھمکی کوئی لالچ میرے ایمان کو متزلزل نہیں کرسکتی۔‘‘

پس ان کا یہی اخلاص تھاکہ خلیفہ وقت کی دعا ان کے حق میں مقبول ہوئی اور اۤسمان سے خدا کی تقدیر نے اس بادشاہ کے قلم سے سب سے پہلے اس نو احمدی عرب کا نام لکھوایا اور سارے دنیوی راستے بند ہونے پر اس معصوم کی رہائی کے اۤسمان سے سامان پیدا فرما دیے۔(الفضل۔ دعا نمبر۔ 28؍دسمبر2015ء صفحہ43-45)

شادی اور ویزہ کا حصول

مکرمہ ریم شریقی صاحبہ لکھتی ہیں:’’اپریل 2008ءمیں مکرم محمد شریف عودہ صاحب کے ذریعہ ایک رشتہ بھجوایا گیا اورنہ جانے کس طرح اس قدر اۤسانی کے ساتھ میرے والدین بھی راضی ہوگئے اور حضور انورنے شفقت فرمائی اور خلافت جوبلی کے سال جلسہ سالانہ برطانیہ کے موقعہ پر ہمارے نکاح کا اعلان فرمایا۔

اس وقت میرے خاوند اور ان کے گھر والے ہالینڈ سے بیلجیئم میںشفٹ ہو چکے تھے۔ میںنے حضور انورکی خدمت میںدعا کے لئے لکھا کہ میرا بیلجیئم میں اۤنا اۤسان ہوجائے۔حضور انور کی طرف سے جو جواب مجھے موصول ہوا اس میں لکھاہوا تھاکہ اللہ تعالیٰ خارق عادت طورپر اۤپ کے سفر میں سہولت پیدا فرمادے اور ویزا کے حصول کو اۤسان بنا دے۔ میں نے اپنے نکاح کی بناءپر بیلجیم کے سفارتخانے میں اپنے خاوند کے پاس مستقل طور پر جا کر رہنے کے لئے اپلائی کیا تو انہوںنے نہ مجھ سے انٹرویو کیا، نہ ہی ڈچ زبان کا امتحان لیا بلکہ مجھے یہ کہا کہ تین دن بعدہمیں ملیں۔ جب میںتین دن بعد گئی تو انہوںنے بغیر کسی سوال کے ویزا میرے سپرد کردیا۔ اوریوں حضور انورکی دعا کے عین مطابق خارق عادت طور پر اۤسانیاں پیدا ہوگئیں۔اور میں اپریل 2009ءمیںبیلجیئم اۤگئی۔‘‘

(صلحائے عرب اورابدال ِشام صفحہ 407-408)

تین سال کا ویزہ مل گیا

مکرم انیس احمد ندیم صاحب جاپان لکھتے ہیں:’’مکرم ظفر احمد ظفری صاحب قائد مجلس ناگویا نے مجھے بتایا: ملاقات کے دوران حضور انور ایدہ اللہ نے حال احوال پوچھا، بچوں کو تحائف دیے کئی دعائیں اور التجائیں میرے دل میں تھیں لیکن عرض نہ ہو سکیں آخر اُس وقت جب پیارے آقا کے ساتھ تصویر بنانے کا موقع ملا تو اس دوران عرض کر دیا کہ حضور دعا کریں کہ میرے ویزے کا مسئلہ حل ہو جائے۔ حضور انور ایدہ اللہ کے مبارک لبوں سے نکلی ہوئی دعا اللہ تعالیٰ کی قدرت اور قبولیت دعا کا عجیب نشان بن گئی کہ ویزہ کے سلسلہ میں دس بارہ سال سے مشکل کا شکار تھے۔ ایک سال کا ویزہ ملتا اور اگلے سال دوبارہ کوشش کرنی پڑتی اور عجیب بے یقینی کی کیفیت تھی لیکن اس دفعہ بھی اپلائی کیا ہوا تھا۔یہی توقع تھی کہ حسب سابق سلوک ہوگا لیکن وہ بیان کرتے ہیں کہ ہماری حیرانگی کی انتہا نہ رہی جب ہم نے دیکھاکہ آئندہ تین سال کے لئے ہمیں جاپان کا ویزہ مل گیا ہے۔ مجھے دعا کی وہ درخواست یا د آگئی اور قبولیت دعا کے اس اعجاز پر ہم نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا۔‘‘(تشحیذ الاذہان سیدنا مسرور نمبر 2008ءصفحہ 206)

اعجازدستِ دعائے خلافت

مکرم مازن خبازصاحب مزید بیان کرتے ہیں کہ میری شادی کو پانچ سال گزر چکے تھے لیکن اولادکی نعمت سے محروم تھا۔میڈیکل رپورٹس کے مطابق استقرار حمل میںکوئی مشکل تھی۔ جب میںنے جملہ تفاصیل پر مبنی خط حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کی خدمت میں ارسال کیا اوردعا کی درخواست کی تو حضور انور نے دعا کے ساتھ ساتھ ہومیوپیتھی دوا بھی ارسال فرمائی۔کہاں ہم نے پانچ سال اس نعمت سے محرومی میںگزار دیے تھے اور کہاں خلیفہ وقت کی دعاؤں سے یہ ہوا کہ اسی سال اللہ تعالیٰ نے ہمیں بیٹی عطا فرمائی۔فالحمد للہ علی ذلک۔

پہلی بیٹی کے بعد دوسری بیٹی کی پیدائش ہوئی اور پھر اللہ تعالیٰ نے تیسری بیٹی عطا فرمائی۔ میری بیوی کی شدید خواہش تھی کہ ہمیں اللہ تعالیٰ اولاد نرینہ کی نعمت سے بھی نوازے۔چنانچہ اس نے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میںدعا کا خط لکھ دیا۔حضور انورکی طرف سے دعائیہ جواب موصول ہوا کہ اللہ تعالیٰ اۤپ کو اولاد نرینہ عطا فرمائے چنانچہ اس دعا کی قبولیت کا معجزہ بھی ہم نے اپنی اۤنکھوںسے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں بیٹے کی نعمت سے بھی نواز دیا۔فالحمدللہ ربّ العالمین۔(صلحائے عرب اورابدال ِشام صفحہ450)

ویزہ مل گیا

مکرم شاہد محمود احمد صاحب مربی سلسلہ تحریر کرتے ہیں:’’خاکسار کے دو بھائی امریکہ میں مقیم ہیں۔ میرے والد صاحب مکرم چوہدری حبیب اللہ صاحب اپنے دونوں بچوں کے پاس امریکہ جانے کے خواہش مند بھی تھے لیکن ویزا نہ ہونے کی وجہ سے یہ خواہش پایہ تکمیل تک پہنچتے ہوئے نظر نہ آتی تھی۔ کسی بھی ملک کا ویزہ (سوائے قادیان کے) والد صاحب کے پاس اس سے قبل نہ تھا کہ امریکہ کے ویزہ کے حصول میں سہولت ہوسکتی۔ خاکسار نے ایک ویزہ کنسلٹنٹ سے بات کی تو انہوں نے بتایا کہ بغیر سپانسر لیٹر کے آپ کے والد صاحب کی درخواست ویزہ قبول نہ ہوگی۔ اُدھر امریکہ کے جلسہ سالانہ کا وقت قریب آ رہا تھا اور یہ بھی خیال تھا کہ حضور انور جلسہ سالانہ امریکہ 2006ءمیں تشریف لائیں گے اور اگر سپانسر کا انتظار کیا جائے تو جلسہ سالانہ امریکہ کا وقت نکل جائے گا یہ سب سوچتے ہوئے خاکسار نے والد صاحب کا امریکہ کے ویزہ کے لیے فارم بھرا اور USA ایمبیسی بھجوا دیا۔ اس کے ساتھ ہی والد صاحب نے حضور انور کی خدمت میں دعائیہ فیکس بھی کر دی۔ جس پر حضور کا جواب تھا کہ خداتعالیٰ ویزہ کی تمام رکاوٹیں دور فرمائے۔ اس خط کا جواب پڑھتے ہی خاکسار کے دل میں یہ بات جم گئی کہ والد صاحب کو اب ویزہ ضرور مل جائے گا۔ انشاءاللہ۔

USA ایمبیسی اسلام آباد نے انٹرویو کے لیے 25؍ ستمبر کی تاریخ دی جو جلسہ سالانہ امریکہ 2006ء کے 22 روز بعد کی تھی اور باوجود یہ کہ application فارم میں بچوں کی ملاقات کے علاوہ جلسہ سالانہ امریکہ میں شمولیت اور حضور انور سے ملاقات کی خواہش کا ذکر بھی کیا گیا تھا اور انٹرویو تک جلسہ بھی گزر چکا ہوا تھا۔ اور کوئی سپانسر وغیرہ بھی نہ تھا۔ پھر بھی خداتعالیٰ نے حضور انور کی دعا کو قبول فرمایا اور ویزہ کی تمام رکاوٹیں دورکردیں اور والد صاحب کو امریکہ کا پانچ سال کا ویزہ مل گیا۔(تشحیذ الاذہان سیدنا مسرور نمبر 2008ء صفحہ 145تا150)

قادیان سے لائیو ٹرانسمیشن

برہان احمد ظفر صاحب قادیان سے لکھتے ہیں کہ ’’حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 2005ء کے جلسہ سالانہ قادیان میں شامل ہونے کا جب ارشاد فرمایا تو اس خوشخبری کے ساتھ ہی قادیان سے پورے جلسہ کو MTA پر Live نشر کرنے کی غرض سے کوششیں شروع ہوگئیں۔ہندوستان سے UPLINKکرنے والی کمپنیوں سے رابطہ کیا گیا اور بہت جلد ہی ہمارا N.S.T.P.L والوں سے معاہدہ ہو گیا جو کہ JAIN T.V والوں کے توسط سے کام کرتے ہیں۔

پروگرام کرنے کے سلسلہ میں سب سے اہم مرحلہ Broadcasting منسٹری سے اجازت حاصل کرنا تھا۔ اس غرض کے لئے ماہ جولائی میں ہی درخواست کر دی گئی اور اجازت حاصل کرنے کی مسلسل کوشش کی جاتی رہی۔ انتہائی کوشش کے باوجود وہ دن آ پہنچا جب حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز دہلی تشریف لے آئے۔ بڑی فکر مندی تھی کہ آخر جلسہ سالانہ قادیان کس طرح Live دکھایا جائے گا اور حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے قادیان روانہ ہونے میں صرف ایک دن باقی تھا اور ابھی تک اجازت نامہ ہاتھ نہ آیا تھا اور نہ ہی کوئی امید دکھائی دیتی تھی۔ اِس پر محترم اجے جین صاحب جو کہ Jain T.V والوں کی طرف سے کام کر رہے تھے، نے مشورہ دیا کہ اب صرف ایک ہی صورت نظر آتی ہے کہ ہم JAIN T.V والوں کو کہیں گے کہ وہ اپنے لائسنس پر ہمارا پروگرام UPLINK کریں اور وہاں سے اُن کے تعاون سے MTA پر ایک لائن ڈال کر Live کر دیا جائے کہ یہ JAIN T.V کے تعاون سے دکھایا جا رہا ہے۔ اس صورت کے سوا کوئی صورت نہ تھی۔

جب حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں یہ معاملہ رکھا گیا تو خاکسار کو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے طلب فرمایا۔ بڑی پریشانی تھی۔ 14؍دسمبر کا دن تھا اور 15؍دسمبر کو حضور انور قادیان تشریف لے جا رہے تھے۔ 16؍دسمبر کو پہلا خطبہ جمعہ قادیان سے Live نشر ہونا تھا۔ جب خاکسار دعا کرتا ہوا حضور انور کی خدمت میں پیش ہوا تو حضور نے فرمایا کہ میں اس وقت تک قادیان نہ جاؤں جب تک پروگرام Live کرنے کی اجازت نہیں ہو جاتی۔ اور فرمایا کہ دعا بھی کریں اور ساتھ کے ساتھ رپورٹ دیتے جائیں۔

حضور انور ایدہ اللہ نے دعا کے ساتھ خاکسار کو رخصت کیا۔ میری پریشانی کا جو عالم تھا وہ میں ہی جانتا تھا یا میرا خدا۔خاکسار دعاؤں کے ساتھ جب مشن ہاؤس سے روانہ ہو کر Jainوالوں کے دفتر پہنچا تو وہ بھی میری پریشانی کو جان گئے اور بس یہ امید دلانے لگے کہ پروگرام ہر صورت میں ہوگا۔ اس پر وہاں بیٹھ کر ہی جین ٹی وی والوں کا توسط اختیار کرنے کے لئے معاہدہ وغیرہ لکھنا شروع کیا اور منسٹری کے لئے بھی ایک خط لکھا کہ ہم جین والوں کے توسط سے پہلا پروگرام دکھائیں گے۔

اسی دوران خاکسار نے ہوم منسٹری میں جناب L.C. Goel صاحب سے بات کی کہ ہمارا پروگرام ہونے میں صرف ایک دن باقی ہے ہماری اجازت کی کارروائی کہاں تک پہنچی ہے۔ اس پر موصوف نے کہا کہ آپ اس سلسلہ میں رنجنی کمار سے بات کریں۔ موصوف INSAT ڈپٹی ڈائریکٹر ہیں۔ جب خاکسار نے اُن سے بات کی تو اُنہوں نے یہ خوشخبری سنائی کہ ہوم منسٹری سے ہمیں فون آ گیا ہے کہ اجازت دے دی جائے اور ابھی اُن کی طرف سے چٹھی نہیں آئی ہے۔ چٹھی کے آنے پر کارروائی ہوگی۔ خاکسار نے جب یہ بات سنی تو خدا کی حمد سے میری آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے کہ سبحان اللہ خلیفہ وقت کی دعاؤں اور توجہ میں کیا اثر ہے کہ جس کی دو گھنٹہ پہلے تک کوئی امید نہ تھی وہ ایک توجہ کے نتیجہ میں کام ہو گیا۔ الحمدللہ ثم الحمدللہ!

خاکسار نے یہ خوشخبری تین بجے شام کے وقت بذریعہ فون ایڈیشنل وکیل المال صاحب لندن کو دی جو کہ حضور انور کے ساتھ ہی لال قلعہ گئے ہوئے تھے۔ موصوف نے حضور انور کی خدمت میں یہ خوشی کی خبر پہنچائی۔ شام پانچ بجے کے قریب INSAT میں اجازت نامہ دینے کی چٹھی بھی آ گئی۔ جس پر 14؍دسمبر2005ء کی تاریخ درج تھی اور بفضلہ تعالیٰ مورخہ 15؍دسمبر 2005ء کو ہمیں اجازت نامہ حاصل ہو گیا۔ اجازت نامہ ملنے میں جن دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا، حضور انور نے بھی اس سلسلہ میں اپنے خطاب میں ذکر فرمایا تھا۔ الغرض 16؍ دسمبر کا مبارک دن ہے کہ جس دن ایک غیر معروف بستی قادیان سے خلیفہ وقت کی آواز ساری دنیا کوبراہِ راست سنائی دی۔ یہ ساری جماعت احمدیہ کے لئے ایک خوشی کا موقعہ تھا۔ گویا جماعت کے لئے عید کا دن کہ خداتعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مسکن کو ساری دنیا کی توجہ کا مرکز بنا دیا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے قادیان سے جلسہ سالانہ کے تینوں دنوںکا پروگرام Live نشر ہوا اسی طرح حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے پانچ خطبات جمعہ اور ایک عید کا خطبہ Live نشر ہوا۔

پس اس لحاظ سے 2005ء کا سال جماعت احمدیہ کے لئے اور پھر قادیان والوں کے لئے بے شمار رحمتوں اور برکتوں کو لے کر آیا۔‘‘(سوونیئر جلسہ سالانہ قادیان 2005ء شائع کردہ نظارت نشرواشاعت قادیان)

بیٹے کی کامیابی

مکرم محمد اقبال صاحب کنری ضلع عمر کوٹ لکھتے ہیں کہ’’خاکسار کا بیٹا عزیزم…جامعہ احمدیہ ربوہ میں زیر تعلیم تھا اور پڑھائی میں کمزور تھا۔ ایک بار خاکسار اپنے بیٹے کو لے کر محترم ناظر صاحب اعلیٰ کے دفتر میاں صاحب کے پاس حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میرے بیٹے کو سمجھائیں کہ یہ واقف زندگی ہے اس نے خود زندگی وقف کی ہے یہ پڑھائی میں کمزور ہے۔ آپ اس کے لئے دعا کریں۔ خاکسار اس بچے کو آپ کے سپرد کرتا ہے کہ آپ اس کی تعلیم کی نگرانی فرمائیں تو یہ مجھ پر احسان عظیم ہوگا۔ آپ نےعزیزم …کو کہا کہ آئندہ آپ نے مجھ سے ملتے رہنا ہے اور ہر ماہ اپنی تعلیم کی رپورٹ دینی ہے۔ دو تین ماہ بعد خاکسار جب دوبارہ ربوہ گیا اور اپنے بیٹے کو کہا کہ جب آپ میاں صاحب سے ملتے ہیں تو میاں صاحب کیا فرماتے ہیں؟ بیٹے نے مجھے کہا کہ میاں صاحب نے فرمایا ہے کہ روزانہ کم از کم دو نفل ضرور پڑھا کرو اور روحانی خزائن کا مطالعہ سونے سے پہلے کیا کرو۔ ہر ماہ کوشش کر کے جیب خرچ سے ایک کتاب خریدا کرو۔ اس ضمن میں ایک واقعہ لکھنا ضروری سمجھتا ہوں جو کہ میاں صاحب کے خلافت کے منصب پر فائز ہونے کے بعد کا ہے۔ جلسہ سالانہ برطانیہ 2003ء میں خاکسار کو شمولیت کا موقع ملا۔ خاکسار نماز پڑھنے بیت الفضل کی طرف جا رہا تھا کہ راستہ میں … پرنسپل جامعہ احمدیہ ربوہ ملے۔ خاکسار نے سلام عرض کیا۔ مصافحہ اور معانقہ کیا اور خلافت کی مبارکباد دی۔ آپ نے فرمایا آپ کا بیٹا محمود احمد انجم بڑا خوش نصیب ہے جس کی نگرانی پیارے آقا خلافت سے پہلے کرتے تھے اور مجھ سے رپورٹ لیتے رہتے تھے۔ یہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور حضور کی دعاؤں سے ہی جامعہ میں کامیاب جا رہا ہے۔ میں اور میرا بیٹا کس قدرخوش نصیب ہیں کہ پیارے آقا کی خلافت سے پہلے اوربعدکی دعائیں ساتھ ہیں۔ اللہ تعالیٰ محض اپنے فضل سے حضور کو صحت والی لمبی عمر عطا فرمائے۔(تشحیذ الاذہان سیدنا مسرور نمبر 2008ء صفحہ 37)

دھوپ نکل اۤئی

مکرم راجہ نصیر احمد صاحب بیان کرتے ہیں:’’کوٹلی میں متبادل جلسہ سالانہ تھا۔ وہاں جانے سے قبل اس جلسے کی کامیابی کے لیے میں نے حضور انور ایدہ اللہ کو فیکس کی ان دنوں بارشوں کا موسم تھا اور بہت بارشیں ہو رہی تھیں جلسہ سے ایک دن پہلے بھی بارش ہوئی تھی۔ جس دن جلسہ ہونا تھا اس دن بھی بارش ہورہی تھی۔ میں نے حضور انور کو دعائیہ فیکس کی۔ مسلسل بارش ہورہی تھی۔ ہم نے جلسے کا اۤغاز کر دیا۔ کچھ دیر بعد دھوپ نکل اۤئی اور سارے جلسے کے دوران دھوپ نکلی رہی پھر جب جلسے کا اختتام ہواتو بارش دوبارہ شروع ہوگئی۔ جلسے کے دوران موسم بالکل ٹھیک رہا۔ ہم سب بڑے حیران تھے۔ یہ سب حضور انور کی دعا ہی کی برکت تھی۔‘‘(تشحیذ الاذہان سیدنا مسرور نمبر 2008ءصفحہ 147)

یکدم بارش تھم گئی

2004ء میں افریقہ کے دورہ کے دوران جب حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنائیجیریا سے بینن پہنچے اور مشن ہاؤس اۤمد ہوئی تو عصر کا وقت تھا۔ موسلا دھار بارش ہورہی تھی۔ نماز کے لیے صحن میںمارکی لگائی گئی تھی جو چاروں طرف سے کھلی تھی اور بارش کی وجہ سے وہاں نماز پڑھنا محال تھا۔ بلکہ کھڑا ہونا بھی مشکل تھا۔

حضورباہر تشریف لائے اور نماز کے بارے میں دریافت فرمایا۔ امیرصاحب نے عرض کیاکہ اس وقت تو شدید بارش ہے اور نماز کے لیے باہر مارکی لگائی ہوئی ہے لیکن بارش کی وجہ سے مشکل ہورہی ہے۔

حضورانور نے اۤسمان کی طرف نظر اٹھائی اور فرمایا دس منٹ بعد نماز پڑھیں گے۔ اس کے بعد حضورانور اندر تشریف لے گئے۔ ابھی دو تین منٹ ہی گزرے تھے کہ یکدم بارش تھم گئی۔ اۤسمان صاف ہوگیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے دھوپ نکل اۤئی اور اسی مارکی کے نیچے نماز کا انتظام ہوگیا۔ مقامی احباب اس نشان پر بہت حیران ہوئے کہ یہاں بارش شروع ہوجائے تو کئی کئی گھنٹے جاری رہتی ہے۔ حضورنے دس منٹ کہا تو یہ تین منٹ میں ہی ختم ہوگئی اور نہ صرف ختم ہوئی بلکہ بادل بھی غائب ہوگئے۔

اسی طرح کینیڈا کے دورہ کے دوران جب کیلگری کی مسجد کا سنگ بنیاد رکھا جانا تھا تو ایک دن قبل امیرصاحب کینیڈا نے حضورانور کی خدمت میں عرض کیا کہ موسمی پیشگوئی کے مطابق کل یہاں کا موسم شدید خراب ہے۔بڑی شدید بارش ہے اور طوفانی ہوائیں ہیںاور کل صبح مسجد کا سنگ بنیاد ہے۔ مہمان بھی اۤرہے ہیں۔ امیرصاحب نے دعا کی درخواست کی۔

اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے کچھ دیر توقف فرمایا اور پھر فرمایا:’’ جس مسجدکا سنگ بنیاد ہم رکھنے جارہے ہیں وہ بھی خدا کا ہی گھر ہے اور موسم بھی خداکے ہاتھ میں ہے۔ اس لئے اس کو خدا پر چھوڑ دیں۔ اللہ فضل فرمائے گا۔‘‘

چنانچہ اگلے روز صبح بارش کا کوئی نام و نشان نہیں تھا۔ بڑا خوشگوار موسم تھا۔ سنگ بنیاد کی تقریب ہوئی۔ قریباً دو گھنٹے کا پروگرام تھا۔ تقریب سے فارغ ہوکر حضورانور واپسی کے لیے جب اپنی کار میں بیٹھے تو کار کا دروازہ بند ہوتے ہی اچانک شدید بارش شروع ہوگئی اور ساتھ تندوتیز ہوائیں چلنے لگیں جو پھر مسلسل تین چار گھنٹے جار ی رہیں۔ تویہ ایک نشان تھا جو حضورانور کی دعاسے وہاں ظاہر ہوا اور ہرشخص کا دل اس نشان کو دیکھ کر اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ ریز تھا۔(الفضل۔ دعا نمبر۔ 28؍دسمبر2015ء صفحہ43تا45)

خلفائے احمدیت کے قبولیت دعا کے ان ایمان افروز واقعات کو سننے کے بعد ہر دل میں یہ خواہش جنم لے گی کہ ہمارے لیے بھی خلیفہ وقت کی دعاؤں سے معجزات رونما ہوں۔ چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع نے ایسی خواہشات کی تکمیل کے لیے ایک نسخہ بتایا ہے حضور ؒفرماتے ہیں:’’جو لوگ محض دعا کے لئے لکھتے ہیں اور اخلاص کا تعلق نہیں رکھتے ان کے حق میں نہ دعا قبول ہوئی اور نہ اۤئندہ ہوگی۔ اسی کے لئے قبول کی جائیں گی جو خاص اخلاص کے ساتھ دعاکے لئے لکھتاہے اور اس عہد پرقائم ہے کہ جو نیک کام اۤپ مجھے فرمائیں گے اس میں اۤپ کی اطاعت کروں گا‘‘۔

اس لیے اگر اۤپ چاہتے ہیں کہ اۤپ کے حق میں خلیفہ وقت کی دعائیں قبول ہوں تو اپنے پیارے امام کے ساتھ اخلاص و وفا اور محبت اور اطاعت کا ایسا تعلق استوار کریں جس کی دنیاوی رشتوں میں نظیر نہ ملتی ہو۔

پس اۤئیے! ہم اس محبت اور وفا اور اخلاص کو بڑھاتے چلے جائیں۔ تاہم اۤفاق میں بھی خدا کے نشانات دیکھیں اور اپنے نفوس میں بھی ایسے معجزات کے گواہ بن جائیں۔ اللہ کرے ایسا ہی ہو۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button