متفرق مضامین

مسئلہ ظل وبروز کی حقیقت (قسط5)

(رحمت اللہ بندیشہ۔ استاد جامعہ احمدیہ جرمنی)

(گذشتہ سے پیوستہ )شاہ ولی اللہؒ ایک انتہائی لطیف کیفیت کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ’’میں نے دیکھا کہ رسول اللہﷺ کی مثالی صورت میرے سامنے سے غائب ہوگئی اور اس کی بجائے آپ کی روح کی حقیقت ان تمام لباسوں سے جو اس نے پہن رکھے تھے، یہاں تک کہ تسمے کے بعض اجزاء سے بھی منزہ اور مجرد ہوکر میرے سامنے تجلی پذیر ہوئی۔ اس وقت میں نے آپؐ کی روح کو اسی طرح پایا جس طرح میں نے بعض اولیائے متقدمین کی ارواح کو دیکھا تھا۔ اور اس کے بعد خود میری روح سے آپؐ کی روح سے ملتی جلتی ایک مجرد صورت ظاہر ہوئی۔ اور اس وقت میں نے اس قدر جذب وشوق، اور رفعت وبلندی کا مشاہدہ کیا کہ زبان اس کو بیان نہیں کر سکتی۔‘‘(فیوض الحرمین (اردو )از شاہ ولی اللہ ترجمہ محمد سرور صفحہ157)رسول کریمﷺ کی شان کے ظہور کی صورت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ’’میں نے دیکھا کہ نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرف اللہ تعالیٰ کی ایک خاص نظر ہے۔ اور گویا یہی وہ نظر ہے جو حاصل مقصود ہے آپؐ کے حق میں اللہ تعالیٰ کے اس قول کا کہ ’’اگر تو نہ ہوتا تو میں افلاک کو پیدا ہی نہ کرتا‘‘یہ معلوم کرکے میرے دل میں اس نظر کے لئے بڑا اشتیاق پیدا ہؤا۔ اور مجھے اس نظر سے محبت ہوگئی۔ چنانچہ اس سے یہ ہؤا کہ میں آپؐ کی ذات اقدس سے متصل ہو اور آپؐ کا اس طرح سے طفیلی بن گیا جیسے جوہر کا عرض طفیلی ہوتا ہے۔ غرضیکہ میں اس نظر کی طرف متوجہ ہوا اور میں نے اس کی حقیقت معلوم کرنی چاہی۔ اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ میں خود اس نظر کا محل توجہ اور مرکزبن گیا۔ اس کے بعد میں نے دیکھا تو معلوم ہؤا کہ اللہ تعالیٰ کی یہ نظرِ خاص اس کے ارادۂ ظہور سے عبارت ہے۔ اور اس سلسلہ میں ہوتا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جب کسی شأن کو ظاہر کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو وہ اس شأن کو پسند کرتا اور اس پر اپنی نظر ڈالتا ہے۔ اب صورت یہ ہے کہ رسول اللہﷺ کی شأن ایک فردِ واحد کی شأن نہیں۔ بلکہ آپؐ کی شأن عبارت ہے ایک عام مبدائے ظہور سے جو تمام بنی نوع انسان کے قوالب پر پھیلا ہوا ہے۔ اور اسی طرح بنی نوع انسان کی حیثیت ایک اور مبدائے ظہور کی ہے جو تمام موجودات پر حاوی ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ نبیﷺ کل موجودات کی غایت الغایات اور ظہورِ وجود کے نقاط کا آخری نقطہ ہیں۔ چنانچہ سمندر کی ہر موج کی حرکت اسی لئے ہے کہ آپؐ تک پہنچے۔ اور ہر سیلاب کو یہی شوق سمایا ہوا ہے کہ آپؐ تک اس کی رسائی ہو ۔تمہیں چاہیے کہ اس مسئلہ میں خوب غور وتدبر کرو۔ واقعہ یہ ہے کہ یہ مسئلہ بڑا ہی دقیق ہے۔‘‘ (فیوض الحرمین (اردو )از شاہ ولی اللہ ترجمہ محمد سرور صفحہ 187تا188)

آپ نے خلافت باطنی کا ذکر کیا جس میں قتال وغیرہ نہیں۔ مکی دور میں قتال نہیں تھا۔ اس لیے اس دور سے باطنی خلافت کے قواعد اور احکا م اخذ ہوتے ہیں۔ اس حوالے سے وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ’’خلیفہ باطن اور اس کے داعی اور سفیر میں فرق یہ ہے کہ خلیفہ باطن کے لئے ضروری ہے کہ وہ عالم ہو اور اس کے علم کا دائرہ وسیع ہو اور اسی طرح وہ وسیع الکلام بھی ہو اور جہاں تک داعی کا تعلق ہے۔ اس کے پاس تو خلیفہ باطن کی طر ف سے ایک لکھا ہوا دستور العمل ہونا چاہیے …خلافت باطنی میں جو داعی اور سفیر بھیجے جاتے ہیں اور ان کے متعلق جو قواعد واحکام ہیں، ان میں سے بیشتر قواعد واحکام کا ماخذ رسول اللہﷺ کا وہ طریق کار ہے جو ہجرت سے قبل مختلف قبائل کی طرف آپؐ کا اپنے داعی اور سفیر بھیجنے کا تھا تم اس چیز کو اچھی طرح سے سمجھ لو اور اس میں خوب تدبر کرو۔‘‘(فیوض الحرمین (اردو )از شاہ ولی اللہ ترجمہ محمد سرورصفحہ 239تا240)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :’’اب اس زمانہ میں جس میں ہم ہیں ظاہری جنگ کی مطلق ضرورت اور حاجت نہیں۔ بلکہ آخری دنوں میں جنگ باطنی کے نمونے دکھانے مطلوب تھے اور روحانی مقابلہ زیر نظر تھا …اس وقت جو ضرورت ہے وہ یقیناً سمجھ لو سیف کی نہیں بلکہ قلم کی ہے۔ ہمارے مخالفین نے اسلام پر جو شبہات وارد کئے ہیں اور مختلف سائنسوں اور مکائد کی رو سے اللہ تعالیٰ کے سچے مذہب پر حملہ کرنا چاہاہے۔ اس نے مجھے متوجہ کیا ہے کہ میں قلمی اسلحہ پہن کر اس سائنس اور علمی ترقی کے میدان کار زار میں اتروں اور اسلام کی روحانی شجاعت اور باطنی قوت کا کرشمہ بھی دکھلاؤں‘‘۔(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 58تا60ایڈیشن1984ء)

(۳)حضرت قطب العالم شیخ المشائخ شیخ محمد اکرم صابری صاحب الحنفی القدوسی امام مہدی کو آنحضرتﷺ کا بروز قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’محمد بود کہ بصورت آدم در مبداء ظہور نمود یعنی بطور بروز در ابتداء عالم،روحانیت محمد مصطفیٰ ﷺ در آدم متجلّی شد۔ وہم او باشد کہ در آخر بصورت خاتم ظاہر گردو یعنی در خاتم الولایت کہ مہدی است نیز روحانیت محمد مصطفی ﷺ بروز و ظہور خواہد کرد و تصرّفہا خواہد نمود‘‘(ترجمہ) وہ محمد ﷺ ہی تھے جنہوں نے آدم کی صورت میں دنیا کی ابتداء میں ظہور فرمایا یعنی ابتدائے عالم میں محمد مصطفیٰﷺ کی روحانیت بروز کے طور پر حضرت آدمؑ میں ظاہر ہوئی اور حضرت محمد مصطفیٰ ﷺہی ہوں گے جو آخری زمانہ میں خاتم الولایت امام مہدی کی شکل میں ظاہر ہوں گے یعنی محمد مصطفیٰ ﷺ کی روحانیت مہدی میں بروز اور ظہور کرے گی۔

(اقتباس الانوار صفحہ52مولفہ شیخ محمد اکرم صابری)

نیز لکھا ہے کہ بعضے بر آنند کہ روح عیسیٰ در مہدی بروز کند و نزول عبارت از ایں بروز است مطابق ایں حدیث’’لا مھدی الَّا عیسٰی ابن مریم‘‘(اقتباس الانوار صفحہ52مولفہ شیخ محمد اکرم صابری)ترجمہ : بعض کا یہ عقیدہ ہے کہ عیسیٰ ؑ کی روحانیت مہدی میں بروز (ظہور)کرے گی اور حدیث میں لفظ نزول سے مراد یہ بروز ہی ہے مطابق اس حدیث کے کہ نہیں ہے مہدی مگر عیسیٰ بن مریم۔

شیخ محمد اکرم صاحب کا چونکہ اپنا عقیدہ حیات مسیح کا ہےاور ان کے دنیا میں دوبارہ آمد کے قائل ہیں اس لیے انہوں نے خود اس قول کی تصدیق نہیں کی اور روایت کے ضعف کا ذکر کیا ہے۔ بہرحال اس حوالے سے اتنا تو پتا چلتا ہے کہ ایک فرقہ اسرائیلی مسیح کی دوبارہ آمد کا قائل نہیں تھا۔نیز موصوف اس امر کو تسلیم کر رہے ہیں کہ مسیح ناصری کی وفات اور مثیل مسیح کا عقیدہ امت محمدیہ میں موجود تھا۔ اور یہ عقیدہ ایک یا دو آدمیوں کا نہیں تھا بلکہ امت کا ایک گروہ اس عقیدہ کو مانتا تھا۔

(۴)حضرت خواجہ غلام فرید رحمۃ اللہ علیہ چاچڑاں شریف والے فرماتے ہیں:’’بروز یہ کہ ایک روح دوسرے اکمل روح سے فیضان حاصل کرتی ہے۔جب اس پر تجلیات کا فیضان ہوتا ہے تو وہ اس کا مظہر بن جاتی ہے۔اور کہتی ہے کہ میں وہ ہوں۔‘‘نیز حضرت خواجہ غلام فرید صاحب رحمۃ اللہ علیہ چاچڑاں شریف والے مزید بیان کرتے ہیں کہ’’ حضور حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ بارز ہیں۔ پہلی بارآپؐ آدم علیہ السلام میں بروز کیا ہے اور پہلے قطب حضرت آدم علیہ السلام ہوئے ہیں۔ دوسری بار حضرت شیث علیہ السلام میں بروز کیا ہے۔ اس طرح تمام انبیاء اور رسل صلوٰۃ اللہ علیہم میں بروز فرمایا ہے۔ یہاں تک کہ آنحضرت ﷺاپنے جسد عنصری (جسم)سے تعلق پیدا کر کے جلوہ گر ہوئے اور دائرہ نبوت کو ختم کیا۔ پھرحضرت ابو بکر صدیق ؓ میں بروز فرمایا۔ اس کے بعد حضرت عمر ؓ میں بروز فرمایا، پھر حضرت عثمان ؓ میں بروز فرمایا۔ اس کے بعد حضرت علی ؓ میں بروز فرمایا ہے۔ اس کے بعد دوسرے مشائخ عظام میں نوبت بنوبت بروز کیا ہے اور کرتے رہیں گے۔ حتی کہ امام مہدیؑ میں بروز فرماویں گے۔ پس حضرت آدم ؑ سے امام مہدی تک جتنے انبیاء اور اولیاء قطب مدارہوئے ہیں تمام روح محمدی ﷺ کے مظاہر ہیں اور روح محمدیؐ نے ان کے اندر بروز فرمایا ہے۔ پس یہاں دو روح ہوئے ہیں۔ ایک حضرت محمد ﷺ کی روح جو بارز ہے دوسری اس نبی یا ولی کی روح جو مبروز فیہ اور مظہر ہے۔‘‘(مقابیس المجالس المعروف بہ اشارات فریدی حصہ دوم صفحہ112,111 مؤلفہ رکن الدین صاحب مطبوعہ مفید عام پریس آگرہ 1332ھ زیر انتظام صوفی قادر علی خان)

(۵)شاہ محمد مبارک علی صاحب نے خزائن اسرار الکلم مقدمہ فی شرح فصوص الحکم میں یہ عنوان باندھا ہے’’اٹھارواں مراقبہ مسئلہ بروز اور تمثل کے بیان میں‘‘۔جس میں یہ لکھا ہے بروز کو تناسخ نہیں سمجھنا چاہیے۔یہ نہیں ہوتا کہ پرانی روح ایک نئے وجود میں آجائے، اسے تناسخ کہاجاتا ہے۔انہوں نے بات کھول دی ہے کہ بروز تناسخ نہیں…مثال …بروز کی مراد ایسی ہے جیسے ایلیاء کے دوبارہ آنے کاعقیدہ یہودیوںمیں رائج تھا۔جب یحیٰؑ آگئے تو صفات کے لحاظ سے ایلیاء کہلائے۔ایسا ہی عیسیٰ کا نزول ہوگا۔گویا ان کے نزدیک نہ وہی عیسیٰؑ بدن آخر میں حلول کریں گے۔بلکہ بصورت صفات جلوہ گر ہوں گے اور ان کے نزدیک صفات کی جلوہ گری یہ نہیں کہ تمام صفات میں ہو بلکہ چند صفات کی جلوہ گری بروز بنانے میں کافی ہے۔ حتیٰ کہ بعض اوقات ایک صفت کی وجہ سے بروز ہو جاتا ہے۔فرمایا ’’اور ایسا ہی حکم بروز ادریس علیہ السلام کا بنا مزد الیاس علیہ السلام کے۔اور نزول عیسیٰ علیہ السلام کا آسمان سے اور یہ کبھی بہ سبب غلبہ کسی ایک صفت کے ہوتا ہے۔ اور کبھی بغلبہ جمیع صفات کمالیہ کے۔ اس صورت میں کمال اتحاد مظہر کا بارز کے ساتھ ہوگا اور یہ قسم اعلیٰ مرتبہ بروز کا ہے۔‘‘(خزائن اسرار الکلم مقدمہ فی شرح فصوص الحکم صفحہ ۴۷ مصنفہ شاہ محمد مبارک علی صاحب حیدر آبادی)

(۶)حضرت شیخ احمد سرہندی المعروف مجدد الف ثانی ہیں۔ آپ کا مکمل نام شیخ احمد سر ہندی ابن شیخ عبد الاحد فاروقی ہے۔پیدائش26؍جون1564ءاوروفات10؍دسمبر 1624ءکو ہوئی۔ آپ دسویں صدی ہجری کے نہایت ہی مشہور عالم و صوفی تھے۔ آپ کو سلسلہ نقشبندیہ کی سربراہی بھی حاصل رہی اور آخری عمر تک دعوت وارشاد سے متعلق رہے۔ سرہند میں وفات پائی اور وہیں مدفون ہوئے۔بعض روایات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہر ہزار سال کے بعد تجدید دین کے لیے اللہ تعالیٰ ایک مجددمبعوث فرماتا ہے۔ چنانچہ علماء کا اتفاق ہے کہ دوسرے ہزار سال کے مجدد آپ ہی ہیں اسی لیے آپ کو مجدد الف ثانی کہتے ہیں۔یہی مضمون حضرت مجدد الف ثانی سرہندی رحمۃ اللہ علیہ نے بیان فرمایا ہے:’’کمل تابعان انبیاء علیھم الصلوۃ والتسلیمات بحجت کمال متابعت وفرط محبت بلکہ بمحض عنایت وموہبت جمیع کمالات انبیاء متبوعہ خود را جذب می نمایند وبکلیت برنگ ایشاں منصبغ می گردند حتی کہ فرق نمی ماند درمیان متبوعان وتابعان الا بالاصالت والتبعیتہ و الاولیتہ والا خریتہ (مکتوبات امام ربانی مکتوب نمبر 248 حصہ چہارم دفتر اول صفحہ49مطبوعہ مجددی پریس امرتسر )’’انبیائے علیہم الصلوٰۃ والسلام کے کامل تابعدار کمال متابعت اور زیادہ محبت کے باعث بلکہ محض عنایت و بخشش سے اپنے متبوع انبیاء کے تمام کمالات کو جذب کر لیتے ہیں اور پورے طور پر ان کے رنگ میں رنگے جاتے ہیں حتی کہ تابعوں اور متبوعوں (یعنی نبی اور امتی) کے درمیان سوائے اصالت اور تبیت( اصل اور تابع ) اور اولیت اور آخریت (اول اور آخر)کے کچھ فرق نہیں رہتا۔‘‘(اردو ترجمہ مکتوبات امام ربانی حضرت مجدد الف ثانی الشیخ احمد سرہندی دفتر اول صفحہ 568)

(۷)حضرت سیّد عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ اپنے آپ کو آنحضرت ﷺ کا بروز قرار دے کر کہتے ہیں۔ ھٰذَا وَجُودُ جَدِّیْ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَا وَجُودَ عَبْدِالْقَادِرِہ عبدالقادر کا وجود نہیں بلکہ میرے نانا محمد مصطفیٰﷺکا وجود ہے (گلدستہ کرامات صفحہ 8مؤلفہ مفتی غلام سرور صاحب مطبوعہ افتخار دہلوی۔نیز کتاب مناقب تاج الاولیاء صفحہ 35)اس فقرہ میں بھی آپ نے اپنے وجودکو ظلّی اور بروزی طور پر ہی محمد مصطفیٰﷺ کا وجود قرار دیا ہے۔

اس عبارت میں حضرت شیخ عبدالقادر علیہ الرحمۃ نے اپنا فنا فی الرسول ہونے کا مقام بیان کیا ہے گویا کہ فنافی الرسول کا مقام حاصل کرنے کی وجہ سے آپ کا وجود بروزی طور پر آنحضرت ﷺ کا وجود بن گیا نہ کہ اصالتاً۔چونکہ آنحضرت ﷺ کی وفات ثابت ہے اس لیےیہ امر استعارہ کے لیےقرینہ حالیہ ہے کہ حضرت شیخ عبدالقادر علیہ الرحمۃ نے اپنے آپ کو فنا فی الرسول ہونے کی وجہ سے بروزی طور پر استعارۃً محمد ﷺ قرار دیا ہے۔

حضرت محی الدین ابن عربی فرماتے ہیں:وَجَبَ نُزُولُہ فِی اٰخِرِالزَّمَانِ بِتَعَلُّقِہٖ بَبَدَنٍ اٰخَرَ(تفسیر القرآن الکریم للشیخ الاکبر العارف باللہ العلامہ محی الدین ابن عربی۔ المتوفی سنة 638ھ۔ تحقیق وتقدیم الدکتور مصطفی غالب۔ المجلد الاول صفحہ 296 زیر آیت بل رفعہ اللّٰہ الیہ )کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول آخری زمانہ میں ایک دوسرے بدن (وجود) کے ساتھ ضروری ہے۔

(۸)سلسلہ احمدیہ کے مشہور معاند مولانا محمد عالم آسی کی کتاب ’’کاویہ علی الغاویہ‘‘میں لکھا ہے ’’کتاب سیف ربانی صفحہ 80مصنفہ محمد مکّی میں ہے کہ حضرت عبدالقادر جیلانیؒ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے ایک بار ایسا محوکردیا کہ میں یوں کہہ رہا تھا کہ لوکان موسیٰ حیًّالماوسعہ الااتباعیتو مجھےمعلوم ہوا کہ مَیں فنا فی الرسول ہوں۔پھر ایک دفعہ محو ہوا تو میں کہہ رہا تھاانا سیّدولدآدم ولافخرجس سے معلوم ہوگیا کہ میں اس وقت محمّدﷺبن گیا تھا ورنہ ایسے لفظ بطور دعویٰ مجھ سے ظاہر نہ ہوتے۔ایک دفعہ آپ نے اپنے مرید سے فرمایا تھا کہ أتشھد انی محمد رسول اللّٰہ تو مرید نے اس کی تصدیق کی تھی۔(کاویہ علی الغاویہ صفحہ 49بار اوّل مارچ 1931ء)

(۹)حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ کے متعلق لکھا ہے کہ ان سے کسی نے پوچھا عرش کیا ہے؟فرمایا مَیں ہوں۔پوچھا کرسی کیا ہے؟فرمایا مَیں ہوں۔پوچھا لوح کیا ہے؟فرمایا مَیں ہوں۔پوچھا کہتے ہیں ابراہیم،موسیٰ اور محمد ﷺاللہ کے برگزیدہ بندے ہیں۔فرمایا میں ہوں۔(تذکرۃ الاولیاء اردو باب 14صفحہ 128۔شائع کردہ شیخ برکت علی اینڈ سنز)

(۱۰)حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کے متعلق لکھا ہے’’ایک شخص نے خواجہ سے کہا میں چاہتا ہوں کہ مرید ہوجاؤں۔کہا لاالہ الااللہ چشتی رسول اللہ کہو۔ اس نے ایسا ہی کہا خواجہ نے اسے مرید کرلیا۔(حسنات العارفین فارسی۔صفحہ 41زیر عنوان شطح خواجہ معین الدینؒ)

(۱۱)حضرت مولاناجلال الدین رومیؒ اپنے وقت کے مرشد کامل کی شان بیان کرتے ہوئے مثنوی میں فرماتے ہیں۔

کہ نبی وقت خویش است اے مرید

زاں کہ او نور نبی آمد پدید

کہ پیر حکمت جو سلوک کی منازل سے آشنا ہوتا ہے وہ نبی وقت ہوتا ہے ۔(مثنوی دفتر پنجم زیر عنوان دربیان آنکہ ماسوی اللہ ہمہ آکل وماکول اندر)

(۱۲)حضرت ابوالحسن خرقانی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک مرتبہ فرمایا:’’میں خدائے وقت ہوں اور مصطفائے وقت ہوں۔(تذکرہ الاولیاء اردو صفحہ 368باب77حالات ابوالحسن خرقانی۔شائع کردہ ملک دین محمد اینڈ سنز لاہور) ظاہر ہے کہ حضرت خرقانیؒ ظلّی اور بروزی طور پر ہی اپنے آپ کو خدا اور مصطفیٰﷺ قرار دے رہے ہیں نہ کہ حقیقی اور جسمانی طور پر۔

(۱۳)حضرت شاہ اسماعیل شہیدؒ۔ آپ ایک نامور محدث ومجاہد، شاہ عبد الغنی دہلویؒ کے فرزند، شاہ عبدالعزیزدہلویؒ، شاہ رفیع الدین دہلویؒ اور شاہ عبد القادر دہلویؒ کے بھتیجے اور حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے پوتے تھے۔سید احمد بریلویؒ نے سکھوں کے خلاف جو جہاد کیا تھا آپ اس میں اُن کے دست راست رہے اور بالآخر بالاکوٹ ضلع ہزارہ میں شہادت کے اعلیٰ مقام پر فائز ہوئے۔ آپ بعض روایات کے مطابق بالاکوٹ میں ہی سید احمد بریلویؒ کے ساتھ مدفون ہیں۔ ان کی مشہور کتاب تقویۃ الایمان ہے۔ اس کے علاوہ اصول فقہ، منصب امامت، عبقات، مثنوی سلک نور اور تنویر العینین فی اثبات رفع الیدین بھی ان کی تصانیف ہیں۔وہ اپنی کتاب’’منصب امامت‘‘ میں تحریر کرتے ہیں کہ’’امام رسول کا نائب اور امامت ظل رسالت ہے۔ نائب کے احکام کو منیب سے پہچانا اور ظل کی حقیقت کو اصل سے معلوم کیا جاتا ہے‘‘(منصب امامت از شاہ اسمٰعیل شہیدؒ صفحہ 8)نیز لکھا ہے کہ ’’پس جو کوئی مذکورہ تمام کمالات میں انبیاء اللہ سے مشابہت رکھتا ہوگا اس کی امامت تمام کاملین سے اکمل ہو گی۔ پس یہ ضرور ہوگا کہ اس امام اکمل اور انبیاء اللہ کے درمیان سوائے نبوت کے امتیاز ظاہرہ نہ ہوگا۔ پس ایسے شخص کے حق میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ اگر خاتم الانبیاءﷺ کے بعد کوئی شخص مرتبۂ نبوت سے سرفراز ہوتا تو بے شک یہی اکمل الکاملین سرفراز ہوتا جیسا کہ حدیث شریف میں وارد ہے لو کان نبیا من بعدی لکان عمر اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر ہوتا ‘‘(منصب امامت از شاہ اسمٰعیل شہیدؒ صفحہ 85)نیز لکھا ہے کہ’’امامت سے مراد یہ ہے کہ انبیاء کرام کے کمالات میں مشابہت تامہ حاصل ہو ‘‘(منصب امامت از شاہ اسمٰعیل شہیدؒ صفحہ 83)

(۱۴)ڈاکٹرعلامہ محمد اقبال صاحب مسلمانوں کا یہودو نصاری کا ظہور بروزی طور پر کیسے قبول کرتے ہیں۔

وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود

یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کر شرمائیں یہود

یوں تو تم سید بھی ہو مرزا بھی ہو افغان بھی ہو

تم سبھی کچھ ہو بتاؤ تو مسلمان بھی ہو

(کلیات اقبال۔ صفحہ231 ) (ببانگ درا صفحہ215، زیر عنوان جواب شکوہ)

اسی طرح علامہ اقبال حضرت محبوب الٰہی کی درگاہ واقع وہلی کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ

تری لحد کی زیارت ہے زندگی دل کی

مسیح و خضر سے اونچا مقام ہے تیرا

یہاں پر علامہ اقبال نے اس بزرگ کو مسیح و خضر کا نہ صرف یہ کہہ کر مثیل و بروز بیان کیا ہے بلکہ ایسا بروز بیان کیا ہے جو مسیح و خضر دونوں کے مقام سے اونچے مقام والا ہے۔(کلیات اقبال صفحہ122بانگ درا،صفحہ106عنوان التجائے مسافر(بہ درگاہ حضرت محبوب الٰہی دہلی)

(۱۵)حضرت معین الدین اجمیری فرماتے ہیں:چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ امت محمدیہ میں بہت سے بزرگوں نے ان کا مثیل ہونے کادعویٰ کیا۔مثلاً فرمایا کہ

دمبدم روح القدس اندر معینے میدمد

من نمی گویم مگر عیسیٰ ثانی شدم

یعنی ہر لحظہ روح القدس مجھے القا کرتا ہے کہ میں دوسرا عیسیٰ یعنی مثیل عیسیٰ ہو چکا ہوں۔ (دیوان معین الدین اجمیری)

(۱۶)مشہور شاعر غالب مثیل و بروز ابن مریم کے ظہور کی دعا کرتے ہوئے کہتا ہے

ابن مریم ہوا کرے کوئی

میرے دکھ کی دوا کرے کوئی

(غالب، دیوان غالب صفحہ118۔ مطبوعہ کشمیر کتاب گھر اردو بازار لاہور)

(۱۷)دیوبندی فرقہ کے قابل احترام بزرگ مولوی اشرف علی صاحب تھانوی کو ان کے ایک مرید نے لکھا کہ’’کچھ عرصہ بعد خواب دیکھتا ہوں کہ کلمہ شریف لاالہ الاللہ محمد رسول اللہ پڑھتا ہوں۔محمد رسول اللہ کی جگہ حضور(مولوی اشرف علی تھانوی۔ناقل)کا نام لیتا ہوں،اتنے میں دل کے اندر خیال پیدا ہوا کہ مجھ سے غلطی ہوئی کلمہ شریف پڑھنے میں اس کو صحیح پڑھنا چاہئے اس خیال سے دوبارہ کلمہ شریف پڑھتا ہوں…لیکن زبان سے بے ساختہ بجائے رسول اللہﷺکے اشرف علی نکل جاتا ہے…کلمہ شریف کی غلطی کے تدارک میں رسول اللہ ﷺپر درود شریف پڑھتا ہوں۔لیکن پھر یہی کہتا ہوں۔اللّٰھم صل علی سیّدنا ونبیّنا ومولانا اشرف علی’’مولاناتھانوی صاحب اس خط کے جواب میں لکھتے ہیں۔’’اس واقعہ میں تسلّی تھی کہ جس کی طرف تم رجوع کرتے ہو،وہ بَعَونہ تعالیٰ منبعِء سنّت‘‘ (رسالہ الامداد ماہ صفر 1336ھ۔صفحہ 35مطبوعہ تھانہ بھون)

(۱۸)’’یخ الہند”مولوی محمود الحسن صاحب دیوبندی نے اپنے استاد مولوی و مفتی رشید احمد گنگوہی کی وفات پرمرثیہ لکھا۔اس کایہ شعر ملاحظہ فرمائیے،جس میں گنگوہی صاحب کو بانیٔ اسلام کا ثانی قرار دے دیا:

زبان پر اہل اھواء کی ہے کیوں اُعْلُ ھُبَل

شایداٹھا عالم سے کوئی بانئی اسلام کا ثانی

(مرثیہ صفحہ 6بروفات رشید گنگوہی صاحب از مولانا محمود الحسن دیوبندی مطبع بلالی ساڈھورہ ضلع انبالہ)

پھر ایک اَور شعر میں کہتے ہیں۔

وفات سرور عالمؐ کا نقشہ آپ کی رحلت تھی

ہستی گر نظیر ہستی محبوبِ سبحانی

(مرثیہ صفحہ 12)

(باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button