متفرق

گناہ سے کیسے بچ سکتے ہیں

انسانی زندگی پر اگر غور سے نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ انسان سب سے زیادہ لڑتا ہے ۔ کبھی جیت اس کا مقدر بنتی ہے تو کبھی وہ نفس امارہ کا شکار ہو جاتا ہے۔ خداتعالیٰ کا انسان کو مٹی سے تخلیق کرنا بھی انسانی فطرت کی طرف ایک عجیب اشارہ ہےاور اس نقطہ کی طرف بھی توجہ مبذول کروانا ہے کہ جس طرح مٹی مختلف خصوصیات کی حامل ہوتی ہے۔ مثلاً اس کے اندر کانٹے دار جھاڑیاں بھی خود بخود اگ جاتی ہیں اور خود بخود پھل دار درخت بھی پیدا کر دیتی ہے پس انسان کی مثال بھی ایسی ہے کہ اس میں خیر اور شر دونوں پہلوپائے جاتے ہیں۔ ان دونوں انسانی خصوصیات پر نظر ڈال کر ایک سوال ذہن میں ابھرتا ہے ’’گناہ سے نجات کیونکر مل سکتی ہے؟‘‘

انسانی نفسیات کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہےکہ ہم کسی ایسے مقام پر نہیں جا سکتے جہاں ہمیںکسی چور ڈاکو یا لٹیرے کے ہونے کا علم ہو۔ اس طرح ہم آگ میں ہاتھ نہیں ڈالتے کیونکہ جانتے ہیں کہ وہ ہمیں جلا کر راکھ کر دے گی اور ان دونوں کا انجام بجز ہلاکت کے اور کچھ نہیں۔ پھر کیا وجہ ہےکہ ہم گناہ سے باز نہیں آتے۔ اس کا جواب فقط اس کے سوا اور کچھ بھی نہیں کہ ہم خدا تعالیٰ کی ذات پر کامل یقین نہیں رکھتے اور نہ ہی اس کو قادر و مقتدر جانتے ہیں اور نہ ہی ہمارے دلوں میں اس کے لیے کوئی خاص مقام ہے اور اس کی ذات ہمارے لیے شکوک و شبہات کی نظر ہو چکی ہے۔ یعنی ہم اس کے نور سے بکلی بے بہرہ ہیں۔ پس معلوم ہوتا ہے کہ سب بدیاں اور گناہ خدا کو نہ سمجھنے اور اس پر حقیقی ایمان نہ لانے کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیںاور اس وجہ سے انسان بدیوں اور گناہوں میں مبتلا ہو جا تا ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے گناہ سے نجات کے فلسفہ کو اپنی مختلف کتب میں بیان فرمایا ہے۔ آپؑ نے یقین کو ہی گناہ سے نجات کا حقیقی ذریعہ قرار دیا ہے۔ آپ علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’سو وہ پانی جس سے تم سیراب ہو جاؤگے اور گناہ کی سوزش اور جلن جاتی رہے گی وہ یقین ہے۔ آسمان کے نیچے گناہ سے پاک ہونے کے لئے بجز اس کے کوئی بھی حیلہ نہیں کوئی صلیب نہیں۔ جو تمہیں گناہ سے چھڑا سکے۔ کوئی خون نہیں جو تمہیں نفسانی جذبات سے روک سکے۔ ان باتوں کو حقیقی نجات سے کوئی رشتہ اور تعلق نہیں۔ حقیقتوں کو سمجھو ۔سچائیوں پر غور کرو اور جس طرح دنیا کی چیزوں کو آزماتے ہو اس کو بھی آزماؤ تب تمہیں جلد سمجھ آجائے گی کہ بغیر سچے یقین کے کوئی روشنی نہیں جو تمہیں نفسانی ظلمت سے چھڑا سکے اور بغیر کامل بصیرت کے مصفا پانی کےتمہاری اندرونی غلاظتوں کو کوئی بھی دھو نہیں سکتا۔‘‘(گناہ سے نجات کیونکر مل سکتی ہے، روحانی خزائن جلد 18صفحہ 646)

آج کے ماحول میں بہت دعاؤں کی ضرورت ہے کہ خدا تعالیٰ ہمیں اور ہماری آئندہ نسلوں کو ہر قسم کی برائیوں اور بدیوں سے محفوظ رکھے۔آمین

جسم کو مل مل کے دھونا یہ تو کچھ مشکل نہیں

دل کو جو دھووے وہی ہے پاک نزدِ کردار

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button