متفرق

پردہ کیا ہے

(عظمیٰ بخاری۔ جرمنی)

پردہ کے لیے دنیا کی مختلف زبانوں میں جو بھی الفاظ استعمال ہوتے ہیں ان سب میں مفہوم ڈھک کر یا چھپا کر رکھنے کا ہی پایا جاتا ہے۔ ان معنوں کی رو سے ہر ایسی روک جو کسی چیز یا نظارہ کو چھپانے کے لیے استعمال کی جائے پردہ کہلاتی ہے۔ دنیا بھر میں کوئی ایسا انسان نہیں جو اس کی ضرورت اور افادیت سے انکار کرتا ہو۔ اس پردہ کی تفصیلی تعلیم صرف قرآن پاک میں پائی جاتی ہےجیسا کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ قُلۡ لِّاَزۡوَاجِکَ وَبَنٰتِکَ وَنِسَآءِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ یُدۡنِیۡنَ عَلَیۡہِنَّ مِنۡ جَلَابِیۡبِہِنَّ۔(الاحزاب آیت 60) اے نبی! اپنی بیویوں اور اپنی بیٹیوں اور مومنوں کی بیویوں سے کہہ دے کہ (جب وہ باہر نکلیں تو) وہ اپنی چادروں کو اپنے اوپر جھکا دیا کریں۔

اگر ہم پردے کی اہمیت و افادیت کے متعلق اسلامی احکامات کا مطالعہ کریں تو بلا شبہ تمام دیگر مذاہب سے بڑھ کر پردہ کی ضرورت پر اسلام نے زور دیا ہے۔ ایک موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا اور حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کو ایک نا بینا صحابی سے پردہ کا حکم دیا۔ جب انہوں نے عرض کی یا رسولﷺ وہ تو نابینا ہیں اور ہمیں نہیں دیکھ سکتے اس پر آنحضرتﷺ نے فرمایا کیا تم دونوں بھی نابینا ہو؟ (مشکوٰۃ کتاب الادب)

عورتوں کے ساتھ ساتھ مردوں کو بھی پردےکی نصیحت ہے

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:’’پردہ چھوڑنے والا قرآن کی ہتک کرتا ہے اور ایسے انسان سے ہمارا کیا تعلق۔وہ ہمارا دشمن اورہم اس کے دشمن۔اورہماری جماعت کے مردوں اور عورتوں کا فرض ہے کہ وہ ایسی احمدی عورتوں اور ایسے احمدی مردوں سے کوئی تعلق نہ رکھیں۔‘‘

(الفضل 27؍ جون 1958ء)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے ایک موقع پر فرمایا:’’بڑی شدت کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں یہ تحریک ڈالی ہے کہ احمدی مستورات بے پردگی کے خلاف جہاد کا اعلان کریں۔ کیونکہ اگر آپ نے بھی میدان چھوڑ دیا تو دنیا میں اور کون سی عورتیں ہوں گی جو اسلامی اقدار کی حفاظت کے لئے آگے آئیں گی۔‘‘(الفضل 28؍فروری 1983ء)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے بھی احمدی مسلمان عورتوں اور بچیوں کو حقیقی رنگ میں حیا اور عصمت کی حفاظت کرنے کی اہمیت کےبارے میں نہایت احسن رنگ میں توجہ دلاتے ہوئے فرمایا:’’بعض لڑکیاں کہہ دیتی ہیں کہ ہم نے سر ڈھانک لیا ہے اور یہ کافی ہے لیکن سر اس طرح نہیں ڈھانکا ہوتا جس طرح اللہ اور اس کےرسول نے حکم دیا ہے۔ بال صاف نظر آرہے ہوتے ہیں آدھا سر ڈھکا ہوتا ہے آدھا ننگا ہوتا ہے۔ گریبان تک نظر آرہا ہوتا ہے۔ کوٹ اگر پہنا ہوا ہے تو کہنیوں تک بازو ننگے ہوتے ہیں۔ گھٹنوں سے اوپر کوٹ ہوتے ہیں۔ یہ نہ ہی ایک احمدی لڑکی اور عورت کی حیا ہے اور نہ ہی یہ ایک احمدی عورت کی آزادی کی حد ہے بلکہ اس ذریعہ سے اس طرح کی حرکتیں کر کے وہ اپنی حیا پر الزام لا رہی ہوتی ہیں اور بحیثیت احمدی اپنی آزادی کی حدود کو بھی توڑ رہی ہوتی ہیں۔ پس ہمیشہ ایک احمدی عورت کو جس کا ایک تقدس ہے یاد رکھنا چاہئے کہ آپ کی حدود کا ایک دائرہ ہے اس حدود کے دائرے سے تجاوز کرنا آپ کے تقدس کو مجروح کرتا ہے۔ …پس ہمیشہ ایک احمدی لڑکی ایک احمدی عورت کو یاد رکھنا چاہئے کہ اس کا ایک تقدس ہے اس کا ایک مقام ہے جس کو قائم رکھنا ہر دوسری خواہش سے زیادہ ضروری ہے۔ اپنی عزت کی حفاظت اور اپنے خاندان کی عزت کی حفاظت ایک احمدی عورت اور لڑکی کے لئے سب سے زیادہ اہم چیز ہے اور ہونی چاہیے ایک احمدی عورت اور بچی کی عصمت کی قیمت ہزاروں لاکھوں جواہرات سے زیادہ قیمتی ہے۔‘‘(کتاب پردہ صفحہ 39)

اللہ تعالیٰ ہم سب کو پردہ کی اصل روح کو سمجھنے اور اس پرعمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے (آمین)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button