حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزخلاصہ خطبہ جمعہخلافت

مہدی آباد برکینا فاسو میں نواحمدیوں کی دردناک شہادت اور افسوسناک واقعہ کا تفصیلی ذکر: خلاصہ خطبہ جمعہ ۲۰؍ جنوری ۲۰۲۳ء

(ادارہ الفضل انٹرنیشنل)

٭…جماعت احمدیہ میں سو سال سے زائد عرصے سے اللہ تعالیٰ کی راہ میں جان کی قربانیاں پیش کی جارہی ہیں اور یہ قربانیاں جماعت کی زندگی کا باعث بھی ہیں

٭…عشق وو فا اورایمان واخلاص سےپُرجو نمونہ افریقن احمدیوں نے دکھایا وہ بے مثال ہے ۔ایک کے بعد دوسرے نے اپنی جان کی قربانی پیش کردی

٭…کسی ایک نے بھی ذرا سی کمزوری دکھائی اور نہ ہی احمدیت سے انکار کیا۔ سب نےیقین و وفا اور دلیری کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی جانیں قربان کیں

٭…برکینا فاسو کے شہدا ء احمدیت کے چمکتے ستارے ہیں۔آزمائش میں پورا اُترے ، اپنے پیچھے ایک نمونہ چھوڑ گئے

٭…برکینا فاسو کے نو (۹)احمدی شہدا ء کے علاوہ ڈاکٹر کریم اللہ زیروی صاحب اور اُن کی اہلیہ امۃ اللطیف صاحبہ آف امریکہ کے نماز جنازہ غائب کی ادائیگی

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۲۰؍جنوری ۲۰۲۳ء بمطابق ۲۰؍صلح ۱۴۰۲ ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے

اميرالمومنين حضرت خليفةالمسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيزنے مورخہ ۲۰؍جنوری ۲۰۲۳ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلی وژن احمديہ کے توسّط سے پوری دنيا ميں نشرکيا گيا۔جمعہ کي اذان دينےکی سعادت دانیال تصور صاحب کے حصے ميں آئی۔

تشہد، تعوذ اور سورة الفاتحہ کے بعد سورۃ البقرۃ کی آیات ۱۵۵ و ۱۵۶ کی تلاوت وترجمہ کے بعد حضورِ انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےاس آیت کے حوالے سے فرمایا:
اللہ تعالیٰ کی راہ میں جان کا نذرانہ پیش کرنے والوں کے لیے یہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ وہ مُردہ نہیں بلکہ زندہ ہیں۔جماعت احمدیہ میں گذشتہ سو سال سے زائد عرصے سے اللہ تعالیٰ کی راہ میں جان کی قربانیاں پیش کی جارہی ہیں۔ کیا ان کی قربانیاں رائیگاں گئیں؟

جہاں اللہ تعالیٰ ان شہداءکے مقام کو بلند کرتا رہا ہے وہاںجماعت کو پہلے سے بڑھ کرترقیات سے نوازتا رہا۔

ان شہیدوں نے جو مقام پایا ہےاور جہاں ان کے درجات ہمیشہ بڑھتے چلے جانے والے ہیں وہاں اس دنیامیں بھی ہمیشہ کے لیے ان کے نام روشن ہیں۔اللہ تعالیٰ کی راہ میں ان کا جان دینا نہ صرف اپنے لیے بلکہ جماعت کی زندگی کا بھی باعث بن رہا ہے۔یہی تو ہیں جو پیچھے رہنے والوں کی زندگی اور ترقیات کا ذریعہ بن رہے ہیں تو پھر وہ مُردہ کس طرح ہوسکتے ہیں۔

جماعت احمدیہ میں جان کی یہ قربانی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دَور میں حضرت صاحبزادہ سید عبد اللطیف صاحب ؓ کی قربانی سے شروع ہوئی۔ جان کی قربانی شروع میں افغانستان اور برصغیر کے احمدیوں کے حصے میں رہی۔۲۰۰۵ء میں افریقہ کے ملک کانگو میں ایک احمدی نے خالصتاًجماعت کے لیے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا۔ لیکن گذشتہ دنوں

برکینا فاسو میںعشق ووفا، ایمان و یقین سےپُرجو نمونہ افریقن احمدیوں نے دکھایا وہ بے مثال ہے۔

اُن کو موقع دیا گیا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی صداقت کا انکار کردو اور اس بات پر یقین کرو کہ عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر زندہ ہیں تو ہم تمہاری جان بخشی کردیں گے۔ لیکن اُن لوگوں نے جن کا ایمان پہاڑوں سےزیادہ مضبوط نظر آتا ہے جواب دیا کہ جان تو ایک دن جانی ہی ہے آج نہیں تو کل لہٰذا اس کو بچانے کےلیے ہم اپنے ایمان کا سودا نہیں کرسکتے۔جس سچائی کو ہم نے دسیکھ لیا ہے اس کو ہم نہیں چھوڑ سکتےاور یوں ایک کے بعد دوسرا اپنی جان قربان کرتا چلا گیا۔ان کی عورتیں اور بچے یہ نظارہ دیکھ رہے تھے اورکسی نے کوئی واویلا نہیں کیا۔

یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے حضرت مسیح موعودؑ کے زمانے میں صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہیدؓ کی قربانی کے بعد دنیائے احمدیت میں قربانیوں کی ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔

یہ اپنی دنیاوی زندگیوں کی قربانی دے کر ہمیشہ کی زندگی حاصل کرنے والے بن گئے۔انہوں نے جان، مال اوروقت کی قربانی کے عہد کو ایسا نبھایاکہ بعد میں آکر پہلے آنے والوں سے سبقت لے گئے۔اللہ تعالیٰ ان میں سے ہر ایک کواُن بشارتوں کا وارث بنائے جو اللہ تعالیٰ نے اُس کی راہ میں قربانیاں کرنے والوں کو دی ہیں۔
حضور انور نے فرمایا کہ اب

مختصراً ان شہدا ءکے حالات زندگی

بیان کروں گا جن سے ان کے ایمان کی پختگی کا پتا چلتا ہے۔تفصیلات کے مطابق برکینا فاسو کاایک شہر ڈوری ہے جہاں مہدی آباد میں نئی آبادی ہوئی تھی۔۱۱؍جنوری کو نو(۹) احمدی بزرگوں کو عشاء کے وقت مسجدکے صحن میں باقی نمازیوں کے سامنے اسلام اور احمدیت سے انکار نہ کرنے کے باعث ایک ایک کرکے شہید کردیا گیا۔چار موٹر سائیکلوں پر آٹھ مسلح افراد مسجد میں آئےتھے جو کہ احمدیہ مسجد میں آنے سے پہلےوہاں قریب ہی واقع وہابیوں کی ایک مسجد میں موجود تھےجہاں انہوں نے مغرب سے عشاءتک وقت گزارا لیکن وہاں کسی کو نقصان نہ پہنچایا۔ جب یہ احمدیہ مسجد میں آئے تو اُس وقت عشاء کی اذان ہورہی تھی۔اذان کے بعد مؤذن سے اعلان کروایا کہ احباب جلدی مسجد میں آجائیں کچھ لوگ آئے ہیں اور انہوں نے کوئی بات کرنی ہے۔پھر اُن کے پوچھنے پر الحاج ابراہیم بدگا صاحب نے بتایا کہ وہ امام مسجد ہیں۔پھر ان کے پوچھنے پر کہ نائب امام کون ہے آگوما عبدالرحمٰن صاحب نے بتایا کہ وہ نائب امام ہیں۔جس کے بعدانہوں نے عقائد جماعت احمدیہ کے بارے میں امام صاحب سے کافی سوالات کیے۔امام صاحب نے بتایا کہ ہم لوگ مسلمان ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ماننے والے ہیں۔ ہمارا تعلق احمدیہ مسلم جماعت سے ہے۔

حضرت عیسیٰ علیہ السلام وفات پاگئے ہیںاورحضرت مسیح موعود علیہ السلام امام مہدی ہیں۔

دہشت گردوں نے کہا کہ احمدی پکے کافر ہیں۔پھر ملحقہ سلائی سینٹر میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام اور خلفاء کی تصاویر کے بارے میں پوچھا۔امام صاحب نے ایک ایک تصویر کا تعارف کروایا۔انہوں نے کہا کہ مسیح موعودؑ کا دعویٰ (نعوذ باللہ)جھوٹا ہے۔ جس کے بعد انہوں نے مسجدمیں موجود تقریباً ستّر(۷۰)نمازیوں میں سے عمر کے حساب سے بچوں نوجوانوں اوربزرگوں کےگروپ بنائے۔دس بارہ لجنہ بھی موجود تھیں۔بڑی عمر کے افراد کو کہا کہ وہ مسجد کے صحن میں آجائیں۔ایک معذور فرد بھی تھے جن کو انہوں نے منع کردیا کہ تم کسی کام کے نہیں تم اندر ہی رہو۔

باقی افراد کو مسجد کےصحن میں لےآئےاورامام صاحب سے کہا کہ اگر وہ احمدیت سے انکار کردیں تواُن کی جان بخش دی جائے گی۔

امام صاحب نے جواب دیا کہ

میرا سر قلم کردیں مگر میں احمدیت نہیں چھوڑوں گا۔

دہشت گردوں نے زمین پر لٹاکر اُن کی گردن پر چھرا رکھا اور ذبح کرنے کی کوشش کی تو انہوں نے کہا کہ مجھے کھڑا کرکے مار دیں تو انہوں نےاُن کو گولیاں مارکر شہید کردیا۔

دہشت گرد سمجھے کہ باقی افراد ڈر کرمان جائیں گے

اور ایک اور بزرگ کو بلاکر کہا کہ احمدیت سے انکار کرنا ہے یا مرنا ہے تو انہوں نےبھی یہی کہا کہ

احمدیت نہیں چھوڑ سکتا

اور پھر اُن کے سر پر گولیاں مار کر اُن کو بھی شہید کردیا۔اس طرح

باقی افراد کو ایک ایک کرکے بلایا اور شہید کردیا۔ کسی ایک نے بھی ذرا سی بھی کمزوری نہ دکھائی اور نہ ہی احمدیت سے انکار کیا۔ کسی ایک کا بھی ایمان متزلزل نہیں ہوا۔ سب نے ایک دوسرے سے بڑھ کر یقین و وفا اور دلیری کا مظاہرہ کیا اوراللہ تعالیٰ کے حضور اپنی جانیں پیش کردیں۔

ہر شہید کو کم و بیش تین گولیاں ماری گئیں۔ان میں دو جڑواں بھائی بھی شامل تھے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام ‘‘تذکرۃ الشہادتین’’ میں حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید ؓکا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ

خدا تعالیٰ بہت سےان کے قائم مقام پیدا کردے گا۔

پس

ہم گواہ ہیں کہ آج افریقہ کے رہنے والوں نے اس کا نمونہ دکھادیا اورقائمقامی کا حق ادا کردیا۔

دہشت گردوں کے مسجد میں آنے اور ساری کارروائی مکمل ہونے میں ڈیڑھ گھنٹے کا وقت بنتا ہے۔باقی افراد جس کرب سے گزرے ہوں گے اس کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان کےسامنے ان کے پیاروں کو شہید کیا جارہا تھا۔

بعد ازاں حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے تمام شہداء کا تعارف کروایا۔

امام الحاج ابراہیم بدگا صاحب

امام صاحب اس علاقےکے سب سے بڑےوہابی امام تھے۔آپ نے بہت تحقیق کے بعد بیعت کی تھی اور بعد میں ایک پُرجوش مبلغ کی حیثیت میں سامنے آئے ۔امام صاحب ایک بہت صاحبِ علم آدمی تھے۔اس علاقے کے لوگ تماشق قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں اور زیادہ تر وہابی مسلمان ہیں لیکن مہدی آباد کے باشندے بیعت کرنے میں سبقت لے گئے اور

اتنی بڑی قربانی دے کرایک خاص مقام حاصل کرچکے ہیں۔

امام صاحب کی درخواست پر مَیں نے اس گاؤں کا نام ‘‘مہدی آباد’’رکھاتھا۔امام صاحب کی عمر ۶۸؍سال تھی۔تعلیم کے لیے سعودی عرب میں مقیم رہے۔تماشق زبان کے عالَم تھے۔احمدیت سے قبل کئی دیہات کے چیف تھے۔علاقے کے بڑے بڑے علماءان کے پاس بیٹھنے میں اپنی شان سمجھتے تھے۔ بعض اوقات یہ تعداد پانچ سو تک پہنچ جاتی تھی جو اِن کے پاس قیام کرتے اور اِن سے فیض پاتےتھے۔اِن کے شاگرد بیان کرتے ہیں کہ اُن دنوں میں بھی امام صاحب کہا کرتے تھے کہ ابھی صداقت ظاہر نہیں ہوئی کیونکہ صداقت کو ماننے والے تھوڑے ہوتے ہیں اور جب صداقت ظاہر ہوگی تو ماننے والے تھوڑے ہوجائیں گے اور یہ لوگ میرے پاس سے اُٹھ کر چلے جائیں گے۔انہوں نے اپنی نیکی اور تقویٰ کی وجہ سے اندازہ لگایا لیا تھا کہ ابھی صداقت ظاہر ہونی ہے۔ ۱۹۹۸ء میں ڈوری میں باقاعدہ احمدیہ مشن قائم ہونے کی اطلاع امام صاحب کو پہنچی اور انہیں علم ہوا کہ احمدی وفات عیسیٰ کے قائل ہیں اور مسیح کے آنے کی خبر دیتے ہیں تو سات(۷) افراد کے ساتھ مشن ہاؤس آئے اور بہت تحقیق کے بعد بیعت کی۔سمجھ کر صداقت کو قبول کیا اور پھر قربانی کی اعلیٰ مثال قائم کی۔بےخوف داعی الی اللہ اور فدائی احمدی تھے۔آپ کی کوششوں سے علاقے بھرمیں احمدیت پھیلی اور کئی جماعتیں قائم ہوئیں۔تبلیغ کا جنون تھا۔قتل کی دھمکیوں کے باوجود اپنی کوششیں ترک نہ کیں۔خلافت سے بھی بے انتہا وفا کا تعلق تھا۔لوگوں سے بہت خوش خُلقی سے پیش آتے اور دوسروں کے لیے قربانی کرنا ان کا وصف تھا۔علاقے کے لوگ ان کی بہت عزت کرتے تھے۔ ہر مالی قربانی میں سب سے پہلے خود قربانی کرتے تھے۔ ہر قسم کی جماعتی سرگرمی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا کرتے تھے۔

الحسن آگمانئیل صاحب

شہادت کے وقت ان کی عمر ۷۱؍سال تھی۔ پیشے کے لحاظ سے کسان تھے۔۱۹۹۹ء میں احمدیت قبول کی ۔بیعت کے وقت سے اخلاص و وفا میں ترقی کرتے چلے گئے ۔نماز وں میں باقاعدہ اور تہجد کے پابندتھے۔جماعت کے لیے جان، مال اور وقت کی ان کی قربانی غیر معمولی ہے۔گذشتہ سال وقف عارضی کی تحریک پر مہدی آبادمیں سب سے پہلے اپنا نام لکھوایا۔اس واقعہ میں آپ کے جڑواں بھائی آگمالی ائیل حسینی کی بھی شہادت ہوئی ہے۔

حسینی آگمالی ائیل صاحب

ان کی عمر بھی ۷۱؍سال تھی اور۱۹۹۹ءمیں بیعت کی تھی ۔اپنے گاؤں کے بتدائی احمدیوں میں سے تھے۔اس وقت زعیم انصار اللہ کے طور پر خدمت بجا لا رہےتھے۔پانچوں نمازیں مسجدمیں ادا کیا کرتے تھے۔نماز تہجد کے پابند تھے۔ ان کے جڑواں بھائی بھی اس واقعہ میں شہید ہوئے ہیں۔ دونوں بھائی ایک ہی دن دنیا میں آئے اور ایک ہی دن دنیا سے گئے۔

حمیدو آگ عبدالرحمٰن صاحب

ان کی عمر ۶۷؍سال تھی۔پیشے کے لحاظ سے کسان تھے۔۱۹۹۹ءمیں بیعت کی تھی۔دل کے صاف اور حلیم طبع تھے۔جماعتی کاموں میں صف اوّل کے شمار ہوتے تھے ۔ بیماری کے علاوہ کبھی غیر حاضر نہ ہوتے۔امام صاحب کے مددگار تھے۔ اپنی فیملی کو بھی جماعتی کاموں میں شامل ہونے کی تلقین کرتے تھے۔خطبہ جمعہ انتہائی توجہ اور باقاعدگی سے سنتے تھے۔

صُلَحِ آگ ابراہیم صاحب

پیشے کے اعتبار سے کسان تھے۔نماز باجماعت کے پابند تھےاور باقاعدگی سے چندہ ادا کیا کرتے ۔ مجلس انصار اللہ کے متحرک رکن تھے۔ امام صاحب کے دست راست تھے۔صاحب علم تھے اور مذہبی اور علمی گفتگوکیا کرتے تھے۔ نہایت شریف طبیعت کے مالک تھے۔ہر ایک سے حسن سلوک کرنا آپ کا خاص وصف تھا۔ جلسہ سالانہ میں شامل ہونے کے لیے غرباءکی مالی مدد کیا کرتےتھے۔

عثمان آگ سودے صاحب

ان کی عمر ۵۹؍سال تھی ۔مہدی آباد کی مسجد کی تعمیر میں بڑھ چڑھ کرحصہ لیا۔ نمازوں کے پابندتھے اور تہجد باقاعدگی سے ادا کیا کرتے تھے۔مالی قربانی کے علاوہ جان کی قربانی بھی پیش کردی۔پیشے کے لحاظ سے تاجر تھے۔جوتے فروخت کرنے کا کاروبار کرتے تھے۔کم رقم کے باوجود کسی کو ننگے پاؤں واپس نہ جانے دیتے تھے۔ مغرب پر آتے اور عشاءکے بعد واپس جاتے۔ہر کوئی گواہی دیتا کہ انتہائی مخلص تھے۔مجھےبھی دعا کے خطوط باقاعدگی سے لکھتےتھے۔

آگالی آگماگوئیل صاحب

یہ ۱۹۷۰ءمیں پیدا ہوئے اور اپنے والد صاحب کے ساتھ ۱۹۹۹ءمیں احمدیت قبول کی۔پیشے کے اعتبار سے کسان تھے۔بہت مخلص احمدی تھے۔نمازوں اور چندہ جات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا کرتے تھے ۔

موسیٰ آگ ادراہی صاحب

شہادت کے وقت ان کی عمر ۵۳؍سال تھی۔ کھیتی باڑی کا کام کرتے تھے۔احمدیت سے قبل وہابیوں کے سرگرم کارکن تھے۔تہجد اور نمازوں میں باقاعدہ تھے۔مغرب کی نماز پڑھنےمسجد میں آتے تو عشا ءکی نماز پڑھ کر ہی واپس گھر جاتے تھے۔ذکر الٰہی میں مصروف رہتے تھے۔ہر کوئی گواہی دیتا ہے کہ یہ ایک مخلص اور فدائی احمدی ہونے کا نمونہ تھے۔مجھے باقاعدگی سے دعائیہ خطوط لکھتے تھے۔

آگوما آگ عبدالرحمٰن صاحب

شہادت کے وقت ان کی عمر ۴۴؍سال تھی۔شہدا ءمیں سب سے چھوٹے تھے ۔ ۱۹۹۹ءمیں بیس سال کی عمرمیں احمدیت قبول کی اور پھرجماعت کے ساتھ اخلاص ووفا میں ترقی کی۔انتہائی مخلص اور فدائی احمدی تھے۔امام صاحب کے دست راست تھے۔دہشت گردوں کو بغیر کسی ہچکچاہٹ کے بتایا کہ میں نائب امام ہوں۔تہجد اور نمازوں کے پابند تھے۔مسجد میں بچوں کو ساتھ لاتے اور ان کی تربیت کا خیال رکھتے۔سائیکل چلانے کے ماہر تھے۔جماعتی کاموں کے لیے پورے علاقے میں لمبے لمبے سفر کرتے۔برکینا فاسو سے گھانا سائیکل پر جانے والے قافلے میں بھی شامل تھے۔جب آٹھ افراد کو شہید کردیا گیا تو سب سے چھوٹے تھےلیکن بڑی شجاعت سے جواب دیا کہ جس راہ پر بزرگوں نے قربانی دی ہے میں بھی قربان ہونے کے لیے تیار ہوں۔دہشت گردوں نے ان کو بے دردی سے چہرے پر گولیاں مار کر شہید کردیا۔

حضورِانور نے فرمایا کہ ہر ایک کے نام کے ساتھ آگ کا لفظ لگا ہوا ہے اور اس لفظ کا مطلب ‘ابن’ کے ہیں۔پس یہ احمدیت کے چمکتے ستارے ہیں۔ اپنے پیچھے ایک نمونہ چھوڑ کر گئےہیں۔اللہ تعالیٰ ان کے بچوں کو بھی ایمان و یقین میں بڑھائے۔دشمن سمجھتا ہے کہ اس طرح احمدیت ختم ہوجائے گی لیکن احمدیت پہلے سے بڑھے گی اور پنپے گی،انشاء اللہ۔انتظامیہ بھی حکمت عملی کے ساتھ تبلیغی پروگرام بنائے۔اللہ تعالیٰ لواحقین کوصبر اور حوصلہ دے اوران کے بزرگوں نے جس مقصد کے لیے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے ہیں اس کو سمجھنے کی توفیق پانے والے ہوں۔

حضور انور نے فرمایا کہ شہداءکے خاندانوں کی ضرورت پورا کرنے اور ان کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے لیے خلافت رابعہ کے زمانے میں

سیّدنا بلال فنڈ

قائم کیا گیا تھا جس سے شہدا ءکے لیے خرچ کیا جاتا ہے ۔ جوشہدا ءکے لیے دینا چاہیں وہ اس فنڈ میں ادائیگی کریں اور یہ ان شہدا ءپر کوئی احسان نہیں بلکہ ہمارا فرض ہے کہ ان کی ضروریات کا خیال رکھیں اوران کو پورا کریں ۔

حضور انور نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک اقتباس کے حوالہ سے فرمایا کہ یہ قربانی کرنے والے اس آزمائش میں پورے اُترے ۔اب پیچھے رہنے والوں کا امتحان ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق دے کہ ایمان و یقین پر قائم رہیں۔اللہ تعالیٰ ان شہداءکے مقام کو بڑھائے، پھل پھول لگائے جس کے نتیجے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کو دنیا میں پھیلتا دیکھیں ۔

حضور انور نے آخر میں شہداءکے نماز جنازہ غائب کے ساتھ ڈاکٹر کریم اللہ زیروی صاحب اور ان کی اہلیہ مکرمہ امۃ اللطیف زیروی صاحبہ آف امریکہ کے بھی نماز جنازہ غائب پڑھانے کا اعلان فرمایا۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button