متفرق مضامین

سیدنا بلال فنڈ کی عظمت و اہمیت

(مبارک احمد ظفر۔ ایڈیشنل وکیل المال یوکے)

الٰہی سلسلوں پر اگر نظر ڈالیں تو پتاچلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ جب کسی سلسلہ کی بنیاد رکھتا ہے تو اس کی مضبوطی اور استقامت کے لیے اس کے ماننے والوں سے مختلف قسم کی قربانیوں کا بھی تقاضا کرتا ہے کیونکہ اس کے بغیر الٰہی سلسلے ترقی کی منازل طے نہیں کر سکتے۔ اوران قربانیوں میں جان کی قربانی کا ایک الگ اور خاص مقام ہے، جس کے نظارے ہمیں اسلام کی نشأۃ اولیٰ کے عہد میں اس طرح دکھائی دیتے ہیں جس طرح آسمان پر جھلملاتی ہوئی کہکشائیں۔ اور اس میں ہر قربانی اپنے پیچھے محبت و وفا اور اخلاص کی ایک لمبی داستان لیے ہوئے ہوتی ہے، جیسا کہ آج کل ہمارے امام سیدنا حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز بدری صحابہ کے واقعات میں انہیں بیان بھی فرما رہے ہیں۔

جیسا کہ عرض کیا گیا کہ قربانیاں الٰہی سلسلوں کےلیے ایک جزوِ لاینفک ہوتی ہیں۔ پس جب اللہ تعالیٰ نے سیدنا حضرت اقدس محمد مصطفیٰﷺ کی پیشگوئیوں کے مطابق آپ کے غلام صادق کے ذریعہ اسلام کی نشأۃ ثانیہ کے دَور کی بنیاد رکھی تو اس میں بھی ان قربانیوں کو اس سلسلہ کےلیے ایک لازمی جزو قرار دیا۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے اس دَور میں جہاں غلامان مسیح محمدی نے اپنے مال اور وقت کی قربانیوں کی بے نظیر تاریخ رقم کی وہاں انہوں نے اپنی جانوں کے نذرانے بھی اپنے خدا کے حضوراس طرح ہنستے ہنستے پیش کیںکہ ان کی جانی قربانیوں کی چمک آنکھوں کو خیرہ کرتی محسوس ہوتی ہے۔

مسیح محمدی کا زمانہ جس میں سے آج ہم گزر رہے ہیں یہ وہ زمانہ ہے جس میں حق و باطل کی ایسی جنگ لڑی جارہی ہے جس میں تلوار اور بندوق کی بجائے قلم اور دلائل کا استعمال ہو رہا ہے اور اب تو یہ جنگ فیصلہ کن مرحلہ میں داخل ہو چکی ہے جس میں

لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ

کی نوید کے مطابق بالآخر فتح یقیناً اسلام اور احمدیت کی ہی ہے۔ ان شاء اللہ

اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے اس دَور میں گو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یَضَعُ الْحَرْبَ کا ارشاد فرما کر اسلام کی نشاۃ اولیٰ کی طرح جنگوں اور تلوار کے جہاد کو موقوف فرما دیا تھا لیکن دشمنان احمدیت ہمیشہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس پیاری جماعت کے افراد کی جانوں کے در پے رہے ہیں۔ پس جب ہم جماعت احمدیہ کی ایک سو تیس سالہ تاریخ کی ورق گردانی کرتے ہیں تو ہمیں اس مختصر سے عرصے میں افراد جماعت خدا تعالیٰ کی رضا کی خاطر دیگر قربانیوں کے ساتھ ساتھ جانی قربانیوں کے نذرانے پیش کرتے اور اس راہ میں عشق و وفا کی نئی نئی داستانیں رقم کرتے نظر آتے ہیں۔ دورِ اول کے مسلمانوں کےلیے ایسے حالات پیدا کر دیے گئے کہ انہیں مجبوراً اپنے مخالفین کے خلاف تلوار اٹھا کر میدان میں اترنا پڑا لیکن دَور آخر میں جبکہ اسلام کی اس حقیقی جماعت نے آنحضرتﷺ کی پیشگوئی یَضَعُ الْحَرْبَکے تحت تلوار کی بجائے قلم کو اپنا طریقۂ جہاد بنایا تو کلمۂ حق کا اقرار کرنے والے ان نہتے مظلوموں کو ان کے گھروں میں جبکہ وہ پرامن طریق پر رہتے تھے، ان کے کاروباروں پر جہاں وہ دیانتداری سے اپنے فرائض سر انجام دیتے تھے اور ان کی مساجد میں جہاں وہ اپنے رب کے حضور عبادات کے نذرانے پیش کرتے تھے دشمن نے بےخبری کے عالم میں انہیں بڑی بےدردی سے شہید کیا۔ اور یہی اندازاس دَور کی شہادتوں کا خاصہ ہے۔

اسلام کی نشأۃ اولیٰ میں دشمنان اسلام کی طرف سے کیے جانے والے بھیانک اور دل دوز مظالم کی داستانوں میں جب بھی بلالؓ کا نام گونجتا ہے تو فوراً مکہ کی وادی میں شدید گرمی کی حالت میں تپتے ہوئے پتھروں پر ننگے جسم لٹائے گئے ایک بندۂ خدا کے ننگے جسم پر برستے کوڑوں کاروح کو تڑپا دینے والا نظارہ سامنے آجاتا ہے جس میں حضرت بلالؓ کی روح کی گہرائیوں سے اٹھنے والی احد احد احد کی آواز کانوں میں ارتعاش پیدا کرتی ہےاور ایک منصف مزاج انسانی روح کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتی ہے۔

خود گرمی ہی ناقابل برداشت ہوتی ہے لیکن صحرا کی گرمی تو جسم کو جھلسادیتی ہے۔ ایسے وقت میں انسان کی کوشش ہوتی ہے کہ اس کے جسم کا کوئی حصہ ننگا نہ رہے تا کہ جلدمحفوظ رہ سکے۔ لیکن ایسی جھلسا دینے والی شدید گرمی کی دوپہر میں ایک غلام کواس کا مالک ننگے بدن ریت اور پتھروں پر لٹا کر مجبور کرتا ہے کہ وہ اپنے دین سے منحرف ہو جائے اور شرک میں واپس آ جائے۔ لیکن آفرین ہے اس صبر کے کوہ گراں پر کہ انتہائی تکلیف ده حالت میں بھی اس کی زبان سے احد احد کی آواز ہی بلند ہوتی ہے۔ شدید درد اور نقاہت کی وجہ سے اگر کسی وقت یہ آواز مدھم پڑ جاتی تو اس کا مالک اپنا کان اس کے منہ کے قریب لا کر اس کی آواز کو اس امید کے ساتھ سننے کی کوشش کرتا کہ شاید اس کی خواہش کے مطابق وہ اس غلام کے منہ سے اپنے بتوں کی تعریف سن سکےلیکن ہر دفعہ اسے ناامیدی ہوتی اور اس جھنجھلاہٹ میں وہ اپنے پرتشدد رویہ کو اور بھی شدید کر دیتا اورکبھی پتھر اس کے سینہ پر رکھ دیتا اور کبھی اس کے جسم پر کوڑے برسانے لگتا، مگر اس ایمان کے مضبوط پہاڑ کی طرف سے کمزوری دیکھنا اسے نصیب نہ ہوتی۔

اس مالک کا نام امیہ بن خلف تھا اور غلام حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ تھے۔ امیہ نے آپ رضی الله عنہ پر مصائب کے پہاڑ ڈھائے۔ آپ کے ہاتھ رسیوں سے باندھ کر گردن میں رسی ڈال کر رات بھر تاریک کوٹھری میں اس طرح پھینک دیا کرتا جیسے آپ کوئی انسان نہیں بلکہ کوئی ناکارہ سامان ہوں، آپ کے جسم پر اس زور سے رسیاں باندھی جاتیں کہ آپ کی جلد کٹ جاتی۔ پھر دن کے وقت مکہ کی گلیوں میں آپ کو گھسیٹ کر اور صحرا کی ریت پر لٹا کر کوڑے برسائے جاتے۔ پتھر اور چکی کے پاٹ آپ کےسینہ پر رکھ دیے جاتے۔ انسان نہیں بلکہ جانور سمجھ کر اس طرح پیٹا جاتا کہ موت سامنے نظر آنے لگتی۔ لیکن ایسی روح پر موت کیسے وارد ہوسکتی ہے ؟ اس پاکیزه روح کے منہ سےجب تک اس کی سانسیں بحال رہتیں احد احد کی ہی صدا بلند ہوتی۔ لیکن اگر کسی وقت اس آواز میں کچھ ضعف پیدا ہوتا توکوڑے برسانے والا سمجھتا کہ اس کی روح نے ا س کے جسم کا ساتھ چھوڑ دیا ہے تو اس کا ہاتھ کچھ دیر کےلیے کوڑے برسانے سے رک جاتا لیکن جب پھر اس ایمان کے پتلے کی سانس بحال ہوتی تو مالک کی طرف سے ظلم کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوجاتا۔

ایسی ہی ایک کیفیت میں جبکہ امیہ کے تشدد کے نتیجہ میں حضرت بلالؓ کے جسم میں نقاہت پیدا ہو گئی اور آپؓ کی آواز میں ضعف ہو گیا اور امیہ نے سوچا کہ اب یہ غلام مر گیا ہے اور اس نے یہ خیال کرتے ہوئے کہ کہیں اس کی رقم ڈوب نہ جائے، اس نیم مردہ جسم کا سودا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ کرنا چاہا۔ چنانچہ اسی نیم مرده حالت میں حضرت بلال رضی الله عنہ کےکانوں نے کچھ اس قسم کی آوازیں سنیں کہ امیہ کہہ رہا تھا کہ میں اس سیاہ جانور کے سو درہم لوں گا۔ لیکن جب اس نے اس غلام کے قریب آ کر دیکھا کہ ابھی اس کی سانسیں چل رہی ہیں تو امیہ نے کہا اس کی سانسیں ابھی چل رہی ہیں اور یہ زندہ ہے۔ اس لیے اے ابوبکر! میں نے اس کے دو سو درہم لینے ہیں۔ کچھ دیر بعد حضرت بلال رضی الله عنہ نے محسوس کیا کہ ان کی رسیاں ڈھیلی ہو رہی ہیں اور چکی کا پاٹ بھی ان کے سینہ سے ہٹ گیا ہے۔ اور کوئی ان کو سہارا دے کر اٹھا رہا ہے۔حضرت بلال رضي الله عنہ نے بمشکل انہیں پہچانا کہ وه حضرت زید رضی الله عنہ تھے۔

امیہ جبکہ اس غلام کی قیمت کے طور پر ملنے والے اپنے دو سو در ہم گن رہا تھا کہ اس نے طنزا ًمسکرا تے ہوئے کہا کہ اے ابو بکر! تم اگر مجھے اس غلام کے سودرہم بھی دیتے تو میں انکار نہ کرتا، اس موقع پر حضرت بلال رضی الله عنہ نے حضرت ابوبکررضی الله عنہ کے چہرے کی طرف دیکھا جو امیہ سے کہہ رہے تھے کہ تم سودا کرتےہوئے چوک گئے ہو اگر تم مجھ سے اس کے ہزار درہم بھی مانگتے تو میں ضرور دےدیتا۔ حضرت ابوبکر رضی الله عنہ حضرت بلالؓ کو سہارا دے کر اپنے گھر لے آئے۔ ان کاعلاج کیا اور اس طرح حضرت بلال رضی الله عنہ کو تندرستی کے ساتھ ساتھ آزادی بھی نصیب ہوئی۔

اب قیامت تک کے لیے یہ ایک مثال بن گئی ہے کہ جب بھی کسی مظلوم پر ظلم کے پہاڑ ڈھائے جائیں گے، اس پر زمین تنگ کی جائے گی، اس کےلیے زندگی گزارنا مشکل کی جائے گی، جب بھی زمانہ امیہ بنے گا اور بلال جیسے معصوموں کو دکھوں اور تکلیفوں کا نشانہ بنائے گا تو یقیناً ابو بکر بھی پیدا ہوتے رہیں گے اور اس طرح مظلوموں کی اذیتوں کا مداوا ہوتا رہے گا۔

اگرچہ حضرت بلالؓ جنگ بدر کے موقع پر امیہ کو اپنے ہاتھوں سے قتل کر کے اس کے ظلموں کا کسی قدر بدلہ لے چکے تھے۔ لیکن ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفیٰﷺ نے اپنے اس مظلوم صحابی پر ہونے والے ظلموں کا تمام اہل مکہ سے اس طرح بدلہ لیا کہ آپﷺ نے اس موقع پر حضرت بلالؓ کے نام کا جھنڈا کھڑا کر کے اعلان کروایا کہ جو آج بلال کے جھنڈے تلے آئے گا اسے بھی پناہ دی جائے گی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنے خطبہ جمعہ میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے حوالہ سے اس کا واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

‘‘آپؐ نے فرمایا بہت اچھا لاؤ۔ ایک جھنڈا بلالؓ کا تیار کرو۔ …اور فرمایا کہ یہ بلالؓ کا جھنڈا ہے۔ یہ اسے لے کر چوک میں کھڑا ہو جائے اور اعلان کر دے کہ جو شخص بلال کے جھنڈے کے نیچے کھڑا ہو گا اس کو نجات دی جائے گی۔ … حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ اس واقعہ میں جو سب سے زیادہ عظیم الشان بات ہے وہ بلال کا جھنڈا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بلالؓ کا جھنڈا بناتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ جو شخص بلالؓ کے جھنڈے کے نیچے کھڑا ہو جائے گا اس کو پناہ دی جائے گی حالانکہ سردار تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی جھنڈا نہیں کھڑا کیا جاتا۔ آپؐ کے بعد قربانی کرنے والے ابوبکرؓ تھے مگر ابوبکر کا بھی کوئی جھنڈا نہیں کھڑا کیا جاتا۔ ان کے بعد مسلمان ہونے والے رئیس عمرؓ تھے مگر عمر کا بھی کوئی جھنڈا نہیں کھڑا کیا جاتا۔ ان کے بعد عثمانؓ مقبول تھے اور آپؐ کے داماد تھے مگر عثمانؓ کا بھی جھنڈا نہیں کھڑا کیا جاتا۔ ان کے بعد علیؓ تھے جو آپؐ کے بھائی بھی تھے اور آپؐ کے داماد بھی تھے مگر علی کا کوئی جھنڈا نہیں کھڑا کیا جاتا۔ پھر عبدالرحمٰن بن عوفؓ وہ شخص تھے جن کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ آپؓ وہ شخص ہیں کہ جب تک آپؓ زندہ ہیں مسلمان قوم میں اختلاف نہیں ہو گا لیکن عبدالرحمٰنؓ کا کوئی جھنڈا نہیں بنایا جاتا۔ پھر عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپؐ کے چچا تھے اور بعض دفعہ وہ گستاخی بھی کر لیتے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بول لیا کرتے تھے تو آپؐ خفا نہ ہوتے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا بھی کوئی جھنڈا نہیں بنایا۔ پھر سارے رؤساءاور چوٹی کے آدمی موجود تھے۔ خالد بن ولیدؓ جو ایک سردار کا بیٹا، خود بڑا نامور انسان تھا، موجود تھا۔ عمرو بن عاصؓ ایک سردار کا بیٹا تھا۔ اسی طرح اَور بڑے بڑے سرداروں کے بیٹے تھے مگر ان میں سے کسی ایک کاجھنڈا نہیں بنایا جاتا۔ جھنڈا بنایا جاتا ہے تو بلالؓ کا بنایا جاتا ہے۔ کیوں ؟ اس کی کیا وجہ تھی؟ اس کی وجہ یہ تھی کہ … صرف ایک شخص تھا جس کی مکہ میں کوئی رشتہ داری نہیں تھی۔ جس کی مکہ میں کوئی طاقت نہیں تھی۔ جس کا مکہ میں کوئی ساتھی نہیں تھا اور اس کی بے کسی کی حالت میں اس پر وہ ظلم کیا جاتا جو نہ ابوبکرؓ پہ ہوا، نہ علیؓ پر ہوا، نہ عثمانؓ پر ہوا، نہ عمرؓ پر ہوا بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی نہیں ہوا۔

… وہ کیا ظلم تھا۔ وہ ظلم یہ تھا کہ جلتی اور تپتی ہوئی ریت پر بلالؓ کو ننگا لٹا دیا جاتا تھا۔ تم دیکھو ننگے پاؤں میں مئی اور جون میں نہیں چل سکتے۔ اس کو ننگا کر کے تپتی ریت پر لٹا دیا جاتا تھا۔ پھر کیلوں والے جوتے پہن کر نوجوان اس کے سینے پر ناچتے تھے اور کہتے تھے کہ کہو خدا کے سوا اَور معبود ہیں۔ کہو محمد رسول اللہ جھوٹا ہے اور بلالؓ آگے سے اپنی حبشی زبان میں جب وہ بہت مارتے تھے کہتے تھے

اَسْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہُ۔ اَسْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہُ

کہ وہ شخص آگے سے یہی جواب دیتا تھا کہ تم مجھ پر کتنا بھی ظلم کرو میں نے جب دیکھ لیا ہے کہ خدا ایک ہے تو دو کس طرح کہہ دوں اور جب مجھے پتہ ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے سچے رسول ہیں تو میں انہیں جھوٹا کس طرح کہہ دوں؟ اس پر وہ اَور مارنا شروع کر دیتے تھے۔ گرمیوں کے مہینوں کے موسم میں، ان مہینوں میں جب گرمیاں ہوتی ہیں اس موسم میں اس کے ساتھ یہی حال ہوتا تھا۔ اسی طرح سردیوں میں وہ یہ کرتے تھے کہ ان کے پیروں میں رسّی ڈال کر انہیں مکہ کی پتھروں والی گلیوں میں گھسیٹتے تھے۔ ان کا چمڑازخمی ہو جاتا تھا یعنی کھال زخمی ہو جاتی تھی۔ وہ گھسیٹتے تھے اور کہتے تھے کہو جھوٹا ہے محمد صلی اللہ علیہ وسلم۔ کہو خدا کے سوا اَور معبود ہیں تو وہ کہتے

اَسْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہُ۔ اَسْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہُ۔

اب جبکہ اسلامی لشکر دس ہزار کی تعداد میں داخل ہونے کے لیے آیا تو بلالؓ کے دل میں خیال آیا ہو گا کہ آج ان بوٹوں کا بدلہ لیا جائے گا جو میرے سینے پر ناچتے تھے۔ آج ان ماروں کا معاوضہ بھی مجھے ملے گا جس طرح مجھے ظالمانہ طور پر مارا گیا تھا لیکن جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص ابو سفیان کے گھر میں داخل ہو گیا وہ معاف۔ جو خانہ کعبہ میں داخل ہو گیا وہ معاف۔ جس نے اپنے ہتھیار پھینک دیے وہ معاف۔ جس نے اپنے گھر کے دروازے بند کر لیے وہ معاف تو بلال کے دل میں خیال آیا ہو گا کہ یہ تو اپنے سارے بھائیوں کو معاف کر رہے ہیں اور اچھا کر رہے ہیں لیکن میرا بدلہ تو رہ گیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ آج صرف ایک شخص ہے جس کو میرے معاف کرنے سے تکلیف پہنچ سکتی ہے اور وہ بلالؓ ہے کہ جن کو میں معاف کر رہاہوں وہ اس کے بھائی نہیں۔ جو اس کو دکھ دیا گیا ہے وہ اَور کسی کو نہیں دیا گیا۔ آپؐ نے فرمایا میں اس کا بدلہ لوں گا اور اس طرح لوں گا کہ میری نبوت کی بھی شان باقی رہے اور بلالؓ کا دل بھی خوش ہو جائے۔ آپؐ نے فرمایا بلالؓ کا جھنڈا کھڑا کرو اور ان مکہ کے سرداروں کو جو جوتیاں لے کر اس کے سینے پر ناچا کرتے تھے، جو اس کے پاؤں میں رسّی ڈال کر گھسیٹا کر تے تھے، جو اسے تپتی ریتوں پر لٹایا کرتے تھے کہہ دو کہ اگر اپنی اور اپنے بیوی بچوں کی جان بچانی ہے تو بلالؓ کے جھنڈے کے نیچے آ جاؤ۔ میں سمجھتا ہوں جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے، جب سے انسان کو طاقت حاصل ہوئی ہے اور جب سے کوئی انسان دوسرے انسان سے اپنے خون کا بدلہ لینے پر تیار ہوا ہے اور اس کو طاقت ملی ہے اس قسم کا عظیم الشان بدلہ کسی انسان نے نہیں لیا۔ جب بلالؓ کا جھنڈا خانہ کعبہ کے سامنے میدان میں گاڑا گیا ہو گا۔ جب عرب کے رؤساء، وہ رؤساء جو اس کو پیروں سے مسلا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ بولتا ہے کہ نہیں کہ محمد رسول اللہ جھوٹا ہے۔ اور اب جب نظارہ بدلا، جب حالات بدلے تو اب وہ دوڑ دوڑ کر اپنے بیوی بچوں کے ہاتھ پکڑ پکڑ کر اور لا لا کر بلالؓ کے جھنڈے کے نیچے لاتے ہوں گے کہ ہماری جان بچ جائے۔ تو اس وقت بلالؓ کا دل اور اس کی جان کس طرح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نچھاور ہو رہی ہو گی۔ وہ کہتا ہو گا میں نے تو خبر نہیں ان کفار سے بدلہ لینا تھا یا نہیں یا لے سکتا تھا کہ نہیں اب وہ بدلہ لے لیا گیا ہے کہ ہر شخص جس کی جوتیاں میرے سینے پر پڑتی تھیں اس کے سر کو میری جوتی پر جھکا دیا گیا ہے۔ یہ وہ بدلہ ہے کہ وہ جوتیاں جو سینے پر ناچا کرتی تھیں آج ان کو پہننے والے سر بلال کی جوتی پر جھکا دیے گئے ہیں۔ یہ وہ بدلہ تھا جو یوسف کے بدلہ سے بھی زیادہ شاندار تھا۔ اس لیے کہ یوسف نے اپنے باپ کی خاطر اپنے بھائیوں کو معاف کیا تھا۔ جس کی خاطر کیا وہ اس کا باپ تھا اور جن کو کیا وہ اس کے بھائی تھے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچوں اور بھائیوں کو ایک غلام کی جوتیوں کے طفیل معاف کیا۔ بھلا یوسف کا بدلہ اس کے مقابلے میں کیا حیثیت رکھتا ہے۔

(ماخوذ از سیر روحانی، انوار العلوم جلد 24صفحہ 268تا 273)’’

(خطبہ جمعہ فرمودہ 18؍ستمبر2020ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل9؍اکتوبر2020ءصفحہ5تا6)

وَ اٰخَرِیۡنَ مِنۡہُمۡ لَمَّا یَلۡحَقُوۡا بِہِمۡ ؕ وَ ہُوَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ (سورة الجمعہ :4)

یعنی انہی میں سے دوسروں کی طرف بھی اسے مبعوث کیا ہے جو ابھی ان سے نہیں ملے اور وه کامل غلبہ والا (اور) صاحب حکمت ہے۔ اس قرآنی پیشگوئی کے مطابق دورے اولین کے نمونے دورے آخرین میں ضرور نظر آئیں گے۔

اسی طرح قرآنی الفاظ

ثُلَّۃٌ مِّنَ الۡاَوَّلِیۡنَ۔ وَ ثُلَّۃٌ مِّنَ الۡاٰخِرِیۡنَ ( سورة الواقعہ :40تا41)

یعنی پہلوں میں سے ایک بڑی جماعت ہےاور پچھلوں میں سے بھی ایک بڑی جماعت ہے کے مطابق اسلام کی نشأۃ ثانیہ کے دَور میں بھی ایسی جماعت ضرور ہونی تھی جو پہلی جماعت کی ہی طرح ہوتی۔ اورپہلے دَور کے حالات وواقعات دوسرے دَور میں بھی ضرور رونما ہونے تھے۔ جب بھی کوئی امیہ بَن کر بلال پر ظلم کرتاتو ضرور تھا کہ کوئی ابو بکر بن کر بلال کو سہارا دیتا۔

پھر دور آخرین کے متعلق یہ پیشگوئی بھی ہے کہ اس میں اسلام کو تمام دیگر ادیان پر ہر شعبہ میں غلبہ عطا ہوگا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے:

ہُوَ الَّذِیۡۤ اَرۡسَلَ رَسُوۡلَہٗ بِالۡہُدٰی وَ دِیۡنِ الۡحَقِّ لِیُظۡہِرَہٗ عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہٖ وَ لَوۡ کَرِہَ الۡمُشۡرِکُوۡنَ(سورۃالصف:10)

یعنی وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تا کہ وہ اسے دین کے ہر شعبہ پر كلیۃً غالب کردے خواہ مشرک برا منائیں۔

جب مشرک برا منائیں گے تو لازمی بات ہے کہ وہ ظلم بھی کریں گے۔ اور جب ظلم کریں گے تو پھر الله تعالىٰ کسی نہ کسی کو حضرت ابو بکر رضی الله عنہ کا مثيل بننے کی بھی توفیق عطا فرمائے گا جو آگے بڑھ کر ان ظالموں کی طرف سے پہنچنے والی تکلیفوں، دکھوں اور پریشانیوں کا مداوا کرے گا۔ حق وباطل کے اس آخری معرکہ کا دائرہ بہت وسیع ہے اور یہ پھیلاؤ بالآخر اہل حق کےلیے کامیابیوں اور خوشیوں کا پیغام لے کر آئے گا اور اہل باطل کےلیے یقیناً ناکامی و نامرادی کا باعث ہو گا۔ ان شاء اللہ۔ اگرچہ دشمن ایڑی چوٹی کا زور لگا کر اور اپنی کارروائیوں کو تیز سے تیز تر کرکے مومنوں کی جماعت کو اپنے زعم میں نقصان پہنچانے کی بھر پور کوشش کرے گا۔

الٰہی جماعتوں کا یہ بھی شیوہ ہوتا ہے کہ مشکل اور ابتلا کے حالات میں اس کےافراد اپنے ایمان اور یقین پر مستحکم رہتے ہوئے ہر قسم کی قربانی پیش کرنے کی توفیق پاتے ہیں، اپنے مال ومتاع بھی الله کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اور جہاں ضرورت ہو اپنی جان کے نذرانے بھی راہ مولیٰ میں پیش کرتے ہیں۔ حق و باطل کے اس آخری معرکہ میں شیطان اور اس کے چیلوں نے چونکہ اسلام کو مٹانے کےلیے اپنی ہر کوشش کو بروئے کار لانا تھا اور اللہ تعالیٰ نے اپنے اس سچے دین کو تمام ادیان پر غلبہ عطا فرمانا تھا، اس لیے اس زمانہ میں اہل حق کی طرف سے قربانیوں کی ضرورت بھی زیاده پیش آنی تھی، جن میں جان کی قربانیوں کی بھی ضرورت ہونی تھی اور جان کی قربانی سب سے زیادہ مشکل کام ہوتا ہے اور یہ قربانی مضبوطیٔ ایمان و یقین کے بغیر نہیں دی جا سکتی۔

انہیں قربانیوں کے تناظر میں جن کا آغاز اسلام کی نشأۃ اولیٰ سے ہوا اور جن کی یاد کو آج تک اہل حق و وفا نے کسی لمحہ بھی اپنی نظروں سے اوجھل نہیں ہونے دیا، خاکسار اس مختصر سے نوٹ میں اسلام کی نشأۃ ثانی کے اس دَور میں ہونے والے مظلوم اور معصوم شہیدوں کے اعزاز اور احترام میں سیدناحضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کی جانے والی بابرکت تحریک سیدنا بلال فنڈ کے متعلق کچھ عرض کرنا چاہتا ہے۔

اسلام کی نشأۃ اولیٰ میں فتح مکہ کے موقع پر جس طرح آنحضورﷺ نے حضرت بلال کے نام کا جھنڈا کھڑا کر کے حضرت بلالؓ کو ایک بہت بڑا اعزاز عطا فرمایا اسی سنت کے تابع اسلام کی نشأۃ ثانیہ میں قدرت ثانیہ کے چوتھے مظہر حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس دَور میں اسلام کی بقا کےلیے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرنے والوں کے لواحقین کی دیکھ بھال اور ان کی پرورش کےلیے‘‘سیدنا بلال فنڈ ’’کے نام سے مالی تحریک کا اجرا فرما کر حضورﷺ کے اس جاںنثار صحابی کےلیے قیامت تک کے لیے ایک اعزاز کو جاری فرمایا۔

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ الله تعالیٰ اس قربانی کی اہمیت اور فلسفہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

‘‘جماعتوں کی زندگی کی ضمانت اس بات میں ہے، الٰہی جماعتوں کی زندگی کی ضمانت کہ ان کے قربانی کرنے والوں کو اپنے پسماندگان کے متعلق کوئی فکر نہ رہے اور اتنی واضح، اتنی کھلی کھلی یہ حقیقت ہر ایک کے پیش نظر رہے کہ ہم بطور جماعت کے زنده ہیں اور بطور جماعت کے ہمارے سب دکھ اجتماعی حیثیت رکھتے ہیں۔ اگر یہ یقین پیدا ہوجائے کسی جماعت میں تو اس کی قربانی کا معیار عام دنیا کی جماعتوں سے سینکڑوں گنازیادہ بڑھ جاتا ہے۔ باہر تو پوچھتا ہی کوئی نہیں۔ بڑے بڑے سیاسی لیڈر ہم نے دیکھے ہیں جو تحریکیں چلا کر ہزارہا کو مروا دیتے ہیں اور اس کے بعد خود عیش و عشرت کی زندگی بسر کر رہے ہوتے ہیں۔ کوئی پتہ نہیں کرتا کہ ان یتیموں کا کیا بنا، ان بیوگان کا کیا بنا، ان کے بچوں کی اخلاقی نگرانی کرنے والا بھی کوئی تھا کہ نہیں، ان کے سر پر چھت بھی تھی کہ نہیں، دو وقت کا کھانا بھی میسر تھا کہ نہیں اور عوام بے چارے اپنی سادگی میں پھر ہر دفعہ ایسی قربانیاں پیش کرتے ہیں۔ لیکن جس جماعت میں قربانی کا معیار خدا کے فضل اور اس کے رحم کے نتیجہ میں اس وجہ سے بلند ہو کہ وہ خدا کی خاطر قربانی کرتے ہیں اور ساتھ یہ بھی یقین کامل ہو کہ ہمارے بعد ہماری اولادکی ساری جماعت نگران رہے گی بلکہ پہلے سے بڑھ کر ان کی ضروریات کا خیال رکھا جائے گا۔ تو ایسی جماعت کی قربانی کا معیار آسمان سے باتیں کرنے لگتا ہے۔

اس لئے اگر چہ جماعت خدا تعالیٰ کے فضل سے ان تمام باتوں کو اچھی طرح سمجھتی ہے اور اپنی ذمہ داریاں نبھائے گی۔ لیکن بعض دوستوں کی طرف سے یہ اصرار ہوتا رہا کہ شہدا کے لئے ایک مستقل فنڈ اکٹھا ہونا چاہیے۔ پہلے تو میری طبیعت میں یہ تردد رہا اس خيال سے کہ یہ تو ان کے حقوق ہیں اور جماعت کی جو بھی آمد ہے اس میں یہ اولین حق ان لوگوں کا شامل ہے۔ اس لئے الگ تحریک کرنے سے کہیں یہ جذباتی تکلیف نہ ان کو پہنچے کہ ہمارا بوجھ جماعت اٹھا نہیں سکتی اس طرح ہمارے لئے جیسے صدقہ کی تحریک کی جاتی ہے۔ اس طرح الگ تحریک کی جارہی ہے۔ اس لئے کافی دیر تردد رہا اور دعا بھی کرتا رہا کہ الله تعالیٰ صحیح فیصلہ کی توفیق عطا فرمائے۔ لیکن اب مجھے پوری طرح اس بات پر شرح صدر ہوگیا ہے کہ چونکہ یہ ہرگز صدقہ کی تحریک نہیں بلکہ جو شخص اس میں حصہ لے گا وہ اعزاز سمجھے گا اس بات کو کہ مجھے جتنی خدمت کرنی چاہیے تھی اتنی نہیں تو ایک بہت ہی معمولی خدمت کی توفیق مل رہی ہے اور اس لئے کہ بہت سے لوگوں کی طرف سے بے اختیار بار بار اظہار ہورہا ہے کہ ہم بے چین ہیں ہمیں موقع دیا جائے ہم کسی رنگ میں خدمت کرنا چاہتے ہیں اور چونکہ جماعت کی ایسی تربیت ہے کہ انفرادی طور پر ایسے لوگوں کو ایسے خاندانوں سے تعلق رکھ کر کچھ رقمیں دینے کو مناسب نہیں سمجھا جاتا۔ اس میں کئی قسم کی قباحتیں پیدا ہوتی ہیں اور ہم یہ پسند نہیں کرتے کہ ذاتی طور پریہ لوگ کسی کے احسان کے نیچے آئیں۔ اس لئے جن کی تمنا ہے جو اس بات کے لئے تڑپ رہے ہیں کہ ہمیں بھی موقع ملنا چاہیے ان کے لئے پھر یہی رستہ باقی رہ جاتا ہے کہ نظام جماعت ان کو موقع دے اور وہ جماعت میں اپنی توفیق اور اپنی خواہش، اپنی تمنا کے مطابق کچھ نہ کچھ پیش کریں۔ ’’

حضور رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں :

‘‘میں جماعت کو یہ بھی تسلی دلانا چاہتا ہوں کہ الله کے فضل سے جماعت احمدیہ میں کوئی خدا کی راہ میں مارےجانے والا ہرگز یہ وہم لے کر یہاں سے رخصت نہیں ہوتا کہ میرے بچوں کا، میری بیوی کا کیا بنے گا۔ جماعت احمدیہ میں ایسے لوگوں کے بچے یتیم نہیں ہوا کرتے۔ یہ ایک زندہ جماعت ہے اور یہ ناممکن ہے کہ یہ جماعت اپنے قربانی کرنے والوں کے اہل وعیال کو اور ان کے حقوق کو بھول جائے۔ ’’

(خطبہ جمعہ فرمودہ 14؍مارچ1986ءمطبوعہ خطبات طاہر جلد 5صفحہ 220)

جان کی قربانی دینے والوں کے پسماندگان کا خیال رکھنے سے کئی فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ ایک تو خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے سے اس کی رضا اور خوشنودی ملتی ہے، دوسرا یتیموں پر خرچ کرنے اور ان کا خیال رکھنے سے الگ ثواب ملتا ہے، تیسرا افراد جماعت کے یقین اور ایمان میں اضافہ ہوتا ہے جو جماعتی ترقی اور استحکام کے لیے بہت ضروری ہے اور چوتھا اسلام احمدیت کے پھیلاؤ میں جتنا حصہ ان شہیدوں کے خون نے ڈالا ہے ان کے پسماندگان کا خیال رکھ کر کسی حد تک اس حصہ میں شمولیت ہوجاتی ہے۔ پس تاریخ جس طرح ان شہیدوں کو یاد رکھے گی جن کی قربانیوں نے، جن کے خون نے اسلامی فتوحات کی آبیاری کی اسی طرح تاریخ کے اوراق اس بات کو بھی محفوظ رکھیں گے کہ شہیدوں کے پسماندگان کا خیال رکھنے والوں نے اس فتح میں ایک گنا حصہ ڈالا ہے۔ ساڑھے چودہ سو سال قبل حضرت بلال رضی الله عنہ کو امیہ کے مظالم سے بچا کر، انہیں غلامی کی زندگی سے نجات دلا کر ایک آزاد اور باعزت شہری کی حیثیت ملی۔اس سفر کا آغاز حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کیا تھا اور جس کےلیے حضرت ابو بکر رضی الله عنہ کا کام اور نام آج تک زندہ ہے اور قیامت تک اسی طرح زندہ اور یاد رکھا جائے گا۔ جب بھی حضرت بلال رضی الله عنہ کی اذان کی آواز مکہ اور مدینہ کی وادیوں میں گونجتی ہو گی تو یقیناً اس کا ثواب حضرت ابو بکر رضی الله عنہ کو بھی پہنچتا ہوگا۔ اسی طرح آج جبکہ احمدیت یعنی حقیقی اسلام کا جھنڈا پوری دنیا میں لہرا رہا ہے اور اس میں یقینا ًان شہداء کا بھی حصہ ہے جنہوں نے اس کامیابی کو اپنے خون سے سینچا ہے۔ تو ان شہداء کے ساتھ ساتھ اسی طرح ان افراد جماعت کا بھی حصہ ہے جو ان شہداء کے پسماندگان کو سنبھال کر افراد جماعت کے یقین و ایمان میں اضافہ کا باعث ہوئے ہیں، جس سے جماعتی ترقی کا سفر بڑی تیزی سے جاری وساری ہے۔

پھر اس بابرکت تحریک میں حصہ لینے والے ان شہداء کے پسماندگان اس قرآنی حکم کی ایک طرح سے عملی تصویر بھی پیش کر نے کی توفیق پاتے ہیں، جہاں اللہ تعالیٰ نے اپنی راہ میں جان کا نذرانہ پیش کرنے والوں کے متعلق نصیحت فرمائی ہے کہ

وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللّٰهِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْيَاءٌ وَلَكِنْ لَا تَشْعُرُونَ (البقرۃ:155)

یعنی جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جاتے ہیں ان کے متعلق (یہ) مت کہو کہ وہ مردہ ہیں (وہ مردہ) نہیں بلکہ زندہ ہیں مگر تم نہیں سمجھتے۔

گویا اس آیت میں ہمیں یہ بات بھی سمجھائی گئی کہ ان شہداء کے پسماندگان کی تمام تر ضروریات کا اسی طرح خیال رکھنا تمہارا فرض ہے جیسا کہ وہ شہداء اپنی زندگی میں اپنے ان پیاروں کی ضروریات کا خیال رکھا کرتے تھے۔

اسی لیے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ الله نےاس بابرکت تحریک کے بارہ میں نہایت وضاحت سے احباب جماعت کو توجہ دلاتے ہوئےفرمایا :

‘‘پوری طرح شرح صدر اور محبت کے جذبہ سے جو دینا چاہتا ہے وہ دے گا۔ ادنیٰ سا بھی تردد یا بوجھ ہو تو ہرگز نہ دے…یہ ایک خاص نوعیت کی تحریک ہے۔ اس میں بشاشت طبع ہی ضروری نہیں بلکہ طبیعت کا دباؤضروری ہے، دل سے بے قرار تمنا اٹھ رہی ہو، ایک خواہش پیدا ہو رہی ہو کہ میں اس میں شامل ہوں۔ پھر خواہ کسی کو آنہ دینے کی بھی توفيق ہو وہ بھی بہت عظیم دولت ہے، وہ بھی خدا تعالی کی طرف سے ایک بہت بڑی سعادت ہوگی۔ ’’

(خطبہ جمعہ فرمودہ 14؍مارچ1986ءمطبوعہ خطبات طاہر جلد 5صفحہ 222)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ايده الله تعالیٰ بنصرہ العزیز اس تحریک کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

’’شہداء کے لئے فنڈ تو الله تعالیٰ کے فضل سے خلافت رابعہ سے قائم ہے جو‘‘ سیدنا بلالؓ فنڈ ’’کے نام سے ہے… اس فنڈ سےاللہ تعالیٰ کے فضل سے شہداء کی فیملیوں کا خیال رکھا جاتا ہے، جن جن کو ضرورت ہو ان کی ضروریات پوری کی جاتی ہیں اور اگر اس فنڈ میں کوئی گنجائش نہ بھی ہو تب بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ ان کا حق ہے اور جماعت کا فرض ہے کہ ان کا خیال رکھے اور الله تعالیٰ کے فضل سے ہمیشہ ہم ان کا خیال رکھتے رہیں گے۔ تو بہرحال ‘‘ سیدنا بلالؓ فنڈ’’قائم ہے جو لوگ شہداء کی فیملیوں کے لئے کچھ دینا چاہتے ہوں اس میں دے سکتے ہیں۔ ’’

(خطبہ جمعہ فرمودہ11؍جون2010ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 2؍جولائی2010ءصفحہ5)

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کی اس بابرکت تحریک کی طرف خاص توجہ ہے۔ جماعت کی بیسیوں مالی تحریکوں میں سے یہ واحد تحریک ہے جس میں حصہ لینے والے خوش نصیبوں کے اسماء پر مشتمل ماہانہ رپورٹ حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت اقدس میں پیش ہوتی ہےاور آپ ان خوش نصیبوں کےلیے دعا کرتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ ہمیں اور ہماری نسلوں کو خلفائے احمدیت کے ان زریں نصائح پر عمل پیرا ہونے اور اس بابرکت تحریک میں فخر محسوس کرتے ہوئے بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

(اس مضمون کو الفضل انٹرنیشنل ۱۶؍ اکتوبر ۲۰۲۰ء میں شائع کیا گیا)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button