یادِ رفتگاں

میری والدہ محترمہ سعیدہ بیگم اہلیہ محمد یوسف خان صاحب

(روؤف یوسف)

ارشاد خداوندی ہے فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ اور تم اپنے رب کی کس کس نعمت کا انکار کروگے ( الرحمٰن آیت :۱۴) ان بے شمار نعمتوں میں ایک ماں کی نعمت ایسی ہے جو ہر کس و ناکس کو دی گئی ہے لیکن کچھ ایسے بد نصیب اور بد بخت ہیں جن کو اس عظیم نعمت کا ادراک ہی نہیں۔شاید ان کی دنیاوی جاہ و جلال کے سامنے اس عظیم المرتبت شخصیت کی ہستی ماند پڑ جاتی ہے اور وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ شان و شوکت جس سےوہ آج محظوظ ہو رہے ہیں اسی ماں کی بدولت ہے جو راتوں کو اٹھ کر ان کی ضروریات پوری کرتی رہی ہے۔ اور شاید انتہائی نامساعد حالات کے باوجود ان کو زمانے کے ہر سرد و گرم سے محفوظ رکھ کر اس قابل کیا کہ آج ایک زمانہ ان کا معترف ہے۔

ماں کی قدر تو وہی بتا سکتے ہیں جو اپنی زندگی کے ابتدائی ایام میں ہی اس نعمت سے محروم ہو جاتے ہیں اور حسرت بھری نظروں سے آتی جاتی ماؤں کو دیکھا کرتے ہیںکہ اے کاش ان کو بھی اپنی ماں کی آغوش میسر ہوتی۔کیا ہم لوگ اپنی ماؤں کے حقوق ادا کر پاتے ہیں اس کا اندازہ تو اس حدیث نبوی ﷺ سے بخوبی ہو سکتا ہے کہ ایک شخص رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر دریافت کرتا ہے کہ اس نے اپنی عمر رسیدہ ماں کو اپنے کاندھوں پر اٹھا کر تمام مناسک حج ادا کروائے کیا اس نے اپنی والدہ کا حق ادا کر دیا۔ آپ ﷺ نے جواباً فرمایا۔ ہاں شاید اس ایک مرتبہ کا جب اس نے تم کو گیلے بستر سے اٹھا کرخشک جگہ پر ڈالا تھا۔

میری والدہ کا نام سعیدہ بیگم ہے۔ ان کا تعلق پٹیالہ کے ایک قصبہ سنور سے ہے۔ ان کا خاندانی سلسلہ حضرت مولوی عبداللہ سنوری ؓ (سرخ چھینٹوں والے) سے ہے۔ اس طرح اس خاندان میں احمدیت شروع سے ہی آ چکی تھی۔ میرے نانا مرحوم چودھری ظہورالدین صاحب ایک لحاظ سے صحابی تھے۔ لیکن یہ بات ثابت نہ ہو سکی۔ میرے نانا کے کہنے کے مطابق جب حضرت مسیح موعود ؑ سنور میں ایک جلسہ عام میں خطاب کرنے تشریف لائے تھے تو میرے نانا کو ان کے دیدار کی سعادت نصیب ہوئی تھی۔ لیکن ان کا نام جماعتی ریکارڈ میں شامل نہ ہو سکا۔ مؤرخ احمدیت مولانا دوست محمد شاہد صاحب سے مل کر اس کی تحقیق کی کوشش بھی کی گئی تھی۔ ممکن ہے وہ اس وقت کسی اور نام سے جانے جاتے ہوں یا پھران کا نام سہواً شامل نہ ہو سکا ہو۔ بہر حال بوجوہ ان کا نام مستند صحابہ حضرت مسیح موعودؑ کی فہرست میں شامل نہ ہو سکا۔یہ بہت مذہبی گھرانہ تھا۔ اور جماعت سے خاص تعلق تھا۔ قیام پاکستان سے قبل حضرت المصلح الموعودؓ نے جب ہالینڈ میں مسجد کی تعمیر کا اعلان فرما کر عطیات کی ادائیگی کا دروازہ کھولا تو میری نانی مرحومہ نے نہ صرف وعدہ کیا بلکہ فوری طور پر ادائیگی بھی کر دی۔میری نانی کی تربیت یافتہ میری والدہ بھی شروع ہی سے صوم و صلوٰۃ کی پابنداور تہجد گزار تھیں۔ ہم نے ہمیشہ ان کو باقاعدگی سے قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہوئے پایا۔ ہر سال ماہ رمضان میں تین چار بار قرآن پاک کا دور مکمل کرنا ان کا معمول تھا۔چند مخصوص سورتوں کی روزانہ تلاوت کیا کرتی تھیں۔ اور جب ان کی دنیاوی مصروفیات نسبتاً کم ہو گئیں تو کئی کئی گھنٹے تلاوت قرآن میں صرف کرتیں۔بہت سی سور تیں ان کو زبانی یاد تھیںجن کا وہ وقتاً فوقتاً ورد کیا کرتی تھیں۔

ان کی شادی اس وقت کے حالات کے مطابق چھوٹی عمر میں ہی فیروزپور کے ایک احمدی خاندان میں ہو گئی تھی میری والدہ کی عمراس وقت ۱۶ سال تھی جبکہ والد صاحب ۱۹ سال کے تھے۔ میرے دادا نے حضرت المصلح الموعود ؓکے ہاتھ پر بیعت کر کے احمدیت قبول کی تھی۔ میرے والد کے دادا خوست افغانستان سے رہائش ترک کر کے ہندوستان میں آ کر آباد ہو گئے تھے۔میرے دادا شروع ہی سے حق کے متلاشی تھے ایک وقت میں اہل تشیع سے منسلک ہو گئے، پھر لا دینیت بھی اختیار کی۔ اور پیر پرست بھی رہے۔ لیکن کہیں سکون نہ ملا۔ اپنے کام کے دوران ان کی ملاقات مردان میں ایک مخلص احمدی سرفراز خان صاحب سے ہو گئی۔ ان کے مشورہ پر صدق دل سے نماز ادا کرنے کے بعد دعا کا سلسلہ شروع کیا تو خواب میں حضرت مسیح موعودؑکی زیارت ہوئی اس طرح آپ احمدیت قبول کر کے راہ راست پر آ گئے اور احمدیت قبول کر نے کے بعد اطمینان قلب حاصل ہوا۔میرے ننھیال اور ددھیال میں ایک بات مشترک ہے میرے نانا اور میرے دادا دونوں نے احمدی خواتین سے شادی کی اور خود بعد میں احمدیت قبول کی۔میری والدہ کو یہ سعادت اور اعزاز بھی حاصل ہے کہ ان کی شادی کے بعد دعوت ولیمہ میں حضرت اماں جانؓ بھی شامل ہوئی تھیں۔حضرت اماں جان ؓنے میری امی کو شادی کی مبارکباد بھی دی اور سلامی کے طور پر ایک روپیہ کا سکہ عطا فرمایا۔ یہ سکہ ہمیشہ میری والدہ کے پرس میں موجود رہا۔

قیام پاکستان کے وقت میری والدہ اپنے سسرال کے ہمراہ مہاجر قافلوں کے ساتھ پاکستان آ گئیں وہ اس وقت بیس سال کی تھیں۔ میرے نانا اس وقت ملازمت کے سلسلہ میں سنور سے باہر تھے میری نانی اپنے بچوں کے ہمراہ سنور میں ہی قیام پذیر تھیں۔ یہاں یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ یہ تمام علاقہ ابتدائی طور پر پاکستان کا حصہ بننا تھا۔ لیکن آخری وقت پر یہ علاقہ ہندوستان کا حصہ قرار پایا۔ اس طرح اس وقت تک یہ تذبذ ب تھا اسی وجہ سے حفظ ماتقدم کے طور پر کوئی تیاری نہیں تھی۔جب اچانک فسادات شروع ہوئے تو اہل محلہ اور میرے نانا کے غیراز جماعت بھائیوںنے میری نانی اور ان کے بچوں کو ساتھ چلنے کو کہا۔ انہوں نے انکار کر دیا کہ وہ جماعت کے فیصلہ کا انتظار کریں گی۔ حالات ایسے نہیں تھے کہ وہ ان کا انتظار کرتے اس طرح ان کو وہاں چھوڑ کر مسلمانوں کاقافلہ روانہ ہو گیا اور میری نانی مع بچگان فسادات میں گھر گئیں۔ اسی دوران سکھ جتھے وہاں پہنچ گئے۔ میری نانی کو سکھوں نے ان کے ساتھ شامل ہونے کو کہا کہ اس طرح ان کی جان بچ سکے گی۔ لیکن وہ اپنے عقیدے پر قائم رہیں اور اس طرح شہید کر دی گئیں۔ ان کے ساتھ ان کے تین بیٹے بھی شہید کر دیے گئے۔ میری والدہ کے دو چھوٹے بھائی کسی طرح وہاں سے بھاگ نکلنے میں کامیاب ہو گئے۔ میری ایک چھوٹی خالہ جو اس وقت شاید گیارہ سال کی ہوں گی ان کو جتھے والےاپنے ساتھ لے گئے اور بعد میں اپنے ساتھ ہی رکھ لیا۔ (یہ سب تفصیل ہمیں اسی خالہ سے معلوم ہوئی جس کا ذکر آگے آئےگا) میرے ننھیال کے کچھ ارکان اپنی زندگی بچا کر سنور سے لٹے پٹے قافلے کے ہمراہ لاہور آئے، وہیں پر ہی دونوںخاندانوں کی ملاقات ہوئی اور معلوم ہوا کہ میری نانی اور تین ماموں فسادات میں شہید ہو گئے اور والدہ کی چھوٹی ہمشیرہ کا کوئی علم نہ ہو سکا۔والدہ کی شہادت کے باعث میرے دونوں ماموں جو بہت چھوٹے تھے ہمارے والدین کے ساتھ ہو لیے اور بقیہ ساری عمر ان کو والدین کی طرح ہی سمجھا اور ہمیشہ ان کو اسی طرح عزت اور فوقیت دی جیسے والدین کا حق ہوتا ہے۔ہمیں آج بھی اپنی والدہ اور ماموں کی محبت پر رشک آتا ہے اور ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ سب کو ایسی پیار کرنے والی بہن نصیب کرےاور ہر بہن کو ایسے جاںنثار بھائی نصیب ہوں۔

پاکستان آنے کے بعد میرے والد نے سرکاری ملازمت اختیار کر لی اور اس طرح ہماری فیملی پاکستان کے مختلف شہروں میں ٹرانسفر کے باعث جگہ جگہ قیام پذیر رہی۔اس طرح ہم لوگ سیالکوٹ، راولپنڈی، جہلم ، رسالپور اور لاہور میں قیام پذیر رہے۔ ۱۹۵۹ءمیں میرے والد کی ٹرانسفر کوئٹہ ہو گئی۔ میرے والد تو تب ہی وہاں چلے گئے لیکن ہم باقی فیملی ممبرز اگلے سال ۱۹۶۰ء میں اپنے والد کے پاس گئے۔ وہاں ہمارا قیام پانچ سال رہا۔

کوئٹہ چھاؤنی میں ہماری سرکاری رہائش گاہ جس کالونی میں تھی وہاںاطراف میں قریباً تیس گھرانے آباد تھے۔ میری والدہ نے جلد ہی وہاں اپنا ایک مقام بنا لیا تھا اور ارد گرد کے تمام گھرانوں میں اتنی ہر دلعزیزاور مقبول ہو گئی تھیں کہ وہاں کی کوئی تقریب ان کی شمولیت کے بنا ممکن ہی نہ تھی۔اس سے پہلے کے تمام مقامات پر بھی یہی حا ل رہا۔ ہم جہاںجہاں بھی رہے میری والدہ اس علاقے کی ہر دل عزیز خاتون رہیں۔ آج بھی اگر پرانے لوگوں سے ملاقات ہو جائے تو وہ سب میری والدہ کا ذکر بہت ہی اچھے پیرائے میں کرتے ہیں اور ان کی خدا داد خوبیوں کے معترف ہیں۔ ہر جگہ پر انہوں نے اپنا ایک مخصوص مقام بنایا اور قرب و جوار کے تمام افراد کو اپنا گرویدہ بنا لیا۔

ہم پانچ بہن بھائی ہیں اور ہم سب نے ہی قرآن کریم (ناظرہ ) سکول داخل ہونے سے قبل ہی مکمل کر لیا تھا اس کا سہرا ہماری والدہ کو ہی جاتا ہے۔تمام گھریلو مصروفیات کے با وجود انہوں نے ہم سب کو قرآن کی تعلیم دی۔ نہ صرف ہم کو بلکہ قریبی گھروں کے تمام بچوں کو بھی قرآنی تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا اس طرح کم و بیش تیس بچوں کو قرآن کی تعلیم دی۔ان میں ہم بھائی بہنوں کے علاوہ زیادہ تر غیر احمدی بچے تھے۔ جس جگہ پر ہمارا قیام ہوتا میری والدہ قریبی بچے بچیوں کو قرآن اور اسلام کی تعلیم سے آراستہ کرتیں۔ یہاں انگلستان میں میری چھوٹی بہن کے تینوں بچوں کو بھی میری والدہ نے ہی قرآن کی تعلیم دی۔

ہمارے مالی حالات اس وقت تک اتنے اچھے نہ تھے۔ والد صاحب اپنی سرکاری ملازمت کے ساتھ ساتھ کچھ جزوقتی کام بھی کیا کرتے تھے اس طرح زائد آمدنی سے گھریلو اخراجات میں سہولت ہو جاتی تھی۔اس دوران ہمارے والد صاحب نے کوئٹہ کالج میں شام کی کلاس میں ایم اے کرنے کے لیے بھی داخلہ لے لیا تھا۔ ہم پانچوں بہن بھائی بھی وہاں کے اچھے سکولوں میں تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ اس دوران گھر کی ساری ذمہ دار ی کے ساتھ ساتھ ہماری تربیت کی تمام ترذمہ داری بھی ہماری والدہ پر آن پڑی تھی۔ وہ ہر طرف سے بچت کر کے گھر کے اخراجات معلوم نہیں کیسے پورا کرتی تھیں۔ ہمیں شاید کبھی بھی اس امر کا احساس نہ ہوا لیکن ہماری تمام تر جائز ضروریات پوری ہوا کرتی تھیں۔ والدہ خود ہمہ وقت کام میں مصروف رہتیں۔ ہمیں یاد ہے کہ وہ پیسے بچانے کی خاطر سالم مصالحہ جات لے کر آتیں اورفارغ وقت نکال کر اس کی صفائی اور کٹائی کرتیں۔ ہم سب کے روزمرہ کے کپڑے خود سیتیں۔ شروع میں تو ہاتھ سے سیا کرتی تھیں بعد میں سلائی مشین خرید لی گئی تو اس طرح ان کو کچھ سہولت ہو گئی۔ اس طرح جس حد تک ہو سکتا بچت کے طریقے اپناتیں۔ والد صاحب بھی کچھ پرائیویٹ کام کر کے اپنی آمدن بڑھانے کی کوشش کرتے اس طرح انتہائی محنت سے ہم لوگوں کے مستقبل کو سنوارنے میں مصروف تھے۔ والد صاحب کو اپنی ملازمت، جز وقتی دوسری ملازمت اور پھر اپنی خود کی پڑھائی کے باعث اتنا وقت ہی نہیں ملتا تھا کہ ہماری تربیت کی طرف بھرپور توجہ کر سکیں اس طرح یہ ذمہ واری بھی ہماری والدہ پر آن پڑی تھی۔اس بات کا احساس شاید اس وقت تو ہم کو نہ ہوالیکن اب یہ بات ہماری سمجھ میں آئی جب ہم سب پر وقت کے دھارے نے یہ ذمہ داریاں ڈالیںکہ درحقیقت یہ کس قدر مشکل کام ہے اور ہماری والدہ صاحبہ نے کس قدر محنت سے ہماری تربیت کی۔ ہم ان کی اس محنت شاقہ کی بدولت ہی اپنی زندگی میں کامیاب و کامران ہیں۔

غالباً ۱۹۶۳ء کی بات ہے ہمارے والد صاحب کو سرکاری امور کی انجام دہی کے لیے کچھ دن کوئٹہ سے باہر جانا پڑا۔ اس طرح ان کو کچھ زائد آمدنی کی توقع ہو گئی۔ اس سے پہلے بھی ایساکبھی کبھار ہو جاتا تھا۔ اس مرتبہ میرے والد صاحب نے جانے سے پہلے میری والدہ صاحبہ کو یہ کہا تھا کہ اس زائدآمدنی سے وہ اپنے لیے کچھ زیور بنا لیں۔ جیساکہ میںپہلے بتا چکا ہوںتقسیم ہند کے وقت فسادات کے دوران میرے والدین کو اپنی جان بچانا مشکل تھا اپنے سب وسائل چھوڑ کر بمشکل اپنی اپنی زندگیاں بچا کر پاکستان آنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ اس طرح میری والدہ کا سارا زیور بھی ہندوستان میں رہ گیا تھا۔تقسیم ہند کے بعد سے ہی والد صاحب کو اس کا بہت قلق تھا لیکن خواہش کے باوجود وہ ایسا نہ کر سکے۔کئی سالوں کے بعد پہلی دفعہ یہ موقع تھا کہ والدہ صاحبہ کے لیے کچھ گہنوں کا انتظام ہو سکے۔ انہی دنوں حضرت المصلح الموعودؓ نے ڈنمارک میںجماعت احمدیہ کے لیے تعمیر مسجدکا اعلان کر دیا اور خصوصی طور پراس کی تعمیرکی ذمہ داری لجنہ اماء للہ پر ڈالی۔ جب مذکورہ زائد رقم جوغالباً چار صد روپے تھی، والدہ صاحبہ کو ملی تو آپ نے خلیفہ وقت کی تحریک پر بلا کسی سوچ بچار کے یہ رقم بطور عطیہ تعمیر مسجد ڈنمارک جماعت کے حوالے کر دی۔ اوراس طرح بنا کسی زیور اپنی عمر کا ایک طویل عرصہ گزارااور ساری عمر کسی ملال کا اظہار نہیں کیا۔گو بعد میں ہمارے مالی وسائل الحمدللہ اچھے ہوتے چلے گئے اور اللہ تعالیٰ نے اپنے بے پایاں فضل سے اتنا نوازا کہ کسی بھی شے کی کمی محسوس نہ ہوئی اور تمام تر خواہشات پوری ہوئیں۔اس میں بہرحال ہمارے بزرگوں کی دعائیں تو شامل تھیں لیکن اس کی ایک بڑی وجہ ہماری والدہ صاحبہ کی جماعت سے بے لوث وابستگی اور خلیفہ وقت کی اطاعت بھی شامل ہے۔

جماعت سے والہانہ وابستگی میری والدہ کاخاصہ رہا۔ خلیفہ وقت کے احکامات پر فوری عمل ان کی فطرت میں شامل تھا۔جب کبھی حضور انور کسی تحریک کا آغاز کرتے اس پر بلاتاخیر عملدرآمد کرنا ان کی عادت تھی۔ جب کبھی کوئی دعائیہ تحریک آتی فوری طور پروالد صاحب کو کہہ کر اس کو تحریر کرواتیں اور اس طرح اپنے سامنے کسی نمایاں مقام پر آویزاں کر لیتیں کہ ہمہ وقت سامنے رہے اور اس کا ورد کرتی رہتیں۔

میری والدہ نے محدود وسائل ہونے کے باوجود بہت باوقار انداز میں اپنی زندگی گزاری۔ کسی کو بھی ہمارے گھر کی محدود آمدنی کا کبھی اندازہ نہ ہو سکا۔ہمارے گھر کا رکھ رکھاؤ ایسا تھا کہ قریبی رشتہ داروں کو بھی ہمارے محدود وسائل کا علم نہ ہو سکا۔انتہائی غریب پرور اور دوسروں کا دکھ سمجھنے والی تھیں۔ ہر ایک کے دکھ درد میں شریک ہوتیں اور جس حد تک ممکن ہوتا ضرورت مندوں کی اس طرح مدد کرتیں کہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوتی۔ ہمیشہ اپنی ضرورت کوپس پشت رکھ کر دوسروں کی ضروریات پوری کرتیں۔ دوسروں کی مدد کے لیے اپنی ذاتی اہم ضروریات بھی غیر ضروری کہہ کر رد کر دیتیں۔ میرے دادا قیام پاکستان کے بعد لاہور میں قیام پذیر ہو گئے تھے۔ پاکستان آ کرانہوں نے اپنا کاروبار دوبارہ شروع نہ کیا اس طرح اس گھر کی کفالت کا بوجھ بھی ہمارے والد پر آن پڑا۔ ایک مرتبہ میری والدہ جب شدید علیل تھیںکچھ پس پشت رقم موجود تھی جو اس وقت ان کے علاج کے لیے کافی تھی۔ انہی دنوں میری چھوٹی پھوپھی کی شادی کے لیے دادا نے رقم کا تقاضا کیا۔ والدہ صاحبہ نے اپنا علاج روک کر موجود رقم ارسال کر دی۔ بعد ازاں اللہ تعالیٰ نے اپنا فضل فرمایا اور والدہ صاحبہ بنا کسی علاج کے روبہ صحت ہو گئیں۔ بعد میں جب اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمارے معاشی حالات بہتر ہو گئے اور گھریلو ملازم امور خانہ کے لیے میسر ہوئے تو ان کے ساتھ انتہائی مہربانی کا سلوک روا رکھا۔ اور کبھی ان کو ملازم کی حیثیت سے زیر بار نہ رکھا۔ان کے دکھ درد میں ان کا دکھ بانٹنے کی مقدور بھر کاوش کی۔نہ صرف ان سے بلکہ ان کے گھر والوں سے بھی حسن سلوک روا رکھا۔مجھے یاد ہے کہ صبح ناشتہ کے وقت ان کو پہلے ناشتہ دیا جاتا اور ہم بچوں کو ان کے بعد ناشتہ دیا جاتا تھا۔ان کو بھی قرآن کی تعلیم سے بہرہ ور کیا۔میری والدہ بے انتہا و ضع دار اور مہمان نواز تھیں ان کے آنے پر خوشی کا اظہار کرتیں اورہر آنے والے مہمان کی وقت کی مناسبت سے تواضع کرتیں۔ مجھے یاد نہیں پڑتا کوئی بھی آنے والا بنا کھانا کھائے واپس گیا ہو، ہاں اگر وہ بہت ہی جلدی میں ہو تو شائد ایسا ممکن ہوا ہو گا۔ لاہور میں قیام کے دوران ہمیں چھاؤنی میں سرکاری طور پر کافی بڑا بنگلہ ملا تھا۔ میرے ایک چچا ہمارے ساتھ ہی قیام پذیر ہو گئے تھے۔ان کے وہاں سے جانے کے بعد دوسرے چچا نے اپنا قیام ہمارے ساتھ کر لیا تھا۔ میری والدہ نے نہایت خندہ پیشانی سے ان دونوں کو اپنے ساتھ رکھنے پر حامی بھری تھی۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اپنے بھائیوں کے ساتھ ساتھ اپنے سسرالی رشتہ داروں کا بھی ویسا ہی خیال رکھا۔ میرے پھوپھی زاد بھائی عبد الرب انور محمود (جو اب امریکہ میں قیام پذیر ہیں ) کی شادی کے موقع پر میرے پھوپھا مولوی عبد المالک خان صاحب مرحوم نے میری والدہ سے معاونت کا کہا۔ میری والدہ صاحبہ اپنی تمام تر مصروفیات ترک کر کے ربوہ گئیں اور گھر بھر کے سارے معاملات اتنے اچھے طریقے سے سنبھالے کہ کہیں بھی کوئی اڑچن نہ ہوئی اور تمام شرکاء کسی معمولی تکلیف کا بھی شکار نہ ہوئے اور تمام کارروائی انتہائی اچھے ماحول میں انجام پائی۔یہ سلسلہ دس دن سے زائد پر محیط تھا۔میری والدہ کے بہترین انتظامات کا چرچا ایک عرصہ تک ربوہ میں کیا جاتا رہا۔

میرے باقی چچا اور پھوپھی بھی لاہور میں ہی مقیم تھے۔ اس طرح کم و بیش ہفتہ میں کم از کم ایک دفعہ ہمارے گھر پر سب کا اجتماع ہوا کرتا تھا اور ہر مرتبہ بہت کھلے دل سے سب کی تواضع کا اہتمام کرتی تھیں۔وقتاً فوقتاً عزیزوں رشتہ داروں کے لیے دعوت کا اہتمام کرتیں۔ انواع و اقسام کے کھانے بنانے میں مہارت تھی اور بڑی چابکدستی سے یہ سب انتظام کر لیا کرتی تھیں۔ جماعتی امور میں بھی ہمیشہ پیش پیش رہیں۔ اسلام آباد کی جماعت میں بہت مقبول رہیں کافی عرصہ اسلام آباد میں بطور سیکریٹری ضیافت لجنہ اسلام آباد خدمات انجام دیں۔ جب کبھی لجنہ اسلام آباد کی فنڈریزنگ تقریب ہوتی ، خصوصی طور پر میری والدہ حلیم، کشمیری چائے اور پان کا سٹال لگا کر اپنا حصہ پورا کرتیں۔ اس کام میں میری اہلیہ زبیلہ ہماء بھی پورے طور پر ان کی اعانت کرتیں اور میری بچیاں سب ممبران سے پیسوں کی وصولی کر کے اپنا حصہ اس کا رخیر میں ڈالتیں۔

اسلام آباد میں ہماری سرکاری رہائش گاہ بیت الفضل ( حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی ذاتی رہائش گاہ جو بعد ا زاں جماعت کے حوالے کر دی گئی تھی) کے بہت قریب تھی۔ جب کبھی خلیفۃ المسیح وہاں تشریف لاتے، جماعتی مہمانان شب باشی کے لیے ہمارے ہاں تشریف لے آتے۔میری والدہ ان کی خاطر مدارات بجا لاتیں اور اس میں بہت خوشی محسوس کرتیں۔ اکثر اوقات حضور انور کے لیے کھانا بھی ہمارے ہاں سے پک کر جاتا۔حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے کئی دفعہ میری والدہ کے پکائے ہوئے کھانے کی بہت تعریف کی بلکہ ایک دفعہ جب حضور اقدس آلٹن میں اپنے اہل خانہ کے ہمراہ گھرتشریف لائے تو سب مہما نان بشمول ممبران قافلہ کے لیے بڑی بشاشت سے نہایت عمدہ کھانا تیار کیا جس کو حضور انور اور تمام ممبران قافلہ نے بصد شوق تناول کیا۔

گو کہ بہت زیادہ پڑھی لکھی نہیں تھیں اس کے باوجود بہت سمجھدار، ذکی ،سلجھی ہوئی اور معاملہ فہم خاتون تھیں۔ اس کا اظہار حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے اسلام آباد میں بیت الفضل میںایک ملاقات کے دوران فرمایا۔ فرمایا ’’آپ پنجاب کی نہیں بلکہ اہل زبان لگتی ہیں۔‘‘اس موقع پر حضور انور کا قریباًً تین گھنٹہ ہمارے ساتھ قیام رہا۔

خلیفہ وقت کے ہر حکم پر عمل کرنا اپنی ذمہ داری سمجھتی تھیں۔ جماعت کے ساتھ ہمیشہ اخلاص کا تعلق رکھا اور اپنی حد تک ہر ممکن کوشش کی کہ وفا کا یہ تعلق مضبوط تر ہو سکے۔ میری بڑی ہمشیرہ نے جب ۱۹۶۷ءمیں لاہور میںقیام کے دوران بی ایڈ مکمل کیا، انہی دنوں زیر تعمیر مسجد دارالذکر لاہور میں نصرت گرلز سکول کا قیام عمل میں آیا اور لاہور کی جماعت تدریسی عملہ کی متلاشی تھی۔ جب میری والدہ صاحبہ کو اس کا علم ہوا تو والد صاحب کو اس بات پر راضی کیا کہ میری ہمشیرہ شمیم بشریٰ کی خدمات پیش کی جائیں۔ اس طرح میری ہمشیرہ ابتدا میں ہی جماعت کے سکول سے وابستہ ہو گئیں اور کچھ عرصہ اس سکول میں تدریسی خدمات انجام دیتی رہیں۔

میری والدہ صاحبہ کو دو مرتبہ مسجد فضل لندن میں اعتکاف کی سعادت ملی۔ اور اس پر وہ اللہ تعالیٰ کی بہت زیادہ شکرگزار تھیں۔ تیسری مرتبہ بھی یہ کار خیر انجام دینا چاہتی تھیں لیکن جماعتی پالیسی کے باعث اجازت نہ ملی۔ ان کو لندن سے پاکستان واپسی پر ۱۹۸۲ء میں عمرہ کی سعادت بھی نصیب ہوئی۔ اس طرح مسجد نبوی ﷺ میں چالیس نمازیں تواتر سے ادا کر کے اپنے ایمان کو تقویت دی۔ اور اس دوران جب بھی موقع ملا، وہاں پر مختلف زیارات پر حاضری دی اور نوافل ادا کیے۔

اپنی زندگی کا ایک لمبا عرصہ اپنی گمشدہ بہن کی یاد میں گزارا۔ میرے والد صاحب بھی اپنی بیگم کے اس دکھ کو سمجھتے تھے۔ وہ خصوصی طور پر اس سلسلہ میں اپنی شبینہ دعاؤں میں اللہ تعالیٰ کے حضور گڑگڑا کر دعائیں کرتے رہے۔ اللہ تعالیٰ نے آخر کار اپنے بے بس اور مجبور بندے کی سن لی۔اس طرح میری چھوٹی بہن ڈاکٹر فریدہ نےجو گلفورڈ سرے انگلستان میں مقیم ہے، اپنے ساتھی ڈاکٹروں کے توسط سے آخر کار ہماری گمشدہ خالہ کا کوئی پچاس سال کے بعد پتا چلا لیا اور کافی کوشش کے بعد والدہ کے ہمراہ عازم ہندوستان ہوئی اور دونوں بہنوں کو ایک مدت کے بعد ملا دیا۔ اس طرح دو تین بار یہ ملاقات ہوئی۔ ایک دفعہ تو وہ جلسہ سا لانہ قادیان بھی ملاقات کی غرض سے آئیں۔ یہ سب میری بہن کی کاوشوں اور اس کے رفقائے کار ڈاکٹروںکی مددسے ممکن ہوا۔اللہ تعالیٰ ان سب کو جزائے خیر عطا کرے۔ اس میں بہرحال میرے والد مرحوم کی دعائیں اور اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم شامل ہے۔

بہت ہی صابرہ وشاکرہ خاتون تھیں۔ ہم نے ان کو کبھی مالی معاملات پر پریشان نہیں دیکھا۔گو مختلف معاملات میں کبھی کبھار حالات کے باعث وقتی پریشانیاں لاحق ہوتیں لیکن خندہ پیشانی سے ان کا مقابلہ کرتیں۔ ان وقتی پریشانیوں کو خود پر وارد نہیں ہونے دیا اور جس حد تک ممکن ہوا ان کا تدارک کیا۔ ان حالات میں بھی اپنی مصروفیات کو کبھی پس پشت نہ ڈالا۔ بیماری اور خرابی صحت کے باوجود اپنی گھریلو ذمہ داریوں کو بطریق احسن نبھاتی رہیں۔ معمولات زندگی میں ان کو کبھی حائل نہ ہونے دیا۔

جیسا کہ اوپر بیان ہوا ہے واجبی تعلیم یافتہ تھیں۔ لیکن علم و ادب کی شیدائی تھیں۔ ہم نے ہمیشہ ان کو کتب گردانی کرتے دیکھا۔ جماعتی اور ادبی کتب ہمیشہ ان کے زیر مطالعہ رہیں۔ جماعت کی بیشتر کتب انہوں نے کئی کئی بار پڑھیں۔ اس کے علاوہ ادبی کتب اور شعری مجموعے بھی اکثر پڑھا کرتی تھیں۔ بہت سے شعر ان کو یاد تھے اور ان کا بر وقت استعمال کیا کرتی تھیں۔

والد صاحب کی وفات تک ان کے تمام کام خود کیا کرتی تھیں۔ اور ان کے تمام امور کو دیکھا کرتی تھیںوالد صاحب اپنی زندگی کے آخری چند سال علیل رہے اس طرح ان کو سنبھالنا قدرے مشکل ہو گیا تھا۔ اور مصروفیت بھی کافی بڑھ گئی تھیں۔ طویل العمری کے باعث والدہ صاحبہ بھی بڑی حد تک جسمانی طور پر اتنا مضبوط نہیں تھیں اس کے باوجود ان کی مکمل نگہداشت خود کیا کرتی تھیں۔ ان کی وفات کا صدمہ بڑی بشاشت سے جھیلا۔ لیکن ان کی وفات کے بعد ایسا محسوس ہوا کہ اب ان کی اپنی زندگی کا کوئی مصرف نہیں رہا۔ ہم نے والد صاحب کے گزر جانے کے بعد ان کو ہر چیز سے بیگانہ اور لاتعلق محسوس کیا۔ ہر قسم کی مصروفیات ترک کر دیں۔ کسی بھی امر میں ان کو کوئی دلچسپی باقی نہ رہی۔ ایک جگہ پر بیٹھے بیٹھے سارا دن گزار دیا کرتی تھیں۔ اپنی زندگی کے آخری ایام بیماری میں گزارے۔ یہ بیماری زیادہ طویل نہ تھی۔ اس بیماری میں بھی ہم نے ان کو پریشان نہ دیکھا۔ نہایت خندہ پیشانی سے اس وقت کو گزارا۔ آخری چند ایام ہسپتال میں گزارے۔ اس سے کچھ عرصہ قبل ان کی یاد داشت کافی حد تک متاثر ہو گئی تھی۔اس حد تک کہ اپنے بچوں کو بھی بعض دفعہ نہیں پہچان پاتی تھیں۔ میرے بڑے بھائی اکرم صاحب اپنی بیگم فوزیہ کے ہمراہ کینیڈا سے آگئے تھے۔ والدہ صاحبہ نے اپنی وفات سے دو دن قبل ایک خواب دیکھا کہ ایک میدان میں بہت سے لوگ اکٹھے ہوئے ہیں اور ہمارے پیارے امام حضرت اقدس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز بھی موجود ہیں اور کسی زمین کی خریداری کی بات چیت چل رہی ہے۔ حیرت انگیز طور پر باوجود متاثرہ یادداشت کے یہ ان کو یاد رہا اور میرے بھائی صاحب کو یہ سارا خواب بتایا۔یقیناً یہ ان کی روانگی کا واضح اشارہ تھا۔ انہی دنوں مجھے مانچسٹر سےانصار کے ساتھ کچھ دن کے لیےسپین جانا تھا۔ میں شش و پش میں تھا اورنہیں جانا چاہتا تھا لیکن چونکہ اس سارے پروگرام کا منتظم میں ہی تھا اس لیے میرا جانا ضروری تھا۔ بڑے بوجھل دل کے ساتھ میں پروگرام کے مطابق جا کر جب پانچ دن بعد واپس آیا تو اسی روز میں گلفورڈ آ گیا جہاں میری والدہ ہسپتال میں داخل تھیں۔ دو روز میں ان کی عیادت کرتا رہا۔ میری زندگی کا سخت ترین وقت وہ تھا جب میں اپنی والدہ کو چمچ سے کھلا رہا تھا۔ میری آنکھوں سے آنسو رواں تھے کہ وہ ہاتھ جو تمام عمر ہمیں ہر قسم کی آسائش مہیا کرتے رہے آج اس قابل بھی نہیں تھے کہ ایک لقمہ اپنے منہ میں ڈال سکیں۔

۸ا ؍مارچ ۲۰۱۸ء ان کی زندگی کا آخری دن ثابت ہوا۔ ان آخری لمحات میں ، میرے بھانجے طلحہ ، موسیٰ، طارق اور اس کی بیگم ہانیہ اورچھوٹی بہن فریدہ اور میں ان کے قریب موجود تھے۔ موسیٰ نے ان کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا ہوا تھا اور ہم سب سورہ یٰسین کا ورد کر رہے تھے کہ اچانک موسیٰ نے طارق کو ڈاکٹر کو بلانے کا کہاجو اسی ہسپتال میں بطور ڈاکٹرتعینات تھا۔ اس کے مطابق اس کو احساس ہو گیا تھا کہ وہ اس دار فانی سے کوچ کر گئی ہیں۔ فورا ً ہی ڈیوٹی ڈاکٹر نے اس کی تصدیق کر دی۔ ان کا چہرہ نہایت پر سکون تھا اور کسی تشنج یا تکلیف کی کوئی کیفیت نہ تھی۔ دیکھنے سے احساس ہی نہیں ہو سکتا تھا کہ وہ اب اس دنیا میں نہیں رہیںاور بظاہر پرُ سکون انداز میں سو رہی تھیں۔ کسی بھی طور یہ محسوس ہی نہیں ہوتا تھا کہ سانس کی ڈور ٹوٹ چکی ہے اور وہ ہم سب کو چھوڑ کر اپنے خالق حقیقی کے پاس جا چکی ہیں۔وہ بابرکت وجود جو ہم سب کو ایک لمبے عرصہ تک زمانے کے سرد گرم سے بچاتا رہا۔ ہمارے ہر دکھ درد کو اپنا دکھ درد سمجھا، ہمیں ہمیشہ بہترین آسائش مہیا کی اور ہمارے سارے مسائل خود پر لے لینے والی وہ ہستی ہمارے سامنے بے جان تھی اور ہم کچھ بھی کرنے کی پوز یشن میں نہ تھے سوا ئے اس کے کہ اے اللہ ہم تیری رضا پر سر تسلیم خم کرتے ہیں۔

حضرت اقدس خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے میری والدہ کی نماز جنازہ پڑھائی اس طرح ان کا دیکھا ہوا آخری خواب پایہ تکمیل تک پہنچا۔اللہ تعالیٰ ان کو اپنے قرب میں جگہ دے اورہم سب کو ان کے زریں اقوال اور اقدام پر کاربند رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔

بلانے والا ہے سب سےپیارا اسی پہ اے دل تو جان فدا کر

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button