الفضل ڈائجسٹ

الفضل ڈائجسٹ

(محمود احمد ملک)

اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔

مکرم ناصر احمد ظفر صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ربوہ 26؍دسمبر 2013ء میں مکرم ناصر احمد ظفر صاحب کا ذکرخیر مکرم شکیل احمد طاہر صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔

محترم ناصر احمد ظفر صاحب بہت زیرک، ذہین اور ٹھنڈی طبیعت والے انسان تھے۔کبھی غصے میں نہ آتے بلکہ دوسروں کا غصہ بھی بہت جلد ٹھنڈا کردیتے۔ علاقے کے سرکردہ افراد سے آپ کا گہرا تعلق تھا۔ سیاسی لوگوں کو نصیحت کا انداز بہت شگفتہ اور مزاح پر مشتمل ہوتا۔ ایک دفعہ احمدنگر میں ایک تحصیل دار نے جماعت کے خلاف جلسہ کروانا چاہا تو آپ اُس کے پاس گئے اور کہا کہ آپ سرکاری ملازم ہیں اور سرکاری ملازم کا کام نہیں کہ ایسا جلسہ کروائے جس میں لڑائی کا خطرہ ہو اور خدانخواستہ آپ کے لیے کوئی مصیبت کھڑی ہوجائے۔ یہ بات سُن کر تحصیل دار نے جلسہ منسوخ کردیا۔

آپ کی ایک بہت بڑی خوبی یہ تھی کہ جب بھی کسی سے ملتے تو اُس کی ذاتی اور خاندانی خوبیاں بیان کرتے۔ لوگوں کے سامنے بھی دوسروں کے احسانات کا ذکر کرتے۔ کبھی کسی کی کمزوری دوسروں کے سامنے بیان نہ کرتے۔

جب بھی آپ سے کسی نے مشورہ مانگا تو آپ نے مخلصانہ اور معقول مشورہ دیا۔ کسی نے مدد مانگی تو حتی المقدور اس کا ساتھ دیا اور کبھی انکار نہیں کیا۔ احمدنگر میں سیلاب بھی آجایا کرتا تھا۔ اُن دنوں میں آپ اَن تھک محنت کرتے۔ آپ نے جوش و جذبہ رکھنے والے تیراک نوجوانوں کی ایک ٹیم بھی تیار کی ہوئی تھی جو سیلاب کے دنوں میں لوگوں کے لیے کھانے اور رہائش وغیرہ کا انتظام بھی کرتے۔

آپ لمبا عرصہ جماعت احمدیہ احمدنگر کے صدر رہے اور اس دوران غیروں کے ساتھ بھائی چارے کا نمونہ بہت اعلیٰ تھا۔ اگر کبھی کوئی جھگڑا ہوتا تو فریقین آپ کو منصف بناتے بلکہ دونوں فریق آپ کو اپنا محسن خیال کرتے چنانچہ بہت عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ ایک بار ہمارے خاندان میں ایک خطرناک لڑائی چھڑ گئی۔ دونوں اطراف سے لوگ لہولہان تھے اور ایک دوسرے کو مارنے پر تُلے ہوئے تھے۔ کسی طرح بھی لڑائی ختم کرنے کو تیار نہ تھے۔ آپ نے بڑی تگ ودو سے اس لڑائی کو حکمت کے ساتھ ختم کروادیا اور معاملات کو پولیس میں بھی نہ جانے دیا اور بعد میں صلح بھی کروادی۔ آپ کی ذہانت اور معاملہ فہمی کا ہر کوئی معترف تھا۔

جماعت کے مخالفین نے ایک بار آپ کے بڑے بیٹے پر جھوٹا الزام لگادیا اور یہ بات ایس پی تک بھی پہنچادی۔ چنانچہ لالیاں کے تھانیدار اُسی وقت گاؤں آگئے۔ آپ نے بڑے تحمّل سے اُنہیں کہا کہ میرا بیٹا کمرے میں بند ہے اور یہ اس کمرے کی چابی ہے۔ آپ انہی لوگوں سے انکوائری کروائیں اور اگر میرا بیٹا قصوروار ہو تو جو مرضی سزا اُس کو دیں۔ جب پولیس نے امام بارگاہ میں مخالفین کے بڑے اکٹھ میں انکوائری کی تو الزام جھوٹا نکلا۔ تھانیدار نے بڑی سختی سے مخالفین کو کہا کہ ایس پی کے پاس جھوٹی شکایت لے کر کیوں گئے تھے۔ لیکن آپ کی عاجزی دیکھیں کہ اپنے بیٹے کو یہ کہتے ہوئے ایک مہینے کے لیے کسی دوسری جگہ بھجوادیا کہ مخالفین یہ نہ سمجھیں کہ ہم نے کسی قسم کے تکبّر کا اظہار کیا ہے۔ آپ ہمیشہ وہ کام کرتے جو جماعت کے لیے مفید ہوتا۔

=================

روزنامہ ’’الفضل‘‘ربوہ 22؍اگست 2014ء میں مکرم ناصر احمد ظفر صاحب کا ذکرخیر اُن کے بیٹے مکرم طارق بلوچ صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔

مضمون نگار لکھتے ہیں کہ نومبر 1995ء میں ہماری والدہ کے اچانک انتقال کے بعد والد محترم ناصر احمد ظفر صاحب نے ہم سب بہن بھائیوں پر اپنی محبت اور شفقت کا سایہ دراز کیے رکھا۔ آپ کی پیدائش پر ہمارے دادا جان نے جو دعائیہ اعلان اخبار الفضل میں شائع کروایا تھا اُس میں نومولود کے نافع الناس ہونے کی دعا مانگی تھی۔ آپ کی زندگی گواہ ہے کہ یہ دعا یقیناً قبول ہوئی۔

بچپن سے میرا مشاہدہ ہے کہ ہمارے ہاں غرض مندوں کی آمد کا سلسلہ ہمیشہ جاری رہتا اور والد محترم اپنے دائرہ کار میں ہر ایک کی مدد کرتے، امین کی سطح پر کھڑے ہوکر اُسے مشورہ بھی دیتے اور دیگر ذرائع سے مدد بھی کرواتے۔ بعض ملاقاتی دیہاتی ہوتے اور ناخواندہ ہوتے، وقت کی مناسبت کا بھی خیال نہ رکھتے، گرمیوں کی دوپہر ہو یا رات کا کوئی پہر، بِلاجھجک چلے آتے۔ لیکن مجھے ایک واقعہ بھی یاد نہیں کہ آپ کی پیشانی پر بَل آیا ہو اور نہ ہی ایسا جملہ منہ سے ادا کرتے کہ آنے والے کی دل شکنی کا احتمال ہو۔ یوں لگتا ہے کہ آپ کے پیش نظر ہمیشہ حضرت مسیح موعودؑ کا وہ الہام رہا جس کا ترجمہ ہے: ’’تُو خلق خدا سے منہ نہ موڑنا اور نہ اُنہیں دیکھ کر تھک جانا۔‘‘

مہمان نوازی آپ کی فطرتِ ثانیہ تھی۔ باحیا اس قدر کہ اگر کوئی خاتون ملنے آتی تو اکیلے اس کی بات نہ سنتے۔ کسی نہ کسی کو پاس بٹھالیتے اور اپنی نظریں نیچے جھکائے رکھتے۔ فراخ دلی ایسی کہ ایک بار نیا کوٹ پہن کر باہر نکلے تو بغیر کوٹ کے واپس آگئے۔ پوچھنے پر بتایا کہ ایک سرکاری اہلکار نے للچائی ہوئی نظروں سے دیکھ کر کہا کہ ہمیں بھی کوئی ایسا کوٹ لے دیں۔ تو وہ کوٹ اُسی وقت اُسے دے دیا۔

خداداد ذہانت سے معاملے کی تہ تک پہنچ جاتے اور جسے حق پر سمجھتے اُس کا ساتھ دیتے۔ لیکن اگر بتقاضائے بشریت آپ کو احساس ہوتا کہ کسی معاملے میں آپ سے تجزیے میں غلطی ہوئی ہے یا درست معلومات فراہم نہیں کی گئیں تو ایسی صورت میں خود کو پیچھے ہٹالیتے۔ حسن تحریر اور خوبیٔ تقریر کا ملکہ بھی تھا۔ اپنا مدّعا نہایت احسن رنگ میں بیان کرتے۔ لیکن اپنی کسی خوبی کو ذاتی فائدے یا جلب زر کا ذریعہ نہیں بنایا۔ جب صدرانجمن احمدیہ نے حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کی منظوری سے آپ کو اپنے دفتر میں خدمت سپرد کی تو مشاہرہ بھی مقرر کیا گیا۔ آپ نے کم از کم دو بار لکھ کر دیا کہ آپ بغیر کسی معاوضے کے کام کرنا چاہتے ہیں۔ پہلی بار تو یہ درخواست یہ کہہ کر نامنظور کردی گئی کہ وہ تو پہلے ہی واجبی نوعیت کا ہے۔ جبکہ دوسری دفعہ آپ کی خواہش منظور کرلی گئی۔

ایک باررات گئے کسی غریب عورت نے دروازہ کھٹکھٹایا کہ اُس کے بیٹے کو چنیوٹ پولیس نے پکڑ لیا ہے اور رہائی کے اتنے ہزار مانگ رہی ہے۔ وہ بےچاری گھروں میں کام کاج کرکے اپنا پیٹ پالتی تھی۔ آپ اُس کی بات سن کر کہنے لگے کہ میرے پاس صدقہ خیرات کی مد میں کچھ رقم ہے، اگر شکنجے میں آئی کسی غریب کی جان کو راحت ملتی ہے تو یہ رقم حاضر ہے۔ پھر اپنے بیٹے سے کہا کہ گاڑی نکالو۔ اس خاتون کو ساتھ لیا اور چنیوٹ جاکر معاملہ حل کروایا۔ ایسے ان گنت واقعات ہیں لیکن ستائش کی تمنّا اور صلے کی پروا کے بغیر۔ میری والدہ شکوے کا انداز لیے ہوئے کہا کرتیں کہ لوگوں کے کام ہورہے ہیں مگر گھر کے رُکے ہوئے ہیں۔ یہ بات درست بھی تھی۔

ایک روز ایک مہمان آپ سے کہنے لگے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو جتنی صلاحیتیں دی ہیں، اگر آپ احمدی نہ ہوتے تو بہت اوپر تک جاتے۔ آپ نے تبسم کرتے ہوئے انکسار سے جواب دیا کہ اگر مَیں احمدی نہ ہوتا تو عین ممکن ہے کہ اپنے خطّے کی اجتماعی پسماندگی اور جہالت کے زیراثر دامنِ کوہ میں کوئی ریوڑ ہانک رہا ہوتا۔

مجھے جرمنی آئے چوبیس برس ہوئے ہیں۔ آج تک دو بار آپ نے پیسوں کی ضرورت کا اشارۃً ذکر کیا۔ پہلی بار مَیں نے کہا کہ حکم کریں توجواب ملا’’بوقت ضرورت مطلع کروں گا۔‘‘ جب مَیں نے دوبارہ پوچھا تو فرمایا: ’’شکریہ اب ضرورت نہیں رہی۔‘‘ پھر دوسری دفعہ جب آپ نے کچھ پیسوں کا ذکر کیا تو مَیں نے اُسی وقت دوگنی رقم بھجوادی مبادا پھر نہ کہہ دیں کہ اب ضرورت نہیں رہی۔ بعد میں جب آپ کی علالت کا سن کر مَیں پاکستان گیا تو مجھے میری دوسری والدہ نے بتایا کہ انہوں نے آپ کو پیسوں کا تو کہہ دیامگر بعد میں مجھ سے ناراض ہوئے کہ آپ کی وجہ سے مجھے پیسے مانگنے پڑے۔ حالانکہ وہ رقم خالصتاً گھر کی کسی ضرورت کے لیے درکار تھی۔

=================

روزنامہ ’’الفضل‘‘ربوہ 9؍اکتوبر 2015ء میں مکرم ناصر احمد ظفر صاحب کا ذکرخیر کرتے ہوئے مکرم محمد ابراہیم خان صاحب (کارکن دفتر صدرعمومی ربوہ) رقمطراز ہیں کہ خاکسار کی آپ کے ساتھ پہلی ملاقات جس تعلق میں بدلی وہ آخرعمر تک قائم رہا۔ اس تعلق میں احترام کا پہلو سب سے نمایاں تھا۔ باوجود مجھ سے عمر میں بڑے اور سلسلے کی خدمت میں بہت آگے ہونے کے ہمیشہ بڑے احترام کا سلوک کرتے جس کی وجہ واقفین زندگی کے لیے اُن کے دل میں موجود احترام تھا۔ جب بھی اُن کے دفتر میں ملنے گیا تو باوجود تکلیف کے اُٹھ کر ملتے۔ اگر مَیں کہتا کہ میرے لیے نہ اُٹھیں تو جواب دیتے کہ مَیں مجبور ہوں مجھے تو میرے بزرگوں نے یہی سکھایا ہے۔ کبھی کسی عہدیدار کے بارے میں نامناسب کمنٹس نہیں دیے جس سے اُن کی تضحیک ہوتی ہو۔ حتّٰی کہ مددگار کا نام بھی بڑی عزت اور احترام سے لیتے۔ آپ کی شخصیت ایسی جاذب تھی کہ پاس سے اُٹھنے کو دل نہ کرتا۔ خوبیاں ایسی تھیں کہ کسی قسم کی بناوٹ کا شائبہ تک نہ تھا۔

آپ جہاں بھی مقیم رہے وہاں کے اثرورسوخ والوں سے بہت اچھے تعلقات قائم کیے۔ رؤسا اکثر آپ کو ملنے آتے۔ اپنی خاندانی شادیوں میں بھی آپ کو مدعو کرتے لیکن آپ ہمیشہ نظام جماعت کی اجازت سے اُن تقریبات میں شامل ہوتے۔ چند ایک بار خاکسار کو بھی جماعتی نمائندگی میں آپ کے ساتھ بھیجا گیا اور جو مناظر مَیں نے آپ کی عزت و احترام کے وہاں دیکھے، دل حمد سے بھرگیا۔ کئی غیرازجماعت زمیندار اپنے خاندانی جھگڑوں کے لیے آپ کو ثالث مانتے مگر آپ نے کبھی کوئی کیس جماعت سے اجازت کے بغیر نہ لیا۔ دورانِ سماعت فریقین کا رویہ تلخ ہوجاتا تو اُن کو ٹھنڈا کرنا آپ کا کمال تھا۔ فریقین ہمیشہ آپ کے فیصلے کو قبول کرتے اور کسی کو بھی گلہ نہ رہتا۔

ربوہ میں کوئی سنگین معاملہ ہوجاتا تو صدر صاحب عمومی کی اجازت سے فریقین تک پہنچتے اور انہیں اعتماد میں لیتے۔ فریقین میں سے کوئی تلخ لہجہ میں بات کرتا تو بھی آپ صبر سے اُس کی باتوں کو سنتے۔ کسی فریق کی بات دوسرے فریق کے سامنے نہ کرتے۔ ہمیشہ رازداری کو مدّنظر رکھتے۔

ربوہ میں مخالفین احمدیت کی طرف سے بھی بارہا اشتعال کا اندیشہ پیدا ہوتا تو بڑی ہی دانشمندی سے کنٹرول کرتے اور نظام جماعت کو فوری طور پر تحریری رپورٹ بھجواتے۔

مختلف سرکاری کاموں کی سرانجام دہی کے علاوہ پولیس سے بھی آپ کا ہر سطح پر رابطہ تھا۔ بعض اوقات اُن کے بےجا مطالبات کو ذاتی جیب سے بھی پورا کردیتے۔ آپ کو بڑی اہم خدمات کی توفیق ملتی رہی لیکن ہمیشہ عاجزی اور انکساری کا مظاہرہ ہی دیکھنےمیں آیا۔ غریب اور امیر سے یکساں سلوک کرتے۔ خواہ کتنا ہی ضروری کام کررہے ہوں لیکن نماز مسجد میں جاکر ہی ادا کرتے۔ گھٹنوں میں تکلیف کی وجہ سے کرسی پر بیٹھتے تھے اور ازراہ تفنّن کہا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے اس زندگی میں بھی کرسی دی ہے اگلے جہان میں بھی امید ہے کہ عزت کے ساتھ کرسی ملے گی۔

مزاح میں کبھی کسی کی دلآزاری نہ کی۔ الفاظ کی ادائیگی میں ہمیشہ محتاط رہے۔مظلوم کی عزت کا بھی خیال رکھا اور قصوروار کی عزت نفس کو بھی مجروح نہ ہونے دیا۔ بارہا نماز فجر کے بعد دفتر آئے تو رات دس بجے تک کام میں مصروف ہوتے۔ تھکاوٹ کا کبھی اظہار نہ کیا۔ صاف ستھرا بغیر سِلوٹ کے لباس پہنتے۔ مہمان نوازی کا وصف بہت نمایاں تھا۔ دفتری طور پر انتظام نہ ہوسکتا تو فوراً اپنی جیب سے بازار سے کچھ منگوالیتے اور کبھی کوئی مطالبہ نہ کیا۔

ایک دفعہ کسی گاؤں میں بس سٹاپ پر چند نوجوانوں نے ربوہ کی لیڈی ٹیچرز کے قریب سانپ چھوڑ دیا جس سے یہ ٹیچرز خوفزدہ ہوگئیں۔ آپ کو علم ہوا تو اُسی دن اُس گاؤں میں پہنچے، سرکردہ لوگوں سے ملے، اُن کے ذریعے اُن نوجوانوں کا سراغ لگایا اور اُنہیں سمجھایا اور اگلے دن ان ٹیچرز سے معافی منگوائی گئی۔ اس طرح ان احمدی ٹیچرز کو خدا کے فضل سے تحفّظ کا احساس پیدا ہوا۔

=================

روزنامہ ’’الفضل‘‘ربوہ 23؍جولائی 2016ء میں مکرم ناصر احمد ظفر صاحب کا ذکرخیر مکرم منیر احمد باجوہ صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔

مضمون نگار رقمطراز ہیں کہ محترم ناصر احمد ظفر صاحب کسی کی جاگیر، دولت یا سیاسی رکھ رکھاؤ سے متاثر نہیں ہوتے تھے اور نہ ہی کسی وڈیرے کے تعلقات پر آپ کو فخر تھا۔ اس کے برعکس جاگیر مالکان آپ کے گرویدہ تھے۔ 1970ء میں بھٹو صاحب نے رجوعہ کا دورہ کیا تو وہاں کے رئیس سردارزادہ غلام محمد شاہ صاحب نے آپ کو لکھا کہ بھٹو صاحب سے آپ کی ملاقات کا وقت بھی لے لیا ہے۔ آپ نے جواب دیا کہ یہ ملاقات اس شرط کے ساتھ قبول کرتا ہوں اگر آپ میرا تعارف احمدیت کے ایک ادنیٰ کارکن کی حیثیت سے کروائیں۔ یہ شرط مان لی گئی اور آپ کا تعارف آپ کی منشاء کے مطابق ہی کروایا گیا۔امراء کے علاوہ غرباء بھی آپ کے ممنون احسان رہتے تھے۔ فریقین کے جھگڑے نبٹاتے وقت ہمیشہ یہ پہلو مدّنظر رہا کہ فیصلے سے کسی کی حق تلفی نہ ہو اور کسی کا بےجا دل نہ دُکھے۔

احمدیت کی وجہ سے آپ پر بھی مقدمات قائم ہوئے۔ دس سال تک تاریخیں بھگتنے کی صعوبتیں بھی برداشت کرنا پڑیں۔ ربوہ سے ازحد محبت تھی۔ ایک بار جرمنی آئے تو بچوں اور بھائی نے خدمت میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ لیکن ابھی ویزے کی میعاد باقی تھی کہ بڑے اصرار کے ساتھ واپس چلے گئے کہ اب ربوہ کے بغیر زیادہ دیر نہیں رہا جاتا۔ یہی محبت تھی کہ اپنے مسکن احمدنگر کو بھی خیرباد کہہ کر مستقل طور پر ربوہ میں آبسے تھے۔

آپ کی وفات پر حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے 7؍اکتوبر2011ء کے خطبہ جمعہ میں آپ کا ذکرخیر فرمایا اور بعدازاں نماز جنازہ غائب پڑھائی۔

………٭………٭………٭………

جرائم کی تفتیش کے نئے انداز

روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ 25؍اکتوبر2013ء میں مکرم عزیز احمد طاہر صاحب کا جرائم کی تفتیش کے حوالے سے ایک معلوماتی مضمون شامل اشاعت ہے جو علی ناصر زیدی صاحب کی ایک کتاب سے اخذ کیا گیا ہے۔ کتاب میں بیان شدہ سائنسی معلومات کے ساتھ جرائم کی متعدد سچّی داستانیں بھی درج ہیں جن میں بظاہر ناممکن حالات میں مجرم کا سراغ لگالیا گیا ۔

ماضی میں ملزم سے سچ اُگلوانے کا صرف ایک طریقہ تھا یعنی جسمانی تشدّد۔ اس میں انقلاب اُس وقت آیا جب 1930ء میں امریکہ میں Scientific Detection Laboratoryقائم کی گئی اور پھر ایک سال بعد واشنگٹن میں ایک تحقیقاتی مرکز کا قیام بھی عمل میں آگیا۔ ان دونوں اداروں نے جرائم کی تفتیش کا رُخ موڑ کر رکھ دیا ہے۔

٭…دنیا بھر کے فوت شدہ یا زندہ انسانوں میں سے ہر ایک کی انگلیوں کے نشانات منفرد ہوتے ہیں۔ کسی بھی چیز پر یہ نشان خواہ کتنا ہی مدھم کیوں نہ ہو، ماہرین اس کو حاصل کرسکتے ہیں اور سینکڑوں ہزاروں نشانات کا باہم موازنہ بھی کیا جاسکتا ہے۔ چنانچہ کئی اندھے جرائم محض انگلیوں کے نشانات کی وجہ سے منطقی انجام تک پہنچے۔مثلاً ایک دکان میں نقب لگانے والے کو اُس کی درمیانی انگلی کے نشان کی مدد سے گرفتار کرلیا گیا۔ اسی طرح ایک مقتول کو جس خنجر سے قتل کیا گیا تھا اُس خنجر پر پائے جانے والے انگلیوں کے نشانات کا موازنہ کیا گیا تو معلوم ہوا کہ ریکارڈ میں موجود سینکڑوں نشانات سے خنجر پر موجود انگلیوں کا نشان مختلف ہے۔ چنانچہ معلوم ہوا کہ قاتل کوئی نیا شخص ہے۔ مزید تحقیق کرنے پر مجرم گرفتار ہوگیا۔

1933ء میں چالیس مکانوں میں نقب لگانے والے مجرم کی تلاش میں پولیس نے قریباً پانچ سو مشتبہ افراد کو گرفتار کیا تو 356ویں شخص کی انگلیوں کے نشانات مختلف مکانات سے حاصل ہونے والے نشانات سے مل گئے اور اُس شخص نے آسانی سے اقبال جرم بھی کرلیا۔

٭…جب کسی بندوق سے فائر کیا جاتا ہے تو گولی پر ایسے نشانات ثبت ہوجاتے ہیں جو کہ اُس بندوق کے لیے مخصوص ہوتے ہیں۔ چنانچہ ایک ہی کارخانے کی تیارکردہ دو بندوقوں سے نکلی ہوئی گولیوں پر یہ نشانات مختلف ہوں گے جنہیں خوردبین سے معلوم کیا جاسکتا ہے۔ ’گوڈرڈ‘ اگرچہ ایک ماہرطب تھا لیکن اُسے اسلحے پر تحقیق کرنے کا بےحد شوق تھا اور اُس نے یہ ثابت کیا کہ دنیا کی ہر بندوق اپنے کارتوس پر منفرد نشان پیدا کرتی ہے۔ چنانچہ یہ تحقیق کئی مجرموں تک پہنچنے میں مددگار ثابت ہوئی ہے۔

٭…بارود کا بنیادی جزو ایک کیمیائی مادہ شورہ ہے۔ فائر کرنے والے کے ہاتھ پر اس کے باریک ذرّے لازماً لگ جاتے ہیں جن کا پتہ پیرافین کی مدد سے چلایا جاسکتا ہے۔ چنانچہ یہ بآسانی معلوم کیا جاسکتا ہے کہ مقتول نے خودکشی کی ہے یا یہ قتل کسی اَور نے کیا ہے۔

٭…دستاویزات میں جعلسازی کو سائنسی طریق سے تحقیق کرکے معلوم کیا جاسکتا ہے کہ جس زمانے میں دستاویز تیار کی گئی تھی، اُس وقت کاغذ اور سیاہی کا معیار وہی تھا یا نہیں۔ اب تو ایسے سائنسی آلات موجود ہیں جو یہ معلوم کرسکتے ہیں کہ تحریر کب اور کس قلم سے لکھی گئی تھی۔ اسی طرح جعلی دستخط کو پہچاننے کے بھی کئی طریق دریافت ہوچکے ہیں۔

کسی نے ایک متوفّی کا 1912ء کا لکھا ہوا یہ وصیت نامہ پیش کیا کہ اس شخص کو اڑھائی لاکھ ڈالر کی مالیت کا فلاں کارخانہ دے دیا جائے۔ ماہرین نے تحقیق کرکے بتایا کہ جس کاغذ پر یہ تحریر لکھی گئی ہے وہ 1917ء میں ایجاد ہوا تھا اور 1919ء تک مستعمل رہا۔ چنانچہ دستاویز جعلی ثابت ہوئی۔

ولیم ہُک مین ایک اوباش شخص تھا جو بچوں کو اغوا کرکے اُن کے والدین سے تاوان طلب کرتا تھا اور اپنی تحریر کو بگاڑ بگاڑ کر بچوں کے والدین کو دھمکی آمیز خطوط لکھتا تھا۔ لیکن ان خطوط کی جانچ پڑتال پر معلوم ہوا کہ یہ ایک ہی شخص ہے کیونکہ اُس نے اعداد کو ایک ہی طرح لکھا تھا۔ چنانچہ وہ پکڑا گیا۔

٭…نیویارک میں زہروں کی شناخت کے لیے 1918ء میں ایک تجربہ گاہ قائم کی گئی تھی۔ اب ماہر سمّیات یہ بھی بتاسکتا ہے کہ مرنے والے نے خودکُشی کی ہے یا غلط فہمی سے کوئی زہریلی دوا پی لی ہے یا کسی مجرم نے اسے زہر دیا ہے۔

پرلے مورڈ ایک دندان ساز تھا جس نے لالچ کی خاطر اپنے سسر کا دانت بھرتے وقت اُس میں زہر ملادیا جس کے نتیجے میں چند گھنٹوں بعد وہ شخص ہلاک ہوگیا۔ تحقیق سے معلوم ہوگیا کہ مقتول کے دانت میں زہر بھرا گیا تھا۔

ایک سڑک پر جلتی ہوئی کار میں ایک جلی ہوئی لاش پائی گئی لیکن معائنہ کرنے پر معلوم ہوا کہ وہ شخص زہرخورانی سے مرا تھا اور آگ لگنے سے پہلے مرچکا تھا۔مزید تحقیق سے معلوم ہوا کہ اُس شخص نے اپنے خاندان کے مالی حالات کو بہتر بنانے کے لیے جان کی قربانی دی تھی تاکہ ورثاء کو بیمے کی رقم مل سکے۔ چنانچہ وہ زہر پینے کے بعد جلتی ہوئی گاڑی میں لیٹ گیا۔

٭…خون کے دھبے کسی جرم کے سراغ میں بہت ممد ثابت ہوتے ہیں۔ اب ہزاروں سال پرانے دھبوں کے بارے میں بھی معلوم کیا جاسکتا ہے کہ یہ انسانی خون ہے یا کسی جانور کا، کیونکہ ہر جاندار کے خون کے سرخ جسیموں کی لمبائی مختلف ہوتی ہے۔ اگر ان دھبوں کو دھو بھی دیا جائے تو بھی انہیں دوبارہ ابھارا جاسکتا ہے۔ ماہرین یہ بھی بتاسکتے ہیں کہ کسی کے کپڑوں پر لگا ہوا خون اُسی شخص کا ہے یا کسی دوسرے کا۔ اسی طرح وراثت کے مقدمات میں خون کی تشخیص سے بہت مدد ملتی ہے۔ لعاب دہن اور پسینہ بھی تحقیق میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ حتّٰی کہ مجرم کے جوتوں سے لی جانے والی گرد کا تجزیہ بتاسکتا ہے کہ مجرم کن کن علاقوں میں گیا تھا۔

پنسلوانیا کی ایک عورت نے اپنے گھر کے فرش کو تیزاب ملاکر پانی سے دھودیا لیکن فرش کی درزوں کی مٹی میں موجود اُس کے خاوند کے خون کی شمولیت نے اُس کے جرم کا پردہ فاش کردیا۔ اسی طرح نیویارک میں ایک شخص کو کپڑوں پر خون کے دھبے پائے جانے پر زیرحراست لیا گیا تو اُس نے بتایا کہ وہ قصاب ہے۔ لیکن تحقیق پر معلوم ہوا کہ اُس میں انسانی خون کے دھبے بھی شامل تھے۔

سپیکروسکوپ ایک ایسا آلہ ہے جس سے معلوم ہوجاتا ہے کہ موت گیس کے زہر سے واقع ہوئی ہے۔ چنانچہ ایک عورت اپنے بستر پر مُردہ حالت میں ملی جس کے پہلو میں ایک بچہ بھی تھا۔ کمرے میں گیس خارج ہورہی تھی۔ تحقیق سے معلوم ہوا کہ عورت کی موت گیس سے واقع نہیں ہوئی جبکہ بچے کی موت زہریلی گیس سے ہوئی تھی۔ اس خاتون کے شوہر نے پہلے اسے گلا گھونٹ کر مارڈالا تھا اور پھر کمرے میں گیس کھول کر وہ دروازہ بند کرکے چلاگیا۔

ایک شخص کے ناخنوں کے نیچے پھنسی ہوئی میل میں سے مقتول کے خون کی آمیزش ملی اور اُس نے اقبال جرم کرلیا۔

٭…جھوٹ اور سچ کی تمیز کرنے کے لیے ایک آلہ سائیکوگیلوانومیٹر استعمال ہوتا ہے۔ جب مجرم سے کوئی مشکل سوال پوچھا جاتا ہے تو افشائے راز کے خوف کے نتیجے میں اُس کے جسم سے بعض رطوبتیں خارج ہونے لگتی ہیں اور یہ آلہ اُن کو شناخت کرلیتا ہے۔ اسی طرح دو آلات نیوموگراف اور اوسٹیوگراف ہیں جو مجرم کے تنفّس کی رفتار سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ جھوٹ بولا جارہا ہے یا سچ۔ اسی طرح ایک دوا جو ’سکوپولیمن‘ کہلاتی ہے اُس کا انجکشن لگانے سے کسی بھی شخص کا دماغ مزاحمت نہیں کرسکتا اور مجرم حقیقت ہی بیان کرتا ہے۔

٭…ڈی این اے ٹیسٹ بھی جرائم کی تفتیش میں بہت اہم کردار ادا کرتا ہے۔

………٭………٭………٭………

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button