الفضل ڈائجسٹ

الفضل ڈائجسٹ

(محمود احمد ملک)

اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔

محترم حسینی بدولہ صاحب آف سرینام

محترم حسینی بدولہ صاحب آف سرینام 17؍اپریل 2013ء کو 92 سال کی عمر میں ایمسٹرڈیم (ہالینڈ) میں وفات پاکر ایمسٹرڈیم کے قبرستان Westgaarde میں سپرد خاک ہوئے۔ حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے لندن میں نماز جنازہ غائب پڑھائی۔ روزنامہ ’’الفضل‘‘ربوہ 18؍نومبر2013ء میں مرحوم کا ذکرخیر مکرم لئیق احمد مشتاق صاحب مبلغ سلسلہ کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔

محترم حسینی بدولہ صاحب یکم نومبر 1921ء کو سرامکہ (سرینام) میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کا نام کالے خان تھا جن کا پیشہ کھیتی باڑی تھا۔ آپ پیدائشی مسلمان تھے اور ابتدا سے ہی دینی کاموں کا شوق رکھتے تھے۔ آپ کی عمر تقریباً چھ سال تھی جب آپ کی والدہ فوت ہوگئیں اور پھر آپ کی کفالت نانی نے کی۔ آپ کے نانا کا نام بدولہ تھا چنانچہ یہ آپ کے نام کا حصہ بھی بن گیا۔ پرائمری تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد آپ بھی اپنے والد کے پیشے کھیتی باڑی سے منسلک ہوگئے۔ بعد میں معماری کا کام بھی سیکھا۔ بہت محنتی اور جفاکش تھے۔ 29؍دسمبر 1942ء کو آپ کی شادی مکرمہ نصیرن بی بی صاحبہ بنت حسن محمد صاحب سے ہوئی۔ ایک بیٹی کے بعد اللہ تعالیٰ نے آپ کو چھ بیٹوں سے نوازا۔

محترم حسینی بدولہ صاحب نے شادی کے بعد اپنی زمینوں (واقع پاراماریبو شہر) میں دھان لگانے کا کام شروع کیا اور عام دنوں میں معماری کا کام جاری رکھا۔ ایک قطعہ زمین خرید کر گائے پالنے کا کام بھی کیا۔ کچھ عرصہ ٹرانسپورٹ کے کاروبار سے بھی منسلک رہے۔

آپ فطرتاً دیندار تھے۔ جوانی میں ہی اہل پیغام کے ساتھ شامل ہوگئے اور 1934ء میں اُن کی مسجد بلامعاوضہ تعمیر کی۔ اُس زمانے میں دو ٹوپیوں والے مشہور ہوئے کیونکہ کام کے وقت دھوپ کی شدت سے بچنے کے لیے ایک ٹوپی سر پر رکھتے اور نماز کے وقت دوسری صاف ٹوپی پہنتے۔

نومبر 1956ء میں سرینام میں جماعت احمدیہ کا قیام عمل میں آیا تو آپ بھی مجالس سوال و جواب میں شامل ہونے لگے اور 1957ء کے آغاز میں ہی احمدیت قبول کرلی۔ پھر آپ نے اپنی ملکیتی زمین پر مسجد بنانے کا ارادہ کیا جس کی بنیاد مولانا شیخ رشید احمد اسحٰق صاحب نے 18؍جون 1961ء کو رکھی۔ جب بھی جماعت پر ابتلا آیا تو آپ پورے اخلاص اور وفا کے ساتھ عہدبیعت پر قائم رہے۔ جماعت کی طرف سے قائم کیے گئے مدرسے میں تدریس کے فرائض بھی انجام دیتے رہے، اس مقصد کے لیے آپ نے اردو بھی لکھنی پڑھنی سیکھی۔ یہ مدرسہ بعدازاں محترم حسینی بدولہ صاحب کی ملکیتی زمین پر منتقل ہوا اور 1970ء تک جاری رہا۔ نیز آپ نے اپنی فیملی کی مدد سے اپنی زمین پر مسجد ناصر اور بعدازاں مشن ہاؤس کی تعمیر بھی جاری رکھی۔ 1967ء سے 1970ء کے درمیان گیانا سے مکرم مولانا غلام احمد نسیم صاحب تین مرتبہ دورے پر سرینام آئے اور آپ کے مہمان بنے۔

اپریل 1971ء میں محترم مولانا فضل الٰہی بشیر صاحب کی موجودگی میں مسجد ناصر کے افتتاح کے موقع پر محترم حسینی بدولہ صاحب نے بلند آواز سے حاضرین کے سامنے اللہ کو گواہ ٹھہراتے ہوئے اپنی یہ تحریر پڑھی کہ مَیں نے اور میری بیوی نے صرف اور صرف اس نیت سے یہ زمین دی اور اس پر یہ مسجد تعمیر کی تا سرینام میں احمدیت کی اشاعت ہو اور خدائے واحد کی عبادت کی جاوے۔ ہم خلافت احمدیہ سے وابستہ ہیں۔ مَیں اُن سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے اس کام میں میری مدد کی۔ مَیں اس مسجد اور اس قطعہ زمین کی ملکیت کے حقوق سے دستبردار ہوتا ہوں۔ نہ مَیں اور نہ کوئی میرا وارث اس زمین اور مسجد کا حقدار ہوگا۔ آج سے اس کے مالک و مختار ہمارے آقا و مطاع حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؓ ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ میری اس حقیر قربانی کو قبول فرمائے۔

دو موجود احباب نے بطور گواہ اور محترم مولانا فضل الٰہی بشیر صاحب نے مسجد ناصر کی چابی وصول کرکے اس تحریر پر دستخط کیے۔ اس موقع پر حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ نے خصوصی پیغام بھی ارسال فرمایا تھا جو پڑھ کر سنایا گیا۔

محترم حسینی بدولہ صاحب 1961ء میں پہلی بار جماعت احمدیہ سرینام کے صدر منتخب ہوئے اور 2004ء تک آپ کو کبھی صدر اور کبھی نائب صدر کے طور پر خدمت کی توفیق ملتی رہی۔ آپ کو دعوت الی اللہ کا بہت شوق تھا اور انتہائی مہذّب انداز میں پیغام حق پہنچایا کرتے تھے۔ چار مرتبہ احمدیہ کریبین کونسل کے جلسوں میں شرکت کے لیے گیانا اور ٹرینیڈاڈ گئے۔ 1980ء میں اہلیہ اور ایک بیٹے اور بہو کے ہمراہ قادیان اور ربوہ کا سفر کیا اور جلسہ سالانہ میں شرکت کے علاوہ حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ سے بھی ملاقات کا شرف حاصل کیا۔ 1982ء میں محترم مولانا محمد صدیق ننگلی صاحب کے ساتھ مل کر سرینام کی دوسری احمدیہ مسجد نصر تعمیر کرنے کی توفیق پائی۔ معماری کی خدمات کے علاوہ اس کارخیر کے لیے ایک ہزار سرینامی گلڈرز نقد بھی پیش کیے جبکہ اہلیہ اور بچوں نے دو ہزار تین سو گلڈرز کی ادائیگی کی۔

خداتعالیٰ نے آپ کو وسیع جائیداد اور مالی کشائش عطا فرمائی تھی۔ آپ ہمیشہ قربانی میں پیش پیش رہے۔ صدقہ و خیرات کثرت سے کرنا، ملازمین سے حسن سلوک کرنا، ضرورتمندوں اور نادار طلبہ کی مالی مدد کرنا آپ کا شیوہ تھا۔ گلاب عمراؤ نامی ایک شخص لمبا عرصہ آپ کے ساتھ کام کرتا رہا اور آپ اور آپ کی اہلیہ محترمہ کے حسن سلوک اور تبلیغ سے وہ احمدی ہوگیا۔ پھر اسی حسن سلوک سے متأثر ہوکر اُس نے چارہزار مربع میٹر کا ایک پلاٹ 1973ء میں جماعت کو ہبہ کردیا۔

آپ کی یہ بھی خواہش تھی کہ ایک ایسا بوسٹر لگواسکیں جس کے نتیجے میں سرینام کے ہر گھر میں ایم ٹی اے دیکھا جاسکے۔ اس مقصد کے لیے سارا خرچ برداشت کرنے کے لیے بھی تیار تھے۔ آپ کو جلسہ سالانہ یوکے میں متعدد بار شرکت کی توفیق ملی۔ 2001ء میں حج بیت اللہ کا شرف حاصل کیا۔ 2002ء میں آپ کی دائیں ٹانگ پر چوٹ لگی اور زخم خراب ہوگیا جس کی وجہ سے چلناپھرنا دشوار ہوگیا۔ بڑھاپا بھی تھا۔ تاہم آپ نماز باجماعت کی بہت پابندی کرتے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس خاندان نے سرینام میں جماعت کے پودے کی بہت اولوالعزمی اور محبت کے ساتھ آبیاری کی۔

2004ء میں آپ ہالینڈ چلے گئے جہاں ایک کے سوا سب بچے مقیم تھے۔ آپ کے آخری سال وہیل چیئر پر گزرے۔ چند دن کے لیے بارہا سرینام بھی آتے رہے۔

23؍جون 2011ء کو آپ کی اہلیہ محترمہ نصیرن بدولہ صاحبہ قریباً ستّر سالہ رفاقت کے بعد وفات پاگئیں تو یہ صدمہ آپ نے بہت صبر اور حوصلے سے برداشت کیا۔ (مرحومہ کا ذکرخیر الفضل انٹرنیشنل 3؍مئی 2019ء کے الفضل ڈائجسٹ میں شامل اشاعت کیا جاچکا ہے۔) دسمبر 2012ء میں محترم حسینی بدولہ صاحب آخری بار سرینام آئے۔ آپ کے ایک بیٹے مکرم عثمان بدولہ صاحب شمالی ہالینڈ کے امیر ہیں۔

………٭………٭………٭………

حضرت سیٹھ عبداللہ الٰہ دین صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ربوہ 23؍اکتوبر2013ء میں مکرم فیض احمد گجراتی صاحب کے قلم سے حضرت سیٹھ عبداللہ الٰہ دین صاحب کا ذکرخیر ہفت روزہ ’’بدر‘‘ کی ایک پرانی اشاعت سے منقول ہے۔

حضرت سیٹھ عبداللہ الٰہ دین صاحب اگرچہ فرد واحد تھے لیکن تبلیغ کے میدان میں آپ کی غیرمعمولی خدمات ایک ادارے کی مانند تھیں۔ آپ 1915ء میں احمدیت کی آغوش میں آئے اور دسمبر 1962ء میں اپنی آخری سانس تک عہد بیعت کو اس طرح نبھایا جیسا کہ اس کا حق تھا۔ ایک بار شدید مالی ابتلا کی لپیٹ میں آگئے مگر قربانی کا معیار وہی رہا۔ حضرت مصلح موعودؓ کو علم ہوا تو آپؓ نے محترم سیٹھ صاحب کو تحریر فرمایا: ’’ایک دوست نے لکھا ہے کہ آپ کی مالی حالت بہت کمزور ہوتی جارہی ہے۔ آپ بہت زیادہ چندہ دیتے رہے ہیں۔ فی الحال آپ بقایوں اور اگلا چندہ دینے کا خیال چھوڑ دیں تو یہ بات پسندیدہ ہوگی۔‘‘

حضرت مصلح موعودؓ نے ایک موقع پر فرمایا کہ ’’حضرت مسیح موعودؑ نے یہ جو فرمایا ہے کہ مجھے چالیس مومن مل جائیں تو مَیں ساری دنیا پر اسلام غالب کرسکتا ہوں۔ ان چالیس مومنین کا ایک نمونہ سیٹھ عبداللہ الٰہ دین صاحب ہیں۔‘‘

محترم سیٹھ صاحب نے تن تنہا بےشمار لٹریچر چھپوایا اور اسے دنیا کے کونے کونے تک پھیلادیا۔ ہزاروں افراد نے اس لٹریچر کے ذریعے ہدایت پائی۔ حضرت مصلح موعودؓ نے بارہا اس حوالے سے ان کی مساعی کو سند خوشنودی عطا فرمائی۔ ایک بار فرمایا: ’’تبلیغ میں اس حد تک انہیں جوش ہے کہ جیسا کہ قرآن کریم میں وَالنّٰزِعٰتِ غَرْقًا … ارشاد فرمایا گیا ہے، یہ مقام ان کو حاصل ہے۔ … اور پھر لٹریچر شائع کرانے کی ایسی دھن ہے کہ ان کی جدوجہد کو دیکھ کر شرم آتی ہے کہ قادیان میں اتنا عملہ ہونے کے باوجود اس دھن سے کام نہیں ہوتا جس سے وہ کرتے ہیں۔ … وہ اپنی ایک ایک کتاب کے پندرہ پندرہ سولہ سولہ ایڈیشن شائع کرچکے ہیں۔ …اگر چند اَور ایسا ہی کام کرنے والے ہوتے تو اس وقت بہت بڑا کام ہوچکا ہوتا۔‘‘

………٭………٭………٭………

مارخور

ماہنامہ ’’تشحیذالاذہان‘‘ ربوہ اکتوبر 2013ء میں پاکستان کے قومی جانور ’مارخور‘ کے بارے میں ایک معلوماتی مضمون مکرمہ ی۔ق صاحبہ کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔

’مار‘ سانپ کو کہتے ہیں اور ’مارخور‘ کا مطلب ہے سانپ کھانے والا۔ لیکن جنگلی بکرے سے ملتا جُلتا گھاس چرنے والا جانور مارخور سانپ نہیں کھاتا البتہ سانپ کو مارتا ضرور ہے۔ شاید اس کے نام کی وجہ اس کے بل دار سینگ ہیں جو سانپ سے مشابہت رکھتے ہیں۔ مارخور پاکستان کے شمالی علاقوں کے علاوہ افغانستان، بھارت، ازبکستان، تاجکستان اور کشمیر میں بھی پایا جاتا ہے۔ اس کا رنگ سیاہی مائل بھورا ہوتا ہے اور ٹانگوں کے نچلے حصے پر سفید و سیاہ بال ہوتے ہیں۔

مارخور کی تین اقسام ہیں اور یہ ریوڑ کی شکل میں رہتے ہیں۔ جوڑے بنانے کا عمل سردیوں میں ہوتا ہے جب نر ایک دوسرے کے سینگوں میں سینگ پھنسا کے سبقت لے جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ویسے عالمی تنظیم IUCN کے مطابق مارخور کا وجود خطرے میں ہے اور جنگل میں ان کی تعداد دو سے چار ہزار کے درمیان باقی رہ گئی ہے۔

………٭………٭………٭………

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button