حضرت مصلح موعود ؓ

وقف زندگی کی نئی تحریک جماعت کی ترقی کے لیے نہایت ضروری ہے (قسط نمبر1)

سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی المصلح الموعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ(فرمودہ ۳؍جنوری۱۹۵۸ء)

۱۹۵۷ء کے جلسہ سالانہ کے موقع پر حضرت مصلح موعودؓ نے جماعت کے سامنے ’’وقف جدید ‘‘کی تحریک پیش کی جس کا مقصد دیہاتی علاقہ جات میں تبلیغ اور تربیت کے سلسلہ کو زیادہ موثر کرنا تھا۔ اس تحریک کا ایک مالی مطالبہ تھا جبکہ ایک مطالبہ وقفِ زندگی کا تھا۔ چنانچہ اس تحریک کے اعلان کے بعد اگلے سال کے آغاز میں بیان فرمودہ خطبات جمعہ میں حضورؓ نے اس تحریک کے بعض پہلو مزید کھول کر بیان فرمائے اور جماعت کو اس کی اہمیت کی طرف توجہ دلائی۔ ۳۱؍دسمبر کو وقف جدید کا مالی سال اختتام پذیر ہو رہا ہے۔ اس مناسبت سے وقفِ جدید کی اہمیت کےحوالے سے ان خطبات میں سے بعض حصے ہدیہ ٔقارئین ہیں۔(ادارہ)

تشہد، تعوذ اور سورت فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:

’’میں نے پہلے بھی ایک خطبہ میں بیان کیا تھا اور پھر جلسہ سالانہ کے موقع پر اپنی 27دسمبر کی تقریر میں بیان کیا تھا کہ جماعت کے وہ دوست جنہیں سلسلہ کی تبلیغ سے لگاؤ ہو یا تعلیم و تدریس کا شوق رکھتے ہوں وہ جماعت کی ترقی کے لیے اپنے آپ کو نئے وقف کے ماتحت پیش کریں۔ سلسلہ اُن کی مدد کرے گا اور خود بھی اُن کو کمائی کرنے کی اجازت دے گا۔ اِس طرح اُن کا عمدگی سے گزارہ ہوتا رہے گا۔ چارپانچ سال تک امید ہے کہ مدرسہ احمدیہ جدید جو قائم ہوا ہے اس کی چارپانچ جماعتیں نکل آئیں گی اور چونکہ یہاں اردو میں پڑھائی ہے اس لیے وہ نوجوان پرائمری تک اردو میں تعلیم دے سکیں گے اور ساتھ ہی وہ واعظ اور مبلغ بھی ہوںگے لیکن اس کے درمیان جو وقفہ ہے اُس کو پُر کرنے کے لیے ہمیں واقفین کی ضرورت ہے۔

مجھے افسوس ہے کہ جلسہ سالانہ سے پہلے تو بعض نوجوانوں کی درخواستیں آتی رہیں کہ ہم اپنے آپ کو اس سکیم کے ماتحت وقف کرتے ہیں لیکن جب میں نے وقف کی شرائط بیان کیں تو پھر ان میں سے کسی نے بھی نہیں کہا کہ ہم اپنے آپ کو وقف کرتے ہیں۔ پس میں جماعت کے دوستوں کو ایک بار پھر اس وقف کی طرف توجہ دلاتا ہوں۔ ہماری جماعت کو یاد رکھنا چاہیے کہ اگر وہ ترقی کرنا چاہتی ہے تو اس کو اس قسم کے وقف جاری کرنے پڑیں گے اور چاروں طرف رُشدواصلاح کا جال پھیلانا پڑے گا یہاں تک کہ پنجاب کا کوئی گوشہ اور کوئی مقام ایسا نہ رہے جہاں رُشدواصلاح کی کوئی شاخ نہ ہو۔ اب وہ زمانہ نہیں رہا کہ ایک مربی ایک ضلع میں مقرر ہو گیا اور وہ دورہ کرتا ہوا ہر ایک جگہ گھنٹہ گھنٹہ، دودوگھنٹہ ٹھہرتا ہوا سارے ضلع میں پھر گیا۔ اب ایسا زمانہ آ گیا ہے کہ ہمارے مربی کو ہر گھر اور ہر جھونپڑی تک پہنچنا پڑے گا۔ اور یہ اُسی وقت ہو سکتا ہے جب میری اس نئی سکیم پر عمل کیا جائے اور تمام پنجاب میں بلکہ کراچی سے لے کر پشاور تک ہر جگہ ایسے آدمی مقرر کر دیئے جائیں جو اُس علاقہ کے لوگوں کے اندر رہیں اور ایسے مفید کام کریں کہ لوگ اُن سے متأثر ہوں۔ وہ انہیں پڑھائیں بھی اور رُشدواصلاح کا کام بھی کریں۔ اور یہ جال اتنا وسیع طور پر پھیلایا جائے کہ کوئی مچھلی باہر نہ رہے۔ کنڈی ڈالنے سے صرف ایک ہی مچھلی آتی ہے لیکن اگر مہاجال ڈالا جائے تو دریا کی ساری مچھلیاں اس میں آ جاتی ہیں۔ ہم ابھی تک کنڈیاں ڈالتے رہے ہیں۔ان کی وجہ سے ایک ایک مچھلی ہی ہمارے ہاتھ میں آتی رہی ہے لیکن اب مَہاجال ڈالنے کی ضرورت ہے اور اِس کے ذریعہ گاؤں گاؤں اور قریہ قریہ کے لوگوں تک ہماری آواز پہنچ جائے بلکہ ہر گاؤں کے ہر گھر تک ہماری پہنچ ہو۔ پہلے لڑکوں اور لڑکیوں تک ہماری پہنچ ہو، پھر لڑکوں اور لڑکیوں کے ماں باپ تک ہماری پہنچ ہو اوراس کے بعد سارے گاؤں تک ہماری پہنچ ہو جائے۔ پھر گاؤں سے نکل کر چارچار، پانچ پانچ میل تک کے دیہات میں ہماری پہنچ ہو جائے اور پھر یہ دائرہ دس دس پندرہ پندرہ میل تک وسیع ہو جائے۔ اس کے بعد اَور ترقی کرے اور یہ دائرہ تیس تیس میل تک چلا جائے۔ پھر اَور ترقی کرے اور یہ دائرہ پینتالیس میل تک چلا جائے۔ پھر اَور ترقی کرے اور یہ دائرہ ساٹھ میل تک چلا جائے۔ پھر اَور ترقی کرے اور یہ دائرہ پچھتّر میل تک چلا جائے۔ پھر اَور ترقی کرے اور یہ دائرہ نوّے میل تک چلا جائے۔ پھر اَور ترقی کرے اور یہ دائرہ ایک سَوپانچ میل تک چلا جائے۔ پھر اَور ترقی کرے اور یہ دائرہ ایک سَو بیس میل تک چلا جائے۔ گویا اگر ہم صرف بیس اسکول کھول دیں اور پندرہ پندرہ میل کے دائرہ میں ایک اسکول رکھیں تو تین سَو میل تک ہمارا دائرہ بڑھ جاتا ہے۔ اور اگر بیس سکول ایک طرف ہوں اور بیس سکول دوسری طرف ہوں تو تین سَو میل اِدھر اور تین سَو میل اُدھر ہمارا دائرہ بڑھ جاتا ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ ہمارا دائرہ نوّے ہزار مربع میل تک وسیع ہو جاتا ہے اور سارے پنجاب کا رقبہ باسٹھ ہزار مربع میل ہے۔ غرض اگر ہم اس تجویز پر عمل کریں تو رفتہ رفتہ سارا مغربی اور مشرقی پاکستان اس کے احاطہ میں آ جاتا ہے۔ پس جب تک ہم اس مہاجال کو نہ پھیلائیں گے اُس وقت تک ہم کامیاب نہیں ہو سکتے۔

تین چار سال تک جیسا کہ میں نے بتایا ہے مدرسہ احمدیہ سے فارغ ہونے پر ہمیں ایسے نوجوان مل جائیں گے جو دین کی خدمت کے لیے آ گے آ جائیں گے اور ان کے لیے بظاہر اَور کوئی کام نہیں ہو گا کیونکہ ہم نے مولوی فاضل کی ڈگری کو اُڑا دیا ہے۔ پہلے لڑکے مولوی فاضل پاس کر کے گورنمنٹ سروس میں چلے جاتے تھے۔ اس لیے اب ہم نے مولوی فاضل کو اُڑا دیا ہے۔ ہم انہیں اپنے ہی امتحان پاس کرائیں گے تا کہ وہ فارغ ہو کر دین کی خدمت کریں۔ آخر کوئی وجہ نہیں کہ ہم ہزاروں روپیہ خرچ کر کے فارغ التحصیل نوجوان گورنمنٹ کو دے دیں اور وہ انہیں اپنے سکولوں میں لگا لے۔ اب جو نوجوان تعلیم حاصل کریں گے وہ مجبور ہوں گے کہ دین کی خدمت کریں۔ بیشک سلسلہ بھی مجبور ہو گا کہ اُن کے کھانے پینے کا مناسب انتظام کرے لیکن وہ بھی مجبور ہوں گے کہ اپنے کھانے پینے کا سامان سلسلہ سے آ کر لیں اور اپنی خدمات سلسلہ کے لیے وقف کریں۔ باہر جا کر اُن کو کچھ نہیں ملے گا اور ان کو نہ رکھ کر سلسلہ کو کچھ نہیں ملے گا۔ گویا دونوں ایک دوسرے کے گلے میں رسّی باندھے ہوئے ہوں گے۔ مدرسہ احمدیہ کی تعلیم سے فارغ ہونے والے نوجوانوں نے صدرانجمن احمدیہ اور تحریک جدید کے گلے میں رسّی باندھی ہوئی ہو گی کہ اگر ہم سے کام نہیں لو گے تو تم کو مبلّغ نہیں ملیں گے اور صدرانجمن احمدیہ اور تحریک جدید نے اُن کے گلے میں رسّی باندھی ہوئی ہو گی کہ اگر تم ہمارا کام نہیں کرو گے تو تم کو بھی روٹی نہیں ملے گی۔ اِس طرح دونوں فریق مجبور ہوں گے کہ ایک دوسرے کا کام کریں اور اِن دونوں کے ملنے سے لاکھوں میل کے رقبہ میں تبلیغ کو وسیع کیا جا سکے گا۔

جہاں تک چندے کا سوال ہے میں سمجھتا ہوں کہ چونکہ ہماری جماعت چندہ دینے کی عادی ہے اس لیے آہستہ آہستہ رقم آنی شروع ہو جائے گی۔ جو رقم میں نے تجویز کی ہے وہ بہت معمولی ہے یعنی صرف چھ روپیہ سالانہ ہے۔ تحریک جدید میں اِس وقت بیس بائیس ہزار آدمی چندہ دے رہے ہیں۔ اگر زور دیا جائے تو کوئی بعید نہیں کہ اِس سکیم میں ایک لاکھ آدمی چندہ دینے لگ جائیں۔ تحریک جدید کی رقم بہت زیادہ ہوتی ہے۔ اس میں بعض لوگ پچاس پچاس، ساٹھ ساٹھ بلکہ سَوسَوروپیہ بھی دیتے ہیں۔ یہ رقم چونکہ کم ہے اس لیے کوئی بعید نہیں کہ اس سکیم میں حصہ لینے والے ایک لاکھ ہوجائیں۔ اور اگر ایک لاکھ احمدی چھ روپیہ سالانہ کے حساب سے چندہ دے تو چھ لاکھ روپیہ آ جاتا ہے اور زیادہ سے زیادہ خرچ جو ایک واقفِ زندگی پر اس سکیم کے ماتحت کیا جائے گا وہ ساٹھ روپیہ ماہوار ہے۔ گویا دس واقفینِ زندگی پرسات ہزار دو سَو روپیہ سالانہ خرچ آئے گا بلکہ اگر کم سے کم رقم دی جائے یعنی چالیس روپیہ ماہوار تو دس واقفین پر چار ہزار آٹھ سَو روپے سالانہ خرچ آئے گا اورسو واقفین چار لاکھ اسّی ہزار روپے میں رکھے جا سکتے ہیں۔ بلکہ میں سمجھتا ہوں اگر پورے طور پر اس سکیم پر توجہ دی جائے تو اس میں حصہ لینے والوں کی تعداد ڈیڑھ لاکھ تک بھی پہنچ سکتی ہے۔ اور اگر ڈیڑھ لاکھ آدمی چھ روپیہ سالانہ کے حساب سے چندہ دے تو نو لاکھ روپیہ سالانہ آمد ہوتی ہے۔ جس کے معنے یہ ہیں کہ ماہوار پچھتّرہزارروپیہ آ جائے گا۔ میں نے جو سکیم پیش کی ہے وہ یہ ہے کہ فی الحال صرف دس واقفین لیے جائیں اور انہیں چالیس سے ساٹھ روپیہ تک ماہوار گزارہ دیا جائے۔ اگر نولاکھ روپیہ سالانہ آمد ہوجائے تو اس سے کئی گُنا زیادہ واقفین رکھے جا سکتے ہیں کیونکہ ہر ایک واقفِ زندگی کو اگر ساٹھ روپے ماہوار دیں تو پچھتّرہزار میں بارہ سَوپچاس مبلغ رکھے جا سکتے ہیں۔ اور جب صحیح رنگ میں کام شروع ہوجائے گا تو ڈیڑھ لاکھ تو کیا میرا خیال ہے پانچ چھ لاکھ احمدی اِس سکیم میں چندہ دینے لگ جائیں گے اور پھر ممکن ہے کہ وہ چندہ بڑھا کر دینے لگ جائیں۔ اگر ہر ایک آدمی میرے بتائے ہوئے چندہ سے دوگُنا یعنی بارہ روپیہ سالانہ دے اور جماعت کے چھ لاکھ افراد چندہ دیں تو بہتّر لاکھ روپیہ سالانہ آمد ہو جاتی ہے یعنی چھ لاکھ روپیہ ماہوار۔ اور اس میں ہم دس ہزار مبلّغ رکھ سکتے ہیں ۔اور دس ہزار مبلّغ رکھنے سے ملک کی کوئی جہت ایسی نہیں رہتی جہاں ہماری رُشدواصلاح کی شاخ نہ ہو۔ پھر یہ بھی ممکن ہے کہ مشرقی بنگال والے اپنا بوجھ خود اُٹھا لیں اور وہ خود اس سکیم کے لیے رقم جمع کر لیں۔ ایسٹ بنگال کا رقبہ صرف چون ہزار مربع میل ہے۔ اگر ایک لاکھ آدمی اس سکیم میں حصہ لے تو اُن کا کام چل سکتا ہے بلکہ پچاس ہزار آدمی بھی حصہ لے تو ایسٹ پاکستان اپنے کام کو سنبھال سکتا ہے۔

پس میں جماعت کو اِس خطبہ کے ذریعہ پھر تحریک کرتا ہوں کہ نوجوان اس وقف میں اپنے نام لکھائیں اور آگے آنے کی کوشش کریں تا کہ جلد سے جلد انہیں مختلف جگہوں پر بٹھا دیا جائے اور دکانیں اور مدرسے کھول دیئے جائیں اور احمدیت کا پھل نکلنا شروع ہو جائے۔ یہ یاد رکھو کہ مذہب کی تبلیغ پھل کی طرح ہوتی ہے اورپھل ایک دن میں نہیں نکلا کرتا۔ اگر تم کسی زمین میں گندم بو دو تو تمہیں چھ ماہ میں پھل مل جائے گا لیکن باغ کا پھل بعض اوقات آٹھ سال میں بھی نہیں مل سکتا۔ اگر تم باغ لگانا شروع کر دو اور پھر ایک ایک باغ باری باری لگاؤ تو ایک باغ کا پھل تمہیں آٹھ سال بعد ملے گا، دوسرے کا سولہ سال بعد ملے گا، تیسرے کا چوبیس سال بعد ملے گا، چوتھے کا بتّیس سال بعد ملے گا، پانچویں کا چالیس سال بعد ملے گا، ساتویں سال کا چھپّن سال بعد ملے گا، آٹھویں کا چونسٹھ سال بعد ملے گا، نویں کا بہتّر سال بعد ملے گا، دَسویں کا اسّی سال بعد ملے گا، گیارھویں کا اٹھاسی سال بعد ملے گا، بارھویں کا چھیانوے سال بعد ملے گا اور تیرھویں کا ایک سَوچار سال بعد ملے گا۔ اور تم میں سے کون ہے جو کہہ سکے کہ وہ ایک سَو چار سال تک زندہ رہے گا۔

پس میں جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ جلد اِس وقف کی طرف توجہ کرے اور اپنے آپ کو ثواب کا مستحق بنا لے۔ یہ مُفت کا ثواب ہے جو تمہیں مل رہا ہے۔ اگر تم اسے نہیں لو گے تو یہ تمہاری بجائے دوسروں کو دے دیا جائے گا۔ دیکھو! جب یہاں کے لوگوں نے احمدیت کی طرف توجہ نہ کی تو اﷲ تعالیٰ ایسٹ اور ویسٹ افریقہ کو آگے لے آیا۔ اِسی طرح اَور کئی ملک احمدیت کی طرف توجہ کرنے لگے۔ خداتعالیٰ نے جو کام کرنا ہوتا ہے اُس کے لیے وہ کوئی نہ کوئی ذریعہ نکال دیتا ہے۔ اب ایسے ایسے ملک ہیں جن میں دس دس پندرہ پندرہ ہزار احمدی ہیں۔ اگر باہر کے سارے احمدیوں کو ملا لیا جائے تو وہ پاکستان کے احمدیوں کے برابر ہو جاتے ہیں اور اس کی وجہ یہی ہے کہ جب یہاں کے لوگوں نے احمدیت کو قبول کرنے میں سُستی کی تو خداتعالیٰ نے دوسرے ملکوں کے لوگوں کو احمدیت میں داخل کرنا شروع کر دیا۔ چنانچہ اگر غانا، سیرالیون، نائیجیریا اور ایسٹ افریقہ کے علاقوں کینیا، ٹانگانیکا، یوگنڈا اور امریکہ کے علاقوں ٹرینیڈاڈ، ڈچ گی آنا، برٹش گی آنا، فرنچ گی آنا، یو۔ایس۔اے اور دوسرے تمام یورپین اور ایشیائی ممالک کو جہاں جہاں احمدی پائے جاتے ہیں ملالیاجائے تو پتا لگ جائے گا کہ ان کی مشترکہ احمدی آبادی مغربی پاکستان کی احمدی آبادی سے کم نہیں۔

(جاری ہے)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button