یادِ رفتگاں

مولانا مقبول احمد قریشی صاحب سابق مبلغ انگلستان، آ ئیوری کوسٹ، امریکہ

(کلیم اللہ خان۔ امریکہ)

قادیان میں طُفولیت

ملیساں ضلع جالندھر سےدو اُوپر تلے کے بھائی، چودہ پندرہ کا سِن، حضرت مسیح موعودؑ سے ملنے دارا لا مان پہنچے اور 1906ءمیں دستی بیعت کر کے وہیں ٹک گئے اور تعلیم جاری رکھی۔ بعد میں مزید پڑھ پڑھا کر اپنے اپنے کام میں مصروف ہو گئے۔ ایک ماسٹر مشہور ہوا (حضرت ماسٹر محمد علی اظہر) اور دوسرا معتبر (حضرت محمد اسمٰعیل معتبر)۔ ہر دو نے جہاں جہاں قیام کیا مہدی کا پیغام عام کیا۔ حضرت معتبر صاحب کی یہ خواہش تھی کہ اللہ لڑکا دے تو دین کے لیے وقف کریں۔ دعا قبول ہوئی اور 30؍جون 1922ء کو اللہ تعالیٰ نے ایک لڑکا عطا کیا جس کا نام مقبول ا حمد رکھا۔ معتبرصاحب خود بھی صاحب علم تھےاور چاہتے تھے کہ بیٹا بھی عالم فاضل بنے۔ دل میں وقف کا ارادہ لیے اسےبہت چھوٹی عمر میں ہی احمدیہ پرائمری اسکول قادیان میں جا داخل کیا۔ وہ بورڈنگ ہاؤس میں اورکبھی عزیزوں کے ہاں مقیم رہا۔

اساتذہ گرامی

پھر1932ء میں مدرسہ احمدیہ قادیان کےبے لوث و بے بدل اساتذہ ( مولوی عبدالرحمٰن جٹ صاحب، مولوی ظفر محمد ظفر صاحب، مولانا ارجمند خان صاحب، مولانا غلام نبی صاحب، حضرت میر محمد اسحٰق صاحب اور مولوی عبد الاحد صاحب) کے زیرِ تعلیم و تربیت یہ سیدھا سادہ، راست رو اور کم گو نو خیز طالبِ علم علم کے ساتھ ساتھ میدان عمل کے لیے تیار ہوتا رہا۔

حضرت معتبر صاحب ملٹری میں ملازم تھے جس کی وجہ سے اِدھر اُدھرآنا جانا پڑتا تھا اس لیے قادیان کو کہف و مامن جانتے ہوئے دارالرحمت میں مکان بنوا کر بیوی بچوں کووہاں منتقل کر دیا اس طرح مقبول صاحب پر چار بہنوں اور تین بھائیوں کی غور پرداخت بھی آن پڑی جسے آپ فریضہ سمجھتے ہوئے عمدگی سے نبھاتے رہے۔ان کے والد محترم نے ان کو بتا دیا تھا کہ انہیں دین کے لیے وقف کر دیا ہے۔ پھرجامعہ احمدیہ کے پُر سکون ماحول میں عالم با عمل جید علماء (حافظ مبارک احمد صاحب، مولانا ابوالعطاء صاحب، مولوی محمد یار صاحب، مولانا ارجمند خان صاحب، قاضی محمد نذیر صاحب، صاحبزادہ ابوالحسن قدسی صاحب اور محبوب عالم خالد صاحب) کے پُرخلوص درس و نصائح نے ان کی ذہنی، روحانی اور علمی با لیدگی کو پَروان چڑھایا، صیقل کیا جس سےعلم کی راہیں ہموار ہوتی گئیں۔

تعلیم

٭…1941ء مولوی فاضل: یونیورسٹی آف پنجاب (دوم) 1942ء منشی فاضل: یونیورسٹی آف پنجاب

٭… 1946ء بی۔اے انگریزی: یونیورسٹی آف پنجاب

٭…1954ء بی۔اے: فلاسفی،عربی

٭…1965ء ایم۔اے، عربی : یونیورسٹی آف پنجاب (اول)۔سونے اور چاندی کا میڈل دیا گیا۔

( تعلیم الاسلام کالج کی طرف سے بھی سونے کا میڈل دیا گیا جو پرنسپل حضرت مرزا ناصر احمد صاحبؒ نے اپنے دستِ مبارک سے پہنایا)

آپ کے والدِ گرامی نےان کی شادی کےبعد جب زندگی وقف کرنے سےمتعلق ارادہ پوچھا توآپ نے اہلیہ سےمشورہ کرنے کےبعد زندگی وقف کر دی جو 1946ء میں منظور ہو گئی اور انہیں انگلستان بھیجنے کا ارشاد ہوا۔

لا ہور میں آمد

1947ء میں ’’داغِ ہجرت‘‘ کے ساتھ ہی ’’ باغِ احمدیت‘‘ کو بچانے، نئے سرے سے لگانے اور سجانے کے لیے حضرت مصلح موعودؓ نے الٰہی نوشتوں کو پڑھتے ہوئے اس کی عطا کردہ فہم و فراست اور نصرت و تائید سے ایسے مفصل و منظم اقدامات کیے کہ قادیان سے بے خانماں قافلے ظلم و ستم اور آگ و خون کے الاؤ سے بچتے بچاتے لاہور پہنچتے رہے تاآنکہ آخری قافلہ 16؍دسمبر کو بخیرو عافیت پہنچا جو بذاتِ خود صاحبِ بصیرت کے لیے ایک بہت بڑا نشان ہے۔ یہاں لاہور میں اُن کے قیام و طعام کے خاطر خواہ انتظامات (رتن باغ، جودھامل بلڈنگ، جسونت بلڈنگ اور سیمنٹ بلڈنگ میں) ہوتے رہے۔

انگلستان روانگی

اگرچہ کس مپرسی کا عالم تھا مگر ان کو انگلستان (بطورمربی) بھیجنے کا ارشاد و انتظامات ہو چکے تھے اس لیے آپ کودرد بھری دعاؤں کے ساتھ لاہور سے 24؍جنوری 1948ء کو رخصت کیا گیا۔ کراچی سے بحری جہاز پر روانہ کرتے وقت آپ کی اہلیہ صاحبہ (محترمہ نعیمہ خاتون) کی یہ حالت تھی کہ پاؤں بھی بھاری اور سر بھی بھاری، گود میں دو سال کی بچی کی آہ و زاری۔بیٹی کو بخار کی تپش، ماں کو جدائی کی خلش۔ انجانے خوف سے بہتے ہوئے آنسوؤں اور دعاؤں سے شوہر کو ترویج دین کےلیے دیار غیر رخصت کیا اور پھر اس چھبیس سالہ مجاہد اسلام کے قدم آگے بڑھتے گئے۔ ایسے مناظر آکاش نے پہلے بھی کئی بار دیکھے جہاں واقفین کرام کے ساتھ ان کی ازواج نے بھی اس کارِ عظیم میں اپنے تعاون اور قربانیوں کے انمٹ نقوش ثبت کیے۔

لندن میں خدمتِ دین

کوئی ایک ماہ بعد یہ بحری جہاز ساحل انگلستان سے جا لگا۔ لندن میں تقریباً چار سال ( 1948ءتا 1951ء) تک محترم ظہور احمد باجوہ صاحب کی معاونت میں بحیثیت سیکرٹری مشن خدمت دین کی بجا آوری میں مصروف رہے۔

1948ء کی بات ہے جب حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحبؓ لندن میں چند ماہ قیام کے بعد واپس جانے والے تھے تو آپ کے اعزاز میں ایک الوداعی تقریب کا اہتمام کیا گیا جس میں ایک ممبر پارلیمنٹ نے بھی شرکت کی۔ اس موقع پر آپ نے اپنے خطاب میں لندن مشن کی مختصر تاریخ پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ’’…ان غلط فہمیوں کو دور کرنے کی ضرورت ہے جو ایک دوسرےکے درمیان موجود ہیں جن کی وجہ سے مشرقی اور مغربی اقوام کے درمیان نفرت کے جذبات پائے جاتے ہیں تاکہ اُنہیں معلوم ہو کہ ہم اکٹھے برادرانہ طور پر رہ سکتے ہیں۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم مغربی اقوام کے لوگوں کے اطوار و عادات اور رجحانات کا مطالعہ کریں اور ان کی مشکلات کو سمجھیں جس کی وجہ سے یہ اسلام قبول کرتے ہوئے ہچکچاتے ہیں… اگر مغربی لوگ مشرقی لوگوں کو اور مشرقی لوگ مغربی لوگوں کو سمجھ لیں تو ہمارا مستقبل شاندار ہے۔‘‘ (الفضل 30؍جولائی 1948ءبحوالہ سلسلہ احمدیہ جلد دوم صفحہ 657-658)

کمسِن بیٹے کی وفات

آپ کے انگلستان چلے جانے کے بعد آپ کی اہلیہ صاحبہ کچھ عرصہ لاہور میں مقیم رہیں لیکن جب دفاتر ربوہ منتقل ہونا شروع ہوئے تو حضرت محمد اسمٰعیل معتبرصاحب (جو اس وقت تک آڈیٹر تحریک جدید مقرر ہو چکے تھے اور ربوہ جانے والے اور خیموں میں رہتے ہوئے دفتری امور سر انجام دینے والوں میں شامل تھے) نےاپنی بہو کو بھی ساتھ رکھا تا وقتیکہ کچے کوارٹر الاٹ ہوئے۔ یہیں قریشی صاحب کا لڑکا منصورپیدا ہوادو سال کا ہوا تو ماں کی گود اُجڑ گئی۔ دور افتادہ باپ نہ بچے کی شکل دیکھ سکا نہ جیون ساتھی کو رفاقت دے سکا۔ صبر و رضا سے یہ صدمہ بھی دونوں نےجان پر لیا۔

لندن سے واپسی اور مرکز میں خدمات

دسمبر 1951ء میں لندن سے واپس آنے کے بعدقریشی صاحب کو علیحدہ کوارٹر (نمبر 38) الاٹ ہوا آپ کےاَڑوس پڑوس میں اللہ بخش،قاضی رشید، محمد صادق سماٹری، بشیر باجوہ، محمد ثاقب، مولوی شریف، قاضی محمد یوسف، غلام نبی، قاضی رشید الدین،مولانا نذیر علی،حسن محمد خان عارف صاحبان اور دیگر احباب رہا کرتے تھے۔

پروفیسر جامعۃ المبشرین اور لا ئبریرین

چندماہ متفرق دفاتر میں کام کرنے کے بعد اپریل 1952ء میں جامعۃ المبشرین میں پروفیسر مقرر ہوئے۔ پڑھانے کے علاوہ جامعہ کے لا ئبریرین کے فرائض (جون 1952ءتا نومبر 1955ء) سر انجام دیتے رہے۔ جس طرح وہ خود مطالعہ کے شوقین تھے اسی طرح وہ طلباء کے ذوق تحقیق و تد قیق کو جلا دینے میں بھی کوشاں رہے۔

سپرنٹنڈنٹ ہوسٹل

اِن فرائض بالاکی بجا آوری کے دوران (21؍مارچ 1953ءسے مئی 1955ء ) غیر ملکی طلبہ ہوسٹل کےسپرنٹنڈنٹ کی ہمہ گیر ذمہ داری بھی تفویض کی گئی جہاں مختلف رنگ و نسل، زبان و تہذیب اور معیار و افکار اور عادات و اطوار والےطلبہ کی ہر طرح سےنگہداری کرنا اور حتی الامکان ان کی جسمانی و روحانی ضروریات کا خیال رکھنا اور تربیتی ماحول قائم رکھنا اور ہر اونچ نیچ کو تحمل و معاملہ فہمی سے نمٹانا کسی کارآزمودہ کا ہی کام ہے جو آپ نے خوب عمدگی سے نبھایا جو آپ کی انتظامی صلاحیتوں اورمصلحت اندیشی پر دال ہے۔ اُس دور کے بہت سے شاگردوں میں عمری عبیدی صاحب، عثمان چینی صاحب، عبد الوہاب آدم صاحب جیسے مستقل مزاج ہونہار طلبہ شامل رہے۔

بعد میں جب جامعۃ المبشرین اور جامعہ احمدیہ کے ہوسٹلز کو مدغم کر دیا گیا اس وقت بھی آپ مئی 1960ء تک سپر نٹنڈنٹ کے فرائض بجا لاتے رہے۔ پھر جولائی سے آپ کودفتر وکالت تبشیر میں خدمات پر مامور کیا گیا جہاں مختلف النوع مفوضہ امور کی بجا آوری نہا یت دلجمعی،خندہ پیشانی،مستقل مزاجی اور دیانتداری سے ادا کرتے رہے۔

اہلیہ صاحبہ کی کشادہ دلی

آپ کی اہلیہ صاحبہ بھی اِن نو عمر، نو وارد،دور دیس سے آئے ہوئے طالب علموں کی وقت بے وقت کی فرمائشیں ان کی دلجوئی کے لیے پوری کر دیتیں: کبھی کچھ پکا دینا، کپڑوں میں بٹن ٹانک دینا اور دھو دینا اپنا فریضہ سمجھتیں تا انہیں گھر سے دوری کا احساس کسی قدر کم ہو اور وہ دلجمعی سے پڑھ سکیں۔ خاص مواقع پر تبشیر کی طرف سے بھی ان طلبہ کو کچھ عطیات،پارچات (بسا اوقات پیسے) دیے جاتے تھے۔

آئیوری کوسٹ مشن کا قیام

پھر مغربی افریقہ کے ایک ملک آئیوری کوسٹ (جہاں فرنچ زبان بولی جاتی تھی اور 17؍ اگست 1960ء کو فرانسیسی تسلط سے آزاد ہوا تھا) مشن قائم کرنے کے لیے آپ کا انتخاب ہوا۔ چونکہ یہ ملک ابھی ابھی آزاد ہوا تھا اس لیے وہاں کا ویزہ لینے کےلیے عجیب تگ و دو کرنی پڑی۔ آپ 22؍نومبر1960ءکو ربوہ سے روانہ ہو کر 27؍نومبر کو لیگوس (نائیجیریا) پہنچے۔ جہاں ایک عرصہ سے ایثار پیشہ احمدی مجاہد مغربی اور مشرقی افریقہ کے دوسرے مبشرین احمدیت کی طرح بے جگری سے اشاعت اسلام کے قرآنی جہاد میں سرگرم عمل تھے۔ حضرت مصلح موعودؓ نے ایک بار خطبہ جمعہ کے دوران اسلام کے ان خوش نصیب فرزندوں کی نسبت اس رائے کا اظہار فرمایا: ’’میرے نزدیک اس زمانہ میں حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی قربانی کے مشابہ قربانی وہ مبلغ کر رہے ہیں جومشرقی اورمغربی افریقہ میں تبلیغ کا کام کر رہے ہیں…اوربڑی جانکاہی کے بعد لوگوں تک اسلام پہنچانا پڑتا ہے…‘‘(تاریخ احمدیت جلد 21، صفحہ 163)

اس زمانہ میں فرانسیسی سفارت خانہ آئیوری کوسٹ کے سیاسی و ملکی مفادات کا نگران تھا۔ ویزہ کی درخواست دی مگر تین ماہ تک کوئی جواب نہ ملا۔ مرکز کی ہدایت کے مطابق غانا جا کر وہاں سے کوشش کی، فرانسیسی سفارت خانہ کی ہدایت و یقین دہانی پر کہ آپ کو ایئر پورٹ پر ویزہ مل جائے گا آپ 3؍مارچ 1961ء کو آبی جان (آئیوری کوسٹ کا صدر مقام) پہنچے۔ مگر وہاں پہنچ کر بتایا گیا کہ اس طرح ویزہ نہیں مل سکتا اور 24گھنٹوں کے اندر ملک چھوڑ دیا جائے۔ آپ واپس غانا آگئے اور پھر درخواست دے دی۔

اس دوران دو ماہ کا ویزہ لے کر سینیگال اور گیمبیا میں مصروف تبلیغ رہے۔اور واپس غانا آنے پر بفضلِ تعالیٰ آئیوری کوسٹ کا ویزہ مل گیا۔چنانچہ آپ 22؍جولائی 1961ء کو آبی جان پہنچ گئے۔(تاریخ احمدیت جلد 21،صفحہ 162-163)

ہفت روزہ الفضل انٹرنیشنل۔ لندن 30؍جولائی 1993ء نے لکھا:آئیوری کوسٹ: ’’اس مشن کا قیام نومبر 1960ء کو مکرم قریشی مقبول احمد صاحب کے ذریعہ عمل میں آیا‘‘

سینیگال: سب سے پہلے مکرم قریشی مقبول احمد صاحب نے سینیگال کا دورہ کیا َ اس کے بعد گیمبیا مشن کے تحت مبلغین دورے پر جاتے رہے۔‘‘

ابتدائی سرگرمیاں

نئی زمین، نئی زبان۔نہ جان نہ پہچان۔ہمتِ مرداں مددِ خدا۔ توکل اللہ کرتے ہوئے ایک ہوٹل میں تین ہفتہ پڑاؤ کیا اور گھوم گھام کرشہر کےمحلہ آجامے( ADJAME) میں مشن کے لیے ایک مکان کا چناؤ کیا۔ہوٹل کے قیام کے دوران ہی تین احباب (یحیٰ تراولے، شاکا باما اور مکرم محمد صاحب)سے گفت و شنید ہوئی انہیں حضرت مسیح موعود ؑکی تصویر دکھائی، آپؑ کی تصنیف لطیف ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ کا فرانسیسی ترجمہ دیا۔ اس اثر انگیز کتاب نے اُن کے قلوب و اذہان پر ایسا گہرا اثر ڈالا کہ وہ احمدی ہوگئے اور یوں خدا تعالیٰ کے فضل سے یہاں احمدیت کا بیج بویا گیا۔ پھر یہی کتاب آپ نے وزیر داخلہ مسٹر کوفی کاجو( MR. COFFI CADEOU) اور محکمہ جنگلات کے انچارج مسٹر لاما کمارا کو بھی دی۔ زبان سیکھنے کی طرف خاص توجہ دی اور خدا تعالیٰ کی نصرت و تائید سے راہیں ہموار ہوتی گئیں اور سعید روحیں آتی گئیں۔ ملکی پریس سے روابط قائم ہوئے اور آپ کا ایک مضمون آبی جان ماتین(ABIJAN MATIN) میں 20؍اکتوبر 1961ء کو شائع ہوا جس میں آپ نے ثابت کیا کہ اسلام ہی وہ مذہب ہے جو سائنس کے مطابق ہے اور قرآن مجید کی کوئی بات سائنس کے خلاف نہیں۔ اس مضمون سے پبلک کو پہلی بار احمدیت اور احمدیہ مشن کا تعارف ہوا۔ جلد ہی ثمرات ظاہر ہونے لگے۔ چنانچہ اسی دوران پانچ نفوس حلقہ بگوش احمدیت ہوئے۔(الفضل 21؍نومبر 1961ءصفحہ 5-7 بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 21صفحہ 164) مذکورہ بالامضمون کی اشاعت کے بعد نہ صرف معلومات حاصل کرنے والوں میں اضافہ ہوا بلکہ مشن میں بھی لوگوں کی آمد بڑھ گئی۔زیر تبلیغ افراد میں محض مقامی باشندے ہی شامل نہیں تھے بلکہ مالی، لبنان، گنی، نائیجیریا، غانا اور سینیگال کے لوگ بھی شامل تھے۔

آبی جان میں تبلیغی سرگرمیوں کے علاوہ آپ ملحقہ قصبہ جات مثلاً انیا ما (ANYAMA) وغیرہ میں جاتے رہے۔ شہر کے رئیس، اما م اور معززین کو بھی احمدیت سے روشناس کرایا۔ یہاں تین بار جانا ہوا۔ ایک بار تو پبلک جلسہ سے بھی خطاب کیا اور اسلام کی برتری پر روشنی ڈالی۔ 28؍نومبر 1961ء کوروز نامہ ’آبی جان ماتی‘( ABIJAN MATIN ) نے جماعت احمدیہ کی دینی خدمات کی نسبت ایک مضمون شائع کیا۔ اسی طرح ماہنامہ اخبار جرنل (LA JOURNAL) کی اشاعت میں آپ کا انٹرویو چھپا۔

دوسری سہ ماہی میں تیرہ مزید افراد کو جماعت احمدیہ میں شامل ہونے کی سعادت نصیب ہوئی اور آئیوری کوسٹ میں ایک مخلص جماعت قائم ہوگئی۔( الفضل 20؍مارچ 1962ءصفحہ 3-8 بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 21صفحہ 164)

جب آپ کو علم ہوا کہ اٹلی کی ایک کمپنی مقدس آقا حضرت رسول کریمﷺ کے بارے میں کوئی فلم پیش کرنے کا ارادہ رکھتی ہے تو آپ نے آئیوری کوسٹ میں مقیم سفیر کو توجہ دلائی تو موصوف نے جواب دیا کہ اگر کوئی کمپنی ایسا کرنے کا ارادہ رکھتی ہے تو ہماری حکومت اسے ایسا کرنے کی ہرگز اجازت نہیں دے گی۔ بعد اذاں آپ نے سفیرموصوف سے ملاقات کر کے انہیں دینی لٹریچر پیش کیا۔(الفضل 9؍جون 1962ءصفحہ 3بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 21صفحہ 164۔165)

15؍مئی 1962ء کو عید الاضحی کی تقریب تھی وہاں کے امام عموماً فقط عربی کے خطبہ پر اکتفا کرتے ہیں مگر آپ نے مشن ہاؤس میں فرانسیسی زبان میں خطبہ دیا جس میں عید کا فلسفہ اور حکمت بیان کی۔ اگلے دن اخبار ’’آبی جان ماتی‘‘ نے اس کی رپورٹ شائع کی۔ یہی رپورٹ اس دن ریڈیو پر بھی نشر کی گئی۔ مسلمانوں نے اس پر اظہار تعجب کیاکہ خطبہ فرانسیسی زبان میں دیا گیا ہے۔ عیسائی زائرین نے کہا کہ انہیں اس خطبہ میں پہلی دفعہ علم ہوا ہے کہ عید کیوں منائی جاتی ہے ورنہ عموماً مسلمان اس موقعہ پر ناچ گانے کے ذریعہ خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔ وہاں کے مدارس میں عیسائی پادری اتوار کو جا کر پڑھاتے اور عبادت کراتے مگرمسلمان طلبہ کی دینی تعلیم کا کوئی انتظام نہیں تھا۔ جس پر آپ نے 1963ء کے شروع میں حکومت کی اجازت سے مسلم طلبہ کی دینی تعلیم کی طرف خصوصی توجہ دینی شروع کر دی۔ آپ مقامی ٹیکنیکل کالج کے مسلم طلبہ میں ہفتہ میں کسی ایک دن لیکچر دیتے اور ان کے سوالوں کے جواب دیتے تھے نیز عربی کے اسباق بھی پڑھاتے تھے۔(الفضل 3؍مئی 1963ءصفحہ 3بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 21صفحہ 165)

قریشی مقبول احمد صاحب ابتدا میں زیر تبلیغ احباب کو مرکز کا مطبوعہ لڑیچر دیتے تھے لیکن اس سال آپ نے مقامی طور پر چار اشتہارات بھی طبع کرائے جو ’’ہستی باری تعالیٰ‘‘، ’’رمضان‘‘، ’’عید الفطر‘‘اور ’’جمع قرآن‘‘ سے متعلق تھے۔ یہ اشتہارات 28؍ستمبر 1963ء کو بکثرت تقسیم کیے گئے جبکہ اندرون ملک سے لاکھوں افراد آبی جان میں آئے ہوئے تھے۔(الفضل 21؍نومبر 1963ءصفحہ 3 بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 21صفحہ 166)قریشی مقبول احمد صاحب کےآئیوری کوسٹ آتے ہی فرانسیسی زبان خاص توجہ اور دلچسپی سے سیکھنے کے محرکات میں علاوہ مجبوری کے ایک وہ اہم نصیحت و ہدایت تھی جو حضرت مصلح موعودؓ نے جامعۃ المبشرین میں ایک خصوصی تقریب منعقدہ 23؍جنوری 1956ء کو مبلغین سے خطاب کے دوران فرمائی…جس میں قرآن مجید کے روسی اور فرانسیسی تراجم جلد شائع کرنے کی اہمیت پرزوردیا…۔(الفضل 24 جنوری 1956ء بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 17صفحہ 385)

امریکہ میں تقرری

بطور مشنری آپ کو امریکہ بھیجا گیا تو آپ 6؍ستمبر 1967ء کو نیو یارک پہنچے جہاںمحترم سید جواد علی صاحب (سیکرٹری احمدیہ مشن) نے آپ کا استقبال کیا۔ وہاں جمیکا مشن میں کچھ قیام کیا پھر آپ کو پٹس برگ (Pittsburg) جا کرمحترم عبد الرحمٰن صاحب بنگالی (مشنری انچارج) سے چارج لینے کو کہا گیا جو 14؍اکتوبر 1967ء کو پاکستان روانہ ہو گئے اور قریشی صاحب کو ڈیٹن (Dayton) مشن ہاؤس کو ہیڈ کوارٹر بنانے کا حکم ہوا اس لیے آپ ڈیٹن چلے گئے اور اس دوران محترم سید جواد علی صاحب واشنگٹن آگئے۔

اس دور میں محدود وسائل ہونے کے باوجود مشنری ان جماعتوں کے صدور سے خط و کتابت اور فون سے روابط رکھتے۔ مرکز سے موصول ہونے والے احکامات و پیغا ما ت بروقت پہنچاتے۔ وقتاً فوقتاً ان کو جماعتوں کی کارکردگی کی رپورٹ بھیجنے کی تاکیداور اصلاحی امور کی طرف توجہ دلائی جاتی۔ مرکز سے آنے والالٹریچر مختلف جماعتوں میں مفت تقسیم کے علاوہ فروخت بھی کیا جاتا۔ جماعتوں کے دورے بھی کیےجاتے اورپمفلٹ کی تقسیم کے پروگرام، مختلف مدارس اور یونیورسٹیوں میں لیکچر اور جماعتی پروگرم کرانے اورواجبی چندہ جات کی ادائیگی کے لیے ممبرز کو متحرک و فعال کیا جاتا رہا۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ ’’مسلم سن رائز‘‘ کے اجرا میں تعطل آیا مگر پھر مرکز سے اجازت پر جون 1969ء سےاس کا اجرا ہوا اور جنوری 1970ء تک چار شمارے شائع ہوئے۔

جلسہ سالانہ امریکہ 1969ء مورخہ30اور 31؍ اگست (ہفتہ،اتوار) ڈ یٹن (ریاست او ہائیو) میں منعقد ہوا۔ بفضلہ تعا لیٰ اتنی تعداد میں احباب شامل ہوئے کہ کئی دوست کھڑےہوکر کارروائی سنتے رہے۔ جلسہ کے لیے جمعہ سے لوگ آنے شروع ہوئے۔ ہفتہ کو جلسہ کے آغاز کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کا روح پرور پیغام سنایا گیا جس میں ہمیں اپنے عملی نمونہ کو تبلیغ کا ذریعہ بنانے کی تاکید کی گئی کہ امن اسلام کی پیروی سے ہی حاصل ہو سکتا ہے۔ اس کے بعد کئی دوسری تقاریر ہوئیں جو احباب کے ازدیاد دین و علم کا باعث ہوئیں۔ اس موقع پر دو احباب نے بیعت کی۔(الفضل7؍ اکتوبر 1969ء۔ صفحہ 3۔4 رپورٹ: از قریشی مقبول صاحب،دستی تحریر)

اہلیہ کی علالت اور فراغت

آپ کی اہلیہ صاحبہ کی سخت علالت کی وجہ سے مرکز نے ان کی دیکھ بھال کے لیے آپ کو واپس بلا لیا اس طرح تقریباً ایک سال ربوہ میں ہی علاج معالجہ ہوتا رہا مگر خاطرخواہ افاقہ نہ ہوا۔آپ واپس آئے پھر جلد ہی فراغت لے لی اور ایک عرصہ اہلیہ کی یہاں تیمارداری کرتے رہے حالانکہ خود بھی نحیف و کمزور جسم والے ہوگئے تھے۔

آپ کی شخصیت کے چند پہلو

محترم قریشی صاحب ایک دراز قد دُبلے پتلے جسم والے،چاق و چوبند، سادہ منش، سادہ لوح انسان تھے۔ عموماً شیروانی اور پتلون پہنتے،سر پر ہمیشہ قراقلی کی ٹوپی سجاتے۔کبھی کبھار شیروانی کے ساتھ شلوار بھی پہنے نظر آتے۔یوں تو وہ تیزرو تھے مگر طبع و میلان میں تحمل تھا۔ تصنع اور ظاہر داری نام کو نہ تھی۔ خلافت کے فدائی اور تبلیغ و تد ریس کے شیدائی۔اور منصف بھی ایسے کہ نہ کسی کی ثروت سے مرعوب ہوتے نہ کسی کے منصب سے مغلوب۔ ہر ایک سے عزت و تکریم سے ملنا آپ کا شیوہ تھا۔ وضع قطع سے آپ کی شرافت جھلکتی، بات چیت سے آپ کی ظرافت ہویدا ہوتی۔ علمی مجالس میں آپ کی تبحر علمی کا اندازہ ہوتا اور بذلہ سنجی کے پہلو نمایاں ہوتے۔ رہن سہن میں سادگی تھی۔ وسعتِ قلبی کا یہ عالم تھا کہ اخراجات کاٹ کر بھی نادار و مستحقین کی ضروریات کا خیال رکھتے اور کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوتی۔

طبیعت میں اتنی انکساری اور غیوری تھی کہ کسی سے اپنا کام لینا یا کہنا دوبھر ہوجاتا۔ کسی کا احسان لینے سے ہمیشہ گریزاں رہے۔ بغیر بتائے کسی کے ہاں نہ جاتے۔ اگر بوجوہ کسی کے ہاں رات ٹھہرنا ہوتا تو حجاب محسوس کرتے کہ دوسروں کو تکلیف دی اور میزبان کودعائیں دیتے رخصت ہوتے۔ اپنی تکلیف اورغم و غصہ کو دبا جاتے اور دوسروں کی تُند و تلخ سن کر سہ جاتے مگر مشفقانہ اور ناصحانہ انداز میں اصلاح کے واسطے حق کی نشاندہی کر دیتے تھے۔ اپنے تو اپنے بیگانے بھی آپ کی منصفانہ تحمل مزاجی دیکھتے ہوئے اپنے دکھڑے لے آتے اورشرعی اور فقہی حل کے طالب ہوتے اور کئی اپنی امانتیں (ضروری کاغذات وغیرہ) آپ کے حوالے کر جاتے۔

آپ قرآن و سنت کی پیروی کرنے والے متقی و پرہیزگار، احمدیت کے جاں نثار، صوم و صلوٰۃکے پابند، صابر و شاکر، دعا گو، شب زندہ دار بزرگ تھے۔ مالی قربانیوں اور تمام جماعتی پرو گراموں میں حصہ لیتے رہے۔ ایک لمبے عرصہ تک درس و تدریس کا سلسلہ اپنے داماد محترم عارف نسیم صاحب کےگھر جاری رکھا۔ بالآخر دل اور پھیپھڑوں کا عارضہ جان لیوا ثابت ہوا اور آپ 24؍مئی 2007ء کو 85سال کی عمر میں راہیٔ ملکِ عدم ہوئے۔ محترم مولانا داؤد حنیف صاحب (مشنری انچارج )نےآپ کی نماز جنازہ مسجد بیت الرحمٰن میں پڑھائی جس میں کثیر تعداد میں احباب شامل ہوئے اس کے بعد مقبرۃ السلام میں اُن کی اہلیہ صاحبہ کے پہلو میں تدفین کے بعدآپ نے دعا کرا ئی۔ اللہ تعالےٰ انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے۔

وہ کمرہ جہاں آپ نماز، قرآن و حدیث اور ملفوظاتِ مسیح موعود کا درس دیا کرتے تھے آج بھی حلقہ کا صلوٰۃ سینٹر ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی اولاد میں بھی ان نیکیوں کو جاری و ساری رکھے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button