متفرق مضامین

Dementia کے مریض کی ان کہی کہانی

(آصف محمود باسط)

جب سے امی کو اسلام آباد یوکے کے قریب واقع Eashing قبرستان میں سپردِ خاک کیا ہے، دل کا عجیب حال ہے کہ کوئی اس قبرستان کا یااس بستی کا نام بھی لے، تو دل و دماغ چونک سے جاتے ہیں۔ گزشتہ دنوں ایسے ہی کسی ذکر پر طبیعت کچھ تحریر کرنے پر مائل ہوئی۔

میری والدہ محمودہ باسط صاحبہ کی شخصیت کے بارے میں ایک مضمون تو الفضل انٹرنیشنل میں شائع ہوچکا ہے۔ آج جس موضوع پر لکھنے کا ارادہ ہے، اس پر امی کی زندگی میں بھی لکھنا چاہتا تھا، مگر بہت سے عوامل روک بنے رہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ مبادا روئے قلم کسی کی طرف محسوس ہو۔ مگر موضوع اہم ہے اور صرف میری امی کی ذات تک محدود نہیں۔ ہم سب کے گرد ایسے بزرگ موجود ہیں جو Dementia یا اس سے ملتے جلتے طالع آزما امراض میں مبتلا ہیں۔ ہو سکتا ہے یہ گزارشات کسی کے کام آجائیں۔

جسے ہم عام طور پر ڈمینشیا کہہ دیتےہیں، وہ ایک وسیع اصطلاح ہے دماغی امراض کے مجموعۂ علامات کی۔اس بیماری میں زیادہ عام بیماری Alzheimer‘sہے جو دماغ کی استعدادوں کو متاثر کرتی ہے۔ تاہم ہم Dementia کی اصطلاح کے عام ہو جانے کے باعث یہاں یہی اصطلاح استعمال کریں گے۔

تاہم، یہاں ہم اس بیماری کی وجوہات وغیرہ میں تو نہیں جائیں گے، کیونکہ یہ اس مضمون کا موضوع نہیں۔ ہم تو ایسے بزرگوں کے بارے میں بات کریں گےجو Dementia کا مرض لاحق ہوجانے کے باعث یادداشت سمیت اپنے دماغ کی بہت سی استعدادوں سے محروم ہوجاتے ہیں، اور یوں یہ دماغ کا مرض ذہنی اور جذباتی الجھنوں اور پیچیدگیوں پر منتج ہوتا ہے۔

یہ ایک مرض ہے جو لاعلاج بھی ہے اور یک سمتی بھی، یعنی اس کے سفر کی سمت تخریب میں ترقی ہی کی طرف رہتی ہے۔ تاہم مرض کی یہ ترقی کس قدر تیز یا آہستہ ہوتی ہے، یہ ہر مریض کے دیگر حالاتِ صحت وغیرہ پر منحصر ہوتا ہے۔ اس کے آثار بعض اوقات ماہر ڈاکٹر بھی اوّل اوّل نہیں پہچان پاتے۔ تاہم صبح و شام ساتھ رہنے والے افرادِ خانہ یا قریبی عزیز ان آثار کو بھانپ سکتے ہیں۔

مثلاًتوجہ یا focus میں کمی آجانا اس کی اولین علامتوں میں سے ایک ہے۔امی اپنی عمر کے آخری بارہ پندرہ سالوں میں ٹی وی پر آنے والی کہانیاں شوق سے دیکھا کرتیں۔نہ صرف دیکھتیں بلکہ ان کے غم اور خوشی میں بھی شریک ہوتیں۔ مثلاً مجھے یاد ہے کہ ایک ایسی ہی کہانی میں ایک کردار کو اغوا کرلیا گیا۔ امی نے جس درد اور سوز سے مجھے فون کر کے اس اغوا اور اس کے گرد پھیلے سنگین حالات کا ذکر کیا اور دعائیہ جملے بولے، وہ مجھے آج بھی یاد آتے ہیں تو امی کی معصومیت پر بہت پیار آتا ہے۔ مگر یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ امی پوری توجہ سے یہ کہانیاں دیکھا کرتیں اور ان کا خلاصہ (جو بعض اوقات اصل کہانی کے دورانیہ سے طویل بھی ہوسکتا تھا) اپنی بہوؤں بیٹیوں اور سہیلیوں سے بیان بھی کیا کرتیں۔

مگر رفتہ رفتہ یہ شوق ماند پڑتا گیا۔ کہانیوں کو دیکھتی تو رہتیں مگر ان میں دلچسپی کم کم لینے لگیں۔ بلکہ کوئی ذکر چھیڑ بھی دیتا تو ’’چلو سانو کی لگے۔ جو مرضی کرن‘‘کہہ کر ٹال جایا کرتیں۔ یہ اور ایسے ہی اور جملے امی کی ڈھال تھے جس کے پیچھے امی جزئیات کے فراموش ہوجانےکی شرمندگی کو چھپا لیاکرتیں۔ بڑی خوبی سے۔ اور ہم اسے امی کی بزرگی میں ترقی اور دنیا سے بے رغبتی کا سفر خیال کر کے کچھ خوش بھی ہوجایا کرتے۔ مگر یہ امی پر Dementia کے حملے کی پہلی علامت تھی۔

پھر روز مرہ کی بات چیت میں بھی کوئی زیادہ تفصیل میں چلا جاتا تو صاف معلوم ہوتا کہ امی کی طبیعت اُوب گئی ہے۔ یا امی اچانک کوئی غیر متعلقہ بات شروع کر دیتیں۔ بزرگوں کے ادب اور احترام کے جو مشرقی سبق ہم نے سیکھ رکھے ہیں، ان میں یہ کہنا کہ ’’پوری بات تو سن لیں‘‘تو گویا محرمات میں سے ہے۔ سو ہم دل ہی دل میں امی کی توجہات کے تنوع کی داد دیتے ہوئےامی کی چلائی ہوئی بات کے ساتھ چل پڑتے۔

پھر ایسے جملے بھی قابلِ توجہ ہوتے ہیں جو شاید مریض کی روزمرہ گفتگو یا طرزِ گفتگو کا حصہ رہے ہوں مگر اب Dementia کی کسی علامت کا پتا دیتے ہوں۔ مثلاً امی کا یہ کہنا کہ ’’بھئی کوئی ناشتہ ہی ہوجائے‘‘امی کے معمول کی طرزِ گفتگو کا حصہ تھا۔ جب کوئی snack کھانا ہوتاتو امی کا حسنِ طلب اسی رنگ کا ہوتا۔ وقت کے ساتھ ناشتے سے مراد ناشتہ ہی ہے اور امی بھول چکی ہیں کہ انہوں نے ناشتہ کرلیا ہوا ہے۔ ’’اج کچھ کھادے پیتے بغیر ہی سوجانا اے؟‘‘بھی معمول کی طرزِ گفتگو کا حصہ تھا، جب رات کو دوبارہ بھوک لگ گئی ہو۔مگر یہ بھی رفتہ رفتہ کھلا کہ یہ جملہ معمولات سے نکل کر علامات کی حدوں میں جا چکا ہے۔

بھوک ہی کی طرح اور بھی حوائج ہیں جو ہمیں اشارہ دیتے ہیں، ہم اشارے کو سمجھتے ہیں اور مناسب ردِ عمل بروقت ظاہر کرتے ہیں۔ ان اشاروں کو سمجھنے میں یا ان پر ردِ عمل میں خلل واقع ہونے لگے تو یہ بھی اس صبر آزما بیماری کی علامات میں سے ایک بڑی علامت ہے۔

ہمارے بزرگ اکثر کسی کو بلانے لگیں تو دو تین نام کسی اور کے پکار کر، اپنے ماتھے پر تھپکی سی مار کربالآخر درست نام سے بلاتے ہیں۔ یہ بھی معمول کی بات ہے۔ مگرتب تک جب بیسیوں بلاووں میں سےایک آدھ بار ایسا ہوجائے۔ یاد داشت کا یہ مسئلہ بڑھنے لگے تو اسے بھی طبی مشورے کی ضرورت کی طرف اشارہ خیال کرنا بہترہے۔

یہ تو ہو گئیں ابتدائی علامات۔ اور ان کے ظاہر ہونے کے دورانیہ میں، جو سالوں پر بھی محیط ہوسکتا ہے، ہمارے بزرگوں نے ابھی ہم سے اور دنیا سے ناطہ توڑا نہیں ہوتا۔ وہ ہم میں اور ہماری زندگیوں میں موجود ہوتے ہیں۔ اس مرض کی اصل صبر آزما شکلیں تب سامنے آتی ہیں جب مرض بڑھ جاتا ہے۔ جب رفتہ رفتہ سب کچھ بھولنے لگتا ہے۔ جب ہمارے بزرگ ہمارے سامنے موجود ہوتے ہوئے ہم میں موجود نہیں ہوتے۔ جب وہ سرکتے سرکتے کسی اور دنیا کے مکین ہونے لگتے ہیں۔ جب ان کی گفتگوبالکل درست الفاظ میں ہوتی ہے، مگر اصل دنیا سے منقطع ہوجاتی ہے۔ جب ان کی ہر بات بامعنی مگر کسی انجانے سیاق و سباق میں ہوتی ہے۔

قریبی عزیزوں اور اہلِ خانہ کی بہادری کا امتحان یہاں شروع ہوتا ہے۔ ہمیں اس سیاق و سباق کا علم نہیں ہوتا اور ہم ان کی گفتگو پر انہیں ٹوکنے لگتے ہیں۔ یا انہیں اپنی طرف سے حقیقتِ حال سے مطلع کر کے ذرا بلند آواز میں ’’سمجھانے‘‘لگتے ہیں کہ آپ کیا بات کررہے ہیں؟یہ کس نے کہا آپ کو؟ یہ کہاں سے سن لیا ہے؟ پھر وہی بات! ابھی تو بتایا ہے کہ دروازے پر کوئی نہیں آیا! وغیرہ۔

یہاں یہ بات یاد رکھنی ضروری ہے کہ مریض جو بات کررہا ہے، وہ اپنے تئیں بالکل درست کررہا ہے۔ اس کی بات کو یوں بے وقعتی سے دیکھنا اسے زچ بھی کرتا ہے اور شرمندہ بھی۔ یہاں یہ یاد رکھ لینا ضروری ہوتا ہے کہ ایسا بزرگ مریض یادداشت سے تو ہاتھ دھو بیٹھا ہے، مگر جذبات اور احساسات سے نہیں۔ چونکہ اکثر مریض جذبات اور احساسات کا اظہار تک بھول گئے ہوتے ہیں، لہٰذا ان کا شرمندہ ہو کر خاموش ہوجانا ہمیں اپنی کامیابی تو شاید لگتا ہو، مگر در حقیقت یہ ہماری شکست ہے۔ اس بزرگ کی بے بسی کے سامنے ہماری عقل اور شعور کی شکست۔

شاید اسے یوں سمجھنا آسان ہو۔ اگر یہ بزرگ ہمارے والد یا والدہ ہیں، تو ایک لمحے کے لیے رک کر بچپن میں چلے جائیں۔جب ہم لاچار اور بے بس بچہ تھے۔ جسمانی لحاظ سے بھی اور ذہنی بھی۔ ہم کیا کیا بے تکی باتیں نہیں کرجایا کرتے ہوں گے۔ بعض باتیں تو خود ہمیں یاد بھی ہوتی ہیں۔ بہت سی ایسی باتیں ہمیں ہماری ماؤں نے ہنس ہنس کر ایک خوبصورت یادداشت کے طور پر سنائی ہوتی ہیں۔ کیا ہماری ذہنی استعدادوں کی کم مائیگی پر انہوں نے ہمیں دھتکار کر شرمندہ کیا؟ والدین تو ایسی معصوم باتوں پر بچوں کو اٹھا کر چوم لیا کرتے ہیں۔ اپنے ساتھ لگا لیا کرتے ہیں۔ آج اگر ان پر بچپن کا زمانہ پلٹ کر پھر آگیا ہے، تو ہماراردِ عمل درشت کیوں ہو؟اگر ان کی دنیا کی بات کو سن لیا جائے۔ اس میں دلچسپی کا اظہار کر لیا جائے۔ دو ایک سوال ان کی دنیا کی اس صورت حال پر پوچھ لیے جائیں جس پر وہ پریشان یا خوش ہوئے بیٹھے ہیں، تو اس میں کتنا وقت اور کتنی محنت لگ جائے گی؟

ایسے مرض کے شکار ہمارے بزرگ کچھ اپنی بیماری کے باعث اور کچھ ہمارے لاتعلق رویے کے سبب تنہائی کا بھی شکار ہو جاتے ہیں۔ اس پر مستزاد ان کی خاموشی ہمیں یہ احساس دلانے لگتی ہے کہ شاید وہ اپنی اس تنہا زندگی پرقانع اور راضی ہیں، لہٰذا جہاں بٹھا دو، پہروں بیٹھے رہتے ہیں۔ شکوہ کرتے ہیں نہ گلہ۔کھانا دے دو خاموشی سے کھا لیتے ہیں۔ لٹا دو، لیٹ جاتے ہیں۔ پھر لا کر بٹھادو، پھر بیٹھ جاتے ہیں۔

افسوس کہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ وہ اپنی تنہائیوں کا اظہار کیسے کریں کہ ان کی دیگر استعدادوں کے ساتھ اظہار کا سلیقہ بھی ان سے کھو گیا ہوتا ہے۔ پھر اگرہمارا ردعمل شرمندہ کرنے والا ہو، تو وہ شرمندگی سے بچنے کے لیے بھی خاموش رہنے کو ترجیح دے رہے ہوتے ہیں۔ ایسے میں اگر ان کی کی ہوئی بات کو تھوڑا سا چلا لیا جائے، ان کی اس بات سے بات نکال کر کسی اصل یاد کی طرف اس کا رخ موڑ دیا جائے تو وہ بالعموم پرانی یادوں کے سہارےواپس اس دنیا میں لوٹ بھی آیا کرتے ہیں۔مثلاً اگر وہ اچانک یہ کہیں کہ ’’میں نے ابھی چاول صاف کر کے یہاں رکھے تھے، پتہ نہیں کون لے گیا !‘‘، تو اس پر بات کوآگے چلاتے ہوئے انہیں تسلی دیں کہ کوئی بھی نہیں لے کر گیا۔ کہاں رکھے تھے؟ کیا کرنے لگی تھیں؟ چاول کس کے لیے پکانے تھے؟ اور یاد ہے پاکستان میں چاولوں میں ایک کیڑا سا پڑجایا کرتاتھا۔ اس کو کیا کہتے ہیں؟ یوں جب آپ ان کے منہ سے ’’سسری ‘‘کا لفظ سنیں گے تو اس میں آپ کو اصل فتح کا احساس ہوگا۔ پھر اس دور کی کوئی اور بات کریں تو بالعموم وہ اپنے گزرے کل کا کوئی اور واقعہ سنانے لگ جائیں گے۔ اور اس بات پر جو خوشی اور اطمینان آپ کو حاصل ہوگا، وہ محسوس کرنے سے تعلق رکھتا ہے۔

ایسے بزرگ اپنے اوڑھنے پہننے سے بے نیاز ہوبیٹھتے ہیں۔ ایسے میں ان کے لباس کا خیال، ان کے بالوں کو سنوارنے کا خیال ان کی صفائی ستھرائی کا خیال سب اہلِ خانہ کا فرض بن جاتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک مرتبہ کسی تحقیق کے سلسلہ میں عیسائی مستشرق Dr Kenneth Cragg کی تلاش شروع کی۔ معلوم ہوا کہ وہ Anglican Missionaries کے لیے قائم nursing home میں منتقل ہوچکے ہیں۔ یہ آج سے کوئی پندرہ برس پہلے کی بات ہے۔ اب تو ان کے انتقال کو بھی کئی سال بیت گئے۔

انہیں ملنے College of St Barnabas کہ یہی اس آرام گاہ کا نام تھا، پہنچا تو دیکھا کہ وہ نہایت ضعیف ہو چکے تھے۔ ستانوے سال کے قریب ان کی عمر تھی اور خود حرکت کرنے یا اپنے ہاتھ سے اپنے کام کرنے کے قابل نہ رہے تھے۔ مگر جس طرح ان کے carers نے انہیں سوٹ ٹائی پہنا کر اور جوتے پہنا کر تیار کر کے بٹھایا ہوتا، وہ نہایت قابلِ رشک تھا۔ ان کے کمرے میں ایک طرف پرانی طرز کا ٹائپ رائٹر رکھا تھا جس پر انہوں نے عمر بھر اپنی کتب کے مسودے تصنیف کیے تھے۔ کچھ کتابیں رکھی تھیں۔ کھڑکی میں تازہ پھولوں کا گلدان۔ ایک کونے میں ان کی پرانی سی چھتری، دروازے کے پیچھے باہر پہننے کا لمبا کوٹ، ہیٹ اور چھڑی لٹکا رکھے تھے۔ ذہن مکمل طور پر مستعد نہ سہی مگر ابھی ذہانت کے مدھم ہوتے ہوئے آثار باقی تھے۔ لیکن معلوم ہوتا تھا کہ اس سب اہتمام کے باوجود تنہائی دل میں ڈیرے ڈال چکی ہے۔ جونہی میں نے ذکر کیا کہ ’’آپ حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحب کو ملنے گئے تھے…‘‘، تو اچانک ان کی آنکھوں میں چمک اور گویا پورے جسم میں زندگی کی رمق امڈ آئی۔ پھر تفصیلات سنانے لگے۔ اور سناتے چلے گئے (اس کا احوال پھر کبھی انشا ءاللہ)۔ صاف محسوس ہوتا تھا کہ وہ چاہتے ہیں کہ گفتگو کبھی اختتام کو نہ پہنچے۔ مگر کیا کریں کہ اختتام بھی تو دنیا کی تلخ حقیقتوں میں سے ایک ہے۔

تو یہ سب اہتمام وقت اور توانائی کا تقاضا تو کرتا ہے، مگر پھر ہمارے والدین نے، جب ہم بچہ تھے، اس سے کہیں زیادہ وقت اور توانائی اور خدا جانے کیا کیا کچھ ہم پر خرچ کردیا ہوتا ہے۔ اب جب ان کی باری ہے کہ وہ نظامِ قدرت کے ہاتھوں بچہ سا بن گئے ہیں، تو یہ موقع ہے ان کے احسانات چکانے کا۔ اگرچہ ان کے احسانات چکنے والے کہاں!

خدا کرے کہ کسی کے پیارے پر ایسی موذی بیماری حملہ آور نہ ہو، لیکن اگر ہوجائے تو ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ہمارے بزرگ اپنے خیالات اور تخیلات کی الگ دنیا میں چلے گئے ہیں۔ وہاں سے نکلنے کی اب ایک ہی صورت ہے مگر وہ صورت ہم میں سے کسی کے لیے بھی خوش گوار نہیں۔ پس اگر ہم اپنی دنیا سے دو ایک لمحوں کے لیے ہی ہٹ کر ان کی دنیا میں چلے جائیں، تو ہمارا کیا جائے گا۔ ہم چھوٹے ہوتے اپنی کھلونے کی گاڑی سے کھیلتے ہوئے منہ سے فراٹے بھرنے کی آوازیں نکالتے زمین پر دوڑاتے، تو امی ابو ڈرجانے کی اداکاری کیا کرتے۔ کہتے کہ ہٹو بچو،گاڑی آگئی۔ کہیں ٹکر ہی نہ ہوجائے۔ وہ دیوانے تو نہ تھے۔ بس ہمارے بچپن کی دنیا میں دو ایک لمحے کے لیے قدم رکھتے اور ہم خوش ہو کر ہنستے کھیلتے چلے جاتے۔آج ہم اپنے بچوں کی کھلونے کی گاڑی کے آگے ہٹو بچو کہتے بھاگتے ہیں، بچیوں کی گڑیا کی شادی پر اہتمام سے شامل ہوتے ہیں، اگر گھڑی بھر کو اپنے بڑوں کی دنیا میں جا کر انہیں خوش کردیں گے تو ہمارے وقت کاکیا ہرج ہو جائے گا؟

پھر یہ بھی یاد رکھناضروری ہے کہ ایسے بزرگ بھلے ہی جسمانی طور پر ہماری دنیا میں ہوں، مگر ذہنی طور پر کسی اور دنیا کے مکین بن چکے ہوتے ہیں۔ یہ کہنا اگرچہ تکلیف دہ ہے مگر حقیقت ہے کہ ان کی وہ زندگی جس سے ہم واقف تھے، ختم ہوچکی ہوتی ہے۔ ایسے میں ان سے ان کی خرچ شدہ زندگی کے انتقام لینا یا ان کے اچھے وقتوں کےواقعات کے طعنے دینا کسی ظلم سے کم نہیں۔جو ہو چکا، ہوچکا۔ تندرستی کے اچھے دنوں میں سبھی سے اونچ نیچ ہو جاتی ہے۔ بزرگوں سے بھی۔ مگر اب جب کہ وہ بے بسی کی زندگی میں دھنس چکے ہیں، انہیں ایسے طعن وتشنیع کا نشانہ بنانا نہایت بزدلی کی بات ہےکہ وہ تو اب حساب چکانے کے قابل نہیں رہے۔ بلکہ یہ وقت تو ایسا ہے کہ ان سے معافی تلافی کر لی جائے۔ شاید اللہ نے یہ موقع دیا ہی اس لیے ہوتا ہے کہ وفات کے بعد جو سرہانے کھڑے ہو کر یا ہاتھ پاؤں پکڑ کر واویلا کر کے معافیاں مانگنی ہیں، ابھی مانگ لو۔ یہ نہ رہیں گے تو معافی تلافی کی التجائیں کس کام کی؟

ایک بات جو سب باتوں پر فوقیت رکھتی ہے، وہ ہے ایسے بزرگوں کے وقار کا نہایت باریکی سے خیال۔ ان کے ساتھ ہمارا لب و لہجہ کیسا ہے، ہم انہیں کیسے مخاطب کرتے ہیں، ان کے کسی وقت بے وقت مطالبے پر کیا رد عمل ظاہر کرتے ہیں، یہ سب ان کے وقار کو بڑھانے یا ٹھیس پہنچانے کا موجب ہو سکتا ہے۔ انہوں نے ہمیں ان دنوں میں بنا سنوار کر رکھا جب ہم بے بس اور لاچار بچہ تھے۔ ہمیں اپنی بہت سی حاجات پوری کرنے کے ادب آداب کا شعور تو الگ، علم تک نہ تھا۔انہوں نے کس طرح ان حاجات پر نظر رکھی۔ کس طرح خاموشی سے ہماری شرم رکھتے ہوئے ان حاجات اور مابعدالحاجات کا خیال رکھا۔یہ سب باتیں اگرچہ ہمیں یاد بھی نہیں مگر قدر کرنے کے لائق ہیں۔ اور یاد نہ بھی ہوں، اپنے بچوں کا خیال بھی تو ہم نے اسی طرح رکھا۔ چند دن کے بچے کےلیے بھی ڈھکے کُھلے کی تمیز رکھتے ہیں۔ بچوں نے بےوقت ہی سہی اگر سب کے سامنے کچھ فرمائش کردی، تو ہم نے اسے سب کے سامنے جھڑک کر شرمندہ تو نہیں کیا۔تو ہمارے بزرگوں کا دہرا بلکہ کئی گنا زیادہ حق ہے کہ ہم ان کی شرم اور ان کی حیا اور وقار پر کوئی آنچ نہ آنے دیں۔

اب کچھ ان قریبی عزیزوں کے بارے میں بھی عرض کرتے چلیں جو ایسے بزرگوں کی دیکھ بھال کے ذمہ دار ٹھہرتے ہیں۔

سب سے پہلے تو یہ عرض کردینا مفید ہوگا کہ اوپر جو باتیں بیان ہوئیں، ان میں تین دائرے بنتے ہیں۔ ایک، ایسے بزرگوں کے کھانے پینے اوڑھنے پہننے کا خیال رکھنا۔ دوسرا ان کے ساتھ باتیں کرنا اور کسی نہ کسی مصروفیت میں اپنے ساتھ شامل رکھنا۔ تیسرا راتوں کو اٹھ کر ان کی دیکھ بھال کرنا کہ وہ شاید نیند میں اپنی کسی ضرورت کا اس قدر اشارہ بھی نہ دے پائیں جتنا جاگتے میں دیتے ہوں یا آپ کسی حرکت و سکون سے بھانپ لیتے ہوں۔

یہ تینوں ذمہ داریاں کم از کم تین افراد کا تقاضا کرتی ہیں۔یا اگر ایک آدمی کر بھی سکتا ہو تو ایسا ہوگا جو دنیا کے تمام ہم و غم سے آزاد اور مکمل فراغت کی عیاشی سے بہرہ مند کیا گیا ہو۔ جو فی زمانہ ناممکن نہیں تو محال ضرور ہے۔

پس یہ وقت ہوتا ہے ایسے بزرگوں کی اولاد کے باہمی مشورے کا، باہمی تعاون کا، اپنا اپنا کردار ادا کرنے کا اوراس ذمہ داری کو مل جل کر ادا کرنے کا۔ ایسے میں یہ خیال کر لینا کہ بزرگوں کو ایک ہی فرد کےسپرد کر دیا جائے کہ بزرگ ایک بچے کے گھر سے دوسرے کے گھر جائیں گے تو گویا ’’دھکے کھاتے ‘‘پھریں گے، نہایت نامناسب بات ہے۔ کیونکہ ایک فرد جتنا بھی پھونک پھونک کر قدم رکھ لے،ذمہ داری ایسی بڑی اور اہم ہے کہ کہیں نہ کہیں چوک ہوجانے کا اندیشہ ہے۔ اور اس چوک میں اور کچھ نہ بھی ہو، بزرگوں کے وقار پر ہی آنچ آجائے تو سخت رنج کی بات ہے۔

پس اچھے وقتوں میں بزرگوں کو باصرار اپنی طرف بلاتے رہنا الگ بات، اس لاچاری کی حالت میں ان سے گریزکرنا نہ صرف بزرگ کے ساتھ زیادتی ہے، بلکہ اس کے ساتھ بھی جو ہمہ وقت اس اہم ذمہ داری پر مامور ہے۔ اس ایک فرد کا خیال کرتے ہوئے چاہیے تو یہ کہ باقی خود بڑھ کر پیش کش کریں کہ کچھ دن ہم خیال کر لیتے ہیں۔ نہ یہ کہ اس فرد کا انتظار کریں کہ وہ اپنی کسی مجبوری کے باعث تعاون کی درخواست کر کے شرمندگی بھی اٹھائے اور بعض اوقات ناخوشگوار ردِ عمل سے افسردہ و دل گرفتہ اور پشیمان بھی ہو۔

پھر یہ کہ جو کوئی بھی ایسے بزرگوں کا خیال رکھ رہا ہو، اسے اپنے مطابق خیال رکھنے دیں۔ مشورہ دینے یا لینے میں تو کوئی ہرج نہیں، مگر اس کے خیال رکھنے کے انداز کو تنقید کا نشانہ بنانایا یہاں وہاں بیٹھ کر غم و غصہ کا اظہار کرنا خیال رکھنے والے کے لیے دل شکنی کا موجب ہوتا ہے۔ اور اس سب محنت کے بعد وہ چاہے کسی خیر کا مستحق نہ بھی لگتا ہو، دل شکنی کا مستحق بہرحال نہیں ٹھہرتا۔

پس ایسے میں اگر کسی اور معاملے میں اختلافات ہوں بھی تو انہیں پس پشت ڈال کر اس ایک معاملے میں ایک دوسرے سے تعاون کرنا کسی سے بھی زیادہ اس بزرگ کے ساتھ ایک بہت بڑی نیکی ہے۔ اور اس نیکی اور خیر میں خود رضاکارانہ طور پر خود کو پیش کر کے اور کسی کی بھی نہیں تو اس بزرگ کی دعائیں سمیٹنے کی کوشش ہونی چاہیے جو اب شاید ممنونیت کا اظہار تو نہیں کرسکتا، دعاؤں کو الفاظ میں تو نہیں ڈھال سکتا، مگر دعائیں قبول کرنے والا اس کی اچھے وقتوں کی دعاؤں کے ذخیرے سے ہمیں جھولیاں بھر بھر کر عطا تو کرسکتا ہے۔سو یہ وقت دل آزار طعنوں کا نہیں بلکہ یہ وقت باہمی تعاون کا اور سب سے بڑھ کر اس بزرگ کی خدمت کا حق ادا کرنے کا ہوتا ہے جو سب اولاد کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔

Dementia کا مریض آخری مراحل پر جس لاچارگی اور محتاجی کی حالت میں چلا جاتا ہے، وہاں اسے چوبیس گھنٹے پروفیشنل طبی امداد کی ضرورت رہتی ہے۔ یہ سہولت گھر میں مہیا کرنا ہر وقت ممکن نہیں ہوتا۔ بعض ممالک مثلاً انڈیا، پاکستان وغیرہ میں توڈاکٹر کو جب چاہو بلالو والا معاملہ چل جاتا ہے۔مغربی ممالک میں ڈاکٹر تک رسائی اتنی سہل نہیں۔ اور بات صرف ڈاکٹر ہی کی نہیں۔ دیگر ضروریات مثلاً ہمہ وقت دواؤں کی مقدار میں ردو بدل کرنے کے لیے بھی میڈیکل پروفیشنل کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایسے میں اگر کوئی سہولت ریاست کی طرف سے ملتی ہو، تو اس سے استفادہ کرنے میں کوئی ہرج نہیں۔ ہمارے بزرگ کا بہتر خیال ہوگا۔ وہ اپنا رہا سہا وقت تکلیف سے آزاد ہو کر گزارلیں گے تو اس میں کچھ غلط نہیں۔

ایسا فیصلہ بھی سب قریبی لواحقین کا مشترکہ ہو تو کسی پر غیرضروری احساسِ گناہ طاری نہیں ہوتا۔ بلکہ یہ بات تو سب کے لیے باعثِ اطمینان ہونی چاہیے کہ ہمارے بزرگ آخری دم تک میسر سہولتوں میں سے بہترین سہولتوں میں وقت گزاریں۔

اختتامیہ

یہ گزارشات تحریر کرنے کی اصل وجہ اگرچہ میری امی کی علالت کے ایام اور ان کا قریب سے مشاہدہ ہے، تاہم یہ معاملہ کسی بھی گھرانے کو لاحق ہوسکتا ہے۔ اور ہوتا ہے۔ بہت سے مسائل جو اوپر بیان ہوئے وہ اسی طرح کے گھرانوں کی داستانوں سے ماخوذ ہیں۔

میں نے گذشتہ مضمون میں بھی لکھا تھا کہ میری اہلیہ، میری بھابی، میرے بھائی اور میری بہنوں اور بہنوئیوں نے میری امی کی اس تکلیف دہ بیماری میں خوب خدمت کی۔ اوپر بیان کیے گئے حسنِ سلوک کی مثالیں میں نے ان سب میں دیکھیں۔اللہ تعالیٰ ان سب کو بہت جزا دے۔اور مذکورہ کوتاہیوں میں سے کوئی کوتاہی ہوئی ہو گی تو مجھ ہی سے ہوئی ہوگی۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو معاف فرمادے۔

خلاصہ کلام یہ کہ Dementia کا مرض ہو، یا کوئی بھی مرض۔ والدین کی خدمت کا حق ادا کرنے کا میدان تب تک کھلا ہے جب تک وہ جسمانی طور پر ہم میں موجود ہیں۔بعد میں ٹھنڈی مٹی کی گمٹی کے سرہانے کھڑے ہو کر ہم مرحوم کے لیے دعائیں تو کرسکتے ہیں یا اپنی کوتاہیوں کی معافی تو مانگ سکتے ہیں، مگر جو وقت خدمت کا تھا وہ گزرچکا ہوتا ہے۔ اس ملال کو کہاں لے جائیں گے؟

بات اس قبرستان کے ذکر سے چلی تھی جہاں میری امی آسودۂ خاک ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے بزرگوں کے مزاروں پر حاضر ہوتے رہنے اور ان کے لیے دعائے مغفرت کرتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ہمارا خدا تو بہت قریب ہو کر قبول کرنے والا ہے۔

امی زندہ تھیں تو کچھ شعر Dementia کی شکار امی کی طرف سے لکھے تھے۔ مگر پھر اس حالت کا یوں امی سے منسوب ہونا بھی تکلیف دہ لگا۔ اب جب امی نہیں رہیں، تو لگا کہ شاید یہ اشعار ایسے بزرگوں کے ذہنی کرب کو سمجھنے میں مدد دیں جو اپنی کسی الگ دنیا میں جا بسے ہیں۔مگر آس پاس سب ان کی حالت کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔

٭…٭…٭

Dementia (نظم) پڑھنے کے لیے یہاں کلک کیجیے

’’محمودہ باسط:ایک واقفِ زندگی، مبلغِ سلسلہ کی بیوی‘‘ مضمون پڑھنے کے لیے یہاں کلک کیجیے

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button