متفرق

عائلی زندگی اور تربیت اولاد (قسط دوم)

(سیدہ منورہ سلطانہ۔ جرمنی)

حضرت عائشہ صدیقہؓ

اب تصور کی آنکھ سے ایک اَور خوبصورت ماحول دیکھتے ہیں جو خوبصورت عائلی زندگی کی بہترین مثال ہے ۔

سرکارِ دوعالمؐ ایک عام سادہ انسان کی طرح جوتی کو پیوند لگا رہے تھے اور ام المومنین چرخہ کات رہی ہیں۔حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں :’’میں نے دیکھا آنحضور ؐکی پیشانی مبارک پر پسینہ آ رہا تھا، اس پسینےکے اندر ایک نور چمک رہا تھا جو ابھرتا جاتا تھا اور بڑھتا جاتا تھا۔یہ ایک ایسا نظارہ تھا کہ میں سراپا حیرت بن گئی۔ حضور کی نظر مبارک جب مجھ پر پڑی تو فرمایا: عائشہ! تو حیران سی کیوں ہے ؟میں نے کہا یا رسول اللہ ؐ! میں نے دیکھا کہ آپؐ کی پیشانی پر پسینہ ہے اور پسینے کے اندر ایک چمکتا ہوا نور ہے۔پھرآپؓ نے اشعار پڑھے جن کا ترجمہ ہے : وہ شخص ولادت اور رضاعت کی آلودگیوں سے پاک تھا اور اس کے درخشندہ چہرہ کی شکنوں پر نظر کرو تو معلوم ہو گا کہ نورانی اور کھل کر چمکنے والی روشن تر بجلی سے بڑھ کر روشن ہے۔ حضورؐنے جب حضرت عائشہ ؓ کے منہ سے یہ شعر سنے تو آپؓ فرماتی ہیں کہ جو کچھ آپؐ کے ہاتھ میں تھا وہ رکھ دیامیری پیشانی کو بوسہ دیا اور فرمایا: تُو مجھ سے اتنا خوش نہیں ہوئی جتنا میں تجھ سے ہوا ہوں۔ (ماخوذازاُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ، صفحہ 22۔23 ایڈیشن 2009ء)

آپؓ بغیر کہے بات سمجھ جاتی تھیں۔ جب آخری بیماری میں آنحضورؐ نے آپؓ کے بھائی کے ہاتھ میں مسواک کی طرف دیکھا تو حضرت عائشہ سمجھ گئیں کہ آپؐ مسواک کرنا چاہتے ہیں اور اپنے دانتوں سے نرم کرکے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کی۔ ( ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ صفحہ17۔ایڈیشن 2009ء)

آپؓ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد قریباً 68 سال زندہ رہیں لیکن جو پاکیزہ زندگی آپؓ نےآنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گزاری وہ ایک خوبصورت یاد بن کرہمیشہ آپؓ کے ساتھ رہی۔

جب ایران فتح ہوا تو وہاں سےآٹا پیسنے والی چکیاں لائی گئیں۔ حضرت عمر ؓ کے حکم سے پہلا پسا ہوا آٹا حضرت عائشہؓ کو پیش کیا …ملازمہ نے گوندھ کر باریک پھلکے تیار کیے…جب روٹی تیار ہوگئی تو …حضرت عائشہؓ نے لقمہ توڑا عورتیں انتظار میں تھیں کہ آپؓ لذت کا اظہار کریں گی لیکن آپؓ کی آنکھوں سے آنسو گرنےلگے…عورتوں نے کہا آپ کو کیا ہوگیا۔حضرت عائشہؓ نے فرمایاکہ وہ دن یاد آگئے جب حضورؐ اپنی آخری عمر سے گزر رہے تھے … پتھروں سے گندم کچل کر روٹیاں پکا کر آپؐ کو دیتے…فرمایا ہم جنہیں اُس کے طفیل سے یہ عزتیں مل رہی ہے وہ تو ان نعمتوں سے محروم چلا گیا۔ (ماخوذازاُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ صفحہ24،ایڈیشن 2009ء)

حضرت فاطمہؓ بنت ِاسد

آپؓ اُن خوش نصیب ماؤں میں سے تھیں جن کو اللہ تعالیٰ نے نیک اولاد عطا فرمائی۔آپؓ کی اولاد میں سے حضرت علیؓ کو صرف بارہ سال کی عمر میں ایمان لانے کی توفیق ملی۔حضرت علی ؓکا سب سے بڑا مقام یہ ہے کہ آپ کا شمار خلفائے راشدین میںچوتھے نمبر پر ہوتا ہے۔شعب ابی طالب کے موقع پر حضرت فاطمہؓ اور اُن کے شوہراپنے کسی بیٹے کوآپؐ کےبستر پر سلاتے تاکہ دشمن کے حملہ کرنے کی صورت میں ان کا بیٹابےشک مارا جائے لیکن آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم محفوظ رہیں۔یہ ضعیف چچا اوربوڑھی چچی کا آپ ؐسے محبت اور وفا کا اظہار تھا۔حضرت فاطمہؓ کی سب سے بڑی سعادت یہ ہے کہ انہوں نے آنحضرتؐ کے دادا کی وفات کے بعد ایک مہربان ماں کی طرح آپؐ کا خیال رکھا۔ ( ماخوذازحضرت فاطمہؓ بنت اسد صفحہ 10,2۔ایڈیشن 2008ء یوکے)

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ بنت اسد کی وفات پر پُرنم آنکھوں کے ساتھ ان الفاظ میں خراج تحسین پیش فرمایا: اے میری ماں اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کی بارشیں آپ پر نازل فرمائے۔ میری ماںکے بعد آپ میرے لیے ماں کا درجہ رکھتی تھیں۔آپؓ خود بھوکی رہتیں اور مجھے جی بھر کے کھلایا، خود معمولی کپڑے پہنے مجھے اچھا لباس پہنایا۔بےشک آپؓ نے یہ حسن سلوک اللہ کی رضا اور آخرت میںکامیابی حا صل کرنے کے لیے کیا۔( ماخوذازحضرت فاطمہؓ بنت اسد صفحہ12،10،2 ایڈیشن 2008ءیوکے)

حضرت فاطمۃ الزہرہؓ

حضرت علی ؓنے شادی کے موقع پر اپنی والدہ کو یقین دہانی کروائی کہ ’’ اے میری ماں ! فاطمہ بنتِ رسول ؐ(ہمارے گھر) آتی ہیں۔ میں پانی بھروں گا اور باہر کے کام کروں گا اور وہ چکی پیسنے اور آٹا گوندھنےمیں آپ کی مددکریں گی۔‘‘اس بات میں یہ حکمت تھی کہ آپ یہ نہ سمجھیں کہ نبیؐ کی بیٹی گھر کے کام نہ کریں گی بلکہ وہ ہر بیوی کی طرح خاوند کے کام کرنے والی اور سسرال کے حقوق اداکرنے والی اور خدمت گزار ثا بت ہوں گی۔روایات سے ثابت ہے کہ حضرت فاطمہؓ گھر کا کام کاج کرنے میں کبھی عار محسوس نہ کرتیں۔اپنی ساس کی بھی خدمت کرتیں۔ (حضرت فاطمہ بنت اسدصفحہ11لجنہ اماء اللہ، ایڈیشن 2008ء۔یوکے)

حضرت علی ؓنےفرمایا:’’ میں نے فاطمہ کو دیکھا کہ کھانا پکاتے ہوئے اللہ کا ذکر کرتیں۔‘‘آپ دونوں کی زندگی بہت خوشگوار تھی دونوں ایک دوسرے کی بہت عزت کرتے۔‘‘(حضرت فاطمۃ الزہرہ ؓبنت محمدؐ صفحہ13)

حضرت فاطمہؓ صابرہ شاکرہ خاتون تھیں۔ ’’ایک دفعہ حضرت علیؓ گھر تشریف لائے۔ کچھ کھانے کو مانگا تو آپؓ نے بتایا: ’’ آج تیسرا دن ہے گھر میں جَوکا ایک دانہ تک نہیں۔ حضرت علیؓ نے فرمایاکہ اے فاطمہ! تم نے مجھ سےذکر کیوں نہیں کیا۔ انہوں نے جواب دیا کہ میرے باپؐ نے رخصتی کے وقت نصیحت کی تھی کہ میں کبھی سوال کر کے آپ کو شرمندہ نہ کروں… تادل میں پریشانی پیدا ہو کہ میں اس کی خواہش پوری نہیں کر سکا۔ ‘‘ (ماخوذاز الفضل انٹرنیشنل 13؍نومبر 2015ءصفحہ15)

(جاری ہے)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button