خطبہ جمعہ بطرز سوال و جواب

خطبہ جمعہ بطرز سوال و جواب خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز یکم جولائی2022ء

سوال نمبر1:حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے یہ خطبہ کہاں ارشاد فرمایا؟

جواب:حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے یہ خطبہ مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے) یوکےمیں ارشاد فرمایا۔

سوال نمبر2: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے خطبہ کے عنوان کی بابت کیا بیان فرمایا؟

جواب:حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے زمانہ میں مرتدین اور باغیوں کے خلاف مہمات کا ذکر ہو رہا تھا۔

سوال نمبر3:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حضرت علاءبن حضرمیؓ کے حُطم سےمقابلہ اور مال غنیمت کی بابت کیا تفصیل بیان فرمائی؟

جواب: فرمایا:حضرت عَلَاء ؓنے حضرت جَارُوؓد کو حکم بھیجا کہ تم قبیلہ عبدالقیس کو لے کر حُطَم کے مقابلے کے لیے ھَجَر سے ملحق علاقے میں جا کر پڑاؤ کرو اور حضرت عَلَاء ؓاپنی فوج کے ساتھ حُطَم کے مقابلے پر اس علاقے میں آئے۔ اہلِ دَارِین کے علاوہ تمام مشرکین حُطَم کے پاس جمع ہو گئے۔ اس طرح تمام مسلمان حضرت عَلَاء بن حَضْرَمیؓ کے پاس جمع ہو گئے۔ دونوں نے اپنے اپنے آگے خندق کھود لی۔ وہ روزانہ اپنی خندق عبور کر کے دشمن پر حملہ کرتے اور لڑائی کے بعد پھر خندق کے پیچھے ہٹ آتے۔ ایک مہینے تک جنگ کی یہی کیفیت رہی۔ اسی اثنا میں ایک رات مسلمانوں کو دشمن کے پڑاؤ سے زبردست شورو غوغا سنائی دیا۔ حضرت عَلَاء ؓنے کہا کوئی ہے جو دشمن کی اصل حالت کی خبر لائے؟ حضرت عبداللہ بن حَذَفؓ نے کہا مَیں اس کام کے لیے جاتا ہوں اور انہوں نے واپس آ کر یہ اطلاع دی کہ ہمارا حریف نشہ میں مدہوش ہے اور نشہ میں دھت واہی تباہی بک رہا ہے۔ یہ سارا شور اس کا ہے۔جب یہ سنا تو مسلمانوں نے فوراً دشمن پر حملہ کر دیا اور اس کے پڑاؤ میں گھس کر ان کو بے دریغ موت کے گھاٹ اتارنا شروع کیا۔ وہ اپنی خندق کی طرف بھاگ گئے۔ کئی اس میں گر کر ہلاک ہوگئے، کئی بچ گئے۔ کئی خوفزدہ ہو گئے۔ بعض قتل کر دیے گئے یا گرفتار کر لیے گئے۔ مسلمانوں نے ان کے پڑاؤ کی ہر چیز پر قبضہ کر لیا۔ جو شخص بچ کر بھاگ سکا وہ صرف اس چیز کو لے جا سکا جو اس کے جسم پر تھی۔ البتہ اَبْجَرْ جان بچا کر بھاگ گیا۔ حُطَم کی خوف و دہشت سے یہ کیفیت تھی کہ گویا اس کے جسم میں جان ہی نہیں۔ وہ اپنے گھوڑے کی طرف بڑھا جبکہ مسلمان مشرکین کے وسط میں آ چکے تھے۔ اپنی بدحواسی میں حُطَم خود مسلمانوں میں سے فرار ہو کر اپنے گھوڑے پر سوار ہونے کے لیے جانے لگا۔ جیسے ہی اس نے رکاب میں پاؤں رکھا رکاب ٹوٹ گئی۔ حضرت قَیس بن عاصمؓ نے اس کو واصل جہنم کیا۔ مشرکین کی قیام گاہ کی ہر چیز پر قبضہ کرنے کے بعد مسلمان ان کی خندق سے نکل کر ان کے تعاقب میں چلے۔ حضرت قَیس بن عاصمؓ اَبْجَرْ کے قریب پہنچ گئے مگر اَبْجَرْ کا گھوڑا حضرت قَیسؓ کے گھوڑے سے زیادہ طاقتور تھا۔ ان کو یہ اندیشہ ہوا کہ یہ کہیں میری گرفت سے نکل نہ جائے۔ انہوں نے اَبْجَرْ کے گھوڑے کی پیٹھ پر نیزہ مارا جس سے گھوڑا زخمی ہو گیا۔ بہرحال لکھا ہے کہ اَبْجَرْ بھاگ گیا، ان کے قابو نہیں آیا۔ ایک روایت میں ہے کہ حضرت قَیس بن عاصِمؓ نے اَبْجَرْ کے سر پر ضرب لگائی جو اس کے خَود کو چیرتی ہوئی نکل گئی۔ اس کے بعد حضرت قَیسؓ نے دوبارہ ایسا وار کیا کہ وہ لہولہان ہو گیا۔صبح کو حضرت عَلَاءؓنے مالِ غنیمت مجاہدین میں تقسیم کر دیا اور ایسے لوگوں کو جنہوں نے خاص طور پر جنگ میں بہادری دکھائی تھی مرنے والے سرداروں کے قیمتی کپڑے بھی دیے۔ ان میں حضرت عَفِیف بن مُنْذِر ؓ،حضرت قَیس بن عاصمؓ اور حضرت ثُمَامَہ بن اُثَالؓ کو کپڑے دیے گئے۔ حضرت ثُمَامَہکو جو کپڑے دیے گئے ان میںحُطَم کا ایک سیاہ رنگ کا قیمتی منقش چوغہ تھا جس کو پہن کر وہ بڑے فخر و غرور سے چلا کرتا تھا۔

سوال نمبر4:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حضرت علاءبن حضرمیؓ کی دارین کی طرف پیش قدمی اور مسلمانوں کےسمندرعبورکرنے کی بابت کیا بیان فرمایا؟

جواب: فرمایا:حضرت عَلَاء ؓسے شکست کھانے کے بعد بچ جانے والے شکست خوردہ باغیوں کا ایک بڑا حصہ کشتیوں میں بیٹھ کر دَارِین چلا گیا اور دوسرے لوگ اپنے اپنے قبائل کے علاقوں میں پلٹ گئے…..بیان کیا جاتا ہے کہ مسلمانوں کے پاس کشتیاں وغیرہ نہیں تھیں جن پر سوار ہو کر وہ جزیرے تک پہنچتے۔ یہ دیکھ کر حضرت عَلَاء بن حَضْرَمیؓ کھڑے ہوئے اور لوگوں کو جمع کر کے ان کے سامنے تقریر کی جس میں کہا کہ اللہ نے تمہارے لیے شیاطین کے گروہوں کو جمع کر دیا ہے اور جنگ کو سمندر میں دھکیل دیا ہے۔ وہ پہلے خشکی میں تمہیں اپنے نشانات دکھا چکا ہے تا کہ ان نشانات کے ذریعہ سمندر میں بھی تم سبق سیکھو۔ اپنے دشمن کی طرف چلو۔ سمندر کو چیرتے ہوئے اس کی طرف پیش قدمی کرو کیونکہ اللہ نے انہیں تمہارے لیے اکٹھا کیا ہے۔ان سب نے جواب دیا کہ بخدا! ہم ایسا ہی کریں گے اور وادیٔ دَھْنَا کا معجزہ دیکھنے کے بعد ہم جب تک زندہ ہیں ان لوگوں سے نہیں ڈریں گے…..حضرت عَلَاء ؓاور تمام مسلمان اس مقام سے چل کر سمندر کے کنارے آئے۔ حضرت عَلَاءؓاور آپؓ کے ساتھی خدا کے حضور یہ دعا کر رہے تھے کہ یَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِینَ یا کَرِیمُ یا حَلِیمُ یا اَحَدُ یا صَمَدُ یاحَی یا مُحْیی الْمَوْتِ یا حَی یا قَیوْمُ لَااِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ یارَبَّنَا۔ اے رحم کرنے والوں میں سے سب سے زیادہ رحم کرنے والے! اے کریم! اے بہت ہی بُردبار! اے وہ جو اکیلا ہے! اے بے نیاز! اے وہ جو زندہ ہے جو دوسروں کو زندگی بخشنے والا ہے اور اے مُردوں کو زندہ کرنے والے! اے وہ جو زندہ ہے اور دوسروں کو زندگی بخشنے والا ہے! اے وہ جو قائم ہے اور دوسروں کو قائم کرنے والا ہے! اے ہمارے رب! تیرے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔بہرحال بیان کیا جاتا ہے کہ حضرت عَلَاء ؓنے لشکر کے تمام افراد کو کہا کہ یہ دعا کرتے ہوئے سمندر میں اپنی سواریاں ڈال دیں۔چنانچہ تمام مسلمان اپنے سپہ سالار حضرت عَلَاء بن حَضْرَمیؓ کی پیروی کرتے ہوئے ان کے پیچھے اپنے گھوڑوں،گدھوں، اونٹوں اور اپنے خچروں پر سوار ہوئے اور انہیں سمندر میں ڈال دیا اور پھر اللہ کی قدرت! اس خلیج کو بغیر کسی نقصان کے عبور کر لیا۔ ایسا معلوم ہوتا تھاکہ نرم ریت جس پر پانی چھڑکا گیا ہے اس پر چل رہے ہیں کہ اونٹوں کے پاؤں تک نہ ڈوبے اور سمندر میں مسلمانوں کی کوئی چیز غائب نہ ہوئی۔ایک چھوٹی سی گٹھڑی کے غائب ہونے کا ذکر ہے۔ اس کو بھی حضرت عَلَاءؓ اٹھا لائے تھے۔بہرحال ساحل سے دَارِین تک کا سفر بیان کیا جاتا ہے کہ کشتیوں کے ذریعہ ایک دن اور ایک رات میں طے ہوتا تھا لیکن اس قافلے نے ایک ہی دن کے بہت ہی تھوڑے وقت میں یہ فاصلہ طے کر لیا۔

سوال نمبر5: حضرت مصلح موعودؓ نے معجزات کے حوالہ سے حضرت موسیٰؑ کےسمندرعبورکرنےکے واقعہ سے کیا اصولی راہنمائی فرمائی؟

جواب: فرمایا:آپؓ فرماتے ہیں کہ قرآن کریم کے بیان کے مطابق واقعہ کی کیفیت یہ معلوم ہوتی ہے کہ بنی اسرائیل ارضِ مقدس کے ارادے سے چلے جا رہے تھے کہ پیچھے سے فرعون کا لشکر آپہنچا۔ اسے دیکھ کر بنی اسرائیل گھبرائے اور سمجھے کہ اب پکڑے جائیں گے لیکن خدا تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ؑکی معرفت ان کو تسلی دلائی اور حضرت موسیٰؑ سے کہا کہ اپنا عصا سمندر پر ماریں جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سمندر میں ایک راستہ ہو گیا اور وہ اس میں سے آگے روانہ ہوئے۔ ان کے دونوں طرف پانی تھا جو ریت کے ٹیلوں کی مانند یعنی اونچا نظر آتا تھا۔ لشکر فرعون نے ان کا پیچھاکیا مگر بنی اسرائیل کے صحیح سلامت پار ہونے پر پانی پھر لَوٹا اور مصری غرق ہو گئے۔ لکھتے ہیں کہ اس واقعہ کے سمجھنے کے لیے یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ قرآن کریم کی تعلیم کے مطابق تمام معجزات اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتے ہیں اور کسی انسان کا اس میں دخل اور تصرف نہیں ہوتا۔ پس حضرت موسؑی کا عصا اٹھانا اور سمندر پر مارنا صرف ایک نشانی کے لیے تھانہ اس لیے کہ حضرت موسیٰ ؑکا یا عصا کا سمندر کے سمٹ جانے میں کوئی دخل تھا۔اسی طرح یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ قرآن کریم کے الفاظ سے ہرگز ثابت نہیں کہ سمندر کے دو ٹکڑے ہو گئے تھے اور اس میں سے حضرت موسیٰؑ نکل گئے تھے بلکہ قرآنِ کریم میں اس واقعہ کے متعلق دو لفظ استعمال کیے گئے ہیں ایک فَرَقَ اور ایک اِنْفَلَقَ کا، جن کے معنی جدا ہو جانے کے ہیں۔ پس قرآن کریم کے الفاظ کے مطابق اس واقعہ کی یہی تفصیل ثابت ہوتی ہے کہ بنی اسرائیل کے گذرنے کے وقت سمندر جدا ہو گیا تھا یعنی کنارے سے ہٹ گیا تھااور جوخشکی نکل آئی تھی اس میں سے بنی اسرائیل گذرگئے تھے اور سمندر کے کناروں پر ایسا ہو جایا کرتا ہے۔چنانچہ نپولین کی (زندگی) لائف میں بھی لکھا ہے کہ جب وہ مصر پر حملہ آور ہوا تو وہ بھی اپنی فوج کے ایک حصہ سمیت بحیرۂ احمر کے کنارے کے پاس جزر کے وقت گزرا تھا اور اس کے گزرتے گزرتے مَد کا وقت آ گیا اور مشکل سے بچا۔حضرت موسیٰؑ والے واقعہ میں جومعجزہ تھا یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو ایسے وقت میں سمندر کے سامنے پہنچایا جبکہ جزر کا وقت تھا اور حضرت موسیٰؑ کے ہاتھ اٹھاتے ہی اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت پانی گھٹنا شروع ہو ا لیکن فرعون کا لشکر جب سمندر میں داخل ہوا تو ایسی غیر معمولی روکیں اس کے راستے میں پیدا ہو گئیں کہ اس کی فوج بہت سست رفتاری سے بنی اسرائیل کے پیچھے چلی اور ابھی سمندر ہی میں تھی کہ مدّ آ گئی اور دشمن غرق ہو گیا …سمندر میں مدّو جزر پیدا ہوتا رہتا ہے اور ایک وقت میں پانی کنارے پر سے بہت دور پیچھے ہٹ جاتا ہے اور دوسرے وقت میں وہ خشکی پر اَور آگے آ جاتا ہے۔سمندر پھاڑنے کے واقعہ کا اسی مدّو جزر کی کیفیت سے تعلق ہے۔حضرت موسیٰ علیہ السلام ایسے وقت میں سمندر سے گزرے جبکہ جزر کا وقت تھا اور سمندر پیچھے ہٹا ہوا تھا اوراس کے بعد فرعون پہنچا۔وہ بوجہ اس کے کہ کم سے کم ایک دن بعد حضرت موسیٰؑ کے چلا تھا وہ مارا مار کرتا ہوا جس وقت سمندر پر پہنچا ہے اس وقت حضرت موسیٰ علیہ السلام سمندر کے اس خشک ٹکڑے کا جس سے وہ گزر رہے تھے اکثر حصہ طے کر چکے تھے۔ فرعون نے ان کو پار ہوتے دیکھ کر جلدی سے اس میں اپنی رتھیں ڈال دیں مگر سمندر کی ریت جو گیلی تھی اس کی رتھوں کے لیے مہلک ثابت ہوئی اور اس کی رتھیں اس میں پھنسنے لگیں اور اس قدر دیر ہو گئی کہ مدّ کا وقت آ گیا اور پانی بڑھنے لگا۔ اب اس کے لیے دونوں باتیں مشکل تھیں۔ نہ وہ آگے بڑھ سکتا تھا نہ پیچھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ سمندر نے اسے درمیان میں آ لیا اور وہ اور اس کے بہت سے ساتھی سمندر میں غرق ہو گئے اور چونکہ مدّ کا وقت تھا، سمندر کا پانی جو کنارے کی طرف بڑھ رہا تھا اس نے ان کی لاشوں کو خشکی کی طرف لا پھینکا۔

سوال نمبر6: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے حضرت ثمامہ بن اثالؓ کی شہادت کی بابت کیا بیان فرمایا؟

جواب: فرمایا:دَارِيْن پہنچ کر وہاں مسلمانوں کا اور مرتد باغيوں کا مقابلہ ہوا اور نہايت ہی خونريز جنگ ہوئی جس ميں وہ سب مارے گئے يعنی باغی مارے گئے۔ کوئی خبر دينے والا بھی نہ بچا۔ مسلمانوں نے ان کے اہل و عيال کو لونڈی يا غلام بنا ليا اور ان کی املاک پر قبضہ کر ليا۔ ہر ايک شہ سوار کو چھ ہزار اور ہر پيادے کو دو ہزار درہم غنيمت ميں ملے۔ مسلمانوں کو ساحلِ سمندر سے ان تک پہنچنے اور ان کے مقابلے ميں پورا دن صرف ہو گيا۔ ان سے فارغ ہو کر وہ پھر واپس آ گئے۔ حضرت عَلَاء بن حَضْرَمیؓ تمام لوگوں کو واپس لے آئے سوائے ان لوگوں کے جنہوں نے وہیں پر قیام کرنے کو پسند کیا۔ حضرت ثُمَامَہ بن اُثَالؓ بھی واپس آنے والوں میں تھے۔ عبداللہ بن حَذَفؓ کہتے ہیں کہ ہم بنو قَیس بن ثعلبہ کے ایک چشمہ پر مقیم تھے۔ لوگوں کی نظر حضرت ثمامہ ؓپر پڑی اور انہوں نے حُطَم کا چوغہ آپؓ کے جسم پر دیکھا۔ حُطَم کا یہ وہی چوغہ تھا جو اس کے قتل ہونے کے بعد مالِ غنیمت میں حضرت ثُمَامہ کو دیا گیا تھا۔ انہوں نے ایک شخص کو دریافت کے لیے بھیجا، یعنی اس قبیلے والوں نے اور اُسے کہا کہ جا کر حضرت ثُمَامہ سے دریافت کرو کہ یہ چوغہ تمہیں کہاں سے ملا ہے اور حُطَم کے متعلق دریافت کرو کہ کیا تم نے ہی اسے قتل کیا تھا (حُطَم ان کا لیڈر تھا) یا کسی اَور نے؟ اس شخص نے آ کر حضرت ثُمَامہ ؓسے چوغہ کے متعلق پوچھا۔ انہوں نے کہا کہ یہ مجھے مالِ غنیمت میں ملا ہے۔ اس شخص نے کہا کہ تم نے حُطَم کو قتل کیا ہے؟ حضرت ثُمَامہ ؓنے کہا کہ نہیں۔ اگرچہ میری تمنا تھی کہ مَیں اس کو قتل کرتا۔ اس شخص نے کہا کہ یہ چوغہ تمہارے پاس کہاں سے آیا ہے؟ حضرت ثُمَامہ ؓنے کہا اس کا جواب مَیں تمہیں پہلے ہی دے چکا ہوں کہ مالِ غنیمت میں ملا ہے۔ تو اس قبیلے کے اس شخص نے آ کے اپنے دوستوں کو اپنی ساری گفتگو کی اطلاع دی۔ وہ سب پھر حضرت ثُمَامہ کے پاس اکٹھے ہو کے آئے اور ان کو آ کر گھیر لیا۔ ان سب نے کہا کہ تم حُطَم کے قاتل ہو۔ حضرت ثُمَامہ نےکہا کہ تم جھوٹے ہو۔ مَیں اس کا قاتل نہیں ہوں۔ البتہ یہ چوغہ مجھے مال غنیمت میں بطور حصہ کے ملا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حصہ تو صرف قاتل ہی کو ملتا ہے حضرت ثُمَامہ نےکہا کہ یہ چوغہ اس کے جسم پر نہیں تھا بلکہ اس کی سواری یا اس کے سامان سے ملا ہے۔ لوگوں نے کہا کہ تم جھوٹ بولتے ہو۔پھر ان کو شہید کر دیا۔

سوال نمبر7: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے کن مرحومین کا ذکرخیرفرمایا؟

جواب: فرمایا: دو تو برکینا فاسو کے ہمارے نوجوان ہیں۔ 11؍جون کی شام کو یہ اپنے علاقے، ڈوری ریجن کے علاقے میں ایک گاؤں میں تھے جہاں دہشت گردوں نے حملہ کیا اور یہاں بہت سے افراد مارے گئے۔ اس میں ہمارے یہ دو احمدی خادم بھی شہید ہوئے جو اپنی دکان پہ کام کررہے تھے۔ فائرنگ ہوئی اور یہ موقع پر شہید ہو گئے۔اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیہِ رَاجِعُوْنَ۔

1۔ڈیکو زکریا (Dicku Zakariya)صاحب،ان کی عمر 32سال تھی۔ ڈوری ریجن میں ان کو بطور ریجنل قائد خدام الاحمدیہ خدمت کی توفیق ملی۔

2۔ڈیکو موسیٰ (Dicku Mussa) صاحب،ان کی عمر 34سال تھی۔ یہ اس وقت اپنی مجلس سائی تنگا (Seytenga) کے قائد خدام الاحمدیہ تھے۔ اپنی جماعت کے تمام پروگراموں میں سب سے بڑھ کر حصہ لیتے۔

3۔محمد یوسف بلوچ صاحب ابن نورنگ خان صاحب آف بستی صادق پور ضلع عمرکوٹ سندھ

4۔عزیزہ مبارزہ فاروق (واقفۂ نو)صاحبہ بنت فاروق احمدصاحب آف ربوہ

5۔مکرم آنزومانا واترا(Aanzumana Wattara) صاحب آف آئیوری کوسٹ معلم سلسلہ

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button