متفرق مضامین

صحبتِ صادقین ایک نعمتِ الٰہی

(محمود احمد ناصر۔ جرمنی)

یہ حقیقت ہے کہ انسان اپنے ماحو ل میں دیگر اُٹھنے بیٹھنے والے لوگوں سے ضرور اثر پکڑتا ہے اور باوجودنہ چاہنے کے بھی، اس میں ان لوگوں جیسی حرکات و سکنات پیدا ہونا شروع ہوجاتی ہیں

یہ بات روز روشن کی طرح ہم سب پر عیاں ہے کہ خدا کے فضل کے سوا تبدیلی نہیں ہوتی۔ اعمالِ نیک کے واسطے صحبت صادقین کا نصیب ہونا بہت ضروری ہے۔ یہ خدا کی سنت ہے ورنہ اگر چاہتا تو آسمان سے قرآن یو نہی بھیج دیتا اور کوئی رسول نہ آتا۔ مگر انسان کو عمل در آمد کے لیے نمونہ کی ضرورت ہے۔

صحبت صادقین نہ صرف ہماری راہنمائی کرتی ہے بلکہ ایمانی قوت کو جلا بخشتی ہے۔ اسی لیے اپنے اسلاف کے بتائے ہوئے راستے پر چلنا ہمارا فریضہ ہے۔ بزرگان دین نے دنیا کی رنگینیوں کو ٹھکرا کر صرف اور صرف خدا کی خوشنودی کی خاطر زندگی گزاری ہے۔ ہمیں اپنے ان بزرگوں کی سیرت کامطالعہ کرنا چاہیے جس سے ہماری راہنمائی ہوسکے۔

اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ اور محبوب بندوں میں سے ایک طبقہ صالحین کا ہے۔ صالحین کے نام سے ظاہر ہے کہ ان افراد کی زندگی اعمالِ صالحہ سے عبارت ہوتی ہے۔ وہ بطورِ عادت خواہشاتِ نفس کی بجائے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکامات کی پیروی کرتے ہیں۔اس مضمون میں صالحین کی سیرت و کردار کے بنیادی اوصاف اور ان کے اثرات کا ذکر کیا جائے گا تاکہ اس سے جہاں ہمارے اندر صالحین کی صفات پیدا ہوں وہاں ان کے اقوال و اعمال کی اتباع اور صحبت سے بھی فیضیاب ہونے کا جذبہ پیدا ہو۔

یہ حقیقت ہے کہ انسان اپنے ماحو ل میں دیگر اُٹھنے بیٹھنے والے لوگوں سے ضرور اثر پکڑتا ہے اور باوجودنہ چاہنے کے بھی، اس میں ان لوگوں جیسی حرکات و سکنات پیدا ہونا شروع ہوجاتی ہیں۔ اس لیے کوشش کرنی چاہیے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں سے دوستیاں بڑھائیں اور بدزبان اور بد کردار کے حامل انسانوں سے کنارہ کشی اختیار کرلیں۔

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے: یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَکُوۡنُوۡا مَعَ الصّٰدِقِیۡنَ۔(سورۃ توبہ: 119) ترجمہ:اے لوگو! جو ایمان لائے ہو اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور صادقوں کے ساتھ ہو جاؤ۔

اللہ تعالیٰ جب بھی انبیاء مبعوث فرماتا ہے تو اس کے ماننے والے، اس پر ایمان لانے والے، تقویٰ کے اعلیٰ معیار قائم کرنے والے ہوتے ہیں۔ اور ان کے تقویٰ کا اعلیٰ معیار اس لیے قائم ہو رہا ہوتا ہے، اس کا اظہار اس لیے ہو رہا ہوتا ہے، دنیا کو نظر آ رہا ہوتا ہے(ان کی اپنی طرف سے نہیں ہوتا دنیا کو نظر آتا ہے) اور ان کے اندر یہ تبدیلی اس لیے نظر آ رہی ہوتی ہے کہ انہوں نے اس قرب کی و جہ سے جو ان کو نبی سے ہے اللہ کی مدد اور فضل سے اپنے اندر پاک تبدیلی پیدا کرنے کی کوشش کی ہوتی ہے۔ اور صرف یہی نہیں بلکہ وہ خود بھی اس سچی پیروی کی و جہ سے، اس سچے ایمان کی و جہ سے، اپنے اندر تقویٰ قائم ہونے کی و جہ سے، اپنے اندر پاک تبدیلی پیدا کرنے کی و جہ سے، صادقوں میں شامل ہو گئے ہوتے ہیں۔ اور پھر آگے بہت سوں کی راہنمائی کا باعث بنتے ہیںاور بن رہے ہوتے ہیں۔

صادقین کی ایک صفت یہ ہے کہ وہ بلند اخلاق کے حامل ہوتے ہیں۔ ان کی بعض اخلاقی اقدار کے بارے قرآن حکیم کے الفاظ یہ ہیں:وَعِبَادُ الرَّحۡمٰنِ الَّذِیۡنَ یَمۡشُوۡنَ عَلَی الۡاَرۡضِ ہَوۡنًا وَّاِذَا خَاطَبَہُمُ الۡجٰہِلُوۡنَ قَالُوۡا سَلٰمًا ۔(الفرقان:64)اور رحمان کے بندے وہ ہیں جو زمین پر فروتنی کے ساتھ چلتے ہیں اور جب جاہل ان سے مخاطب ہوتے ہیں تو (جواباً) کہتے ہیں ’’سلام‘‘۔

ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا:وَالَّذِیۡنَ لَا یَشۡہَدُوۡنَ الزُّوۡرَ ۙ وَاِذَا مَرُّوۡا بِاللَّغۡوِ مَرُّوۡا کِرَامًا۔(الفرقان:73)اور وہ لوگ جو جھوٹی گواہی نہیں دیتے اور جب وہ لغویات کے پاس سے گزرتے ہیں تو وقار کے ساتھ گزرتے ہیں۔

ان آیات سے معلوم ہوا کہ اللہ کے بندے تکبر و رعونت والے نہیں ہوتے بلکہ منکسرالمزاج ہوتے ہیں۔ اس کا اظہار ان کے چلنے کے انداز سے ہوتا ہے۔ ایک اور صفت یہ ہے کہ وہ جاہلوں سے نہیں الجھتے بلکہ جاہلوں کے الجھنے کی صورت میں بھی وہ ان کا جواب نہیں دیتے بلکہ ان کے لیے سلامتی کی دعا کرتے ہوئے ان سے کنارہ کشی کرتے ہیں۔ اسی طرح باطل اور جھوٹی مجالس سے احتراز کرتے ہیں اور جب بے ہودہ اور لغو کاموں کے پاس سے گزرتے ہیں تو دامن بچاتے ہوئے نہایت وقارو متانت سے گزر جاتے ہیں۔

ایک حدیث میں روایت ہے اور بہت اہم ہے جس کی طرف والدین کو بھی توجہ دینی چاہیے اور ایسے نوجوانوں کو بھی جو نوجوانی میں قدم رکھ رہے ہوتے ہیں۔ حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ آنحضورﷺ نے فرمایا کہ ’’انسان اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے۔ ‘‘یعنی دوست کے اخلاق کا اثر انسان پر ہوتا ہے۔ ’’اس لیے اسے غور کرنا چاہئے کہ وہ کسے دوست بنا رہا ہے۔‘‘ (سنن ابی داؤد۔ کتاب الادب۔ باب من یؤمر ان یجالس)حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ نیک ساتھی اور برے ساتھی کی مثال ان دوشخصوں کی طرح ہے جن میں سے ایک کستوری اٹھائے ہوئے ہو اور دوسرا بھٹی جھونکنے والا ہو۔ کستوری اٹھانے والا تجھے مفت خوشبو دے گا یا تُو اس سے خرید لے گا۔ ورنہ کم ازکم تو اس کی خوشبو اور مہک سونگھ ہی لے گا۔ اور بھٹی جھونکنے والا یا تیرے کپڑوں کو جلادے گا یا اس کا بدبودار دھواں تجھے تنگ کرے گا۔‘‘ (مسلم کتاب البر والصلۃ۔ باب استحباب مجالسۃ الصالحین)

حضرت مسیح موعودؑ، صحبت ِصالحین کی افادیت سے متعلق فرماتے ہیں:’’جو شخص شراب خانہ میں جاتا ہے خواہ وہ کتنا ہی پرہیز کرے اور کہے کہ میں نہیں پیتا ہوں لیکن ایک دن آئے گا کہ وہ ضرور پئے گا۔ پس اس سے کبھی بے خبر نہیں رہنا چاہیے کہ صحبت میں بہت بڑی تاثیر ہے۔… جو شخص نیک صحبت میں جاتا ہے خواہ وہ مخالفت ہی کےرنگ میں ہو لیکن وہ صحبت اپنا اثر کئے بغیر نہ رہے گی۔ اور ایک نہ ایک دن وہ اس مخالفت سے باز جائےگا۔‘‘(ملفوظات جلد 3 صفحہ 505-506،ایڈیشن 1988ء)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:’’قرآن اور حدیث سے ثابت ہے کہ مومن کی ہر ایک چیز بابرکت ہو جاتی ہے جہاں وہ بیٹھتا ہے وہ جگہ دوسروں کے لئے موجب برکت ہوتی ہے۔ اس کا پس خوردہ اوروں کے لئےشفا ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ ایک گنہگار خدا تعالیٰ کے سامنے لایا جاوے گا۔ خدا تعالیٰ اس سے پوچھے گا کہ تونے کوئی نیک کام کیا؟ وہ کہے گا کہ نہیں۔ پھر خدا تعالیٰ اس کو کہے گا کہ فلاں مومن تو ملا تھا وہ کہے گا خداوند میں ارادتاً تو کبھی نہیں ملا وہ خود ہی ایک دن مجھے راستہ میں مل گیا۔ خدا تعالیٰ اسے بخش دے گا۔ پھر ایک اور موقعہ پر حدیث میں آیا ہے کہ خدا تعالیٰ فرشتوں سے دریافت کرے گا کہ میرا ذکر کہاں پر ہو رہا ہے؟ وہ کہیں گے کہ ایک حلقہ مومنین کا تھا جہاں دنیا کے ذکر کا نام و نشان بھی نہ تھا؛ البتہ ذکر الٰہی آٹھوں پہر ہو رہا ہے۔ اُن میں ایک دنیا پرست شخص تھا۔ اﷲ تعالیٰ فرمائے گا کہ میں نے اس دنیادار کو اس ہم نشینی کے باعث بخش دیا۔ اِنَّھُمْ قَوْمٌ لَّا یَشْقٰی جَلِیْسُھُمْ۔بعض حدیثوں میں آیا ہے کہ جہاں ایک مومن امام ہو اس کے مقتدی پیش ازیں کہ وہ سجدہ سے سر اُٹھاوے بخش دیئے جاتے ہیں۔

مومن وہ ہے کہ جس کے دل میں محبتِ الٰہی نے عشق کے رنگ میں جڑ پکڑلی ہو۔ اس نے فیصلہ کر لیا ہو کہ وہ ہر ایک تکلیف اور ذلت میں بھی خدا تعالیٰ کا ساتھ نہ چھوڑے گا۔ اب جس نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کب کسی کا کانشنس کہتا ہے کہ وہ ضائع ہو گا کیا کوئی رسول ضائع ہوا؟ دنیا ناخنوں تک اُن کو ضائع کرنے کی کوشش کرتی ہے، لیکن وہ ضائع نہیں ہوتے جو خدا تعالیٰ کے لیے ذلیل ہو وہی انجام کا ر عزت و جلال کا تخت نشیں ہوگا۔ ایک ابو بکرؓ ہی کو دیکھو جس نے سب سے پہلے ذلت قبول کی اور سب سے پہلے تخت نشین ہوا۔اس میں کچھ شک نہیں کہ پہلے کچھ نہ کچھ دکھ اٹھانا پڑتا ہے کسی نے سچ کہا ہے ؎

عشق اوّل سرکش و خونی بود

تا گریزد ہر کہ بیرونی بود

عشق الٰہی بے شک اول سرکش و خونی ہوتا ہے تا کہ نااہل دور ہو جاوے۔ عاشقانِ خدا تکالیف میں ڈالے جاتے ہیں۔ قسم قسم کے مالی اور جسمانی مصائب اُٹھاتے ہیں اور ا س سے غرض یہ ہوتی ہے کہ ان کے دل پہچانے جاویں۔‘‘(ملفوظات جلد چہارم صفحہ 31، ایڈیشن 1988ء)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ’’صحبت میں بڑا شرف ہے۔ اس کی تاثیر کچھ نہ کچھ فائدہ پہنچا ہی دیتی ہے۔ کسی کے پاس اگر خوشبو ہو تو پاس والے کو بھی پہنچ ہی جاتی ہے۔ اسی طرح پرصادقوں کی صحبت ایک روح صدق کی نفخ کر دیتی ہے۔ میں سچ کہتا ہوں کہ گہری صحبت نبی اور صاحب نبی کو ایک کردیتی ہے۔ یہی وجہ ہے جو قرآن شریف میں کُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ(التوبۃ: 119) فرمایا ہے۔ اور اسلام کی خوبیوں میں سے یہ ایک بے نظیر خوبی ہے کہ ہر زمانے میں ایسے صادق موجود رہتے ہیں ۔‘‘ (ملفوظات جلد چہارم صفحہ609 ایڈیشن،1988ء)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ’’دیکھو ایک زمانہ وہ تھاکہ آنحضرتﷺ تن تنہا تھے مگر لوگ حقیقی تقویٰ کی طرف کھنچے چلے آتے تھے حالانکہ اب اس وقت لاکھوں مولوی اور واعظ موجود ہیں لیکن چونکہ دیانت نہیں، وہ روحانیت نہیں، اس لئے وہ اثر اندازی بھی ان کے اندر نہیں ہے۔ انسان کے اندر جو زہریلا مواد ہوتا ہے وہ ظاہری قیل وقال سے دور نہیں ہوتا اس کے لئے صحبت صالحین اور ان کی توجہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس لئے فیضیافتہ ہونے کے لئے ان کے ہمرنگ ہونا اور جو عقائد صحیحہ خدا نے ان کو سمجھائے ہیں ان کو سمجھ لینا بہت ضروری ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد 3صفحہ446،ایڈیشن1988ء)

حضرت مصلح موعود ؓایک مثال میں بیان فرماتے ہیں کہ ’’ایک سکھ طالبعلم تھا جس کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے بڑی عقیدت تھی۔ تو اس نے آپؑ کو لکھا کہ پہلے تو مجھے خدا کی ہستی پر بڑا یقین تھا لیکن اب مجھے کچھ کچھ شکوک و شبہات پیدا ہونے لگ گئے ہیں۔ تو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس کو جواب دیا کہ تمہارے ساتھیوں میں سے کوئی دہریت کے خیالات رکھتا ہے جس کا تم پہ اثر پڑ رہا ہے، اس لئے اپنی جگہ بدل لو۔ چنانچہ اس نے اپنی سیٹ بدل لی اور خودبخود اس کی اصلاح ہوگئی۔ فرماتے ہیں کہ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ انسان پر کتنا برا اثر پڑتا ہے۔ یعنی یہی حکمت ہے جس کے ماتحت رسول کریمﷺ جس کسی مجلس میں تشریف رکھتے تھے تو بڑی کثرت سے استغفار فرمایا کرتے تھے تاکہ کوئی بری تحریک آپؐ کے قلبِ مُطہّر پر اثر انداز نہ ہو۔‘‘ (تفسیر کبیر جلد 6صفحہ482،481)

گھروں میں نوافل ادا کرنا، قرآن کریم کی تلاوت کرنا، احادیث اورکتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفاء کے ارشادات پڑھنا اور دوسروں کو سنانا بھی صحبت صالحین کی محافل ہیں۔ان تمام محافل صحبت صالحین کا ذکر کرتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ فرماتے ہیں:’’اس زمانے میں جیساکہ میں نے پہلے بھی کہا کہ دعاؤں کے ساتھ ساتھ حضرت اقدس مسیح موعود کی تفاسیر اور علم کلام سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔ اگر قرآن کو سمجھنا ہے یا احادیث کو سمجھنا ہے تو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتب کی طرف توجہ کرنی چاہئے۔یہ تو بڑی نعمت ہے ان لوگوں کے لئے جن کو اردو پڑھنی آتی ہے کہ تمام کتابیں اردو میں ہیں۔ اکثریت اردو میں ہیں، چند ایک عربی میں بھی ہیں۔ پھر جو پڑھے لکھے نہیں ان کے لئے مسجدوں میں درسوں کا انتظام موجود ہے ان میں بیٹھنا چاہئے اور درس سننا چاہئے۔ پھر ایم ٹی اے کے ذریعہ سے اس سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔ اور ایم ٹی اے والوں کو بھی مختلف ملکوں میں زیادہ سے زیادہ اپنے پروگراموں میں یہ پروگرام بھی شامل کرنے چاہئیں جن میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے اقتباسات کے تراجم بھی ان کی زبانوں میں پیش ہوں۔ جہاں جہاں تو ہوچکے ہیں اورتسلی بخش تراجم ہیں وہ تو بہرحال پیش ہوسکتےہیں۔ اور اسی طرح اردو دان طبقہ جو ہے، ملک جو ہیں، وہاں سے اردو کے پروگرام بن کے آنے چاہئیں۔ جس میں زیادہ سے زیادہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس کلام کے معرفت کے نکات دنیا کو نظر آئیں اور ہماری بھی اور دوسروں کی بھی ہدایت کا موجب بنیں۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 11؍جون 2004ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 25؍جون 2004ء)

ہمارے پیارے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ جماعت کو صحبت صالحین کی تلقین و نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’پھر یہ بھی نظر رکھنی چاہئے کہ بچوں کے دوست کون ہیں بچوں کے دوستوں کا بھی پتہ ہونا چاہئے۔ یہ مثال تو ابھی آپ نے سن ہی لی۔ اس سیٹ پر بیٹھنے کی وجہ سے ہی صرف اس طالبعلم پر دہریت کا اثر ہورہا تھا۔ لیکن یہ مثالیں کئی دفعہ پیش کرنے کے باوجود، کئی دفعہ سمجھانے کے باوجود، ابھی بھی والدین کی یہ شکایات ملتی رہتی ہیں کہ انہوں نے سختی کرکے یا پھر بالکل دوسری طرف جاکر غلط حمایت کرکے بچوں کو بگاڑ دیا۔ ایک بچہ جو پندرہ سولہ سال کی عمر تک بڑا اچھا ہوتا ہے جماعت سے بھی تعلق ہوتا ہے، نظام سے بھی تعلق ہوتا ہے، اطفال الاحمدیہ کی تنظیم میں بھی حصہ لے رہا ہوتا ہے۔ جب وہ پندرہ سولہ سال کی عمر کو پہنچتا ہے تو پھر ایک دم پیچھے ہٹنا شروع ہوجاتا ہے اور پھر ہٹتا چلا جاتا ہے، یہاں تک کہ ایسی بھی شکایات آئیں کہ ایسے بچے ماں باپ سے بھی علیحدہ ہوگئے۔ اور پھر بعض بچیاں بھی اس طرح ضائع ہوجاتی ہیں۔جن کا بہر حال افسوس ہوتا ہے۔ تو اگر والدین شروع سے ہی اس بات کا خیال رکھیں تو یہ مسائل پیدا نہ ہوں۔

پھر بچوں کو بھی میں کہتا ہوں کہ اپنے دوست سوچ سمجھ کر بناؤ۔ یہ نہ سمجھو کہ والدین تمہارے دشمن ہیں یا کسی سے روک رہے ہیں بلکہ سولہ سترہ سال کی عمرایسی ہوتی ہے کہ خود ہوش کرنی چاہئے، دیکھنا چاہئے کہ ہمارے جو دوست ہیں بگاڑنے والے تو نہیں، اللہ تعالیٰ سے دور لے جانے والے تو نہیں۔ کیونکہ جو اللہ تعالیٰ سے دور لے جانے والے ہیں وہ تمہارے خیر خواہ نہیں ہوسکتے۔تمہارے ہمدرد نہیں ہوسکتے، تمہارے سچے دوست نہیں ہوسکتے۔ اور ایک احمدی بچے کو تو کیونکہ صادقوں کی صحبت سے فائدہ اٹھانا ہے اس لئے یاد رکھیں کہ یہ گروہ شیطان کا گروہ ہے صادقوں کا گروہ نہیں اس لئے ایسے لوگوں میں بیٹھ کے اپنی بدنامی کا باعث نہ بنیں، ایسے بچوں یا نوجوانوں سے دوستی لگا کے اپنے خاندان کی بدنامی کا باعث نہ بنیں اور ہمیشہ نظام سے تعلق رکھیں۔ نظام جو بھی آپ کو سمجھاتا ہے آپ کی بہتری اور بھلائی کے لئے سمجھاتا ہے۔ نمازوں کی طرف توجہ دیں۔قرآن پڑھنے کی طرف توجہ دیں اللہ تعالیٰ ہمارے ہر بچے کو ہر شیطانی حملے سے بچائے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 11؍جون 2004ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل25؍جون2004ء)

جماعتوں اور ذیلی تنظیموں کے ماہانہ اجلاسات ہیں جو صادقین کی صحبت کا ذریعہ ہیں۔ اس کے علاوہ وہ جلسے ہیں جن کی ابتدا آج سے 131سال قبل الٰہی اذن سے قادیان میں کی گئی اور آج دنیا کے کئی ممالک میں یہ جلسے بڑی شان کے ساتھ منعقد ہوتے ہیں،یہ صادقین کی محافل ہیں۔

ہمارے پیارے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے 2؍دسمبر 2005ء کو ماریشس کے جلسہ سالانہ پر خطبہ جمعہ کےآغاز میں سورۃ التوبہ کی آیت 119 کُوْنُوْا مَعَ الصَّادِ قِیْنَ کی تلاوت فرمائی اور ان جلسوں کو صحبت صالحین کا ذریعہ قرار دیا۔ آپ نے اس خطبہ جمعہ میں فرمایا:’’یہ آیت جو میں نے تلاوت کی ہے اس میں اللہ ہمیں نصیحت فرما رہا ہے کہ اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور صادقوں کے ساتھ ہوجاؤ۔ اور آنحضرتﷺ کے بعد آپ کا غلامِ صادق ہی سب سے بڑا صادق ہے۔ پس اب جب آپ نے اس صادق کے ساتھ تعلق جوڑا ہے تو اس تعلق کو مضبوط سے مضبوط تر کریں۔ اور آپؑ اپنی جماعت جیسی بنانا چاہتے تھے ویسی جماعت بننے کی کوشش کریں۔ دنیا کو بتادیں کہ تم ہمیں مسلمان سمجھو یا غیر مسلم اس سے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہم نے تو آنحضرتﷺ کے حکم پر عمل کرتے ہوئے اس صادق کو پالیاہے اور اب اس کی جماعت میں شامل ہوگئے ہیں۔ اور اب ہم ہی ہیں جن سے اسلام کی آئندہ تاریخ بننی ہے (ان شاء اللہ) اس لئے ہم اب تمہیں بھی کہتے ہیں کہ آؤ اور آنحضرتﷺ کے سب سے بڑے عاشق صادق کی جماعت میں داخل ہوکر اپنی دنیا و آخرت سنوارلو۔ لیکن جب یہ دعویٰ کرکے آپ دنیا کو اپنی طرف بلائیں گے تو اپنے آپ پر بھی نظر ڈالنی ہوگی کہ ہم نے اپنے اندر کیا انقلاب پیدا کیا ہے۔ اس زمانے کے مسیح و مہدی اور سب سے بڑے صادق کو مان کر ہمارے اپنے نمونے کیا ہیں۔ ہمارے اپنے تقویٰ کے معیار کیا ہیں۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 2؍دسمبر2005ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل23؍دسمبر2005ء)

پس ہم احمدیوں کا بھی یہ فرض بنتا ہے کہ حقیقی معنوں میں صدق پر قائم ہوں اور یہ بات ہمیں بھی اس طرف توجہ دلاتی ہے کہ ہم امت مسلمہ کے لیے دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کو عقل اور سمجھ دے۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں حقیقی صالحین سے تعلق استوار کرنے اور ان کی صحبت اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ ہم اپنی روحانی اقدار کو بہتر بناسکیں اور اسلام کی حقیقی روح کے مطابق عمل کرکے زندگی بسر کرسکیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم ہمیشہ اپنے نفسوں کا محاسبہ کرتے رہیں۔ ہر نیک عمل کو خداتعالیٰ کی طرف منسوب کرنے والے ہوں۔ تمام قسم کی برائیوں سے اپنے آپ کو پاک کرنے والے ہوں اور اس کے لیے مسلسل کوشش کرتے رہنے والے ہوں اور ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی وسیع تر بخشش کے طالب رہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔

اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ اس کے حضور جھکتے ہوئے، اس سے مدد مانگتے ہوئے، اس انعام کی قدر کریں جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں حضرت مسیح پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت میں شامل کرکے عطا فرمایا ہے۔ سچے دل سے آپؑ کے تمام دعاوی پر ایمان لانے والے ہوں اور اپنے ایمانوں کو بھی مضبوط کرنے والے ہوں اور صادق کے ساتھ جڑ کر اپنے آپ کو بھی صادق ہونے کے قابل بنائیں اور اپنی نسلوں کو بھی ایک فکر کے ساتھ اس کے ساتھ جوڑے رکھنے کی کوشش کریں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق دے۔آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button