الفضل ڈائجسٹ

الفضل ڈائجسٹ

(محمود احمد ملک)

اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔

ضلع ڈیرہ غازی خان کے بلوچ اصحاب احمدؑ
(حصہ سوم)

مکرم راشد بلوچ صاحب کے تحقیقی مضمون کا خلاصہ دو شماروں سے شائع کیا جارہا ہے جس میں ضلع ڈیرہ غازی خان کے بلوچ اصحاب احمدؑ کا ذکرخیر کیا گیا ہے۔

٭… حضرت میاں خدا داد خان صاحبؓ رسائیدار 1883ء میں پیدا ہوئے، موضع گھوگھیاٹ ضلع شاہ پور (حال سرگودھا) کے رہنے والے تھے۔ والد کا نام پہلوان خان صاحب تھا۔ آپؓ کی قوم بلوچ تھی۔ 1901ء میں حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت کی۔ ابتدا میں فوج کی ملازمت کے سلسلے میں کوئٹہ میں تعینات رہے اور وہاں سے 1906ء میں آپؓ نے اور آپؓ کی اہلیہ محترمہ کرم بی بی صاحبہ نے وصیت کی۔

1909ء سے 1914ء تک آپؓ جماعت احمدیہ کراچی کے سیکرٹری رہے۔ 1911ء میں حضرت مرزا محمود احمد صا حب نے انجمن انصا راللہ قائم فرمائی تو آپؓ اس انجمن کے ابتدا ئی ممبرا ن میں شا مل تھے۔ خلا فت ثانیہ کے آغازپر 1914ء میں جب مجلس شوریٰ منعقد ہو ئی تو اس میں آپؓ جماعت احمدیہ کراچی کی طرف سے شریک ہوئے۔ 1920ء میں آپؓ کی رہائش محلہ دارالفضل قادیان میں تھی۔ آپؓ نے یکم نومبر 1928ء کو عارف وا لا ضلع سا ہیوا ل میں وفا ت پائی اور بہشتی مقبر ہ قادیان میں مدفون ہوئے۔ آپ کی عمر 45سا ل تھی۔ آپؓ کی اولاد میں دو بیٹے اور ایک بیٹی شامل ہیں۔

٭…حضرت سردار کر م داد خا ن صاحبؓ کی ولا دت 1875ء میں ہوئی اور آپؓ کو قادیان جاکر دستی بیعت کرنے کی سعادت 1902ء میں حاصل ہوئی۔

اپنے قبولِ احمدیت کے حوالے سے آپؓ فرماتے ہیں : مَیں نے بیعت کر نے سے پہلے خوا ب دیکھا کہ ایک سڑک پر آنحضرت ﷺ اور حضرت مسیح مو عودؑ ٹہل رہے ہیں۔ بندہ سامنے سے آرہا ہے۔ آنحضرت ﷺ بندہ کو مخا طب کر کے (انگلی کا اشارہ کرکے) فر ما تے ہیں کہ یہ خدا کی طرف سے ہے۔ یہ تین دفعہ حضورؐ نے فر ما یا۔ جب مَیں نے 1902ء میں قا دیا ن میں بیعت کی تو اُسی حلیہ میں حضورؑ کو پایا۔ بیعت کے وقت میں نے عرض کی کہ میر ی برادری سب شیعہ ہے حضور دعا فرماویں۔ حضورؑ نے فرمایا مَیں نے دعا کر دی ہے (بعدازاں وہ سب احمدی ہوگئے)۔ پھر حضورؑ نے خطاب فرمایا جس میں یَاْتُوْ نَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْق کا ذکر کیا اور فرمایا کہ کیا یہ پیشگوئی پوری نہیں ہوئی! اور فرمایا کہ تمہارے درمیا ن وہی مسیح بو ل رہا ہے جس کی خبر خدا اور اُس کے رسولﷺ نے دی تھی۔

اس کے بعد مَیں نے حضورؑ کی زیارت 1904ء بمقا م گورداسپور کی تھی جب حضور پر کر م دین بھیں والے نے مقدمہ کر رکھا تھا۔ اتنے دن ٹھہرا رہا جب تک مقدمہ کا فیصلہ نہیں ہوگیا۔ جب مجسٹریٹ نے پا نچ صد روپیہ جرما نہ کیا تو خواجہ کمال الدین نے فوراً روپیہ آگے رکھ دیا، تب بندہ عدالت میں موجو د تھا۔ اس کے بعد بندہ ملا زم ہوکر بمقا م شب قدر علاقہ پشاور میں تھا کہ حضور کے وصا ل کی خبر پہنچی۔

بندہ نے حضرت مسیح موعودؑ کی وفات کے بعد حضرت مولوی نو رالدین صاحبؓ کی بیعت کی۔ پھر اُن کی وفات کے بعد ڈا کٹر محمد حسین شا ہ صاحب ہمارے پاس پہنچے اور کہنے لگے کہ بیعت میں جلدی نہ کرنی چاہیے۔ میں نے کہا جب خلیفہ خدا بناتا ہے تواس میں جلدی یا نہ جلدی کے کیا معانی ہوئے۔ جس کو خدا خلیفہ بنائے گا ہم بیعت کر لیں گے مگر آپ کے یہاں آنے سے معلو م ہو تا ہے کہ اگر حضر ت محمود خلیفہ ہوئے توآپ لو گ بیعت نہیں کر یں گے۔ ہاں اگر محمدعلی خلیفہ ہو ئے تو ضرور بیعت کرلیں گے۔ یہ سن کر وہ سخت غصہ میں بھر گئے اور کہا کہ تم لوگ اپنے بھائیوں پر بدظنی کرتے ہو، تم کو کیا معلوم ہے کہ ہم بیعت کریں گے کہ نہیں۔ میں نے کہا کہ یہا ں آپ کے آنے کا کیا مطلب تھا؟

بندہ ہر جلسہ پر حا ضر ہو تا رہا۔سوائے دو سال کے جب مجھے ملا زم ہو نے کی حالت میں عدن بھیجا گیا۔ بندہ نے 1931ء میں پنشن لے لی اور مستقل طور پر قادیان میں آگیا کیو نکہ مکان ہم نے 1919ء میں یہاں بنالیے تھے۔ یہاں آتے ہی حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کی خدمت میںلکھ بھیجا کہ میں اپنی زندگی سلسلہ کے کاموں کے لیے وقف کرتا ہو ں۔ بند ہ کو محلوں سے چندہ وصول کر نے پر لگا یا گیا۔ پھر سیکرٹری وصا یا اور پھر انسپکٹر وصایا بنایا گیا۔ بعد میں باقاعدہ دفتر بہشتی مقبر ہ میں کام کرنا شروع کیا اور دفتر والوں نے مجھے بتایا کہ حضور نے آپ کی وقف زندگی پر خوشی کا اظہا ر فرمایا ہے۔

جب 1934ء میں احرار کا جلسہ قادیان میں ہوا تو حضرت میاں شریف احمد صاحبؓ نے مجھے دفتر سے نکا ل کر حضرت خلیفۃ المسیح الثا نی ؓکی حفاظت کا انچارج مقر ر فرمایا۔

حضرت سردار صاحبؓ 1934ء سے 1947ء تک مذکورہ خدمات نہایت فرض شناسی سے بجا لاتے رہے۔ آپؓ سچے اور مخلص فدائی احمدی تھے۔ سلسلہ کی مالی تحریکات میں ہمیشہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ آپؓ موصی بھی تھے اور جائیداد کے تیسرے اور آمدنی کے نویں حصے کی وصیت کی ہوئی تھی۔ تحریک جدید کے مالی جہاد میں بھی شامل تھے۔

آپؓ نے دو شادیاں کی تھیں۔ چنانچہ آپؓ کو حضرت پیر منظور محمد صاحبؓ اور حضرت مولوی محمداسماعیل صاحبؓ حلالپوری کی دامادی کا شرف حاصل تھا۔ آپؓ کی اولاد میں تین بیٹیاں شامل تھیں۔

٭…حضرت میر خداداد خان صاحبؓ سابق والیٔ قلات 1904ء میں حضرت مسیح موعودؑ کے حلقہ غلامی میں شامل ہوئے۔ آپؓ میر احمد خان دوم کی نسل میں سےتھے جو بادشاہ اورنگزیب کے زمانے میں قلات میں براہوی سلطنت کے بانی تھے۔ آپؓ میر محراب خان دوم کے بیٹے تھے۔

حضرت میر خداداد خان صاحبؓ 1857ء میں تخت نشین ہوئے تھے اور 17سال تک خطرات میں محصور رہ کر قبائلی سرداروں کی بغاوتوں کو فرو کرتے رہے۔ آپؓ کی شاہی انگشتری میں ’’خدا دادگان را خدادادہ‘‘ اور ’’دین و دنیا مرا خدا داداست‘‘ کے الفاظ نقش تھے۔ آپؓ واحد خان تھے جنہوں نے اپنی ریاست میں باقاعدہ فوج اور مرکزی خزانہ قائم کیا۔ ہمت، استقلال، خلوص اور فراست آپؓ کی سیاسی کشتی کے چپو تھے۔ آپؓ نماز اور دیگر مذہبی فرائض کی ادائیگی بہت اہتمام اور التزام سے کرتے تھے اور عالمانہ مذاق رکھتے تھے۔ آپؓ 37سال تک حکمران رہے اور بلوچستان کے انگریز ایجنٹ گورنر جنرل کی سازش سے مارچ 1892ء میں معزول کردیے گئے اور تاج شاہی 10نومبر 1893ء کو آپؓ کے بیٹے محمود خان کو پہنادیا گیا۔ آپؓ نے20مئی 1909ء کو پشین میں وفات پائی اور وہیں سپرد خاک کیے گئے۔

٭…حضرت ما سٹر محمد پریل صاحبؓ 1886ء میں پیدا ہوئے۔ کنڈیارو ضلع نواب شاہ سندھ کے رہنے والے تھے۔ قادیان جاکر حضرت اقدسؑ کی بیعت کی اور پھر کئی دن وہاں مقیم رہ کر کسب فیض کرتے رہے۔

آپؓ جب حضرت مسیح موعودؑ کے چشم دید واقعات بیان کرتے تو آپؓ پر وارفتگی کا عالم طاری ہوجاتا۔ آپؓ بیان فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعودؑ فرمایا کرتے تھے:’کہاں ہے وہ ہمارا سندھی نوجوان!‘۔مَیں اردو بہت کم سمجھتا تھا اور اُس وقت قادیان میںسندھی بالکل نہ سمجھی جاتی تھی۔ نامعلوم وہ کون سی غیبی طاقت تھی جو مجھے قادیان لے گئی۔ باوجود ایک دیہاتی قسم کا نوجوان ہونے کے میں نے اس قدر طویل سفر کیا اور عمر بھر کے لیے اپنا دل اس دلرُبا کو دے آیا جو اس مقدس بستی میں نور ہدایت کا آفتا ب بن کر چمکا تھا۔

آپؓ بیان فرماتے ہیں : اس عاجز نے جولائی1905ء میں بیعت کی۔ اس زمانہ میں مسجد مبارک بہت چھوٹی تھی۔ چار پانچ آدمی صف میں بیٹھتے تو جگہ بھر جاتی۔ اس ماہ میں بہت گرمی تھی۔ حضرت مسیح موعودؑ جب مسجد میں تشریف آور ہوتے تو مَیں پنکھا جھلتا تھا۔ مولوی محمد علی صاحب کا دفتر مسجد مبارک کے اوپر تھا۔ ایک دن اُن کو کچھ حضورؑ کے آگے گزارش کرنی تھی اور ان کا خیال تھا کہ بیٹھ کر گزارش کریں۔ یہ عاجز حضرت اقدسؑ کے زانو مبارک سے اپنے زانو ملاکر پنکھا چلاتا تھا کہ مولوی صاحب نے کسی کو اشارہ کیا کہ مجھے پیچھے ہٹنے کے لیے کہے۔ اُس آدمی نے جب مجھے اشارہ کیا اور مَیں اُس کے اشارے پر پیچھے ہٹنے لگا تو حضرت اقدسؑ نے میرے زانو پر ہاتھ مارکر فرمایا: مت ہٹو۔ تو یہ عاجز پھر وہیں بیٹھا رہا اور پنکھا چلانے لگا اور مولوی صاحب نے کھڑے ہوکر اپنی گزارش کی اور حضرت اقدسؑ نے ان کو مناسب جواب دیا۔ اُس زمانہ میں تو اِس بات کا خیال نہیں رہا لیکن اب اِس بات سے بہت سرور اور لذّت آتی ہے کیونکہ میں ایک ادنیٰ آدمی اور بےسمجھ، اردو بھی پوری نہیں آتی تھی، اور مولوی محمدعلی صاحب ایم اے اور عالم تھے مگرنبی اللہ کی نظر میں ادنیٰ اوراعلیٰ ایک ہی ہوتا ہے۔

یہ عاجز پندرہ دن صحبت میں رہا، ہر دن حضرت اقدسؑ کا نورانی چہرہ روشن دیکھنے میں آتا تھا۔ اس عاجز کو یہی معلوم ہوتا کہ اب حمام خانہ سے غسل کرکے آرہے ہیں اور سرِمبارک کے بالوں سے (جو کندھے کے برابر تھے)گویا موتیوں کے قطرے گر رہے ہیں۔ اس عاجز نے پندرہ روز میں حضرت اقدس کے چہرہ ٔمبارک میں غم نہیں دیکھا۔ جب بھی مجلس میں آتے، خوش خندہ پیشانی دیکھنے میں آتے۔ دیگر یہ بات دیکھنے میں آئی کہ مولوی محمد احسن صاحب امروہی اور دیگر علماء بڑی بڑی حدیثوں کی کتابیں لے آتے اور عرض کرتے کہ حضور اس کتاب میں یہ حدیث ہے، اس کا کیا مطلب ہے؟ تو حضورؑ نے کبھی بھی نہیں کہا کہ اچھا کتاب دیکھوں تو جواب دیتا ہوں، مگر فوراً فرماتے کہ یہ مطلب ہے۔ اس سے عاجز پر یہ اثر ہوا کہ نبیوں کی یہی شان ہے۔

حضرت ماسٹر صاحبؓ بہت دعاگو اور صاحب رؤیا و کشوف تھے۔ 13؍اگست 1971ء کو کراچی میں وفات پائی اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں تدفین ہوئی۔

٭…حضرت میاں پیر بخش صاحبؓ (بیعت 1904ء بمقا م قادیان)۔ آپؓ کا تعلق بستی رنداں سے تھا۔ آپؓ کو یاد تھا کہ ایک شخص سید احمد شاہ صاحب نے حضوؑر کی خدمت میں بیعت کرنے کے بعد آنحضرت ﷺ کاسلام پہنچایا تھا اور حضورؑ نے فرمایا تھا: اچھی بات۔

آپؓ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ ہم حضرت اقدسؑ کے پائوں دبا رہے تھے کہ ایک مولوی صاحب نے منع کیا مگر حضورؑ نے فرمایا : ان کو کچھ نہ کہو۔

(آئندہ شمارہ میں جاری ہے)

………٭………٭………٭………

روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ 8؍فروری 2014ء میں مکرم عطاءالمجیب راشد صاحب کا حمدیہ کلام شامل اشاعت ہے۔ اس حمد میں سے انتخاب پیش ہے:

آسماں کا ، زمیں کا نُور ہے تُو

اپنی قدرت کا اوجِ طُور ہے تُو

تیرے جلوے عیاں ہر اِک شے میں

بہرِ قلب و نظر سُرور ہے تُو

ہر مکاں اور لامکاں میں موجود

مظہر و ظاہر و ظہور ہے تُو

وحدہٗ لاشریک ذات تری

نقشِ ہر غیر سے نفور ہے تُو

تُو رگِ جاں سے بھی قریب تر ہے

کون کہتا ہے اُس سے دُور ہے تُو

وہ جو تیرے ہی ہو گئے ہیں اُن کا

ناز پرور ہے تُو غرور ہے تُو

عاصیوں کے لیے ردائے بخشش

سب گنہ گار، اِک غفور ہے تُو

جس کو حاصل ہوا ہے ترا عرفاں

اُس کے باطن کا گویا طُور ہے تُو

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button