متفرق مضامین

عائلی زندگی اور تربیت اولاد(قسط اول)

(سیدہ منورہ سلطانہ۔ جرمنی)

کچھ آج بزمِ دوستاں میں ایک گھر کی بات ہو

چمن کے رنگ و بو،حسین بام و در کی بات ہو

خلوص دل کی بات، خوبیٔ نظر کی بات ہو

وہ قصر ہو،محل ہو یا بڑا سا اِک مکان ہو

ہے بات سب کی ایک ہی

یہ سب تو خشتِ مرمریں کا بس حسین ڈھیر ہیں

ہاں گھر کی بات اور ہے

گو چھوٹا سا مکان ہو

(’’ہے دراز دست دعا مرا ‘‘صفحہ 307)

حضرت امیرالمومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرماتے ہیں :’’شادی بیاہ کا تعلق بھی مرد اور عورت میں ایک معاہدہ کی حیثیت رکھتاہے۔ عورت کو حکم ہے کہ اس معاہدے کی رو سے تم پر یہ فرائض ادا ہوتے ہیں مثلاً خاوند کی ضروریات کا خیال رکھنا، بچوں کی نگہداشت کرنا، گھر کے امور کی ادائیگی وغیرہ۔ اسی طرح مرد کی بھی ذمہ داری ہے کہ بیوی بچوں کے نان نفقہ کی ذمہ داری اس پرہے۔ ان کی متفرق ضروریات کی ذمہ داری اس پر ہے۔ اور دونوں میاں بیوی نے مل کر بچوں کی نیک تربیت کرنی ہے اس کی ذمہ داری ان پر ہے۔ تو جتنا زیادہ میاں بیوی آپس میں اس معاہدے کی پابندی کرتے ہوئے ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھیں گے اتنا ہی زیادہ حسین معاشرہ قائم ہوتا چلا جائے گا۔‘‘ (خطبہ جمعہ 19؍دسمبر2003ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 13؍فروری2004ء)

عائلی زندگی ،اعلیٰ اخلاق اور تربیت اولاد کے حوالے سے خواتین مبارکہ کے اعلیٰ نمونے

حدیث نبوی صلی اللہ علیہ و سلم ہے :’’…جو عورت اس حالت میں فوت ہوئی کہ اس کا خاوند اس سے خوش اور راضی ہے تو وہ جنت میں جائے گی۔‘‘ (ابن ماجہ ،کتاب النکاح، باب حق الزوج علی المرأۃ بحوالہ حدیقۃ الصالحین صفحہ 405حدیث نمبر 371 ایڈیشن2003ء)

حضرت مسیح موعودعلیہ السلام فرماتےہیں :’’عورتوں کے لئے خداتعالیٰ کا وعدہ ہے اگر وہ اپنے خاوندوں کی اطاعت کریں گی تو خدا اُن کو ہر ایک بلا سے بچاوے گا۔ اور ان کی اولاد عمر والی ہوگی اور نیک بخت ہوگی۔‘‘(تفسیر حضرت مسیح موعودؑ، جلد3صفحہ309 ایڈیشن2016ء)

میاں بیوی کا رشتہ اپنے اندر ایسی محبت رکھتا ہے کہ اس کی وجہ سے انسان دنیوی تکالیف بھول جاتاہے۔ انبیاء بھی اس تعلق کے محتاج ہیں ۔جب آنحضورؐ بہت غمگین ہوتے تو حضرت عائشہ سے فرماتے :’’ارحنایاعائشہ۔ یعنی اَے عائشہ ہمیں خوش کرکہ ہم اس وقت غمگین ہیں۔‘‘

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اپنے بچوں سے عزت کے ساتھ پیش آؤ اور اُن کی اچھی تربیت کرو۔ (ابوداؤد، کتاب الادب باب فی القیام حدیقۃ الصالحین صفحہ 416حدیث 389؍ایڈیشن2003ء)

تربیت اولاد کے حوالے سے ماؤں کی ذمہ داری اس لیے زیادہ ہے کہ بچہ سارادن ماں کے ساتھ ہوتا ہے۔ وہ جو سکھائے گی پتھر پر لکیر کی طرح ہوگا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الخا مس ایدہ اللہ تعا لیٰ بنصر ہ العزیز خوبصورت عائلی زندگی کاتصور پیش کرتے ہوئے فر ما تے ہیں:’’ …وہ جب بیو ی ہے تو اپنے خاوند کے گھر کی حفا ظت کر نے والی ہے ،جہاں خا وند جب واپس گھر آئے تو دونوں اپنے بچوں کے ساتھ ایک چھوٹی سی جنت کا لطف اُٹھا رہے ہوں ۔جب ما ں ہے تو ایسی ہستی ہےکہ جس کی آغو ش میں بچہ اپنے آپ کو محفو ظ تر ین سمجھ ر ہا ہے۔ جب بچے کی تر بیت کر رہی ہے تو بچے کے ذ ہن میں ایک ایسی فر شتہ صفت ہستی کاتصور اُبھر ر ہا ہے جو کبھی غلطی نہیں کر سکتی ،جس کے پا ؤں کے نیچے جنت ہے ۔‘‘(الاز ھا ر لذوات الخما ر جلد سوم حصّہ اوّل صفحہ 32 خطاب لجنہ اماء اللہ جرمنی2003ء)

تاریخ ہمارےسامنے عائلی زندگی اور تربیت اولاد کےحوالے سے مسلمان عورت کابہترین اورپاکیزہ نمونہ پیش کرتی ہے۔آج جب دنیا کی دلچسپیوں کے رُخ بدل رہے ہیںضرورت ہے کہ اُن خواتین کے حالات پڑھےجائیں۔ جن کی زندگیاں ہمارے لیے بہترین نمونہ ہیں۔

قرون اولیٰ کی خواتین کے نمونے

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیںکہ حضرت ابراہیمؑ نے الہام پاکر جب حضرت حاجرہ اور حضرت اسماعیلؑ کو مکہ میں چھوڑا اُس وقت حضرت ہاجرہ نے جس طرح اللہ تعالیٰ کے ارشاد پر عمل کرنے کے لیے خاوند کا ساتھ دیا اور ویرانے میں رہنا قبول کیااور کھاناپیناختم ہونے پر بچے کی تڑپ دیکھ کر جس صبر سے صفا،مروہ کے چکر لگائے خدا نے آپ کی قربانی کو قبول فرماتے ہوئے آب زمزم کی صورت میں پانی کا انتظام کردیا ۔اس طرح آنحضرتؐ کی آمد کے لیے مکہ کی بنیاد رکھی۔

حضرت موسیٰؑ کی والدہ کو الہام ہواکہ اُن کے ایک بچہ ہوگا فرعون دشمن ہے وہ اسے مارنے کا ارادہ کرے گا جب وہ پیدا ہو اُس کو ٹوکرے میں ڈال کر دریا میں ڈال دینا۔اب ایسی جرأت ہر ماں نہیں کرسکتی کہ وہ خواب کی بناپر بیٹے کو دریا میں ڈال دے۔حضرت موسیٰ کی والدہ نے ایسا ہی کیا۔قرآن میںفرعون کی بیوی کا ذکر آتاہے وہ دعائیں کرتی تھی ۔ اے اللہ تو شرک کی ظلمت کو دور کردے اور سچائی کو دنیا میں قائم کر۔

حضرت عیسیٰ کی والدہ نے بھی قربانی کی۔مجھے ایک بات نظر آتی ہے جس سے اُن کا وسعت حوصلہ نظر آتاہےجب حضرت عیسیٰ کو صلیب کا حکم ہوا بہت کم مائیں ہیں جو یہ نظارہ دیکھ سکیں۔بائبل میں آتا ہے حضرت مریم اس وقت وہاں موجودتھیں۔کیونکہ وہ یہی سمجھتی تھیں کہ یہ خدا کا حکم ہے اور مجھے منظور ہے۔(ماخوذازانوارلعلوم جلد21صفحہ 610تا614 قرون اولیٰ کی نامور خواتین اور صحابیات کے ایمان افروز واقعات)

صحابیات ساتھی کے انتخاب میں مذہب کا خیال رکھتی تھیں۔حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے بعض صحابیات کے ذکر میں فرمایاکہ ’’ ام سلیم کے لیےجب ابوطلحہ ؓنے رشتہ بھجوایا جو ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے تو انہوں نے کہا کہ تم اسلام قبول کرلو یہی میرا حق مہر ہوگا۔ شادی کے معاملے میں مذہب کا ہر لڑکی کو احساس ہونا چاہیے۔حضرت صفیہ ؓنے اپنے بیٹے کی اس طرح تربیت کی کہ ان کا بیٹا نڈراوربہادر سپاہی بنے۔ وہ اس سے سخت محنت کا کام لیتیں ۔ ( ماخوذاز اوڑھنی والیوںکے لئے پھول صفحہ 73,72جلسہ سالانہ برطانیہ2007ءمستورات سے خطاب)

ماں کی نیکی کا اثر بچوں پر

حضرت خلیفۃ المسیح الا وّل ؓاپنی والدہ کے ذکر خیرمیں فرماتے ہیں : ’’میری والدہ کو قرآن کریم پڑھانے کا بڑا ہی شوق تھا ۔…بہت سارے بچوں کی ماں تھیں مگر کبھی نماز قضا نہ کرتیں ۔فرقان حمیدکاپڑھنا کبھی قضا نہ کیا بلکہ میں نے اپنی ماں کے پیٹ میں قرآن مجید سُنا۔پھر گود میں سُنا اور پھر ان سے ہی پڑھا ۔‘‘ (’’حیات نور ‘‘باب اوّل صفحہ8۔مصنف عبد القادر صاحب (سابق سوداگر مل۔)ایڈیشن2003ء)

عبدالقادر جیلانی ؒ کی والدہ کے بارے میں سب جانتے ہیں ان کی بہترین تربیت کا نتیجہ تھا کہ جس پر عمل کرکے ان کے کم سن بیٹے نےچوروں کے سردار کے سامنے بھی سچ بولا اورنتیجہ میں چوروں کی زندگی بدلنے کا ذریعہ بنا۔ (ماخوذازملفوظات جلد اول صفحہ50 ایڈیشن2003ء)

حضرت خدیجہؓ

ذکر کریں گے شہنشاہ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کی اُس بی بی کا جس کو جنت میں موتیوں کے گھر کی بشارت ملی تھی۔ حضرت خدیجہؓ بہت مالدار خاتون تھیں۔شادی کے کچھ دن بعد ہی جان گئیں کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم غریبوں کے لیے اپنے دل میں درد رکھتے ہیں آپؓ نے اپنا سارا مال آنحضرتؐ کے قدموں میں نثارکردیا۔کہ جیسے چاہیں خرچ کریں۔(ماخوذاز سیرۃوسوانح حضرت محمدؐمشاغل تجارت اور حضرت خدیجہ سے شادی، صفحہ 23؍ایڈیشن 2008ء)

آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم عبادت کی غرض سے کئی کئی دن غارِحرا تشریف لے جاتے۔حضرت خدیجہؓ نےحسن تدبرسے گھر کا ہر کام اپنے ذمہ لےلیا۔ آپؓ آنحضورؐ کے ساتھ لےجانے کے لیے ایسا کھانا تیار کرتیں جو زیادہ دن محفوظ رہ سکے ۔خوراک ختم ہونے پر آپؐ گھر تشریف لاتے اورآپؓ اگلے قیام کے لیے کھانا تیار کردیتیں۔

آپؓ بہترین ساتھی اور غم گساربیوی تھیں۔ پہلی وحی کے وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب بے چینی کا اظہار فرمایا توبہت محبت سے آپؓ نے تسلی دیتے ہوئے کہا ’’خدا کی قسم اللہ آپؐ کو کبھی رسوا نہیں کرے گا ۔‘‘حضرت خدیجہ آنحضورؐ کی جن خوبیوں کی قدر دان تھیں سب کا ذکر کرکے تسلی دی کہ جس میں یہ خوبیاں ہوں اللہ اس کاساتھ ضرور دے گا۔(ماخوذاز آغازِ رسالت صفحہ 17 مرتبہ امۃ الباری ناصر ایڈیشن 2008ء)

آپؓ بچوں کی تربیت کا خیال رکھتیں۔ایک مرتبہ حضرت فاطمہؓ کے سوال کرنے پر کیا اللہ ہمیں نظر آسکتا ہے؟آپؓ نے فرمایا: ’’ اگر ہم دنیا میں اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کی مخلوق سے محبت کریں تو قیامت کے دن ضرور اللہ کی زیارت کریںگے۔‘‘ ( ماخوذاز حضرت فاطمۃ الزہرہؓ بنت محمدؐ صفحہ3)

یہ آپؓ کی اعلیٰ تربیت ہی تھی کہ آپؓ کے پہلے شوہروں سے تمام اولاد بھی آنحضرت ؐپر ایمان لائی ۔ ہندہ کے متعلق آتا ہے کہ ان کی پرورش آپؐ نےخود فرمائی۔انہیں فصاحت وبلاغت میں کمال حاصل تھا۔جب آنحضرتؐ کا حال بیان کرتے تو لوگوں کے سامنے آپؐ کی تصویرکھینچ دیتے۔(حضرت خدیجۃالکبریٰؓ صفحہ17ایڈیشن 2008ء۔یوکے)

٭…٭(جاری ہے)٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button