خلاصہ خطبہ جمعہ

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 28؍اکتوبر 2022ء

اميرالمومنين حضرت خليفةالمسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيزنے مورخہ 28؍اکتوبر 2022ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسّط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔جمعہ کي اذان دينےکي سعادت صہیب احمد صاحب کے حصے ميں آئي۔

تشہد،تعوذ اور سورة الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

بدری صحابہ کےذکرمیں حضرت ابوبکرؓ کےمناقب کا تذکرہ ہورہاتھا۔حضرت ابوبکرصدیقؓ کے مقام کے متعلق بعض روایات ہیں۔حضوراکرمﷺ آپؓ کے گھر روزانہ ایک دو مرتبہ تشریف لےجاتے۔ حضرت سلمہ بن اکوعؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ ابوبکراس امّت میں سب سے افضل ہے سوائے اس کےکہ کوئی نبی ہو۔انسؓ بیان کرتے ہیں کہ حضورﷺ نے فرمایا کہ میری امّت پر سب سے زیادہ مہربان ابوبکرہیں۔ آپؐ نے اپنی آخری بیماری میں فرمایا کہ لوگوں میں سے کوئی نہیں جو بلحاظ اپنی جان اورمال مجھ پر ابوبکرسے بڑھ کر نیک سلوک کرنے والا ہو۔ فرمایا :ابوبکر دنیاو آخرت میں میرے بھائی ہیں۔ آنحضورﷺ نے حضرت ابوبکرؓ کو جنت کی بشارت بھی دی تھی۔ ایک مرتبہ آپؐ حضرت ابوبکر،حضرت عمرؓ اور حضرت عثمانؓ کےساتھ احد پہاڑ پر چڑھے تو وہ ہلنے لگا آپؐ نے فرمایااے احد ٹھہر جا۔ تجھ پر ایک نبی، ایک صدیق اور دو شہید ہیں۔ سعید بن زید سے مروی ترمذی کی روایت میں دس اشخاص جنہیں حضورﷺ نے جنّت کی بشارت دی حضرت ابوبکرؓ اُن میں سرِفہرست ہیں۔ ان صحابہ کو اصطلاح میں عشرہ مبشرہ کہتے ہیں۔آنحضرتﷺ نے حضرت ابوبکرؓ کومخاطب کرتے ہوئےفرمایاکہ اے ابوبکر! میری امّت میں سے سب سے پہلے تم جنّت میں داخل ہوگے۔

حضرت مصلح موعودؓ فرماتےہیں کہ ایک مرتبہ حضوراکرمﷺ نے ایک مجلس میں جنت اور اس کی نعماء کا تذکرہ فرمایا۔ اس پر حضرت ابوبکرصدیقؓ نے عرض کیا کہ حضورؐ دعا کیجیے کہ مَیں بھی جنّت میں آپؐ کے ساتھ ہوں۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ مَیں امیداور دعا کرتاہوں کہ تم میرے ساتھ ہو۔وہاں موجودبعض صحابہ میں سے ایک اور نے کہا کہ حضورؐ میرے لیے بھی دعا کریں کہ مجھے بھی آپؐ کا ساتھ نصیب ہو۔ آنحضورﷺ نے فرمایا کہ اللہ تجھ پر بھی رحم فرمائے لیکن جس نے پہلے کہا تھا اب تو وہ دعا لے گیا۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتےہیں کہ ایک دفعہ رسول کریمﷺ نے ذکر فرمایا کہ فلاں نیکی کرنے والا جنت کے فلاں دروازے سے داخل ہوگا اور فلاں نیکی کرنے والا فلاں دروازے سے داخل ہوگا۔ آپؐ نے مختلف نیک اعمال کا ذکرکرکے فرمایا کہ جنت کے سات دروازوں سے مختلف نیکیوں پر زور دینے والے داخل ہوں گے۔ اس پر ابوبکرؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! جو شخص سب نیکیوں پر ہی زوردے تو اس کے ساتھ کیا سلوک ہوگا۔ اس پر آپؐ نے فرمایا کہ وہ شخص جنت کے ہر دروازے سے بلایا جائے گا اور مجھے امید ہے کہ اے ابوبکر! تُو ان ہی میں سے ہے۔

حضرت ابوبکرؓ کا ذکر آئندہ جاری رہنے کا ارشاد فرمانےکےبعد خطبے کے دوسرے حصّے میں حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے بعض مرحومین کا ذکرِ خیر اور نمازِ جنازہ غائب پڑھانے کا ذکرکرتے ہوئے فرمایا کہ اس وقت مَیں بعض مرحومین کا ذکر کروں گا۔

  1. مکرم عبدالباسط صاحب امیر جماعت احمدیہ انڈونیشیا جو 8؍اکتوبر کو 71سال کی عمر میں وفات پاگئے تھے۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔ آپ مولوی عبد الواحد سماٹری صاحب کے بیٹے تھے۔ ایف ا ے کرنے کےبعداکیس سال کی عمر میں 1972ء میں جامعہ احمدیہ ربوہ میں داخل ہوئے اور 1981ء کے آغاز میں شاہد کا امتحان پاس کیااوراس کےبعد واپس اپنے ملک تشریف لےگئے۔1987ءمیں تھائی لینڈ میں مبلغ کے طور پر آپ کا تقرر ہوا۔تھائی لینڈ میں خدمت سرانجام دینےکےبعد واپس انڈونیشیا آگئے اور تادمِ آخر انڈونیشیا میں سرگرمِ عمل رہے۔ایک لمبا عرصہ بطور امیر جماعت انڈونیشیا خدمت کی توفیق ملی۔ آپ کا عرصہ خدمت چالیس سال بنتا ہے۔ پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ تین بیٹے اور دو بیٹیاں شامل ہیں۔

آپ کی اہلیہ کہتی ہیں کہ مرحوم سلسلےکا بہت درد رکھتے اور جماعت کو ہر چیز پر ترجیح دیتے تھے۔ مرحوم کے بھتیجے طاہر صاحب کہتے ہیں کہ امیرصاحب مرکز سے آنے والی ہر ہدایت پر عمل کرتے ایک مرتبہ فیملی سے ملاقات کےلیےآپ کا ملائیشیا جانے کا ارادہ تھا اور ہوائی جہاز کا ٹکٹ بھی خرید لیا تھا۔ تقریباً ایک ہفتے بعد مَیں دوبارہ مرحوم سے ملا اورپوچھا کہ آپ ملائیشیا کیوں نہیں گئے۔ اس پر آپ نے بتایا کہ مرکز سے جو خط آیا ہے اس میں ملائیشیا جانے کی اجازت نہیں ملی اس وجہ سے مَیں نہیں گیا۔ آپ نے اس حد تک مرکز کی ہدایت کی پیروی کی اور ایئرٹکٹ کی بھی پرواہ نہیں کی۔ ایک عہدے دار کہتے ہیں کہ امیر صاحب بڑے پیار سے ہمیں کام سکھاتے تھے۔آپ سادگی کو ترجیح دیتے۔ مربیان کا بڑا احترام کرتے، باوقارمگر عاجزی سے کام لینے والے تھے۔جماعتی نظام اور خلافت کا بڑا احترام کرتے۔جماعتی اموال کا بہت خیال رکھتے۔آپ جماعت انڈونیشیاکےلیے بطور روحانی باپ تھے۔ سزادیتے تو بھی اصلاح کا پہلو پیشِ نظر رہتا۔گذشتہ ایک سال سے بیمار تھے لیکن بیماری کے ایّام میں بھی اپنے فرائض میں کوتاہی نہیں ہونے دی۔

مکرم محمود وردی صاحب انڈونیشین ڈیسک یوکے کہتے ہیں کہ آپ کی شخصیت کا نمایاں ترین پہلو آپ کا تبحرِ علمی تھا۔ ہر آن حصولِ علم کےلیے کوشاں رہتے۔ہرموضوع پر سیرحاصل گفتگو کا ملکہ رکھتے تھے۔جماعتی علوم کےعلاوہ معلوماتِ عامہ اور حالاتِ حاضرہ پر بھی گرفت تھی۔ تقریر مختصر مگر جامع ہوا کرتی۔ ہر طبقے کےلوگ آپ کی گفتگو سمجھ سکتے تھے۔

مکرم فضل عمر فاروق صاحب استاد جامعہ احمدیہ انڈونیشیا کہتے ہیں کہ مَیں بطور طفل بھی امیرصاحب کے قریب رہا۔جب جماعت انڈونیشیا پر مصائب کا دَورتھا تو آپ محنت ،صبر اور تحمل سے جماعت انڈونیشیا کی راہ نمائی کرتے۔ ہمیشہ مسکراتے رہتے۔ انتہائی رقت کے ساتھ دعا کرتے۔ واقفین اور مربیان کا بہت خیال رکھتے۔ جب کوئی مبلغ میدانِ عمل میں جانے لگتا تو آپ اسے اپنی طرف سے کوئی نہ کوئی تحفہ ضرور دیتے۔

مکرم سیف اللہ مبارک صاحب استاد جامعہ احمدیہ انڈونیشیا کہتے ہیں کہ امیر صاحب واقفین زندگی کےلیے ایک اعلیٰ نمونہ تھے۔ ہر ایک کے ساتھ نرمی اور اخلاق سے بات کرتے۔ جس مجلس میں بھی جاتے وہاں آپ کی آمد سے رونق ہوجاتی۔جب مَیں جامعہ میں پڑھتا تھا تب مغرب کے بعد ہمارے ساتھ بیٹھ جاتے اورہلکی پھلکی گفتگو فرماتے۔

نورالدین صاحب مبلغ سلسلہ کہتے ہیں کہ محترم امیرصاحب مرحوم نے 2018ءمیں ہماری مسجد کا سنگِ بنیاد رکھا تواس وقت ہمارے پاس محض چھ کروڑ کی رقم تھی جبکہ مسجد کی تعمیرکےلیے تقریباً ڈیڑھ ارب کی ضرورت تھی۔ مرحوم نے ہدایت دی کہ اسی رقم یعنی چھ کروڑسےہی تعمیر شروع کردیں اور پھر ہم اللہ تعالیٰ کی تائید کا نظارہ دیکھیں گے۔آپ نے اپنی جیب سے کچھ رقم نکال کر مسجد کی تعمیر کےلیےدی اور پھر احبابِ جماعت نے بھی بڑھ چڑھ کر بہترین قربانیاں پیش کرنا شروع کردیں۔دو سال میں مسجد کی اسّی فیصد تعمیر مکمل ہوگئی پھر کورونا وائرس کی وجہ سے لوگوں کی آمد کم ہوگئی اور مسجد کی تعمیر رُک گئی۔ ہم امیر صاحب کے پاس گئے اور بتایا کہ مسجد کی تعمیررُک گئی ہے اور تقریباً پندرہ کروڑ کی ضرورت ہے۔ ہمارا خیال تھا کہ مرکز ہماری مدد کرے گا لیکن امیر صاحب نے کہا کہ مرکز مدد نہیں کرے گا اور آپ لوگ بغیر کسی سے مانگے یہ رقم پوری کرسکتے ہیں۔ آپ کے دریافت کرنے پر مَیں نے بتایا کہ ہماری جماعت میں کُل 160؍احمدی ہیں۔ یہ سن کر آپ نےمسکراتےہوئے کہا کہ ہر ایک سے کہیں کہ دس ملین کی رقم فراہم کرے۔آپ بیان کرتے ہیں کہ شروع میں ہمارا خیال تھاکہ یہ کیسے ہوسکے گا لیکن جب آپ کی نصیحت پر عمل شروع کیا تو احبابِ جماعت کےدلوں میں اللہ تعالیٰ نے غیرمعمولی جذبہ ڈال دیا اور خود امیر صاحب نے بھی بہت بڑی رقم فراہم کی۔چنانچہ تین سال کے عرصے میں یہ مسجد مکمل ہوگئی۔

ایک سابق وزیر جو احمدی نہیں انہوں نے مرحوم کو ایک قومی شخصیت قرار دیا۔ انڈونیشیا میں تیونس کے سفیر نے کہا کہ مَیں نے امیر صاحب سے آنحضورﷺ اور اہلِ بیت کی محبت سیکھی۔ مکرم ارشاد ملہی صاحب مبلغ امریکہ کہتے ہیں کہ مَیں عبدالباسط صاحب کا کلاس فیلو اور روم میٹ رہاہوں۔ آپ بیڈمنٹن کے بہت اچھے کھلاڑی تھے۔ زمانۂ طالبِ علمی میں ہی مرحوم سیدنا حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ کے بڑے قریب تھے اسی طرح ہر خلافت کے دَور میں آپ نے بڑے عمدہ اخلاص کا نمونہ دکھایا۔

حضورِانور نے دعاکی کہ اللہ تعالیٰ مرحوم سے مغفرت کا سلوک فرمائے اور آپ جیسے خدام خلافت کو ہمیشہ عطا فرماتا رہے۔خداتعالیٰ جانے والوں کی کمی بھی پوری فرماتا رہے۔ تمام مبلغین بالخصوص انڈونیشیا کے مبلغین کو ان کا نمونہ اپنے سامنے رکھنا چاہیے۔

  1. مکرمہ زینب رمضان سیف صاحبہ اہلیہ مکرم یوسف عثمان کامبالایہ صاحب مبلغ سلسلہ تنزانیہ جو گذشتہ دنوں ستّر سال کی عمر میں وفات پاگئیں۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مرحومہ نیک، مہمان نواز، ہمسایوں سے حسنِ سلوک کرنے والی، صابرہ وشاکرہ خاتون تھیں۔ مرحومہ کے تین بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں
  2. مکرمہ حلیمہ بیگم صاحبہ اہلیہ شیخ عبدالقدیر صاحب درویش قادیان۔آپ کی گذشتہ ماہ وفات ہوئی۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔ مرحومہ صوم و صلوٰة کی پابند،مہمان نواز بڑی نیک خاتون تھیں۔ خلافت سے بڑا وفا کا تعلق تھا۔ غربت کے باوجود بڑی سخاوت کرنےوالی تھیں۔
  3. مکرمہ میلے انیسا اپیسا صاحبہ جو گذشتہ دنوں 71 سال کی عمر میں وفات پاگئیں۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔ مرحومہ کیریباس کی پہلی احمدی مسلمان اور پہلی احمدی خاتون تھیں۔ کسی طرح قرآن کریم کےترجمے کا ایک نسخہ یہاں پہنچ گیاتھا جسے پڑھ کر آپ ازخود ایمان لے آئیں اور پردہ بھی شروع کردیا۔ یوں جب پہلے احمدی مبلغ یہاں پہنچے تو اللہ تعالیٰ نے ان کےلیے ایک سلطانِ نصیر پہلے ہی تیار کر رکھا تھا۔ مرحومہ بڑی نیک، بہادر اور غیرت مند، بارعب احمدی تھیں۔

حضورِانور نے تمام مرحومین کی مغفرت اور بلندی درجات کےلیے دعا کی۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button