حصولِ مقصد کے لیے جماعت اپنی ذہنیت میں تبدیلی کرلے (قسط نمبر1)
(خطبہ جمعہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمودہ 17 ؍ دسمبر 1937ء)
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
میں نے پچھلے خطبہ میں جلسہ سالانہ کے ذکر پر یہ کہا تھا کہ اسلامی تعلیم انسان کی نیکی اور پاکیزگی کے متعلق یہی ہے اور اِسی کو تصوف اور رُوحانیت کہتے ہیں کہ انسان ہر قسم کی نیکیوں کوجمع کرنے کی کوشش کرے۔ جو شخص کسی ایک شِق کو لے لیتا ہے اور اسی پر زور دیتا چلا جاتا ہے اس کے متعلق نہیں کہا جاسکتا کہ وہ دین کی خاطر اورنیکی کے لیے کرتا ہے یا محض عادت کے ماتحت۔
بنی نوع انسان کے اخلاق کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اخلاق اور نیکیوں کے لحاظ سے بھی انسانوں کی فطرتیں خاص خاص میلان رکھتی ہیں۔ قطع نظر اس سے کہ وہ بات ان کے مذہب کی تعلیم ہو یا وہ اس فلسفہ کا حصہ ہو جس کی وہ اتباع کررہے ہوں۔ انسانی طبائع مختلف میلانات رکھتی ہیں اور یہی چیز دراصل تہذیب اور تمدن کی جڑ ہوتی ہے۔ اگر طبائع میں اختلاف نہ ہو اور مختلف میلان نہ ہوں تو دنیا میں تنوع اور قسم قسم کی چیزیں کبھی نظرنہ آئیں۔ سارے لوگ ایک ہی پیشہ کو اختیار کریں، سارے ایک ہی غذا کھانے لگیں، سارے ایک ہی قسم کا لباس پہنیں اور سب ایک ہی کام کرنے لگ جائیں تو دنیا کا قائم رہنا مشکل ہو جائے۔ یہ اختلاف دنیا میں اتنا جاری و ساری ہے کہ ایک گھر کے رہنے والوں میں اور ایک ہی ماں باپ کی اولادمیں بیٹوں بیٹوں اور لڑکیوں لڑکیوں میں اس قدر اختلاف ہوجاتا ہے کہ بعض اوقات صرف خوراک کے متعلق اختلاف ابتلاء کی صورت اختیار کرلیتا ہے۔ ایک بچہ کہتا ہے کہ میں فلاں ترکاری کھائوں گا تو دوسرا بچہ کہتا ہے کہ میں یہ نہیں بلکہ وہ کھائوں گا۔ ایک ایک پھل کو پسند کرتا ہے تو دوسرا کہتا ہے کہ مجھے یہ پسند نہیں، میں تو فلاں لوں گا۔ ایک کہتا ہے میں ٹوپی پہنوں گا تو دوسرا پگڑی کو پسند کرتا ہے۔ غرض یہ اختلاف طبائع میں کھانے پینے پہننے میں اور اخلاق میں اس قدر عظیم الشان ہے کہ قریبی سے قریبی رشتوں میں بھی بالکل نمایاں اور ظاہر نظر آتا ہے۔ ایک ہی ماں باپ سے پید اہونے والے بچوں میں سے کوئی تو گھر میں بیٹھ کر کام کرنا پسند کرتا ہے اور دوسرا باہر چلنے پھرنے میں خوش رہتا ہے۔ ایک کو حساب سے دلچسپی ہوتی ہے، دوسرے کو سائنس سے اور تیسرے کو ادب اور شاعری کا مذاق ہوتا ہے۔ پھر ایک قسم کے پیشوں میں بھی آگے اختلاف ہوتا ہے۔ اگر سب تجارت کرتے ہیں تو ایک کسی قسم کی تجارت کرتا ہے اور دوسرا دوسری قسم کی۔ کوئی کسی میں ترقی کرتا ہے اور کوئی کسی میں۔ پھر اگر ترقی کرنے والے نہ بھی ہوں اور صرف دن گزارنے والے ہوں تو بھی کوئی کسی کام سے روٹی کماتا ہے اور کوئی کسی سے۔ پس یہ اختلاف دنیا میں ہر جگہ اور ہر حالت میں پایا جاتا ہے اور انسانی میلان اتنا بیّن اور واضح ہوتا ہے کہ اس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا اور جس چیز میں انسان کا طبعی میلان ہو اُس کے مطابق اگر اسے کوئی کام پیش آئے اور وہ اس میں بشاشت بھی محسوس کرے تو وہ نیکی تو ہے مگر اس پایہ کی نہیں جس کا میلان اس کی فطرت میں نہ ہو۔
حاتم طائی سخاوت میں مشہور ہے مگر اس کا طبعی میلان سخاوت کی طرف تھا۔ بچپن سے ہی وہ سخاوت کو پسند کرتا تھا۔ بلکہ بچپن میں جب اسے کھانے کے لیے کوئی چیز ملتی تو وہ دوسرے بچوں کو ڈھونڈتا پھرتا تھا کہ ان میں تقسیم کردے اور اگر کوئی بچہ نہ ملتا تو وہ رو پڑتا کہ کسے دے۔ بسا اوقات بچپن میں وہ اپنے کپڑے دوسروں کو دے دیتا۔ حتیٰ کہ ایک دفعہ اس کے باپ نے اس ڈرسے کہ وہ گھر کو اُجاڑ دے گا اسے جنگل میں اونٹوں کے گلوں پر بھیج دیا اور خیال کیا کہ وہاں تو اس طرح اُجاڑا نہیں کرسکے گا۔ وہاں سینکڑوں اونٹ پلتے تھے۔ اتفاق سے وہاں عرب کے تین مشہور شاعر آگئے جو اکٹھے کسی میلہ پر شعر کہہ کر واپس آرہے تھے۔ وہ جب اس جگہ پہنچے تو حاتم نے اُن کے لیے تین اونٹ ذبح کرڈالے۔ انہوں نے کہا ہم تو صرف تین آدمی ہیں۔ ہمارے لئے ایک ہی اونٹ کافی تھا۔ اِس پر اُس نے جواب دیا کہ اگر میں ایک ہی اونٹ ذبح کرتا تو یہ صرف ایک کی مہمان نوازی ہوتی اور باقی دو طفیلی ہوتے اورمیں مہمانوں میں فرق کرنا پسند نہیںکرتا۔ اس بات کا اِن پر اتنا اثر ہوا کہ انہوں نے اس کے خاندان کی تعریف میں کچھ شعر کہہ دیئے اور اسے سنائے۔ شعر سن کر حاتم نے کہا کہ تم تو بڑے ادیب اور شاعر معلوم ہوتے ہو اور تمہارے یہ شعر ہمارے خاندان کو ہمیشہ کے لیے مشہور کردیں گے۔ اس کے مقابلہ میںہمارے یہ اونٹ ہمیں کوئی شہرت نہیں دے سکتے۔ اس لئے تم قرعہ ڈال کر یہ سب اونٹ آپس میں تقسیم کرلو اور لے جائو چنانچہ وہ لے گئے۔ کسی نے حاتم کے باپ کو بھی اس کی خبر کر دی۔ چنانچہ وہ آیا اور اس نے پوچھا کہ تم نے یہ کیا کیا؟ حاتم نے جواب دیا کہ تمہارے یہ اونٹ تمہیں کتنا مشہور کرسکتے تھے۔ اگر یہ اونٹ ہوتے تو تمہیں کونسی خاص شہرت ہوجاتی۔ جبکہ تھوڑے تھوڑے فاصلہ پر کئی ایسے لوگ ہیں جو بہت بہت اونٹوں کے مالک اور امیر ہیں مگر دیکھو یہ شعر اَوروں کو کہاں نصیب ہوسکتے ہیں۔ یہ تومیں نے تمہارے لئے ایک ایسا شہرت کا ذخیرہ مہیا کردیا ہے جس کے مقابلہ میں اونٹوں کی کوئی حقیقت ہی نہیں۔ آخر تنگ آکر اُس کے باپ نے اُسے عاق کردیا اور خود کسی اور طرف نکل گیا۔ پس ایسا شخص اگر اسلام میں داخل ہوجائے اور صدقہ و خیرات کرے تو یقیناً یہ اس کا نیک کام ہوگا مگر یہ اُس کی کامل نیکی نہیں ہوگی کیونکہ اس میں اس کی فطرت کے میلان کا بھی دخل ہے۔ اسی طرح اگر دنیا کے مشہور جری اور بہادر جیسے ایشیائی پہلوانوں میں رُستم اور اسفند یار ہیں، اسلام میں داخل ہوکر اپنے اوقات لڑائیوں میں گزاریں تو بے شک ہم کہیں گے کہ وہ جہاد کرتے ہیں مگر اُن کا یہ جہاد اس پایہ کی نیکی نہیں ہوگی جتنی اُس شخص کی جو لڑائی میں جانا پسند نہیں کرتا۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں مومنو ں کے متعلق سورئہ انفال میں فرمایا ہے کہ وہ لڑائی کے لیے ایسی حالت میں نکلتے ہیں کہ وَاِنَّ فَرِیْقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ لَکَارِھُوْنَ (الانفال: ۶)یعنی ان میں سے ایک بڑا گروہ اس سے نفرت کررہا ہوتا ہے۔ بعض لوگ اس کے یہ معنی کرتے ہیں کہ صحابہ کرام لڑائی سے جی چراتے تھے، مگر یہ درست نہیں۔ صحابہؓ نے اپنے عمل سے ثابت کردیا کہ وہ اپنی جانوں کو ہرگز اسلام کے مقابلہ میں عزیز نہیں جانتے تھے۔ پس کراہت کے معنے اِس جگہ یہ ہیں کہ وہ لڑائی سے نفرت کرتے تھے۔ اس لئے کہ اس میں دوسرے لوگ مارے جائیں گے اور ان دونوں قسم کی کراہتوں میں بڑا فرق ہے۔ ایک کراہت اس شخص کی ہے جو سمجھتا ہے کہ میں نہ مارا جائوں، وہ بُزدل ہے اور ایک اس لئے کراہت کرتا ہے کہ انسانی جانیں ضائع ہوں گی اور مرجانے والوں کے لیے ہدایت کا کوئی موقع باقی نہیں رہے گا۔ یہ اعلیٰ بہادری اور شرافت نفس کی دلیل ہے۔ پس جو شخص لڑائی اور دنگا فساد کو پسند کرتا ہے وہ اگر جہاد میں شامل ہو تو یہ اس کی نیکی تو ضرور ہوگی مگر اُس پایہ کی نہیں جتنی اس شخص کی جو دنگا فساد اور قتل و خونریزی کو ناپسند کرتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے صحابہ کے لیے وَھُمْ کٰرِھُوْنَ بمقام مدح میں بیان کیا ہے۔ وہ جانتا تھا کہ کسی زمانہ میں ان پر یہ الزام لگایا جائے گا۔ جیسے آجکل یورپین مؤرخ کرتے ہیں کہ وہ لوگ لُوٹ مارکو پسند کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ صحیح نہیں بلکہ وہ تو لڑائی کو دل سے ناپسند کرتے تھے اور صرف اس صورت میں لڑتے تھے کہ جب دیکھتے کہ اب کافروں نے ان کے لیے اس سے بچنے کا کوئی رستہ نہیں چھوڑا۔ تو یہ ان کی نیکی بیان کی گئی ہے کہ وہ مجبور ہوکر لڑتے تھے ورنہ وہ کسی کو دکھ دینا پسند نہیں کرتے تھے۔ چنانچہ اس کی عملی مثال رسول کریم ﷺ کی زندگی میں ہمیں ملتی ہے۔ باوجود اس کے کہ آپ نے درجن بھر سے زیادہ لڑائیوں میں حصہ لیا اور باوجود اس کے کہ آپ شدید معرکوں میں جو بلحاظ قتل و خونریزی کے شدید تھے، اگرچہ ان میں حصہ لینے والوں کی تعداد زیادہ نہ ہو، کمان کرتے رہے۔ مگر سوائے ایک کے کوئی شخص آپ کے ہاتھ سے مارا نہیں گیا اور وہ بھی اس لئے کہ اس نے خود آپ کے ہی ہاتھ سے مارے جانے پر زور دیا۔ آپ خود اسے بھی مارنا پسند نہ کرتے تھے۔ صحابہ اس کے مقابلہ پر آتے مگر وہ سب سے کہتا کہ تم ہٹ جائو میرا مقابلہ محمد سے ہے اورمیں تم میں سے کسی سے نہیں لڑوں گا۔ یہ دیکھ کر رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ اسے آنے دو۔ ورنہ آپ پر نَعُوْذُ بِاللّٰہِ بُزدلی کا الزام لگتا اور غیرت کے خلاف فعل سمجھا جاتا۔ اور جب وہ آگے آیا تو آپ نے اُسے قتل کرنے کی نیت سے نہیں بلکہ صرف اُس کے حملہ کو روکنے کے لیے نیزہ کی اَنی چبھوئی اور اسی سے اللہ تعالیٰ نے اسے اتنا شدید درد پید اکردیا کہ وہ میدانِ جنگ سے بھاگ گیا اور بعد میں مرگیا۔ (سیرت ابن ہشام جلد۳ صفحہ۸۹ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء )گویا اسے بھی آپ نے قتل نہیں کیا بلکہ صرف زخمی کیا اور یہ اتنی عظیم الشان بات ہے کہ دنیا کی کسی تاریخ میں اس کی مثال نہیں مل سکتی کہ کوئی جرنیل اور کمانڈر اِس قدر معرکوں میں شامل ہوا ہو اور اسکے ہاتھ سے صرف ایک ہی شخص مارا گیا ہو۔ تو صحابہ عام طور پر اور آنحضرت ﷺ خاص طور پر لڑائی کو ناپسند کرتے تھے مگر باوجود اس کے ان کو لڑائیاں کرنی پڑتی تھیں۔اس لئے کہ دشمن ان کو مجبور کردیتے تھے۔ اِلَّامَاشَاءَ اللّٰہُ بعض اس کے برعکس بھی ہوں گے جو لڑائی کو پسند کرتے ہوں گے اور تیز طبیعت بھی ہوں گے مگر مستثنیات ہمیشہ قانون کو ثابت کرتی ہیں رد نہیں کرتیں۔(جاری ہے)