متفرق مضامین

مَاکَانَ مُحَمَّدٌاَبَآ اَحَدٍمِّنْ رِّجَالِکُمْ…رسول اللہﷺکی حقیقی اولاد

(ابن قدسی)

انبیاءکی حقیقی اولاد تو ان کی روحانی اولاد ہوتی ہےاس لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کو قیامت تک باقی رہنے والی اولاد عطا فرمائی

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں اولاد کے حوالے سے بیان فرماتا ہے کہ لِلّٰہِ مُلۡکُ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ ؕ یَخۡلُقُ مَایَشَآءُؕیَہَبُ لِمَنۡ یَّشَآءُ اِنَاثًا وَّیَہَبُ لِمَنۡ یَّشَآءُ الذُّکُوۡرَ اَوۡ یُزَوِّجُہُمۡ ذُکۡرَانًا وَّاِنَاثًا ۚ وَیَجۡعَلُ مَنۡ یَّشَآءُ عَقِیۡمًا ؕ اِنَّہٗ عَلِیۡمٌ قَدِیۡرٌ (الشورىٰ:51،50)آسمانوں اور زمىن کى بادشاہت اللہ ہى کى ہے وہ جو چاہتا ہے پىدا کرتا ہے جسے چاہتا ہے لڑکىاں عطا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے لڑکے عطا کرتا ہے۔ ىا کبھى اُنہىں باہم ملا جُلا دىتا ہے کچھ نر اور کچھ مادہ نىز جسے چاہے اُسے بانجھ بنادىتا ہے ىقىناً وہ دائمى علم رکھنے والا (اور) دائمى قدرت والا ہے۔

اولاد کا ملنا یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل واحسان ہے۔اور فضل واحسان انبیاء کرام پر بھی ہوتا ہے۔فرمایا کہوَلَقَدۡ اَرۡسَلۡنَا رُسُلًا مِّنۡ قَبۡلِکَ وَجَعَلۡنَا لَہُمۡ اَزۡوَاجًا وَّذُرِّیَّۃً(الرعد:39)اور ہم نے ىقىناً تجھ سے پہلے بہت سے رسول بھىجے اور ہم نے ان کے لیےبىوىاں بنائىں اور ذرّىّت بھى۔

انبیاء سے روحانی تعلق کی زیادہ اہمیت

انبیاءکواللہ تعالیٰ اولادکی نعمت سے نوازتا ہےلیکن انبیاء سےروحانی تعلق کی زیادہ اہمیت ہوتی ہے۔ حضرت نوح علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا کہ عذاب الٰہی سے ان کے اہل یعنی گھر والے محفوظ رہیں گے۔جب طوفان آیا اور آپ علیہ السلام کا بیٹا اس میں ڈوبنے لگا تو آپ علیہ السلام نےاللہ تعالیٰ کے حضور عرض کیا کہوَنَادٰی نُوۡحٌ رَّبَّہٗ فَقَالَ رَبِّ اِنَّ ابۡنِیۡ مِنۡ اَہۡلِیۡ وَاِنَّ وَعۡدَکَ الۡحَقُّ وَاَنۡتَ اَحۡکَمُ الۡحٰکِمِیۡنَ۔ قَالَ یٰنُوۡحُ اِنَّہٗ لَیۡسَ مِنۡ اَہۡلِکَ ۚ اِنَّہٗ عَمَلٌ غَیۡرُ صَالِحٍ ٭۫ۖ فَلَا تَسۡـَٔلۡنِ مَا لَـیۡسَ لَکَ بِہٖ عِلۡمٌ ؕ اِنِّیۡۤ اَعِظُکَ اَنۡ تَکُوۡنَ مِنَ الۡجٰہِلِیۡنَ۔ قَالَ رَبِّ اِنِّیۡۤ اَعُوۡذُ بِکَ اَنۡ اَسۡـَٔلَکَ مَا لَـیۡسَ لِیۡ بِہٖ عِلۡمٌ ؕ وَاِلَّا تَغۡفِرۡ لِیۡ وَتَرۡحَمۡنِیۡۤ اَکُنۡ مِّنَ الۡخٰسِرِیۡنَ۔قِیۡلَ یٰنُوۡحُ اہۡبِطۡ بِسَلٰمٍ مِّنَّا وَبَرَکٰتٍ عَلَیۡکَ وَعَلٰۤی اُمَمٍ مِّمَّنۡ مَّعَکَ ؕ وَاُمَمٌ سَنُمَتِّعُہُمۡ ثُمَّ یَمَسُّہُمۡ مِّنَّا عَذَابٌ اَلِیۡمٌ(هود: 46تا49)اور نوح نے اپنے ربّ کو پکارا اور کہااے مىرے ربّ! ىقىناً مىرا بىٹا بھى مىرے اہل مىں سے ہے اور تىرا وعدہ ضرور سچا ہے اور تُو فىصلہ کرنے والوں مىں سے سب سے بہتر ہے۔اس نے کہا اے نوح! ىقىناً وہ تىرے اہل مىں سے نہىں بلاشبہ وہ تو سراپا اىک ناپاک عمل تھا پس مجھ سے وہ نہ مانگ جس کا تجھے کچھ علم نہىں مىں تجھے نصىحت کرتا ہوں مبادا تُو جاہلوں مىں سے ہو جائے۔

ظاہر ہے شرعی اور قانونی طور پر بیٹا ہی گھروالوں میں شامل ہوتا ہے اسی وجہ سے حضرت نوح علیہ السلام نے طوفان سے بچانے کے لیے اپنے بیٹے کو اہل میں شمار کرکے اللہ تعالیٰ کے حضور عرض کیاکہ میرا بیٹا میرے اہل میں شامل ہے اور میرے اہل کو بچانے کا وعدہ تھا اس پر اللہ تعالیٰ نے غیر صالح بیٹے کو اس کے اعمال کی وجہ سےحضرت نوح علیہ السلام کی روحانی اولاد میں شامل نہیں کیا۔اسی وجہ سےحضرت نوح علیہ السلام سے کیا گیا وعدہ ان کے حقیقی بیٹے کے حق میں پورا نہیں ہوا۔اس سےپتا چلا کہ نبی کی روحانی اولاد ہی اصل میں اس کی حقیقی اولاد ہوتی ہے۔نبی کی نسل اس کے وہ امتی ہوتے ہیں جو روحانی لحاظ سے اس سے تعلق رکھتے ہیں۔رسول کریمﷺکو بھی اللہ تعالیٰ نے اولاد کی نعمت سے نوازا لیکن آپﷺ کی اولادکے حوالے سےایک خاص بات کا ذکرسورۃ الاحزاب میں کچھ اس طرح ہے کہمَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَكِنْ رَسُوْلَ اللّٰهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّيْنَ وَكَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمًا (الاحزاب:41)یعنی محمد تمہارے (جىسے) مَردوں مىں سے کسى کا باپ نہىں بلکہ وہ اللہ کا رسول ہے اور سب نبىوں کا خاتَم ہے اور اللہ ہر چىز کا خوب علم رکھنے والا ہے۔رسول کریمﷺ کو اولاد کی نعمت تو عطا ہوئی لیکن کوئی بیٹا بلوغت یعنی مرد کہلانے کی عمر تک نہیں پہنچا۔اس پر طبعاً یہی نتیجہ نکلتا تھا کہ آپﷺ کی نسل آگےنہیں چلی لیکن انبیاءکی حقیقی اولاد تو ان کی روحانی اولاد ہوتی ہے۔اس لحاظ اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کو قیامت تک باقی رہنے والی اولاد عطا فرمائی۔

روحانی طور پر باپ

حضرت مسیح موعودعلیہ السلام فرماتے ہیں کہ’’ مَاکَانَ مُحَمَّدٌ اَبَآ اَحَدٍمِّنْ رِّجَالِکُمْ وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے جسمانی طور سے آپؐ کی اولاد کی نفی بھی کی ہے اور ساتھ ہی روحانی طور سے اثبات بھی کیا ہے کہ روحانی طور سے آپ باپ بھی ہیں اور روحانی نبوت اور فیض کا سلسلہ آپؐ کے بعد جاری رہے گا اور وہ آپ میں سے ہوکر جاری ہوگا نہ الگ طور سے۔ وہ نبوت چل سکے گی جس پر آپؐ کی مہر ہو گی۔ ورنہ اگر نبوت کا دروازہ بالکل بند سمجھا جاوے تو نعوذباللہ اس سے تو انقطاع فیض لازم آتا ہے اور اس میں تو نحوست ہے اور نبی کی ہتک شان ہوتی ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ نے اس اُمت کو یہ جو کہا کہ کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اگر یہ معنے کئے جاویں کہ آئندہ کے واسطے نبوت کا دروازہ ہر طرح سے بند ہے تو خیر الامۃ کی بجائے شر الامم ہوئی یہ امت۔ جب اس کو اللہ تعالیٰ سے مکالمات اور مخاطبات کا شرف بھی نصیب نہ ہوا تو یہ کَالْاَنْعَامِ بَلْ ھُمْ اَضَلُّ ہوئی اور بہائم سیرت اسے کہنا چاہیے نہ یہ کہ خَیْرُ الْاُمَم… نہیں بلکہ آنحضرتﷺ کی نبوت کا سلسلہ جاری ہے مگر آپؐ میں سے ہو کر اور آپؐ کی مہر سے۔اور فیضان کا سلسلہ جاری ہے۔ ہزاروں اس امت سے مکالمات اور مخاطبات کے شرف سے مشرف ہوئے اور انبیاء کے خصائص ان میں موجود ہوتے رہے۔‘‘(الحکم جلد 7نمبر14مورخہ17؍اپریل 1903ء صفحہ 8)

آپﷺ کے روحانی بچے

حضرت مسیح موعودعلیہ السلام فرماتے ہیں کہ’’غور کی نظر سے معلوم ہوتا ہے کہ بیضۂ بشریت کے روحانی بچے جو روح القدس کی معرفت آنحضرتﷺ کی متابعت کی برکت سے پیدا ہوئے وہ اپنی کمیت اورکیفیت اور صورت اور نوع اور حالت میں تمام انبیاء کے بچوں سے اتم اور اکمل ہیں۔ اسی کی طرف اشارہ ہے جو اللہ جل شانہ فرماتا ہے کُنْتُمْ خَیْرَ اُمّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ یعنی تم سب امتوں سے بہتر ہو جو لوگوں کی اصلاح کے لیے پیدا کیے گئے ہو۔‘‘(آئینہ کمالات اسلام،روحانی خزائن جلد 5صفحہ 197)

آپﷺ آدم ثانی

حضرت مسیح موعودعلیہ السلام فرماتے ہیں کہ’’بلاشبہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم روحانیت قائم کرنے کے لحاظ سے آدم ثانی تھے بلکہ حقیقی آدم وہی تھے جن کے ذریعہ اور طفیل سے تمام انسانی فضائل کمال کو پہنچے اور تمام نیک قوتیں اپنے اپنے کام میں لگ گئیں اور کوئی شاخ فطرت انسانی کی بے بار وبر نہ رہی اور ختم نبوت آپ پر نہ صرف زمانہ کے تاخر کی وجہ سے ہوا بلکہ اس وجہ سے بھی کہ تمام کمالات نبوت آپ پر ختم ہوگئے۔‘‘(لیکچر سیالکوٹ، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 207)

روحانی نسل کا انقطاع نہیں

حضرت مسیح موعودعلیہ السلام فرماتے ہیں کہ’’ خَاتَمَ النَّبِيّٖنَ کی آیت بتلا رہی ہے کہ جسمانی نسل کا انقطاع ہے نہ کہ روحانی نسل کا۔ اس لئے جس ذریعہ سے وہ نبوت کی نفی کرتے ہیں اسی سے نبوت کا اثبات ثابت ہے۔ آنحضرت کی چونکہ کمال عظمت خداتعالیٰ کو منظور تھی اس لئے لکھ دیا کہ آئندہ نبوت آپؐ کی اتباع کی مہر سے ہوگی اور اگر یہ معنے ہوں کہ نبوت ختم ہے تو اس سے خداتعالیٰ کے فیضان کے بخل کی بو آتی ہے ہاں یہ معنے ہیں ہر ایک قسم کا کمال آنحضرتؐ پر ختم ہوا اور پھر آئندہ آپؐ کی مہر سے وہ کمال آپؐ کی امت کو ملا کریں گے۔‘‘(البدر جلد 2 نمبر 13 مورخہ 17؍ اپریل 1903 ء صفحہ 99)

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بیٹا اورآپؐ کا وارث

حضرت مسیح موعودعلیہ السلام فرماتے ہیں کہ’’لٰکن کا لفظ زبان عرب میں استدراک کے لئے آتا ہے یعنی تدارک مافات کے لئے۔ سو اِس آیت کے پہلے حصّہ میں جو امر فوت شدہ قرار دیا گیا تھا یعنی جس کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے نفی کی گئی تھی وہ جسمانی طور سے کسی مرد کا باپ ہونا تھا۔ سو لٰکن کے لفظ کے ساتھ ایسے فوت شدہ امر کا اِس طرح تدارک کیا گیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم الانبیاء ٹھہرایا گیا جس کے یہ معنی ہیں کہ آپ کے بعد براہِ راست فیوض نبوت منقطع ہوگئے۔ اور اب کمال نبوت صرف اُسی شخص کو ملے گا جو اپنے اعمال پر اتباع نبوی کی مہر رکھتا ہوگا اور اِس طرح پر وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بیٹا اور آپ کا وارث ہوگا۔ غرض اِس آیت میں ایک طور سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے باپ ہونے کی نفی کی گئی اور دوسرے طور سے باپ ہونے کا اثبات بھی کیا گیا تا وہ اعتراض جس کا ذکر آیت اِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْاَبْتَرُ( الکوثر : 4)میں ہے دُور کیا جائے۔ ماحصل اِس آیت کا یہ ہوا کہ نبوت گو بغیر شریعت ہو۔ اِس طرح پر تو منقطع ہے کہ کوئی شخص براہِ راست مقامِ نبوت حاصل کرسکے لیکن اِس طرح پر ممتنع نہیں کہ وہ نبوت چراغ نبوت محمدیہ سے مکتسب اور مستفاض ہو یعنی ایسا صاحب کمال ایک جہت سے تو اُمّتی ہو اور دوسری جہت سے بوجہ اکتساب انوارِ محمدیہ نبوت کے کمالات بھی اپنے اندر رکھتا ہو اور اگر اِس طور سے بھی تکمیل نفوس مستعدہ اُمّت کی نفی کی جائے تو اِس سے نعوذ باللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دونوں طور سے ابتر ٹھہرتے ہیں نہ جسمانی طورپر کوئی فرزند نہ روحانی طور پر کوئی فرزند اور معترض سچا ٹھہرتا ہے جو آنحضرت صلعم کا نام ابتر رکھتا ہے۔‘‘ (ریویو مباحثہ، روحانی خزائن جلد19،صفحہ نمبر215)

جسمانی ابوت کی نفی لیکن روحانی ابوت کا استثنا

حضرت مسیح موعودعلیہ السلام فرماتے ہیں کہ’’یہ کہتے ہیں کہ خدا نے میرا نام نبی رکھا۔ یہ بالکل سچی بات ہے۔ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چشمہ افادات مانتے ہیں۔ ایک چراغ اگر ایسا ہو جس سے کوئی دوسرا روشن نہ ہو وہ قابلِ تعریف نہیں ہے مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہم ایسا نور مانتے ہیں کہ آپ سے دوسرے روشنی پاتے ہیں۔یہ جو خداتعالیٰ نے فرمایا ہے مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِيّٖنَ یہ بالکل درست ہے۔ خداتعالیٰ نے آپؐ کی جسمانی ابوت کی نفی کی لیکن آپؐ کی روحانی ابوت کا استثنا کیا ہے اگر یہ مانا جاوے جیساکہ ہمارے مخالف کہتے ہیں کہ آپؐ کا نہ کوئی جسمانی بیٹا ہے نہ روحانی تو پھر اس طرح پر معاذ اللہ یہ لوگ آپؐ کو ابتر ٹھیراتے ہیں مگر ایسا نہیں۔ آپؐ کی شان تو یہ ہے کہ اِنَّاۤ اَعْطَيْنٰكَ الْكَوْثَرَ فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَ انْحَرْ اِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْاَبْتَرُ(سورۃ الکوثر2تا4)۔ اللہ تعالیٰ نے ختمِ نبوت کی آیت میں فرمایا ہے کہ جسمانی طور پر آپؐ اَب نہیں مگر روحانی سلسلہ آپؐ کا جاری ہے لٰکِنْ تدارک مافات کے لئے آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ آپؐ خاتم ہیں آپؐ کی مہرِ نبوت کا سلسلہ چلتا ہے۔‘‘(الحکم جلد 6 نمبر37 مورخہ 17؍اکتوبر1902ء صفحہ10تا11)

رُوحانی طور پر آپ کی اولاد بہت ہوگی

حضرت مسیح موعودعلیہ السلام فرماتے ہیں کہ’’زبانِ عرب میں لٰکِنْ کالفظ اِستدراک کے لئے آتا ہے یعنی جو امر حاصل نہیں ہو سکا اس کے حصول کی دوسرے پَیرایہ میں خبر دیتا ہے جس کے رُو سے اس آیت کے یہ معنے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جسمانی نرینہ اولاد کوئی نہیں تھی مگر رُوحانی طور پر آپ کی اولاد بہت ہوگی اور آپ نبیوں کے لئے مُہر ٹھہرائے گئے ہیں۔ یعنی آئندہ کوئی نبوت کا کمال بجز آپ کی پیروی کی مُہر کے کسی کو حاصل نہیں ہوگا۔ غرض اس آیت کے یہ معنے تھے جن کو اُلٹا کر نبوت کے آئندہ فیض سے انکار کر دیا گیا۔ حالانکہ اس انکار میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سراسر مذمّت اور منقصت ہے۔ کیونکہ نبی کا کمال یہ ہے کہ وہ دوسرے شخص کو ظلّی طور پر نبوت کے کمالات سے متمتّع کردے اور رُوحانی امور میں اس کی پوری پرورش کر کے دکھلاوے۔ اِسی پرورش کی غرض سے نبی آتے ہیں اور ماں کی طرح حق کے طالبوں کو گود میں لے کر خدا شناسی کا دودھ پلاتے ہیں۔ پس اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس یہ دودھ نہیں تھا تو نعوذ باللہ آپ کی نبوت ثابت نہیں ہوسکتی۔ مگر خداتعالیٰ نے تو قرآن شریف میں آپ کا نام سراج منیر رکھا ہے جو دوسروں کو روشن کرتا ہے اور اپنی روشنی کا اثر ڈال کر دوسروں کو اپنی مانند بنا دیتا ہے۔ اور اگر نعوذ باللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں فیض روحانی نہیں تو پھر دنیا میں آپ کا مبعوث ہونا ہی عبث ہوا۔ اور دوسری طرف خداتعالیٰ بھی دھوکا دینے والا ٹھہرا جس نے دُعا تو یہ سکھلائی کہ تم تمام نبیوں کے کمالات طلب کرو مگر دل میں ہرگز یہ ارادہ نہیں تھا کہ یہ کمالات دیئے جائیں گے۔ بلکہ یہ ارادہ تھا کہ ہمیشہ کے لئے اندھا رکھا جائے گا۔‘‘(چشمہ مسیحی، روحانی خزائن جلد 20صفحہ388تا389)

وہ نبوت محمدؐیہ ہی ہے جوایک پیرایۂ جدید میں جلوہ گر ہوئی

حضرت مسیح موعودعلیہ السلام فرماتےہیں کہ’’پس یہ ممکن نہ تھا کہ وہ قوم جس کے لئے فرمایا گیا کہ كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ اور جن کے لئے یہ دعا سکھائی گئی کہ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ ان کے تمام افراد اس مرتبہ عالیہ سے محروم رہتے اور کوئی ایک فرد بھی اس مرتبہ کو نہ پاتا اور ایسی صورت میں صرف یہی خرابی نہیں تھی کہ اُمّت محمدؐیہ ناقص اور ناتمام رہتی اور سب کے سب اندھوں کی طرح رہتے بلکہ یہ بھی نقص تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت فیضان پر داغ لگتا تھا اور آپ کی قوت قدسیہ ناقص ٹھہرتی تھی۔ اور ساتھ اس کے وہ دعا جس کا پانچ5 وقت نماز میں پڑھنا تعلیم کیا گیا تھا اُس کا سکھلانا بھی عبث ٹھہرتا تھا۔ مگر اس کے دوسری طرف یہ خرابی بھی تھی کہ اگر یہ کمال کسی فرد اُمت کو براہ راست بغیر پیروی نور نبوت محمدیہ کے مل سکتا تو ختم نبوت کے معنے باطل ہوتے تھے پس ان دونوں خرابیوں سے محفوظ رکھنے کے لئے خداتعالیٰ نے مکالمہ مخاطبہ کاملہ تامہ مطہرہ مقدسہ کا شرف ایسے بعض افراد کو عطا کیا جو فنافی الرسول کی حالت تک اتم درجہ تک پہنچ گئے اور کوئی حجاب درمیان نہ رہا اور اُمّتی ہونے کا مفہوم اور پیروی کےمعنے اتم اور اکمل درجہ پر ان میں پائے گئے ایسے طور پر کہ اُن کا وجود اپنا وجود نہ رہا۔ بلکہ اُن کے محویت کے آئینہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود منعکس ہوگیا اور دوسری طرف اتم اور اکمل طور پر مکالمہ مخاطبہ الٰہیہ نبیوں کی طرح اُن کو نصیب ہوا۔پس اس طرح پر بعض افراد نے باوجود اُمتی ہونے کے نبی ہونے کا خطاب پایا کیونکہ ایسی صورت کی نبوت نبوت محمدیہ سے الگ نہیں بلکہ اگر غور سے دیکھو تو خود وہ نبوت محمدؐیہ ہی ہے جو ایک پیرایۂ جدید میں جلوہ گر ہوئی۔ یہی معنے اس فقرہ کے ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسیح موعود کے حق میں فرمایا کہ نَبِیُّ اللّٰہ۔ وَاِمَامُکُمْ مِنْکُمْ یعنی وہ نبی بھی ہے اور اُمّتی بھی ہے ورنہ غیر کو اس جگہ قدم رکھنے کی جگہ نہیں مبارک وہ جو اِس نکتہ کو سمجھے تا ہلاک ہونے سے بچ جائے۔‘‘ (الوصیت روحانی خزائن جلد20، صفحہ نمبر312)

کثرت کے ساتھ آپ ؐکی روحانی اولاد

حضرت مسیح موعودعلیہ السلام فرماتے ہیں کہ’’یہ جو اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو فرمایا اِنَّاۤ اَعْطَيْنٰكَ الْكَوْثَرَ (الکوثر : 2) اس وقت کی بات ہے کہ ایک کافر نے کہا کہ آپؐ کی اولاد نہیں ہے معلوم نہیں اس نے ابتر کا لفظ بولا تھا جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا اِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْاَبْتَرُ ( الکوثر :4)۔ تیرا دشمن ہی بے اولاد رہے گا۔ روحانی طور پر جو لوگ آئیں گے وہ آپؐ ہی کی اولاد سمجھے جائیں گے اور وہ آپؐ کے علوم وبرکات کے وارث ہوں گے اور اس سے حصہ پائیں گے۔ اس آیت کو مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِيّٖنَ کے ساتھ ملا کر پڑھو تو حقیقت معلوم ہوجاتی ہے۔ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانی اولاد بھی نہیں تھی تو پھر معاذ اللہ آپؐ ابتر ٹھہرتےہیں جو آپؐ کے اعداء کے لئے ہے اور اِنَّاۤ اَعْطَيْنٰكَ الْكَوْثَرَ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ کو روحانی اولاد کثیر دی گئی ہے پس اگر ہم یہ اعتقاد نہ رکھیں کہ کثرت کے ساتھ آپ ؐ کی روحانی اولاد ہوئی ہے تو اس پیشگوئی کے بھی منکر ٹھہریں گے۔‘‘(الحکم جلد7 نمبر19 مورخہ 24؍ مئی1903 ء صفحہ 2)

تیرا دشمن اپنے عقائدکوچلانےوالی نسل سے ہمیشہ محروم رہےگا

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ’’پس جس طرح اِنَّاۤ اَعْطَيْنٰكَ الْكَوْثَرَ میں جسمانی اولاد مراد نہیں بلکہ روحانی اولاد مراد ہے اسی طرح اِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْاَبْتَرُ میں بھی جسمانی اولاد مراد نہیں بلکہ روحانی اولاد مراد ہےاور اللہ تعالیٰ اس امر کی طرف اشارہ کر رہا ہے کہ تیرا دشمن اپنے عقائدکوچلانیوالی نسل سے ہمیشہ محروم رہیگالیکن تو صاحب اولادہوگا چنانچہ دیکھ لو عکرمہ جسمانی طور پر ابوجہل کا بیٹا تھا لیکن وہ مسلمان ہو کر محمد رسول اللہﷺ کا بیٹا بن گیا گویا بیٹا ہوتے ہوئے بھی ابو جہل یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ میری اولاد موجود ہے۔آخر سوچنے والی بات ہے کہ رسول کریمﷺ کو ابتر کہنے سے دشمن کی مراد کیا تھی۔اس کی مراد یہی تھی کہ ہمارے عقائد کو ہمارے بعد قائم رکھنے والی اولاد موجود ہے لیکن محمد رسول اللہﷺ کی تعلیم کو قائم رکھنے والی اولاد موجود نہیں۔اس لیے ان کا قائم کردہ سلسلہ جلد ہی تباہ ہوجائے گا لیکن جب ابوجہل کا بیٹا عکرمہ رضی اللہ عنہ مسلمان ہوگیا اور اسلام کے لیے اس نے قربانیاں کیں تو یہ جو دعویٰ ابو جہل نے کیا تھا وہ جھوٹا ہوگیا کیونکہ اس کا اپنا بیٹا محمد رسول اللہﷺ کے عقائد کو پھیلانے لگ گیا….پھر ولید اسلام کا بڑا دشمن تھا وہ سمجھتا تھا کہ میری اولاد میرے عقائد کو قائم رکھے گی لیکن اس کا بیٹا خالد رضی اللہ عنہ مسلمان ہوگیا اور اس نے اسلام کے لیے ایسی شاندار قربانیاں کیں کہ آج بھی ہم بہادری کی مثال دیتے وقت کہتے ہیں کہ تم خالد رضی اللہ عنہ بنو…گویا خالد رضی اللہ عنہ آپﷺ کا بیٹا بن گیا اور ولید اولاد سے محروم ہوگیا۔پھر عاؔص ہے یہ بڈھا رات دن لوگوں کو مسلمانوں کے خلاف اکساتا رہتا تھا اور اسلام کا شدید ترین دشمن تھا مگر اس کے بیٹے حضرت عمرو رضی اللہ عنہ آپﷺ پر ایمان لائے…گویا عاص بے اولاد رہا کیونکہ اس کی اپنی اولاد محمد رسول اللہﷺ کی اولاد بن گئی….

روحانی معنے مراد لیے جائیں تو یہ آیت ایک زندہ حقیقت ثابت ہوتی ہےغرض گو جسمانی اولاد کے لحاظ سے اس آیت کے کوئی معنی نہیں بنتے لیکن اگر روحانی معنے مراد لیے جائیں تو یہ آیت ایک زندہ حقیقت ثابت ہوتی ہے اور ہم کہہ سکتے ہیں کہ ابو جہل لاولد تھا کیونکہ اس کے خیالات اور عقائد کو چلانے والی اولاد موجود نہیں تھی۔وؔلیدلا ولد تھا کیونکہ اس کی اولاد بھی رسول کریمﷺ کی متبع ہوگئی۔عاؔص لا ولد تھا کیونکہ گو اس کی اولاد چلی مگر اس کے عقائد اور خیالات کو اس نے نہیں پھیلایا بلکہ وہ رسول کریمﷺ کی تعلیم پھیلانے میں لگ گئی۔پس یہاں اولاد سے جسمانی اولاد مراد نہیں بلکہ روحانی اولاد ہے اگر جسمانی اولاد مرد لی جائے تو آیت کی دونوں دلالتیں غلط ہوجاتی ہیں کیونکہ اس میں کہا گیا کہ آپ کے دشمن کی نرینہ اولاد نہیں ہوگی حالانکہ اس کی اولاد تھی اور پھر کہا گیا ہے کہ آپﷺ کی نرینہ اولاد ہوگی حالانکہ آپﷺ کی نرینہ اولاد نہیں تھی لیکن اگر روحانی معنے مراد لیے جائیں تو دونوں باتیں صحیح ہوجاتی ہیں….

کیا محمد رسول اللہﷺ نعوذ باللہ اَبْتَرُ ہیں اور کیا اس اعتراض کو خود قرآن کریم نے تسلیم کر لیا

یہی مضمون ایک اور جگہ بھی بیان کیا گیا ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مَاكَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِيّٖنَ وَکَانَ اللّٰہ بِکُل شَیْءٍ عَلِیْماً(احزاب:40)یعنی محمد رسول اللہﷺ تم مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ تعالیٰ کے رسول اور خَاتَمَ النَّبِيّٖنَ ہیں اور اللہ تعالیٰ ہر چیز سے واقف اور آگاہ ہے۔یہ آیت سورہ احزاب کی ہے جو ہجرت کے چوتھے سال میں نازل ہوئی تھی۔اس آیت میں اللہ تعالیٰ یہ مضمون بیان فرماتا ہے کہ محمد رسول اللہﷺ تم مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں لیکن سورۃ کوثر میں جو ابتدائی ایام نبوت میں نازل ہوئی تھی اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا تھا کہ اِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْاَبْتَرُ۔تیرا دشمن ہی نرینہ اولاد سے محروم رہے گا تو نرینہ اولاد سے محروم نہیں ہوگا۔اب بظاہر ان دونوں آیات میں بڑا تضاد نظر آتا تھا اور انسان حیران ہوتا تھا کہ یہ بات کیا ہے کہ وہاں تو کہا گیا تھا کہ رسول کریمﷺ کی نرینہ اولاد ہوگی مگر یہاں یہ کہا گیا ہے کہ آپﷺ کی نرینہ اولاد نہیں ہوگی گویا دوسرے لفظوں میں یوں کہو کہ وہ اعتراض جو کفار مکہ کیا کرتے تھے اور کہتے تھے کہ محمد رسول اللہﷺ نعوذ باللہ اَبْتَرُ ہیں اس اعتراض کو خود قرآن کریم نے تسلیم کر لیا اور کہہ دیا کہ آپﷺ مردوں میں سے کسی کے باپ نہ ہیں نہ آئندہ ہوں گے….مَاكَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ کہہ کر مستقبل کے متعلق بھی پیشگوئی کر دی گئی اور اِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْاَبْتَرُ کی پیشگوئی کی گویا واضح طور پر تردید ہوگئی۔یہ آیات 4 ہجری کے شروع میں نازل ہوئی ہیں۔اس کے بعد 8 ہجری میں حضرت ابراہیم پیدا ہوئے جو 10 ہجری میں فوت ہوگئے۔گویا دشمن کو دو خوشیاں نصیب ہوئیں۔پہلی خوشی تو اس نے ابتر کہہ کر حاصل کی اس کے بعد جبکہ سولہ سال تک آپ کے ہاں اولاد نہ ہوئی اور بظاہر مایوسی ہوگئی۔یہ آیت نازل ہوئی اور دشمن نے یہ کہنا شروع کیا کہ اب چونکہ اولاد سے مایوسی ہوگئی ہے پہلی پیشگوئی کو بدل کر ایک نئی پیشگوئی کر دی گئی ہے تاکہ اس الزام کو کہ آپ کے ہاں اولاد نرینہ نہیںاپنے فائدہ کے لیے استعمال کیا جائے اور کہا جائے کہ گویا نرینہ اولاد کا نہ ہونا ہماری پیشگوئی کے نتیجہ میں ہے اور ہماری سچائی کی علامت ہے لیکن اولاد کا انقطاع جو سولہ سال سے چلا آتا تھا اس پیشگوئی کے نزول کے بعد یکدم ختم ہوگیا اور انیس سال بعد آپ کے ہاں ایک نرینہ اولاد پیدا ہوگئی یعنی حضرت ابراہیم پیدا ہوگئے۔اب پھر دشمن کے لیے ایک اور خوشی کا موقعہ بہم پہنچا کہ دیکھو جو دوسری پیشگوئی کی گئی تھی وہ بھی غلط ہوگئی اور لڑکا پیدا ہوگیا۔کون مسلمان اس وقت کہہ سکتا تھا کہ کیا معلوم یہ لڑکا زندہ بھی رہے گا یا نہیں۔رسول کریمﷺ کی محبت یہ فقرہ زبان پر کب آنے دے سکتی تھی مگر آخر دسویں سال ہجری میں وہ لڑکا بھی فوت ہوگیا اور یہ اعتراض بھی دور ہوگیا لیکن پہلےاعتراض کہ آپ تو کہتے تھے کہ اولاد نرینہ ہوگی باقی رہ گیا۔ اس اعتراض کے جواب میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِيّٖنَ۔لٰکنکا لفظ استدراک کے لیے آتا ہے یعنی پہلے جملہ سے وہ وہم یا شبہ پیدا ہوا اس کا ازالہ اس کے بعد کے جملہ سے کیا جاتا ہے خواہ وہ شبہ خود عبادت سے پیدا ہوتا ہو یا اس کے متعلقات سے پیدا ہوتا ہو۔یہ لٰکن کا لفظ کبھی خالی آتا ہے اور کبھی اس سے پہلے واؤ لایا جاتا ہے جیسے ہے وَ لٰكِنْ پھر کبھی یہ مشدّد ہوتا ہے اور کبھی غیرمشدّد ہوتا ہے لیکن جب بھی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے ازالۂشبہ کے لیے ہی ہوتا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ پہلے فقرہ یعنی مَاكَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ سے کونسا شبہ پیدا ہوتا تھا جس کا ازالہ کرنے کی ضرورت پیش آئی۔سو جیسا کہ اوپر بتایا جا چکا ہے اس جگہ یہ شبہ پیدا ہوتا تھا کہ سورہ کوثر میں تو یہ بتایا گیا تھا کہ آپ کا دشمن ابتر رہیگا اور آپ کے ہاں نرینہ اولاد ہوگی۔مگر اس آیت میں یہ کہا گیا ہے کہ آپ کی بالغ نرینہ اولاد نہ پہلے تھی نہ اب ہے اور نہ آئندہ ہوگی گویا پہلے تو کہا کہ آپ کے ہاں اولاد ہوگی مگر بعد میں اس کے الٹ کہہ دیا کہ اولاد نہیں ہوگی۔اس شبہ کا ازالہ خداتعالیٰ دو لفظوں سے کرتا ہے یعنی رسول اللہ اور خَاتَمَ النَّبِيّٖنَ سے۔یہاں واؤ عطف کا ہے جو اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ جس غرض کے لیے پہلا لفظ یعنی رسول آیا ہے اسی غرض کے لیے دوسرا لفظ یعنی خَاتَمَ النَّبِيّٖنَ لایا گیا ہے۔اردو میں بھی ہم کہتے ہیں۔زید گیا اور بکر۔اور ہمارا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جو فعل زید سے ہوا وہی بکر سے ہوا۔یا کہا جاتا ہے میں نے گوشت کھایا اور روٹی۔اس کا مطلب بھی یہی ہوتا ہے کہ میں نے گوشت بھی کھایا اور روٹی بھی۔پس عطف کے بعد کا جملہ عطف سے پہلے کے جملہ سے معنوں میں شریک ہوتا ہے اس لحاظ سے وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِيّٖنَ میں رسول کا لفظ جس شبہ کے ازالہ کے لیے آیا ہے اسی شبہ کے ازالہ کے لئے خَاتَمَ النَّبِيّٖنَ کا لفظ آیا ہے اور وہ شبہ یہ تھا کہ اگر یہ درست ہے کہ آپ کے ہاں بالغ نرینہ اولاد نہ پہلے تھی نہ اب ہے اور نہ آئندہ ہوگی تو پھر سورۃ کوثر والی پیشگوئی جھوٹی نکلی اور اگر وہ پیشگوئی جھوٹی ثابت ہوئی ہے تو پھر آپﷺ اس کے رسول نہیں ہوسکتے۔اس شبہ کے ازالہ کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایک تو یہ دلیل دی کہ آپ رسول اللہ ہیں یعنی آپ کی رسالت دوسرے بین دلائل سے ثابت ہے کسی ایک دلیل سے آپ خداتعالیٰ کے رسول ثابت نہیں ہوئے آپ کی صداقت کے بیسیوں دلائل ہیں…ان سب دلیلوں کے ہوتے ہوئے اگر ایک دلیل کسی شخص کی سمجھ میں نہیں آئی تو اسے سمجھنا چاہیے کہ ہمیں غلطی لگی ہے یہ بہرحال جھوٹا نہیں۔پس وَ لٰكِنْ رسول اللّٰہ کہہ کر اس اعتراض کا جواب دیا ہے کہ اگر آپﷺ کی نرینہ اولاد زندہ نہیں رہی تو اس سے آپ جھوٹے ثابت ہوتے ہیں۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہارا یہ استدلال بالکل غلط ہے۔باوجود اس کے کہ آیت اِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْاَبْتَرُ کے بظاہر خلاف یہ آیت مضمون رکھتی ہے پھر بھی اس کے سچا ہونے میں شک نہیں کیونکہ یہ رسول اللہ ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک تفصیلی پیغام لایا ہے اگرایک بات میں شک ہو تو تم اورہزاروں پیغاموں کوکدھر لے جاؤگے…اب سوال یہ ہے کہ مان لیا اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ آپ جھوٹے ہیں،آپ بہرحال سچے ہیں اور آپ کی راستبازی پر ہمارا ایمان ہے لیکن ایک کہنے والا کہہ سکتا ہے کہ میرے شبہ کو دورکرنا بھی تو خداتعالیٰ کا کام ہے۔آخر جو مجھے شبہ پیدا ہوا ہے اس کا کیا جواب ہے۔اس کے لیے اللہ تعالیٰ فرماتا ہےو خَاتَمَ النَّبِيّٖنَ۔آپ خَاتَمَ النَّبِيّٖنَ ہیں۔خاتم کےمعنےمہرکے ہوتےہیں اور مہرکی غرض تصدیق کرنا ہوتی ہے…پس نبیوں کی مہر کے یہ معنی ہوئے کہ آپ نبیوں کی تصدیق کرنے والے ہیں جس پر آپ کی مہر ہوگی وہ نبی ہوگا اور جس پر آپ کی مہر نہیں ہوگی وہ نبی نہیں ہوگا۔پھر مہر ہر کسی چیز پر نہیں لگائی جاتی بلکہ صرف اس چیز پر لگائی جاتی ہے جو اپنی ہو پس خَاتَمَ النَّبِيّٖنَ کے الفاظ میں اس طرف اشارہ ہے کہ آپﷺ کے بعد صرف وہ نبوت جاری ہے جو رسول کریمﷺکی متابعت اور غلامی میں ہو۔اگر آپ کے بعد کوئی ایساآدمی کھڑا ہوجاتا ہے جوکہتا ہے کہ رسول کریمﷺ کی نبوت نعوذ باللہ ختم ہوگئی ہے تو وہ جھوٹا ہے کیونکہ آپ کی نبوت کا زمانہ قیامت تک ختم نہیں ہوسکتا۔بلکہ اگروہ کہتا ہے کہ میں نبوت میں رسول کریمﷺ کے برابر ہوں تب بھی وہ جھوٹا ہے کیونکہ کوئی شخص درجہ میں آپ کے برابر بھی نہیں ہوسکتا۔لیکن وہ شخص جو کہتا ہے کہ مجھے خداتعالیٰ نے اس مقام پر اس لیے فائز کیا ہے تا میں محمد رسول اللہﷺ کے لائے ہوئے دین کی اشاعت کروں اور مجھے جو کچھ ملا ہے محمد رسول اللہﷺ کی غلامی اور اطاعت میں ملا ہے اگر قرآن کریم اور احادیث نبوی اس کی تصدیق کریں تو اس کا دعویٰ نبوت سچا ہوگا کیونکہ ایسے شخص پر محمد رسول اللہﷺ کی مہر ہوگی اور جس پر محمد رسول اللہﷺ کی مہرہو وہ امتی اور شاگرد ہونے کی وجہ سے آپ کا روحانی بیٹاہوگا اور درحقیقت یہی وہ بیٹا تھا جس کی رسول کریمﷺ کو سورۃ کوثر میں بشارت دی گئی مگر لوگوں نے غلطی سے اسے ظاہر ی اولاد پر چسپاں کر لیا۔اللہ تعالیٰ سورۃ الاحزاب میں اس شبہ کا ازالہ کرتےہوئے فرماتا ہے کہ یہ تمہاری اپنی غلطی تھی کہ تم نے اس آیت کوظاہری اولادپر چسپاں کر لیا ہماری مراد تو روحانی اولاد سے تھی اور ہم یہ بتانا چاہتے تھے کہ یہ مقام صرف محمد رسول اللہﷺ کو ہی حاصل ہے کہ آپ کی غلامی اور متابعت میں انسان نبوت کا مقام بھی حاصل کرسکتا ہے جو مقام صرف مردوں کو ملتا ہے عورتوں کونہیں۔پس ایسے شخص کے پیدا ہونے سے ثابت ہوجائیگا کہ محمد رسول اللہﷺ روحانی اولاد کےباپ ہیں اور آپ کا دشمن اس اولاد سےمحروم ہوگا گویاآپ کی روحانی اولاد کا سلسلہ ہمیشہ ایسے رنگ میں جاری رہیگا کہ آپ کی غلامی میں انسان بڑے سےبڑا روحانی مقام بھی حاصل کر سکے گا اور یہ ثبوت ہوگا اس بات کا کہ آپ کو تو اللہ تعالیٰ نے اولاد نرینہ عطا فرمائی ہے مگر آپ کا دشمن اس سے کلی طور پر محروم ہے۔‘‘(تفسیرکبیرجلد نمبر 10 صفحہ نمبر369 تا 375،تفسیر سورۃ الکوثر)

رسول کریمﷺ کی ازواج مطہرات مسلمانوں کی مائیں

اللہ تعالیٰ فرماتاہے: النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ وَأُولُو الْأَرْحَامِ بَعْضُهُمْ أَوْلَى بِبَعْضٍ فِي كِتَابِ اللّٰهِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُهَاجِرِينَ إِلَّا أَنْ تَفْعَلُوا إِلَى أَوْلِيَائِكُمْ مَعْرُوفًا كَانَ ذَلِكَ فِي الْكِتَابِ مَسْطُورًا (الاحزاب: 7)نبى مومنوں پر اُن کى اپنى جانوں سے بھى زىادہ حق رکھتا ہے اور اُس کى بىوىاں اُن کى مائىں ہىں اور جہاں تک رِحمى رشتے والوں کا تعلق ہے تو ان مىں سے بعض اللہ کى کتاب مىں (مندرج احکام کے مطابق) بعض پر اوّلىت رکھتے ہىں بہ نسبت دوسرے مومنىن اور مہاجرىن کے سوائے اس کے کہ تم اپنے دوستوں سے (بطور احسان) کوئى نىک سلوک کرو ىہ سب باتىں کتاب مىں لکھى ہوئى موجود ہىں۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتےہیں کہ ’’یہاں ایک اور بات بھی مدنظر رکھنے والی ہے اور وہ یہ کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ رسول کریمﷺ کی ازواج مطہرات کو مسلمانوں کی مائیں قرار دیتا ہے جب وہ مومنوں کی مائیں ہوئیں تو لازماً محمد رسول اللہﷺ مومنوں کے باپ ہوئے اور تمام مومن آپ کی اولاد میں شامل ہوگئے۔‘‘(تفسیرکبیرجلد نمبر 10 صفحہ نمبر370،تفسیر سورۃ الکوثر)

سگے رشتوں سے زیادہ روحانی رشتہ عزیز

عبداللہ بن اُبی بن سلول رئیس المنافقین نے کسی وجہ سے ایک غزوہ سے واپسی پر رسول کریمﷺکے حوالے سے کہا کہ اللہ کی قسم اگر ہم مدینہ لوٹے تو مدینہ کا معزز ترین شخص مدینہ کے ذلیل ترین شخص کو نکال باہر کرے گا (نعوذ باللہ)۔قرآن کریم نے اس بات کو ان الفاظ میں بیان کیا يَقُوْلُوْنَ لَئِنْ رَجَعْنَا إِلَى الْمَدِيْنَةِ لَيُخْرِجَنَّ الْأَعَزُّ مِنْهَا الْأَذَلَّ وَلِلّٰهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُوْلِهِ وَلِلْمُؤْمِنِيْنَ وَلَكِنَّ الْمُنَافِقِيْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ(المنافقون:9)وہ کہتے ہىں اگر ہم مدىنہ کى طرف لوٹىں گے تو ضرور وہ جو سب سے زىادہ معزز ہے اُسے جو سب سے زىادہ ذلىل ہے اس مىں سے نکال باہر کرے گا حالانکہ عزت تمام تر اللہ اور اس کے رسول کى ہے اور مومنوں کى، لىکن منافق لوگ جانتے نہىں۔یہ بات عبد اللہ بن ابی کے بیٹےکو معلوم ہوئی جو ایک مخلص مسلمان تھے۔انہوں نے مدینہ داخل ہونے سے پہلے رسول کریمﷺ سے اپنے باپ کو قتل کرنے کی اجازت چاہی۔لیکن آپﷺ نے فرمایا کہ مَیں تمہارے باپ کے ساتھ نرمی اور احسان کا معاملہ کروں گا۔(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام غزوہ بنی المصطلق، طلب ابن عبداللہ بن ابی ان یتولی قتل ابیہ… صفحہ 672 دارالکتب العلمیۃ بیروت ایڈیشن 2001ء)ابن سعدنے ان الفاظ میں یہ واقعہ بیان کیا ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو کُوچ کا حکم دیا تو عبداللہ بن ابی کے بیٹے حضرت عبداللہؓ نے اپنے والد کا راستہ روک لیا اور اونٹ سے نیچے اتر آئے اور اپنے والد سے کہنے لگے کہ جب تک تم یہ اقرار نہیں کرتے کہ تُو ذلیل ترین اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) عزیز ترین ہیں تب تک مَیں تجھے نہیں چھوڑوں گا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پاس سے گزرے تو آپؐ نے فرمایا اسے چھوڑ دو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی دیکھ لیا۔ فرمایا اسے چھوڑ دو۔ آپؐ نے فرمایا کہ میری عمر کی قسم ! ہم اس سے ضرور اچھا برتاؤ کریں گے جب تک یہ ہمارے درمیان زندہ ہے۔(الطبقات الکبریٰ جزء 2 صفحہ 50 غزوۃ رسول اللّٰہ المریسیع، دارالکتب العلمیۃ بیروت 1990ء)رسول کریمﷺکی روحانی اولاد آپﷺ کے لیے ہر طرح کی قربانی کرنے کے لیے تیاررہتی تھی۔اور وہ سگے رشتوں سے زیادہ روحانی رشتہ کا خیال رکھنے والی تھی۔حضرت زیدؓ بن حارثہ رسول اللہﷺ کےغلام تھے۔ آپؓ کے والد حارثہ اورچچا کعب مکہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور فدیہ کے بدلہ اپنے لڑکے حضرت زید کی آزادی کی درخواست کی۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے زیدؓ کو بلا کر ان کی رائے طلب کی تو حضرت زیدنے اپنے والد اور چچا کے ساتھ جانے سے انکار کر دیا۔(ماخوذ از سیر الصحابہ جلد دوم صفحہ 165تا 168 زید بن حارثہ مطبوعہ دار اشاعت کراچی)

ایسا عشق میں نے کسی شخص میں نہیں دیکھا

حضرت صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃالسلام کی پہلی بیوی سے سب سے بڑے بیٹے تھے۔ آپ حضورؓ کی زندگی میں جماعت احمدیہ میں داخل نہیں ہوئے تھے۔بلکہ آپ نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں بیعت کی۔ آپ کے قبول احمدیت سے پہلے زمانہ کی بات ہے کہ ان سے ایک دفعہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے حضرت مسیح موعودؑ کے اخلاق و عادات کے متعلق پوچھا تو انہوں نے اس پر فرمایا کہ’’ایک بات میں نے والد صاحب (یعنی حضرت مسیح موعودؑ) میں خاص طور پر دیکھی ہے وہ یہ کہ آنحضرتﷺ کے خلاف والد صاحب ذرا سی بات بھی برداشت نہیں کر سکتے تھے اگر کوئی شخص آنحضرتؐ کی شان کے خلاف ذرا سی بات بھی کہتا تھا تووالد صاحب کا چہرہ سرخ ہو جاتا تھا اور غصے سے آنکھیں متغیر ہونے لگتی تھیں اور فوراً ایسی مجلس سے اٹھ کر چلے جاتے تھے آنحضرتﷺ سے تو والد صاحب کو عشق تھا۔ایسا عشق میں نے کسی شخص میں نہیں دیکھا اور مرزا سلطان احمد صاحب نے اس بات کو بار بار دھرایا۔‘‘(سیرت طیبہ صفحہ34 از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم۔اےؓ اپریل 1960ء)

کن لوگوں سے صلح نہیں

’’جو لوگ ناحق خدا سے بے خوف ہو کر ہمارے بزرگ نبی حضرت محمد مصطفیٰﷺ کو برے الفاظ سے یاد کرتے اور آنجناب پر ناپاک تہمتیں لگاتے اور بدزبانی سے باز نہیں آتے ہیں ان سے ہم کیونکر صلح کریں۔میں سچ سچ کہتا ہوں کہ ہم شورہ زمین کے سانپوں اور بیابانوں کے بھیڑیوں سے صلح کر سکتے ہیں، لیکن ان لوگوں سے ہم صلح نہیں کر سکتے جو ہمارے پیارے نبی پر جو ہمیں اپنی جان اور ماں باپ سے بھی پیارا ہے ناپاک حملے کرتے ہیں۔خدا ہمیں اسلام پر موت دے ہم ایسا کام کرنا نہیں چاہتے جس میں ایمان جاتا رہے۔‘‘(پیغام صلح،روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 459)سب سے زیادہ دکھ پہنچانےوالی چیز۔

’’مخالفین نے ہمارے رسولﷺ کے خلاف بیشمار بہتان گھڑے ہیں اور اپنے اس دجل کے ذریعہ ایک خلقِ کثیر کو گمراہ کر کے رکھ دیا ہے۔ میرے دل کو کسی چیز نے کبھی اتنا دکھ نہیں پہنچایا جتنا کہ ان لوگوں کے اس ہنسی ٹھٹھا نے پہنچایا ہے جو وہ ہمارے رسول پاکﷺ کی شان میں کرتے رہتے ہیں۔ان کے دلآزار طعن وتشنیع نے جو وہ حضرت خیر البشرﷺ کی ذاتِ والا صفات کے خلاف کرتے ہیں میرے دل کو سخت زخمی کر رکھا ہے خدا کی قسم اگر میری ساری اولاد اور اولاد کی اولاد اور میرے سارے دوست اور میرے سارے معاون ومدد گار میری آنکھوں کے سامنے قتل کر دئیے جائیں اور خود میرے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دئیے جائیں اور میری آنکھ کی پتلی نکال پھینکی جائے اور میں اپنی تمام مرادوں سے محروم کر دیا جاؤں اور اپنی تمام خوشیوں اور تمام آسائشوںکو کھو بیٹھوں تو ان ساری باتوں کے مقابل پر بھی میرے لئے یہ صدمہ زیادہ بھاری ہے کہ رسول اکرمﷺ پر ایسے ناپاک حملے کئے جائیں۔پس اے میرے آسمانی آقا تو ہم پر اپنی رحمت اور نصرت کی نظر فرما اور ہمیں اس ابتلاء ِعظیم سے نجات بخش۔‘‘ آمین (ترجمہ عربی عبارت آئینہ کمالات اسلام،روحانی خزائن جلد5 صفحہ15)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button