متفرق مضامین

ریا ست مدینہ کے قیام کے سنہری اصول

(شمشاد احمد قمر۔ پرنسپل جامعہ احمدیہ جرمنی)

اسلام نے حکومت کو امانت قرار دے کر حاکم و محکوم، سب کو امین قرار دیا اور سب کو امانت کا حق ادا کرنے کا پابند کیا ہے

مختلف ممالک میں عوام سے ووٹ حاصل کرنے کےلیے مختلف سیاسی پارٹیوں کی طرف سے مذہب کا استعمال کوئی نئی بات نہیں۔مذہب کو ہمیشہ اپنے مقاصدکے حصول کا ایک بہترین ذریعہ سمجھا جاتا رہا ہے۔ آج کل مسلمان ممالک کے سیاستدان اسلام کی خدمت کو اپنا نصب العین اور ریاستِ مدینہ کو اپنے رول ماڈل کے طور پیش کرتے نہیں تھکتے لیکن ووٹ حاصل کرنے کے بعد جو کچھ وہ ملک میں کرتے ہیں اس کا اسلام سےکوئی تعلق ہوتا ہے اور نہ مدینہ سے کوئی واسطہ۔بلکہ صریحاً ریاست ِمدینہ کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں۔اس کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ ریاستِ مدینہ کے خدوخال کیا تھے اور یہ کیسے قائم ہوئی۔

مکّہ میں 13 سالہ شدید مخالفت برداشت کرنے کے بعد انتہائی خطرے کے پیش نظر آنحضورﷺ اذن الٰہی سے ہجرت کر کے مدینہ تشریف لے گئے تو اس وقت مدینہ میں مختلف مذاہب، اقوام ا ور قبائل کے لوگ آبا تھے۔بڑے گروہوں میں مشرکین کے دو قبائل بنو اوس اور بنو خزرج تھے۔ یہودیوں کے تین قبائل بنو نضیر، بنو قینقاع اور بنو قریظہ تھے اور تیسرا بڑا حصّہ مسلمان مہاجرین اور انصار کا تھا جن میں بعض منافقین بھی شامل ہوگئے تھے۔ آنحضورﷺ کی مدینہ میں تشریف آوری پر آپؐ کا وجود بقول حضرت میاں بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ ’’ ایک آسمانی بارش کے طور پر تھا جس کے نتیجہ میں زمین سے ہر قسم کی اچھی اور بُری روئیدگی نمودار ہونا شروع ہو جاتی ہے‘‘(سیرۃ خاتم النبیّین،صفحہ 278)مدینہ پہنچنے کے بعد آنحضورﷺ نےمسلمان انصار اور مہاجرین کے درمیان مواخات قائم فرمائی۔ تاہم حضورﷺ کی دُور بین نگاہ دیکھ رہی تھی کہ قریشِ مکّہ اسلام دشمنی میں اندھے ہو چکے ہیں۔ ان حالات میں مدینہ کے اندر فتنہ و فساد کی ایک ہلکی سی چنگاری بھی بہت بڑے طوفان کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔ قبیلہ اوس اور خزرج کے مشرکین عرب تھے اور ان میں سے ایک بڑی تعداد مسلمان ہو جانے کے سبب یہ لوگ سیاسی طور پہ مسلمانو ں کے ساتھ ہی آنحضورﷺ کے جھنڈے کے نیچے تھے۔یہود ی قبائل آزاد اور خود مختار تھے۔لہٰذا یہود کے ان قبائل کے ساتھ بغیرکسی معاہدے کے رہنا شہر کے امن کے لیے خطرناک ہو سکتا تھا۔ چنانچہ آپﷺ نے مشرکین اور یہود سمیت تمام مذاہب اور قبائل کے عمائدین کو جمع کر کےایک ایسے باہمی معاہدے کی ضرورت پر زور دیا جس کے تحت شہر کےمختلف گروہوں سے تعلق رکھنے والے تمام باشندوں کو امن میسّر آ سکے اور ان کی فلاح و بہبود کا انتظام کیا جا سکے۔ چنانچہ اتفاقِ رائے سے ایک تفصیلی معاہدہ تحریر کیاگیا جس میں قریباً 53 دفعات شامل تھیں۔ان میں چند اہم شرائط یہ تھیں۔

1۔مسلمان اور یہودی آپس میں ہمدردی اور اخلاص کے ساتھ رہیں گے اور ایک دوسرے کے خلاف زیادتی اور ظلم سے کام نہیں لیں گے۔

2۔تمام باشندگان کی جانیں اور اموال محفوظ ہوں گے اور ان کا احترام کیا جائے گا۔سوائے اس کے کہ کوئی ظلم یا جرم کا مرتکب ہو۔

3۔ہر قوم کو مذہبی آزادی ہوگی۔

4۔ہر قسم کے اختلاف اور تنازعات رسول اللہﷺ کے سامنے فیصلہ کے لیے پیش ہوں گےاور ہر فیصلہ خدائی حکم (یعنی ہر قوم کی اپنی شریعت) کے مطابق کیا جائے گا۔

5۔کوئی فریق بغیر اجازت رسو ل اللہﷺ جنگ کے لیے نہیں نکلے گا۔

6۔اگر یہودیوں یا مسلمانوں کے خلاف کوئی قوم جنگ کرے گی تو وہ ایکدوسرے کی امداد کے لیے کھڑے ہو ں گے۔

7۔اگر کوئی مدینہ پر حملہ آور ہوگا تو سب مل کراس کا مقابلہ کریں گے۔

8۔قریش مکّہ اور ان کے معاونین کویہود کی طرف سے کسی قسم کی امدادیا پناہ نہیں دی جائے گی۔

9۔ ہر قوم اپنے اپنے اخراجات خود برداشت کرے گی۔

10۔اس معاہدہ کی رو سے کوئی ظالم یا آثم یا مفسداس بات سے محفوظ نہیں ہو گاکہ اسے سزا دی جائے یا اس سے انتقام لیا جائے۔( سیرۃابن ہشّام جلد ۱ صفحہ ۱۷۸،۱۷۹ بحوالہ سرۃ خاتم النبیّین، صفحہ ۲۷۹)

اس طرح مدینہ میں تمام قبائل کے مشورہ سے ایک منظّم حکومت کی بنیاد پڑ گئی جس میں مسلم اور غیر مسلم سب نے آنحضورﷺ کو اپنا سربراہ تسلیم کر لیا۔ آنحضورﷺ نے اپنے سربراہ ہونے کی حیثیت کو عوام میں مساوات کے قیام اور عدل و انصاف کی فراہمی میں ایسی مثال بنا دیا کہ سوائے تعّصب کی عینک رکھنے والوں کے دنیا آج بھی اسےتسلیم کرتی ہے۔

اسلام میں حکومت کا تصوّر

آنحضورﷺ کا یہ عمل قرآن کریم کے بیان کردہ اس حکم کے عین مطابق ہے جس میں فرمایا کہ إِنَّ اللّٰهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَىٰ أَهْلِهَا وَإِذَا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوْا بِالْعَدْلِ (النساء:59)کہ اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ تم امانتیں اس کے اہل لوگوں کے سپرد کیا کرو اورجب تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل وانصاف کے ساتھ فیصلہ کیا کرو۔اسی طرح آنحضورﷺ کا ارشاد ہے کہ اَلْمُسْتَشَارُ مُوْتَمِنٌ (تفسیر احمد حطیبہ، سورۃ الشوریٰ، آیت 38 امرُھم شوریٰ بینھم) کہ جس سے مشورہ کیا جائے وہ امین ہوتا ہے۔قرآن کریم کے اس حکم،آنحضورﷺ کے ارشاد اور اس معاہدہ سے سامنے آنے والی سنّت نبوی ؐسے اسلام میں سیاسی حکومت کے قیام کا جو تصوّر اُبھرتا ہے، اس کا بنیادی اصول یہ ہےکہ اصل حکومت عوام کی ہے اوریہ ایک امانت ہے اورچونکہ مشورہ بھی ایک امانت ہے،لہٰذا جو بھی مشورہ دینے والا (ووٹر)ہے، اس کا فرض ہے کہ وہ امانت کو اس کے حقدار کے سپرد کرے۔جب سب مل کر مشورہ دیں تو اپنی رائے یا ووٹ کو امانت کے طور پر استعمال کرتے ہوئے ایسا حاکم منتخب کریں جو حکومت کا اہل ہو اور جو حاکم بنے وہ عوام کی دی ہوئی اس امانت کو مکمل عدل اور انصاف کے ساتھ واپس عوام کو لوٹانے کا پابند ہو۔ یعنی عوام کے فیصلے پورے عدل اور انصاف کے مطابق کر ے۔لیکن یہ بھی ذہن میں رہے کہ اسلام میں دیگر کسی بھی نظام حکومت کو منع نہیں کیا گیا بلکہ انہیں امانت کی کما حقہ ادائیگی اور عدل و انصاف کے ساتھ مشروط رکھا گیا ہے۔ یعنی بادشاہت ہو یا جمہوریت، کچھ بھی ہو، اس کا چناؤ عدل و انصاف کے ساتھ ایک امانت سجھتے ہوئے کسی کی اہلیت کو مدّنظر رکھ کے کیا جائے اور جو حاکم بنے وہ عوام النّاس کے حقوق عدل و انصاف کے ساتھ امانت سمجھتے ہوئے ادا کرے۔ اس طرح اسلام نے حکومت کو امانت قرار دے کر حاکم و محکوم، سب کو امین قرار دیا اور سب کو امانت کا حق ادا کرنے کا پابند کیا ہے اور کسی کوبھی ایکدوسرے کی امانت میں خیانت کی اجازت نہیں دی گئی۔

آنحضورﷺ بطور سربراہ مدینہ

جیسا کہ بیان کیا گیا ہے کہ اسلامی تعلیم کے مطابق حاکم یا سربراہ کی اہلیت کا اوّلین معیار یہ ہے کہ وہ صادق اور امین اور عدل و انصاف سے کام لینے والا ہو۔اس موقع پر آنحضورﷺ سے بڑھ کر اس معیار پہ پورا اترنے والا کوئی نہ تھا۔لہٰذا آپﷺ کواہل مدینہ نے اپنے تمام فیصلو ں کا امین اسی بناء پہ تسلیم کیا تھا۔ چنانچہ دعویٰ نبوّت سے قبل بھی آپﷺ صادق اور امین کے لقب سے پکارے جاتے تھے۔آپ کی راست گوئی کا یہ عالم تھا کہ ابو جہل جیسا معاند بھی یہ کہنے پہ مجبور تھا کہ اِنَّا لَا نُکَذِّبُکَ وَلٰکِنْ نُکَذِبُ بِمَا جِئْتَ بِہِ (تفسیر طبری سورہالانعام، زیر آیت نمبر ۳۴ قد نعلم انّہ لیحزنک۔۔۔) کہ ہم تجھے جھوٹا نہیں کہتے بلکہ ہم تو اسے جھوٹا کہتے ہیں جو تو لایا ہے۔شہنشاہ ہرقل کے دربار میں جب ابوسفیان سے ہرقل نے پوچھا کہ کیا اس کے دعویٰ سے قبل تم اس پہ جھوٹ کا الزام لگاتے تھے؟ تو ابوسفیان کے پاس’’ نہیں‘‘ کہنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا۔ ایک اور دشمن اسلام نضر بن حارث نے جب کسی کو یہ کہتے سنا کہ محمد(ﷺ) جھوٹ کہتا ہے تو وہ بے اختیار بول پڑا کہ ’’ محمد تمہارے اندر ایک نوعمر لڑکا تھا تو سب سے پسندیدہ اخلاق والا اور تم میں سب سے زیادہ راست گفتار اور سب سے زیادہ امانت دار تھا۔ پھر جب وہ سن تمیز کو پہنچا اور اس کے چہرہ پر تم نے خط و خال کی نمود دیکھی اور وہ تمہارے پاس وہ چیز لایا جو لایا (یعنی قرآن کریم) تو تم کہنے لگے کہ یہ جادو گر ہے؟ قسم ہے خدا کی وہ جادوگر نہیں ہے‘‘(سیرۃ ابن ہشام، (اردو) جلد ۱، صفحہ ۱۸۷۔ شائع کردہ ا دارہ اسلامیات۔ ۱۹۰ انارکلی لاہور)

حضورﷺ کی نبوّت سے پہلے چند قبائل نے جن میں بنو ہاشم، بنومطلب، بنو زہرہ، بنو اسد اور بنو تیم شامل تھے، یہ عہد کیا کہ ہم ہمیشہ حق دار کو اس کا حق دلائیں گے۔ اس موقع پر آنحضورﷺ بھی موجود تھے اور اس معاہدہ میں شامل تھے۔ اس معاہدے کو حلف الفضول کہا جاتا ہے۔نبوّت کے بعد بھی آنحضورﷺ نے فرمایا کہ میں عبداللہ بن جدعان کے مکان پر ایک ایسی قسم میں شریک ہوا تھا کہ اگر آج (اسلام کے زمانے میں) بھی مجھے کوئی اس طرف بلائے، تو میں اس پر لبّیک کہوں گا۔(تاریخ اسلام،از اکبر شاہ خان نجیب آبادی، جلد اول صفحہ ۸۹) نبوّت کے بعد کی ساری زندگی آپﷺ کے اس عہد پہ قائم رہنے کی گواہی ہے۔مکّی دور کا واقعہ ہے جب اکہ آپﷺ کی مخالفت زوروں پہ تھی۔ابوجہل نے کسی غریب آدمی کا قرض دینا تھا جو وہ ادا نہیں کر رہا تھا۔وہ غریب آدمی مکّہ میں سرداروں کے پاس ا ٓیا اور فریاد کی میرا قرض دلوا دیں تو انہوں از راہ تمسخر اس کو آنحضورﷺ کی طرف بھجوا دیا کہ یہ شخص تمہیں ابوجہل سے قرض لینے میں مدد کر سکتا ہےاور خود تماشا دیکھنے کے لیے پیچھے چلے گئے۔ جب اس نے آنحضورﷺ کے پاس آکے اپنا مدعا بیان کیا تو حضورﷺ فوراً اس کے ساتھ جانے کو تیار ہو گئے۔ابو جہل کے گھر پہنچ کر اسے بلایا اور قرض ادا کرنے کو کہا۔ اس پر ابو جہل نے فوراً قرض ادا کر دیا۔ مکّہ کے سردار یہ دیکھ کے حیران ہو گئے کہ ابوجہل نے اتنی مخالفت کے باوجود حضورﷺکی بات آرام سے کیسے مان لی؟ بعد میں ان سرداروں کی ملامت پہ ابوجہل نے بتایا کہ میں نے دیکھا کہ محمد (ﷺ) کے پیچھے دو مست اونٹ ہیں جو مجھ پہ حملہ کرنے والے ہیں۔ ان سے ڈر کے میں نے یہ رقم دے دی۔غریب لوگوں سے عدل و انصاف اور ان کے حقوق دلوانے میں آنحضورﷺ و کا یہ پاکیزہ اسوہ تھا۔ ایسی ہستی کی موجودگی میں آپ سے بڑھ کر بھلا کون صادق، امین اور انسانی حقوق کا علمبردار ہو سکتا تھا۔ لہٰذا اہل مدینہ نے اگر آپ کو اپنا سربراہ چنا تو یہ ان کا بالکل درست فیصلہ تھا۔

چنانچہ آنحضورﷺ نے بطور حاکم ریاست ِ مدینہ میں تمام مذاہب کے پیروکاروں کو مساوی شہری حقوق عطا کئے، انہیں مذہبی آزادی دی اور کسی بھی شہری کو عدل و انصاف سے محروم نہیں رکھا گیا۔ کسی کا حق نہیں مارا گیا۔لیکن دوسری طرف کسی فرد یا گروہ کی طرف سے کوئی جرم سرزد ہونے یا معاہدات وغیرہ کی خلاف ورزی ہونے کی صورت میں متعلقہ فریق کی شریعت کے مطابق عدل و انصاف پر مبنی فیصلے کئے۔ جس سے ہر شہری پر یہ واضح ہو گیا کہ اس ریاست میں کسی شہری کو اس کے حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا اور کسی مجرم کو سزا کے بغیر نہیں چھوڑا جائے گا سوائے اس کے کہ معافی میں عوام الناّس کی بھلائی اور اصلاح ہوتی ہو۔ اسلام میں حکومت کے اس تصوّر سے ثابت ہوتا ہے کہ ریاستِ مدینہ صرف حکمرانوں کے لیے ہی رول ماڈل نہیں بلکہ محکوموں کے لیے بھی ایک نمونہ اور مثال ہے۔

مذہبی رواداری

میثاق مدینہ کے مطابق یہود یوں اور مسلمانوں کو یکساں طور پر مکمل مذہبی آزادی دی گئی۔ مدینہ پہ حملہ کی صورت میں ایکدوسرے کی مدد کرنا لازم تھی جبکہ ذاتی حیثیت میں مسلمان اور یہود ی اپنے اپنے اخراجات خود اُٹھانے کے پابند تھے۔بائیبل کی تعلیم کے مطابق غیراقوام اورمفتوحین کو قتل کرنے، ان سےمعاہدہ نہ کرنے، ان کا مال و اسباب لوٹ لینے اور ان کی عبادتگاہوں سمیت ہر چیز تباہ و برباد کرنے کا حکم ہے۔(استثنا باب ۷، آیت ۱ تا ۷) لیکن دیگر اقوام اور مذاہب کے متعلق قرآن کریم اور آنحضورﷺ کا اسوۂ حسنہ کیا ہی خوبصورت نمونہ پیش کرتا ہے۔ مذہب کےمتعلق فرمایا کہ دین میں کوئی جبر نہیں(البقرہ:۲۵۷) مذہب کے معاملہ میں ہر کوئی آزاد ہے۔ جس کی مرضی ایمان لائے اور جو چاہے انکار کرے(الکہف:۳۰)۔اے کافرو! تمہارے لیے تمہارا دین ہے اور میرے لیے میرا دین(سورۃ الکافرون)۔جن دشمنوں نے تمہیں مسجد حرام سے روکا تھا، ان کی دشمنی کے سبب اُن سے زیادتی نہیں کرنی، بلکہ نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں ان سے تعاون کرو،ہاں گناہ اور بغاوت کی صورت میں تعاون نہ کرو۔( المائدہ:۲)۔ کسی قوم کی دُشمنی تمہیں انصاف سے نہ روکے، انصاف کرو،یہ تقویٰ کے زیادہ قریب ہے۔(المائدہ:۹)۔( جنگ کے دوران بھی دشمن) مشرکوں میں سے کوئی پناہ مانگے تو اسے پناہ دویہاں تک وہ کلام الٰہی سنے پھر اُسے جہاں وہ امن محسوس کرے وہاں پہنچا دو۔(التوبہ:۶)۔جو لوگ دین کے معاملہ میں تم سےلڑائی نہیں کرتے اور تمہیں گھروں سے نہیں نکالتے ان کے ساتھ نیکی اور منصفانہ سلوک کرنے سے اللہ تمہیں منع نہیں فرماتابلکہ اللہ ایسے انصاف کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے(الممتحنہ:۹)

غیر مذاہب والوں کے مذہبی جذبات کا اسقدر خیال رکھا گیا کہ ایک یہودی اور مسلمان کے درمیان اپنے نبی کی فضیلت پر تکرار ہوئی تو آنحضورﷺ نے فرمایا کہ مجھے موسیٰ ؑ پر فضیلت مت دو۔(بخاری کتاب التفسیر، سورۃ الاعراف) یہودی لڑکا بیمار ہوتا ہے تو آپﷺ اس کی عیادت کو تشریف لے جاتے ہیں۔(مسند احمد بن حنبل جلد۳، صفحہ ۱۷۵) یہودی کا جنازہ گذرتا ہے تو آپ احتراماً کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ایک مسلمان کےتوجہ دلانے پہ کہ یہ تو یہودی کا جنازہ ہے، آپﷺ فرماتے ہیں کہ کیا وہ انسان نہ تھا؟(بخاری، کتاب الجنائز، باب باب من قام لجنازۃ یہودیٍّ) سیرۃ ابن ھشام) فتح مکّہ کے بعد بنو ثقیف کا وفد آیا تو آپﷺ نے مسجد نبوی میں ٹھہرایا۔ بعض لوگوں کے سوال اُٹھانے پر کہ یہ مشرک ہیں جو قرآن کریم کے مطابق نجس ہیں، آپؐ نے فرمایا اس آیت میں دل کی ناپاکی کی طرف اشارہ ہے۔(احکام القرآن للجصاص، جلد ۳، صفحہ ۱۰۹)

ہر مذہب کو اپنی شریعت پر عمل کی اجازت: میثاق مدینہ کے مطابق یہودیوں کے فیصلے ان کی اپنی شریعت (توراۃ) کے مطابق کئے جاتے تھے۔ان پر اپنی مرضی کا فیصلہ نہیں تھوپا جاتا تھا۔مدینہ میں جب اہم مقدمات آپ کے سامنے پیش ہونے لگے تو آپﷺ ہر قوم کا فیصلہ ان کے اپنے ضابطہ یا شریعت کے مطابق ہی کرتے تھے۔ایک مرتبہ یہودی آنحضورﷺ کی خدمت میں پیش ہوئے اور اپنے ایک مرد اور عورت کا معاملہ حضورؐ کے سامنے پیش کیا کہ ان دونوں نے زنا کیا ہے۔حضورﷺ نے یہودی علماء سے دریافت فرمایا کہ یہودی شریعت اس بارے میں کیا کہتی ہے۔یہودی علماء نے حقیقت چھپانا چاہی۔حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ(جو قبل از اسلام ایک یہودی عالم تھے)، پاس ہی بیٹھے تھے۔ انہوں نے عرض کی کہ یا سول اللہ! توراۃ منگوا ئی جائے۔چنانچہ توراۃ منگواکر چیک کی گئی تو اس میں اس جرم کی سزا سنگسار کرنا لکھی تھی۔ اس پہ آپﷺ نے ( توراۃ کے مطابق) ان دونوں کو سنگسار کرنے کا حکم دیا۔ ( بخاری، کتاب المحاربین، باب احکام اھل الذِّمۃ)۔چنانچہ حضورﷺ کا طریق یہی تھا کہ جو بھی کسی مذہب کا پیروکار ہے، اس کا فیصلہ اس کے مذہب کی مسلّمہ تعلیم اور شریعت کے مطابق کیا جاتا۔

مسلمان کون؟

مدینہ میں اسلام کے ساتھ ساتھ منافقین کا بھی ایک گروہ پیدا ہو چکا تھا۔ یعنی بعض لوگ ایسےتھے جو دل سے مسلمان نہ تھے لیکن اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرکے مسلمانوں کو نقصان پہنچانا چاہتے تھے۔ آنحضورﷺ نے ریاست مدینہ میں مردم شماری کروائی۔اس موقع پہ آپﷺ نے بعض لوگوں کی منافقت کا علم ہونے کے باوجود فرمایا اُکْتُبُوالِی مَنْ یَلْفَظُ بِا الْاِسْلَامِ (بخاری، کتا ب الجہاد و السیر، باب کتابۃ الامام النّاس) کہ جو کوئی اپنے متعلق مسلمان ہونے کا دعویٰ کرے اُسے میری طرف (یعنی مسلمان )لکھو۔اس طرح ریاست مدینہ میں آپ نے عملی طور پہ یہ فیصلہ کر دیا تھا کہ ریاست میں ہر فرد کا وہی مذہب شمار کیا جائے گا جس کا وہ دعویٰ کرتا ہے۔ مذہب کے بارے میں ریاست کا کوئی حق نہیں کہ وہ کسی فردکو کسی مذہب میں جبراً شامل کرے یا کسی مذہب سے خارج قرار دے۔گویا اپنے مذہب کے بارے میں ہر شخص کو خود فیصلہ کرنے کا اختیار دیا گیا۔

آزادیٔ تقریر و تبلیغ

یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ جب تک اپنے خیالات و نظریات کا دلائل کے ساتھ اظہار کرنے کی آزادی نہ ہو تب تک دین میں کامیابی ملتی ہے اور نہ ہی دنیا میں۔ کیونکہ اظہار رائے سے ہی انسان بہتر سے بہتر راستہ حاصل کر سکتا ہے۔چنانچہ حضورﷺ نے قرآن کریم کی تعلیم کے مطابق کبھی کسی کو اظہار رائے سے نہیں روکا بلکہ الٰہی حکم کے مطابق ہمیشہ اچھی رائے اور دلیل پیش کرنے کی حوصلہ افزائی فرمائی ہے تاکہ کسی نظریہ کی زندگی یا موت کا انحصار جبر کے بجائے دلیل پہ ہو۔جیسا کہ اللہ نے فرمایا لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَيَحْيَىٰ مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ(الانفال:۴۳) کہ تاکہ وہی ہلاک ہو جو ہلاکت کا جواز رکھتا ہے اور وہ زندہ رہنا چاہئے جو کھلی دلیل سے زندہ ہو۔نیز بار بار فرمایا کہ قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِين( البقرۃ:۱۱۲، الانبیاء: ۲۵، القصص:۷۶ )۔کہ اگر تم سچے ہو تو اپنی دلیل لاؤ۔ پھر فرمایا أَمْ لَكُمْ سُلْطَانٌ مُبِينٌ۔فَأْتُوا بِكِتَابِكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ(الصافات:۱۵۷،۱۵۸) کیاتمہارے پاس کوئی غالب اور روشن دلیل ہے؟ اگر تم سچے ہو تو دلیل لاؤ۔لیکن ساتھ ہی یہ بھی فرما یا کہ وَاللّٰهُ لَا يُحِبُّ الْفَسَادَ (البقرہ:۲۰۶) کہ اللہ فساد کو پسند نہیں کرتا۔ مطلب یہ کہ دلیل لانے کا مقصد پر امن طریق پہ بہتر راستہ تلاش کرنا ہے، نہ کہ زبردستی منوانے کے لیے فساد برپا کرنا۔

مذہبی تقدّس کی پامالی سے احتراز

آنحضورﷺ کی پیش کردہ تعلیم کے مطابق ایک طرف مکمل مذہبی آزادی دی گئی تو دوسری طرف مسلمانو ں کو سمجھایا گیا کہ کوئی دلآزاری کرے بھی تو آپ ایسے لوگوں سے کنارہ کشی اختیار کرو تاکہ امن کی فضا ءخراب نہ ہو۔فرمایا وَقَدْ نَزَّلَ عَلَيْكُمْ فِي الْكِتَابِ أَنْ إِذَا سَمِعْتُمْ آيَاتِ اللَّهِ يُكْفَرُ بِهَا وَيُسْتَهْزَأُ بِهَا فَلَا تَقْعُدُوا مَعَهُمْ حَتَّىٰ يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِهِ ۚ إِنَّكُمْ إِذًا مِثْلُهُمْ (النّساء: ۱۴۱)یقیناً اللہ نے کتاب میں تم پر یہ حکم اتارا ہے کہ جب تم سنو کہ اللہ کی آیات کا انکار کیا جارہا ہےاور ان سے تمسخر کیا جا رہا ہے توتو ان لوگوں کے پاس نہ بیٹھو یہاں تک کہ وہ کسی اور بات میں مشغول ہو جائیں۔ورنہ(وہاں بیٹھے رہنے کی) صورت میں تم ان جیسے ہی (شمار) ہو جاؤگے۔اسی طرح سورہ انعام آیت ۶۹ میں بھی یہی حکم ہے کہ ’’جب تو ان لوگوں کو دیکھے جو ہماری آیات سے تمسخر کرتے ہیں تو پھر ان سے الگ ہو جایہاں تک کہ وہ کسی دوسری بات میں مشغول ہو جائیں اور اگر اس بارے میں شیطان تجھ سے بھُول چوک کروادے تو یاد آنے پہ ظالم قوم کے ساتھ مت بیٹھ‘‘(الانعام :۶۹) یعنی جہاں مذہب یا مذہبی بزرگوں سے تمسخر یا استہزاء کیا جا رہا ہو وہاں سے احتجاجاً اُٹھ کے چلے جانے کا تو حکم ہے لیکن ان لوگوں کے خلاف کسی قسم کا کوئی سخت قدم اُٹھا نے کا کوئی حکم نہیں دیا گیا۔بلکہ ان سے مستقل طور پر قطع تعلق کا بھی حکم نہیں ہے۔تاہم یہ بتا دیا کہ کسی مذہب یا اس کے پیروکاروں کے خلاف بدزبانی ایک انتہائی غیر اخلاقی حرکت ہے جس کی مذمّت کرتے ہوئے اس سے الگ رہنے کا حکم دیا اور اس فعل سے اجتناب کرنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا کہ ’’ جن لوگوں کو وہ اللہ کے سوا پکارتے ہیں، ان کو گالیاں نہ دو، ورنہ وہ دشمنی کرتے ہوئے بغیر کسی علم کے اللہ کو گالیاں دیں گے‘‘۔(الانعام:۱۰۹)۔ غرض اللہ تعالیٰ نے مذہب اور مذہبی راہنماؤں کی ہتک سے منع بھی کیا اور ایسا کرنے والوں کی مذمّت بھی فرمائی۔حضرت عیسیٰ ؑ اور حضرت مریمؑ کے خلاف بدزبانی کرنے پر یہود یوں کی مذمّت کی (النّساء:۱۵۷،۱۵۸ )اور اللہ کے خلاف اولاد کا الزام لگانے پر عیسائیوں کی مذمّت فرمائی (الکہف:۶) اور مسلمانوں کو ایسا کرنے سے سختی سے منع فرمایا۔لیکن اس کے ساتھ ایسے لوگوں سے عام زندگی میں حسن سلوک سے منع نہیں فرمایا۔اس بارے میں آنحضورﷺ نے قرآن کریم کی تعلیم پر پوری طرح عمل کرتے ہوئے ریاست مدینہ میں اس کی مثال قائم فرمائی۔ حتیّٰ کہ سورۃ منافقون اس بات کی گواہ ہے کہ مدینہ کے منافقین آنحضورﷺ کی ہتک کرنے میں کس حد تک جا چکےتھے۔ اس کے باوجود آنحضورﷺ کا ان سے حسن سلوک ریاست مدینہ میں مذہبی رواداری اور پیشوایان مذاہب کی عزّت و تکریم قائم رکھنے کی اعلیٰ انسانی اقدار کا مونہہ بولتا ثبوت ہے۔

رشوت و (غلط)سفارش کی ممانعت

عدل اور انصاف میں رشوت اور غلط سفارش بہت بڑی رکاوٹ بن جاتی ہیں۔اور جس معاشرے میں عدل و انصاف نہ رہے تو اس معاشرے کی تباہی کو روکنا ناممکن ہو جاتا ہے۔رشوت کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہےکہ وَلَاتَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوا بِهَا إِلَى الْحُكَّامِ لِتَأْكُلُوا فَرِيقًا مِنْ أَمْوَالِ النَّاسِ بِالْإِثْمِ وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ (البقرہ:۱۸۹) ا ٓپس میں اپنے اموال جھوٹ اور فریب سے نہ کھایا کرواور نہ تم انہیں حکّام کے سامنے (اس غرض سے) پیش کرو کہ تم گناہ کے ذریعہ لوگوں کے اموال میں سے کچھ کھا سکو۔ حالانکہ تم اچھی طرح جانتے ہو۔ اسی طرح سفارش کے بارے میں بھی فرمایا کہ مَنْ يَشْفَعْ شَفَاعَةً حَسَنَةً يَكُنْ لَهُ نَصِيبٌ مِنْهَا وَمَنْ يَشْفَعْ شَفَاعَةً سَيِّئَةً يَكُنْ لَهُ كِفْلٌ مِنْهَا (النّساء: ۸۶) کہ جو کوئی کسی کی اچھی ( یعنی جائز) سفارش کرے گا، اس کو اس سے حصہ ملے گا اور جو کوئی بُری سفارش کرےگا تو اس کے لیے (ویسا ہی) حصہ ہوگا۔حضورﷺ نے ایک مخزومی عورت کے چوری کرنے پہ اس کے ہاتھ کاٹنے کی سزا سنائی جس پہ قریش بہت فکر مند تھے۔ حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ نے حضورﷺ سےاس کی سفارش کی تو آنحضورﷺ نے بڑے جلال سے فرمایاکہ تم سےپہلی امتیں اسی لیے تباہ ہوئیں کہ جب اشرافیہ میں سے کوئی چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیا جاتا اور اگر کوئی غریب چوری کرتا تو اسے سزا دی جاتی۔ (بخاری، باب اقامۃ الحدود علی الشریف والوضیع)گویا اسلام کی اس تعلیم کے مطابق آنحضورﷺ کے زیر سایہ ریاستِ مدینہ میں اس بات کی قطعی گنجائش نہیں تھی کہ بڑوں اور چھوٹوں کے لیے عدل و انصاف کے ترازو الگ الگ رکھے جائیں بلکہ اس کے برعکس عدل و انصاف کا معیار مسلم،غیر مسلم، امیر، غریب یا گورے اور کالے کی تفریق کے بغیر سب کے لیے ایک ہی تھا۔

سب کے لیے بنیادی ضروریات زندگی

قرآن کریم میں سب لوگوں کے لیے بنیادی ضروریا ت کا خیال رکھنا ریاست کی ذمّہ داری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آدم سے فرمایا کہ إِنَّ لَكَ أَلَّا تَجُوْعَ فِيْهَا وَلَا تَعْرَىٰ۔وَأَنَّكَ لَا تَظْمَأُ فِيْهَا وَلَا تَضْحَىٰ (طہ:۱۱۹،۱۲۰) کہ تیرے لیے مقدر ہے کہ تو اس میں نہ تو بھوکا رہے گا اور نہ ننگا۔اور نہ ہی پیاسا رہے گا اور نہ دھوپ میں جلے گا۔گویا قرآنی تعلیم کے مطابق یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ امیروں سے ٹیکس لے اور غریبوں کی مدد کرے تاکہ حتّی المقدور سب کو کم از کم بنیادی ضروریات زندگی یعنی روٹی، کپڑا اور مکان میسّر ہو۔حضورﷺ کا طریق تھا کہ آپ کے پاس جو کچھ بھی آتا وہ اللہ کی راہ میں غریبوں کو صدقہ کر دیتے۔ مکّہ میں قحط پڑا تو حضورﷺ نے اللہ تعالیٰ سے اس کے دور ہونے کی دعا کی اور حتّی المقدور مکّہ کے باشندوں کے لیے خوراک بھجوانے کا بھی انتظام فرمایا۔بعد میں خلفاء کرا م نے بھی اس عمل کو جاری رکھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے باقاعدہ مردم شماری کرو اکے بچوں کے لیےبھی وظیفہ مقرر فرمایا۔لیکن آغاز میں دودھ پیتے بچوں کو یہ رقم نہیں ملتی تھی۔ ایک مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ رات کو گشت کر رہے تھے کہ ایک خیمہ سے بچے کے رونے آواز آئی۔ آپ نے قریب جا کےآواز دی کہ بچہ کیوں رو رہا ہے۔ اندر سے بچے کی ماں نے جواب میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں کچھ سخت الفاظ بولتے ہوئے کہا کہ دودھ پیتے بچوں کا وظیفہ نہیں ملتا۔ ہم غریب لوگ ہیں۔ میں نے اس بچے کا دودھ جلدی چھڑوا دیا ہے تاکہ اس کا بھی وظیفہ مل سکے۔ اس لیے یہ بھوک سے رو رہا ہے۔( شاید وہ بچہ چھوٹا ہونے کی وجہ سے کچھ اور کھا نہ سکتا تھا)۔ اس پہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سخت ا فسردگی سے استغفار کرتے ہوئے اور اپنے آپ پر افسوس کرتے ہوئے واپس لوٹے۔آپؓ نے خود بنفس نفیس فوراًاس خیمہ میں خوراک پہنچائی اور اگلے روز ہی یہ اعلان کروا دیا کہ آئندہ سے دودھ پیتا بچہ بھی وظیفے کا حقدار ہو گا۔یورپ میں آجکل غریب عوام سوشل دی جاتی ہے اور بچوں کے لیے بھی کچھ خرچ دیا جاتا ہے۔ اس پہ مغربی دنیا میں بہت فخر کیا جاتا ہے۔جبکہ حقیقت میں یہ وہ تعلیم ہے جو آج سے پندرہ سو سال قبل آنحضورﷺ نے عطا فرمائی۔ جس پر آنحضورﷺ نے خود بھی عمل فرمایا اور آپ ؐکے دورِخلافت میں بھی اس پر عمل جاری رہا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں تو باقاعدہ حکومتی سطح پہ مردم شماری کروا ئی گئی اور پورےحساب کتاب کو مدّنظر رکھ کے اس پہ عملدرامد ہوتا تھا۔ مگر افسوس کہ آج مسلمان ممالک جو اسلامی تعلیم کے نفاذ کا ڈھنڈورا تو خوب پیٹتے ہیں لیکن عملاً اسلام اور بانیٔ اسلامﷺ کو بدنام کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کرتے، وہ اس تعلیم کو بھلا کر عوام کی ضروریات زندگی کا خیال رکھنے کے بجائے خود بھکاری بن کر غیر قوموں کے آگے ہاتھ پھیلائے بیٹھے ہیں۔

معاہدے کی پابندی

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ عہد کی پابندی کے بارے میں فرماتا ہے۔بَلَىٰ مَنْ أَوْفَىٰ بِعَهْدِهِ وَاتَّقَىٰ فَإِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِينَ (آل عمران:۷۷)کہ جو عہد کو پورا کرتا ہے اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرتا ہے تو اللہ ایسے متقیوں کو پسند فرماتا ہے۔پھر فرمایا وَأَوْفُوْا بِالْعَهْدِ ۖ إِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْئُوْلًا (بنی اسرائیل :۳۶) کہ اپنے عہد کو پورا کرو، یقیناً عہدکے بارے میں پوچھا جائے گا۔نیز فرمایا کہ ’’اگر کوئی غیر قوم مسلمانوں پر زیادتی کی مرتکب ہو اورمسلمان تم سے مدد کے طالب ہوں اور تمہارا اس (غیر مسلم) قوم سے پہلے سے کوئی معاہدہ ہو تو اس معاہدہ کو پورا کرنا ضروری ہے(الانفال:۷۳)۔ یعنی مظلوم مسلمانوں کی خاطربھی عہد شکنی کی اجازت نہیں۔تاہم اگر غیر مسلموں کی طرف سےعہد شکنی کا اندیشہ ہو تو اس صورت میں تم بھی ویسا ہی کرو جو انہوں نےکیا ( یعنی اس عہد شکنی کی سزا دے سکتے ہو)۔( الانفال: ۵۹) چنانچہ آنحضورﷺ مسلما نوں پر سخت ظلم اور بر بریّت پر بھی معاہدے کی خلاف ورزی کو ہرگز پسند نہیں فرماتے تھے۔

شہنشاہ ہرقل نے آنحضورﷺ کا تبلیغی خط ملنے پر تحقیق کی غرض سے ابو سفیان سردار قریش کو بلا کر جو سوالات کئے جن میں ایک سوال یہ تھا کہ کیا اس مدعیٔ رسالت نے کبھی کوئی بدعہدی کی ہے تو ابو سفیان نے ( جو اُس وقت آنحضورﷺ کے سخت دشمن تھے )جواب دیا آج تک اس نے ہم سے کبھی کوئی بد عہدی نہیں کی۔(بخاری، کتاب بدألوحی) صلح حدیبیہ کے موقع پر جب مسلمانوں اور مشرکین مکّہ کے درمیان معاہدہ ہوا تو اس کی ایک شرط یہ تھی کہ اگر مدینہ سے کوئی مسلمان بھاگ کر مکّہ آئے گا تو اسے واپس نہیں کیا جائے گا۔ جبکہ مکّہ سے اگر کوئی کافر مسلمان ہو کر مدینہ جائے گا تو مدینہ والے اسے واپس کرنے کے پابند ہوں گے۔ آنحضورﷺ اور مشرکین کے نمائندے ( سہیل بن عمرو) کے درمیان معاہدہ طے ہو کر ابھی لکھا جا رہا تھا کہ سہیل کے بیٹے حضرت ابو جندلؓ جو مکّہ میں مسلمان ہو گئے تھے زنجیروں میں جکڑے ہوئے، فرار ہو کے وہاں پہنچ گئے اور آنحضورﷺ ؓ سے مدد کے طلبگار ہوئے کہ اگر میں واپس گیا تو مکّہ والے مجھ پر بہت ظلم کریں گے۔ اس پہ آپؓ کے والد سہیل نے کہا کہ یہ نہیں ہو سکتا، جب ہماری بات طے ہو گئی ہے تو اسے واپس کرنا ہوگا۔ چنانچہ اس دردناک حالت میں بھی آنحضورﷺ نے حضرت ابو جندل ؓکو صبر و استقامت کی تلقین کرتے ہوئے اس معاہدے کے مطابق جس پہ ابھی دستخط نہیں ہوئے تھے،ان کے والد سہیل کے سپرد کر دیا۔ اس معاہدے کے بعد بھی بعض مسلمان(حضرت ابو بصیر ؓ وغیرہ ) مکہ سے بھاگ کر مدینہ آئے لیکن حضورﷺ نے حسب معاہدہ انہیں مدینہ میں رہنے کی اجازت نہ دی۔ (سیرۃ ابن ہشام)۔ امن کے لیے دیگر علاقوں کےعمائدین سے معاہدات کرنے اور ان معاہدات پر ان کی رُوح کے مطابق عمل کرنے کا یہ وہ عملی نمونہ تھا جس کی آج کی جدید اور ترقی یافتہ دنیا میں بھی نہیں ملتی۔

خطبہ حجۃ الوداع (بنیادی انسانی حقوق کا شاہکار)

اسلا م سے پہلے کا زمانہ ہو یا دعویٰ نبوّت کے بعد کا،آپﷺ نے ساری زندگی بنی نوع انسان کی جان،مال اور عز ت کی حفاظت میں گذاری اور غریبوں، مسکینوں اور بے بس انسانوں کے حقوق دلانے میں بھر پور کردار ادا کیا۔حتّیٰ کہ اپنی زندگی کے آخری بڑے مجمع یعنی حجۃ الوداع کے موقع پہ اپنے ایک سے زائد خطبات میں لوگوں کوعورتوں، غلاموں اور ملازمین سمیت تمام بنی نوع انسان کے حقوق کی حفاظت کے لیے جو نصائح فرمائیں وہ آج بھی سنہری الفاظ میں لکھے جانے کے قابل ہیں۔ان میں سے چند باتیں خلاصۃً پیش ہیں۔ آپ نے فرمایا

’’ اے لوگو! میری باتیں غور سے سنو۔ کیونکہ میں نہیں جانتا کہ اگلے سال میں اس جگہ تمہارے درمیان ہوں گایا نہیں۔اے لوگو! تمہارے لیے تمہارے خون اور تمہارے مال اسی طرح حرام ہیں جیسے یہ دن اور یہ شہر اورمہینہ حرام (یعنی حرمت والا) ہے۔حتّیٰ کہ تم اپنے ربّ سے جا ملو۔ وہ تم سے تمہارے اعمال کے بارے میں ضرور پوچھے گا۔ پس تم میں سے اگر کسی کے پاس کوئی امانت ہے تو وہ امانت والے کو واپس لوٹا دے۔ ہر قسم کا سود ناجائز ہے۔تمہارے لیے صرف تمہارے رأس المال ہیں…عباس بن عبدالمطلب (آپ کے چچا ) کا سود بھی آج سے کالعدم ہے۔اب جاہلیت کے خون بھی کالعدم ہیں۔سب سے پہلے میں ابن ربیعہ بن الحارث بن عبد المطلب کا خون معاف کرتا ہوں…اے لوگو! سنو کہ عورتوں پر تمہارے کچھ حقوق ہیں اور ان کے تم پر کچھ حقوق ہیں۔ تمہارے ان پر حقوق یہ ہیں کہ وہ تمہارے بستروں پر کسی اور شخص کو نہ بلائیں اور نہ ہی وہ کسی فحش کام کا ارتکاب کریں…ان کے حقوق تم پر یہ ہیں کہ تم معروف کے مطابق ان کے نان و نفقہ کا خیال رکھو۔ ان سے حسن سلوک کرو اور دوسروں کو بھی اس کی تلقین کرو۔ وہ تمہارے پاس لونڈیوں کی طرح ہیں جو اپنے لیے کوئی قدرت نہیں رکھتیں۔تم انہیں خداتعالیٰ کی امانت کے طور پر اپنے ہاں لاتے ہو۔اللہ تعالیٰ کے کلمات کے ذریعہ سے ان کی عصمتیں تم پر حلال کی گئی ہیں…ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے۔پس اپنے بھائی کی کوئی چیز نہ لوسوائے اس کے جو وہ خوشی سے دے۔اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو…اے اللہ گواہ رہنا کہ میں نے تیرا پیغام کھول کرپہنچا دیاہے…

اے لوگو تمہارا ربّ ایک ہے اور تمہارا باپ (حضرت آدمؑ) بھی ایک ہے۔ کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی عجمی کو کسی عربی پر کوئی فضیلت نہیں۔نہ ہی کسی سرخ کو سیاہ پر کوئی فضیلت ہے اور نہ کسی سیاہ کو سرخ پر، سوائے تقویٰ کے۔تم سب ابنائے آدم ہو اور آدم مٹی سے تھا…اے لوگو! میرے بعد کفر کی طرف نہ لوٹ جانا کہ تم میں سے بعض بعض کو قتل کرنے لگ جاؤ۔( بخاری، کتاب المغازی، باب حجۃ الوداع)

اس خطبہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ آنحضورﷺ کے دل میں بنی نوع انسان کا کتنا احترام تھا اور ان کے امن و استخکام کے لیے آپ کے دل میں کتنی تڑپ تھی۔عورت ہو یا مرد، مسلم ہو یا غیر مسلم، امیر ہو یا غریب، گورا ہو یا کالا، آپﷺ کے نزدیک سبھی قابل احترام تھے اور سب کے حقوق مساوی تھے۔ آپﷺ کا دل ہمیشہ اس غم اور درد سے معمور و بے چین رہتا تھا کہ کسی نہ کسی طرح بنی نوع انسان کے امن اور سکون کا سامان ہو جائے اور بنی نوع انسان نہ اس دنیا میں کوئی دکھ اُٹھائے اور نہ آخرت میں سزا کا مورد ہو۔اس دنیا میں امن ہو اور اس دنیا میں بھی امن ہو۔

اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّعَلیٰ آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ وَعَلٰی اٰ لِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَجِیْدٌ۔ٓ اَللّٰھُمَّ بَارِ کْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ وَعَلٰی اٰ لِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَجِیْدٌ۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button