متفرق مضامین

جنگوں میں رسول اللہﷺ کا اسوہ

(ذیشان محمود۔ مربی سلسلہ سیرالیون)

(از افاضات امیر المومنین حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز)

شدید لڑائی میں بھی صبر، برداشت اور استقامت کے یہ وہ اخلاق تھے جو رسول اللہﷺ نے اپنے صحابہ میں پیدا کیے اور صحابہ نے ان مکارم اخلاق پر حتی الوسع عمل کرنے کی کوشش کی

ایک جنگ میں حضرت علی ؓکی ایک یہودی پہلوان کے مد مقابل آ گئے۔ لڑائی کے داؤ پیچ میں دونوں ماہر تھے کہ کوئی ایک دوسرے کے قابو میں نہ آتا تھا۔ آخر کار حضرت علی ؓ نے اسے پچھاڑ لیا اور اس کی چھاتی پر سوار ہو گئے۔ قریب تھا کہ آپ اس کا کام تمام کرتے کہ اس نے آپ کے چہرہ پر تھوک دیا۔ اس فعل پر آپؓ نے اس پر گرفت ڈھیلی کر دی اور اس کو چھوڑ کر کھڑے ہو گئے۔ وہ حیران ہوا کہ یہ کیا ہوا اور تعجب سے پوچھا کہ آپ نے اس قدر مشکل سے مجھے پکڑا اور اور اب چھوڑ دیا۔ یہ کیا بات ہوئی؟ تو آپؓ نے فرمایا کہ میری کوئی ذاتی عداوت تو نہیں۔ خدا کی خاطر لڑتے ہیں۔ جب تم نے مجھ پر تھوک دیا تو اب اگر میں نے تمہیں قتل کیا تو اس میں ذاتی انا بھی شامل ہو جائی گی اس لیےمیں نے تمہیں چھوڑ دیا۔ شدید لڑائی میں بھی صبر، برداشت اور استقامت کے یہ وہ اخلاق تھے جو رسول اللہﷺ نے اپنے صحابہ میں پیدا کیے۔ اور صحابہ نے ان مکارم اخلاق پر حتی الوسع عمل کرنے کی کوشش کی۔ رسول اللہﷺ کے اسوہ کا جب بھی ذکر آتا ہے تو قرآن کریم کی درج ذیل آیت اور حضرت عائشہ ؓکی درج ذیل گواہی فوری ذہن میں آتی ہے کہ لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَةٌ حَسَنَۃ اور کان خلقہ القرآنتاریخ کے اوراق پر جنگوں کی تاریخ کے مطالعہ میں یہ بات عیاں ہے کہ کہ جنگیں اور لڑائیاں قومیت، لسانیت، مفادپرستی اورعصبیت کی وجہ سے ہوئیں۔ اسلام مخالف جنگوں میں مذہبی مخالفت کے بجائے عصبیت پسندی اور قومیت کی توجیہات کار فرما رہیں۔ لیکن رسول اللہﷺ نے ان تمام غزوات اور سرایا میں انسانیت کو مد نظر رکھتے ہوئے ایسا عملی نمونہ اور اصول وضع فرمائے جو رہتی دنیا تک قابل تقلید رہے گا۔ انہی اصولوں کی بناپر رسول اللہﷺ کے خلفاء اور صحابہ نے متواتر فتوحات حاصل کیں اور اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی رہے۔ امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے متعدد خطبات میں رسول اللہ ﷺ کا اسوہ اس بارہ میں پیش فرمایا ،ذیل میں ایک جھلک پیش ہے۔

قیدیوں کی سزاؤںمیں تخفیف یا رہائی

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :’’غزوۂ بدرکے اختتام کے بعدقیدیوں کومدینہ لایاگیااوررسیوں سے باندھ کرمسجدنبوی میں رکھاگیا، رات کوبعض قیدیوں کی کراہنے کی آوازسنائی دی، یہ آواز سن کرآنحضرتﷺبے چین ہوگئے اور بقیہ رات آنکھوں میں کاٹی، جب صبح ہوئی توآپ ﷺنے ان کی رسیوں کے بند ڈھیلے کرنے کاحکم دیا۔

حضرت مصعب بن عمیرؓ کے ماں شریک بھائی ابوعزیزکہتے ہیں: ’’میں بدرکے قیدیوںمیں انصارکے حصہ میں تھا، وہ لوگ آپﷺکے اس حکم کی وجہ سے صبح وشام مجھے روٹی کھلاتے، جب کہ خودکھجورکھاتے تھے۔‘‘(المعجم الکبیرللطبرانی، حدیث نمبر: 977)حضرت خلیفتہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ دیکھیں انسانی ہمدردی کی انتہا۔ آپ ہدایت دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ دشمن کے منہ پرزخم نہیں لگانا۔ کوشش کرنی ہے کہ دشمن کو کم از کم نقصان پہنچے۔ قیدیوں کے آرام کا خیال رکھنا ہے۔ غالباً جنگ بدر کے ایک قیدی نے بیان کیا کہ جس گھر میں وہ قید تھا اس گھر والے خود کھجور پر گزارا کرتے تھے اور مجھے روٹی دیا کرتے تھے اور اگر کسی بچے کے ہاتھ میں بھی روٹی آ جاتی تھی تو مجھے پیش کر دیتے تھے۔ اس نے ذکر کیاکہ مَیں بعض دفعہ شرمندہ ہوتاتھا اور واپس کرتا تھا لیکن تب بھی (کیونکہ یہ حکم تھا، اسلام کی تعلیم تھی) وہ باصرار روٹی مجھے واپس کر دیا کرتے تھے کہ نہیں تم کھاؤ۔ تو بچوں تک کا یہ حال تھا۔ یہ تھی وہ سلامتی کی تعلیم، امن کی تعلیم، ایک دوسرے سے پیار کی تعلیم، دوسروں کے حقوق کی تعلیم جوآنحضرتﷺ نے اپنی امت میں قائم کی۔ اور بچہ بچہ جانتاتھا کہ اسلام امن و سلامتی کے علاوہ کچھ نہیں۔ پھر کسی بھی قوم سے اچھے تعلقات کے لئے اس کے سفیروں سے حسن سلوک انتہائی ضروری ہے۔ آپؐ کا حکم تھا کہ غیر ملکی سفیروں سے خاص سلوک کرنا ہے۔ ان کا ادب اور احترام کرنا ہے اگر غلطی بھی ہو جائے تو صرف نظر کرنی ہے، چشم پوشی کرنی ہے۔ پھر اس امن قائم کرنے کے لئے فرمایاکہ اگر جنگی قیدیوں کے ساتھ کوئی مسلمان زیادتی کا مرتکب ہو تو اس قیدی کو بلامعاوضہ آزاد کر دو۔ تو یہ احکام ہیں جن سے پتہ لگتا ہے کہ اسلام کی جنگیں برائے جنگ نہ تھیں بلکہ اسلام کے لئے، اللہ تعالیٰ کے لئے تھیں۔ آزادی ضمیر و مذہب کے قیام کے لئے تھیں اور دنیا کو امن و سلامتی دینے کے لئے تھیں۔ پھر قیدیوں سے حسن سلوک کے بارے میں قرآنی تعلیم ہے کہ اگر کسی قیدی کو یا غلام کو فدیہ دے کر چھڑانے والا کوئی نہ ہو اور وہ خود بھی طاقت نہ رکھتا ہو تو فرمایا وَالَّذِیْنَ یَبْتَغُوْنَ الْکِتٰبَ مِمَّا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ فَکَاتِبُوْھُمْ اِنْ عَلِمْتُمْ فِیْھِمْ خَیْرًا وَّاٰتُوْھُمْ مِّنْ مَّالِ اللّٰہِ الَّذِیْ اٰتٰکُمْ(النور:34) یعنی تمہارے غلاموں یا جنگی قیدیوں میں سے جو تمہیں معاوضہ دینے کا تحریری معاہدہ کرنا چاہیں تو اگر تم ان میں صلاحیت پاؤ کہ ان میں یہ صلاحیت ہے، ان کو کوئی ہنر آتا ہے کہ وہ اس معاہدے کے تحت کوئی کام کرکے اپنی روزی کما سکتے ہیں تو تحریری معاہدہ کر لو اور ان کو آزاد کر دو اور وہ مال جو اللہ نے تمہیں دیا ہے اس سے بھی کچھ انہیں دو۔ یہ جو جنگوں کا خرچ ہے کیونکہ اس وقت انفرادی طور پر پورا کیا جاتا تھا تو جس مالک کے پاس وہ غلام ہے وہ اس کا کچھ خرچ برداشت کرے یا وہ نہیں کرتا تو مسلمان اکٹھے ہو کر اس کے لئے سامان کر دیں اس طرح اس کو آزادی مل جائے یا لکھ کر آزادی مل جائے یا اگر اس کا کوئی فائدہ ہو سکتا ہے تو جو تھوڑی بہت کمی رہ گئی اپنے پاس سے پوری کر دوتاکہ وہ آزادی سے روزی کما سکے اور اس طرح معاشرے کا آزاد شہری بنتے ہوئے ملکی ترقی میں بھی شامل ہو سکے کیونکہ اس کا ہنرا س کو فائدہ پہنچانے کے ساتھ ملک کے بھی کام آ رہاہو گا۔

تو یہ ہے اسلام کی خوبصورت تعلیم جو ہر پہلو سے ہر طبقے پر سلامتی بکھیرنے والی ہے۔ ہر ایک کو آزادی دلوانے والی ہے‘‘۔(خطبہ جمعہ 29؍جون 2007ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 20؍ جوالائی 2007ء)

شجاعت و بہادری

فرمایا: آنحضرت ﷺ کی امن پسند طبیعت لڑائیوں اور جنگوں کو نہیں چاہتی تھی۔ لیکن فطرتی جرأت اور بہادری کو بھی یہ گوارا نہیں تھا کہ دشمن سے اگر مقابلہ ہو جائے تو پھر بزدلی کا مظاہرہ کیا جائے۔ اور آپؐ اپنے صحابہ ؓکو بھی یہ نصیحت فرماتے تھے کہ اگر جنگ ٹھونسی جائے توپھر بزدلی نہیں دکھانی…. اور جب دعاؤں کے ساتھ آپؐ دشمن کے حملوں کا جواب دیتے تھے تو پھر جرأت و بہادری کے وہ اعلیٰ جوہر آپؐ دکھا رہے ہوتے تھے کہ انسان حیران رہ جاتا ہے۔ صحابہ ؓ میں سے بڑے بڑے بہادر بھی آپ کی جرأت و بہادری کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتے تھے اور اس بات کی گواہی خود صحابہ ؓ دیتے ہیں۔ چنانچہ حضرت براء بن عازب ؓ بیان کرتے ہیں کہ خدا کی قسم جب شدید لڑائی شروع ہو جاتی تو ہم رسول کریم ﷺ کو ڈھال بنا کر لڑتے تھے۔ اور ہم میں سے بہادر وہی سمجھا جاتا تھا جو رسول کریم ﷺ کے شانہ بشانہ لڑتا تھا۔ (مسلم -کتاب الجہاد -باب غزوۃ حنین)اصولی طورپر جب جنگ ہو رہی ہو تو خطرناک جگہ بھی وہی ہونی چاہئے جہاں آنحضرت ﷺ ہوتے تھے کیونکہ دشمن کی تو یہی کوشش ہوتی ہے کہ جب کسی قوم سے جنگ ہو تو یا مخالف قوم کے لیڈر کو قتل کر دیاجائے یا اس کو گرفتار کر لیا جائے تاکہ اس کی قوم کا حوصلہ پست ہو جائے اور فوجوں کا حوصلہ پست ہوجائے اور جنگ ختم ہو جائے۔ اس لئے دشمن کا سارا زور مرکز کی طرف ہوتا ہے اور خاص طور پر جب آمنے سامنے جنگ ہو رہی ہو، اور قوم کے لیڈر بھی اس میں موجود ہوں تو پھر انداز ہ کریں کہ کس طرح شدت کے ساتھ مخالف فوجیں اس مرکز میں پہنچنے کی کوشش کرتی ہوں گی۔ اور آنحضرت ﷺ تو اپنی فطرتی جرأت او ر بہادری کی وجہ سے دشمنوں کے سامنے بہت زیادہ آ جایا کرتے تھے اور پھر ایسے میں آپؐ کے جانثار صحابہ ؓ بھی کس طرح برداشت کرتے کہ آپؐ کو اکیلا چھوڑیں۔ صحابہ کے لئے بھی جنگ میں یہی سخت ترین مقام ہوتا تھا اور دشمن کی کوشش یہی ہوتی تھی کہ مرکزی ٹارگٹ تو آنحضرت ﷺ تھے اس لئے صحابہ پر حملہ کرنے کی نسبت آپؐ پر حملہ کرنے کی زیادہ کوشش ہوتی تھی۔ لیکن دیکھیں کہ آپ ﷺ جیسا لیڈر بھی کسی قوم کو کیا ملاہو گا کہ جو آپؐ کے ارد گرد اکٹھے ہو رہے ہیں، جمع ہو رہے ہیں کہ دشمن کا حملہ سخت ہے اور آپ ﷺ کو اس سے محفوظ رکھنا ہے۔ وہ یہ اعتراف کر رہے ہیں کہ آنحضرت ﷺ ان کے لئے ڈھال ہوتے تھے۔ آپؐ بھی اس فکر سے جنگ میں دشمن کے حملوں کو ناکام کرتے تھے، اس فکر سے لڑ رہے ہوتے تھے کہ مَیں نے اپنے صحابہ ؓکی حفاظت بھی کرنی ہے اور دشمن کے حملوں کو ناکام بھی کرنا ہے۔ تو یہ تھے جرأت و شجاعت و بہادری کے نمونے جو آنحضرت ﷺ نے دکھائے۔پھر جنگ بدر کے موقع پر آپؐ کی جرأت و بہادری کا ایک واقعہ ہے۔ حضرت انس بن مالک ؓ سے مروی ہے۔ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ کے صحابہ ؓ مدینے سے روانہ ہوئے اور مشرکین سے پہلے بدر کے میدان میں پہنچ گئے۔ پھر مشرکین بھی پہنچ گئے۔ تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی آگے نہ بڑھے جب تک مَیں اس سے آگے نہ ہوں۔ (یعنی میرے پیچھے رہنا اور دشمن سے مقابلے کے وقت مَیں ہی سب سے آگے ہوں گا۔)پھر جب مشرکین آگے بڑھ کر اسلامی فوج کے قریب آئے تب آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اس جنت کو حاصل کرنے کے لئے آگے بڑھو جس کی لمبائی اور چوڑائی آسمانوں اور زمینوں کے برابر ہے۔ (مسند احمد بن حنبل جلد 3صفحہ 137`136مطبوعہ بیروت)یعنی جب باقاعدہ لڑائی شروع ہو گئی تو پھر سب کو اجازت دی کہ اب اپنے اپنے ہنر دکھاؤ اور اب جنگ میں کود پڑو۔ اب بزدلی نہیں دکھانی۔ اور آپؐ بھی ان میں پیش پیش تھے….پھر جنگ اُحد کا واقعہ دیکھیں جب بعد مشورہ آپ کی مرضی کے خلاف باہر جا کر دشمن سے مقابلے کا فیصلہ ہوا اور بعض صحابہ ؓ کو بعد میں اپنی غلطی کا احساس بھی ہوا اور اس پر انہوں نے آپ ﷺ کو روکنے کی کوشش بھی کی۔ تو جو جواب آپؐ نے دیا وہ جہاں آپ کے توکّل کو ظاہر کرتا ہے وہاں آپؐ کی جرأت و شجاعت کا بھی اس میں خوب اظہار ہے۔ آپ ؐ نے فرمایا کہ یہ بات نبی کی شان کے خلاف ہے کہ جب وہ ایک دفعہ ہتھیار باندھ لے پھر اللہ تعالیٰ کے فیصلہ فرمانے سے پہلے اتار دے۔ یعنی یا تو خداتعالیٰ کی طرف سے حکم ہو یا پھر اب میدان جنگ میں ہی فیصلہ ہو گا۔ اب جنگ سے بچنے کے لئے میں یہ کام نہیں کروں گا یہ جرأت و مردانگی کے خلاف ہے۔ اور نبی بھی وہ نبی جو خاتم الانبیاء ہے وہ اب یہ بزدلی کا کام کس طرح کر سکتا ہے۔ اور پھر جب مسلمانوں کی غلطی کی وجہ سے جیتی ہوئی جنگ کا پانسہ پلٹ گیا اور دشمن نے مسلمانوں کو کچھ نقصان پہنچایا، مسلمان تتر بتر ہو گئے، اس وقت بھی آپؐ ایک مضبوط چٹان کی طرح ڈٹے رہے۔پھر جنگ حنین میں آپؐ کی بہادری کی روایت ملتی ہے۔ ابو اسحاق سے روایت ہے کہتے ہیں کہ ایک دفعہ ایک شخص حضرت براء ؓ کے پاس آیا اور ان سے پوچھا کہ کیا آپ نے جنگ حنین کے موقع پر دشمن کے مقابلے پر پیٹھ پھیرلی تھی؟۔ تو انہوں نے جواب دیا کہ مَیں سب کے بارے میں تو کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن میں آنحضرت ﷺ کے بارے میں ضرور گواہی دوں گا کہ آپؐ نے دشمن کے شدید حملے کے وقت بھی پیٹھ نہیں پھیری تھی۔ پھر انہوں نے کہا کہ اصل بات یہ ہے کہ ہوازن قبیلے کے خلاف جب مسلمانوں کا لشکر نکلا تو انہوں نے بہت ہلکے پھلکے ہتھیار پہنے ہوئے تھے یعنی ان کے پاس زرہیں وغیرہ اور بڑا اسلحہ نہیں تھا اور ان میں بہت سے ایسے تھے جو بالکل نہتّے تھے۔ لیکن اس کے مقابل پر ہوازن کے لوگ بڑے کہنہ مشق تیر انداز تھے۔ جب مسلمانوں کا لشکر ان کی طرف بڑھا تو انہوں نے اس لشکر پر تیروں کی ایسی بوچھاڑ کر دی جیسے ٹڈی دل کھیتوں پر حملہ کرتی ہے۔ اس حملے کی تاب نہ لا کر مسلمان بکھر گئے۔ لیکن اُن کا ایک گرو ہ آنحضرت ﷺ کی طرف بڑھا۔ حضورؐ ایک خچر پر سوار تھے جسے آپؐ کے چچا ابو سفیان بن حارث لگام سے پکڑے ہوئے ہانک رہے تھے۔ جب مسلمانوں کو اس طرح بکھرتے ہوئے دیکھا تو آپؐ کچھ وقفے کے لئے اپنے خچر سے نیچے اترے اور اپنے مولا کے حضور دعا کی۔ پھر آپؐ خچر پر سوار ہو کر مسلمانوں کو مددد کے لئے بلاتے ہوئے دشمن کی طرف بڑھے اور آپؐ یہ شعر پڑھتے جاتے تھے

اَنَا النَّبِیُّ لَا کَذِبْ

اَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ

میں خداکا نبی ہوں اور یہ سچی بات ہے لیکن میں وہی عبدالمطلب کا بیٹا ہوں۔ یعنی میری غیر معمولی جرأت دیکھ کر یہ نہ سمجھنا کہ میں کوئی فوق البشر چیز ہوں۔ ایک انسان ہوں اور اسی طرح جرأت دکھا رہا ہوں۔ اور آپؐ یہ دعا کرتے جاتے تھے کہ اَللّٰھُمَّ نَزِّلْ نَصْرَکَ اے خدا! اپنی مدد نازل کر۔ پھر حضرت براء نے کہا کہ حضورؐ کی شجاعت کا حال سنو کہ جب جنگ جوبن پر ہوتی تھی تو اس وقت حضورؐ سب سے آگے ہو کرسب سے زیادہ بہادری سے لڑ رہے ہوتے تھے۔ اور ہم لوگ اس وقت حضورؐکو ہی اپنی ڈھال اور اپنی آڑ بنایا کرتے تھے اور ہم میں سے سب سے زیاہ وہی بہادر سمجھا جاتا تھا جو حضورؐکے شانہ بشانہ لڑتا تھا۔ (صحیح مسلم کتاب الجہاد باب غزوۃحنین)تو کئی جگہوں سے اس کی گواہی ملتی ہے ایک آدھ صحابی کی مثال نہیں ہے….حضرت اقدس مسیح موعود ؑآپؐ کی جرأت و شجاعت کے بارے میں فرماتے ہیں کہ’’ایک وقت ہے کہ آپ فصاحت بیانی سے ایک گروہ کو تصویر کی صورت حیران کر رہے ہیں۔ ایک وقت آتا ہے کہ تیرو تلوار کے میدان میں بڑھ کر شجاعت دکھاتے ہیں۔ سخاوت پر آتے ہیں تو سونے کے پہاڑ بخشتے ہیں۔ حلم میں اپنی شان دکھاتے ہیں تو واجب القتل کو چھوڑ دیتے ہیں۔ الغرض رسول اللہﷺ کا بے نظیر اور کامل نمونہ ہے جو خداتعالیٰ نے دکھا دیا ہے۔ اس کی مثال ایک بڑے عظیم الشان درخت کی ہے جس کے سایہ میں بیٹھ کر انسان اس کے ہر جزو سے اپنی ضرورتوں کو پورا کر لے۔ اس کا پھل، اس کا پھول اور اس کی چھال، اس کے پتے غرضیکہ ہر چیز مفید ہو۔ آنحضرت ﷺ اس عظیم الشان درخت کی مثال ہیں جس کا سایہ ایسا ہے کہ کروڑ ہا مخلوق اس میں مرغی کے پروں کی طرح آرام او رپناہ لیتی ہے۔ لڑائی میں سب سے بہادر وہ سمجھا جاتا تھاجو آنحضرت ﷺ کے پاس ہوتا تھا۔ کیونکہ آپؐ بڑے خطرناک مقام میں ہوتے تھے۔ سبحان اللہ !کیا شان ہے۔ اُحد میں دیکھو کہ تلواروں پر تلواریں پڑتی ہیں ایسی گھمسان کی جنگ ہو رہی ہے کہ صحابؓہ برداشت نہیں کر سکتے مگر یہ مرد میدان سینہ سپر ہو کر لڑ رہا ہے۔ اس میں صحابہ ؓ کا قصور نہ تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کوبخش دیا بلکہ اس میں بھید یہ تھا کہ تا رسول اللہﷺ کی شجاعت کا نمونہ دکھایا جاوے۔ ایک موقع پر تلوار پر تلوار پڑتی تھی اور آپؐ نبوت کا دعویٰ کرتے تھے۔ (یعنی حنین کے واقعہ کا ذکر ہے کہ محمد رسول اللہ میں ہوں) کہتے ہیں حضرت کی پیشانی پر ستر زخم لگے مگر زخم خفیف تھے۔ یہ خُلقِ عظیم تھا۔‘‘(ملفوظات جلد اول صفحہ 84جدید ایڈیشن- رپورٹ جلسہ سالانہ 1897ء صفحہ 153`152)(خطبہ جمعہ 22؍ اپریل 2005ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل6؍مئی2005ء)

ایفائے عہد

رسول اللہﷺ نے عہدوں کو پورا کرنے کی مثال قائم فرمائی۔ غزوہ بدر میں حضرت حذیفہؓ بن یمان اور ان کے والد کو محض اس لیے واپس کردیاکہ وہ قریش سے یہ وعدہ کرچکے تھے کہ ان کے خلاف جنگ میں شریک نہیں ہوں گے۔ پھر صلحِ حدیبیہ کے موقعے پر حضرت ابو جندل ؓ اور بعد میں ابو بصیؓر نہایت مظلومیت کی حالت میں قریش کی قید سے نکل کر مسلمانوں تک پہنچنے میں بمشکل کامیاب ہوئے اور بار بار عاجزانہ درخواستیں کیں کہ اُن کو قریش کے حوالہ نہ کیا جائے، لیکن باوجود اس کے کہ خود آپؐ کو ان پر ترس آتا تھا۔ لیکن آپ نے انہیں معاہدہ کی پاسداری کرتے ہوئے واپس بھجوادیا۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ’’صلح حدیبیہ کے معاہدے کی پابندی کے ضمن میں ہی عہد کی پابندی کا یہ واقعہ بھی عدیم المثال ہے، جس کا تاریخ میں یوں ذکر آتا ہے کہ ابھی صلح حدیبیہ کا صلح نامہ لکھا جا رہا تھا کہ ابو جندلؓ بن سہیل بن عمرو زنجیروں سے بندھے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ سلم کی خدمت میں آئے جبکہ مسلمانوں کی یہ حالت تھی کہ پہلے تو بڑے ذوق و شوق میں رسول اللہﷺ کے خواب کی خبر سن کر مکّہ کی زیارت اور فتح کی امید سے آئے تھے۔ اب جو حضور ﷺ کو اس طرح صلح کرکے واپس ہوتے دیکھا تو مسلمان بہت افسردہ دل ہو گئے اور قریب تھا کہ اس رنج سے ہلاک ہو جائیں۔ تو بہرحال سہیل بن عمرو نے اپنے بیٹے ابو جندل کو کھڑا دیکھا تو ایک طمانچہ اس کے منہ پر مارا اور حضورؐ سے کہا اے محمد!(ﷺ) میرے تمہارے درمیان قضیہ کا اس کے آنے سے پہلے فیصلہ ہو چکا ہے۔ یعنی میں اپنے بیٹے ابو جندل ؓ کو تمہارے ساتھ جانے نہ دوں گا۔ حالانکہ یہ بھی غلط بات تھی۔ بہرحال حضور ﷺ نے فرمایا توُ سچ کہتا ہے۔ سہیل نے ابو جندلؓ کو کھینچ کے پیچھے کرنا چاہا تاکہ قریش میں پہنچا دے۔ ابو جندلؓ نے شور کرنا شروع کر دیا کہ یا رسول اللہ! اور اے مسلمانو! کیا مَیں کافروں میں واپس کر دیا جاؤں گا تاکہ وہ مجھ کو تکلیفیں پہنچائیں۔ مسلمانوں کو اس سے بہت قلق ہوا۔ حضور ﷺ نے فرمایا اے ابو جندل! تم چند روز اور صبرکرو۔ عنقریب خدا وندتعالیٰ تمہارے واسطے کشادگی پیدا کرے گا۔ مَیں مجبور ہوں ’’ وَاَعْطَیْنَاھُمْ عَلٰی ذٰلِکَ وَاَعْطُوْنَا عَھْدَ اللّٰہِ وَاِنَّا لَا نَغْدُرُبِھِمْ ‘‘کہ ہم نے اس بارے میں ایک دوسرے سے معاہدہ کر لیا ہے اور ہم ان سے کئے گئے عہد کی ہرگز بد عہدی نہیں کریں گے۔ (السیرۃ النبویۃ لابن ھشام۔ امر الحدیبیۃ۔ ماأھم الناس من الصلح ومجیٔ ابی جندل)دیکھیں سب سے زیادہ تکلیف اور صدمہ تو آپؐ کو اس واقعے سے پہنچا ہو گا۔ لیکن آپؐ نے عہد کا پاس کیا۔ اس کی پابندی کی۔ حالانکہ عہد ابھی لکھا ہی گیا تھا۔ شاید اس کی سیاہی بھی خشک نہ ہوئی ہو۔ اور اس دوران ابو جندل وہاں پہنچ چکے تھے۔ لیکن آپؐ جو معاہدوں کے اعلیٰ معیار قائم کرنے والے تھے، آپ جو اس بات کا سب سے زیادہ ادراک رکھتے تھے کہ اپنے عہدوں کی پابندی اور نگرانی کرو۔ آپ نے فرمایا کہ صبر کرو، مَیں مجبور ہوں اور عہد پر عمل کا پابند ہوں۔ اور پھر دیکھیں عہدکی پابندی کا اجر اللہ تعالیٰ نے کتنا بڑا دیا اور ان مظلوموں اور مجبوروں کے صبر کا پھل کتنا بڑا دیا کہ خود کفار سے ہی ایسی حرکتیں سرزد ہوگئیں جن سے عہد ختم ہوگیا، معاہدہ ٹوٹ گیا اور آخر اس کے نتیجہ میں فتح مکہ ہوئی۔پھر دیکھیں جنگوں میں اور خاص طورپر جنگ بدر میں جب مسلمان بہت ہی کمزور تھے۔ جتنی بھی مدد مل جاتی اتنی ہی کافی تھی کیونکہ کفار بھرپور رنگ میں تیار ہو کر آئے تھے۔ آپؐ نے عہد کی پابندی کی خاطر دو اشخاص کو جنگ میں حصہ لینے سے روک دیا۔ اس واقعہ کا ذکر یوں ملتاہے کہ حذیفہ بن یمان روایت کرتے ہیں کہ جنگ بدر میں شریک ہونے کے لئے مجھے یہ بات مانع ہوئی، روک یہ بن گئی کہ مَیں اور اَ بُوحُسَیْل نکلے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ ہمیں کفار قریش نے پکڑ لیا اور کہا کہ تم محمد(ﷺ ) سے ملنے کا ارادہ رکھتے ہو۔ ہم نے کہا ہمارا یہ ارادہ نہیں ہے۔ ہمارا ارادہ صرف مدینہ جانے کا ہے۔ انہوں نے ہم سے عہد لے کرچھوڑا کہ ہم مدینہ جائیں گے اور محمد(ﷺ ) کے ساتھ مل کر جنگ نہیں کریں گے۔ چنانچہ ہم رسول اللہﷺ کے پاس آئے اور ان کواس واقعہ سے جو ہمیں پیش آیا تھا آگاہ کیا۔ یہ سن کر آنحضورﷺ نے فرمایا تم دونوں جاؤ اور ان سے کیا ہوا عہد پورا کرو۔ ہم ان کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ کی مدد طلب کریں گے۔ (مسلم – کتاب الجہاد – باب الوفاء بالعہد)دیکھیں یہ تھا آپ کا عمل۔ آدمیوں کی سخت ضرورت ہے۔ ایک ایک آدمی کی اہمیت ہے جنگ کی حالت میں کوئی بھی ایسی باتوں کو اہمیت نہیں دیتا۔ لیکن آپؐ نے فرمایا عہد کو نبھانا ضروری ہے۔ اللہ خود ہمارا مددگار ہوگا۔ اور پھردیکھیں اللہ نے بھی کس طرح مدد فرمائی۔پھر ایک اور واقعہ دیکھیں اس سے پتہ چلتا ہے کہ کس باریکی سے آپ عہدوں کی پابندی فرمایا کرتے تھے۔ حسن بن علی بن ابی رافع بیان کرتے ہیں کہ ابورافع رضی اللہ عنہ نے انہیں بتایا کہ قریش نے مجھے رسول اللہﷺ کے پاس بھیجا۔ جب مَیں نے آنحضرت ﷺ کو دیکھا تو میرے دل میں اسلام کی محبت گھر کر گئی۔ اس پر مَیں نے کہا :یا رسول اللہ !بخدا مَیں ان قریش کے ہاں واپس نہیں جاؤں گا۔ اس پر آنحضرت ﷺ نے فرمایا:مَیں بد عہدی نہیں کیاکرتا اور نہ سفیروں کو قید کرتاہوں۔ البتہ تم واپس جاؤ اور اگر تمہاری وہ کیفیت جو اس وقت ہے برقرار رہے(یہ بھی پتہ لگ جائے گاکہ وقتی جوش تو نہیں ہے) تو واپس آ جانا۔ ابو رافع کہتے ہیں کہ میں واپس گیا اور پھر نبی کریم ﷺ کے پاس آ گیا اور اسلام قبول کر لیا۔ (ابوداؤد- کتاب الجہاد۔ باب فی الامام یستجن بہ فی العہود)توہر نئے مسلمان ہونے والے کو آپؐ نے پہلے دن سے ہی یہ سبق دیا کہ ایک تو امانت میں خیانت نہیں کرنی، اس کا پہلے ذکر آ چکا ہے۔ دوسرے یہ کہ عہد کی پابندی کرنی ہے‘‘۔ (خطبہ جمعہ 15؍ جولائی 2005ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل29؍جولائی2005ء)

جنگ سے قبل سلامتی کی طرح

حضور انور فرماتے ہیں کہآنحضرتﷺ کی ذات پر بھی یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ آپؐ بھی نعوذ باللہ زبردستی لشکر کشی کیا کرتے تھے اور زبردستی مسلمان بناتے تھے اور اسی لیے یہ جنگیں لڑی گئیں۔ اور اس دلیل کے علاوہ یہ دلیل بھی دی جاتی ہے کہ آنحضرتﷺ جب بادشاہوں کو تبلیغی خطوط لکھا کرتے تھے یا جب کوئی لشکر بھجواتے تھے یا جب کوئی غزوہ ہوتا تھا اَسْلِمْ تَسْلَم یا اَسْلِمُوْا تَسْلَمُوْا کا پیغام بھجواتے تھے یعنی اسلام قبول کر لو تو محفوظ رہو گے۔ اور اس کا نتیجہ نکالنے والے یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ اس کا مطلب ہے کہ یہ دھمکی ہے کہ اسلام قبول کر لو ورنہ پھر ہم طاقت کے زور سے منوائیں گے۔پہلی بات تو یہ کہ آنحضرتﷺ خالصتاً تبلیغی نقطہ نظر سے یہ فرماتے تھے کہ اسلام کا پیغام ہی ہے جو سلامتی کا پیغام ہے اس لیےاس کی فرمانبرداری کرو اور اس کے سائے تلے آ جاؤ۔ یہ معترضین تو دنیا کی آنکھ سے دیکھتے ہیں یہ کم از کم اتنی عقل کرتے کہ بڑے بڑے بادشاہوں کو آنحضرتﷺ نے تبلیغی خطوط لکھے اور ایک ہی وقت میں خطوط لکھے اور بقول معترضین کے کہ یہ دھمکی آمیز الفاظ ہیں تو یہ خطوط ایک ہی وقت میں دنیا کی تمام بڑی بڑی حکومتوں کو، بادشاہوں کو لکھے جا رہے ہیں کہ اگر نہ مانو گے تو جنگ کے لیےتیارہو جاؤ۔ اگر ان کے مطابق اس کے معنے لیے جائیں تو کوئی بھی عام عقل کا انسان بھی اس قسم کی حرکت نہیں کر سکتا کہ تمام دنیا سے ایک وقت میں ٹکر لی جائے جبکہ خود اس وقت اسلام کی طاقت محدود تھی۔ ان کو کچھ تو عقل کرنی چاہئے، سوچناچاہئے۔ آنحضرتﷺ نے جو خداتعالیٰ کے نبی تھے اور اس کی ذات پر آپ کو مکمل یقین تھا آپؐ نے یہ پیغام دیا لیکن اس لیےدیا کہ آپؐ انسانی ہمدردی چاہتے تھے اور آپؐ کو یقین تھا کہ اس دین میں ہی اب امن و سلامتی ہے۔ یہی دین ہے جو امن اور سلامتی پھیلانے والا دین ہے اس لیے دنیا کو اسے تسلیم کرنا چاہئے۔ اور اس نیت سے انہوں نے یہ پیغام مختلف بادشاہوں کو بھجوائے۔ آنحضرتﷺ، جن کو خداتعالیٰ نے اپنا آخری شرعی پیغام دے کر دنیا میں بھیجا سے زیادہ کوئی بھی اس یقین پر قائم نہیں ہو سکتا تھاکہ اب یہی پیغام ہے جو دنیا کی سلامتی کا ضامن ہے۔ پس اس لحاظ سے انہی الفاظ کے ساتھ آپؐ نے بادشاہوں کو بھی دعوت دی اور آپ اس ہمدردی کی وجہ سے ہر حد سے بڑھے ہوئے کو جو اسلام کو ختم کرنے کے درپے تھا جنگ شروع ہونے سے پہلے یہی پیغام بھیجا کرتے تھے کہ اسلام تو امن و سلامتی اور صلح کا پیغام ہے اب جبکہ تم ہم پر جنگ ٹھونس رہے ہو ہم اب بھی اس سے گریز کرتے ہوئے تمہیں یہ سلامتی کا پیغام دیتے ہیں کہ اگر تم اپنے مذہب پر قائم رہنا چاہتے ہو تو رہو۔ بیشک اپنے طریق کے مطابق عبادت کرو لیکن اسلام کے خلاف سازشیں کرنے اور مسلمانوں کو تنگ کرنے سے باز آ جاؤ۔ اور اب جبکہ تم نے ہم پر جنگ ٹھونسی ہے اور اس کو ماننے کو تیار نہیں تو اب یہی ایک حل ہے کہ اگر تم جنگ ہارتے ہو تب بھی تمہیں فرمانبرداری اختیار کرنا پڑے گی او راگر جنگ کیےبغیر اسلام کی فرمانبرداری اور اطاعت میں آتے ہو تب بھی ٹھیک ہے، تمہارے سارے حقوق تمہیں دیے جائیں گے۔ پس یہ الزام قطعاً غلط ہے کہ نعوذ باللہ کوئی دھمکی تھی بلکہ اس کو جس طرح بھی لیا جائے یہ اس حکم کی تعمیل تھی کہ جب تک دین خالصتاً اللہ کے لیے(نہ) ہو جائے امن قائم کرنے کی کوشش کرنی ہے۔ ہر ایک کو مذہبی آزادی دینی ہے۔

ظلم سے بچنا

تاریخ شاہد ہے کہ آپ جنگوں میں کس طرح محکوم قوم کا خیال رکھا کرتے تھے اور اس کی تلقین فرمایا کرتے تھے۔ یہاں تک فرمایا کہ جنگ میں کوئی دھوکے بازی نہیں کرنی۔ آپ کے حملے بھی ہمیشہ دن کی روشنی میں ہوا کرتے تھے۔ حکم تھا کہ کسی بچے کو نہیں مارنا، کسی عورت کو نہیں مارنا، پادریوں اور مذہبی رہنماؤں کو قتل نہیں کرنا، بوڑھوں کو نہیں مارنا بلکہ جو تلوار نہیں اٹھاتا اسے بھی کچھ نہیں کہنا چاہے وہ نوجوان ہو۔ پھر دشمن ملک کے اندر خوف اور دہشت پیدا نہیں کرنی۔ لشکر جنگ میں اپنا پڑاؤ ڈالیں تو ایسی جگہ ڈالیں جہاں لوگوں کو تکلیف نہ ہو اور فرمایا جو اس بات کی پابندی نہیں کرے گا اس کی لڑائی خدا کے لیےنہیں ہو گی بلکہ اپنے نفس کے لیےہو گی اور جو لڑائیاں نفس کے لئے لڑی جاتی ہیں اس میں ظلم و تعدّی کے علاوہ کچھ نہیں ہوا کرتا۔ تو اس ظلم و تعدّی کو روکنے کے لیےہی اور اس سلامتی کو پھیلانے کے لیے ہی حکم ہے کہ تمہارا ہر کام خدا کی خاطر ہونا چاہیے۔

انسانی ہمدردی کا اعلیٰ معیار

پھر دیکھیں انسانی ہمدردی کی انتہا۔ آپ ہدایت دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ دشمن کے منہ پرزخم نہیں لگانا۔ کوشش کرنی ہے کہ دشمن کو کم از کم نقصان پہنچے۔ قیدیوں کے آرام کا خیال رکھنا ہے۔ غالباً جنگ بدر کے ایک قیدی نے بیان کیا کہ جس گھر میں وہ قید تھا اس گھر والے خود کھجور پر گزارا کرتے تھے اور مجھے روٹی دیا کرتے تھے اور اگر کسی بچے کے ہاتھ میں بھی روٹی آ جاتی تھی تو مجھے پیش کر دیتے تھے۔ اس نے ذکر کیاکہ مَیں بعض دفعہ شرمندہ ہوتاتھا اور واپس کرتا تھا لیکن تب بھی (کیونکہ یہ حکم تھا، اسلام کی تعلیم تھی) وہ باصرار روٹی مجھے واپس کر دیا کرتے تھے کہ نہیں تم کھاؤ۔ تو بچوں تک کا یہ حال تھا۔ یہ تھی وہ سلامتی کی تعلیم، امن کی تعلیم، ایک دوسرے سے پیار کی تعلیم، دوسروں کے حقوق کی تعلیم جوآنحضرتﷺ نے اپنی امت میں قائم کی۔ اور بچہ بچہ جانتاتھا کہ اسلام امن و سلامتی کے علاوہ کچھ نہیں۔ پھر کسی بھی قوم سے اچھے تعلقات کے لیےاس کے سفیروں سے حسن سلوک انتہائی ضروری ہے۔ آپؐ کا حکم تھا کہ غیر ملکی سفیروں سے خاص سلوک کرنا ہے۔ ان کا ادب اور احترام کرنا ہے اگر غلطی بھی ہو جائے تو صرف نظر کرنی ہے، چشم پوشی کرنی ہے۔ پھر اس امن قائم کرنے کے لیےفرمایاکہ اگر جنگی قیدیوں کے ساتھ کوئی مسلمان زیادتی کا مرتکب ہو تو اس قیدی کو بلامعاوضہ آزاد کر دو۔ تو یہ احکام ہیں جن سے پتہ لگتا ہے کہ اسلام کی جنگیں برائے جنگ نہ تھیں بلکہ اسلام کے لیے، اللہ تعالیٰ کے لیے تھیں۔ آزادی ضمیر و مذہب کے قیام کے لئے تھیں اور دنیا کو امن و سلامتی دینے کے لئے تھیں۔ پھر قیدیوں سے حسن سلوک کے بارے میں قرآنی تعلیم ہے کہ اگر کسی قیدی کو یا غلام کو فدیہ دے کر چھڑانے والا کوئی نہ ہو اور وہ خود بھی طاقت نہ رکھتا ہو تو فرمایا وَالَّذِیۡنَ یَبۡتَغُوۡنَ الۡکِتٰبَ مِمَّا مَلَکَتۡ اَیۡمَانُکُمۡ فَکَاتِبُوۡہُمۡ اِنۡ عَلِمۡتُمۡ فِیۡہِمۡ خَیۡرًا ٭ۖ وَّاٰتُوۡہُمۡ مِّنۡ مَّالِ اللّٰہِ الَّذِیۡۤ اٰتٰٮکُمۡ(النور:34) یعنی تمہارے غلاموں یا جنگی قیدیوں میں سے جو تمہیں معاوضہ دینے کا تحریری معاہدہ کرنا چاہیں تو اگر تم ان میں صلاحیت پاؤ کہ ان میں یہ صلاحیت ہے، ان کو کوئی ہنر آتا ہے کہ وہ اس معاہدے کے تحت کوئی کام کرکے اپنی روزی کما سکتے ہیں تو تحریری معاہدہ کر لو اور ان کو آزاد کر دو اور وہ مال جو اللہ نے تمہیں دیا ہے اس سے بھی کچھ انہیں دو۔ یہ جو جنگوں کا خرچ ہے کیونکہ اس وقت انفرادی طور پر پورا کیا جاتا تھا تو جس مالک کے پاس وہ غلام ہے وہ اس کا کچھ خرچ برداشت کرے یا وہ نہیں کرتا تو مسلمان اکٹھے ہو کر اس کے لئے سامان کر دیں اس طرح اس کو آزادی مل جائے یا لکھ کر آزادی مل جائے یا اگر اس کا کوئی فائدہ ہو سکتا ہے تو جو تھوڑی بہت کمی رہ گئی اپنے پاس سے پوری کر دوتاکہ وہ آزادی سے روزی کما سکے اور اس طرح معاشرے کا آزاد شہری بنتے ہوئے ملکی ترقی میں بھی شامل ہو سکے کیونکہ اس کا ہنرا س کو فائدہ پہنچانے کے ساتھ ملک کے بھی کام آ رہاہو گا۔

تو یہ ہے اسلام کی خوبصورت تعلیم جو ہر پہلو سے ہر طبقے پر سلامتی بکھیرنے والی ہے۔ ہر ایک کو آزادی دلوانے والی ہے۔ (خطبہ جمعہ 29؍ جون 2007ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل20؍جوالائی 2007ء)

انتقامی جنگ سے دوری

حضور انور فرماتے ہیں کہ حضرت سعدبن عبادہ ؓنے فتح مکہ کے موقع سے وفورِجذبات میں سرشاراورجوشِ جنوںمیں بے خودہوکریہ کہدیا: الیوم یوم الملحمۃ، الیوم تستحل الکعبۃ’’آج لڑائی کا دن ہے، آج کعبہ میں جنگ وجدل جائزہوگا۔‘‘حضرت ابوسفیان نے آپ ﷺسے حضرت سعدکی شکایت کی توآپ ﷺنے فرمایا: كَذَبَ سَعْدٌ، وَلَكِنْ هَذَا يَوْمٌ يُعَظِّمُ اللَّهُ فِيهِ الْكَعْبَةَ، وَيَوْمٌ تُكْسَى فِيهِ الْكَعْبَةُ۔ (بخاری، باب أین رکز النبیﷺ الرایۃ یوم الفتح، حدیث نمبر: 4280) سعدنے غلط کہا، آج خانۂ کعبہ کی عظمت کا دن ہے، آج اس کوغلاف پہنایاجائے گا۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ابوسفیان نے اسلام قبول کر لیا۔ جب آنحضرت ﷺ چلےیعنی مکےکی طرف تو آپؐ نے حضرت عباسؓ سے فرمایا۔ ابوسفیان کو پہاڑ کے درّے پر روکے رکھنا تا کہ وہ مسلمانوں کو دیکھ لے۔ چنانچہ حضرت عباسؓ نے اسے روکے رکھا۔ مختلف قبائل نبی کریم ﷺ کے ساتھ گزرنے لگے۔ لشکر کا ایک ایک دستہ ابوسفیان کے سامنے سے گزرتا گیا۔ جب ایک گروہ گزرا تو ابوسفیان نے کہا عباسؓ! یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے کہا یہ قبیلہ غِفار کے لوگ ہیں۔ ابوسفیان نے کہا مجھے غفار سے کیا سروکار۔ پھر جُہینہ والے گزرے۔ ابوسفیان نے ویسے ہی کہا۔ پھر سعد بن ھُذَیْم والے گزرے۔ پھر اس نے ویسے ہی کہا۔ پھر سُلیم والے گزرے۔ پھر اس نے ویسے ہی کہا۔ یہاں تک کہ آخر میں ایک ایسا لشکر آیا کہ ویسا اس نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ ابوسفیان نے پوچھا یہ کون ہیں؟ حضرت عباسؓ نے کہا انصار ہیں اور ان کے سردار سعد بن عبادہؓ ہیں جن کے پاس جھنڈا ہے۔ حضرت سعد بن عبادہؓ نے پکار کر کہا ابوسفیان! آج کا روز گھمسان کی لڑائی کا روز ہے۔ آج کعبہ میں لڑائی حلال ہو گی۔ ابوسفیان نے یہ سن کر کہا عباسؓ ! بربادی کا یہ دن کیا خوب ہو گا اگر مقابلے کا موقع مل جاتا۔ یعنی کہ میں دوسری طرف ہوتا یا کہ اس طرف ہونے کی وجہ سے مجھے بھی موقع ملتا کیونکہ اسلام قبول کر لیا تھا۔ پھر ایک اَور دستہ فوج کا آیا اور وہ تمام لشکروں سے چھوٹا تھا۔ ان میں رسول اللہﷺ تھے اور آپؐ کے ساتھی مہاجرین تھے اور نبی ﷺ کا جھنڈا حضرت زبیر بن عوامؓ کے پاس تھا۔ جب رسول اللہﷺ ابو سفیان کے پاس سے گزرے تو ابوسفیان نے کہا کیا آپؐ کو علم نہیں کہ سعد بن عبادہؓ نے کیا کہا ہے؟ آپؐ نے پوچھا کیا کہا ہے؟ اس نے کہا کہ ایسا کہا ہے۔ جو بھی انہوں نے الفاظ استعمال کیے تھے (وہ بتائے)۔ آپؐ نے فرمایا سعدؓ نے درست نہیں کیا بلکہ یہ وہ دن ہے جس میں اللہ کعبہ کی عظمت قائم کرے گا اور کعبہ پر غلاف چڑھایا جائے گا۔ کوئی جنگ ونگ نہیں ہو گی۔ (صحیح بخاری کتاب المغازی، باب أین رکز النبیؐ الرایۃ یوم الفتح حدیث 4280) (معجم البلدان جلد 4 صفحہ 247)اس واقعےکو حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ذرا تھوڑی سی تفصیل سے بیان کیا ہے….انصار کے کمانڈر سعد بن عبادہؓ نے ابوسفیان کو دیکھ کر کہا۔ آج خدا تعالیٰ نے ہمارے لیے مکہ میں داخل ہونا تلوار کے زور سے حلال کر دیا ہے۔ آج قریشی قوم ذلیل کر دی جائے گی۔ جب رسول اللہﷺ ابوسفیان کے پاس سے گزرے تو اس نے بلند آواز سے کہا کہ یا رسول اللہؐ ! کیا آپؐ نے اپنی قوم کے قتل کی اجازت دے دی ہے۔ ابھی ابھی انصار کے سردار سعدؓ اور اس کے ساتھی ایسا کہہ رہے تھے…رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ ابوسفیان، سعدؓ نے غلط کہا ہے۔ آج رحم کا دن ہے۔ آج اللہ تعالیٰ قریش اور خانہ کعبہ کو عزت بخشنے والا ہے۔ پھر آپؐ نے ایک آدمی کو سعدؓ کی طرف بھجوایا اور فرمایا اپنا جھنڈا اپنے بیٹے قؓیس کو دے دو کہ وہ تمہاری جگہ انصار کے لشکر کا کمانڈر ہو گا۔ اس طرح آپؐ نے جھنڈا ان سے لے لیا اور ان کے بیٹے کو دے دیا۔ اس طرح آپؐ نے مکہ والوں کا دل بھی رکھ لیا اور انصار کے دلوں کو بھی صدمہ پہنچنے سے محفوظ رکھا۔ (ماخوذ از دیباچہ تفسیر القرآن، انوار العلوم جلد 20 صفحہ 341 تا 343) (خطبہ جمعہ 10؍ جنوری 2020ءمطوعہ الفضل انٹرنیشنل 31؍جنوری 2020ء)

حسن تدبیر

بعض لوگ جنگی تدبیر کو دھوکے سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس اعتراض کا جواب دیتے ہوئے حضور انور نے فرمایا کہ ’’بعض روایتوں میں یہ مذکور ہوا ہے کہ آنحضرت ﷺ فرمایا کرتے تھے کہ اَلْحَرْبُ خُدْعَۃٌ یعنی جنگ توایک دھوکا ہے اور اس سے نتیجہ یہ نکالاجاتا ہے کہ نعوذباللہ آنحضرت ﷺ کی طرف سے جنگ میں دھوکے کی اجازت تھی۔ حالانکہ اول تو اَلْحَرْبُ خُدْعَۃٌ کے یہ معنے نہیں ہیں کہ جنگ میں دھوکا کرنا جائز ہے بلکہ اس کے معنے صرف یہ ہیں کہ جنگ خود ایک دھوکا ہے۔ یعنی جنگ کے نتیجے کے متعلق کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ کیا ہو گا۔ یعنی جنگ کے نتیجے پر اتنی مختلف باتیں اثرڈالتی ہیں کہ خواہ کیسے ہی حالات ہوں نہیں کہا جا سکتا کہ نتیجہ کیا ہو گا اور ان معنوں کی تصدیق اس بات سے ہوتی ہے کہ حدیث میں یہ روایت دو طرح سے مروی ہے۔ ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اَلْحَرْبُ خُدْعَۃٌ یعنی جنگ ایک دھوکا ہے۔ اور دوسری روایت میں یہ ہے کہ سَمَّی الْحَرْبَ خُدْعَۃً یعنی آنحضرت ﷺ نے جنگ کانام دھوکا رکھا تھا۔ سَمَّی الْحَرْبَ خُدْعَۃً۔ اور دونوں کے ملانے سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ آپؐ کامنشا یہ نہیں تھا کہ جنگ میں دھوکا کرنا جائز ہے بلکہ یہ تھا کہ جنگ خود ایک دھوکا دینے والی چیز ہے لیکن اگرضرور اس کے یہی معنے کیے جائیں کہ جنگ میں دھوکا جائز ہے توپھر بھی یقیناً اس جگہ دھوکے سے جنگی تدبیر اور حیلہ مراد ہے۔ جھوٹ اور فریب ہرگز مرادنہیں ہے کیونکہ اس جگہ خُدْعَۃٌ کے معنے داؤ پیچ اور تدبیرِ جنگ کے ہیں، جھوٹ اور فریب کے نہیں ہیں۔ پس مطلب یہ ہے کہ جنگ میں اپنے دشمن کو کسی حیلے اور تدبیر سے غافل کرکے قابو میں لے آنا یا مغلوب کر لینا منع نہیں ہے۔

اب داؤ پیچ کی بھی مختلف صورتیں ہوسکتی ہیں۔ مثلاً صحیح روایات سے یہ ثابت ہے کہ آنحضرت ﷺ جب کسی مہم میں نکلتے تو عموماً اپنا منزلِ مقصود ظاہر نہیں فرماتے تھے اور بعض اوقات ایسا بھی کرتے تھے کہ جانا تو جنوب کی طرف ہوتا تھا مگر شروع شروع میں شمال کی طرف رخ کر کے روانہ ہوجاتے تھے اور پھر چکر کاٹ کر جنوب کی طرف گھوم جاتے تھے یا کبھی کوئی شخص پوچھتا تھا کہ کدھر سے آئے ہو توبجائے مدینے کا نام لینے کے قریب یا دور کے پڑاؤ کانام لے دیتے تھے یا اسی قسم کی کوئی اور جائز جنگی تدبیر اختیار فرماتے تھے یا جیسا کہ قرآن شریف میں اشارہ کیا گیا ہے کہ صحابہ بعض اوقات ایسا کرتے تھے کہ دشمن کو غافل کرنے کے لیے میدانِ جنگ سے پیچھے ہٹنا شروع کردیتے تھے اور جب دشمن غافل ہوجاتا تھا اور اس کی صفوں میں ابتری پیدا ہوجاتی تھی توپھر اچانک حملہ کردیتے تھے اور یہ ساری صورتیں اس خُدْعَۃٌ کی ہیں جسے حالاتِ جنگ میں جائز قرار دیا گیا ہے اور اب بھی جائز سمجھا جاتا ہے لیکن یہ کہ جھوٹ اور غداری وغیرہ سے کام لیا جاوے اس سے اسلام نہایت سختی کے ساتھ منع کرتا ہے۔ چنانچہ آنحضرت ﷺ عموماً فرمایا کرتے تھے کہ اسلام میں خدا کے ساتھ شرک کرنے اور والدین کے حقوق تلف کرنے کے بعد تیسرے نمبر پر جھوٹ بولنے کا گناہ سب سے بڑا ہے۔ نیز فرماتے تھے کہ ایمان اور بزدلی ایک جگہ جمع ہو سکتے ہیں مگر ایمان اور جھوٹ کبھی ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتے اور دھوکے اور غداری کے متعلق فرماتے تھے کہ جو شخص غداری کرتا ہے وہ قیامت کے دن خدا کے سخت عتاب کے نیچے ہو گا۔ الغرض جنگ میں جس قسم کے خُدْعَۃٌ کی اجازت دی گئی ہے وہ حقیقی دھوکا یا جھوٹ نہیں ہے بلکہ اس سے وہ جنگی تدابیر مراد ہیں جوجنگ میں دشمن کو غافل کرنے یا اسے مغلوب کرنے کے لیے اختیار کی جاتی ہیں اور جو بعض صورتوں میں ظاہری طورپر جھوٹ اور دھوکے کے مشابہ توسمجھی جاسکتی ہیں مگروہ حقیقتاً جھوٹ نہیں ہوتیں۔ (خطبہ جمعہ 7؍ فروری 2020ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 28؍فروری2020ء)

دعا اور توکل علی اللہ کا اظہار

ایک عام انسان خصوصاً غیر مسلم یہ سمجھتے ہیں کہ اسلامی تاریخ میں جنگوں اور جتھے کی بناپر فتوحات حاصل کی گئیں۔ لیکن ان کو یہ معلوم نہیں کہ رسول اللہﷺ کی اصل جنگ تو خدا تعالیٰ ہے حضور راتوں کے تیروں یعنی دعاؤں سے لڑی جاتی تھیں۔ حضور انور فرماتے ہیں کہ ’’کفار نے آپؐ کے مدینہ ہجرت کرنے کے بعد آپؐ پر جنگ ٹھونسی۔ تو آپؐ معمولی تعداد صحابہ کے ساتھ جو پوری طرح ہتھیاروں سے بھی لیس نہ تھے اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے اپنے سے بڑی اور تعداد کے لحاظ سے بھی اور تجربے کے لحاظ سے بھی اور ہتھیاروں کے لحاظ سے بھی، جو اچھی طرح لیس فوج تھی اس کے مقابلے پہ نکل کھڑے ہوئے۔ چنانچہ اس واقعہ کا ذکر یوں آتا ہے کہ جنگ بدر کے روز آنحضورﷺ اپنے لشکر کی صف بندی کرنے اور انہیں تفصیلی ہدایت دینے کے بعد اللہ تعالیٰ کے حضور دعاؤں میں لگ گئے اور یہ دعا کی کہ اَللّٰھُمَّ اِنْ تَھْلِک ھٰذِہِ الْعِصَابَۃَ مِنْ اَہْلِ الْاِسْلَامِ لَا تُعْبَدْ فِی الْاَرْضِ کہ اے اللہ! یہ مسلمانوں کی جماعت اگر تو نے آج ہلاک کر دی تو پھر زمین میں تیری عبادت نہیں کی جائے گی۔ (مسلم کتاب الجہاد والسیر- باب الأمداد بالملٰئکۃ فی غزوۃ بدر)آپؐ ہاتھ پھیلائے مسلسل نہایت درد کے ساتھ یہ دعا کررہے تھے۔ راوی کہتے ہیں یہاں تک کہ جس شدت سے، تڑپ سے دعا ہو رہی تھی اس سے آپؐ کا جسم ہلتا تھا تو چادر آپؐ کے کندھوں سے گر جاتی تھی۔ حضرت ابوبکر ؓ آگے بڑھے، آپؐ کی چادر آپ ؐ کے کندھے پر ڈالی اور عرض کی کہ اے اللہ کے نبی! بس کریں، آپؐ نے اپنے رب سے بہت دعا کر لی ہے۔ اللہ ضرور آپؐ سے کئے ہوئے وعدے پورے کرے گا۔یہ دعا، یہ گریہ وزاری، یہ آہ وبکا اس لئے نہیں تھی کہ آپؐ کو کوئی خوف تھا کہ پتہ نہیں خداتعالیٰ مدد کرتا ہے یا نہیں کرتا۔ اگر ایسی کیفیت ہوتی تو تھوڑے سے اور معمولی ہتھیاروں کے ساتھ صحابہ کو لے کر جنگ کے لئے باہر نہ نکلتے۔ یہ دعا جو تھی یہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے کے لئے تھی اور یہ ضروری چیز ہے۔ اس لئے صف بندی کرنے کے بعد ان سب کو سمجھا کر کہ جنگ کے طریقے کیا ہوں، کس طرح جنگ کی جائے گی، کہاں کہاں کس نے کھڑے ہونا ہے۔ پھر آپؐ اللہ تعالیٰ کے حضور دعا مانگتے ہیں کہ جو ظاہری سامان اور تدبیر تھی، جو اسباب ہمیں میسر تھے وہ تو ہم نے کر دئیے ہیں اور یہ سب کچھ تجھ پر توکّل کرتے ہوئے کیا ہے۔ اس لئے اے خدا ! اب اپنے وعدے کو بھی پورا کرنا۔ آج ان صحابہ ؓ کے ایمانوں میں اضافے اور اپنے توکّل میں زیادتی کے لئے اپنی مدد کے ایسے نظارے دکھا جو اِن کو ہمیشہ یاد رہیں۔ جو بعد میں آنے والوں کو بھی یادرہیں۔ جہاں تک آپؐ کے اپنے ذاتی یقین کا تعلق تھا وہ تو اس قدر تھا کہ آپؐ نے جنگ سے پہلے ہی یہ بتا دیا تھا کہ دشمن کا فلاں شخص کہاں گرے گا اور فلاں شخص کس طرح مرے گا۔چنانچہ ایک روایت میں آتا ہے کہ جنگ بدر کے دن جنگ سے قبل آنحضورﷺ نے میدان کی بعض جگہوں پر اپنے ہاتھ سے نشان لگائے اور فرمایا یہاں فلاں آدمی ہلاک ہو گا اور اس کے گرنے کی جگہ یہ ہے اور یہ فلاں دشمن کے ہلاک ہونے اور گرنے کی جگہ ہے۔ اور حضرت سعد بن عبادہ ؓ کہتے ہیں کہ جہاں جہاں رسول اللہﷺ نے نشان لگایا تھا اس سے ذرا بھی فرق نہ ہوا اور ہر ایک کافر اسی جگہ ہلاک ہو کر گرا۔ (مسلم -کتاب الجہاد والسیر -باب غزوۃ بدر)پھر دیکھیں اللہ تعالیٰ کی ذات پر یقین اور توکّل کی ایک اور مثال۔ حضرت جابر ؓ بیان کرتے ہیں کہ وہ آنحضرت ﷺ کے ساتھ ایک جنگی مہم پر گئے۔ جب حضورﷺ صحابہ ؓ کے ساتھ واپس آ رہے تھے تو دوپہر کا وقت ہوا اور قافلہ ایک وادی میں پہنچا جہاں بہت سے درختوں کے جھنڈ تھے۔ تو آپ ؐ نے بھی وہاں پڑاؤ ڈالا۔ اور مختلف لوگ مختلف جگہوں پر بکھر گئے۔ سائے میں بیٹھ گئے یا لیٹ گئے آرام کرنے لگے۔ آپؐ نے بھی ایک درخت کے نیچے آرام فرمایا اور اپنی تلوار درخت پہ لٹکا دی۔ (یہ عام واقعہ ہے اکثر نے سنا ہو گا) تھوڑی دیر بعد آپؐ کو کسی دیہاتی نے جگایا۔ ایک دیہاتی آپؐ کے پاس کھڑا تھا اور اس کے ہاتھ میں تلوار تھی۔ آپؐ نے صحابہ ؓکو آواز دے کر یہ سارا واقعہ سنایا کہ دیکھو میں سویا ہوا تھا یہ دیہاتی آیا اور اس نے مجھے جگا کر کہا کہ بتاؤ مجھ سے تمہیں کون بچائے گا۔ تو میں نے تین بار کہا اللہ، اللہ، اللہ۔ اس پر تلوار اس کے ہاتھ سے گر گئی اور وہ کچھ بھی نہ کر سکا۔ (بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ ذات الرقاع)ایک دوسری روایت میں آتا ہے کہ جب تلوار گر گئی تو حضور ﷺ نے وہ تلوار اٹھالی اور فرمایا کہ اب تمہیں کون بچا سکتا ہے۔ اس پر وہ بہت گھبرایا اور معافیاں مانگنے لگا تو آپ ﷺ نے پوچھا۔ کیا تو گواہی دیتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبودنہیں اور مَیں اللہ کا رسول ہوں۔ اس نے جواب دیا میں یہ نہیں مانتا لیکن میں آپؐ سے یہ عہد کرتاہوں کہ آئندہ آپؐ سے کبھی نہیں لڑوں گا اور نہ ان لوگوں کے ساتھ شامل ہوں گا جو آپؐ سے لڑتے ہیں۔ خیر آپؐ نے اس کو معاف کر دیا۔ اور جب وہ اپنے لوگوں میں واپس گیا تو اس نے جا کے اعلان کیا کہ میں ایک ایسے شخص کے پاس سے آیا ہوں جو دنیا میں سب سے بہتر ہے۔ (السیرۃ الحلبیۃ، باب ذکر مغازیہﷺ، غزوۃ ذات الرقاع)اب دیکھیں یہاں بھی جو شخص قتل کی نیت سے آیا تھا۔ ہاتھ جوڑ کر اپنی آزادی کی بھیک مانگ رہا ہے، اپنی جان بخشی کی بھیک مانگ رہا ہے۔پھر جنگ احزاب ہے جس میں مسلمانوں پر انتہائی تنگی کے دن تھے۔ مدینہ میں رہ کر ہی دشمن کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ ہوا تھا اور یہ کسی خوف یا اللہ تعالیٰ پر توکّل کی کمی کی وجہ سے نہیں تھا بلکہ جنگی حکمت عملی کے تحت تھا۔ اور مدینہ کے ارد گرد ایک خندق کھودی گئی تھی کہ دشمن کے فوری طور پر یکدم حملہ کرنے سے اس خندق کی وجہ سے محفوظ رہا جا سکے۔ مسلمانوں کی ایسی حالت تھی، اکثر ان میں سے غریب تھے، اکثر روز کی روٹی کمایا کرتے تھے تو باوجود اس تنگی کے سب نے اکٹھے ہو کر اس خندق کی کھدائی میں حصہ لیا تاکہ ان حملوں سے محفوظ رہا جا سکے۔ اور تمام عرب کے بہت سارے قبائل اکٹھے ہو کر حملہ آور ہوئے تھے۔ مختلف روایتوں میں ان کی تعداد مختلف بتائی جاتی ہے۔ بہرحال کم سے کم تعداد بھی 10ہزار بتائی جاتی ہے۔ کہیں 15ہزار ہے، کہیں 24ہزار ہے۔ ویسے تو 10ہزار کی تعداد بھی مدینہ کی آبادی کے لحاظ سے، اس چھوٹے سے شہر کے لحاظ سے بہت بڑی تعداد ہے۔ بہرحال مسلمان اپنی تنگی کے حالات اور غربت کے حالات کے باوجود اس مقابلے کے لئے اور تھوڑی تعداد میں ہونے کے باوجود اتنی بڑی فوج کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہو گئے تھے۔ اور یہ حکمت عملی تھی کہ تھوڑی تعداد ہے اس لئے شہر کے اندر رہ کر مقابلہ کیا جائے۔ اور یہ بھی اللہ تعالیٰ کا فضل تھا۔ اللہ تعالیٰ نے پہلے آگاہ بھی کیا ہوا تھا۔ مسلمانوں کے ایمان میں مضبوطی بھی آ چکی تھی کثرت کو دیکھ کر مسلمان پریشان نہیں ہوئے بلکہ آنحضرت ﷺ کے توکل نے تو مسلمانوں کو اس وقت توکل میں اور بھی بڑھا دیا تھا۔ اور مخالفین اور منافقین کی باتیں سننے کے باوجود ان کے حوصلے پست نہیں ہوئے تھے۔پھر دیکھیں ثابت قدمی اور توکل کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے بھی کیسا انتظام کیا کہ آندھی اور طوفان نے کفار کو خوفزدہ کر دیا اور وہ بھاگ گئے اور بھاگے بھی ایسی افراتفری میں کہ بہت سارا اپنا سامان خوراک اور دوسرا سامان چھوڑ کر چلے گئے جو مسلمانوں کے کام آیا۔ تو یہ تھا اللہ تعالیٰ پر توکل کا نتیجہ۔ (خطبہ جمعہ 8؍ اپریل 2005ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل22؍اپریل2005ء)

زہے خلق کا مل زہے حسن تا م

حضور انور فرماتے ہیں کہ ’’ حضرت مسیح موعود ؑکا ایک اقتباس پیش کروں گا۔ کیونکہ آپ ہی ہیں جنہوں نے سب سے زیادہ آنحضرت ﷺ کے مقام کو پہچانا ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ’’وہ انسان جس نے اپنی ذات سے، اپنی صفات سے، اپنے افعال سے، اپنے اعمال سے اور اپنے روحانی اور پاک قویٰ کے پُر زور دریا سے کمال تام کا نمونہ عِلْمًا وَ عَمَلًا، صِدْقًا وَ ثَبَاتًا دکھلایا اور انسان کامل کہلایا…… وہ مبارک نبی حضرت خاتم الانبیاء، امام الاصفیاء، ختم المرسلین، فخرالنبییّن جناب محمد مصطفی ﷺ ہیں۔ اے پیارے خدا! اس پیارے نبی پر وہ رحمت اور درود بھیج جو ابتداءِ دنیا سے تو نے کسی پر نہ بھیجا ہو۔‘‘(اتمام الحجۃ، روحانی خزائن جلد 8 صفحہ 308)تو دیکھیں یہ ہے حضرت مسیح موعودؑکا کلام۔ کس خوبصورتی سے اپنے آقا کی خوبیاں بیان فرمائی ہیں۔ اس کے بعد بھی اگر کوئی کہتا ہے کہ حضرت مسیح موعوؑدنے آنحضرت ﷺ کے مقام کو نہیں پہچانا تو اس کو سوائے عقل کا اندھا ہونے کے اور کچھ نہیں کہا جا سکتا۔حضرت اقدس مسیح موعود ؑ نے فرمایا اور عین اللہ تعالیٰ کی منشاء کے مطابق فرمایا کہ صفات کے لحاظ سے بھی اور قول اور فعل اور عمل اور سب طاقتوں کے لحاظ سے آنحضرت ﷺ کا نمونہ ہی ہے جس کی پیروی کرنا ہمارے لئے ضروری ہے۔ اور وہی اعلیٰ معیار ہیں جن سے بڑھ کر کوئی اور معیار نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی صفات کا بھی انسانی طاقت کے لحاظ سے اگر کسی انسان سے اعلیٰ ترین اظہار ہو سکتا ہے، تو وہ بھی صرف آنحضرت ﷺ ہی ہیں۔ ایک حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم کو اپنی صورت پر پیدا کیا ہے یعنی اسے اپنی صفات کا مظہر بنایا ہے۔ اور اس میں یہ اہلیت اور استعداد رکھی کہ وہ اللہ تعالیٰ کی صفات کو ظلی طور پر اپنا سکے۔ تو جیسا کہ مَیں نے کہا، سب سے اعلیٰ معیار آنحضرت ﷺ کے ہیں۔ یہ اہلیت اور استعداد سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ میں رکھی ہے۔ اور اگرکوئی انسان اللہ تعالیٰ کی ان صفات کا کامل نمونہ دکھا سکتا ہے تو وہ آنحضرت ﷺ کی ذات ہے۔اس بارے میں آپ ﷺ خود فرماتے ہیں کہ اخلاق حسنہ کی تکمیل کے لئے مجھے مبعوث کیا گیا ہے۔ یعنی مَیں اچھے اور اعلیٰ اخلاق کی تکمیل کے لئے مبعوث ہوا ہوں۔ تو تکمیل وہی کرتا ہے جو خود ان صفات اور اخلاق میں مکمل ہو۔ پس اس کامل انسان کی امت میں داخل ہونے کا دعویٰ کرنے والے ہر شخص کا یہ فرض بنتا ہے کہ اِن اخلاق کو اختیار کرکے آپؐ کی بعثت کے مقصد کو پورا کرے۔ اور آج یہ فرض سب سے بڑھ کر جماعت احمدیہ کے ہر فرد پر عائد ہوتا ہے۔ (خطبہ جمعہ 17؍ دسمبر 2004ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل31؍دسمبر2004ء)

پس دنیا جبکہ ایک ایک بڑی جنگ کی جانب مائل ہے۔ یہ جنگ کفرو اسلام کی نہیں بلکہ انسانیت اور کل عالم کی بقا کی جنگ ہے۔ اس زمانہ میں ہمارا امام ہمیں انہیں اخلاق حسنہ کی جانب بلا رہا ہے۔ اور اسی تعلیم کی طرف جو کہ حقیقی اسلامی تعلیم اور ہمارے پیارے نبیﷺ کا عملی اسوہ ہے۔ اور جنگی حالات میں بھی خدا تعالیٰ کی نصرت اور مدد چاہنے کے لئے سر بسجود ہونا ہی اصل بنیادی تعلیم ہے۔ اللہ تعالیٰ عالم اسلام کو اور جماعت احمدیہ کو خصوصاً جنگ کی ہولناکیوں سے بچائے اور حقیقی اسلامی تعلیم اور اسوۂ حسنہ پر عمل کرنے والا بنائے۔ آمین۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button