حضرت مصلح موعود ؓ

قرونِ اُولیٰ کی نامور خواتین اور صحابیات کے ایمان افروز واقعات(قسط نمبر03)

حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ (فرمودہ ۳۱ ؍جولائی ۱۹۵۰ء بمقام کوئٹہ)

ہرقوم ميں بعض کم سمجھ والے آدمي ہوتے ہيں اور بعض زيادہ سمجھ دار ہوتے ہيں۔ وہ شخص بھي کم سمجھدار تھا جب اُسے عورتوں نے يہ جواب ديا تھا تو اُسے چاہئے تھا کہ خاموش رہتامگر رسول کريم صلي اللہ عليہ وسلم کے پاس آيا اور کہا يَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! ميں نے ان عورتوں تک آپ کا حکم پہنچايا تھاليکن اُنہوں نے مانا نہيں۔ ہماري پنجابي کي طرح عربي ميں بھي ايک محاورہ ہے فلاں کے منہ پر مٹي ڈال۔ آپؐ نے فرمايا ان کے منہ پر مٹي ڈال اور اس سے آپ کا يہ مطلب تھا کہ انہيں رونے دو۔ خود بخود رو دھو کر چپ ہوجائيں گي ليکن وہ شخص زيادہ سمجھدار نہيں تھاوہ آپ کا مطلب نہ سمجھ سکااُس نے مٹي اُٹھا کر عورتوں کے منہ پر ڈالنا شروع کي۔ حضرت عائشہؓ ناراض ہوئيں اور فرمايارسول کريم صلي اللہ عليہ وسلم کا تو يہ منشاء نہيں تھا۔ اُس شخص نے پھر شکايت کي آپؐ نے فرماياعائشہؓ نے جو کچھ کہا ہے وہ ٹھيک ہے۔ اب بتاؤ کہ کتني عورتيں ہيں جو اپنے قومي کاموں کي خاطر اپنے جذبات کي پرواہ نہيں کرتيں۔ اس ميں کوئي شبہ نہيں کہ آجکل بھي ہزاروں ايسي عورتيں مليں گي جو قومي ذمہ داريوں کے سامنے اپني ضرورتوں کونظر انداز کر ديتي ہيں ليکن وہاں تو وہ اپنے رشتہ داروں پر رورہي تھيں کہ اُنہيں آواز آئي کہ جعفرؓ پر رونے والا کوئي نہيں يہ آواز سنتے ہي وہ رُک گئيں اور فوراًحضرت جعفرؓ کے گھر چلي گئيں۔ جس طرح سائيکل کو فوراً موڑنا مشکل ہے اسي طرح ان عورتوں کے جوش کو موڑنا بھي مشکل تھاليکن وہاں ايسا ہي ہوا عورتيں اپنے مردوں پر آنسو بہا رہي تھيں اور جذبات کي رَو ميں بہي جارہي تھيں کہ يکدم انہيں رسول کريمﷺ کي آواز آئي اور انہوں نے اپنے جذبات کو دبا ديااور رونابند کرديا۔

حديث ميں آتا ہے کہ ايک عورت کابچہ مرگياتھاوہ قبر پر کھڑي رو رہي تھي کہ رسول کريم صلي اللہ عليہ وسلم اُس کے پاس سے گزرے اور آپ نے اُسے صبرکي تلقين کي۔ وہ عورت کہنے لگي کہ دوسروں کو نصيحت کرنا آسان امرہے جس کا اپنا بچہ مر گيا ہو تکليف کا احساس اُسي کو ہوتا ہے۔ رسول کريم صلي اللہ عليہ وسلم نے اُسے فرمايا۔ ميرے تو سات بچے فوت ہو چکے ہيں اور يہ کہہ کر آپ چلے گئے۔ کسي شخص نے اُس عورت سے کہا۔ اے عورت !کيا تم نے پہچانا نہيں يہ تو رسول کريم صلي اللہ عليہ وسلم تھے۔ وہ عورت دوڑتي ہوئي آپ کے پاس آئي اور کہا يَا رَسُوْلَ اللّٰہ!ميں صبر کرتي ہوں آپ نے فرمايا۔ اب صبر کرنے کا کيا فائدہ اَلصَّبْرُلِاَوَّلِ وَھْلَةٍ صبر تو شروع ميں ہي ہوتاہے۔

يہ مثال ميں نے اس لئے دي ہے کہ انسان جوش ميں آيا ہو ا ہوتواُس کے لئے رُکنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ جيسے وہ عورت جوش کي حالت ميں تھي مگر اُس حالت ميں اُس نے رسول کريم صلي اللہ عليہ وسلم کو بھي نہ پہچاناحالانکہ وہ آپ پر ايما ن لانے والوں ميں سے تھي۔ پس ان عورتوں کو اپنے مُردوں پر روتے ہوئے فوراً رُک جانا بہت بڑے تصرف اور طاقت کي علامت ہے۔ غرض آدم عليہ السلام سے لےکر آخر تک ہر زمانہ ميں مذہب عورتوں کا ذکر کرتاآيا ہے۔ چنانچہ مکہ کي تعميرکے وقت اسلام حضرت ہاجرہ کا بھي ذکر کرتا ہے۔ حالانکہ نبي حضرت ابراہيم اور حضرت اسماعيل عليہما السلام تھے۔ حضرت موسيٰ عليہ السلام کے وقت اسلام اُن کي والدہ کا ذکر کرتا ہے حا لانکہ نبي حضرت موسيٰ عليہ السلام تھے۔ پھر حضرت عيسيٰ عليہ السلام کے وقت قرآن کريم اُن کي والدہ کا ذکر کرتا ہے حالانہ نبي حضرت عيسيٰ عليہ السلام تھے۔ پھر رسول کريم صلي اللہ عليہ وسلم کي بيويوں کي تاريخ کو کيوں محفوظ رکھا گيا؟ اِس سے صرف يہي بتانا مقصود تھاکہ يہ عمارت تمہاري اپني بنائي ہوئي ہے اِس لئے تمہارا بھي اِس ميں حصہ ہے۔

انسان جو کام کرتاہے اس سے اُسے پيا ر ہوتا ہے۔ اپنے بنائے ہوئے گھر کو کوئي شخص برباد نہيں کرتا۔ بچے ريت کے گھروندے بناتے ہيں مگر جب کوئي دوسرا بچہ اُنہيں گرا ديتا ہے تو وہ اس سے لڑ پڑتے ہيں۔ پس خدا تعاليٰ نے عورتوں پر يہ واضح کر ديا ہے کہ دين ميں ان پر ويسي ہي قربانياں عائد ہوتي ہيں جيسي مردوں پر۔ يہ نہ کرنا کہ تم اسے چھوڑ دواور سمجھ لو کہ يہ صرف مردوں کي چيز ہے ايسا کرو گي تو دين کمزور ہو جائے گا۔

اِس زمانہ ميں جو نازک دَور مسلمانوں پر آيا ہے وہ ايسا ہے کہ آج سے چار پانچ سَو سال پہلے کوئي اِس کا خيال بھي نہيں کر سکتا تھا۔ اگر آج سے چار پانچ سَو سال قبل کے مسلمانوں کو اِس زمانہ کي حالت نقشہ پر دکھا دي جاتي تو اِس پر کوئي اعتبار نہ کرتاليکن آج بھي اگرنقشے پررنگ دے ديئے جائيں اور بتايا جائے کہ پُرانے زمانہ ميں مسلمانوں کي حکومت فلاں فلاں جگہ تک پھيلي ہوئي تھي اور اب اِس کي حکومت فلاں جگہ تک ہے يا پُرانے زمانہ ميں مسلمانوں کي علميت اتني تھي اور اب اتني ہے تو ہر عقلمند عورت اور ہر عقلمند مرد کو غش آ جائے گا۔ ہم معمولي غموں کے قصّے سنتے ہيں تو رونا آ جاتاہے مگر اسلام کا دکھ تو اتنا بڑا ہے کہ ہر مسلمان جس کو اسلام سے ذرا بھي تعلق ہے اُس پر رقت طاري ہوجاتي ہے۔ يہي يورپ جو آج ساري دنيا پر حکومت کر رہا ہے اِس کا اکثر حصہ مسلمانوں کے ماتحت تھا۔ پولينڈ پر مسلمانوں کي حکومت تھي، آسٹريا پر مسلمان قابض تھے، ہنگري ان کے قبضہ ميں تھا، فرانس کے ساحلوں تک وہ پھيلے ہوئے تھے، جنوبي اٹلي پر ان کي حکومت تھي، فن لينڈ اور سپين پر ان کي حکومت تھي، ادھر ايشيا ميں سوائے جاپان کے باقي سب ملکوں اور جزائر پر مسلمانوں کا قبضہ تھا، افريقہ کے کثيرحصوں پر ان کي حکومت تھي۔ امريکہ اُس وقت معلوم نہ تھاليکن معلوم دنيا ميں سوائے چند حبشي قبائل کے کوئي ملک ايسا نہ تھا جس پر مسلمان قابض نہ تھے اور پھر جہاں قبضہ نہ تھاوہاں اِن کي ايسي دہشت اور رُعب چھايا ہوا تھاکہ وہاں کے رہنے والے محض مسلمانوں کے رحم پر تھے۔ اُس زمانہ ميں صرف ايک حکومت تھي جومسلمانوں کے علاوہ تھي اور وہ حبشہ کي حکومت تھي۔

رسول کريم صلي اللہ عليہ وسلم کے زمانہ ميں جب مسلمانوں پر کفار نے مظالم ڈھائے تو رسول کريم صلي اللہ عليہ وسلم نے فرماياکہ مسلمان حبشہ کي طرف چلے جائيں وہاں کا بادشاہ ان کو پناہ دے گا۔ اِس پر بعض مسلمان حبشہ کي طرف چلے گئے اور باوجود اس کے کہ کفارِ مکہ نے بہت کوششيں کيں کہ مسلمان ان کے حوالے کرديئے جائيں حبشہ کا بادشاہ ايسا کرنے پر تيا ر نہ ہوااور مسلمان اُس کي حکومت ميں آرام کي زندگي بسر کرتے رہے۔ اِس بادشاہ کو بعد ميں رسول کريم صلي اللہ عليہ وسلم نے ايک تبليغي خط لکھااور وہ مسلمان بھي ہوگيااور وہ خط اُس نے بطور تبرک چاندي کے بنے ہوئے ايک کيسکٹ (CASKAT) ميں رکھااور اپنے وزراء کوديااور ہدايت کي کہ ہميشہ کے لئے يہ خط محفوظ رکھا جائے کيونکہ ہمارے ملک کے لئے يہ تعويذ کام دے گا۔ حبشہ کے بادشاہ کا مسلمانوں پر يہ احسان تھاکہ اُس نے چاليس پينتاليس مسلمانوں کو پناہ دي بعد ميں اُس وقت کا بادشاہ نجاشي مسلمان بھي ہوگيامگر اُس کاوارث عيسائي تھا۔ حبشہ کے دائيں اور بائيں اور آگے اور پيچھے مسلمانوں کي حکومت تھي۔ اس کے اِرد گردمسلمانوں کي بڑي بڑي شہنشاہياں تھيں۔ مثلاًمصر کي فاطمي حکومت اس کے ساحلوں تک پھيلي ہوئي تھي۔ مسلمانوں کے لشکر ٹڈي دل کي طرح اس کے ساحلوں سے گزر جاتے تھے مگر وہ حبشہ کي طرف آنکھ اُٹھا کر بھي نہيں ديکھتے تھے۔ آجکل چاليس پينتاليس آدميوں کو پناہ ديناايسا کارنامہ نہيں کہ کوئي حکومت پناہ دينے والي کي عزت کرے ليکن مسلمانوں نے ۱۳۰۰ سال تک حبشہ کے احسان کو ياد رکھامگر عيسائيوں کي حالت يہ ہے کہ جب مسلمان کمزور ہوئے تو انہوں نے سَو سال تک بھي برداشت نہ کيااور جنوبي اٹلي پر قبضہ کر ليا۔ غرض يہ ايک ہي حکومت تھي جو مسلمانوں کے زمانۂ اقتدار ميں قائم رہي اوراس کي وجہ يہي تھي کہ مسلمان يہ بتانا چاہتے تھے کہ جس نے محمد رسول اللہﷺ کي ادنيٰ سے ادنيٰ بھي خدمت کي ہے وہ اس کي حفاظت کريں گے۔

پس مسلمانوں کي يہ عظمت اگر مٹ جائے تو يہ ايسي چيز نہيں کہ کوئي شريف النفس اور حساس دل خواہ وہ عورت ہو يامرد اِس کے صدمہ سے اپنے نفس پر قابو رکھ سکے۔ ليکن کسي مصيبت کے آنے کے يہ معني نہيں ہوتے کہ اس مصيبت کو جاري رکھا جائے۔ جب بھي خداتعاليٰ توفيق دے اسے ختم کر دينا چاہئے۔ مسلمانوں پر يہ مصيبت اِس لئے آئي کہ انہوں نے دين کو چھوڑ ديا اور دنيا کو اپنا ليا۔ اللہ تعاليٰ نے دنيا کمانے سے منع نہيں فرمايامگر اُس نے يہ کہا ہے کہ پہلے دين کاکام کرو اور پھر دنيا کماؤ۔ رسول کريم صلي اللہ عليہ وسلم اور آپ کے صحابہ بھي دنيوي کام کرتے تھے، وہ زميندارياں بھي کرتے تھے تجارتيں بھي کرتے تھے مگروہ اِن کو دين کے تابع رکھتے تھے اور جب بھي خداتعاليٰ کي آواز آتي تھي وہ اِنہيں چھوڑ کر چلے جاتے تھے۔

حضرت حسنؓ نے حضرت عليؓ سے ايک سوال کيا کہ کيا آپ کو مجھ سے محبت ہے؟ حضرت عليؓ نے فرمايا ہاں۔ حضرت حسنؓ نے پھر سوال کيا کہ کيا آپ کو خداتعاليٰ سے بھي محبت ہے؟ حضرت عليؓ نے فرمايا ہاں۔ حضرت حسنؓ نے کہاتب تو آپ ايک رنگ ميں شرک کے مرتکب ہوئے۔ شرک اِسي کو کہتے ہيں کہ خداتعاليٰ کے ساتھ اُس کي محبت ميں کسي اَور کو شريک بنا ليا جائے۔ حضرت عليؓ نے فرمايا۔ حسنؓ !ميں شرک کا مرتکب نہيں ہوں ميں بے شک تجھ سے محبت کرتاہوں ليکن جب تيري محبت خداتعاليٰ کي محبت سے ٹکراجائے تو ميں فوراً اِسے چھوڑ دوں گا۔ توحيد کے معني يہ ہيں کہ انسان ايسے کاموں ميں نہ پڑے جو خداتعاليٰ کے مقابلہ ميں آجائيں۔ وہ بےشک دنيا کمائے، زميندارياں کرے، تجارتيں کرے مگر جب يہ آواز آئے کہ خداتعاليٰ اُسے بلاتاہے توفوراً وہ کام چھوڑ دے اور خداتعاليٰ کي آواز کي طرف دَوڑجائے۔ رسول کريم صلي اللہ عليہ وآلہٖ وسلم کے زمانہ ميں جب بعض مسلمانوں نے اِس ميں کوتاہي دکھائي توقرآن کريم ميں ان کے خلاف احکام نازل ہوئے۔ خداتعاليٰ نے فرمايا جو لوگ مومن ہيں اورپھر ان سے کوتاہي سرزد ہوئي ہے وہ قابل سزا ہيں اورجو منافق ہيں انہوں نے اپنے نفاق کا ثبوت دے ديا ہے۔

يہاں پھر ميں ايک ايسي عورت کا واقعہ بيان کرتا ہوں جس نے خداتعاليٰ کے مقابلہ ميں نہ صرف اپنے خاوند کي محبت کو ٹھکرايا بلکہ اسے ملامت بھي کي۔ رسول کريم صلي اللہ عليہ وسلم کے زمانہ ميں متعدد جنگيں ہوئيں مگر ان سب سے زيادہ خطرناک جنگ وہ تھي جب يہ خبر آئي کہ روما کي فوجيں عرب پر حملہ کرنے کے لئے آ رہي ہيں۔ عرب کے مقابلہ ميں روما کي اُس وقت ايک ايسي ہي طاقت تھي جيسے آجکل انگريز حکومت کسي دس بارہ لاکھ کي آبادي کے ملک پر حملہ کر دے۔ اُس وقت روما کي حکومت ميں لبنان کا ملک شامل تھا، آرمينياتھا، سارا ٹرکي تھا، روس کے کچھ حصے تھے، آسٹريا تھا، ہنگري تھا، ليبيا تھا، افريقہ کے ساحل کے ساتھ ساتھ جو حصے تھے وہ بھي روما کي حکومت کے ماتحت تھے ان سب ملکوں کي کل آبادي دو کروڑ تھي ليکن ان کے مقابلہ ميں عرب کي کل آبادي دو اڑھائي لاکھ تھي۔ پھر وہ روپے والے تھے۔ غرض مسلمانوں پرسب سے زيادہ نازک موقع اُس وقت آياجب انہوں نے يہ خبر سني کہ روما کي حکومت عرب پر حملہ آور ہو رہي ہے۔ چنانچہ رسول کريم صلي اللہ عليہ وسلم نے تجويز فرماياکہ بجائے اِس کے کہ روما کي فوجيں ہم پر حملہ آور ہوں مناسب ہوگاکہ ان کے مقابلہ کے لئے ہم خود باہر جائيں۔ چنانچہ آپ دس بارہ ہزار افراد پر مشتمل ايک فوج ساتھ لے کر روما کے لشکر کے مقابلہ کے لئے نکل کھڑے ہوئے۔ اس موقع پر آپ نے حکم دے دياکہ سب مخلص مومن اس جنگ کے لئے چل پڑيں۔ اِس سے قبل آپ نے خود ايک صحابيؓ کو کسي کام کے لئے باہر بھيجا تھا جب آپ مقابلہ کے لئے مدينہ سے روانہ ہوگئے تو وہ صحابيؓ واپس آئے۔ وہ مدت کے بعد واپس آئے تھے جب مدينہ پہنچے تو اُنہيں صرف اتنا پتہ لگاکہ رسول کريم صلي اللہ عليہ وسلم مدينہ سے باہر گئے ہوئے ہيں۔ دنيا ميں ہم ديکھتے ہيں کہ جب کوئي دُور سے آتا ہے اور دير کے بعد گھر آتا ہے تو قدرتي طورپر وہ اپني بيوي سے پيار کرتا ہے۔ وہ صحابيؓ بھي گھر آئے اور چاہا کہ بيوي سے پيار کريں مگر اُس نے پرے ہٹا کر کہاکہ تجھے شرم نہيں آتي کہ رسول کريم صلي اللہ عليہ وسلم تو جنگ کے لئے باہر گئے ہوئے ہوں اور تجھے بيوي سے پيار سوجھ رہاہے۔ اِس کا اِس صحابيؓ پر اتنا اثر ہوا کہ وہ اُسي وقت گھوڑے پر سوار ہو کر جنگ کے لئے باہرچلے گئے۔ اب يہ خدا کي محبت اور اس کے خاوند کي محبت کا مقابلہ تھا۔ يہ نہيں کہ اُس صحابيہ کو اپنے خاوند سے محبت نہيں تھي بلکہ جب يہ سوال آ گياکہ رسول کريم صلي اللہ عليہ وسلم تکليف ميں ہيں اور ان کا خاوند آرام ميں ہے تو وہ برداشت نہ کر سکيں۔

(جاری ہے)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button