سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح

(’اے ولیم‘)

’’میں نے نیک نیتی سے نہ دنیا کے لئے بلکہ محض ثواب اطاعت حاصل کرنے کے لئے اپنے والد صاحب کی خدمت میں اپنے تئیں محو کر دیا تھا‘‘

ملازمت اور پس منظر

پہلےبیان ہوچکاہےکہ آپ کاملازمت کرناکوئی قابل اعتراض بات ان معنوں میں نہیں کہ نبی ملازمت نہیں کیاکرتااوریہ کہ کیاکیاخدائی حکمتیں اور مصالح آپ کے ملازمت کرنے کا باعث ہوئے۔

حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی سوانح کا مطالعہ کرتے ہوئے ہمیں بخوبی احساس ہوتاہے کہ ہرباپ کو جیساکہ اپنے بچوں سے محبت ہوتی ہے اوراسی محبت کے تابع وہ اپنی اولاد کی اعلیٰ تعلیم وتربیت کا خواہاں ہوتاہے یہی جذبہ یہاں کارفرما تھا بلکہ حضرت اقدسؑ کے والدبزرگوار حضرت مرزاغلام مرتضیٰ صاحب اپنے اس بیٹے کے ساتھ بطورخاص محبت کا اظہار فرماتے، دینی اورروحانی اٹھان سے تو وہ واقف تھے ہی اس کے ساتھ ساتھ ان کایہ بھی خیال تھا کہ دنیاوی جاہ وحشمت کے بھی وارث ہو جائیں توباپ کے لیے یوں زیادہ تسکین کا باعث ہوسکے گا۔وہ اپنے اس بیٹے کو بھی اپنی ریاست کے اموراورنظم ونسق کے سنبھالنے میں شریک کارکرناچاہتے تھے اور اسی جذبہ مودت و ترحم کے طورپر اپنے بیٹے کے مستقبل کے لیے تگ ودَو فرماتے رہتے۔لیکن حضرت اقدسؑ ان کاموں کے لیےتو پیدا ہی نہیں کیے گئے تھے۔جس کام کے لیے پیداکیے گئے،پیداکرنے والا رب العالمین خود اپنے رنگ اورطریق سے ان کی تعلیم وتربیت کروارہاتھا۔باپ بیٹے کی سوچ میں کبھی کبھی ایک کشمکش کی سی کیفیت بھی ہمیں نظر آتی ہے۔لیکن یہ تناؤصرف ایک وقتی طورپر ہوتا وگرنہ وہ بزرگ باپ بھی اپنے نورفراست او ر بعض اشارات کی بنا پر سمجھتاتھا کہ میرابیٹا اس دنیا میں ہوتاہوابھی اس دنیا کا نہیں ہے اور اسی لیے باپ کی نظروں میں اس بیٹے کا ایک خاص مقام اور محبت کی جگہ بھی ہم جان لیتے ہیں۔وہ تواپنے اس بچے کی پیدائش پر ہی یہ کہاکرتے تھے کہ ہمارے گھرمیں ولی پیداہواہے(مکتوب رائے کنورسین پسرلالہ بھیم سین وزیرانصاف و چیف جسٹس کشمیر بحوالہ سیرت المہدی جلد 2تتمہ صفحہ343)اسی محبت اورمہربانی کا ذکر کرتے ہوئے خودحضرت اقدس مسیح موعودؑ فرماتے ہیں :’’ان کی ہمدردی اور مہربانی میرے پر نہایت درجہ پر تھی مگروہ چاہتے تھے کہ… میں دنیوی امور میں ہر دم غرق رہوں جو مجھ سے نہیں ہو سکتا تھا۔ مگر تاہم میں خیال کرتا ہوں کہ میں نے نیک نیتی سے نہ دنیا کے لئے بلکہ محض ثواب اطاعت حاصل کرنے کے لئے اپنے والد صاحب کی خدمت میں اپنے تئیں محو کر دیا تھا اور ان کے لئے دعا میں بھی مشغول رہتا تھا اور وہ مجھے دلی یقین سے برّ بالوالدین جانتے تھے اور بسا اوقات کہا کرتے تھے کہ ’’میں صرف ترحم کے طور پر اپنے اس بیٹے کو دنیا کے امور کی طرف توجہ دلاتا ہوں ورنہ میں جانتا ہوں کہ جس طرف اس کی توجہ ہے یعنی دین کی طرف۔‘‘ صحیح اور سچ بات یہی ہے ہم تو اپنی عمر ضائع کر رہے ہیں‘‘۔(کتاب البریہ ، روحانی خزائن جلد13 صفحہ 182-184حاشیہ) یہ تھا وہ پس منظر جس میں حضرت اقدسؑ کی عمرکا کچھ حصہ ملازمت میں بسرہوا۔اورآپؑ کی ملازمت کا سب سے لمبا اورایک معین زمانہ بھی یہی ہے جس کاذکرہم اپنے اس باب میں کچھ تفصیل سے کرناچاہتے ہیں یعنی سیالکوٹ میں ملازمت۔

ملازمت کہاں کہاں کی!

البتہ کچھ اور ایسے مواقع بھی پیش آئے جن میں آپؑ کو ملازمت کی پیشکش ہوئی یا آپؑ نے ملازمت کا ارادہ فرمایا۔ مناسب معلوم ہوتاہے کہ ان کا ذکربھی یہیں کردیاجائے۔ان کی تفصیل کچھ اس طرح سے ہے۔

کشمیر میں ملازمت

آپؑ کے والد ماجد ایک زمانے میں کشمیر میں صوبہ کے وقیع عہدہ پرفائز رہ چکے تھے جو کہ ڈپٹی کمشنر/کمشنرکے برابرتھا۔حضرت اقدسؑ کے بعض اکابررشتہ داروں کی تحریک کی بنا پر حضرت مرزاصاحب اپنے ایک ساتھی سیدمحمدعلی شاہ صاحب کے ساتھ تلاش روزگارکے سلسلہ میں عازم کشمیرہوئے۔براستہ کلانورجموں پہنچے۔وہاں بھی آپ کا معمول قرآن شریف کی تلاوت اور نمازوں کے التزام کے سواکچھ نہ تھا۔اور ظاہر ہے کہ باقاعدہ ملازمت کا کوئی موقع نہیں ملاہوگا۔جیساکہ تاریخ وسیرت کی ابتدائی کتب سے ظاہرہوتاہے۔(ماخوذازحیات احمدؑ ازعرفانی صاحب ؓ جلداول صفحہ89،مجدداعظم جلداول صفحہ41،تاریخ احمدیت جلداول صفحہ 80)

دینانگر میں ملازمت

شہنشاہ اکبرکے ایک وفادار جرنیل دینہ بیگ کو اکبرنے وسیع و عریض جاگیرعطاکی اسی دینہ بیگ کے نام پریہ شہرآبادہوا۔آموں کے وسیع وعریض باغات کی وجہ سے بھی مشہورہوااوراس کی ایک تاریخی اہمیت یہ بھی ہے کہ مہاراجہ رنجیت سنگھ کا گرمیوں میں یہ دارالحکومت ہوا کرتا تھا۔ پنجاب پر جب سکھوں کی حکومت کے خاتمہ کے بعد انگریزی حکومت کی عملداری کا آغاز ہواتو ابتدائی طورپر دینانگر کو ہی ضلعی ہیڈکوارٹر کادرجہ دیاگیا۔اس وقت وہاں ملازمت کے کچھ مواقع سامنے آنے پر حضرت اقدسؑ کے والدماجدنے آپؑ کو وہاں ملازم کروادیا چنانچہ ہم پڑھتے ہیں کہ1852ء میں جب بندوبست شروع ہوا تو اس کا ہیڈ آفس اس ضلع میں بمقام دینانگر تھا۔حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب مرحوم کی تحریک پر یہ تجویز ہوئی کہ آپؑ بندوبست میں ملازم ہو جائیںتا کہ ابتدائی کا م سیکھ کر جلد ترقی حاصل کر سکیں۔چنانچہ اس مقصد کے لیے آپؑ کو دینانگر بھیجا گیا۔اور آپؑ ملازم بھی ہو گئےمگر ایک دن سے زیادہ عہدملازمت نہ رہا (حیات احمدؑ ازعرفانی صاحب ؓ جلداول صفحہ432)

ریاست کپورتھلہ کے سررشتہ تعلیم کی افسری کی پیشکش

سیالکوٹ سے ترک ملازمت کرکےجب آپؑ قادیان واپس تشریف لے آئے تو کچھ عرصہ کے بعد ریاست کپور تھلہ کی طرف سے وہاں کے صیغہ تعلیم کی افسری کے لیے آپؑ کو بلایا گیا۔ قادیان کے باب میں یہ ذکرہو اہےکہ جن ایام میں حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحبؒ بیگو وال میں تھےتو مہاراجہ کپورتھلہ کی خواہش تھی کہ آپ مستقل طور پر وہاں رہ جائیں،اور وہ ایک معقول جاگیر آپ کو دینا چاہتا تھا۔مگر جناب مرزا غلام مرتضیٰ صاحبؒ نے انکارکر دیا تھا۔ریاست کے اعلیٰ عہدہ داروں کے ساتھ آپ کی راہ رسم تھی۔ اور وہ چاہتے تھے کہ حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحبؒ کے صاحبزادوں میں سے ہی کوئی وہاں رہے۔ مرزا غلام قادر صاحب چونکہ سرکاری ملازم ہو چکے تھے۔اس لیے ریاست کپورتھلہ نے حضرت اقدس مرزا غلام احمد صاحب علیہ الصلوٰة والسلام کو بلانا چاہا۔مگر حضرت مسیح موعودؑ نے اس عزت و حکومت کی نوکری سے انکار کر دیا اور حضرت والد صاحب قبلہ کی خدمت میں عرض کیا کہ ’’میں کوئی نوکری کرنی نہیں چاہتا ہوں۔دو جوڑے کھدر کے کپڑوں کے بنادیا کرو۔اور روٹی جیسی بھی ہو بھیج دیا کرو۔‘‘اس سے آپ کی سیر چشم اور قانع طبیعت کاپتہ صاف ملتا ہے کہ دنیاکی حرص و آز ہوتی (نعوذبالله)یا آپ شہرت اور حکومت کے دلدادہ ہوتے تو بہتر سے بہتر مواقع آپ کے سامنے پیش آئے۔مگر آپ کو کبھی ان باتوں نے تحریک نہیں کی۔آپ کی ضروریات اور خواہشات کا دائرہ بہت ہی محدود تھا۔اس وقت بھی جبکہ آپؑ کے سامنے دو اڑھائی سو روپیہ ماہوار کی ملازمت پیش ہوتی ہے۔اور حضرت مرزا غلام احمد صاحب جیسی خوبی اور قابلیت کا انسان جو بڑی ترقی کرنے کی استعداد رکھتا تھااگر دنیا کا دلدادہ ہوتاتو بڑی خوشی سے منظور کرتا۔مگر وہ برخلاف اس کے انکار کرتے ہیںاور اپنی ضروریات کو کپڑے کے دو جوڑوں اور معمولی روٹی میں محدود کر دیتے ہیں۔حضرت والد صاحب قبلہ نے جب آپؑ کا یہ فیصلہ سناتو نہایت رقت قلب کے ساتھ ایک شخص میاں غلام نبی کو مخاطب کر کے فرمایا کہ میاں غلام نبی میں خوش تو اسی پر ہوں۔سچی راہ تو یہی ہےجس پر یہ چل رہا ہے۔ (ماخوذاز حیات احمدؑ جلداول صفحہ294)حضرت مصلح موعودؓ اسی ملازمت کی بابت بیان فرماتے ہیں: ’’ہمارے دادا کو بڑا فکر رہتا تھا کہ وہ اپنے بیٹے کو کسی ایسے کام پر لگا دیں جس سے وہ اپنا گزارہ آسانی کے ساتھ کر سکے۔ مہاراجہ کپورتھلہ کے شاہی خاندان سے بھی ہمارے خاندان کے چونکہ پرانے تعلقات ہیں اس لئے انہوں نے کوشش کر کے بانی سلسلہ احمدیہ کے لئے وہاں ایک معزز عہدہ تلاش کر لیا۔ چنانچہ ان کے لئے انسپکٹر جنرل آف ایجوکیشن کے عہدہ کی منظوری آگئی۔ قادیان کے قریب ہی ایک گاؤں ہے وہاں ایک سکھ صاحب رہا کرتے تھے جو اکثر ہمارے دادا کے پاس آیا جایا کرتے تھے۔ انہوں نے خود سنایا کہ میں اور میرا بھائی اکثر بڑے مرزا صاحب سے ملنے کے لئے آجایا کرتے تھے۔ ایک دفعہ ہم دونوں ان سے ملنے کے لئے گئے تو وہ کہنے لگے کہ مرزا غلام احمد کو دنیا کی طرف کوئی توجہ نہیں میں حیران ہوں کہ میرے مرنے کے بعد اس کا کیا حال ہوگا۔ میں نے اس کے متعلق کپورتھلہ میں کوشش کی تھی جس کے نتیجہ میں وہاں سے آرڈر آگیا ہے کہ اسے ریاست کا افسر تعلیم مقرر کیا جاتا ہے۔ میں اگر اسے کہوں تو شاید مجھے جواب نہ دے تم دونوں اس کے ہم عمر ہو تم اس کے پاس جاؤ اور کہو کہ وہ اس عہدہ کو قبول کر لے۔ وہ سناتے ہیں کہ ہم دونوں بھائی ان کے پاس گئے اور انہیں کہا کہ مبارک ہو ریاست کپورتھلہ کی طرف سے چٹھی آئی ہے کہ آپ وہاں کے افسر تعلیم مقرر کئے گئے ہیں۔ آپ کے والد صاحب کی خواہش ہے کہ آپ یہ نوکری اختیار کر لیں اور ریاست کپورتھلہ میں چلے جائیں۔ وہ کہتے ہیں جس وقت ہم نے یہ بات کہی انہوں نے ایک آہ کھینچی اور کہا والد صاحب تو خواہ مخواہ فکر کرتے ہیں میں نے تو جس کا نوکر ہونا تھا ہوگیا اب میں کسی اور کی نوکری کرنے کے لئے تیار نہیں ہوں۔ وہ کہتے ہیں ہم دونوں واپس آگئے اور آپ کے دادا صاحب کو کہا کہ وہ تو کہتے ہیں کہ والد صاحب یونہی بے فائدہ فکر کر رہے ہیں مَیں نے تو جس کی نوکری کرنی تھی کر لی اَب میں کسی اَور کی نوکری کرنے کے لئے تیار نہیں ہوں۔ اس پر وہ کہتے ہیں کہ آپ کے دادا صاحب نے کہا اگر اس نے یہ کہا ہے تو خیر رہنے دو وہ جھوٹ نہیں بولا کرتا۔‘‘(میں ہی مصلح موعود کی پیشگوئی کا مصداق ہوں، انوارالعلوم جلد 17صفحہ 201،200)

سیشن ججی کی اسیسری سے دست بردار ہو گئے

حضرت اقدسؑ نے ایک جگہ خودذکرفرمایاہے کہ ’’میں خودایک مرتبہ اسیسرہوکر گیاتھا۔ایک شخص نے بارہ آنے یا…(سواروپیہ) میں ایک بچہ کاخون کیاتھا۔‘‘ البتہ معلوم ہوتاہے کہ مستقل طورپراس کوبھی اختیارنہیں فرمایاجیساکہ حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب ؓ بیان کرتے ہیں:دنیا کے گرفتاران شہرت کو ناموری کی ہمیشہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ حکام رس ہوں اور جس طرح ممکن ہو وہ سرکار دربار میں عزت وامتیاز حاصل کریں۔مگر ان کی طبیعت ایسی باتوں سے بے نیاز اور بے پروا تھی۔ایک مرتبہ وہ عدالت سیشن کے لئے اسیسر منتخب ہوئے۔اگرحضرت مسیح موعود ؑکی جگہ کوئی دوسرا آدمی ہوتا تو اس انتخاب پر بہت خوش ہوتا۔اور اپنی ترقیات کے لئے اس کو ایک زینہ قرار دیتا۔مگر حضرت مسیح موعودؑ نے اس کے متعلق کیا کیا؟صاف انکار کر دیااور درخواست کر دی کہ میں نہیں ہونا چاہتا۔ (حیات احمدؑ جلداول صفحہ222،221 وماخوذ از مجدداعظم جلداول صفحہ 55)

(باقی آئندہ)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button