بنیادی مسائل کے جوابات

بنیادی مسائل کے جوابات(نمبر39)

(ظہیر احمد خان۔ مربی سلسلہ، انچارج شعبہ ریکارڈ دفتر پی ایس لندن)

(امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے پوچھےجانے والے بنیادی مسائل پر مبنی سوالات کے بصیرت افروز جوابات)

٭… عورت کا اپنا مہر خود مقرر کرنا،کیا عورت کی خاموشی اس کی رضامندی پر دالّ ہے،عورت کی عدم موجودگی میں اس کا ولی غلط بیانی بھی تو کر سکتاہے۔

٭… ایک احمدی کے ایک غیر از جماعت خاتون کے ساتھ اپنا نکاح خود پڑھنے بعدازاں اس عورت کو طلاق دینے پھر اس عورت کے بیعت کرنےکے بعد اس نکاح کی شرعی حیثیت کیا ہے؟

٭… نماز تسبیح میں پڑھی جانے والی تسبیحات چار رکعات میں تین سو کی تعداد میں کس طرح مکمل ہو سکتی ہیں؟

٭… سرکاری اور غیر سرکاری بینکوں سے ملنے والا منافع سود کے زمرہ میں آتا ہے یا نہیں؟

سوال:ایک خاتون نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں لکھا کہ انہیں Feminist خیالات آتے ہیں جو اسلام کی تعلیم سے متضاد ہیں۔ نیز انہوں نے پوچھا ہے کہ عورت نکاح میں اپنا مہر خود کیوں مقرر نہیں کر سکتی۔ اس کی خاموشی اس کی رضامندی کیوں سمجھی جاتی ہے۔ عورت میں شرم اور خاموشی اتنی پسند کیوں کی جاتی ہے، جبکہ ہم ایک ایسے معاشرےمیں رہتے ہیں جہاں عورتوں کے حقوق کی بات ہوتی ہے۔نیز نکاح کے وقت اگر عورت خود موجود ہی نہیں تو اس کی مرضی کے بارے میں اس کا ولی غلط بیانی بھی تو کر سکتا ہے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ 18؍جون 2021ء میں اس سوال کے جواب میں درج ذیل ہدایات عطافرمائیں۔ حضور انور نے فرمایا:

جواب:کسی چیز کے بارے میں خیالات کا آنایا کسی چیز کے بارے میں اعتراض پیدا ہونا عموماً عدم علم یا اس چیز کے بارے میں پوری طرح معلومات نہ ہونے کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اور اعتراض کرنے والا انسان بعض اوقات صرف سنی سنائی باتوں پر یقین کرکے اعتراض کر رہا ہوتا ہے۔ اس لیے قرآن کریم نے ہمیں یہ تعلیم دی ہے کہ کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے اس چیز کے بارے میں پوری طرح تحقیق کر لیا کرو۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے: یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا ضَرَبۡتُمۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ فَتَبَیَّنُوۡا وَ لَا تَقُوۡلُوۡا لِمَنۡ اَلۡقٰۤی اِلَیۡکُمُ السَّلٰمَ لَسۡتَ مُؤۡمِنًا ۚ تَبۡتَغُوۡنَ عَرَضَ الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ۫ فَعِنۡدَ اللّٰہِ مَغَانِمُ کَثِیۡرَۃٌ ؕ کَذٰلِکَ کُنۡتُمۡ مِّنۡ قَبۡلُ فَمَنَّ اللّٰہُ عَلَیۡکُمۡ فَتَبَیَّنُوۡا ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ خَبِیۡرًا۔(النساء:95)یعنی اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب تم اللہ کی راہ میں سفر کر رہے ہو تو اچھی طرح چھان بین کر لیا کرو اور جو تم پر سلام بھیجے اس سے یہ نہ کہا کرو کہ تُو مومن نہیں ہے۔ تم دنیاوی زندگی کے اموال چاہتے ہو تو اللہ کے پاس غنیمت کے کثیر سامان ہیں۔ اس سے پہلے تم اسی طرح ہوا کرتے تھے پھر اللہ نے تم پر فضل کیا۔ پس خوب چھان بین کرلیا کرو۔ یقیناً اللہ اس سے جو تم کرتے ہو بہت باخبر ہے۔

ایک اور جگہ فرمایا:یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنۡ جَآءَکُمۡ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوۡۤا اَنۡ تُصِیۡبُوۡا قَوۡمًۢا بِجَہَالَۃٍ فَتُصۡبِحُوۡا عَلٰی مَا فَعَلۡتُمۡ نٰدِمِیۡنَ۔( الحجرات :7)یعنی اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! تمہارے پاس اگر کوئی فاسق کوئی خبر لائے تو (اس کی) چھان بین کرلیا کرو، ایسا نہ ہو کہ تم جہالت سے کسی قوم کو نقصان پہنچا بیٹھو پھر تمہیں اپنے کیے پر پشیمان ہونا پڑے۔

پس اسلام نے اپنے متبعین کو اپنے اور پرائے ہرایک کے معاملے میں پوری طرح چھان بین کرنے کی ہدایت فرمائی ہے۔ اوریقین کے مقابلہ پر صرف گمان کرنےکو پسند نہیں فرمایا۔چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:اِنَّ الظَّنَّ لَا یُغۡنِیۡ مِنَ الۡحَقِّ شَیۡئًا(یونس:37) یقیناً ظن حق کی جگہ کچھ بھی کام نہیں دیتا۔اس کے ساتھ قرآن کریم نے متعدد جگہوں پر اس مضمون کو بھی مختلف پیرایوں میں بیان کیا ہے کہ خدا تعالیٰ اور اس کے رسولوں کے منکرین کی مذہب کے معاملات میں کبھی کسی یقین پر بنیاد نہیں ہوتی بلکہ وہ صرف ظنی اور خیالی باتیں کرتے ہیں۔ اس لیے قرآن کریم نے مومنوں کو ظن سے بچنے کی تلقین فرمائی اور بعض قسم کے ظن کو گناہ بھی قرار دیا۔ جیسا کہ فرمایا:یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اجۡتَنِبُوۡا کَثِیۡرًا مِّنَ الظَّنِّ ۫ اِنَّ بَعۡضَ الظَّنِّ اِثۡمٌ۔(الحجرات:13)کہ اے مومنو! ظن سے بکثرت اجتناب کیا کرو۔ یقیناً بعض ظن گناہ ہوتے ہیں۔

آپ نے لکھا ہے کہ آپ کوایسے خیالات آتے ہیں جو اسلام کی تعلیم سے متضاد ہیں۔ نیز آپ نے لکھا ہے کہ آپ اسلام کے احکامات کے بارے میں ریسرچ کر رہی ہیں۔ ریسرچ کرنا بہت اچھی عادت ہے لیکن اس ضمن میں یہ بات مدنظر رکھنی بھی ضروری ہے کہ آپ کی ریسرچ کی بنیاد کن چیزوں پر ہے۔ قرآن کریم، سنت نبویﷺاور احادیث کو سمجھنےکے لیےاللہ تعالیٰ نے اس دور میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جو حکم و عدل بنا کر دنیا کی اصلاح کے لیےبھیجا ہے اس کا یہی مقصد ہے کہ اسلام کی حقیقی تعلیم جو زمین سے اٹھ کر ثریا پر جا چکی تھی، اسے آپ نے واپس لا کر دنیا کے سامنے پیش کیا ہے۔ اس لیے اپنی ریسرچ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کے مطالعہ کو مقدم رکھیں اور بار بار ان کا مطالعہ کریں۔ اس کے بعد خلفائے احمدیت کی کتب جن کی بنیاد بھی دراصل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہی عطا فرمودہ علم الکلام پر ہے ان کا مطالعہ کریں تو انشاء اللہ آپ کے تمام شکوک و شبہات دور ہو جائیں گے۔

باقی جہاں تک آپ کے سوالات کا تعلق ہے تویہ بھی غلط فہمی اور اسلام کی تعلیمات سے پوری طرح واقفیت نہ ہونے کی وجہ سے ہیں۔ اسلامی تعلیم کی رو سے لڑکی کے نکاح کے لیےلڑکی کی رضامندی سب سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے اور کوئی نکاح اس کی مرضی کے خلاف نہیں ہو سکتا۔ اور یہ کہنا کہ اس کی خاموشی کو اس کی رضامندی سمجھا جاتا ہے، یہ بھی غلط بات ہے۔ نکاح کے لیے لڑکی سے نہ صرف اس کی باقاعدہ مرضی پوچھی جاتی ہے بلکہ نکاح فارم پر لڑکی کے دستخط ہوتے ہیں اور اس کے دستخطوں کے ساتھ دو گواہوں کی اس بات پر گواہی ہونی ضروری ہے کہ اس لڑکی نے ان دو گواہوں کے سامنے اپنی مرضی سے اس نکاح فارم پر دستخط کیے ہیں۔ خاموشی کو رضامندی سمجھنا یہ اسلام کی تعلیم نہیں ہے، بلکہ علاقائی اور روایتی رسم و رواج ہیں۔ہاں یہ بات ٹھیک ہے کہ اسلام نے لڑکی کے نکاح کے لیےلڑکی کی مرضی کے علاوہ اس کے ولی جو اس کا بہت ہی قریبی رشتہ دار یعنی اس کا باپ یا بھائی وغیرہ ہوتا ہے، کی مرضی کو بھی ضروری قرار دیا ہے۔ اس حکم میں ایک بہت بڑی حکمت یہ ہے کہ چونکہ لڑکی بیاہ کر ایک خاندان سے دوسرے خاندان میں جا رہی ہوتی ہے۔ اس لیے اس کے نکاح میں اس کے ساتھ ولی کی شرط کو رکھ کر دوسرے خاندان پر واضح کیا گیا ہے کہ عورت، جسے معاشرہ میں عموماً مردوں کی نسبت کمزور سمجھا جاتا ہے، اگر اس پر کسی قسم کا ظلم ہوا تو اس کے اپنے خاندان کے لوگ اس کے ساتھ ہیں جو تم لوگوں سے اس بارے میں بازپُرس کر سکتے ہیں۔لیکن ولی کی اس شرط میں بھی عورت کی مرضی کو اس طرح مقدم رکھا گیا کہ اگرچہ ولی عورت کا کوئی بہت قریبی رشتہ دار ہی ہوتا ہے جس کے متعلق یہی سمجھا جاتا ہے کہ وہ اس عورت کی یقیناً بھلائی ہی پیش نظر رکھے گا۔اس کے باوجود اگر کسی لڑکی کو شکایت پیدا ہو کہ اس کا یہ ولی اس کی مرضی کے خلاف اس کا رشتہ کرنا چاہتا ہےتو آنحضورﷺکی سنت کے عین مطابق خلیفۃ المسیح روحانی باپ ہونے کی حیثیت سے اس عورت کے اس جسمانی ولی کی ولایت کو منسوخ کر کے اپنی نمائندگی میں اس عورت کا وکیل مقرر کر کے اس عورت کی مرضی کے مطابق اس کا نکاح کروانے کا حق رکھتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ میں اسی پر عمل ہوتا ہے اور متعدد احمدی بچیوں نے خلیفۃ المسیح کے توسط سے اپنے اس حق کو حاصل کیا ہے۔ایجاب و قبول کی مجلس چونکہ مردوں کی مجلس ہوتی ہے اور اسلام نے بہت سی حکمتوں کے پیش نظر غیر محرم مردوں اورعورتوں کے برملا ملنے جلنے کو پسند نہیں کیا لہٰذا اسلام نے عورت کے وقار اور عزت کو مد نظر رکھتے ہوئے خود عورت کی بجائے اس کے ولی کو اس میں ایجاب و قبول کرنے کی ہدایت فرمائی ہے۔لیکن اس سے پہلے نکاح کے تمام تر معاملات طے کرنے میں عورت کی مرضی اور رضامندی کوپوری طرح مقدم رکھا ہے۔ چنانچہ آنحضورﷺ کے عہد مبارک میں حضورﷺ نے جب ایک صحابی کو رشتہ طے کرنے سے پہلے لڑکی کو ایک نظر دیکھنے کا ارشاد فرمایا، اور لڑکی کے باپ نے اپنی لڑکی غیر مرد کو دکھانے سے انکار کیا تو لڑکی حضورﷺ کاارشاد سن کر دروازہ سے باہر آگئی اور اس نے اس صحابی سے کہا کہ اگر حضور ﷺ کا ارشاد ہے تو تم مجھے دیکھ سکتے ہو۔(سنن ابن ماجہ، کتاب النکاح بَاب النَّظَرِ إِلَى الْمَرْأَةِ إِذَا أَرَادَ أَنْ يَتَزَوَّجَهَا)پس اسلام نے دیگر احکامات کی طرح نکاح اور شادی کے معاملات میں بھی جائز حدود میں رہتے ہوئے عورت کو پورا پورا اختیار دیا ہے۔ ہاں مذہب بعض امور میں جہاں عورتوں پر کچھ پابندیاں لگاتا ہے وہاں اس نے مردوں پر بھی کچھ پابندیاں لگائی ہیں۔ لیکن چونکہ شیطان ہردور اور ہر زمانے میں انسان کو بہکانےکے لیےطرح طرح کے راستے تلاش کرتا رہتا ہے اور یہ زمانہ جس میں دجالی قوتیں جو شیطان ہی کی نمائندہ ہیں پوری شدت کے ساتھ لوگوں کو خدا تعالیٰ کے راستہ سے بھٹکانےکے لیےاپنی ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہیں، وہ مختلف طریقوں سے لوگوں اور خصوصاً نوجوان نسل کے ذہنوں میں طرح طرح کے شبہات پیدا کر کے انہیں مذہب سے متنفر کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔لہٰذا ہر احمدی مرد و عورت کا فرض ہے کہ وہ اس معاشرہ میں رہتے ہوئے معاشرہ کی برائیوں سے جہاں خود کو بچائے وہاں اسلامی اقدار کا بہترین نمونہ باقی لوگوں کے سامنے پیش کر کے انہیں اسلام کا حقیقی پیغام پہنچائے اور معاشرہ میں اسلامی تعلیمات کو رائج کرنے کی بھرپور کوشش کرے، نہ یہ کہ اندھا دھند ان معاشرتی برائیوں کا اسیر ہو کر اسلامی تعلیمات کو بھلا دے۔ پس اب آپ نے خود یہ فیصلہ کرنا ہے کہ آپ نے خدا تعالیٰ کے حکموں کو مانتے ہوئے مذہب کے راستہ پر چل کر جو بہرحال کچھ مشکلات والا راستہ ہے، اپنی دنیا اور آخرت کو حسین بنانا ہے یا شیطان اور ان دجالی قوتوں کی ملمع شدہ باتوں اور ان کے بظاہر چکاچوند کر دینے والے پُرکشش راستوں پر چل کر اپنی دنیا اور آخرت کو تباہ کرنے کے سامان کرنے ہیں۔

سوال:محترم سیکرٹری صاحب امور عامہ جرمنی نے ایک احمدی کے ایک غیر از جماعت خاتون کے ساتھ اپنا نکاح خود پڑھنے اور بعدازاں اس عورت کو طلاق دینےاور پھر اس عورت کے بیعت کرنےکے معاملات تحریر کر کے اس نکاح کی شرعی حیثیت کی بابت محترم مفتی صاحب سے مسئلہ دریافت کیا۔ یہ معاملہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں پیش ہونے پر حضور انور نے محترم امیر صاحب جرمنی کو اپنے مکتوب مورخہ 25جولائی 2022ء میں درج ذیل اصولی ہدایات سے نوازا۔ حضور انور نے فرمایا:

جواب:اس شخص نے یہ نکاح اگر لڑکی اور اس کے ولی کی رضامندی کے ساتھ گواہوں کی موجودگی میں پڑھا ہے، اور جماعتی نظام کے تحت اس نکاح کے لیےانہوں نے فارم بھی پُر کر کے اس نکاح کو رجسٹر کروایا ہے اور جس جماعت میں یہ صاحب مقیم ہیں، اس حلقہ میں ان کے نکاح کا لوگوں کو علم ہوا ہے تو پھر یہ نکاح جائز اور درست ہے۔ لیکن اگر اس نکاح میں مذکورہ بالا امور کا خیال نہیں رکھا گیا اور چھپ چھپا کر نکاح پڑھ لیا گیا ہےاور نکاح کے بعد بھی اس کی اس طرح تشہیر نہیں ہوئی کہ فریقین کے حلقہ احباب کو اس کا علم ہوا ہوتو یہ خفیہ نکاح کے زمرہ میں آئے گا۔ لہٰذا اس بارے میں ان صاحب کو جو تعزیری سزا ہوئی ہے وہ بالکل درست ہے۔

سوال:ایک خاتون نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے نماز تسبیح پڑھنے کے طریق کے بارے میں دریافت کیا ہےکہ اس نماز میں پڑھی جانے والی تسبیحات چار رکعات میں تین سو کی تعداد میں کس طرح مکمل ہو سکتی ہیں؟حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نےاپنے مکتوب مورخہ 25؍جولائی 2021ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب ارشاد فرمایا:

جواب:نماز تسبیح کے بارے میں مروی احادیث سے یہ بات قطعیت کے ساتھ ثابت ہے کہ حضورﷺ نے خود اس نماز کو کبھی ادا نہیں کیا اور نہ ہی خلفائے راشدین سے اس نماز کے پڑھنے کا کوئی ثبوت ملتا ہے۔ اسی طرح اسلام کی نشأۃ ثانیہ کے لیےمبعوث ہونے والے حضورﷺکے غلام صادق حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بھی اس نماز کے پڑھنے کی کوئی روایت ہمیں نہیں ملتی۔

البتہ بعض احادیث میں آتا ہے کہ حضورﷺنے کچھ صحابہ ؓکو یہ نماز سکھائی اور اس کے پڑھنے کی انہیں تلقین فرمائی۔ اسی لیے علمائے سلف میں نماز تسبیح کےمتعلق مروی احادیث کے بارے میں دونوں قسم کی آرا موجود ہیں، کچھ نے ان احادیث کو قابل قبول قرار دیا ہے اور کچھ نے ان احادیث کی اسناد پر جرح کرتے ہوئے انہیں موضوع قرار دیا ہے۔ اسی طرح ائمہ اربعہ میں بھی اس بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔چنانچہ حضرت امام احمد بن حنبلؒ اس نماز کو مستحب کا درجہ بھی نہیں دیتے جبکہ دیگر فقہاء اسے مستحب قرار دیتے ہیں اور اس کی فضیلت کے بھی قائل ہیں۔

میرے نزدیک اس نماز کا پڑھنا ضروری نہیں لیکن اگر کوئی شخص اپنے طور پر یہ نماز پڑھے تو پھر ہمیں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اس ارشاد کو پیش نظر رکھنا چاہیےجسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی بیان فرمایا ہے کہ ایک شخص ایسے وقت میں نماز ادا کر رہا تھا جس وقت میں نماز جائز نہیں۔ اس کی شکایت حضرت علیؓ کے پاس ہوئی تو آپ نے اسے جواب دیا کہ میں اس آیت کا مصداق نہیں بننا چاہتا أَرَأَیْتَ الَّذِیْ یَنْھَی عَبْدًا اِذَا صَلّٰی۔ (سورۃ العلق:8) یعنی تونے دیکھا اس کو جو ایک نماز پڑھتے بندے کو منع کرتا ہے۔(البدرنمبر15، جلد2، مورخہ یکم مئی 1903ءصفحہ 114)(مصنف عبدالرزاق كتاب صلاة العيدين باب الصلاة قبل خروج الامام وبعد۔الجزء3 حدیث نمبر 5626)پس اگر کوئی یہ نمازاکیلا پڑھنا چاہے تو ہم اسے روکتے نہیں ہیں۔ لیکن اس نماز کو باجماعت ادا کرنا بدعت ہے اور منع ہے۔جہاں تک اس نماز کے پڑھنے کا طریق ہے تو سنن ابی داؤد میں مروی ہے کہ حضور ﷺ نے حضرت عباس ؓسے فرمایا کہ آپ چار رکعات نماز اس طرح پڑھیں کہ ہر رکعت میں سورت فاتحہ اور قرآن کریم کی قراءت سے فارغ ہو کر 15 مرتبہ سُبْحَانَ اللّٰهِ وَالْحَمْدُ لِلّٰهِ وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللّٰهُ وَاللّٰهُ أَكْبَرُپڑھیں۔ پھر رکوع میں 10 مرتبہ۔ پھر رکوع سے اٹھ کر 10 مرتبہ۔ پھر سجدہ میں 10 مرتبہ۔ پھر دونوں سجدوں کے درمیانی قعدہ میں 10 مرتبہ۔ پھر دوسرے سجدہ میں 10 مرتبہ اور پھر دوسرے سجدہ سے اٹھ کر 10 مرتبہ یہ تسبیحات پڑھیں۔ اس طرح ہر رکعت میں 75 مرتبہ یہ تسبیحات ہوں گی۔ اور اگر آپ طاقت رکھتے ہوں تو روزانہ ایک مرتبہ یا ہر جمعہ کو ایک مرتبہ یا ہر مہینہ میں ایک مرتبہ یا ہر سال میں ایک مرتبہ یا اپنی پوری عمر میں ایک مرتبہ یہ نماز پڑھیں۔(سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب صلاۃ التسبیح)

سوال:ایک خاتون نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزسے سرکاری اور غیر سرکاری بینکوں سے ملنے والے منافع کی بابت دریافت کیا کہ کیا یہ سود کے زمرہ میں آتا ہے یا نہیں؟حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نےاپنے مکتوب مورخہ 23 اگست 2021ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب ارشاد فرمایا:

جواب:بینک یا کسی مالیاتی ادارہ میں اس شرط کے ساتھ رقم جمع کروانا کہ مجھے اس پر پہلے سے طے شدہ معین شرح کے ساتھ صرف منافع ملے۔ یہ صورت ناجائز ہے، کیونکہ یہ زائد رقم سود کے زمرہ میں آتی ہے۔ لیکن اگر بینک یا مالیاتی ادارہ میں نفع و نقصان میں شراکت کی شرط کے ساتھ رقم جمع کروائی جائے جیسا کہ ہمارے پاکستان میں PLS یعنی Profit and loss sharing اکاؤنٹس ہوتے ہیں، ایسے اکاؤنٹ سے ملنے والی زائد رقم سود میں شامل نہیں اور انسان اسے اپنے ذاتی مصرف میں لا سکتا ہے۔

علاوہ ازیں حکومتی بینک یا حکومتی مالیاتی ادارے چونکہ اپنے سرمایہ کو ملک بھرکے لیےرفاہی کاموں میں لگاتے ہیں اور ان رفاہی کاموں سے نہ صرف اس بینک یا مالیاتی ادارہ میں رقم جمع کروانے والا فائدہ اٹھاتا ہے بلکہ اس ملک کےدوسرے عوام و خواص بھی فائدہ اٹھا رہے ہوتے ہیں۔ مزید یہ کہ ان حکومتی بینکوں اور مالیاتی اداروں کی سرمایہ کاری سے ملکی معیشت میں ترقی ہوتی اور روز گار کے زیادہ مواقع پیدا ہوتے ہیں جو حکومت کی آمدنی میں اضافہ کا باعث ہوتے ہیں۔ ایسی صورت میں یہ حکومتی بینک یا حکومتی مالیاتی ادارے جب اپنے پاس رقم جمع کروانے والے عوام و خواص کو اپنے منافع میں شریک کرتے ہیں اور اپنے منافع میں سے کچھ معین حصہ اپنے اکاؤنٹ ہولڈرز کو بھی دیتے ہیں تو یہ جائز ہے اور یہ زائد ملنے والا منافع سود کے زمرہ میں نہیں آتا اورانسان اسے اپنے ذاتی مصرف میں لا سکتا ہے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button