مضامین

افریقہ کی ترقی و استحکام کی جانب خلفائے احمدیت کی نظرِ التفات(قسط دوم)

(ذیشان محمود۔ مربی سلسلہ سیرالیون)

خلفائے احمدیت کی نظرِ شفقت کاوارث، براعظم افریقہ

’’میرے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی تھی کہ خلافت احمدیہ پر 62 سال کے قریب گزر چکے ہیں جماعت طاقت رکھتی ہے کہ اگر بشاشت سے ہمت کرکے کام کرے تو باسٹھ لاکھ روپیہ ایک لاکھ روپیہ فی سال کے حساب سے نصرت جہاں ریزرو فنڈ میں جمع ہو جانا چاہئے۔‘‘(حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ)

خلافتِ ثالثہ

1970ء کے سال سے اس براعظم میں احمدیت کی تاریخ کا تابناک اور سنہری دَور شروع ہوا۔ یہی وہ سال تھا جب سلسلہ کی تاریخ میں حضرت مسیح موعودؑ کے نائب اور جانشین بنفس نفیس ارضِ بلال میں تشریف لے گئے۔یہ دنیا کی تاریخ کا ایک عظیم واقعہ تھا کہ اس سرزمین نے پہلی دفعہ حضرت خلیفۃ المسیح کے قدم چومے اور محبت کا چشمہ اس سرزمین سے پھوٹ پڑا۔ اس دورے میں کئی دہائیوں سے حضرت خلیفة المسیح کی زیارت کے منتظر مخلص افریقن بھائی دیدار سے فیضیاب ہوئے۔ اور عشق و محبت کی ایک نئی داستان رقم ہوئی۔ جہاں اس للّٰہی سفر نے روحانیت کی پیاسی روحوں کو سیراب کیا وہیں خدا تعالیٰ کی جانب سے گیمبیا میں حضورؒ کے دل پر ایک نہایت شاندار سکیم القا کی گئی۔ اس سکیم نے جہاں جماعت کو استحکام بخشا وہیں افریقن بھائیوں کے لیے تعلیم اور طب کے میدان میں سہولیات پیدا ہوئیں۔

نصرت جہاں آگے بڑھو کا قیام

حضورؒ دورہ افریقہ کے دوران گیمبیا میں تشریف فرما تھے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے دل میں ایک عظیم تحریک القا کی۔ آپؒ نے فرمایاکہ گیمبیا میں ایک دن اللہ تعالیٰ نے بڑی شدت سے میرے دل میں یہ ڈالا کہ تم کم ازکم ایک لاکھ پاؤنڈ ان ملکوں میں خرچ کرو اور اس میں اللہ تعالیٰ بہت برکت ڈالے گا۔(ماخوذ از الفضل 20؍جون 1970ء)

اس رقم سے افریقہ میں سکولوں اور ہسپتالوں کا ایک جال بچھانا مقصود تھا۔چنانچہ حضورؒ نے مالی تحریک کے ساتھ واقفین ڈاکٹرز اور ٹیچرز کو آواز دی جو وہاں بے لوث خدمت کریں۔ حضورؒ نے اس سکیم کا اعلان سب سے پہلے دورہ افریقہ کے بعد 24؍مئی 1970ء کو مسجد فضل لندن میں فرمایا۔ حضورؒ نے خطبہ جمعہ 12؍جون 1970ء میں اس کا تفصیلی ذکر کرتے ہوئے فرمایاکہ ’’یہ ایک لاکھ پاؤنڈ کی رقم کم سے کم ہے اور اس سلسلہ میں انگلستان کی جماعتوں میں سے مجھے دو سو ایسے مخلص آدمی چاہئیں جو دو سو پاؤنڈ فی کس کے حساب سے دیں اور دو سو ایسے مخلصین جو ایک سو پاؤنڈ فی کس کے حساب سے دیں اور باقی جو ہیں وہ 36 پاؤنڈ دیں ان میں سے بارہ پاؤنڈ (ایک پاؤنڈ ایک مہینے کے لحاظ سے) فوری طور پر دے دیں۔ میں نے انہیں کہا کہ قبل اس کے کہ میں انگلستان چھوڑوں اس مد میں دس ہزار پاؤنڈ جمع ہونے چاہئیں۔ میں نے جمعہ کے خطبہ میں انہیں کہا کہ یہ اللہ تعالیٰ کا منشاء ہے کہ ہم یہ رقم خرچ کریں اور ہسپتالوں اور سکولوں کے لئے جتنے ڈاکٹرز اور ٹیچر چاہئیں وہاں مہیا کریں۔ چنانچہ 2 دن کے اندر 28 ہزار پاؤنڈ کے وعدے ہوگئے تھے…۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 12؍جون 1970ءمطبوعہ خطبات ناصر جلد3 صفحہ125)

حضورؒ نے اس فنڈکا نام ’’نصرت جہاں ریزرو فنڈ‘‘رکھا۔

حضور ؒنے 2؍اکتوبر 1970ء کے خطبہ میں فرمایا: ’’میرے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی تھی کہ خلافت احمدیہ پر 62سال کے قریب گزر چکے ہیں جماعت طاقت رکھتی ہے کہ اگر بشاشت سے ہمت کرکے کام کرے تو باسٹھ لاکھ روپیہ ایک لاکھ روپیہ فی سال کے حساب سے نصرت جہاں ریزرو فنڈ میں جمع ہو جانا چاہئے۔(خطبہ جمعہ فرمودہ 2؍اکتوبر1970ءمطبوعہ خطبات ناصر جلد3 صفحہ355)

حضورؒ نے 26؍جون 1970ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا: ’’انگلستان میں جب میں نے تحریک کی تو وہاں کے بعض بڑے بڑے تعلیم یافتہ اور اونچی ڈگریاں لینے والے احمدی ڈاکٹروں نے افریقہ میں کام کرنے کے لئے رضاکارانہ طور پر اپنی خدمات پیش کردیں۔ بہرحال ہمیں کم سے کم 30 ڈاکٹروں اور 80,70 ٹیچرز کی ضرورت ہے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 26؍جون1970ءمطبوعہ خطبات ناصر جلد3صفحہ171)

چنانچہ جماعت نے حضورؒ کی تحریک پر لبیک کہتے ہوئے ایک طرف تو اپنی پاک کمائی خدا کی راہ میں لٹانی شروع کردی اور ایک لاکھ پاؤنڈ کے مقابل پر اڑھائی لاکھ پاؤنڈ پیش کر دیے اور دوسری طرف ڈاکٹروں اور اساتذہ نے وقف کی درخواستیں دینی شروع کر دیں۔ حضورؒ نے فرمایا کہ وہ منصوبہ جس کے متعلق خیال تھا کہ سات سال میں مکمل ہوگا وہ ڈیڑھ 2 سال میں مکمل ہو گیا۔( الفضل 13؍دسمبر 1975ء)

حضورؒ نے مجلس نصرت جہاں قائم کرکے مربوط اور ثمرآور کوشش کا ارشاد فرمایا۔ چنانچہ حضورؒ کے دورہ کے 6 ماہ کے اندر ستمبر 70ء میں غانا میں پہلا سکول اور نومبر 1970ء میں غانا میں ہی پہلا ہسپتال قائم ہوگیا۔ خلافت ثالثہ کے اختتام تک 6 افریقن ممالک (غانا، سیرالیون، نائیجیریا، گیمبیا، لائبیریا، آئیوری کوسٹ) میں 19ہسپتال اور 24سکول کام کررہے تھے اور ان اداروں کا سالانہ بجٹ 4کروڑ سے تجاوز کرچکا تھا۔ ہسپتالوں اور سکولوں کی کروڑوں روپوں کی عمارتیں اس کے علاوہ تھیں۔ جون 1982ء تک 27 لاکھ مریضوں کا علاج کیا گیا۔ سکولوں سے 28 ہزار بچوں نے تعلیم حاصل کی۔

تعلیمی اداروں میں بھی خداتعالیٰ نے غیرمعمولی برکت کے سامان پیدا فرمائے۔یہ ادارے ہر ملک میں روشنی کے مینار بن کر لوگوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کا موجب بنے اور بن رہے ہیں۔ افریقہ کے لوگ فخر سے بیان کرتے ہیں کہ ہم نے احمدیہ سکول سے تعلیم حاصل کی ہے۔ ان سکولوں سے فارغ التحصیل طلبہ آج اپنے اپنے ملکوں میں اہم عہدوں پر فائز ہیں اور خدمات بجالارہے ہیں۔

اس تحریک کی کامیابی کے بارے میں سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے فرمایا:’’نصرت جہاں سکیم کو اللہ تعالیٰ نے ایسی عظیم الشان کامیابی عطا کی ہے کہ ساری دنیا کے دماغ مل کر بھی اس کا تصور نہیں کرسکتے۔‘‘(تقریر جلسہ سالانہ فرمودہ27؍دسمبر 1980ء)(بحوالہ کتاب خلفاء احمدیت کی تحریکات اور ان کے شیریں ثمرات از عبدالسمیع خان)

خلافتِ رابعہ

براعظم افریقہ کی آزادی جماعت احمدیہ سے وابستہ ہو چکی ہے۔ حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ نے 1988ء میں افریقہ کا دورہ فرمایا۔ آپؒ نے افریقی کردار کی عظمت اور افریقہ کے مستقبل کے بارے میں یقین کامل سے فرمایا کہ’’افریقہ کے دورہ میں جو چند امور خصوصیت کے ساتھ میرے سامنے ابھرے وہ افریقی کردار سے متعلق ہیں۔ ایک بہت ہی عظیم الشان قوم ہے۔افریقہ کے کسی ایک ملک کی میں بات نہیں کر رہا۔ سارے افریقہ کی بات کررہا ہوں۔ بعض اتنی حسین عادتیں ہیں ان میں، بعض ایسی خوبیاں ہیں کہ ان کی وجہ سے میں یقین رکھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ ان قوموں کو کبھی ضائع نہیں ہونے دے گا۔ اور ان کی سعادت کو قبول فرمائے گا اور ان کو جلد ہدایت نصیب کرے گا۔ بلکہ ساری دنیا کے لئے ان کو ہدایت کا موجب بنائے گا۔ اس دورہ کے بعد میرا دل یقین سے بھر گیا ہے کہ جس براعظم کو دنیا اپنی جہالت اور لاعلمی میں تاریک براعظم کہتی ہے وہ تمام دنیا کے لئے روشنی کا مینار بن کے ابھرنے والا ہے۔ وہیں سے روشنی کے سورج طلوع ہوں گے۔ اور تمام دنیا کی ہدایت کے سامان وہاں سے پیدا ہوں گے اور ساری دنیا میں پھیلیں گے۔ میں ان کے مزاج اور کردار میں یہ باتیں دیکھ کر آیا ہوں گویا لکھی ہوئی تقریریں ہیں جو میں پڑھ کے آیا ہوں۔ اس لئے میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اگر افریقہ کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو پیش کریں گے تو تمام بنی نوع انسان کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو آپ پیش کررہے ہوں گے۔ آج اگر آپ افریقہ کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو پیش کریں گے تو آپ دنیا کے کل کے مستقبل کے لئے اپنے آپ کو پیش کررہے ہوں گے…ان خوبیوں میں سے چند خوبیاں میں آپ کو بتاتا ہوں کہ ایک تو یہ کہ ان قوموں میں بنیادی تقویٰ پایا جاتا ہے… دوسری غیر معمولی خوبی جو اس قوم میں مَیں نے دیکھی ہے وہ یہ ہے کہ یہ اپنے غریبوں کے ہمدرد اور ان کو ساتھ لے کر چلنے والے لوگ ہیں…افریقہ میں تیسری بات جو ان میں خصوصیت سے دیکھی وہ انکساری ہے۔ ایسی قومیں جن پر سینکڑوں سال سے مظالم ہو رہے ہیں۔ جو پسماندہ ہوں اور جن کو سفید فام یا نیم سفید فام لوگوں نے اپنے پاؤں تلے روندا ہو جہاں ہندوستان اور پاکستان کے نسبتاًسفید لیکن کالے لوگ بھی جاکر سفید فام لوگوں کی طرح ان پر حکومت اور برتری جتاتے ہوں اور امتیازی سلوک کرتے ہوں۔ انسان ان سے توقع رکھتا ہے کہ ان کی طبیعت میں سخت ردعمل ہوگا اور ردعمل کے ساتھ Inferiority Complex (احساس کمتری) ہوگا۔ جس قوم میں احساس کمتری پیدا ہوجائے وہ قوم ترقی نہیں کرسکتی۔ لیکن میں یہ بات دیکھ کر حیران رہ گیا کہ ان میں کوئی احساس کمتری نہیں ہے۔ کھلے دل کے لوگ ہیں صاف دل کے لوگ ہیں اور خدا تعالیٰ کے فضل سے ان میں عجز اور انکساری پائی جاتی ہے…پس یہ وہ خوبی ہے جس نے میرے دل کو یقین سے بھر دیا ہے کہ اس قوم کا بہت ہی روشن مستقبل ہے۔ قوم سے مراد سارے افریقہ کی بات کررہا ہوں…ایک اور خوبی ان میں ایسی ہے جو قومی ترقی کے لئے انتہائی اہم کردار ادا کرتی ہے وہ ہے صبر۔ جتنا صبر میں نے افریقہ کی قوموں میں دیکھا ہے ساری دنیا میں کہیں ایسا صبر آپ کو کسی قوم میں نظر نہیں آئے گا…میں یہ یقین رکھتا ہوں کہ چونکہ ہم خالصةً ِللہ یہ کام کریں گے اس لئے بعید نہیں کہ ان قوموں کی آزادی جماعت احمدیہ کے ساتھ وابستہ ہو چکی ہو۔ اللہ تعالیٰ جماعت احمدیہ کو یہ توفیق عطافرمائے کہ ان کو ان سینکڑوں سال کی زنجیروں سے آزاد کرنے کی جماعت احمدیہ کو سعادت حاصل ہو۔(الفضل افریقہ نمبر 28؍دسمبر2004ء)

افریقہ کی ترقی کے لیے ایک پلان

1988ء میں دورۂ آئیوری کوسٹ کے دوران حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ نے اہل افریقہ کو اقتصادی ترقی کے لیے غیر ملکی اشیاء پر انحصار کے بجائے اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی تلقین فرمائی اور اس سلسلے میں احمدی صنعتکاروں اورماہرین علوم کو وقف کی تحریک فرمائی۔ فرمایا:’’افریقہ کے تمام ممالک کا کم وبیش یہی حال ہے کہ ان تمام ممالک کی اکثریت زیادہ تعلیم نہیں رکھتی اور جوحصہ تعلیم پا جاتا ہے بدقسمتی سے تعلیم کے ساتھ مغربی اثر کے نیچے چلا جا تا ہے اور مغربی تہذ یب اس پرایسا قبضہ کر لیتی ہے کہ اس کی طرز زندگی بدل دیتی ہے یہاں تک کہ بلا استثناء ہر ملک میں آپ یہ دیکھیں گے کہ مغربی تہذیب کے تابع مغربی تہذیب کے غلام بنے ہوئے جتنے بھی لوگ ہیں ان سب کی زندگی کا انحصار اپنے ملک کی پیداوار پر نہیں بلکہ غیر ملکی پیداوار پر اس حد تک ہو چکا ہے کہ اب وہ غیر ملکوں سے اپنے تعیش اور اپنے آرام کی چیز یں منگوائے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے۔ یہ بات ایسی واضح اور دوٹوک نہیں جتنی بظاہر دکھائی دیتی ہے بلکہ اس کے ساتھ بہت سی پیچیدگیاں وابستہ ہیں، بہت سے الجھاؤ ہیں جن پر نظر ڈالنی ضروری ہے۔ایک مذہبی جماعت کے رہنما کے طور پر میں سمجھتا ہوں کہ اس خرابی کا اس قوم کے اخلاق پر بہت برا اثر پڑ نے کا خطرہ موجود ہے اور ایک مذہبی رہنما کے طور پر جماعت احمد یہ کوخصوصیت سے ہدایت کرتا ہوں کہ وہ ان تمام امور میں افریقہ کی ہر طرح سے مدد کے لئے تیار ہو…۔

میں مختصر تمام افریقہ کی احمدی جماعتوں کو یہ نصیحت کرنی چاہتا ہوں کہ ملک کو پیش آمدہ مستقبل کے خطرات سے بچانے کے لئے اپنے ملک کی محبت میں اور بنی نوع انسان کی ہمدردی کی خاطر وہ کثرت سے لوگوں کو نصیحت کرنی شروع کر یں اور ان کے دماغوں کو روشن کرنا شروع کر یں اور اپنی سیاسی قیادت سے مل کر ان کو یہ باتیں سمجھائیں اور پیار اور محبت سے تلقین کریں کہ بجائے اس کے کہ عوام الناس کی طرف سے تحریکیں اٹھیں وہ خود سادگی کی تحریکیں حکومت کے بالاشعبوں سے شروع کر یں حکومت کے بالا خانوں سے شروع کر یں اور بار بار عوام کویقین دلائیں کہ ہم ہرممکن کوشش کر یں گے کہ قوم کا انحصار غیر قوموں پر دن بدن کم ہوتا چلا جائے اور قوم خود اپنے پاؤں پر کھڑی ہونے کی اہل ہو جائے۔ تمام دنیا کے احمدیوں سے میں یہ اپیل کرتا ہوں کہ ان میں جتنے بھی Industrialist ہیں صنعت کاری کے واقف ہیں یا Technology کے ماہر ہیں کسی رنگ میں یا اورایسے علوم پر دسترس رکھتے ہیں جوغریب ملکوں کے اقتصادی حالات کو بہتر بنانے میں مفید ثابت ہو سکتے ہیں وہ اپنے نام مجھے بھجوائیں اورلکھیں کہ کیا وہ اپنے خرچ پر افریقہ کے دورے کے لئے اور جائزہ لینے کے لئے آنے پر تیار ہیں یا صرف اپنا وقت دے سکیں گے جماعت احمدیہ ان کے لئے خرچ مہیا کرے گی اور وضاحت کریں کہ کس کس علم کے وہ ماہر ہیں کوئی انڈسٹری کا تجربہ رکھتے ہیں۔اس کے بعد جب میں ان کو یہاں بھجواؤں گا تو ان کا یہ کام نہیں ہوگا کہ اپنا سرمایہ یہاں لگائیں کیونکہ افریقہ پہلے ہی باہر کی سرمایہ کاری سے تنگ آیا بیٹھا ہے اور بہت سے لوگوں نے مدد کے بہانے ان کو لوٹا ہے۔ میں یہ پسند کروں گا کہ وہ اپنا Know How اپنی علمی قابلیت قوم کی خدمت میں پیش کر یں اور یہ بات پیش کریں کہ ہم آپ کے لیے صنعتیں لگوانے میں مدد دیں گے، صنعتیں آپ کی ہوں گی، فائدے آپ کے ہوں گے، ہم صرف خدمت کر کے اپنے اپنے ملکوں کو واپس چلے جائیں گے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ5؍فروری 1988ءمطبوعہ خطباتِ طاہر جلد 7صفحہ 78و81تا82)

افریقی ضمیر کو بیدار کرنا ہے

سالٹ پانڈ غانا میں خطبہ جمعہ میں فرمایا کہ ’’دنیا کی جتنی قومیں میں نے دیکھیں وہ یورپ میں آ کر یا امریکہ جا کر روپیہ کما تی اور واپس اپنے ملکوں کو بھیجتی ہیں لیکن یہ بد نصیبی اور بدقسمتی صرف افریقہ کے حصہ میں دیکھی ہے کہ یہاں کے لوگ نہ صرف باہر کا روپیہ باہر رکھتے ہیں بلکہ خوداپنے ملک کارو پیہ بھی یہاں سے نکال کر باہر منتقل کر رہے ہیں۔ پس فی الحقیقت اگر آپ آزادی کی تمنار کھتے ہیں، اگر فی الحقیقت آپ ان آزادقوموں کی صف میں شمار ہونا چاہتے ہیں جو تاریخ پر اپنے نام ثبت کر دیا کرتی ہیں تو پہلے اپنے نفسوں کو آزاد کر یں اپنے رجحانات کو آزادکریں، اپنے آپ کو مغربی تہذیب وتمدن کے رعب سے آزادکریں اس کے بغیر افریقہ کی آزادی ممکن نہیں ہے۔

جہاں تک جماعت احمد یہ کا تعلق ہے میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ تمام دنیا کی جماعتیں اس معاملہ میں آپ کی مدد کریں گی اور اس بارہ میں مَیں ان کی تفصیلی رہنمائی کروں گا کہ کس طرح افریقن کے ضمیر کو جھنجھوڑ کے بیدار کرنا ہے اور کس طرح سارے ملکوں میں یہ مہم چلانی ہے کہ جاؤ اپنے ملک کو جاؤ، وہاں کے غریبوں کے حال کو دیکھو تمہاری آنکھیں جو یہاں کے ناچ گانوں کی مسرت میں پاگل ہوئی ہوتی ہیں اوراندھی ہو چکی ہیں۔ جائیں اوراپنے غریبوں کی حالت پر جا کر آنسو بہاناسیکھیں۔ اسی میں زندگی ہے اور اسی میں آپ کا مستقبل ہے۔ غلامی کی یہ بھیا نک رات جو صدیوں سے آپ کے ملکوں پر طاری ہے میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ جماعت احمد یہ اس رات سے نجات دلانے میں ہر ممکن آپ کی مدد کرے گی، ہر لحاظ سے اس میں کوشش کرے گی لیکن جب تک آپ کے دلوں میں روشنی پیدا نہ ہو اس وقت تک یہ تاریکی کی راتیں دنوں میں تبدیل نہیں ہوسکتیں۔‘‘(خطبہ جمعہ 12؍فروری 1988ءخطباتِ طاہر جلد 7 صفحہ90 )

حب الوطنی کا اصل سبق

نائیجیرین قوم کو حب الوطنی کے غیر فطری زعم میں مبتلا دیکھ کر حضور ؒنے حب الوطنی کے اصل جذبہ سے بھی آگاہ فرمایا۔ آپؒ نے فرمایا کہ ’’میں نے نائیجیریا میں مشاہدہ کیا ہے کہ نائیجیرین اپنے حب الوطنی کے تصور میں الجھن کا شکار ہیں۔ اس بات میں کہ وہ اپنے وطن کے ساتھ محبت کا اظہار کس طرح کریں۔ اس بات پر آپ حیران ہوتے ہوںگے کہ میں تو نائیجیرین نہیں ہوں اور میں تو یہاں ایک سرسری سے مختصر دورہ پر آیا ہوں یہ بات میں کیسے کہہ سکتا ہوں۔ آپ یہ نہیں جانتے لیکن ایسا یہاں ہو رہا ہے اللہ تعالی نے مجھے معاملہ فہمی کا ملکہ عطا فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے مجھے بات کے نچوڑ تک پہنچانے میں اللہ زیادہ دیرنہیں لگا تا۔ پس جب میں یہاں آیا تو میں نے حب الوطنی کے بارہ میں نائیجیریا کے لوگوں کو کچھ الجھا ہوا پایا کہ یہ کیا ہے …۔ میں نے محسوس کیا ہے کہ یہاں بہت سے لوگ یہ نظریہ رکھتے ہیں کہ۔ غیر نائیجیرین سے نفرت کرنا حقیقی حب الوطنی ہے یعنی وہ تمام لوگ جو نائیجیرین نہیں ہیں اگر آپ ان سے نفرت کریں۔اگر آپ ان پر بلند آواز سے آواز یں کسیں، اگر آپ اخبارات میں ان کے بارہ میں مضامین لکھیں یہ مطالبہ کرتے ہوئے کہ ان سب کو نائیجیریا سے نکال دیا جائے تو وہ سمجھتے ہیں کہ یہ شاید حقیقی حب الوطنی ہے۔ یہ غلط بات ہے۔ اس نفرت کا حب الوطنی یا کسی اچھائی سے کوئی تعلق نہیں ہے اور بدقسمتی سے یہ وہی لوگ ہیں جواپنی محنت سے کمائی ہوئی دولت کو نائیجیریا سے باہر غیر ممالک میں بھجوار ہے ہیں۔ وہ اسمگلنگ میں ملوث ہیں، وہ خورد برد میں ملوث ہیں اور نہیں محسوس کرتے کہ یہ حب الوطنی نہیں ہے۔ اگر وہ سچے محب وطن ہوتے تو وہ کچھ مثبت کام نائیجیریا کی خدمت میں کرتے۔ یہ تو محض احمقانہ پن ہے۔

یہ یادرکھیں کہ بدعنوانی اور حب الوطنی ساتھ ساتھ نہیں چل سکتیں۔ یا درکھیں مالی خورد برد اور حب الوطنی ساتھ ساتھ نہیں چل سکتیں، یادرکھیں اسمگلنگ اور حب الوطنی ایک ساتھ نہیں چل سکتی، یادرکھیں عوامی دولت کا استعمال اور حب الوطنی اکٹھی نہیں چل سکتیں۔حب الوطنی کا مطلب یہ ہے کہ آپ اپنے ہم وطنوں اور ملک کیلئے مصروف خدمت ہوں، ملک کی دولت کی حفاظت کیلئے کھڑے ہوں نہ کہ ان کی حفاظت کیلئے جو آپ کے ملک کولوٹتے ہیں۔ ہاں حب الوطنی کا بگڑا ہوا یہ تصور آپ کو اس قد رشد ید نقصان پہنچا رہا ہے کہ آج آپ کو اس قدر نقصان نہ کوئی غیر ملک اور نہ کوئی غیر ملکی طاقت پہنچا سکتی ہے۔ اسے محسوس کریں اور بیدار ہو جا ئیں اور سمجھیں کہ آپ کے ملک کے ساتھ کیا ہورہا ہے۔ سب سے زیادہ تو ایک نائیجیرین ہی اپنے ملک کے ساتھ ہونے والی زیادتی کا ذمہ دار ہے۔ آپ نے اپنے رویوں کی کایا پلٹتے ہوئے تبدیلی لانی ہے۔ اس کیلئے میں خاص طور پر احمدیوں کو ہدایت کرتا ہوں کہ وہ اٹھ کھڑے ہوں اور تمام نائیجیریا کیلئے نمونہ بنیں۔ انہیں سب سے پہلے خود ایماندار بننا ہوگا۔ انہیں حکومت کی مدد میں سب سے پہلے آگے آنا ہو گا ہر اس کام میں جو نائیجیریا میں معیار زندگی کو بہتر کرنے کے لئے اٹھایا جا رہا ہے۔انہیں ان لوگوں کی صف میں کھڑا ہونا ہو گاجو نائیجیریا کی خدمت کے لئے کوشاں ہیں۔‘‘(خطبہ جمعہ 12؍فروری 1988ء خطباتِ طاہر جلد 7۔صفحہ 98-99)

نصرت جہاں تنظیم نو

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے 1988ء میں افریقہ کا دورہ فرمایا اور 22جنوری 1988ء کو خطبہ جمعہ میں نصرت جہاں سکیم میں نئے اضافے فرمائے۔ آپؒ نے فرمایا:’’افریقہ کے ساتھ تاریخ میں،تاریخی نکتہ نگاہ سے جب دیکھا جائے تو جو سلوک ہوا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ باہر سے بہت سی قومیں آئیں اور ترقی کے نام پر انہوں نے یہاں بہت سے کام کئے لیکن خلاصہ یہ تھا کہ انہوں نے افریقہ میں کمایا اور باہر کی دنیا میں یہاں کی کمائی خرچ کی۔ خداتعالیٰ نے میرے دل میں بڑے زور سے یہ تحریک پیدا فرمائی ہےکہ جماعت احمدیہ کے ذریعہ اس تاریخ کا رُخ بدل دیا جائے اور تمام عالمگیر جماعت احمدیہ دنیا میں کمائے اور افریقہ میں خرچ کرےاور دوسروں نے،غیروں نے جو آپ کو زخم لگائے ہیں احمدیت کو خدایہ توفیق بخشے کہ ان زخموں کے اِندمال کا سامان پیدا فرمائے۔ غیر آپ کی دولتیں لوٹ چکے وہ تو واپس نہیں کریں گے لیکن حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سچے غلاموں یعنی جماعت احمدیہ کو توفیق عطا فرمائے گا کہ ان کی لوٹی ہوئی دولت جماعت احمدیہ آپ کو واپس کررہی ہوگی ۔… مَیں تمام دنیا کی احمدی جماعتوں کو سردست پہلی ہدایت یہ کرتا ہوں کہ وہ کمر ہمت کس لیںاور افریقہ کی ہر میدان میں پہلے سے بڑھ کر محض ِللہ خدمت کرنے کی تیاری شروع کردیں۔ مثلاً امریکہ کی احمدیہ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن جلد ازجلد اپنے نمائندے بھجوائے جو سارے افریقہ کے ان ممالک کا دورہ کریں جن میں جماعت احمدیہ کسی رنگ میں خدمت کر رہی ہے۔ اورجائزہ لے کر اور واپس جا کر اپنی مجلس میں معاملات رکھیں اور پھر ان کی مجلس کی طرف سے احمدیہ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن امریکہ کی طرف سے مجھے یہ سفارشات ملیں کہ افریقہ میں خدمت کے کام کو آگے بڑھانے کے لئے یہ یہ تجاویز ہم پیش کرتے ہیں اور ان میں ہماری طرف سے یہ تعاون ہوگا۔ اسی طرح انگلستان، یورپ اور دیگر ممالک کے ڈاکٹرزکی ایسوسی ایشن بھی مجھ سے رابطہ کریں اور بتائیں کہ وہ اس ضمن میں کیا خدمت کرنے کے لئے تیار ہیں۔ڈاکٹروں کو تو میں نے ایک مثال دی ہے اس کے علاوہ بھی دنیا میں جس پروفیشن سے،جس پیشے سےیا جس علمی مہارت سے تعلق رکھنے والے احمدی موجود ہیں ان سب کو اپنے اپنے حالات کا جائزہ لے کر یہ فیصلہ کرنا چاہئے کہ وہ افریقہ کی مظلوم انسانیت کی خدمت کے لئے اپنا کتنا وقت پیش کرسکتے ہیں اور کیا ان کی صلاحیتیں ہیں جنہیں وہ افریقہ کے لئے احسن رنگ میں استعمال کرسکتے ہیں۔ …فنی مہارت رکھنے والے ہی نہیں بلکہ مختلف پیشوں سے تعلق رکھنے والے لوگ مثلاً تاجر ہیں، صنعتوں والے ہیں۔جن کو کسی خاص صنعت کاری کا تجربہ ہے۔…پس یہ تحریک روپے پیسے والی دولت سے تعلق رکھنے والی تحریک نہیں ہے بلکہ قابلیت کی دولت سے تعلق رکھنے والی تحریک ہے۔…

اسی طرح جو پہلی تحریکیں چل رہی ہیں اس میں بھی ہمیں شدید ضرورت ہے کہ کثرت سے نئے نام آئیں۔ اساتذہ ہر معیار اور ہر سطح کے اساتذہ کی ضرورت ہےڈاکٹرز کی ہر معیار اور ہر سطح کے ڈاکٹرز کی ضرورت ہے۔خدمت کے مطالبے بڑھتے چلے جارہے ہیں اس لئے ان سارے امور میں نصرت جہانِ نو کا میں اعلان کرتا ہوں ایک نئے جذبے اور ایک نئے ولولے کے ساتھ سابقہ نصرت جہاں کے کام کومزید آگے بڑھانے کے لئے ایک نیا شعبہ نصرت جہانِ نو ان سارے امور میں غور کرے گا اور ان سارے امور کو مترتب کرے گا اور انشاء اللہ تعالیٰ جماعت کو نئے میدانوں میں افریقہ کی خدمت کرنے کی توفیق بخشے گا۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 22؍جنوری1988ءمطبوعہ خطبات طاہر جلد 7صفحہ 57تا60)

افریقہ اور ہندوستان کے لیے پانچ کروڑ روپے کی مالی تحریک

جلسہ سالانہ برطانیہ 1989ء کے دوسرے دن کے خطاب میں حضور ؒنے افریقہ اور ہندوستان کے لیے پانچ کروڑ روپے کی مالی تحریک کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا:’’میں امید رکھتا ہوں کہ اس طرح سے ہم پہلے سے بڑھ کر افریقہ اور ہندوستان کے بعض خصوصی علاقوں میں خدمت کرنے کے اہل ہو جائیں گے۔ حضورؒ نے فرمایا: افریقہ میں ہم خدا کے لئے اس وقت گئے تھے جب اور کوئی نہ گیا تھا اور اس احسان کو افریقہ نے بھی نہیں بھلایا پس اس احسان کے بدلہ میں احسان کرتے ہوئے ان کی مزید خدمت کے لئے ہم تیار ہیں۔‘‘(روزنامہ الفضل 19؍اگست 1989ءبحوالہ خلفائے احمدیت کی تحریکات اور ان کے شیریں ثمرات صفحہ 442)

مصیبت زدگان کے لیےتحریکات

حضرت خلیفة المسیح الرابع ؒ نے حسب حالات افریقہ کے ہر خطےکے مصیبت زدگان کے لیے امداد کی تحریکات فرمائیں۔ افریقہ کے لیے درج ذیل تحریکات فرمائیں۔

9؍نومبر 1984ء۔افریقہ کے قحط زدگان کے لیے

18؍جنوری 1991ء۔ افریقہ کے فاقہ زدہ ممالک کے لیے

26؍اپریل 1991ء۔ لائبیریا کے مہاجرین کے لیے

30؍اکتوبر 1992ء صومالیہ کے قحط زدگان کے لیے

ہیومینٹی فرسٹ کا قیام

حضور نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 28؍اگست 1992ء بمقام مسجد فضل لندن جماعت احمدیہ کے زیر انتظام خدمت خلق کی ایک عالمی تنظیم قائم کرنے کا اعلان فرمایا۔ حضور نے فرمایا: ’’اب وقت آگیا ہے کہ جماعت احمدیہ عالمگیر سطح پر ریڈکراس وغیرہ کی طرز پر خدمت خلق کی ایک ایسی تنظیم بنائے جو بغیر رنگ و نسل کے امتیاز کے انسانوں کی خدمت کرے۔ اس میں صرف احمدیوں کو ہی نہیں بلکہ ساری دنیا کے شریف النفس انسانوں کو شامل کیا جائے گا اور سب کی مالی مدد سے اس کو چلایا جائے گا۔‘‘(الفضل 30؍اگست 1992ء) چنانچہ 1993ء میں ہیومینٹی فرسٹ کے نام پر ایک بین الاقوامی تنظیم کا قیام عمل میں آیا۔(الفضل 10 مئی 2005ء) جو یو این او کے کئی اداروں سمیت کئی ممالک میں رجسٹرڈ ہو چکی ہے۔اس نے یورپ، افریقہ اور برصغیر کے آفت زدہ علاقوں میں خدمات کا آغاز کیا۔ دنیا بھر میں آسمانی آفات کے موقع پر ریلیف کیمپ قائم کیے۔ افریقہ میں مستقل بنیادوں پر تعلیم کے فروغ، غربت کے خاتمہ اور طبی میدان میں خدمات کا سلسلہ جاری ہے۔ مختصر اعداد و شمار قسط اول میںپیش کیے گئے ہیں۔(جاری ہے)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button