مضامین

عالمی سطح پر مہاجرین کے مسائل اور خلافت احمدیہ کی راہنمائی کی روشنی میں ان کا حل

(شہود آصف۔ استاذ جامعہ احمدیہ گھانا)

خلافت احمدیہ کی سو سالہ تاریخ اس بات پر شاہد ناطق ہے کہ خلفاء نے رنگ و نسل،مذہب و ملت اور ملک قوم سےبالا تر ہو کر اپنی روشنی سے تمام عالم کو منور کیا۔

جب بھی اقوام عالم کسی مشکل گھڑی کا شکار ہوئیں تو خلیفہ وقت تائید الٰہی سے کھڑا ہوا اور قرآن کی روشنی اور سیرت رسولﷺ کی پیروی میں دنیا کو ان کے مسائل کے حل دکھایا

ستمبر 2015ء میں Alan Kurdi نامی اڑھائی سالہ شامی بچے کی سمندر کنارے کی تصاویرنے عالمی منظرنامے پرجگہ لے لی۔ چار افراد پر مشتمل Alan Kurdi کا خاندان اپنےملک میں جنگ اور بد امنی کے باعث ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے اور ترکی سے سمند ر کے راستے یورپ میں داخل ہونے کی کوشش میں اس خاندان کے دو بچے اپنی والدہ سمیت سمندر میں ڈوب کر جاں بحق ہو گئے۔ بعد ازاں سمندری لہروں نےAlan Kurdiکی نعشوں کو ساحل پر لا پھینکا۔ اس اندوہناک واقعہ نے دنیا داروں کے دلوں کو کچھ دیر کے لیے ضرور نرم کیا مگر رسم دنیا کے مطابق چندروز مگر مچھ کے آنسو بہانےکے بعد ایسے لوگ پھر سے اپنے دھندوں میں مشغول ہو گئے۔ یہ ہے دَور حاضر کے مجبور اور بے کس مہاجرین کی دردناک کہانی کی ایک تصویر۔

سفر اور ہجرت کی کوئی تاریخ نہیں۔جستجو اور تسخیر نے انسان کو آج تک چین سے بیٹھنے نہیں دیا۔اسی انسانی لگن اور جنون نے اسے کرہ ارض کے کونے کونے تک پہنچا دیا۔انسان ان دور دراز خطوں تک بھی جا پہنچا جہاں خشکی سے پہنچنے کا رستہ بھی نہیں تھا۔ وہ خطے بھی انسا نی دسترس سے باہر نہ رہ سکے جو صدیوں سے برف کی چادریں اوڑھے بیٹھے تھے۔پس انسانی آمد و رفت کو آج کل تک نہ کوئی گہرا سمندر روک سکا نہ ہی کو ئی طویل تر اور پُرخطر راستہ اس کے جنون کی راہ میں حائل ہو سکا۔

زمانہ حال میں بڑے پیمانے پر ہجرت کے اسباب

شوق ِسرگردانی کے علاوہ بھی بہت سے عوامل ہیں جو نسل انسانی کو ایک جگہ سے دوسری جگہ ہجرت کرنے پر مجبور کیے رکھتے ہیں۔ کبھی قدرت کا قہرطوفانوں،زلزلوں،سیلابوں اور وباؤں کی صورت میں انسان کو مجبور کر دیتا ہے کہ وہ اپنا ملک چھوڑے اور کہیں اور جا ڈیرا لگائے۔ کبھی انسان کے اپنے کرتوت اوراپنے عقائد کو بزور بازو دوسرو ں پر تھوپنے کی کوشش، ہم وطنوں پر زمین تنگ کر دیتی ہے اور وہ غریب الوطنی کی زندگی گزارنے نکل جاتے ہیں۔ کبھی موسم کی شدت قحط، خشک سالی اور موسماتی تبدیلیاں علاقوں کو ناقابل رہائش بنا دیتی ہیں،تو کبھی ملک گیری اور قبضے کی ہوس کمزوروں کو ان کے گھروں سے نکل جانے پر مجبور کر دیتی ہے۔ہجرت کی ایک بڑی وجہ بہتر زندگی گزارنے کی خواہش بھی ہے۔الغرض ہجرت کی بہت سی وجوہات ہیں۔

زمانہِ حال میں ہونے والی ہجرتوں کے اسباب پر اگر نظر ڈالیں تو مظالم اور بربریت کا ایک طویل باب ہے جو نام نہاد اعلیٰ اقدار کی حامل ترقی یافتہ اقوام کی طرف غریب اقوام سے روا رکھا جا رہا ہے۔ دوسری طرف پس ماندہ اور نادار اقوام کے لیڈروں کا لالچ،خود غرضی اور اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے ہر ناجائز حربے کو اختیار کرنےکی بد نما تاریخ بھی انسانیت کو شرمسار کرنے کے لیے کافی ہے۔

ماضی کی ہجرتیں عموماًخاموش اور نسبتاً پر سکون ہوا کرتی تھیں۔گذشتہ چند صدیوں سے یورپین اقوام کی اقتصادی اور صنعتی ترقی نے ترقی یافتہ اور غیر ترقی یافتہ معاشروں میں زمین و آسمان کا فرق پیدا کر دیا ہے۔ دنیا کی مادی ترقی کو دیکھتے ہوئے ہر شخص میں نئے سے نئے اور اعلیٰ سے اعلیٰ کی ہوس اور لالچ پیدا ہوا گیا ہے۔اسی طرح معدنیات اور قدرتی وسائل کی دریافت نے بھی اقوام عالم کی حرص و ہوس کو کئی گنا بڑھا دیا ہے۔ ترقی یافتہ اقوام اپنا اقتصادی غلبہ برقرار رکھنے کے لیے دوسروں کےوسائل اور معدنیات پر ہر صورت قابض رہنا چاہتی ہیں۔اس لالچ نے حال میں ہونے والی ہجرتوں کو ہولناک اور خونریز بنا دیا ہے۔آئے روز ایسے اندوہناک واقعات خبروں کی زینت بنے رہتے ہیں جس میں بہت سے معصوم مہاجر بچے،بوڑھے،جوان،مرد اورعورتیں بہتر زندگی کا خواب آنکھوں میں سجائے اس جہان فانی سے کوچ کر جاتے ہیں۔

مہاجرین کی تعداد اور مختلف حوادث میں جانبر نہ ہونےوالوں کی شرح

اقوام متحدہ کی ایک مستند ویب سائٹ کے مطابق اس وقت دنیا میں مسلح تنازعات، جنگی حالات، قحط اور نامناسب صورت حال یا انسانی حقوق کی دیگر خلاف ورزیوں کی وجہ سے بے گھر افراد کی تعداد89.3ملین ہے۔ان میں سے27.1ملین افراد کی عمر 18 سال سے کم ہے۔اس وقت دنیا میں ہر 88 میں سے ایک فرد زبر دستی ہجرت پر مجبور کیا گیاہے۔ ان متاثرین کی 69فیصد تعداد کا تعلق ان پانچ ممالک سے ہے۔ شام۔ وینزویلا۔ افغانستان۔ سوڈان۔ میانمار(برما)۔

(https://www.unhcr.org/figures-at-a-glance.html)

ہرگزرنے والے سال کے ساتھ اس تعداد میں مزید اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ یہ افراد انسانی المیے کی ایک افسوس ناک تصویر پیش کرتے ہیں۔

مہاجرین کے ڈیٹا سے متعلق ایک ویب سائٹ کے مطابق 2014ء کے آغازسےجون 2022ء تک 48200سے زائد مرد، خواتین اور بچے افراد ہجرت کے دوران مختلف حوادث کا شکار ہو کر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ان میں 23900؍افراد بحر اوقیانوس میں سمندر برد ہوئے۔ 1996ءکے بعد سے 75000؍افراد بہتر زندگی کے حصول کی خاطر ہجرت کرتے ہوئے خالق حقیقی سے جا ملے ہیں۔

(https://www.migrationdataportal.org/themes/migrant-deaths-and-disappearances)

یہ وہ تعداد ہے جو ریکارڈ ہونے کی وجہ سے محفوظ ہو گئی جبکہ اصل تعداد اس سے بہت زیادہ ہونے کا امکان ہے۔

ہجرت کےا سفار میں کئی جرائم پیشہ افراد ان مہاجرین کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھا کر ان کا استحصال کرتے ہیں۔جو مہاجرین زندہ سلامت کسی محفوظ قیام گاہ تک پہنچنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔اس کے بعد ان سے ساتھ روا رکھا جانے والا انسانیت سوز سلوک بھی بیان سے باہر ہے۔ مہاجر کیمپوں کی حالتِ زار،وہاں صفائی،صحت،رہائش،خوارک کی ناکافی سہولت مہاجرین کی اذیت کو کئی گنابڑھانےوالے ہو جاتی ہے۔ جو خوش قسمت ان تمام مصائب سے گزر کرسیٹل ممالک تک جاپہنچتے ہیں تو وہاں بھی ان کی مشکلات میں اب اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔مغربی ممالک میں مہاجرین کی مخالفت اور ان کے خلاف متعصبانہ سوچ پھیلانا وہاں کے سیاسی عمل کا حصہ بن چکے ہیں۔کئی ممالک میں مہاجرین پر حملے بھی کیے جا چکے ہیں۔ تعلیمی اداردوں میں مہاجرین کے بچوں کے خلاف racismکی مہمات چلائی جاتی ہیں۔مہاجرین کے خلاف نفرت کوانتخابات میں ایک موثر حکمت عملی کےطور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ان متاثرین کی اکثریت کا تعلق اسلام سے ہے۔ اس لیے اسلام کو شدت پسند مذہب کے طورپر پیش کرتے ہوئے مہاجرین مخالف لیڈر اورقوتیں ان بے کس مہاجرین کو اپنے ملکوں سے نکالنے کی ہر سعی کرتے نظر آتےہیں۔

عالمی نا انصافیوں کے باعث غریب ملکوں کی حالت زار

ہجرت کی ایک بڑی وجہ غریب اور کمزور ممالک کے خود غرض اور لالچی حکمرانوں کے اعمال اور طاقت ور ممالک کے مظالم اور اپنی انانیت کی تسکین ہے۔موجودہ دَور میں اس کی بے شمار مثالیں ہمارے سامنےموجود ہیں۔ ان میں سے چندکا خلاصةً تذکرہ پیش کرتا ہوں۔

تیل کی دولت سے مالا مال جنوبی امریکہ کے ملک وینزویلا سے اس وقت تک 60 لاکھ افراد ہجرت کر کے دوسرے ممالک جا چکے ہیں۔اس وقت وینزویلا شدید اقتصادی بحران کا شکار ہے۔ ملک میں خوراک اور بنیادی ادویات کی سخت قلت ہے۔اس بحران کے ذمہ دار ایک طرف تو امریکہ اور مغربی اقوام ہیں جو موجودہ حکومت کو اپنے مفادات کے خلاف سمجھ کر گرانے اور کمزور کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ظالمانہ طور پر ملک پر اقتصادی پابندیاں لگائی ہوئی ہیں جس سے تمام بنیادی اشیائے ضرورت آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ ان کے مخالف ممالک موجودہ صدر کی ہر ممکن مدد کر رہے ہیں تاکہ ان کے ذریعہ امریکہ کی انا کو خاک آلود کر سکیں۔

دنیا کا سب سے زیادہ تباہ حال ملک افغانستان گذشتہ 4دہائیوں سے جنگ کا شکار ہے۔ 1980ء کی دہائی میں روس کی طرف سے حملوں کے نتیجے میں شروع ہونے والی بد امنی روز بروز بڑھ رہی ہے۔نائن الیون(11/9) کے حملوں کے بعد 20سال تک امریکہ کی سربراہی میں مغربی ممالک نےبھی ملک کو پتھر کےدور میں بھیجے میں کوئی کسر باقی نہ چھوڑی۔ لاکھوں افغان اب تک جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ رپورٹس کے مطابق افغانستان کے 6ملین سے زائد افراد بے گھر ہو چکے ہیں جن میں سے 26لاکھ افراد دوسرے ممالک میں پناہ لینے پر مجبور ہیں۔

(https://www.unrefugees.org/news/afghanistan-refugee-crisis-explained)

اس وقت بھی افغانستان شدید قسم کی اقتصادی اور معاشی پابندیوں کا شکار ہے۔

مشرق وسطی کا خوبصورت ملک شام ایک وقت تک دنیا کے خوبصورت ترین ممالک میں سے ایک تھا۔شام کاموجودہ شاہی خاندان 1971ء سے شام پر حکومت کر رہاہے۔اس بادشاہت کے دوران بھی حکومت کی طرف سے لوگوں کے حقوق ضبط کیے جاتے رہے۔2011ء میں شام میں بغاوت اور بد امنی شرو ع کروائی گئی۔پھر امن کا نام لے کر امریکہ اور اس کے اتحادی شام پر حملہ آور ہو گئے۔دوسری طرف امریکہ مخالف ممالک شامی حکومت کی مد د کو جمع ہو گئے۔اس کے بعد سے یہ خوبصورت ملک ایک کھنڈر میں تبدیل ہو چکا ہے۔شام کی اس جنگ میں بھی 5لاکھ کے قریب لوگ مارے جا چکے ہیں اور 22ملین سے زائد لوگ مہاجرین کی صورت میں در بد ر پھر رہے ہیں۔شام میں موجود لاکھوں لوگوں کے پاس بنیادی ضرورت کی اشیا اور ادویات بھی موجود نہیں۔ اس شورش زدہ عرب ملک میں اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں پہلے ہی ہوشربا اضافہ ہو چکا ہے۔

معدنی دولت سے بھرے ہوئے شمالی افریقہ کے ملک لیبیا کے مرحوم صدر مغربی ممالک کی ایک ناپسندیدہ شخصیت تھے جو ان کے مطابق ایک طویل عرصے سے لیبیا پر ظالمانہ طور پر قابض تھے۔2011ء میں عرب ممالک میں ’’عرب بہار‘‘ کے نام سے بغاوت شروع کروائی گئی۔ لیبیا میں حکومت نے سفاکیت سے اس بغاوت کو کچلنے کی کوشش کی تو مغربی ممالک پر مشتمل فوجی اتحاد نے مارچ 2011ء میں امن اور عوام کو بچانے کے نام پر لیبیا پر حملہ کر دیا۔جس کے بعدسے قتل و غارت کا ایک لا متناہی سلسلہ شروع ہوا جو ابھی تک رکنے کا نام تک نہیں لے رہا۔اس خانہ جنگی میں لاکھوں لوگوں کی جانیں گئیں۔ 10لاکھ کے قریب لوگوں نے لیبیا سے نکل کر قریبی ممالک میں پناہ لی۔ ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے یورپ کی طرف ہجرت کی۔

شمالی افریقہ کے متعدد ممالک میں کمزور حکومتوں کو دیکھتے ہوئے بیرونی عوامل اور مددسے کئی باغی گروہوں نے جنم لیا۔اس کےنتیجے میں ایک بڑی تعداد میں لوگوں کو اپنے ملک سے دیگر ممالک کی طرف ہجرت کرنا پڑی۔ ان ممالک میں مالی سر فہرست ہے جہاں سے چار لاکھ کے قریب افراد بے گھر ہوئے۔ یہ خانہ جنگی بھی تاحال جاری ہے۔تیونس کے دوسرے صدر جو 1987ء میں بغاوت کے نتیجے میں ملک کی صدارت پر فائز ہوئے تھے،2011ء تک اسی عہدے پر قائم رہے۔بعدازاں 2011ء میں شروع ہونے والی بغاوت کےنتیجے میں ان کو اپنا ملک چھوڑ کر سعودی عرب بھاگنا پڑا۔اسی طرح مصر کے سابق صدر تقریباً تیس سال تک صدر کے عہدے پر قابض رہے۔ بعدازاں عرب بہار کے نتیجے میں شروع ہونے والی بغاوت سے ان کو اپنے عہدے سے معزول ہونا پڑا۔مصر میں اس بحران سے ہزاروں کی تعداد میں افراد مارے گئے۔ اس کے بعد الیکشن کے نتیجے میں قائم ہونے والی سخت گیر حکومت مغربی طاقتوں کو پسندنہیں آئی۔ایک دفعہ پھر سے بغاوت کے نتیجے میں اس حکومت کو نکالا گیا اور اپنے ایک پسندیدہ فوجی جرنیل کو مصر کے تخت پر بٹھایا گیاتاکہ بڑی طاقتوں کی مرضی اور منشا کے بغیر کوئی فیصلہ نہ کیا جا سکے۔اس بغاوت کے بعد سے تاحال مصر کے اقتصادی اور معاشی حالات بہتر نہیں ہو سکے۔عوام کی ایک بڑی تعداد معاشی ابتری کا شکار ہے۔

نائن الیون(11/9) کے حملوں کے رد عمل میں امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک نے2003ء میں تیل کی دولت سے مالامال مگر مفلوک الحال ملک عراق پر بغیر کسی ٹھوس ثبوت کے حملہ کیااور اس کوتباہ و برباد کر دیا کیونکہ یہاں کا حاکم ان کو ایک آنکھ نہ بھاتا تھا۔اس جنگ کےنتیجے میں4لاکھ کے قریب لوگ مارے گئے اور 10 ملین کے قریب لوگ بے گھر ہوئے اور دوسرے ممالک کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے۔ہیں۔یہ خانہ جنگی تا حال جاری و ساری ہے۔

(https://www.bbc.com/news/world-middle-east-35806229)

اس سال کے آغاز میں روس کی طرف سے یوکرین پر حملے کے بعد سے 12 ملین افراد در بدر ہو چکے ہیں۔ ان میں سے 5ملین افراد نے قریبی پورپین ممالک میں پناہ لی ہے اور 7 ملین اپنے ہی ملک میں پناہ کی تلاش میں ہیں۔ اس جنگ کے آغاز سے قبل روس کے باربار متنبہ کرنے کے باوجود مغربی ممالک کی طرف سے یوکرین کو اکسایا گیا کہ وہ نیٹو میں شامل ہو۔اپنے مقصد میں ناکامی دیکھ کر روس نے مشتعل ہو کر حملہ کر دیا۔جس کے نتیجے میں یوکرین میں وسیع پیمانے پر تباہی ہو رہی ہے۔

(https://www.bbc.com/news/world-60555472)

خلافت احمدیہ کی عالمی راہنمائی

خلافت احمدیہ کی سو سالہ تاریخ اس بات پر شاہد ناطق ہے کہ خلفاء نے رنگ و نسل،مذہب و ملت اور ملک قوم سےبالا تر ہو کر اپنی روشنی سے تمام عالم کو منور کیا۔ جب بھی اقوام عالم کسی مشکل گھڑی کا شکار ہوئیں تو خلیفہ وقت تائید الٰہی سے کھڑا ہوا اور قرآن کی روشنی اور سیرت رسولﷺ کی پیروی میں دنیا کو ان کے مسائل کے حل دکھایا۔چاہے دَور خلافت ثانیہ میں ہندوستا ن کی سیاست ہو یا عالمی جنگوں کے معاملات ہوں، ہندو و پاکستان کی تقسیم کے معاملات ہوں یا کشمیر کی آزادی کی بات ہو۔ دَور خلافت ثالثہ میں مسلم ممالک کے باہمی اختلافات سے اسلام کو ہونے والے نقصانات سے مسلم دنیا کو روشناس کروانے کا معاملہ ہو یا پھر خلافت رابعہ کے دَور میں خلیج کے بحران سے نمٹنے کی تجاویز پیش کرنا ہو۔ہر موقع پر حضرت خلیفۃ المسیح نے اپنی خداداد راہنمائی سے خلق اللہ کو راستہ دکھانےکی سعی کی۔

2001ء میں امریکہ میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعہ نے دنیا کو بدل کر رکھ دیا اس کے بعد جس بڑی تعداد میں دنیا کے مختلف خطوں میں جنگوں اور فسادات کی وجہ سے لوگوں کو ہجرت کرنا پڑی اس کی مثال اس سے قبل نہیں ملتی۔ان متاثرہ افراد کی بڑی تعدادنے پیدل اورسمندری راستوں سے یورپ اور امریکہ کی طرف ہجرت کرنا شروع کی۔یورپ میں کثرت سے مہاجرین کی آمد اور خصوصاً مسلم مہاجرین کی آمد نے مغربی اقوام میں بے چینی کی لہر پیدا کر دی ہے۔ قوم پرست جماعتوں اورمتعصب لوگوں نے مقامی لوگوں کو اسلام اور مہاجرین سے ڈراتے ہوئےان کے خلاف باقاعدہ مہم کا آغاز کیا ہوا ہے تاکہ اپنے ملکوں میں مہاجرین کی آمد کوروکا جا سکے۔ مشکل کی اس گھڑی میں حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اسلامی تعلیمات کی روشنی میں پرحکمت انداز میں بار بار دنیا کے بڑے بڑے لیڈروں اور سربراہوں کو اس مشکل سے نکلنے کا حل بتا رہے ہیں اور ان کو امن اور سلامتی کا پیغام دیتے جا رہے ہیں۔ ذیل میں اس کی کچھ مثالیں پیش ہیں۔اگر کوئی دنیا دار ہو تو وہ کبھی بھی امیر اور طاقتور ممالک کی مذمت کر کے ان کو اپنے خلاف کرنے کی جرأت نہیں کر سکتا۔ یہ ہمت اور حوصلہ صرف اور مامورمن اللہ اور خلفاء کا ہی ہو تا ہے جو سچ بات کو وقت کے طاقتور حاکم کے سامنے کہنے سے نہیں کتراتے خواہ وہ ان کو پسندآئے یا نہ آئے۔آپ ایدہ اللہ تعالیٰ نے طاقتور ممالک اور حکمرانوں کی توجہ ان کی غلطیوں اور ناانصافیوں کی طرف مبذول فرمائی اور مسلم ممالک کے بےحس اور مفاد پرست حکمرانوں کو بھی ان کی ذمہ داریوں سے آگاہ کرنے کی بھرپور کاوش فرمائی ہے۔

مہاجرین سے عزت و احترام کا سلوک کریں نیز اس مدد سے مقامی لوگوں کی سہولتیں بھی متاثر نہ ہوں

متعدد ممالک کے باڈرز اور مہاجر کیمپوں میں ان آفت زدہ لوگوں سے بہت انسانیت سوز سلوک کیا جا رہا ہے۔ اس بارے میں حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مہاجرین یا سیاسی پناہ لینے والے جب اپنے ممالک کی سیاسی یا مذہبی صورتحال کی وجہ سے مغربی ممالک کارخ کرتے ہیں تو جہاں ان کے ساتھ عزت و احترام کا سلوک ہو نا چاہیے وہاں یہ بھی مد نظر ر ہے کہ انہیں مہیا کی جانے والی امداد اور مراعات سے مقامی شہریوں کی سہولیات متاثر نہ ہوں۔(خطاب برموقع سالانہ پیس سمپوزیم 2019ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 05؍اپریل 2019ءصفحہ19)

جن ممالک میں جنگ کی وجہ سے مجبور لوگوں کو ہجرت کرنا پڑ رہی ہے ان کے متعلق سوال کیے جانے پر حضور انور ایدہ اللہ نے حکومتوں کو اپیل کی کہ ان کی مدد کی جا سکے تاکہ وہ اپنی زندگی گزار سکیں۔شام کے ریفیوجیز کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں حضور انور نے فرمایا:’’ شام سے جو ریفیو جی یورپین ممالک میں آرہے ہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ جو بھی اپنے حقوق سے محروم کیا گیا ہے اس کی مدد کی جائے تا کہ وہ اپنی زندگی گزار سکے۔خواہ لوکل حکومتیں ہوں، دوسرے ادارے ہوں یا مرکزی حکومت ہو۔ ضرورتمندوں کی مدد کرنی چاہئے۔‘‘(الفضل انٹرنیشنل23؍اکتوبر 2015ءصفحہ12)

مہاجرین حکومتوں پر بوجھ نہ بنیں بلکہ ملک کا مثبت حصہ بننے کی کوشش کریں

مغربی ممالک میں مہاجرین کی مخالفت کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ مقامی لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم جو رقم ٹیکس کی صورت میں حکومت کو دیتے ہیں اس سے ہماری فلاح و بہبود کی بجائے نئے آنے والے ریفیوجیز پر خرچ کیا جا رہا ہے۔ یہ لوگ ایک طرف ہم میں شامل بھی نہیں ہوتےاور دوسری طرف ہمارا حق بھی کھا رہے ہیں۔اس بات میں کسی حد تک صداقت بھی ہے۔حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ اس ضمن میں فرماتے ہیں:’’مہاجرین کی اس بات پر حوصلہ افزائی ہونی چاہیے کہ وہ جلداز جلد اپنے لیے ذریعۂ معاش تلاش کر یں بجائے اس کے کہ لمبے عرصہ تک حکومت کی طرف سے احسان کے طور پر ملنے والےالاؤنس اور مراعات پر گزارا کرتے رہیں۔ انہیں خود بھی چاہیےکہ وہ محنت کے ساتھ اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کی کوشش کر یں اور معاشرے کی ترقی میں مثبت کر دار اداکریں ورنہ اگر انہیں مسلسل ٹیکس اداکر نے والوں کے پیسہ سے امداد مہیا کی جاتی رہی تو اس سے لازماً شکوے جنم لیں گے۔

میں یہ سمجھتا ہوں کہ معاشی اور اقتصادی محرومیاں معاشرے میں نفرت اور بے چینی پیدا کر نے میں بنیادی کردار اداکرتی ہیں۔ بعض گروہ اس بے چینی کاناجائز فائدہ اٹھا کر مہاجرین کو یا کسی خاص مذہب کے ماننے والوں کو ملزم ٹھہراتے اور ان کے خلاف نفرت پھیلانے لگتے ہیں۔‘‘(خطاب برموقع سالانہ پیس سمپوزیم 2019ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل5؍اپریل2019ءصفحہ19)

مہاجرین کو ملکوں سے نکالنا،دیواریں بنانا اور الگ ہو جانا مسئلہ کا حل نہیں

بہت سے راہنما اور ممالک اس خیال میں ہیں کہ ہم مہاجرین کو نکال کر اور امیگریشن روک کر اس مسئلےکو ختم کر سکتے ہیں۔ کئی ممالک نے اربوں ڈالر خرچ کرکے دیواریں بھی بنا ڈالی ہیں۔ اس قسم کے بے سرو پا اقدامات کے بارے میں حضور فرماتے ہیں کہ رکاوٹیں قائم کرنا زیادہ خطرناک امر ہے کیونکہ تمام ممالک ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہیں۔ فرمایا:’’سچ یہ ہے کہ امیگریشن کے بغیر بہت سے امیرمغربی ممالک شدید خطرہ میں ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ تمام ممالک ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہیں اور اب ہم ایک جڑی ہوئی عالمی دنیا میں رہ رہے ہیں۔اس لیے رکاوٹیں کھڑی کرنے اور دوسروں سے علیحدہ ہونے کے بجائے ضروری ہے کہ مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے لوگ ایک دوسرے سے تعاون کر یں اور مشتر کہ فائدے کے لیے مل کر کوشش کر یں حکومتوں کو چاہیے کہ اس مقصد کے لیے باقاعدہ منصوبہ بندی کریں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ ممالک ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کریں اور مقامی سطح پر مہاجرین کو معاشرے کا حصہ بنانے کے لیے ان کی مدد کی جائے۔‘‘(الفضل انٹرنیشنل 30؍اگست 2019ءصفحہ3)

یورپ کی قوم پرستی اور دائیں بازو کی جماعتیں بھی امن کے لیے خطرہ ہیں

یورپ اور مغربی ممالک میں مہاجرین کی کثرت دیکھتےہوئے قوم پرست اور دائیں بازو کی جماعتیں مہاجرین اور خصوصاً مسلمانوں کے بارے میں محاذ بنا رہی ہیں تاکہ اپنا نسلی امتیاز کا نظریہ سب پر تھوپ سکیں۔ اس نظریہ کے پرچار نے یورپی ممالک میں بھی امن کو سنگین خطرہ لاحق کر دیا ہے۔ اس کے متعلق آپ ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:’’پھر انتہائی دائیں بازو کی قوتیں یورپ اور پھر ساری دنیا میں امن کے لیے سنگین خطرہ بنتے جار ہے ہیں۔ دائیں بازو والے آج کل قوم پرستی کے نام پر کثیر ثقافتی اور کثیر الاقوام معاشرہ کو ختم کر کے اس پر اپنے تعصبانہ اور نسلی امتیاز کے حامل نظر یات مسلط کر ناچاہتے ہیں۔اپنی قوم کی شناخت بچانے اوراسے بیرونی عناصر سے پاک رکھنے کے لیے بعض متعصب لوگ ایسے مہاجرین کو بری طرح نشانہ بنار ہے ہیں جو کئی دہائیوں سےان ملکوں میں پرامن طریقہ سے رہ رہے ہیں اور ایک مثالی، شہری ہونے کے ناطے اس ملک کی بہتری کے لیے کوشاں ہیں۔‘‘(الفضل انٹرنیشنل 30؍اگست 2019ءصفحہ2)حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے روشن خیال اور وسیع القلب سیاست دانوں اور سربراہوں پر نسلی امتیاز کے فلسفہ کو ختم کرنے کے لیے رنگ و نسل سے بالاتر ہو کرعالمی مساوات قائم کرنے پر زور دیا۔

قیام امن مہاجرین کی واپسی کی واحد صورت ہے

دنیا میں فساد،مسلح بغاوتیں، جنگیں اور علاقائی و بین الاقوامی تنازعات لوگوں کی وسیع پیمانے پر ہجرت کے مرکزی اسباب ہیں۔ آغاز خلافت سےہی حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ ممالک کے مابین جنگوں کے خاتمے کی اپیل اور تحریک کر رہے ہیں۔ اس ضمن میں آپ نے بے شمار خطابات میں بادشاہوں اور ممالک کے سربراہان کو توجہ دلائی۔ کئی ممالک کے صدور اور وزائے اعظم کو خطوط بھی تحریر فرمائے۔

آپ نے اس مسئلہ کی اصل بنیاد یعنی علاقائی جنگوںاور مسلح فسادوں کے خاتمے پر زور دیتے ہوئے فرمایا:’’اس مسئلہ کا اصل حل یہ ہے کہ ان ممالک میں لڑائی ختم کرواؤ اور ان ملکوں میں امن ہوتو پھر یہ مہاجرین واپس اپنے ملکوں میں جائیں اور وہاں ان کو رہنے میں اور ان کو اسٹیبلش کرنے میں ان کی مدد کی جائے۔‘‘(الفضل انٹرنیشنل23؍اکتوبر 2015ءصفحہ12)

پھر 2019ء کے پیس سمپوزیم کے موقع پر آپ نے امن قائم کرنے کی پرزور اپیل کرتےہوئے فرمایا کہ اگر امن قائم ہو گا تو یہ مہاجرین واپس بھی جا سکتے ہیں۔فرمایا:’’اگر قیام امن کے لیے حقیقی کوششیں کی جائیں اور تمام ملکوں کو ترقی حاصل کرنے میں مدد دی جائے تو لوگوں کی اپنے گھروں سے بھاگ کر باہر کے ملکوں میں منتقل ہونے کی مجبوری اور خواہش خود بخود ماند پڑ جائے گی۔لوگ تو صرف یہی چاہتے ہیں کہ وہ اپنے خاندانوں کی کفالت کرنے کے قابل بن جائیں اور جب اس کے دروازے بھی ان پر بند کیے جائیں گے تو پھر بہتر زندگی کے حصول کے لیے یہ لوگ اپنے ملک چھوڑنے کی کوشش کریں گے۔ چنانچہ پناہ گزینوں کے مسئلہ کا دیر پا حل یہی ہے کہ جنگ سے متاثرہ ممالک میں امن قائم کیا جائے اور وہاں پر مجبوری کی حالت میں خوف اور تنگ دستی کے ساتھ زندگی گزارنے پر مجبورعوام کی مدد کی جائے تا کہ وہ اپنے پیروں پر کھڑے ہوں اور سکون کے ساتھ زندگی گزارسکیں۔‘‘(خطاب برموقع سالانہ پیس سمپوزیم 2019ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 05؍اپریل 2019ءصفحہ19)

غریب ممالک کی اقتصادی حالت بہتر کرنے کی تجویز پیش کرتے ہوئے آپ نے فرمایا:’’پس یورپ میں یہ تاثر پیدا ہو چکا ہے کہ ایشیائی، افریقی اور بالخصوص مسلمان تارکین وطن معاشرے کے لیے خطرہ ہیں۔ امریکہ میں بھی لوگ مسلمانوں اور ہسپانوی لوگوں کے متعلق جومیکسیکو کے ذریعہ ان کے ملک میں داخل ہونے کی کوشش کر رہے ہیں اسی قسم کے خدشات رکھتے ہیں۔ بہر حال میرا اس بات پر پختہ یقین ہے کہ اگر بڑی طاقتیں ذاتی مفادات کو پس پشت ڈالتے ہوئے مخلص ہو کر غریب ممالک کے اقتصادی حالات کوبہتر کرنے کی کوشش کریں اور ان کے ساتھ ہمدردی اور عزت و احترام کا سلوک کریں تو اس قسم کے مسائل بھی پیدا ہی نہ ہوں۔‘‘(خطاب برموقع سالانہ پیس سمپوزیم 2019ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 05؍اپریل 2019ءصفحہ19)

اپنے مذہب اور تہذیب پر رہتے ہوئے مقامی لوگوں سے integrateکریں

مہاجرین کےخلاف ایک دلیل یہ بیان کی جاتی ہے کہ یہ مغربی ممالک میں آکر یہ مقامی لوگوں سے گھلتے ملتے نہیں اور معاشرے کا حصہ نہیں بنتے۔احمدیوں کو اس حوالے سے نصیحت کرتے ہوئے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:’’مہاجرین جومغربی ممالک کی طرف آتے ہیں وہ اس معاشرے میں آ کر integrate نہیں ہوتے اور اس سے ہٹ کر بہت سے ایسے ہیں جو کام بھی نہیں کرتے۔ یا اگر وہ کام بھی کرتے ہیں تو ٹیکس ادا نہیں کرتے اور خود کو مقامی لوگوں سے الگ رکھتے ہیں۔ جب مقامی باشندے دیکھتے ہیں کہ یہ معاشرے کا حصہ نہیں بن رہے جبکہ یہ گورنمنٹ سے benefits بھی حاصل کر رہے ہیں جو ان مقامی لوگوں کے ٹیکسز سے ادا ہوتے ہیں تو یہ بات انہیں غصہ دلاتی ہے۔اور ایسے لیڈ رز جو مہاجرین کے لیے نفرت رکھتے ہیں وہ عوام الناس کو ان کے خلاف اکساتے ہیں۔ اس لیے نسل پرستی بڑھ رہی ہے۔

حضور انور نے مزید فرمایا کہ اگر مہاجرین خود کو لوکل معاشرےکےساتھ integrate کرنے کی کوشش کریں تو وہ مقامی لوگوں کے شبہات دور کر سکتے ہیں۔ Integration کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ مقامی لوگوں کی طرح کا لباس پہنیں یا کلبز میں جائیں یا الکوحل والے مشروبات پینا شروع کر دیں۔ نہ ہی اس کا یہ مطلب ہے کہ آپ ان کے کلبز میں جا کر ڈانس کریں۔ نہ ہی اس کا یہ مطلب ہے کہ آپ اپنے اخلاق سے ہاتھ دھو بیٹھیں۔

اگر مقامی لوگوں کو یقین دہانی ہو جائے کہ مہاجرین ان کے لیے مفید وجو د ہیں اور وہ ملک کی بہتری کے لیے سرگرم ہیں اور ملک کی اقتصادی ترقی میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں تو وہ ایسے سوال نہیں اٹھائیں گے۔ پھر جب ہم مقامی لوگوں سے بات چیت کریں تو ہم ان کے شبہات کو دور کر سکتے ہیں…ان کے ساتھ مل جل کر رہیں لیکن یہ بات ذہن میں رہے کہ اپنے اخلاق، اپنی تعلیمات اور اپنا ایمان بھی ہاتھ سے نہیں دیتا۔‘‘(الفضل انٹرنیشنل 20؍اگست2021ءصفحہ3)

احمدی مہاجرین مغربی حکومتوں کے احسان مند ہوں اور اپنی عملی اصلاح کریں

احمدیوں کی ایک خاص تعدا د پاکستا ن اور دیگر ممالک میں مظالم اور مذہبی آزادی نہ ہونے کی وجہ سے دیگر ممالک کی طرف ہجرت کر چکی ہے۔ ان احباب کو حکومتوں کا شکر گزار ہونے اور اسلام کا پیغام پہنچانے کی تلقین کرتے ہوئے حضورایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:’’پہلے میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ اس وقت یہاں رہنے والے احمدیوں کی اکثریت ایسے لوگوں پرمشتمل ہے جو مذہبی حالات کی وجہ سے پاکستان سے ہجرت کر کے آئے ہیں۔اگر معاشی حالات کی وجہ سے بھی ہجرت کی ہے تو سوائے چند پڑھےلکھوں کے،اکثریت نےیہاں کی حکومت کو پاکستان میں احمدیت کی مخالفت کی وجہ سے پناہ دینے کی درخواست دی ہے۔ جس نے باوجودبعض اسلام مخالف لوگوں کے شور مچانے کے آپ کو اسائلم دیا ہے اور ہر قسم کی آزادی مہیا کی ہے۔اس وجہ سے دو باتیں یاد رکھنی چاہئیں

اول: یہ کہ ان ملکوں کی حکومتوں کا شکر گزار بنیں جنہوں نے آپ کے مذہبی حقوق قائم کر کے آپ کو مذہبی آزادی دی۔ آپ آزادی سے نمازیں پڑھ سکتے ہیں اور تبلیغ کر سکتے ہیں۔اس لیے شکر گزاری کے طور پر اس ملک کی بہتری کے لیے، اس کو فائدہ پہنچانے کی ہرممکن کوشش کریں۔ اور سب سے بڑافائد ہ ہے کہ ان کو اسلام کی خوبصورت تعلیم،اور اس کا حقیقی پیغام پہنچایا جائے۔ عورتوں کو بھی اس کے لیے پروگرام کرنے چاہئیں۔اس کافائدہ یہ ہو گا کہ دیگر علماء کے غلط کاموں کی وجہ سے اسلام کا دامن جو داغ دار ہو رہا ہے وہ صاف ہو گا اور ان کی حرکات کی وجہ سے پھر اسلام کی جو مخالفت کی جاتی ہے اور پھر نبی اکرم صلی اللہ علی وسلم کے نام کو بھی استہزا کا شکار بنایا جاتاہے اس کو دور کرنے میں آپ اپنا کردار ادا کرنے والے ہوں گے۔

دوسرا اس بات کا خیال رکھیں کہ چونکہ مذہبی وجوہات کی بنا پر ہمیں یہاں رہنے کی اجازت ملی ہے اس لیے ہمیں اپنی دینی، اخلاقی اور روحانی حالت کو اسلام کی تعلیم کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرنی چاہیے، حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے جو ہم سے توقعات وابستہ کی ہیں ان کو پورا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔‘‘(الفضل انٹرنیشنل یکم اکتوبر 2019ء صفحہ8تا9)

مہاجرین کے متعلق حضور انور کے ارشادات کے بعد اس مسئلے کی جڑ یعنی دنیا میں فتنہ و فساد اور جنگ و جدل کے خاتمہ کے لیے حضرت خلیفۃ المسیح کی لازوال کوششوں کا ذکر کرنا ضروری ہے۔خدا تعالیٰ کے نمائندہ اورامن کے سفیر ہونے کے ناطےابتدا سے ہی حضور انور دنیا کے راہنماؤں کو عدل و انصاف پر قائم ہونے،دوسروں کے حقوق ادا کرنے،ظلم و زیادتیوں سے روکنے اور اسلام کو بدنام کرنے کے خلاف تلقین اور نصائح کر رہے ہیں۔چند اقتباسات پیش ہیں۔

عالمی جنگ کے خطرے کا ذکر کرتے ہوئے22؍اکتوبر 2008ء کو یوکے میں ہاوس آف پارلیمنٹ میں خطاب کرتےہوئے فرمایا:’’مجھے ڈر ہے کہ جس سمت میں دنیا جا رہی ہے،یہ ہمیں عالمی جنگ کی طرف نہ لے جائیں۔‘‘

عدل و انصاف سے کام لیں۔انسانی حقوق ادا کریں

رسول اللہﷺ کی مثال

حضورایدہ اللہ تعالیٰ فرماتےہیں:’’آج عالمی جنگ کے چھڑ جانے کا بہت خطرہ ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ بعض ممالک اور حکومتیں اپنے عوام کے،حقوق ادا نہیں کر رہیں اور مقابل پر عوام بھی اپنے لیڈروں اور حکومتوں کے حق ادا نہیں کر رہے۔ نہ ہی اہم طاقتیں عالمی سطح پر انصاف پر مبنی فیصلے لے رہی ہیں اور نہ ہی چھوٹے ممالک اپنی ذمہ داریاں سمجھ رہے ہیں۔لہٰذا ہر سطح کے ہردھارے پر، ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کی بجائے ایک دوسرے کے حقوق تلف کئے جارہے ہیں اور یہ دنیاکے لئے بہت بڑا خطرہ ہے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: اس طرح میں آپ سب سے درخواست کرتا ہوں کہ اپنے اپنے دائرہ کار میں آپ اپنے سیاستدانوں اور حکمرانوں کو فوری امن قائم کرنے کی طرف توجہ دلائیں تا کہ دنیا ایک عظیم تباہی سے بچ جائے۔‘‘(الفضل انٹرنیشنل3؍جنوری2014ءصفحہ14)

پھر ایک موقع پر فرمایا : اسلامی تعلیمات کی روشنی میں امن کے قیام کا ایک بنیادی تقاضا یہ ہے کہ قومیں ایک دوسرے کے ساتھ عدل کا سلوک روا رکھیں۔

پھرمدینہ کی منصفانہ اور بے مثال حکومت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:’’اسلامی طرز حکومت و قیادت کی اصل تصویر دیکھنے اور حقیقت جاننے کے لیے ہمیں بانی اسلام حضرت اقدس محمدمصطفیﷺ کے عہد مبارک پر نظر ڈالنی ہو گی۔ مدینہ ہجرت کرنے کے بعد آپ نے یہودیوں کے ساتھ ایک معاہدہ کیا جس کے مطابق مسلمان اور یہودی شہریوں کے باہم امن کے ساتھ اور آپس میں ہمدردی، رواداری اور مساوات کی روح کو قائم رکھتے ہوئے مل جل کر رہنے پر زور دیا گیا۔یہ معاہدہ انسانی حقوق کی حفاظت اور منصفانہ طرز حکومت کا عظیم الشان منشور ثابت ہوا اور اس نے مدینہ میں مقیم مختلف اقوام کے درمیان امن کو یقینی بنایا۔‘‘(خطاب برموقع سالانہ پیس سمپوزیم 2019ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 05؍اپریل 2019ءصفحہ20)

امداد کےنام پرغریب ممالک کو غلام بنانے کی مذمت

ترقی یافتہ ممالک کی طرف سے غریب اقوام کے استحصال اور ان کو اپنی تجارتی منڈیاں بنانے کا ایک طریق یہ ہے کہ کمزور ممالک کو غیر منصفانہ طور پر قرض دیے جاتے ہیں۔ پھر ان کو مجبور کیا جاتا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک کی شرائط اور مفادات کا تحفظ کریں۔ اس مقصد کے لیے جس ملک میں بادشاہت تعاون کرے وہاں ان کے لیے بادشاہت ٹھیک ہے جہاں فوجی حکومت ہو وہ بھی ٹھیک ہے۔اگر کوئی تعاون نہ کرے تو اس ملک کی منتخب حکومت کے باوجوداس پر پابندیاں لگا دی جاتی ہیں۔ اس کے نتیجے میں وہ ملک کبھی اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں ہو پاتا اور اس کے عوام اور کمزور طبقات کے حقوق مسخ کر دیے جاتے ہیں۔ اس تعاون اور امداد کو غلامی قرار دیتے ہوئے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:’’آج کے دور میں بھی غلامی کا رواج ہے لیکن اس کی شکل اور ہے، نوعیت تبدیل ہوگئی ہے۔ اسلام نے اس جد یدطرز کی غلامی سے آزاد ہونے کا بھی طریق سکھایا ہے۔جیسا کہ میں نے کہا ہے آج بھی ایسے افراد اور قومیں ہیں جو کہ غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں۔افراد اور کمزور ممالک کو معاشی طور پر غلام بنایا جا رہا ہے، شدید ضرورتمند قوموں کو غیر منصفانہ شرائط کے ساتھ قرضے لینے پر مجبور کیا جا تا ہے۔ جس کے باعث وہ مایوسی کے چنگل میں جکڑے جاتے ہیں۔ ان غیر منصفانہ شرائط میں ایسی شرائط شامل ہوتی ہیں تا کہ کسی کمزور ملک کو مجبور کیا جائے کہ وہ کسی مخصوص پالیسی کو اپنائے گا تو قرض دیا جائے گا یا ان ممالک سے مجبوراً ایسے سیاسی فیصلے کرائے جاتے ہیں جوان کے طویل المدت مفاد میں نہیں ہوتے۔ پھر یہ بھی کہا جا تا ہے کہ معاشی طور پر زیر نگیں ممالک کی مدد کرنے کے لئے انہیں معاشی امداد،معاونت اور تکنیکی مہارت فراہم کی جاتی ہے، لیکن اکثر اوقات یہ انہیں مزید جکڑ نے کا ذریعہ ہی ثابت ہوتا ہے۔ یہ اس وجہ سے ہے کہ یہ تمام وہ طریق ہیں جن کے ذریعہ امیر ممالک غریب اور کمزور ممالک پر دباؤ ڈال سکیں اور انہیں د نیاوی معاملات میں اپنی تابعداری کروانے پر مجبور کرسکیں۔معاشی امداد معاونت اور تکنیکی مہارت صرف اس صورت فراہم کی جاتی ہے جب مد دحاصل کرنے والا ملک بیان کردہ شرائط اور مطالبات پورے کرنے کی حامی بھرے…اسلام اس قسم کی پابندی اور غلامی کومسترد کرتا ہے اور اس کی مذمت کرتا ہے۔ اسلام تعلیم دیتا ہے کہ خدا کا حقیقی عبادت گزار، جو اس کے حقوق ادا کرتا ہو، اسے لازماً ہمیشہ لوگوں کے حقوق بھی ادا کرنے ہوں گے۔‘‘(الفضل انٹرنیشنل 3؍جنوری2014ءصفحہ14)

طاقت ور ممالک کی طرف سے غریب ممالک کے وسائل اور دولت پرقبضے کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بےچینی اورناانصافی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:’’بعض ممالک کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں جو جنگ سے متاثرہ قوموں کے علاقوں میں مداخلت کرتے ہیں یا امن کے نام پر ان پسماندہ ممالک کی امداد کرتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی مختلف بہانوں سے ان کے وسائل پر قبضہ کر لیتے ہیں۔طاقتور قومیں بجائے اپنی دولت اور وسائل پرمطمئن رہنے کے اپنی طاقت کے بل بوتے پر غریب ممالک کو اپنے زیرنگیں کر نے کی کوشش کرتی ہیں۔ جیسا کہ میں کہہ چکا ہوں کہ اس بے چینی اور اس کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے بد اثرات کی بنیادی وجہ،خواہ وہ مشرق ہو یا مغرب، معاشی ناانصافیاں ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ قوموں اور ملکوں کے بیچ معاشی تفریق کو کم کرنے کے لیے ٹھوس کوششیں کی جائیں۔ پھر یہ کہ ہرقسم کی انتہا پسندی اور تعصب خواہ وہ مذہبی بنیاد پر ہو، یانسلی یا کسی بھی قسم کا اس کے خاتمہ کے لیے ہم سب کومل کر کوشش کرنی چاہیے۔ جن ممالک کے بارہ میں یہ بات واضح ہے کہ وہاں کے لوگ تکلیف میں ہیں اور ان کے رہنما ان کے حقوق کی حفاظت نہیں کر رہے وہاں امن کے قیام کے لیے قائم کی جانے والی عالمی تنظیموں بالخصوص اقوام متحدہ کو چاہیے کہ قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے امن پسند شہریوں کے حقوق کے تحفظ اور معاشرہ میں امن اور انصاف کے قیام کے لیے جائز اور مناسب دباؤ ڈالیں۔‘‘ (خطاب برموقع سالانہ پیس سمپوزیم 2019ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 05؍اپریل 2019ءصفحہ20)

مسلم ممالک کی مفادپرستی اور نام نہاد شدت پسند تنظیموں کی مذمت

اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ فساد مسلم اکثریت آبادی والے ممالک میں برپا ہے اور مہاجرین کی بہت بڑی تعداد مسلمان ہے۔اس کی بنیادی وجہ مسلمانوں کا اسلام کی تعلیم سے دور ہونا اور خودغرض اور ظالم حکمرانوں کا مسلط ہونا ہے۔نیز ملاؤں کے غلط نظریات کی پیروی کرتے ہوئے شدت پسندی کی طرف مائل ہونا ہے۔حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے بارہا مسلم ممالک کو اس طرف توجہ دلائی کہ ذاتی مفادات کی بجائے اسلام کی تعلیم پر عمل کرتے ہوئے حقوق اللہ اور حقوق العباد اداکریں۔فرمایا:’’انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ امت مسلمہ بڑے پیمانہ پر تضاداورفساد میں پڑی ہوئی ہے۔ بلکہ ہم ہر روز دیکھتے ہیں کہ بعض مسلمان دوسروں کے حقوق غصب کر رہے ہیں۔اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ مسلمان حکومتیں اپنی رعایا کے حقوق ادا نہیں کرر ہیں اور دوسری طرف عوام بھی غیر جمہوری اور نا جائز ذرائع سے حکومتوں کو ختم کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں…مزید ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ کس طرح دہشتگردوں کے گروہ فساد پھیلا رہے ہیں اور اپنے غلط کاموں اور نظریات کےذریعہ ساری دنیا میں خوف وہراس پھیلا رہے ہیں۔ ان باتوں کی روشنی میں میں بلاتردد کہتا ہوں کہ بعض ایسے نام نہاد مسلمان بھی ہیں جو اسلام کے نام پر انتہائی گھناؤنے جرائم کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ تاہم میں یہ بھی واضح کر دوں کہ بعض مسلمان گروہوں یا بعض مسلمان حکومتوں کا یہ قابل ملامت روی کسی رنگ میں یا کسی طور پر بھی اسلام کی حقیقی تعلیمات کی عکاسی نہیں کرتا۔ بلکہ اسلام تو وہ مذہب ہے جس نے مسلمانوں کو ایک دوسرے کے ساتھ محبت، پیار، ہمدردی اور رحم کے ساتھ پیش آتے ہوئے اپنی زندگیاں گزارنے کی تعلیم دی ہے۔ صرف مسلمانوں کو آپس میں ہی اس ہمدردانہ طریق کو اختیار کرنے کی تعلیم نہیں دی گئی بلکہ قرآن کریم نے تو تعلیم دی ہے کہ اپنے دشمن کے ساتھ بھی ایسا سلوک نہیں کرنا چاہئے جو انصاف کے اصولوں کے منافی ہواوران کے جائز حقوق غصب کرنے والا ہو۔‘‘(الفضل انٹرنیشنل31؍اکتوبر2014ءصفحہ20)

رسول اللہﷺ اور اسلام کا پیغام

دنیا کےمسائل کا حل امن اور خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کرنا ہے۔ اس بارے میں حضور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتےہیں:’’اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ بنی نوع انسان جو کہ اشرف المخلوقات ہیں امن کے ساتھ زندگی بسر کریں اور ایک دوسرے کے حقوق اداکریں۔اس لئے قرآن کریم جو کہ اسلام کی مقدس کتاب ہے اور اسلام کے احکامات کااول سر چشمہ ہے، ہمارے عقیدہ کے مطابق یہ کتاب اللہ تعالیٰ نے آنحضرتﷺ پر نازل کی جسے ہم آخری مذہبی شریعت مانتے ہیں جو قیامت تک قائم رہے گی۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ جب دنیا کے ہر حصہ میں تفرقہ اور بد امنی پھیلتی ہے تو اس کی بنیادی وجہ انسان اور اس کے خالق کے درمیان دوری کا پیدا ہوتا ہے۔ ایسے وقتوں میں جب دنیا تباہی کی طرف بڑھ رہی ہو تب اللہ تعالیٰ اپنے رحم کی وجہ سے اپنے برگزید و نمائندے مبعوث کر تا ہے جو انسانیت کومذہب کی طرف واپس لے کر آتے ہیں۔ پہلے وقتوں میں انبیاء اپنے لوگوں کی راہنمائی کرنے کے لئے مختلف علاقوں میں آئے پھر ہمارے عقیدہ کے مطابق اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک عالمی شریعت کے ساتھ سب انسانوں کی روحانی اور اخلاقی اصلاح کے لئے بھیجا…نیز آپﷺ اس لئے آئے کہ مسلمانوں اور غیر مسلموں کو دکھا سکیں کہ اسلام ایک امن،مصالحت،بھائی چارہ اور دوستی کا مذہب ہے۔‘‘(الفضل انٹرنیشنل 30؍اگست2019ءصفحہ3)

PEACE SYMPOSIUMکا انعقاد

دنیا کے راہنما اورامن کے سفیر ہونے کی حیثیت سے حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے سال 2004ء سےیوکے میں National Peace Symposiumکے انعقاد کا ارشاد فرمایا۔ اس کے بعد سے ایک تسلسل کے ساتھ جماعت احمدیہ یوکے یہ امن کانفرنس منعقد کر رہی ہے۔ اس میں دنیا کے چوٹی کے لیڈرز کو مدعو کیا جاتا ہے۔ حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بھی اس میں خطاب فرماتے ہیں۔ اس سلسلہ کا 16واں پرواگرام 9؍مارچ 2019ء میں منعقد ہوا۔اس میں دنیا کے 30 ممالک سے 1000 مہما ن شامل ہوئے۔ان میں سے 700 غیر مسلم مہمان تھے۔ جن میں مختلف ممالک کے سفیر،ممبران پارلیمنٹ، مختلف وزراء شامل ہیں۔اس پروگرام کے تتبع میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کی روشنی میں دنیا کے مختلف ممالک میں جماعت احمدیہ Peace Symposium منعقد کر رہی ہے تاکہ مختلف مذاہب کے لوگوں کو امن اور صلح کا پیغام دیا جا سکے اور دکھی انسانیت کو امن اور سکون کا سانس مل سکے۔سال 2009ءسے جماعت احمدیہ برطانیہ کی طرف سے دنیا میں امن کی کاوشوں اور دکھی انسانیت کی خدمت کرنے والوں کے لیے امن انعام کا اعلان جلسہ سالانہ پر کیا جاتا ہے جبکہ Peace Symposium کے موقع پر یہ انعام دیا جاتا ہے۔

سربراہان ممالک کو خطوط اور امن اور انصاف قائم کی طرف دعوت

ایک سو تیس سال قبل حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے اعلان فرمایا تھاکہ اس زمانے میں صرف آپؑ اور آپ کی تعلیمات ہی عافیت کا حصار ہیں۔خلیفۃ المسیح کی حیثیت سے حضرت مرزا مسرور احمد ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے متعدد ممالک کے سربراہان کو خطوط ارسال فرمائے اور ان کودنیا میں امن و استحکام کی ضرورت سے آگاہ کرتے ہوئے ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی۔سال 2012ء میں امریکہ، کینیڈا، برطانیہ، جرمنی،فرانس،ایران،سعودی عرب،اسرائیل اورچین کے سربراہان ممالک کو خطوط ارسال فرمائے۔اسی طرح آپ نے ملکہ برطانیہ کو بھی خط ارسال فرمایا۔آپ نے ان خطوط میں دنیا کے با اثر لیڈروں کوامن و سلامتی،اتحاد،دوسرے ممالک کے حقوق کی ادائیگی،ان سے باعزت سلوک،باہمی تنازعات کو پر امن طریق سے حل کرنے،دنیا میں جاری جنگوں کے خاتمے کی طرف دعوت دی۔آپ نے متنبہ فرمایا کہ دنیا کی موجودہ صورت حال ایک اورعالمی جنگ کی طرف بڑھ رہی ہے جس سے تمام انسانیت کو خطرہ ہے۔ آپ نے دنیا کے بڑے لیڈروں پر زور دیا کہ وہ اپنا اثرو رسوخ استعمال کر کے جھگڑوں کو روکنے کی کوشش کریں نہ کہ ان کو بڑھانے والے بنے۔

(https://www.khalifatulmasih.org/articles/letters-sent-to-world-leaders/)

اسی امن،سلامتی،اتحاد،استحکام اور دوسروں کے حقوق کو ادا کرنے کے پیغام کے ساتھ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے دنیا کے مختلف پارلیمنٹ ہاوسزاور عالمی پلیٹ فارمز پر بھی خطاب فرمایا۔ جن میں یونیسکو(UNESCO) ہیڈ کوارٹرز فرانس،یورپین پارلیمنٹ برسلز،برٹش پارلیمنٹ لندن،کیپٹل ہل واشنگٹن ڈی سی امریکہ،کینیڈین پارلیمنٹ اوٹاوا، نیوزی لینڈ پارلیمنٹ،ڈچ پارلیمنٹ وغیرہ شامل ہیں۔

سال 2020ء میں کورونا کی وبا کے دوران حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے دوبارہ دنیا کے17سربراہان ممالک و عالمی راہنماؤں کو خطوط ارسال فرمائے۔ جن میں مسیحی راہنما پوپ فرانس،اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل، آسٹریلیا، گھانا،امریکہ،کینیڈا،جرمنی،یوکے،فرانس،اسرائیل، جاپان، روس، آئرلینڈ، چین، انڈیا، نائجیریا، سیرالیون وغیرہ شامل ہیں۔

(https://www.reviewofreligions.org/26918/letters-sent-to-world-leaders-by-head-of-ahmadiyya-muslim-community-during-covid-19-pandemic/)

حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ان خطوط میں فرمایاکہ کورونا وائرس نے ممالک اور انسانیت کی کمزور اور پُر خطا حالت کو ظاہر کر دیا ہے اور اس یقین کا اظہار کیا کہ اس وبا کے اثرات اور دنیا کا مکمل طور پر رک جانا خدا تعالیٰ کی تقدیر کے مطابق ہے اور یہ انسانیت کے لیے ایک عظیم تنبیہ ہے تا لوگ اپنی حالت کو درست کریں اور ہرقسم کے ظلم سے باز آئیں۔پھر آپ نے اپنی خواہش کا اظہار کیا کہ سربراہان بین الاقوامی اور ملکی سطح پر انصاف کے اعلیٰ معیاروں کو قائم کریں اور اپنی عوام کے لیے ایک مثبت اور نیک مثال قائم کریں۔(الفضل انٹرنیشنل31؍جولائی2020ء)

جماعت احمدیہ عالمگیر کواپنا کردار ادا کرنے کی تحریک

موجودہ فتنہ و فساد کی خطرناک صورت حال میں حضور انور نے جماعت احمد یہ عالمگیر کو اس صورت حال میں اپنا کر دار ادا کرنے کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا:’’ہمیں اپنا فرض ادا کرتے ہوئے دنیا کو ہوشیار کرنا چاہیے۔ پس یہ سال مبارکبادوں کا سال اُس وقت بنے گا جب ہم اپنے فرائض کو اس نہج پر ادا کرنے والے ہوں گےکہ لوگوںکو سمجھائیں،دنیا کو سمجھائیں۔ اور ظاہر ہے کہ یہ سب کرنے کے لیے ہمیں اپنی حالتوں کے بھی جائزے لینے ہوں گے۔ ہم جو زمانہ کے امام مسیح موعود اور مہدی معہودؑ کو ماننے والے ہیں۔ کیا ہماری اپنی حالتیں ایسی ہو چکی ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کے حقوق ادا کرنے کے ساتھ خالصتاً للہ اس کے بندوں کے حقوق بھی ادا کرنے والے ہیں۔ یاابھی ہمیں اپنی اصلاح کرنے اور ایک دوسرے سے پیار و محبت کے جذبات کو غیرمعمولی معیاروں تک لانے کی ضرورت ہے۔ پس ہر احمدی کو غور کرنا چاہیے کہ اس کے سپرد ایک بہت بڑا کام کیا گیا ہے۔ اور اس کے سرانجام دینے کے لیے پہلے اپنے اندر، اپنے معاشرے میں، احمدی معاشرے میں، پیار اور محبت اور بھائی چارے کی فضا کو پیدا کریں اور پھر دنیا کو اس جھنڈے کے نیچے لائیں جو اللہ تعالیٰ کی توحید کا جھنڈا ہے، جو حضرت محمدرسول اللہﷺ نے بلند کیا تھا۔‘‘(الفضل انٹرنیشنل5؍جنوری2021ءصفحہ2)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button