مضامین

عالم اسلام کو حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ کی راہنمائی

(عبد السمیع خان۔ گھانا)

خلفا ءمومنوں کے سربراہ اور لیڈر کی حیثیت سے خدا کے نور سے دیکھتے ہیں اللہ تعالیٰ بسا اوقات رؤیا و کشوف وغیرہ کے ذریعہ مستقبل کے حالات سے مطلع فرما دیتا ہے اس لیے وہ معاملات کو بگڑنے سے پہلے ہی بھانپ لیتے ہیں اور دنیا کو اندھیروں سے بچانے کی کوشش کرتے ہیںجو مان لیتے ہیں فائدہ میں رہتے ہیں اور نہ ماننے والے نقصان اُٹھاتے ہیں

اللہ تعالیٰ نے رسول کریمﷺ کی ایک اہم خوبی اور ذمہ داری یہ بیان فرمائی ہے کہ آپ تمام عالم انسانیت کو اندھیروں سے نکال کر نور کی جانب لائیں گے كِتَابٌ أَنْزَلْنَاهُ إِلَيْكَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ۔(ابراہیم:2) یہی صفت آپ کی نیابت میں آپ کی خلافت کو عطاکی گئی تھی۔ اور چونکہ یہ خلافت عالمی ہے، اس لیے خلفائے وقت اپنی جماعت اور متبعین کے علاوہ بھی تمام ملکوں اور قوموں کو حسبِ حال راہنمائی مہیا فرماتے ہیں۔

خلفا ءمومنوں کے سربراہ اور لیڈر کی حیثیت سے خدا کے نور سے دیکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ بسا اوقات رؤیا و کشوف وغیرہ کے ذریعہ مستقبل کے حالات سے مطلع فرما دیتا ہے۔ اس لیے وہ معاملات کو بگڑنے سے پہلے ہی بھانپ لیتے ہیں۔ اور دنیا کو اندھیروں سے بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔جو مان لیتے ہیں فائدہ میں رہتے ہیں اور نہ ماننے والے نقصان اُٹھاتے ہیں۔ اور خلافت احمدیہ کی سو سالہ تاریخ گواہی دیتی ہے کہ بالآخر خلفاء کی راہنمائی اور تنبیہات سچی ثابت ہوتی ہیں۔ یہ راہنمائی محض مذہب تک محدود نہیں بلکہ سیاسی، اقتصادی، سماجی حتی کہ سائنسی معاملات پر بھی مشتمل ہے۔ اس مضمون میں خلافت اولیٰ کے ایسے ہی چند حالات اور واقعات کا اختصار سے بیان مقصود ہے جن کی تفصیل آپ مندرجہ حوالہ جات اور اسی شمارہ کے دوسرے مقامات پر ملاحظہ کر سکتے ہیں۔

1۔جمعہ کی تعطیل کے لیے راہنمائی

امت مسلمہ میں قومی وحدت کے قیام کے لیے جمعہ کا دن نہایت اہمیت رکھتا ہے۔ یہ مسلمانوں کے لیے ایک نہایت ہی مبارک اور مقدس دن ہے اور اس کو مومنوں کے لیے عید قرار دیا گیا ہے۔اس لیےقرآن کریم میں حکم ہے کہ ہر قسم کے کاروبار کو چھوڑ کر جمعہ کی نماز میں حاضر ہو جاؤ: یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَذَرُوا الۡبَیۡعَ۔ہندوستان میں اسلامی سلطنت میں جمعہ کی تعطیل ہوتی تھی مگر انگریزوں کی آمد کے بعد اتوار کی تعطیل شروع ہوگئی اور مسلمان عام طور پر اس مقدس عبادت کی ادائیگی سے محروم رہ گئے۔

سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے یکم جنوری 1896ء کو مسلمانان ہند کی طرف سے وائسرائے ہند کے نام اشتہار شائع کیا جس میں حکومت سے درخواست کی گئی کہ وہ مسلمانوں کے لیے جمعہ کی تعطیل کا اعلان کریں۔مگر مولوی محمد حسین بٹالوی کی مخالفت کی وجہ سے یہ تحریک پیش رفت نہ کرسکی۔

خلافت اولیٰ کے زمانہ میں گورنمنٹ برطانیہ نے یہ فیصلہ کیا کہ 12؍دسمبر 1911ء کو ہندوستان کے دارالحکومت دہلی میں شہنشاہ ہند جارج پنجم کی رسم تاج پوشی ادا کی جائے۔ اس لیے حضرت خلیفة المسیح الاولؓ نے اس موقع کو غنیمت سمجھ کر ایک میموریل تیار کیا۔ جس میں وائسرائے ہند کی معرفت شاہ جارج پنجم سے یہ درخواست کی گئی تھی کہ مسلمانوں کو نماز جمعہ کی ادائیگی کے لیے دو گھنٹہ کی رخصت عنایت فرمائی جایا کرے۔ اس میموریل کا خلاصہ حضور کے الفاظ میں درج ذیل ہے۔

جمعہ کا دن اسلام میں ایک نہایت مبارک دن ہے اور یہ مسلمانوں کی ایک عید ہے بلکہ اس عید کی فرضیت پر جس قدر زور اسلام میں دیا گیا ہے۔ ان دو بڑی عیدوں پر بھی زور نہیں دیا گیا۔ جن کو سب خاص و عام جانتے ہیں۔ بلکہ یہ عید نہ صرف عید ہے بلکہ اس دن کے لیے قرآن کریم میں یہ خاص طور پر حکم دیا گیا ہے کہ جب جمعہ کی اذان ہو جائے تو ہرقسم کے کاروبار کو چھوڑ کر مسجد میں جمع ہو جاؤ۔ جیسا کہ فرمایا:یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ یہی وجہ ہے کہ جب سے اسلام ظاہر ہوا اسلامی ممالک میں جمعہ کی تعطیل منائی جاتی رہی ہے اور خود اس ملک ہندوستان میں برابر کئی سو سال تک جمعہ تعطیل کا دن رہا ہے۔ کیونکہ آیت مذکورہ بالا کی رو سے یہ گنجائش نہیں دی گئی کہ جمعہ کی نماز کو معمولی نمازوں کی طرح علیحدہ بھی ادا کیا جاسکتا ہے۔ بلکہ جماعت میں حاضر ہونا اور خطبہ سننا اور جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنا اس کے لیے ضروری قرار دیے گئے ہیں ۔یہ تو ظاہر ہے کہ نظام گورنمنٹ اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ ہر ہفتہ میں دو دن کی تعطیل ہو اور یہ بھی ظاہر ہے کہ اتوار شاہ وقت کے مذہب کے لحاظ سے تعطیل کا ضروری دن ہے۔ پس کوئی ایسی تجویز گورنمنٹ کے سامنے پیش کرنی چاہیے۔ جس سے نظام گورنمنٹ میں بھی کوئی مشکلات پیش نہ آویں اور اہل اسلام کو یہ آزادی بھی مل جائے۔ اس کی آسان راہ یہ ہے کہ جمعہ کے دن نماز جمعہ کے وقت یا تو سب دفاتر اور عدالتیں، سکول، کالج وغیرہ دو گھنٹے کے لیے بند ہو جاویں۔ یا کم ازکم اتنی دیر کے لیے مسلمان ملازمین اور مسلمان طلباء کو اجازت ہو کہ وہ نماز جمعہ ادا کرسکیں اور اس کے متعلق جملہ دفاتر و جملہ محکموں میں گورنمنٹ کی طرف سے سرکلر ہو جائے …

ان وجوہات مذکورہ بالا کی بنا پر ہم نے ایک میموریل تیار کیا ہے۔ جو حضور وائسرائے ہند کی خدمت میں بھیجا جاوے گا۔ لیکن چونکہ جس امر کی اس میموریل میں درخواست کی گئی ہے۔ وہ جملہ اہل اسلام کا مشترک کام ہے۔ اس لیے قبل اس کے کہ یہ میموریل حضور وائسرائے کی خدمت میں بھیجا جاوے۔ ہم نے یہ ضروری سمجھا ہے کہ اس کا خلاصہ مسلمان پبلک اور مسلمان اخبارات اور انجمنوں کے سامنے پیش کیا جاوے۔ تاکہ وہ سب اس پر اپنی اتفاق رائے کا اظہار بذریعہ ریزولیوشنوں و تحریرات وغیرہ کے کرکے گورنمنٹ پر اس سخت ضرورت کو ظاہر کریں۔ تاکہ اس مبارک موقع پر یہ آزادی اہل اسلام کے اتفاق سے جیسی کہ ضرورت متفقہ ہے یہ درخواست حضور وائسرائے ہند کی خدمت میں پیش ہو اور یہ غرض نہیں کہ ہم ہی اس کو پیش کرنے والے ہوں۔ چونکہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے دل میں یہ تحریک ڈالی ہے۔ اس لیے ہم نے اسے پیش کردیا ہے۔ اگر کوئی انجمن یا جماعت ایسی ہو۔ جو صرف اس وجہ سے اس کے ساتھ اتفاق نہ کرے کہ یہ میموریل ہماری طرف سے کیوں پیش ہوتا ہے۔ تو ہم بڑی خوشی سے اپنے میموریل کو گورنمنٹ کی خدمت میں نہیں بھیجیں گے۔ بشرطیکہ اس کے بھیجنے کا اور کوئی مناسب انتظام کرلیا جاوے۔

المعلن نورالدین (خلیفة المسیح الموعود) قادیان ضلع گورداسپور یکم جولائی 1911ء

اس اعلان کا ہر مکتبہ فکر کے مسلمانوں نے پُرجوش خیرمقدم کیا اور مسلمان مقدس اسلامی شعار کے تحفظ کے لیے پھر سے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوگئے۔ چنانچہ مسلم پریس نے اس کے حق میں پُرزور آوازاٹھائی اور پُرجوش الفاظ میں اداریے لکھے۔

اخبار زمیندار نے لکھا:’’اس ضروری اور اہم تحریک کی سعادت مولانا نورالدین صاحب کے حصہ میں آئی ہے جنہوں نے قادیانی جماعت کے پیشوا کی حیثیت سے تمام مسلمانان ہند کی توجہ کو اس طرف مبذول کیا ہے … اور ہمیں یقین ہے کہ کوئی مسلمان ایسا نہ ہوگا۔ جو ایسے میموریل کے گزرانے کو بہ نگاہ احسان نہ دیکھے۔‘‘

اخبار اہلحدیث امرتسر نے لکھا:’’حکیم صاحب نے ایک اشتہار سب مسلمانوں کی اتفاق رائے اور تائید کے لیے اس امر کے متعلق دیا ہے کہ دربار تاج پوشی دہلی کے موقعہ پر گورنمنٹ سے ایک میموریل کے ذریعہ جمعہ کی نماز کے لیے 2گھنٹہ کی تعطیل حاصل کی جائے اور بذریعہ سرکاری سرکلر سرکاری دفاتر، سکولوں اور کالجوں میں یہ تعطیل ہونی چاہئے … حکیم صاحب کی رائے سے ہم متفق ہیں۔ تمام مسلمانوں کو اس امر کے لیے میموریل تیار کرکے وائسرائے کی خدمت میں بھیجنا چاہئے۔ مگر میموریل مسلم لیگ کی معرفت بھیجنا چاہئے۔‘‘

اخبارافشاں نے لکھا:’’اس میں شک نہیں کہ یہ تحریک نہایت مناسب اور ضروری ہے کہ کسی مسلمان کو اس قسم کی ضرورت سے انکار نہیں ہوسکتا۔‘‘

مسلمان اخبارات اور دوسرے عام مسلمانوں نے عموماً اور علی گڑھ تحریک سے وابستہ لوگوں نے خصوصاً یہ رائے دی کہ یہ میموریل دربار تاج پوشی کے بعد آل انڈیا مسلم لیگ کی طرف سے پیش ہو۔ حضرت خلیفة المسیح الاولؓ نے بھی اس سے اتفاق فرمایا اور احمدی جماعتوں کو اس سے مطلع کردیا گیا کہ وہ اس معاملہ میں مسلم لیگ کی ہر طرح تائید و معاونت کریں۔

مسلم لیگ کے ہاتھ میں لے لینے کے بعد سب سے زیادہ جس شخص نے اس کی تائید میں منظم کوشش کی وہ شمس العلماء مولانا شبلی تھے جنہوں نے اس غرض کے لیے چندہ جمع کیا۔ انگریزی میں میموریل لکھوائے۔ مسلمانوں کے دستخط کروائے اور ندوة العلماء کے اجلاس منعقدہ 8،7،6اپریل 1912ء میں ریزولیوشن پیش کرکے اس تحریک کی تائید میں ایک مختصر اور پُردلائل تقریر فرمائی۔ اس اجلاس میں حضرت صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحب بھی موجود تھے۔ آپ نے بھی اس کی تائید کی اور یہ ریزولیوشن بالاتفاق پاس ہوگیا۔ چنانچہ اجلاس کی روداد میں لکھا ہے:’’جناب مرزا سمیع اللہ بیگ صاحب بی اے ایل ایل بی نے اس کی نہایت پُرجوش تائید کی اور جناب مرزا محمود احمد صاحب قادیانی کی تائید مزید کے بعد ووٹ لیے گئے اور تجویز مندرجہ بالا انہیں الفاظ کے ساتھ نہایت جوش کی حالت میں بالاتفاق پاس کی ۔‘‘سید سلیمان ندوی نے اپنی کتاب ’’حیات شبلی‘‘کے صفحہ501 پر بھی اس واقعہ کا ذکر کیا ہے۔

آخر مارچ 1913ء میں مسٹر غزنوی (بنگال کے ممبر) نے بنگال کونسل میں اس کے متعلق گورنمنٹ سے سوال کیا۔ سرکاری ممبر نے اس کا جواب تسلی بخش دیا اور گورنمنٹ بنگال نے نماز جمعہ کے لیے دو گھنٹہ کی چھٹی منظور کرلی۔ مولانا شبلی نے اس پر ایک اور میموریل تیار کرایا جس میں بنگال گورنمنٹ کے فیاضانہ حکم کا حوالہ دے کر گورنمنٹ سے خواہش کی کہ جمعہ کو دو گھنٹہ کی تعطیل کی بجائے ایک بجے سے آدھے دن کی عام تعطیل دی جائے۔ یہ کارروائی ابھی جاری تھی کہ مولانا شبلی انتقال فرماگئے مگر اس میموریل کا یہ اثر ہوا کہ اکثر صوبوں میں ملازمین کو نماز جمعہ میں جانے کی اجازت مل گئی۔(تاریخ احمدیت جلد3صفحہ379تا381)

2۔علم تعبیر الرؤیا سے متعلق تحریک

1912ء میں حضرت خلیفة المسیح الاوّلؓ نے ایک ایسی تحریک فرمائی جو حضورؓ کے مخصوص عالمانہ مزاج کی آئینہ دار ہے۔ حضورؓ نے سورت یوسف کا درس دیتے ہوئے تعبیر الرؤیا کے بارے میں تحریک کی اور فرمایا:’’سورہ یوسف پر تدبرکرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ علم الرؤیا بھی ایک بڑا علم ہے۔ خوابیں کافر کی بھی ہوتی ہیں، مومن کی بھی، یہ علم اللہ تعالیٰ اپنے بعض انبیاء کو دیتا ہے اور ان سے ورثہ میں علماء امت محمدیہ کو بھی پہنچا ہے۔ چنانچہ پہلے مسلمانوں نے اس فن پر بہت عمدہ کتابیں لکھی ہیں۔ کامل التعبیر اور تعطیر الانام مجھے بہت پسند ہیں۔ آجکل کے نئی روشنی کے تعلیم یافتہ اور جنٹلمین تو خوابوں کوپریشان خیالات کامجموعہ سمجھتے ہیں۔ مگر ہمیں ایسی بے ادبی نہیں کرنی چاہئے۔ خوابیں تو نبوت کا جزو ہیں۔ ہمارے دوستوں کو چاہئے کہ جو جو خواب ان کو آئے۔ وہ مختصر طور پر ان کو لکھ لیا کریں اور پھر جو تعبیر اللہ تعالیٰ سمجھائے یا دکھائے اسے بھی نوٹ کرلیا کریں۔ اس طرح پر ایک وقت ایسا آئے گا کہ اس فن میں ایک ضخیم کتاب تیار ہوسکے گی۔ ہم سے پہلوں نے تو اپنا فرض ادا کردیا۔ لیکن اب کئی چیزیں ایسی نکل آئی ہیں جو پہلے موجود نہ تھیں۔ اس لیے ان کی تعبیر ان کتابوں میں نظر نہیں آتی۔ مثلاً خواب میں کوئی موٹر کار دیکھے یا ہوائی جہاز یا ایسی اَور ایجادیں۔ ایسے خوابوں کی تعبیریں تجارب کی بنا پر سمجھ میں آجاتی ہیں۔‘‘(الحکم 14؍دسمبر 1912ء صفحہ6 کالم1)

حضرت مصلح موعود ؓنے 1917ء میں حقیقة الرؤیا کے نام سے جلسہ سالانہ پر بے نظیر خطاب فرمایا تھا اور حضورؓ نے رؤیاوکشوف کے ضمن میں بہت سی تعبیریں بھی بیان فرمائی ہیںمگر اس میں ابھی بہت گنجائش ہے اور مختلف احباب اپنے اپنے ذوق کے مطابق کام کرتے رہتے ہیں۔بعض کتب شائع ہو چکی ہیں مگر یہ تحریک اب بھی اہل ذوق کو دعوت عام دے رہی ہے اگر تمام دنیا کے احمدی اس میں حصہ لیں تو یقیناً ایک نادر خزانہ تیار ہو جائے گا۔

3۔علی گڑھ یونیورسٹی کے لیے تعاون

سر سید کے بیٹے سید محمود نے 1873ء میں ایک ایسی اسلامی یونیورسٹی کا تخیل پیش کیا جو کیمبرج اور آکسفورڈ کی طرح حکومت وقت کے اختیارات سے آ زاد ہو۔ اس کے بعد نواب محسن الملک مرحوم نے سرسید کی وفات کے بعد اس خیال کو آگے بڑھایا اور سرسید کی یادگار ٹھہرا کر ایجوکیشنل کانفرنس کے مقصد میں اس کو داخل کر لیا۔ اور اس کی اعانت کے لیے ہندوستان بھر میں اداروں، جماعتوں، دوسرے رؤسا اور عوام سے چند ہ کی تحریکیں کی گئیں۔

محترم نواب فتح علی خاں صاحب نے لاہور سے حضرت خلیفة المسیح الاولؓ کی خدمت میں بھی چندہ کی تحریک کی۔ اور یہ بھی عرض کیا کہ جماعت میں بھی تحریک فرماویں کہ وہ کارخیر میں حصہ لے۔ اس سلسلے میں حضورؓ نے جو خط نواب صاحب موصوف کو لکھا۔ وہ درج ذیل ہے:’’قادیان 27؍فروری 1911ء

مکرم معظم جناب نواب صاحب

السلام علیکم ورحمة اللہ و برکاتہ

جیسا کہ میں نے پہلے جناب کو لکھا تھا۔ مجھے اسلامی یونیورسٹی کی تجویز کے ساتھ پوری ہمدردی ہے۔ میں خود اس فنڈ میں انشاء اللہ تعالیٰ ایک ہزار روپیہ دوں گا۔ اپنی جماعت کی شمولیت کے لیے میں نے ایک اعلان شائع کر دیا ہے۔

جس کی نقل ارسال خدمت ہے۔

السلام علیکم ورحمة اللہ و برکاتہ

اعلان ضروری تکمیل تجویز متعلق محمڈن یونیورسٹی

’’چونکہ اس وقت ایک عام تحریک، اسلامی یونیورسٹی کی ہندوستان میں قائم کرنے کے لیے ہو رہی ہے۔ اور بعض احباب نے یہ دریافت کیا ہے کہ اس چندہ میں ہمیں بھی شامل ہونا چاہئے یا نہیں۔ اس لیے ان سب احباب کی اطلاع کے لیے جو اس سلسلہ میں شامل ہیں۔ یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ اگرچہ ہمارے اپنے سلسلہ کی خاص ضروریات بہت ہیں اور ہماری قوم پر بہت بوجھ چندوں کا ہے، تاہم چونکہ یونیورسٹی کی تحریک ایک نیک تحریک ہے، اس لیے ہم یہ ضروری سمجھتے ہیں کہ ہمارے احباب بھی اس تحریک میں شامل ہوں اور قلمے، قدمے، سخنے، زرے مدد دیں۔ نورالدین۔‘‘(بدر 9؍مارچ 1911ء صفحہ 6کالم نمبر3)

اس اعلان کے ساتھ جماعت احمدیہ کی طرف سے یہ ایک ہزار روپیہ کا عطیہ بھی بھجوایا۔(سالانہ رپورٹ صدر انجمن احمدیہ1911ءتا1912ءصفحہ81)

نواب محسن الملک کی زندگی میں انگریزی حکومت کی بعض کڑی شرائط کے باعث یونیورسٹی کا معاملہ کئی برسوں تک کھٹائی میں پڑا رہا۔ مگر آخر جنوری 1921ء میں عظیم الشان یونیورسٹی جو ایشیائی مسلمانوں کی بہت بڑی یونیورسٹی تھی معرض وجود میں آگئی۔(موج کوثر صفحہ 145)

یہی سلسلہ آج بھی جاری ہے اور وقت کی ضرورتوں کے مطابق تمام خلفا ءجماعت اور عالم اسلام بلکہ عالم انسانیت کی راہنمائی کر کے اس کی فلاح و بہبود کا سامان کرتے رہتے ہیں۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button