مضامین

قیامِ خلافت احمدیہ سے غلبۂ اسلام تک(قسط اوّل)

(‘ابو فاضل بشارت’)

خلفائے احمدیت کا مطمح نظر بس یہی رہا ہے کہ خدا کی مخلوق کو امن وسکون نصیب ہو اور ان کے دکھوں کا مداوا ہو، ان پہ مسلط کردہ جنگوں کا اختتام ہو اور انہیں سکون کی گھڑیاں نصیب ہوں۔

ان کے آفات و مصائب امن و سکون سے بدل جائیں،ان کی زندگیاں مشکلات کی پگڈنڈیوں سے نکل کر خوشحالی کی شاہراہ پہ گامزن ہوں

خدا تعالیٰ کی یہ سنت مستمرہ ہے کہ وہ اپنی مخلوق کی ہدایت و راہنمائی کے لیے انبیاء ورسل مبعوث فرماتا ہے۔ چنانچہ ہر قوم کی طرف ایک ہادی آیا جیساکہ قرآن کریم میں مذکور ہے:وَلِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ (الرعد:8)اور ہر قوم کے لئے اىک راہنما ہوتا ہے۔

ہمارے ہادیٔ کامل خاتم النبیین حضرت محمدمصطفیٰﷺ تمام جہانوں کی ہدایت و راہنمائی کےلیے مبعوث ہوئےاور آپؐ کی بعثت کی چاراہم اغراض کا ذکرقرآن کریم کی سورةالجمعة میں یوں موجودہے:ہُوَ الَّذِیۡ بَعَثَ فِی الۡاُمِّیّٖنَ رَسُوۡلًا مِّنۡہُمۡ یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِہٖ وَیُزَکِّیۡہِمۡ وَیُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَالۡحِکۡمَۃَ ٭ وَاِنۡ کَانُوۡا مِنۡ قَبۡلُ لَفِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍ۔(الجمعة:3)وہى ہے جس نے اُمّى لوگوں مىں انہى مىں سے اىک عظىم رسول مبعوث کىا وہ اُن پر اس کى آىات کى تلاوت کرتا ہے اور انہىں پاک کرتا ہے اور انہىں کتاب کى اور حکمت کى تعلىم دىتا ہے جبکہ اس سے پہلے وہ ىقىناً کھلى کھلى گمراہى مىں تھے۔

الٰہی حکم کےمطابق رسول اللہﷺنے تمام دنیا کی ہدایت اورراہنمائی کےلیے کامل شریعت کے ساتھ کامل اسوۂ حسنہ بھی عطا فرمایا۔لیکن خدا تعالیٰ کا اصول ہے کہ كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ (العنكبوت:58)یعنی ہر جان موت کا مزہ چکھنے والى ہے۔توانبیاء کو بھی بصورت بشر اس مرحلہ سے گزرنا پڑتا ہےاور ایک معینہ مدت تک پیغام الٰہی کو لوگوں تک پہنچا کر اپنے مالک حقیقی سے جاملنا ہوتا ہے۔لہٰذا اللہ تعالیٰ نے ان کے کاموں کو پورا کرنے اور ان کی برکات کے زمانہ کو ممتد کرنے کے لیے نظام خلافت کو جاری فرمایا۔رسول اللہﷺ کی وفات کے بعدخلفائے راشدین حضرت ابوبکرؓ،حضرت عمر فاروقؓ،حضرت عثمان غنیؓ اور حضرت علیؓ نے رسول اللہﷺ کی کامل اقتدا و پیروی میں امت مسلمہ کی ہدایت و راہنمائی کا بیڑا اٹھایا اوربانیٔ اسلامؐ کی تعلیمات کو آگے بڑھاکراسلام کے غلبہ کے سامان پیدا فرمائے اور برکات رسالت سے امت مسلمہ کو فیضیاب کرتے رہے۔

یہ بھی پڑھیے:

قیامِ خلافت احمدیہ سے غلبۂ اسلام تک(قسط دوم)

قرآن و سنت کی روشنی میں اس زمانے کے حکم عدل حضرت بانیٔ جماعت احمدیہ نے خلافت کی حقیقت بیان کرتے ہوئے فرمایا:’’خلیفہ جانشین کو کہتے ہیں اور رسول کا جانشین حقیقی معنوں کے لحاظ سے وہی ہوسکتا ہے جو ظلی طور پر رسول کے کمالات اپنے اندر رکھتا ہو اس واسطے رسول کریم نے نہ چاہا کہ ظالم بادشاہوں پر خلیفہ کا لفظ اطلاق ہوکیونکہ خلیفہ درحقیقت رسول کاظلّ ہوتا ہے اور چونکہ کسی انسان کے لئے دائمی طور پر بقا نہیں لہٰذا خدا تعالیٰ نے ارادہ کیا کہ رسولوں کے وجود کو جو تمام دنیا کے وجودوں سے اشرف و اولیٰ ہیں ظلی طور پر ہمیشہ کےلئے تاقیامت قائم رکھے سو اسی غرض سے خدا تعالیٰ نے خلافت کو تجویز کیا تادنیا کبھی اور کسی زمانہ میں برکات رسالت سے محروم نہ رہے‘‘(شہادۃ القرآن،روحانی خزائن جلد6صفحہ353-354)

سورة النور کی آیت 56 میں مومنوں سے وعدہ کیا گیا ہے کہ اگر وہ ایمان کے ساتھ عمل صالح بجالائیں گے تو اللہ تعالیٰ ان میں نظام خلافت جاری فرما دے گا۔پس رسول اللہﷺنے آیت استخلاف کی روشنی میں اپنے بعدخلافت راشدہ کے قیام کی بشارت عطافرمائی۔اس کے بعد دور ملوکیت اور آخری زمانے میں دَوراوّلین کی طرح دَور آخرین میں خلافت کی خبر دیتے ہوئے فرمایا:ثُمَّ تَکُوْنُ خِلَافَۃٌ عَلٰی مِنْھَاجِ النُّبُوَّۃِ۔(مسند احمد جلد 4صفحہ273 و مشکوٰۃ باب الانذار و التحذیر)کہ پھر خلافت علی منہاج النبوت کا آخری دور ہوگا۔یہ خلافت مسیح موعودؑ کے لیے ہی مقدر تھی جیسا کہ شارح مشکوٰة علامہ عبد الحق محدث دہلوی نےاس حدیث کی تشریح میں لکھا ہے:’’الظَّاھِرُ اَنَّ الْمُرَادَ بِہٖ زَمَنُ عِیْسٰی وَالْمَھْدِیْ‘‘(لمعات التنقیح شرح مشکوٰۃ کتاب الرقاق جلد 8صفحہ578)یعنی ظاہر ہے کہ منہاج نبوت پر دوبارہ خلافت قائم ہونے کا زمانہ مسیح موعود اور مہدی کا زمانہ ہے۔

چنانچہ سورت جمعہ کی آیت نمبر4’’وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ ‘‘کے مطابق دَور آخرین میں رسول اللہﷺ کی بعثت ثانیہ کا ظہورحضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعودؑ کے ذریعہ ہوا۔آپ علیہ السلام نےفیج اعوج کے زمانے میں عوام الناس کی ہدایت و راہنمائی کےلیے23؍مارچ 1889ء کو ایک پاک جماعت کی بنیاد رکھی اوراپنے اخلاق و شمائل،اپنی تحریروتقریرہرجہت سےتمام انسانوں کی ہدایت و راہنمائی کےلیے اسلام کی گراں قدر خدمات انجام دیں اور ایک حقیقی راہنما کے طور پرجہاں امت مسلمہ کو گمراہی و ضلالت کی تاریکی سے نکال کر انہیں اسلام کے حقیقی نور سے آشنا کروایاوہاں دیگر مذاہب والوں کی اسلام اور بانیٔ اسلام کی صداقت کی طرف راہنمائی فرماتے ہوئے سینکڑوں تائیدی دلائل پیش فرمائے اور انہیں سچا مذہب اسلام قبول کرنےکی دعوت دی۔پھر آخری غلبہ کی خبر دیتے ہوئے حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے 1903ءمیں فرمایا تھا:’’دنیا میں ایک ہی مذہب ہو گا اور ایک ہی پیشوا۔ میں تو ایک تخم ریزی کرنے آیا ہوں سو میرے ہاتھ سے وہ تخم بویا گیا اور اب وہ بڑھے گا اور پھولے گا اور کوئی نہیں جو اس کو روک سکے۔‘‘(تذکرۃ الشہادتین، روحانی خزائن جلد20صفحہ67)

نیزفرمایا:’’خدا تعالیٰ نے مجھے بار بار خبر دی ہے کہ وہ مجھے بہت عظمت دے گا اور میری محبت دلوں میں بٹھائے گا اور میرے سلسلہ کو تمام دنیا میں پھیلائے گا۔ اور سب فرقوں پر میرے فرقہ کو غالب کرے گا… اور یہ سلسلہ زور سے بڑھے گا اور پھولے گا۔ یہاں تک کہ زمین پر محیط ہو جاوے گا… اور خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ میں تجھے برکت پر برکت دوں گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے۔‘‘(تجلیات الٰہیہ، روحانی خزائن جلد20صفحہ409تا410)

حضرت بانیٔ جماعت احمدیہ کا دعویٰ مسیح و مہدی اور امتی نبی ہونے کا ہے اور آپ سےخلافت علیٰ منہاج النبوت کے آخری دَور کی بناپڑی۔جس کے بارے میں قرآن واحادیث کی روشنی میں آپؑ نے بھی پیشگی خبر دیتے ہوئےفرمایا:’’یہ خدا تعالیٰ کی سنت ہے کہ اس نے انسان کو زمین میں پیدا کیا ہمیشہ اس سنت کو وہ ظاہر کرتا رہا ہے کہ وہ اپنے نبیوں اور رسولوں کی مدد کرتا ہے اور ان کو غلبہ دیتا ہے۔ جیسا کہ فرمایا ہے۔ کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَ رُسُلِیْ(المجادلة: 22)اور غلبہ سے مراد یہ ہے کہ جیسا کہ رسولوں اور نبیوں کا یہ منشاء ہوتا ہے کہ خدا کی حجّت زمین پر پوری ہوجائے اور اُس کا مقابلہ کوئی نہ کرسکے اسی طرح خدا تعالیٰ قوی نشانوں کے ساتھ اُن کی سچائی ظاہر کردیتا ہے اور جس راستبازی کو وہ دنیا میں پھیلانا چاہتے ہیں اُس کی تخم ریزی اُنہی کے ہاتھ سے کردیتا ہے۔ لیکن اس کی پوری تکمیل اُن کے ہاتھ سے نہیں کرتا… پھر ایک دوسرا ہاتھ اپنی قدرت کا دکھاتا ہے اور ایسے اسباب پیدا کردیتا ہے جن کے ذریعہ سے وہ مقاصد جو کسی قدرناتمام رہ گئے تھے اپنے کمال کو پہنچتے ہیں…

جیساکہ حضرت ابوبکر صدیق ؓکے وقت میں ہوا جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی موت ایک بے وقت موت سمجھی گئی۔ اور بہت سے بادیہ نشین نادان مرتد ہوگئے اور صحابہؓ بھی مارے غم کے دیوانہ کی طرح ہوگئے۔ تب خدا تعالیٰ نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کو کھڑا کرکے دوبارہ اپنی قدرت کا نمونہ دکھایا اور اسلام کو نابود ہوتے ہوتے تھام لیا اور اس وعدہ کو پورا کیا جو فرمایا تھا: وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسۡتَخۡلِفَنَّہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ کَمَا اسۡتَخۡلَفَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ ۪ وَلَیُمَکِّنَنَّ لَہُمۡ دِیۡنَہُمُ الَّذِی ارۡتَضٰی لَہُمۡ وَلَیُبَدِّلَنَّہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ خَوۡفِہِمۡ اَمۡنًا (النور:56)یعنی خوف کے بعد پھر ہم اُن کے پَیر جما دیںگے…

سو اے عزیزو! جبکہ قدیم سے سنّت اللہ یہی ہے کہ خدا تعالیٰ دو قدرتیں دکھلاتا ہے تا مخالفوں کی دو جھوٹی خوشیوں کو پامال کرکے دکھلاوے۔ سو اب ممکن نہیں ہے کہ خداتعالیٰ اپنی قدیم سنّت کو ترک کردیوے۔ اس لئے تم میری اس بات سے جو مَیں نے تمہارے پاس بیان کی غمگین مت ہو اور تمہارے دل پریشان نہ ہوجائیں کیونکہ تمہارے لئے دوسری قدرت کا بھی دیکھنا ضروری ہے اور اس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ وہ دائمی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا۔ اور وہ دوسری قدرت نہیں آسکتی جب تک میں نہ جاؤں۔ لیکن میں جب جا ؤںگا تو پھر خدا اس دوسری قدرت کو تمہارے لئے بھیج دےگا جو ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گی۔‘‘(رسالہ الوصیت، روحانی خزائن جلد20صفحہ304تا305)

ائمہ وخلفاء ہدایت و راہنمائی کا ذریعہ اور اعلیٰ نمونہ

1908ء میں آپؑ کی وفات کے بعد خلافت احمدیہ کے قیام سے رسول اللہﷺ کی آخری دَور میں خلافت علیٰ منہاج النبوت کے قیام کی پیشگوئی بھی پوری ہوگئی اورقدرت ثانیہ خلافت احمدیہ کا قیام عمل میں آیا۔اور خداکے برگزیدہ خلفائےا حمدیت خلفائے راشدین کی طرح اس زمانے کے لوگوں کی ہدایت و راہنمائی کا اولین ذریعہ اور اعلیٰ نمونہ بنے۔جیساکہ حضرت بانیٴ جماعت احمدیہ نے ان مظاہر قدرت یعنی خلفاء کےمتعلق فرمایا کہ’’دوسراطریق انزال رحمت کا ارسال مرسلین و نبیین و ائمہ و خلفاء ہے تا ان کی اقتدا و ہدایت سے لوگ راہ راست پر آجائیں اور ا ن کے نمونہ پر اپنے تئیں بناکر نجات پا جائیں۔ ‘‘(سبز اشتہار،روحانی خزائن جلد2صفحہ462،حاشیہ)

خلفائے احمدیت راہنمائے عالم

حضرت بانیٔ جماعت احمدیہ نے الٰہی حکم کے مطابق تمام دنیا کےلوگوں کی ہدایت و راہنمائی کےلیے اپنے آقا و مطاع ہادیٔ کامل رحمة للعالمین حضرت محمد مصطفیٰﷺ کے پاک نمونہ اور قرآن کی پاکیزہ تعلیمات کو درست رنگ میں پیش فرماکراسلام کا احیائے نو فرمایا۔آپؑ کے بعد آپؑ کے خلفاء جو خدا تعالیٰ کے چنیدہ ہیں انہوں نے بھی اسی ہدایت و راہنمائی کے کام کو جاری رکھا اورتمام دنیا کو حقیقی ہدایت کی راہ پر گامزن کیا۔دینی و دنیاوی ہر دو مسائل کے حل کےلیے خلفائے احمدیت نے اپنی خداداد فراست و بصیرت سے جہاں عالمی راہنماؤں کی صحیح نہج پر راہنمائی فرمائی، وہاں عوام الناس کی دینی و اخلاقی، علمی و عملی،شخصی و معاشرتی،معاشی و اقتصادی ہر لحاظ سے ایسی اعلیٰ راہنمائی فرمائی کہ اگر اس پر من و عن عمل کیا جائے تو جنت نظیر معاشرہ کا قیام عمل میں آسکتا ہے اور دنیا میں فتنہ و فساد کا خاتمہ ہوکرعالمگیر امن قائم ہوسکتا ہے۔کیونکہ یہ راہنمائی محض ایک راہنما کی راہنمائی نہیں بلکہ الٰہی راہنمائی کے نتیجے میں کی جانے والی راہنمائی ہے جس کی برکات اور نتائج لامتناہی ہیں بشرطیکہ عمل کرنےوالے خلوص نیت اور پوری دیانتداری سےاس پرعمل کریں۔

ان خدائی راہنماؤں خلفائے احمدیت نے اپنے اپنے دَور خلافت میں احباب جماعت اوراقوام عالم کی ہدایت و راہنمائی کےلیے جو جدوجہد اور تحریکات فرمائیں ان کا مختصراً ذکر پیش خدمت ہے:

حضرت خلیفة المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ بطورراہنما (1908ءسے1914ء)

27؍مئی 1908ء کو قادیان میں خلافت حضرت مسیح موعودؑ کا قیام عمل میں آیا۔حضرت مولانانورالدین صاحب خلیفة المسیح الاولؓ نےجماعت احمدیہ سمیت تمام عالم اسلام اور دیگراقوام کی ہدایت و راہنمائی کا بیڑا اٹھایا۔جس کا سب سے اہم پہلو تبلیغ اسلام تھا جس کے ذریعہ اسلام کی حقیقی اورراہنما تعلیم لوگوں تک پہنچائی جاسکے اور ان کوہدایت پر گامزن کیا جاسکے۔چنانچہ اس کام کےلیے آپ نے اپنی راہنمائی اور قیادت میں نمایاں کام سرانجام فرمائے۔

حضرت خلیفةالمسیح الاوّلؓ کی یہ دلی خواہش تھی کہ حضرت مسیح موعودؑ کی یادگار میں اعلیٰ پیمانہ پر ایک دینی مدرسہ قائم کیا جائے جس میں واعظین اور مبلغین تیار کیے جائیں۔چنانچہ آپؓ کی راہنمائی میں یکم مارچ1909ء کو مدرسہ احمدیہ کی بنیاد رکھی گئی تا دین حق کی اشاعت کے لیے مبلغین تیار ہوں۔حضرت مسیح موعودؑ کے زمانے میں تبلیغ اسلام کے لیے باقاعدہ کوئی واعظ انجمن کی طرف سے مقرر نہ تھے۔حضرت خلیفة المسیح الاوّلؓ نے اس امر کے لیے مختلف واعظین کا تقرر فرمایا۔اس کے علاوہ مختلف جگہوں پر لیکچرز کے لیےآپؓ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحبؓ اور دیگر بزرگان سلسلہ کو بھجوایا کرتے تھے۔

تصانیف و اخبارات و رسائل کا اجرا

حضرت خلیفة المسیح الاولؓ کی راہنمائی اور قیادت میں اشاعت اسلام اوراحباب جماعت و دیگران کی دینی و علمی راہنمائی کے لیے مختلف اخبارات و رسائل جاری ہوئے جن کے ذریعہ احمدیت یعنی حقیقی اسلام کا پیغام مختلف ممالک تک پہنچا۔ چنانچہ خلافت اولیٰ میں اکتوبر1909ء میں اخبار نور،1910ء میں اخبار الحق اور18؍جون1913ء کو اخبار الفضل جاری ہوئے۔اس کے علاوہ جنوری 1911ء میں رسالہ احمدی اورستمبر1912ء میں رسالہ ’’احمدی خاتون‘‘ شائع ہونا شروع ہوئے۔1913ء میں عرب ممالک میں اشاعت احمدیت کے لیے ’’بدر‘‘میں مصالح العرب کے نام سے ایک ہفتہ وار عربی ضمیمہ شائع ہوا۔اسی طرح دیگر اقوام کےلیے ہندی، انگریزی، گورمکھی، اردو، پشتو اور فارسی زبانوں میں لٹریچر شائع ہواتا وہ لوگ اس پیغام حق کو اپنی زبان میں صحیح طور پر سمجھ سکیں۔اس کے علاوہ خلافت احمدیہ،اظہار حقیقت،البشریٰ جلد اول و دوم،آئینہ صداقت،احمدیہ پاکٹ بک،کشف الحقائق وغیرہ 40کے قریب کتب شائع ہوئیں۔قادیان کی پہلی لائبریری بھی آپؓ ہی کے دورِ خلافت میں قائم ہوئی۔

نیز آپؓ نے دسمبر1912ء میں تحریکات فرمائیں کہ علم الرؤیا کے متعلق موجودہ ایجادات کے تناظر میں تعطیر الانام اور کامل التعبیر کے طرز کی کتاب تصنیف کرنی چاہیے۔دوسری تحریک یہ فرمائی کہ مال غنیمت کی تقسیم کے لیے جو اللہ اور رسول کا حق ہے اس کا مصرف موجودہ زمانے میں یہ ہے کہ اللہ کی ہستی،اس کی صفات اور افعال اور اس کے کلام پاک کی اشاعت پر رسالے اور ٹریکٹ شائع کیے جائیں۔رسول کریمﷺ کے حصہ کی ادائیگی کےلیے حدیث شریف کی اشاعت اور حضور کی ذات اور حضور کے خلفاء پر اعتراضات کے جوابات پر روپیہ خرچ کیا جائے۔(تاریخ احمدیت جلد3 صفحہ428)

مباحثات و مناظرے اور لیکچرز

خلافت اولیٰ میں پورے ہندوستان میں اشاعت اسلام کی خاطر مباحثات و مناظروں میں حضرت خلیفة المسیح الاوّلؓ کے راہنماحکم پر مرکز احمدیت قادیان سے علمائے سلسلہ تشریف لے جاتے اور احمدیت یعنی حقیقی اسلام کی حقانیت ثابت کردکھاتے۔جس کے نتیجے میں بعض دفعہ پورا پوراگاؤں بھی احمدیت کی آغوش میں آیا۔

تبلیغ ہدایت کے لیے حضرت خلیفة المسیح الاوّلؓ نے مزید یہ راہنمائی فرمائی کہ اشاعت اسلام کا ایک اہم ذریعہ لیکچرز ہیں۔1909ء کے آخر میں فورمین کالج میں مسیحی لیکچروں کا سلسلہ شروع ہوا تو حضرت خلیفة المسیح الاولؓ نے اسلامی لیکچروں کا سلسلہ لاہور میں شروع کروایا۔جس میں قادیان سے مقررین بھجوائے جاتے۔

بیرون ملک وفود بھجوانے کی راہنمائی

جنوری 1910ء میں حضرت خلیفة المسیح الاولؓ نے قادیان سے مختلف ممالک میں وفد بھجوانے کی طرف راہنمائی فرماتے ہوئے تجویز دی کہ سنگاپور اور سیلون میں مبلغین بھجوانے چاہئیں۔اس خواہش کی تکمیل توخلافت ثانیہ میں ہوئی لیکن یوپی میں مدرسہ الہیات کانپور اور انجمن ’’ہدایت الاسلام‘‘ اٹاوہ کی طرف سے جلسے میں شرکت کی دعوت پرمرکز احمدیت سے حضرت سید سرور شاہ صاحب،حضرت مفتی محمد صادق صاحب،خواجہ کمال الدین صاحب اور مولوی صدر الدین صاحب پر مشتمل ایک وفد روانہ فرمایاجس نے یوپی میں کامیاب جلسے کرنے کے بعد لکھنو میں مولانا شبلی نعمانی سے ملاقات بھی کی۔

دیگر زبانوں کی تعلیم حاصل کرنے کی طرف راہنمائی

حضرت خلیفة المسیح الاوّلؓ نےاشاعت اسلام کی خاطر دیگرمذاہب کی زبانوں میں عبور حاصل کرنے کی طرف راہنمائی فرمائی اورحضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ اور شیخ محمد یوسف صاحبؓ کواشاعت اسلام کی خاطرسنسکرت پڑھانے کے لیے ایک پنڈت مقرر فرما کر اس کے اخراجات کا انتظام خود فرمایا۔

تبلیغی دورہ جات

غرضیکہ حضرت خلیفة المسیح الاوّلؓ نےاشاعت اسلام کا کوئی بھی موقع اپنےہاتھ سے نہ جانے دیا۔آپ خود بھی تبلیغی دورہ جات فرمایا کرتے تھے۔چنانچہ مارچ 1909ء کے آخر میں دہلی تشریف لے گئے وہاں سے کپورتھلہ کچھ روز قیام کیا پھر لاہور کے جلسہ سیرت النبیؐ میں شرکت فرمائی اور پھر دوبارہ دہلی جاکر9؍اپریل کو ایک لیکچر دیا۔11؍اپریل کو قصور کے جلسہ سالانہ میں شمولیت فرمائی اور پھر16؍اپریل کو دہلی میں دوسرا لیکچر فرمایا۔اسی طرح آپؓ نے ہندوستان کے طول و عرض میں تبلیغی وفود بھجوائے۔علماء لمبے لمبے دورے کرتے اور مختلف مقامات پر متعدد انجمنیں قائم کرتے۔جس کے نتیجے میں کثیر تعداد میں احمدیت یعنی حقیقی اسلام کی اشاعت ہوتی اور کثرت سے لوگ احمدی ہوتے۔خلافت اولیٰ میں 78کے قریب نئی جماعتیں قائم ہوئیں۔انہی میں سے حضرت مولوی عبدالحی صاحب فرنگی محل کے مشہور شاگرد حضرت مولوی سید عبد الواحد صاحب نے احمدیت قبول کی اور ان کی تبلیغ سے 1921ء تک ڈیڑھ ہزار سے بھی زیادہ لوگ احمدی ہوئے۔

حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحبؓ نے جنوری 1914ء میں ہندوستان بھر میں تبلیغ و اشاعت اسلام کے لیے ایک سکیم حضرت خلیفة المسیحؓ کی منظوری سے پیش کی۔علمائے سلسلہ نے اس سکیم پر لبیک کہااور اس تبلیغی سکیم کی تکمیل کے لیے حضرت صاحبزادہ صاحب ؓنے دعوت الی الخیر فنڈ بھی کھولا۔

خفیہ انجمنوں کے بارے میں راہنما ارشاد اوراشاعت اسلام کےلیے انجمنوں کا قیام

تقسیم بنگال اور یونیورسٹیز ایکٹ 1906ء کے بعد ہندوستان میں جگہ جگہ نام نہاد مقامی راہنماؤں کی سربراہی میں دہشت گرد تنظیمیں اور انقلاب پسند خفیہ انجمنیں قائم ہوگئیں جوہندوستان میں قتل و فساد کی سازشیں کرنے لگیں۔اس پر خداکی طرف سےمقرر فرمودہ حقیقی راہنما حضرت خلیفة المسیح الاوّلؓ نے اس بارے میں بالخصوص احباب جماعت اور بالعموم دیگر مسلمانوں کی راہنمائی کرتے ہوئے فرمایا:’’نیکی اور بھلائی اور رفاہ عام کے کام کبھی اس قابل نہیں ہوسکتے کہ ان کے لیے اخفا ضروری ہو۔اس لیے اگر کوئی خفیہ انجمن اپنے اغراض نوع انسان کی بھلائی کے متعلق ظاہر نہیں کرتی یا نہیں بتاتی وہ کبھی قابل تسلیم نہیں ہوسکتی کیونکہ ان انجمنوں میں شرارت اور شیطنت ہوتی ہے۔خفیہ انجمنوں کی تاریخ پر نظر کرنے سے پتہ لگتا ہے کہ جہاں کہیں وہ ہیں انہوں نے امن عامہ میں خلل ڈالا ہے ہم ایسی انجمنوں سے سخت بیزار ہیں…پس ان سے ہمیشہ پرہیز کرو۔‘‘(تاریخ احمدیت جلد3صفحہ217)

چنانچہ اس راہنمائی کے نتیجے میں نہ صرف جماعت بلکہ باقی مسلمان بھی تباہی کے رستہ پر جانے سے بچ گئے۔

اس کے بالمقابل خلافت اولیٰ میں تبلیغ ہدایت اور اشاعت اسلام کے لیے پُرامن انجمنوں کا قیام ہوا جن میں انجمن ارشاد،انجمن مبلغین وغیرہ شامل ہیں۔انجمن ارشاد کا قیام 1909ء میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود صاحبؓ نے فرمایا جس کا مقصددشمنان اسلام کے اعتراضات کا رد تھا۔سکھوں اور ہندوؤں میں تبلیغ اسلام کے لیے قادیان میں ’’سادہ سنگت‘‘ انجمن قائم ہوئی جس کے ذریعہ ہزاروں پمفلٹس شائع ہوئے۔27؍مارچ 1910ء کو راجپوتوں میں تبلیغ کی خاطر ’’انجمن مسلمان راجپوتان ہند‘‘ کا قیام عمل میں آیا۔1911ء میں خلافت اولیٰ میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحبؓ نے ایک رؤیا کی بنیاد پر’’انجمن انصار اللہ‘‘ قائم فرمائی۔جولائی 1913ء تک اس کےذریعہ دوتین سو آدمی سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئے پھر اسی انجمن کے تحت پہلے مبلغ انگلستان حضرت چودھری فتح محمد صاحب سیالؓ کو اپنے خرچ پرانگلستان بھجوایاگیا۔

1912ء میں قادیان کےنوجوانوں نےاشاعت اسلام کی غرض سے ’’انجمن مبلغین‘‘جس کادوسرا نام ’’یادگار احمد‘‘ بھی تھا،بنائی اورحضرت خلیفة المسیح الاوّلؓ نے اس میں شمولیت کی تحریک فرمائی۔

اردو کی تائید میں ریزولیوشن

صوبہ پنجاب میں ایک مرتبہ یہ بات عام ہوئی کہ صوبائی تعلیم اردو کی بجائے پنجابی میں ہونی چاہیے۔ یہ بات مسلمانوں کے لیے نہایت درجہ مضر اور نقصان رساں تھی۔چنانچہ حضرت خلیفة المسیح الاوّلؓ نے مسلمانوں کے مفاد کی خاطر صدرانجمن میں25؍مئی1909ء کو ریزولیوشن پاس کی کہ ’’اس انجمن کی رائے میں ’’اردو‘‘ صوبہ پنجاب میں تعلیمی اغراض کےلیے بالعموم اور ابتدائی تعلیم کےلیے بالخصوص مناسب اور موزوں زبان ہے اور بہ حیثیت درسی جو رتبہ اسے مدارس میں حاصل ہے اس کو قائم رکھنا ترقی تعلیم کےلیے نہایت ضروری ہے۔‘‘(تاریخ احمدیت جلد3صفحہ288)

مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کےلیے چندےکی تحریک

ہندوستان میں جب کیمبرج اور آکسفورڈ یونیورسٹیوں کی طرز پر ایک اسلامی یونیورسٹی کے قیام کےلیے چندے کی تحریکیں ہوئیں تو روحانی راہنما حضرت خلیفة المسیح الاوّلؓ نے اعلان فرمایا کہ ’’…چونکہ یونیورسٹی کی تحریک ایک مفید اور نیک تحریک ہے اس لیے ہم ضروری سمجھتے ہیں کہ ہمارے احباب بھی اس میں شامل ہوں اور قلمے، قدمے، سخنے، درمے مدد دیں۔‘‘ (تاریخ احمدیت جلد3صفحہ368)

اس اعلان کے ساتھ آپؓ نےجماعت احمدیہ کی طرف سے ایک ہزار روپیہ کا عطیہ بھی بھجوایا۔

اتحاد بین المسلمین کی کاوش

ایک عظیم لیڈر کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنی قوم میں وحدت قائم رکھے اور اس کےلیے وہ ہر کوشش کرتا ہے۔حضرت خلیفة المسیح الاوّلؓ نے دہلی میں ہونےوالے شہنشاہ جارج پنجم کے دربار تاجپوشی کے موقع پر نماز جمعہ کی ادائیگی کے لیے میموریل وائسرائے ہند کو بھجوانے کےلیےتمام مسلمانان ہند کے نام ایک مفصل اعلان شائع کیا تاکہ تمام مسلمان اس کے حق میں آواز اٹھائیں۔اس اعلان کا مسلمانوں کےتمام مکاتب فکر نے پُرجوش خیر مقدم کیا اور مسلمان مقدس اسلامی شعار کی حفاظت کےلیے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوگئے۔اور اس کوشش کے نتیجے میں اکثر صوبوں میں ملازمین کو نماز جمعہ میں جانے کی اجازت مل گئی۔

اسی طرح آپ نے وحدت و اتحاد کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا:’’ملکوں پر ملک تمہارے قبضہ سے نکلتے چلے جاتے ہیں،سمرقند، بخارا، دہلی، لکھنو، مصر، مسقط،زنجبار، مراکش،تیونس، طرابلس،ایران وغیرہ بارہ سلطنتیں مسلمانوں کی میرے دیکھتے دیکھتے تباہ ہوئیں اور اب قسطنطنیہ پر بھی دانت ہے۔ یہ کیوں ہوا؟ قرآن میں اس کا سبب لکھا ہےوَلَا تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ(الانفال:47) باہم جھگڑے چھوڑ دو تم سست ہوجاؤ گے۔تمہاری ہوا بگڑ جائے گی۔‘‘(تقریر جلسہ سالانہ فرمودہ25؍ دسمبر1912ءخطابات نورصفحہ546)

بیت المال کا قیام اوراہل بیت حضرت مسیح موعودؑ کے اخراجات کا انتظام

مسند خلافت پر متمکن ہوتے ہی حضرت خلیفة المسیح الاوّلؓ نے بیت المال کاایک مستقل محکمہ قائم فرمایا اور راہنما حکم فرمایا کہ آئندہ مد زکوٰة کو صیغہ صدقات سے الگ کرکے صیغہ بیت المال میں شامل کیا جائے اور اس کے لیے مناسب قواعدتجویز فرمائے۔اور اہل بیت حضرت مسیح موعودؑ کےاخراجات کےلیے الہام الٰہی کے مطابق مناسب انتظامات فرمائے۔

یتامیٰ و مساکین فنڈ کا قیام

جنوری 1909ء میں حضرت خلیفة المسیح الاوّلؓ نے یتامیٰ اور مساکین کی مالی اعانت کےلیے ایک فنڈ کی تحریک فرمائی اور ایک سو روپیہ اس کےلیے خود عطا فرمایا۔

قادیان میں تعمیر و توسیع عمارات

خلافت اولیٰ میں مرکز احمدیت قادیان میں محلہ دارالعلوم کی بنیاد رکھی گئی۔پھر 5؍مارچ 1909ء کو بعد نماز فجر حضرت خلیفة المسیح الاوّلؓ نےمسجد نور کی بنیاد رکھی۔بورڈنگ تعلیم الاسلام ہائی سکول کی وسیع،شاندار عمارت کا سنگ بنیاد بھی آپؓ نے رکھا۔25؍جولائی 1912ء کو تعلیم الاسلام ہائی سکول کی نئی وسیع عمارت کی بنیاد رکھی گئی۔

1910ء کی پہلی سہ ماہی میں مسجد اقصیٰ کی توسیع اوّل ہوئی جس میں ایک بڑا کمرہ اور ایک لمبا برآمدہ تیار ہوا۔ اور منارۃ المسیح کے ساتھ مستورات کی نماز کے لیےایک چبوترہ بھی بنادیا گیا۔چنانچہ احمدی مستورات نے مسجد اقصیٰ میں نماز پڑھی اور خطبہ سنا ۔یوں خلافت اولیٰ میں ایک اور سنت نبویؐ کا احیاء ہوا۔

دورِ خلافتِ اولیٰ میں قادیان کے علاوہ لاہور، وزیرآباد، ڈیرہ غازی خاں، جموں، ہنوڑ وغیرہ میں مساجد تعمیر ہوئیں جو اعلائے کلمة اللہ اور اشاعت توحید و اسلام کا مرکز ثابت ہوئیں۔غرضیکہ خلافت اولیٰ میں تبلیغ ہدایت اور اشاعت اسلام کی گرانقدر مساعی ہوئیں جس کے نتیجے میں احمدیت کا پیغام ہندوستان سے نکل کر مختلف ممالک تک پہنچ گیا اور اقوام عالم کی ہدایت و راہنمائی کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔

فتنہ انکار خلافت اورحضرت خلیفة المسیح الاولؓ کی راہنمائی

خلافت اولیٰ میں منکرین خلافت نے جب شورش برپا کی تو حضرت خلیفة المسیح الاولؓ نے تمام احباب کی راہنمائی کرتے ہوئے فرمایا:’’میرا فیصلہ ہے کہ قوم اور انجمن دونوں کا خلیفہ مطاع ہے اور یہ دونوں خادم ہیں انجمن مشیر ہے اس کا رکھنا خلیفہ کےلیے ضروری ہے…جس نے یہ لکھا ہے کہ خلیفہ کا کام بیعت لینا ہے اصل حاکم انجمن ہے وہ توبہ کرے۔خدا نے مجھے خبر دی ہےکہ اگر اس جماعت میں سے کوئی تجھے چھوڑ کر مرتد ہوجائے گا تو میں اس کے بدلے تجھے ایک جماعت دوں گا…۔بیعت وہی ہے جس میں کامل اطاعت کی جائے اور جس میں خلیفہ کے کسی ایک حکم سے بھی انحراف نہ کیا جائے۔‘‘(تاریخ احمدیت جلد3صفحہ262)

پھر16؍اکتوبر 1909ء کو عید الفطر کے روز احباب جماعت کو خلافت سے وابستہ رہنے کی تلقین کرتے ہوئے حلفیہ اعلان فرمایا:’’خدا نے جس کام پر مجھے مقرر کیا ہے۔میں بڑے زور سے خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اب میں اس کُرتے کو ہرگز نہیں اتار سکتا۔اگر سارا جہان بھی اور تم بھی میرے مخالف ہوجاؤ تو میں تمہاری بالکل پرواہ نہیں کرتا اور نہ کروں گا…تم معاہدہ کا حق پورا کرو۔پھر دیکھو کس قدر ترقی کرتے ہو اور کیسے کامیاب ہوتے ہو…جو کچھ میں کہتا ہوں تمہارے بھلے کی کہتا ہوں۔اللہ تعالیٰ مجھے اور تمہیں راہ ہدایت پر قائم رکھے اور خاتمہ بالخیر کرے۔آمین۔‘‘(تاریخ احمدیت جلد3صفحہ271)

جھوٹے مدعیان کا خروج

حضرت ابوبکر صدیقؓ کے دَورخلافت کی طرح حضرت خلیفة المسیح الاولؓ کے زمانے میں بھی بعض لوگوں نے قدرت ثانی،خلیفة المسیح،مصلح موعود اور رسول ہونے کا جھوٹادعویٰ کیا۔جن میں مولوی یار محمد،عبداللہ تیماپوری،ظہیر الدین اروپی وغیرہ شامل تھے۔مولوی عبد اللہ تیماپوری نے اپنے آپ کو خلیفة المسیح ہونے کا دعویٰ کیا۔حضرت خلیفة المسیح الاوّلؓ نے اسے خط لکھ کر اس کی راہنمائی فرمائی کہ ایک وقت میں دو خلیفہ نہیں ہوسکتے اور ابو داؤد کی ایک حدیث کا حوالہ دے کر بتایا کہ اس حدیث سے ظاہر ہوتا ہے کہ جو دوسرا شخص مدعی خلافت ہووہ قتل کیا جانا چاہیے۔(تاریخ احمدیت جلد3 صفحہ319)

جماعت احمدیہ اور امن عالم

امن عالم کا قیام جماعت احمدیہ کابنیادی نصب العین ہے۔آنحضرتﷺنے آخری زمانے میں آنے والے امام کا ایک اہم ترین کام یہ بیان فرمایا تھا کہ وہ جنگ وجدال کا خاتمہ کردے گا۔

حضرت بانی جماعت احمدیہ مسیح موعودؑ نے امن عالم کے حوالے سے دنیا کے سامنے ایک زریں اصول بیان فرمایا:’’پس یہ اصول نہایت پیارا اور امن بخش اور صلح کاری کی بنیاد ڈالنے والا اور اخلاقی حالتوں کو مدد دینے والا ہے کہ ہم ان تمام نبیوں کو سچا سمجھ لیں جو دنیا میں آئے۔ خواہ ہند میں ظاہر ہوئے یا فارس میں یا چین میں یا کسی اور ملک میں اور خدا نے کروڑہا دلوں میں ان کی عزت اور عظمت بٹھادی اور ان کے مذہب کی جڑ قائم کردی۔ اور کئی صدیوں تک وہ مذہب چلاآیا۔ یہی اصول ہے جو قرآن نے ہمیں سکھلایا۔ اسی اصول کے لحاظ سے ہم ہر ایک مذہب کے پیشوا کو جن کی سوانح اس تعریف کے نیچے آگئی ہیں عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں گو وہ ہندوؤں کے مذہب کے پیشوا ہوں یا فارسیوں کے مذہب کے یا چینیوں کے مذہب کے یا یہودیوں کے مذہب کے یا عیسائیوں کے مذہب کے۔‘‘(تحفۂ قیصریہ، روحانی خزائن جلد 12صفحہ 259)

اس شاندار اصول پر اگر آج بھی دنیا قائم ہوجائے تو دنیا کے ایک بڑے حصہ میں امن اور صلح کی فصلیں پھولیں گی اور دنیاسے فتنہ وفسادکا قلع قمع ہوگا۔حضرت اقدس مسیح موعودؑ کو امن عالم کی اس قدر فکر تھی کہ آپؑ نے اپنی وفات سے صرف دو دن پہلے اپنی تحریرفرمودہ کتاب میں ہندوستان کی دو بڑی قوموں مسلمان اور ہندوؤں کو امن و صلح کا یہ پیغام دیاکہ باوجود مذہبی اختلاف کے ہم سب انسان ہیں۔ آپؑ نے فرمایا:’’ہمارا فرض ہے کہ صفائے سینہ اور نیک نیتی کے ساتھ ایک دوسرے کے رفیق بن جائیں اور دین و دنیا کی مشکلات میں ایک دوسرے کی ہمدردی کریں اور ایسی ہمدردی کریں کہ گویا ایک دوسرے کے اعضاء بن جائیں۔‘‘(پیغامِ صلح، روحانی خزائن جلد23صفحہ439)

خلافت اولیٰ میں قیام امن عالم کی مساعی

حضرت مسیح موعودؑ نے امن عالم کے لیے جو بابرکت مساعی فرمائیں۔ 1908ء میںآپ کی وفات کے بعد آپؑ کے خلفاءنے بھی یہ سلسلہ جاری رکھا اور الحمدللہ یہ سلسلہ خلافت خامسہ میں بھی جاری وساری ہے۔سورة النور میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے خلافت کے وعدہ کے ساتھ یہ خوشخبری بھی دی:وَلَیُبَدِّلَنَّہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ خَوۡفِہِمۡ اَمۡنًا(النور:56) کہ اللہ تعالیٰ اُن کے خوف امن میں بدل دے گا۔

خلفائے حضرت مسیح موعودؑ کے بابرکت ادوار میں آیت استخلاف کی یہ عظیم الشان پیشگوئی بخوبی پوری ہوتی نظر آتی ہے۔ہمدردیٔ خلق اور حقوق العبادکے بارے میں کہیں یہ برگزیدہ وجود بادشاہوں اور حکامِ وقت کی راہنمائی فرمارہے ہوتے ہیں توکہیں ملکوں کے قانون ساز اداروں اورپارلیمانوں میں خطاب کے ذریعہ اقوامِ عالم کو ظلم سے روکنے اور ہدایت کی طرف گامزن کرنے کےلیے کوشاں ہیں۔کبھی اپنے خطبات میں مسلمانوں کو اصلاح اور آئندہ کے لائحہ عمل کی بابت آگاہی فراہم فرماتے ہیں تو کہیں اپنے خطوط کے ذریعہ اسی امن کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے میں ہمہ تن مصروف ہیں۔خلفائے احمدیت کا مطمح نظر بس یہی رہا ہے کہ خدا کی مخلوق کو امن وسکون نصیب ہو اور ان کے دکھوں کا مداوا ہو۔ان پہ مسلط کردہ جنگوں کا اختتام ہو اور انہیں سکون کی گھڑیاں نصیب ہوں۔ان کے آفات و مصائب امن و سکون سے بدل جائیں،ان کی زندگیاں مشکلات کی پگڈنڈیوں سے نکل کر خوشحالی کی شاہراہ پہ گامزن ہوں۔

حضرت مسیح موعودؑ کی رحلت کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ مسند خلافت پہ متمکن ہوئے اور حضرت مسیح موعودؑ کے مشن کو جاری رکھا۔آپؓ نے دنیا کی ترقی اورخوشحالی کا سربستہ راز بیان کرتے ہوئےفرمایا:’’تم امن پسند جماعت بنو‘‘ دنیا کا کام امن پر موقوف ہے۔اور اگر امن دنیا میں قائم نہ ر ہے تو کوئی کام نہیں ہوسکتا۔ جس قدر امن ہوگا۔اسی قدر اسلام ترقی کرے گا۔اس لئے ہمارے نبی کریمﷺ امن کے ہمیشہ حامی رہے۔آپ نے طوائف الملوکی میں جو مکہ معظمہ میں تھی اور عیسائی سلطنت کے تحت جو حبشہ میں تھی۔ہم کویہ تعلیم دی کہ غیر مسلم سلطنت کے ماتحت کس طرح زندگی بسر کرنی چاہیے۔ اس زندگی کے فرائض سے ’’امن‘‘ہے۔اگر امن نہ ہوتو کسی طرح کا کوئی کام دین و دنیا کا ہم عمدگی سے نہیں کر سکتے۔ اس واسطے میں تاکید کرتا ہوں کہ امن بڑھانے کی کوشش کرو اور امن کےلئے طاقت کی ضرورت ہے۔ وہ گورنمنٹ کے پاس ہے۔ میں خوشامد سے نہیں بلکہ حق پہنچانے کی نیت سے کہتا ہوں کہ تم امن پسند جماعت بنو تا تمہاری ترقی ہو اور تم چین سے زندگی بسر کرو۔اس کا بدلہ مخلوق سے مت مانگو۔ اللہ سے اس کا بدلہ مانگو۔ اور یاد رکھو کہ بلا امن کوئی مذہب نہیں پھیلتا اور نہ پُھول سکتا ہے۔‘‘(حقائق الفرقان جلد 4صفحہ453تا454)

(جاری ہے)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button