مضامین

عظمت خلافت اور اس کی اطاعت کی ضرورت

(’ایچ ایم طارق‘)

اللہ تعالیٰ نے رسولوں کے وجود کو ظلی طور ہمیشہ کے لئے قائم رکھنے کی خاطر خلافت کو تجویز کیا تا دنیا کبھی اور کسی زمانہ میں برکات رسالت سے محروم نہ رہے

منصب خلافت

خلافت کا لفظ قرآن شریف میں نبی یا اس کے جانشین کے روحانی منصب کے لیے استعمال ہوا ہے۔چونکہ اس روحانی منصب کےحامل بعض خلفاء کو نبوت کے ساتھ بادشاہت بھی عطاہوئی جیسے حضرت داودؑ نبی اللہ کو فرمایا کہ اےداؤد!ہم نےتمہیں زمین میں خلیفہ بنایا ہے۔(ص:27) یعنی خلیفۃ اللہ اورصفات الٰہیہ سے متصف۔ اس خلافت کو بادشاہت سے تعبیر کیا جانے لگا، حالانکہ محض بادشاہت کے لیے لفظ خلیفہ کہیں بھی استعمال نہیں ہوا۔اس کے باوجود حیرت ہے کہ دَور حاضر کے بعض علماء خلافت کو محض بادشاہت سے تعبیر کرتے ہیں۔حالانکہ حضرت آدم ؑمحض روحانی خلیفہ اور نبی تھے،دنیوی بادشاہ نہ تھے۔اسی طرح خلفائے راشدین رسول اللہؐ کی نیابت میں روحانی امامت اور دنیوی بادشاہت دونوں منصب رکھتے تھے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام خلیفہ کےمعنی بیان کرتے ہوئےفرماتے ہیں:’’خلیفہ کا معنے جانشین کے ہیں جو تجدید دین کرے۔ نبیوں کے زمانہ کے بعد جو تاریکی پھیل جاتی ہے۔ اس کو دور کرنے کے واسطے جو ان کی جگہ آتے ہیں۔ انہیں خلیفہ کہتے ہیں۔‘‘(ملفوظات جلد 2صفحہ 666ایڈیشن1988ء)

دراصل کسی بھی خلیفہ یا جانشین کا مقام اس کے متبوع کے مقام سے ہی جانچا جاتا ہے جس کا وہ نائب ہو۔اس لیے نبی کے خلیفہ کو اپنے متبوع کے کمالات سے حصہ دیا جاتا ہے۔ حضرت بانی جماعت احمدیہ ؑنے یہی مضمون بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے رسولوں کے وجود کو ظلی طور پرہمیشہ کے لیے قائم رکھنے کی خاطر خلافت کو تجویز کیا تا دنیا کبھی اور کسی زمانہ میں برکات رسالت سے محروم نہ رہے۔(ماخوذاز شہادۃ القرآن جلد 6صفحہ 353)

خلفاء کےروحانی منصب کےبارےیہ موقف جماعت احمدیہ کا کوئی نیا نظریہ نہیں بلکہ بزرگان سلف اسے بیان کرتے چلے آئے۔چنانچہ حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی فرماتے ہیں:’’خلیفہ وہ ہے جو نبی کی شریعت کو لوگوں میں جاری کرے اور اس کے ہاتھ پر خدا کے وہ وعدے جو اس کے نبی کے ساتھ تھے پورے ہوں۔‘‘(ازالۃ الخفاءعن خلافةالخلفاءجلد اول مترجم صفحہ198)

(ii)۔’’انبیاء علیہم السلام کے نفوس قدسیہ نہایت صاف اور اعلیٰ فطرت پر پیداکئے گئے ہیں اور وہ اسی صفائی اور علو فطرت کی وجہ سے حکمت الٰہی میں نزول وحی کے مستحق ہوئے ہیں اور عالم کی ریاست ان کو تفویض ہوئی ہے۔…اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے اَللّٰہُ اَعلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَہٗ اللہ زیادہ جانتا ہے جس(نفس) میں اپنی رسالت رکھتاہے۔ اور امت میں کچھ ایسے لوگ ہوتے ہیں جن کاجوہرِ نفس (صفائی اور علو فطرت میں)انبیاء کے جوہر نفوس کے قریب پیدا کیا جاتا ہے۔ یہ لوگ اصل فطر ت کے اعتبار سے امت میںانبیاء کے خلیفہ ہوتے ہیں۔ …یہ لوگ جو خلاصہ امت ہیں پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے نفس قدسی سے ایسا اثر پذیر ہوتے ہیں جو دوسروں کو میسر نہیں ہوسکتا۔‘‘(ازالۃ الخفاءعن خلافةالخلفاءمترجم جلد اول صفحہ 38)

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کے پوتے اور حضرت سید احمد صاحب بریلوی ؒ کے دست راست حضرت شاہ محمد اسماعیل شہیدؒ(متوفی 1246ھ) فرماتے ہیں:’’خلیفہ راشد نبی کے حکم میں ہے ہر چند کہ وہ فی الحقیقت رسالت کے مرتبہ تک نہیں پہنچتا۔ لیکن منصب خلافت پر انبیاء اللہ کے ہی بعض احکام جاری ہوتے ہیں۔‘‘(منصب امامت شائع کردہ گوشۂ ادب ملتان صفحہ 62تا63)

حضرت مسیح موعودؑ نےیہ بھی حقیقت واضح فرمائی:’’خلیفہ جانشین کو کہتے ہیں اور رسول کا جانشین حقیقی معنوں کے لحاظ سے وہی ہوسکتاہے جو ظلی طور پر رسول کے کمالات اپنے اندر رکھتا ہو اس واسطے رسول کریمؐ نے نہ چاہا کہ ظالم بادشاہوں پر خلیفہ کا لفظ اطلاق ہو کیونکہ خلیفہ در حقیقت رسول کا ظل ہوتاہے‘‘۔(شہادۃ القرآن، روحانی خزائن جلد 6صفحہ 353)

خلفاء کے کام

خلیفہ یا جانشین کا مقام و منصب اپنے متبوع کے کاموں کی تکمیل کی ذمہ داری سے بھی شناخت کیا جاسکتاہے۔ رسول کریمؐ کے چاربڑے کام بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:ہُوَ الَّذِیۡ بَعَثَ فِی الۡاُمِّیّٖنَ رَسُوۡلًا مِّنۡہُمۡ یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِہٖ وَیُزَکِّیۡہِمۡ وَیُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَالۡحِکۡمَۃَ ٭ وَاِنۡ کَانُوۡا مِنۡ قَبۡلُ لَفِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍ۔(الجمعۃ :3) کہ وہی ہے جس نے اُمّی لوگوں میں انہی میں سے ایک عظیم رسول مبعو ث کیا۔ وہ ان پر اس کی آیات کی تلاوت کرتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب کی اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے جبکہ اس سے پہلے وہ یقیناً کھلی گمراہی میں تھے۔

یہی چارکام آپؐ کے خلفائے راشدین کے تھے جن کی خلافت کو آپ نے خلافت علیٰ منہاج النبوت کا نام دیا اور ان خلفاء کی اطاعت اور سنت پر عملدآمد کی تاکیدی ہدایت فرمائی۔

نبیؐ کے انہی بقیہ کاموں کی تکمیل کےلیے اسی اولوالعزم انسان کو الٰہی منشاء کے مطابق بطور خلیفہ مامور کیا جاتا ہے جس میں ان کاموں کی اعلیٰ صلاحیت و استعداد موجود ہو۔ چنانچہ خلیفہ کے انتخاب کے بعد وہ استعداد اپنی شان کے ساتھ جلوہ گرہوتی ہے۔ اور وہ وجودجوخدا کی ہستی اور توحید پر کامل یقین و ایمان رکھتا ہے ’’تلاوت آیات‘‘کا فریضہ ادا کرتے ہوئے دنیا کو بھی اس ایمان پر قائم کرتا ہے۔ اسی طرح وہی برگزیدہ وجود جو خود شریعت پر قائم اور عامل ہوتا ہے اللہ کی طرف سے مسند خلافت پر بٹھایا جاتا ہے جو تعلیم کتاب کی ذمہ داری ادا کرکے دوسروں کو شریعت سکھاتا اور اس کا عامل بناتا ہے اوراللہ تعالیٰ سے راہنمائی اور عرفان پاکر تعلیم حکمت کی خدمت بھی انجام دیتا اور اس کی دینی حکمتوں سے لوگوں کوباخبر کرتا ہے۔ اور چونکہ وہ خود تقویٰ اور تزکیہ کے اعلیٰ مقام پر فائز ہوتا ہے اس لیے خدائی منشا سے دنیا کے تزکیہ کےلیے مقرر کیاجاتا ہے۔ یہ تزکیہ وہ اپنی نصیحت اور پاک نمونہ کے ذریعہ بھی کرتا ہے اور اپنی مقبول دعاؤں سے بھی۔ اور اس طرح قوم کو گناہوں سے بچاتا اور نیکی اور اخلاص میں ان کو بڑھاتاہے۔

سیدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ خلفاء کے کام بیان کرتے ہوئےفرماتے ہیں:’’یہی چار مقاصد خلافت اسلامی کے فرائض سے بھی تعلق رکھتے ہیں۔یعنی دلائل سکھانا۔ خدا کی باتیں لوگوں کو بتانا۔شریعت سکھانا، ایمان تازہ کرنے کےلئے قرآن کریم کے احکام اور ان کی حکمتیں بتانا۔ جسمانی و قلبی طہارت پیدا کرنے کی کوشش کرنا…یہی وہ کام ہیں جن کےلئے اسلام نبوت خلافت اور امامت قائم کرتا ہے۔ پس نبی کا بھی اور پھر اس کے بعد خلفاء اور ان کے تابعین کا بھی یہی کام ہوتا ہے۔‘‘(تفسیر کبیرجلد دوم صفحہ195تا196)

خلافت و امامت کی روحانی عظمت

اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں خلافت اور امامت کو خاص اپنی طرف نسبت دی ہے کہ میں خلیفہ اور امام بناتا ہوں۔ اس سے خلافت کا مقام اور روحانی عظمت مقصود ہے جو عام بادشاہوں کو عطا نہیں کی جاتی۔جس طرح قرآن شریف میں بد رکے موقع پر نبی کریم ؐ کے دشمن پرکنکریاں پھینکنے کو اللہ کی طرف منسوب کیا گیاہے اس مثال کا ذکر کرکے شاہ ولی اللہ صاحب لکھتے ہیں :’’خلیفہ بنانے کی نسبت اپنی طرف خلفاء کی کمال بزرگی ظاہر کرنے کےلئے اور اس امر کے ظاہر کرنے کےلئے کہ یہ استخلاف ایک بڑی نعمت اور درحقیقت ایک بڑی مضبوط چیز ہے۔‘‘(ازالۃ الخفاءعن خلافةالخلفاءمترجم جلد اول صفحہ 78)

حضرت مسیح موعودؑ نے اپنی معرکہ آراء تصنیف’’ضرورۃ الامام‘‘ میں نبوت و امامت کے روحانی مقام کے بارے میں جو لطیف نکات بیان کیے ہیں ان کا حاصل مختصراً خودیہاںحضور کے الفاظ میں پیش کرنامناسب ہوگا:

٭…’’خدا تعالیٰ نے…سلسلہ نبوت اور امامت قائم کیا ہے کہ تا امت محمدیہ میں روحانی تعلقات پیدا ہوجائیں اور بعض بعض کے شفیع ہوں…امام الزمان اس شخص کا نام ہے کہ جس شخص کی روحانی تربیت کا خداتعالیٰ متولی ہوکر اس کی فطرت میں…امامت کی روشنی رکھ دیتا ہے…وہ روحانی طور پر محمدیؐ فوجوں کا سپہ سالار ہوتاہے اور خدا تعالیٰ کا ارادہ ہوتا ہے کہ اس کے ہاتھ پر دین کی دوبارہ فتح کرے اور وہ تمام لوگ جو اس کے جھنڈے کے نیچے آتے ہیں ان کو بھی اعلیٰ درجہ کے قویٰ بخشے جاتے ہیں …اسی طرح ان نفوس میں جن کی نسبت خداتعالیٰ کے ازلی علم میں یہ ہے کہ ان سے امامت کا کام لیا جاوے گا منصب امامت کے مناسب حال کئی روحانی ملکے پہلے سے رکھے جاتے ہیں۔ اور جن لیاقتوں کی آئندہ ضرورت پڑے گی۔ ان تمام لیاقتوں کا بیج ان کی پاک سرشت میں بویا جاتا ہے۔‘‘(ضرورۃ الامام،روحانی خزائن جلد 13صفحہ 476تا 478)

٭…حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے اماموں کےلیے درج ذیل چھ قوتوں کا ہونا ضروری قرار دیا ہے جن سے خلیفہ وامام کا بلند ورحانی مقام ظاہر و باہر ہے:’’اوّل۔ قوت اخلاق…ان میں اعلیٰ درجہ کی اخلاقی قوت کا ہونا ضروری ہے۔…

دوم۔ قوت امامت…یعنی نیک باتوں اور نیک اعمال اور تمام الٰہی معارف اور محبت الٰہی میں آگے بڑھنے کا شوق یعنی روح اس کی کسی نقصان کو پسند نہ کرے اورکسی حالت ناقصہ پر راضی نہ ہو…غرض…امامت ایک قوت ہے کہ اس شخص کے جوہر فطرت میں رکھی جاتی ہے جو اس کام کےلئے ارادہ الٰہی میں ہوتاہے۔

تیسری قوت بسطت فی العلم ہے…اسی لئے خداتعالیٰ کے فضل سے علوم الہٰیہ میں ا س کو بسطت عنایت کی جاتی ہے اور اس کے زمانہ میں کوئی دوسرا ایسا نہیں ہوتا جو قرآنی معارف کے جاننے اور کمالات افاضہ اور اتمام حجت میں اس کے برابر ہو۔ اس کی رائےصائب دوسروں کے علوم کی تصحیح کرتی ہے اور اگر دینی حقائق کے بیان میں کسی کی رائے اس کی رائے کے مخالف ہو تو حق اس کی طرف ہوتا ہے کیونکہ علوم حقہ کے جاننے میں نور فراست اس کی مدد کرتا ہے۔ اور وہ نور ان چمکتی ہوئی شعاعوں کے ساتھ دوسروں کو نہیں دیا جاتا…۔

چوتھی قوت عزم ہے جو امام الزمان کیلئے ضروری ہے اور عزم سے مراد یہ ہے کہ کسی حالت میں نہ تھکنا اور نہ نو مید ہونا اور نہ ارادہ میں سست ہوجانا۔…

پانچویں قوت اقبال علی اللہ ہے…اور امام الزمان کا اقبال علی اللہ یعنی اس کی توجہ الی اللہ تمام اولیاء اللہ کی نسبت زیادہ تر تیز اور سریع الاثر ہوتی ہے۔…

چھٹے کشوف اور الہامات کا سلسلہ ہے….امام الزمان اکثر بذریعہ الہامات کے خدا تعالیٰ سے علوم اور حقائق اورمعارف پاتاہے۔‘‘(ضرورۃ الامام،روحانی خزائن جلد 13صفحہ 478تا483)

٭…’’امام الزمان اپنی جبلّت میں قوت امامت رکھتا ہے اور دست قدرت نے اس کے اندر پیشروی کا خاصہ پھونکا ہوا ہوتا ہے۔ اور یہ سنت اللہ ہے کہ وہ انسانوں کو متفرق طور پر چھوڑنا نہیں چاہتا۔ بلکہ جیسا کہ اس نے نظام شمسی میں بہت سے ستاروں کو داخل کرکے سورج کواس نظام کی بادشاہی بخشی ہے۔ ایسا ہی وہ عام مومنوں کو ستاروں کی طرح حسب مراتب روشنی بخش کر امام الزمان کوان کا سورج قرار دیتا ہے…‘‘(ضرورۃ الامام روحانی خزائن جلد13صفحہ 493تا495)

خلیفہ کا مقام بیان کرتے ہوئےحضرت شاہ اسماعیل شہید فرماتے ہیں:’’خلیفہ خدائے رب العالمین کا سایہ اور انبیاء مرسلین کاہمسایہ ہے کیونکہ وہ ترقی دین کا سرمایہ اور خدا تعالیٰ کے مقرب فرشتوں کا ہم مرتبہ ہے۔ وہ دائرہ امکان کامرکز، جمیع کا ئنات عالم کی جائے فخر اور اہل عرفان کا افسر ہے۔ وہ افراد انسانی کا سر دفترہے اس کا دل خدائے رحمٰن کی تجلی کا عرش اور اس کا سینہ رحمت کا ایک بیکراں سمند ر ہے۔ اس کا اقبال خدا تعالیٰ کے جلال کاپر تو اور اس کی مقبولیت جمال ربانی کا عکس ہے۔ اس کا قہر قضاو قدر کی تلوار اور اس کا کرم منبع عطا ہے۔ اس کا مقابلہ خدا تعالیٰ کی تقدیر کا مقابلہ اور اس کی مخالفت رب قدیر کی مخالفت ہے۔ ہر کمال جوا س کی خدمت گزاری میں خرچ نہ ہو پر خلل خیال ہے اور ہر علم جو اس کی عظمت و شان کے بیان کے کام نہ آئے سراسر باطل اور محال وہم ہے۔ ہر صاحب کمال جو اپنا موازنہ اس کے ساتھ کرنا چاہے وہ خدا تعالیٰ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کی راہ پر چلتا ہے۔‘‘(منصب امامت شائع کردہ گوشۂ ادب ملتان صفحہ 62تا63)

اطاعت خلافت

خلیفہ کے تقرر میں خدائی ہاتھ کا ہونا اس کی ذمہ داریوں اور 4روحانی مقام ومنصب کا تقاضا ہے کہ دینی و دنیاوی برکات کے حصول کےلیے ایسے مقدس وجود کی اطاعت کو حرز جان بنایا جائے۔

آیت استخلاف کے آخر میں یہ تہدیدوانذارموجودہے کہ خلفاء کا انکار کرنے والے نافرمان اور عہد شکنی کے مرتکب ہوںگے۔ رسول کریمؐ نے آخری زمانے کے فتنہ و فساد کے وقت جہاں امت کو خلافت علیٰ منہاج النبوت کی خبر دی وہاں وقت کے خلیفہ کی دل و جان سے اطاعت کرنے کی بھی پرزور تاکید فرمائی۔

حضرت حذیفہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریمؐ کے صحابہ تو آپؐ سے خیر کے بارے دریافت کرتے تھے اور میں آ پ سے شر کے بارے میں سوال کرتا تھا۔ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسولؐ! کیا اس خیر کے بعد بھی شرّ ہوگا جیسا کہ اس سے پہلے شرتھا۔ آپؐ نے فرمایا:ہاں۔ میں نے عرض کیاپھر اس سے بچاؤ کیسے ہوگا؟ راوی کہتے ہیں میرا خیال ہے آپؐ نے فرمایاتلوار سے (دفاع)پھر اختلاف اور فساد پر صلح، پھر گمراہی کی دعوت دینے والے ہوںگے پھر فرمایا:’’فَاِن رَأَیْتَ یَومَئِذٍ خَلِیْفَۃَ اللّٰہِ فِی الْاَرْضِ فَالْزَمْہُ وَاِنْ نُھِکَ جِسْمُکَ واُخِذَ مَالُکَ‘‘(مسند احمد حنبل جلد5صفحہ 403مطبوعہ بیروت)اگر تم اس دن زمین پر اللہ کا خلیفہ دیکھو تو اس سے چمٹ جانا خواہ(اس حال میں) تیرا جسم لاغر ہو جائے اور تیرے مال پر قبضہ کر لیا جائے اور اگر اس (خلیفہ) کونہ پاؤ تو زمین میں (نکل)بھاگوخواہ (اس راہ میں)موت آجائے اور تمہیں درخت کی جڑیں چبا چبا کر گزارہ کرنا پڑے۔

خلفاء کی اطاعت کی تلقین کرتے ہوئے حضرت شاہ محمد اسماعیل شہیدؒ(متوفی 1246ھ) فرماتے ہیں:’’اہل کمال کی علامت یہی ہے کہ وہ اس(خلیفہ) کی خدمت میں مشغول رہیں اور اس کی اطاعت میں اپنے آپ کو لگائے رکھیں۔ اس کے ساتھ برابری کے دعویٰ سے دستبردار رہیں۔ اور اسے رسول کی جگہ سمجھیں…منصب خلافت پر انبیاء اللہ کے ہی بعض احکام جاری ہوتے ہیں…ان میں سے ایک تو یہ ہے کہ اخروی نجات اس کی اطاعت پر موقوف ہے یعنی خواہ کوئی شخص ہزار وجہ معرفت الٰہیہ کے حصول اور اصلاح نفس کے سلسلہ میں اپنی پوری کوشش کرے لیکن جب تک وہ رسولوں پر ایمان نہیں لائے گا نجات اخروی اس کے ہاتھ ہرگز نہیں آئے گی۔ اور خدائے جبار کے غضب اور جہنم کی آگ سے غلامی حاصل نہیں کر سکے گا۔ پھر ہر چند کہ کوئی شخص عبادات شرعیہ اور اطاعات دینیہ بجا لائے اور احکام اسلام پر عمل پیرا ہونے میں اپنی پوری کوشش خرچ کرے۔ جب تک کہ وہ امام وقت کی اطاعت میں گردن نہیں جھکائے گا اور اس کی امامت کا اقرار نہیں کرے گا اس وقت تک اس کی عبادت آخر ت میں کام نہیں آئےگی۔ اور وہ خدا تعالیٰ کی گرفت سے بچ نہیں سکے گا…نبی کریمؐ نے فرمایا جو شخص اس حالت میں مرتا ہے کہ امام وقت کی بیعت کا قلادہ اس کی گردن میں نہیں ہوتا وہ جاہلیت کی موت مرتا ہے۔ اور ان احکام میں سے ایک حکم یہ ہے کہ شرعی عبادات اس کے حکم پر موقوف ہیں یعنی اگر عبادات دینیہ اورا طاعات شرعیہ اس کی سنت کے مطابق ہیں تو وہ مقبول ہیں ورنہ مردود اور یہ کہ نماز جمعہ نماز عیدین، اسلام کی حدیں اور سزائیں سب کی سب امام کے حکم پر موقوف ہیں۔ رسول کریمؐ نے فرمایا ہے کہ امام ایک ڈھال ہے جس کے پیچھے رہ کر دشمن سے لڑا جاتا ہے اور اس سے اپنا بچاؤ کیا جاتا ہے۔‘‘(منصب امامت شائع کردہ گو شۂ ادب ملتان صفحہ 62تا63)

حکم عدل حضرت مسیح موعودؑ امام وقت کی اطاعت کی نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’اللہ جل شانہ فرماتا ہے اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُولَ وَ اُولِی الْاَمرِ مِنْکُمْ(النساء:60)اُولِی الْاَمر سے مراد جسمانی طور پر بادشاہ اور روحانی طور پر امام الزمان ہے…امام الزمان کے لفظ میں نبی، رسول، محدث،مجدد سب داخل ہیں۔ مگر جو لوگ ارشاد اور ہدایت خلق اللہ کےلئے مامور نہیں ہوئے اور نہ وہ کمالات ان کو دیئے گئے وہ گو ولی ہوں یا ابدال ہوں۔ امام الزماں نہیں کہلا سکتے‘‘(ضرورۃ الامام، روحانی خزائن جلد13صفحہ 493تا495)

سیدنا حضرت المصلح الموعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:’’جو جماعتیں منظم ہوتی ہیں ان پر کچھ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں اور کچھ شرائط کی پابندی کرنی ان کے لئے لازمی ہوتی جن کے بغیر ان کے کام کبھی بھی صحیح طور پر نہیں چل سکتے…ان شرائط اور ذمہ داریوں میں سے ایک اہم شرط اورذمہ داری یہ ہے کہ جب وہ ایک امام کے ہاتھ پر بیعت کر چکے اور اس کی اطاعت کا اقرار کر چکےتوپھر انہیں امام کے منہ کی طرف دیکھتے رہنا چاہئے کہ وہ کیا کہتا ہے اور اس کے قدم اٹھانے کے بعد اپنا قدم اٹھانا چاہئے اور افراد کو کبھی بھی ایسے کاموں میں حصہ نہیں لینا چاہئے جن کے نتائج ساری جماعت پر آکر پڑتے ہوں کیونکہ پھر امام کی ضرورت اور حاجت ہی نہیں رہے گی۔‘‘(الفضل 5؍جون 1937ءصفحہ 1۔2)

اسی طرح آپؓ نے فرمایا:’’خلافت بھی چونکہ ایک بھاری انعام ہے اس لئے یاد رکھو جو لوگ اس نعمت کی ناشکری کریں گے وہ فاسق ہو جائیں گے…فسق کا فتویٰ انسان پراسی صورت میں لگ سکتا ہے جب وہ روحانی خلفاء کی اطاعت سے انکار کرے۔‘‘(تفسیر کبیرجلد 6صفحہ 370تا374)

اللہ تعالیٰ کا فضل و احسان ہے کہ اس نے ہمیں امام الزمان کی خلافت علیٰ منہاج النبوت سے وابستہ ہونے کی توفیق عطا فرمائی۔اللہ تعالیٰ ہمیں اور ہماری نسلوں کو بھی خلافت کی عظمت و مقام کوسمجھنے، اس کے کما حقہ ادب کا پاس کرنے اور کامل اخلاص و وفا سے اطاعت کی توفیق عطا فرمائے اور خلافت کی جملہ برکات سے متمتع فرمائے۔ آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button