متفرق مضامین

1900ء کی عید الاضحی اورخطبہ الہامیہ کا نشان

(ابو حمدانؔ)

’’پس یہ وہ عظیم الشان نشان ہے، یہ عظیم الشان الفاظ ہیں، یہ دعوت ہے جو اللہ تعالیٰ کے حکم سے آپ نے دی۔ اللہ تعالیٰ کے الہام سے آپ نے دنیا کو دی اور یہ نشان 11؍اپریل 1900ء کو ظہور میں آیا، آج تک اپنی چمک دکھلا رہا ہے اور آج تک کوئی ماہر سے ماہر زبان دان اور بڑے سے بڑا عالم اور ادیب بھی چاہے وہ عرب کا رہنے والا ہے اس کا مقابلہ نہیں کر سکا۔ اور کس طرح یہ مقابلہ ہو سکتا ہے۔ یہ تو خدا تعالیٰ کا کلام تھا جو آپ علیہ السلام کی زبان سے ادا ہوا۔‘‘(حضرت خلیفۃ المسیح الخامس)

سنہ 1900ء کی عید الاضحی اپنے اندر ایک عظیم الشان نشان رکھتی ہے۔ جس میں خداتعالیٰ کے مامور نے الہامی وعظ کے ذریعہ اپنے متبعین کو عید کا تحفہ عنایت کیا۔ اور قربانی کے فلسفہ اور حقیقت پر روشنی ڈالی۔ خداتعالیٰ سینکڑوں لوگوں کو خاص فضل فرماتے ہوئے عین اس عظیم الشان نشان کے موقع پر قادیان لے آیا۔ چنانچہ ان خوش قسمت احباب کی تعداد تین سو سے زائد تھی جو سیالکوٹ ، امرتسر، بٹالہ ، لاہور، وزیر آباد، جموں ، پشاور، گجرات ، جہلم ، راولپنڈی، کپورتھلہ، لودھیانہ ، پٹیالہ، بمبئی ، لکھنؤ ، سنور اور دیگر مقامات سے آئے تھے۔(ماخوذ ازتاریخ احمدیت جلد 2 صفحہ 83)

یہ لوگ اپنی دانست میں تو محض مسیح محمدیؑ کے ساتھ عید گزارنے آئے تھے ، بعدازاں اس عظیم الشان نشان کے عینی شاہد ہونے کے ناطے وہ خود بھی اورآج تک ان کے خاندان بھی اسے باعث اعزاز گردانتے آئے ہیں۔

یہ نشان اپنی ذات میں ایک خارق عادت اور معجزہ سے کم نہ تھا کہ ایک غیر مستعمل اور روزمرہ سے ہٹ کر ایک مختلف زبان میں انتہائی فصیح وبلیغ کلام کیا گیااور کلام بھی ایسا کہ جس کی بابت خداتعالی نے خود الہاماً یہ تصریح بھی فرمادی کہ تمہیں اس کی قوت عنایت کی گئی ہے۔نیز فرمایا’’ کَلَامٌ اُفْصِحَتْ مِنْ لَّدُنْ رَّبٍّ کَرِیْمٍ‘‘یعنی اس کلام میں خدا کی طرف سے فصاحت بخشی گئی ہے۔(حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد 22صفحہ375تا376)

اس امر کی بابت حضور علیہ السلام نے اپنے بعض اصحاب کو پہلے ہی اطلاع دے دی تھی جن میں مولوی عبد الکریم صاحب اور حکیم مولوی نور الدین صاحب اور شیخ رحمت اللہ صاحب اور مفتی محمد صادق صاحب اور مولوی محمد علی صاحب ایم اے اور ماسٹر عبد الرحمن صاحب اور ماسٹر شیر علی صاحب بی۔اے اور حافظ عبد العلی صاحب وغیرہ شامل تھے۔رضوان اللہ علیہم۔(ماخوذ از حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد 22صفحہ375-376)

پس منظر

دعائیہ فہرست بھجوانے کا حکم

یوم العرفات کو علی الصبح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بذریعہ ایک خط کے حضرت مولانا نور الدین صاحب ؓکو اطلاع دی:’’میں آج کا دن اور رات کا کسی قدر حصہ اپنے اور اپنے دوستوں کے لیے دعا میں گزارنا چاہتا ہوں،اس لیے وہ دوست جو یہاں پر موجود ہیں۔اپنا نام معہ جائے سکونت لکھ کر میرے پاس بھیج دیں،تاکہ دعا کرتے وقت مجھے یاد رہے۔‘‘ (ملفوظات جلد 1 صفحہ 324۔ایڈیشن1988ء) ’’اس اعلان کا ہونا تھا کہ جہاں یکجائی فہرست میں ہر کسی نے دوسرے سے پہلے اپنا نام لکھانے کی کوشش کی وہاں فرداً فرداً بھی رقعات اور عرائض بھیجنے کی سعی کی۔ ایک فہرست حضرت مولانا مولوی نورالدین صاحب کی زیر قیادت تیار ہوئی تھی اور میرا خیال ہے کہ اسی طرح بعض دوستوں نے اور بھی دو ایک فہرستیں تیار کر کے اندر بھجوائی تھیں۔ کتنے رقعات اور عرائض فرداًفرداًحضرت کے حضور پہنچائے گئے ان کا حساب اللہ تعالیٰ کو ہے کیونکہ ہر شخص کی خواہش تھی کہ میرا عریضہ پہلے روز حضرت کے اپنے ہاتھ میں پہنچے۔ چنانچہ اس کوشش میں اس روز حضور کی ڈیوڑھی کیااور مسجد مبارک کی طرف سیڑھیاں کیا خدام سے اَٹی رہیں اور بچوں وخادمات نے بھی دوستوں کے عریضے اور خطوط پہنچانے میں جو احسان کیا وہ اپنی جگہ قابل رشک کام تھا۔‘‘(روایت حضرت بھائی عبدالرحمٰن صاحب قادیانیؓ۔سیرت المہدی جلد دوم صفحہ 365-371)

اُس زمانہ میں عیدین کے موقع پر دارالامان میں بیرونجات سے آنے والے احباب کی وجہ سے خاصی چہل پہل ہوجایا کرتی تھی اور جلسہ کا سا رنگ معلوم دیا کرتا تھا۔ رقعات اور عرائض کا سلسلہ کچھ زیادہ لمبا ہوگیا اور بچوں وخادمات کے بار بار کے جانے کی وجہ سے حضور کی توجہ الی اللہ میں خلل اورروک محسوس ہوئی تو (روایت حضرت بھائی جی عبدالرحمٰنؓ)حضورؑ نے دوبارہ اطلاع بھیجی کہ’’میرے پاس اب کوئی رقعہ وغیرہ نہ بھیجے۔اس طرح سخت ہرج ہوتا ہے۔‘‘(ملفوظات جلد 1صفحہ 324ایڈیشن1988ء)

احباب کےلیے پرسوز دعائیں

الغرض دن اونچا ہونے سے لے کر ظہر تک اور ظہر کے بعد سے عصر اور شام بلکہ عشاء کی نماز تک سیدنا حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام دروازے بندکیے دعاؤں میں مشغول اپنی جماعت کے لیے اللہ کے حضور التجائیں کرتے رہے۔ اسلام کی فتح اور خداکے نام کے جلال وجمال کے ظہور۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کی صداقت اور احیاء وغلبہ اسلام کے لیے نہ جانیں کس کس رنگ میں تنہا سوزوگداز سے دعائیں کرتے رہے اور یہ امر دعائیں کرنے والے جانتے ہیں یا جس ذات سے التجائیں کی گئیں وہ جانتا ہے۔ لوگوں نے جو کچھ سنا وہ آگے سنا دیا یا قیاس کر لیا ورنہ حقیقت یہی تھی کہ خداکا برگزیدہ جانتا تھا یا پھر خدا جس سے وہ مقدس کچھ مانگ رہا تھا۔(روایت حضرت بھائی عبدالرحمٰن صاحب قادیانیؓ سیرت المہدی جلد دوم صفحہ 365-371)

مغرب اور عشاء میں حضورؑ تشریف لائے جو جمع کر کے پڑھی گئیں۔بعد فراغت فرمایا:’’چونکہ میں خدا تعالیٰ سے وعدہ کر چکا ہوں کہ آج کا دن اور رات کا حصہ دعاوں میں گزارؤں۔ اس لیے میں جاتا ہوں تاکہ تخلفِ وعدہ نہ ہو۔‘‘یہ فرما کر حضور تشریف لے گئے اور دعاؤں میں مشغول ہو۔(ملفوظات جلد 1صفحہ 325ایڈیشن1988ء)

حضرت اقدسؑ کی اچانک علالت

حضرت اقدسؑ اچانک دورہ اسہال سے سخت بیمار ہو گئے۔ احباب جماعت کو بہت فکر تھی کہ حضرت اقدسؑ کی بیماری کی وجہ سے ہمیں حضورؑ کی صحبت اور ارشادات سے محروم نہ رہنا پڑے۔ چنانچہ رات کو حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ حضرت اقدسؑ کی عیادت اور مزاج پرسی کے واسطے جب اندر تشریف لے گئے تو انہوں نے آئے ہوئے مہمانوں کے جذبات اور اشتیاق کی ترجمانی کرتے ہوئے عرض (کر کے دریافت) کیا کہ کیا حضور کل عید پر تشریف لے جائیں گے؟اس پر حضورؑ نے فرمایا کہ مفتی صاحب۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ بیماری کے دورہ سے کس قدر ضعف ہو رہا ہے۔ اس حالت میں مَیں کس طرح جا سکتا ہوں۔ چنانچہ جب حضرت مفتی صاحبؓ نے حضرت اقدسؑ کا حال اور یہ فرمان باہر آ کر مشتاقین اور منتظرین کو سنایا تو سب پر افسردگی چھا گئی اور حضرت اقدسؑ کی صحت و عافیت کے لیے دعائیں ہونے لگ گئیں۔ رات گزر گئی۔

اگلے دن یعنی عید کی صبح کو جب حضرت مفتی صاحبؓ کو حضورؑ کی خدمت میں حاضر ہونے کا موقع ملا تو حضورؑ نے ان کو دیکھتے ہوئے نہایت خوشی کے لہجہ میں فرمایا کہ مفتی صاحب ہم نے تو کل آپ کو جواب ہی دے دیا تھا۔ لیکن خدا تعالیٰ نے آپ کی درخواست کو منظور فرما لیا ہے۔ لیکن ہمیں خدا تعالیٰ کی طرف سے الہاماً ارشاد ہوا ہے کہ اس موقع پر ہم کچھ تقریر کریں۔ سو اگرچہ اس وقت تک ہم اپنے ضعف کی وجہ سے اس قابل نہیں ہیں کہ باہر جا سکیں۔ یا کچھ سنا سکیں۔ لیکن چونکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے۔ اس لیے ہمیں یقین ہے کہ وہ اس کی طاقت اور توفیق بھی عطا کر دے گا۔(روایت حضرت قاضی ضیاء الدین صاحبؓ از حضرت مولوی عبدا للہ صاحب بوتالویؓ / اصحاب احمدجلد6صفحہ115)

حضور ؑکی طرف سے حضرت مولانا عبد الکریم صاحبؓ ، حضرت مولانا نور الدین صاحبؓ اور بعض اور احبابِ خاص کو یہ ارشاد پہنچا کہ آج ہم کچھ بولیں گے اور عربی زبان میں تقریر کریں گے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے عربی میں نطق کی خا ص قوت عطا فرمانے کا وعدہ فرمایا ہے۔ لہٰذا آپ لکھنے کا سامان لے کر مسجد چلیں۔ اس خبر سے قادیان بھر میں مسرت وانبساط کی ایک لہر دوڑ گئی اور ہماری عید کو چار چاند لگ گئے۔

شیخ رحمت اللہ صاحب کا حضورؑ کونیا لباس پیش کرنا

عید کے موقع پر اکثر شیخ رحمت اللہ صاحب مرحوم حضرتؑ کے حضور نیا لباس پیش کیا کرتے تھے اور مدت سے اُن کا یہ طریق چلا آرہا تھا۔ اس روز اس لباس کے پہنچنے میں کچھ تاخیر ہوگئی یا سیدنا حضرت اقدسؑ ہی خدا کے موعود فضل کے حصول کی سعی و کوشش میں ذرا جلد تشریف لے آئے وہ لباس پہنچا نہ تھا اور حضور تیار ہو کر مسجد کی سیڑھیوں کے رستے اتر کر مسجد اقصیٰ کو روانہ ہوگئے تھے۔ مسجد مبارک کی کوچہ بندی سے ایک یا دوقدم ہی حضور آگے بڑھے ہوں گے کہ وہ لباس حضرت کے حضور پیش ہوگیااور حضور پُر نور خلافِ عادت شیخ صاحب کی دلجوئی کے لیے واپس اَلدَّارکو لوٹے۔ اندرون بیت تشریف لے جا کر یہ لباس زیب تن فرمایا اور پھر جلد ہی واپس مسجد اقصیٰ میں پہنچ کر حسب معمول مخدومنا حضرت مولانا مولوی عبدالکریم صاحبؓ کی اقتدا میں نماز عید ایک خاصے مجمع سمیت ادا فرمائی مگر خطبہ عید حضرت اقدسؑ نے دیا۔

اردو خطبہ

حضورؑ نے پہلے اردو میں تقریر فرمائی اس وقت گاؤں کے کچھ ہندو اور آریہ بھی آ کھڑے ہوئے تھے۔ اس لیے حضورؑ نے اپنی اس تقریر میں ان کو بھی تبلیغ فرمائی۔(روایت حضرت قاضی ضیاء الدین صاحبؓ از حضرت مولوی عبدا للہ صاحب بوتالویؓ / اصحاب احمدجلد6صفحہ114)

سیرت المہدی میں مزید تفصیل اس طرح ہے کہ آخری حصے میں خصوصیت سے جماعت کو باہم اتفاق و اتحاد اور محبت و مودت پیدا کرنے کی نصائح فرمائیں اور پھر اس کے بعد حضورؑنے حضرت مولوی صاحبان کو خاص طور سے قریب بیٹھ کر لکھنے کی تاکید کی اور فرمایا کہ’’اب جوکچھ میں بولوں گا وہ چونکہ ایک خاص خدائی عطا ہے لہٰذا اس کو توجہ سے لکھتے جائیں تاکہ محفوظ ہوجائے ورنہ بعد میں میں بھی نہ بتاسکوں گا کہ میں نے کیا بولا‘‘(ماحصل بالفاظ قادیانی)

چنانچہ حضرت مولانا مولوی نور الدین صاحب رضی اللہ عنہ جو دُور بیٹھے تھے اپنی جگہ سے اُٹھے اور قریب آکر سیدنا حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے دائیں جانب حضرت مولانا عبدالکریم صاحب رضی اللہ عنہ کے ساتھ بیٹھ گئے۔

مقام خطبہ

حضور اقدسؑ اس وقت اصل ابتدائی مسجد اقصیٰ کے درمیانی دروازہ کے شمالی کونہ میں ایک کرسی پر مشرق رو تشریف فرماتھے اور حاضرین کا اکثر حصہ صحن مسجد میں۔ مکرمی محترم حضرت شیخ یعقوب علی صاحب حال عرفانی کبیر اور یہ عاجز راقم بھی پنسل کاغذ لے کر لکھنے کو بیٹھے کیونکہ مجھے خدا کے فضل سے حضور کی ڈائری نویسی کا ازحد شوق تھا اور حضرت شیخ صاحب اپنے اخبار کے لیے لکھنے کے عادی ومشاق تھے۔ پہلی تقریر یعنی خطبہ عید حضور نے کھڑے ہوکر فرمائی تھی جس کے بعد حضور کے لیے خاص طور سے ایک کرسی بچھائی گئی جس پر حضور تشریف فرماہوئے۔

خطبہ الہامیہ کا آغاز

حضور پُرنور اسی کرسی پر بیٹھے گویا کسی دوسری دنیا میں چلے گئے معلوم دینے لگے۔ حضور کی نیم واچشمانِ مبارک بند تھیں اور چہرہ مبارک کچھ اس طرح منور معلوم دیتا تھا کہ انوار الٰہیہ نے ڈھانپ کر اتنا روشن اور نورانی کردیا تھا جس پر نگہ ٹک بھی نہ سکتی تھی اور پیشانی مبارک سے اتنی تیز شعاعیں نکل رہی تھیں کہ دیکھنے والی آنکھیں خیرہ ہوجاتیں۔حضور نے گونہ دھیمی مگر دلکش اور سریلی آواز میں جو کچھ بدلی ہوئی معلوم ہوتی تھی فرمایا:’’یَاعِبَادَ اللّٰہِ فَکِّرُ وْا فِی یَوْمِکُمْ ھٰذَا یَوْمَ الْاَضْحٰی۔فَاِنَّہٗ اَوْدَعَ اَسْرَارًا لِاُولِی النُّھٰی…‘‘

لکھنے والے لکھنے لگے۔ جن میں خود میں بھی ایک تھا مگر چند ہی فقرے اور شاید وہ بھی درست نہ لکھے گئے تھے، لکھنے کے بعد چھوڑ کر حضور کے چہرہ مبارک کی طرف ٹکٹکی لگائے بیٹھا اس تبتل وانقطاع کے نظارہ اور سریلی ودلوں کے اندر گھس کر کایا پلٹ دینے والی پُر کیف آواز کالطف اٹھانے لگ گیا۔ تھوڑی دیر بعد حضرت شیخ صاحب بھی لکھنا چھوڑ کر اس خدائی نشان اور کرشمہ قدرت کالطف اٹھانے میں مصروف ہوگئے۔ لکھتے رہے تو اب صرف حضرت مولوی صاحبان دونوں جن کو خاص حکم تھا کہ وہ لکھیں۔

پنسل تراشنے والے احباب

لکھنے میں پنسلیں استعمال کی جارہی تھیں جو جلد جلد گھس جاتی تھیں۔ مجھے یاد ہے کہ پنسل تراشنے اور بنا بنا کر دینے کاکام بعض دوست بڑے شوق ومحبت سے کر رہے تھے مگر نام ان میں سے مجھے کسی بھی دوست کا یاد نہ رہا تھا۔ ایک روز اس مقدس خطبہ الہامیہ کے ذکر کے دوران میں مکرم محترم حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب درد ایم اے نے بتایا کہ وہ بھی اس عید اور خطبہ الہامیہ کے نزول کے وقت موجو دتھے اوریہ کہ لکھنے والوں کو پنسلیں بنا بنا کر دیتے رہے تھے۔(روایت حضرت بھائی عبدالرحمٰن صاحب قادیانیؓ۔سیرت المہدی جلد دوم صفحہ 365-371)

دوران خطبہ ان دونوں اصحاب کو جہاں کہیں کسی لفظ کا اشتباہ ہوتا تھا دہرا کر پوچھ لیتے تھے۔ اور حضرت اقدسؑ انہیں بتلا کر پھر آگے اصل مضمون بیان کرنا شروع کر دیتے تھے۔

حضرت اقدسؑ کی دوسرے جہان میں محویت

’’بعض اوقات حضرت مولوی صاحب کو لکھنے میں پیچھے رہ جانے کی وجہ سے یاکسی لفظ کے سمجھ نہ آنے کے باعث یا الفاظ کے حروف مثلاً الف اور عین۔ صاد وسین یا ثا اور ط وت وغیرہ وغیرہ کے متعلق دریافت کی ضرورت ہوتی تو دریافت کرنے پر سیدنا حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی عجب کیفیت ہوتی تھی اور حضور یوں بتاتے تھے جیسے کوئی نیند سے بیدار ہوکر یا کسی دوسرے عالم سے واپس آکر بتائے اور وہ دریافت کردہ لفظ یا حرف بتانے کے بعد پھر وہی حالت طاری ہوجاتی تھی۔‘‘(روایت حضرت بھائی عبدالرحمٰن صاحب قادیانیؓ۔سیرت المہدی جلد دوم صفحہ 365-371)

حضرت اقدسؑ کی کیفیت

دوران خطبہ حضرت مسیح موعودؑ کی اپنی کیفیت کیا تھی ، اس بارے آپؑ فرماتے ہیں:’’سبحان اللہ اُس وقت ایک غیبی چشمہ کھل رہا تھا مجھے معلوم نہیں کہ میں بول رہا تھا یا میری زبان سے کوئی فرشتہ کلام کر رہا تھا کیونکہ میں جانتا تھا کہ اس کلام میں میرا دخل نہ تھا خود بخود بنے بنائے فقرے میرے مُنہ سے نکلتے جاتے تھے اور ہر ایک فقرہ میرے لئے ایک نشان تھاچنانچہ تمام فقرات چھپے ہوئے موجود ہیں جن کا نام خطبات الہامیہ ہے۔ اس کتاب کے پڑھنے سے معلوم ہوگا کہ کیا کسی انسان کی طاقت میں ہے کہ اتنی لمبی تقریر بغیر سوچے اور فکر کے عربی زبان میں کھڑے ہو کر محض زبانی طور پر فی البدیہ بیان کر سکے۔ یہ ایک علمی معجزہ ہے جو خدانے دکھلایا اور کوئی اس کی نظیرپیش نہیں کر سکتا۔‘‘(حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد 22صفحہ376)

مزید تفصیل میں ایک صحابی ؓلکھتے ہیں کہ ’’انقطاع کا یہ عالم تھا کہ ہم لوگ یہ محسو س کرتے کہ حضور کا جسد اطہر صرف یہاں ہے، روح حضور پر نور کی عالم بالا میں پہنچ کر وہاں سے پڑھ کر یا سن کر بول رہی تھی۔ زبان مبارک چلتی تو حضور ہی کی معلوم دیتی تھی۔ مگر کیفیت کچھ ایسی تھی کہ بے اختیار ہوکر کسی کے چلائے چلتی ہو۔ یہ سماں اور حالت بیان کرنا مشکل ہے۔ انقطاع تبتل ، ربودگی یاحالت مجذوبیت وبے خودی ووارفتگی اور محویت تامہ وغیرہ الفاظ میں سے شاید کوئی لفظ حضور کی اس حالت کے اظہار کے لئے موزوں ہوسکے ورنہ اصل کیفیت ایک ایسا روحانی تغیر تھا جو کم ازکم میری قوت بیان سے تو باہر ہے کیونکہ سارا ہی جسم مبارک حضور کا غیر معمولی حالت میں یوں معلوم دیتا تھا جیسے ذرہ ذرہ پر اس کے کوئی نہاں در نہاں اور غیر مرئی طاقت متصرف وقابویافتہ ہو۔ لکھنے والوں کی سہولت کے لئے حضور پُر نور فقرات آہستہ آہستہ بولتے اور دہرادہرا کر بتاتے رہے۔‘‘(روایت حضرت بھائی عبدالرحمٰن صاحب قادیانیؓ۔سیرت المہدی جلد دوم صفحہ 365-371)

آپ کی آواز عام آواز سے ذرا متغیرتھی۔اور آواز کا آخری حصہ عجیب انداز سے باریک ہوجا تا تھا۔اور دوران خطبہ میں آپ نے مولوی صاحبا ن سے یہ فرمایا تھا کہ جو لفظ لکھنے سے رہ جاوے وہ مجھ سے ابھی پوچھ لو کیوں کہ بعد میں ممکن ہے کہ وہ مجھے بھی معلوم رہے یا نہ رہے۔ اور مولوی صاحب نے بیان کیا کہ بعد خطبہ حضرت صاحب فرماتے تھے کہ یہ خطبہ میری طر ف سے نہ تھا بلکہ میرے دل میں اللہ کی طرف سے الفاظ ڈالے جاتے تھے اور بعض اوقات کچھ لکھا ہوا میرے سامنے آجاتا تھا اور جب تک ایسا ہوتا رہا خطبہ جاری رہا۔لیکن جب الفاظ آنے بند ہوگئے خطبہ بند ہو گیا۔(سیرت المہدی جلد اول حصہ اول صفحہ 148تا 150 روایت نمبر 156)

خطبے کا اردو ترجمہ سامعین کو سنایا گیا

حضور پرنور نے جب یہ خطبہ عربی ختم فرمایا تو دوستوں میں اس کے مضمون سے واقف ہونے کا اشتیاق اتنا بڑھا کہ حضور نے بھی آخر پسند فرمایا کہ حضرت مولانا مولوی عبد الکریم صاحب اس کا ترجمہ دوستوں کو سنا دیں۔چنانچہ مولانا موصوف نے خوب مزے لے لے کر اس تمام خطبہ کا ترجمہ اردو میں اپنے خاص انداز اور لب ولہجہ میں سنا کر دوستوں کو محظوظ اور خوش وقت فرمایا اور یہ کیفیت بھی اپنے اندر ایک خاص لطف وسرور اور لذت روحانی رکھتی تھی۔ (روایت حضرت بھائی عبدالرحمٰن صاحب قادیانیؓ۔سیرت المہدی جلد دوم صفحہ 365-371)

سجدہ شکر

ابھی مولانا عبدالکریم صاحب ترجمہ سُناہی رہے تھے کہ حضرت اقدس ؑ فرطِ جوش کے ساتھ سجدہ ٔ شکرمیں جاپڑے۔ حضورؑ کے ساتھ تمام حاضرین نے سجدۂ شکرادا کیا۔ سجدہ سے سراُٹھاکر حضرتِ اقدس ؑنے فرمایا:’’ابھی مَیں نے سُرخ الفاظ میں لکھادیکھا ہے کہ ’’مبارک‘‘یہ گویا قبولیت کا نشان ہے۔‘‘(ملفوظات جلد 1صفحہ 324-325۔ایڈیشن1988ء)

یہ ایسا معرکة الآراء بے نظیر نشان تھا کہ کسی شخص کےلیے ناممکن تھا کہ بغیر دیکھے اتنی فصاحت اور بلاغت کے ساتھ تقریر کرسکے۔ چنانچہ حضور ؑ فرماتے ہیں کہ ’’ خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ غیب سے مجھے ایک قوت دی گئی اور وہ فصیح تقریر عربی میں فی البدیہ میرے مُنہ سے نکل رہی تھی کہ میری طاقت سے بالکل باہر تھی اور میں نہیں خیال کر سکتا کہ ایسی تقریر جس کی ضخامت کئی جزو تک تھی ایسی فصاحت اور بلاغت کے ساتھ بغیر اس کے کہ اول کسی کاغذ میں قلمبند کی جائے کوئی شخص دنیا میں بغیر خاص الہام الٰہی کے بیان کر سکے‘‘(حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد 22صفحہ375-376)

خطبہ کی اشاعت و چھپائی

یہ خطبہ ،خطبہ الہامیہ کے نام سے چھپ چکا ہے۔لیکن اس خطبہ الہامیہ کے صرف پہلے اڑتیس صفحے جہاں باب اوّل ختم ہوتا ہے اصل خطبہ کے ہیں۔جو اس وقت حضرتؑ نے فرمایا اور باقی حصہ بعد میں حضرت صاحب نے تحریراً زیادہ کیا تھا۔نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ خطبہ الہامیہ اس عیدالاضحی میں دیا گیا تھا جو 1900 میں آئی تھی مگر شائع بعد میں 1902ء میں ہوا۔(سیرۃ المہدی جلد اول صفحہ148تا150) آپ نے نہایت اہتمام سے اس کو کاتب سے لکھوایا۔ اور فارسی اور اُردو میں ترجمہ بھی خود کیا۔ اس خطبہ پر اعراب بھی لگوائے۔ اور آپ نے فرمایا۔ کہ جیسا جیسا کلام اُترتا گیا۔ مَیں بولتا گیا۔ جب یہ سلسلہ بند ہو گیا۔ تو مَیں نے بھی تقریر کو ختم کر دیا۔ آپ فرماتے تھے۔ کہ تقریر کے دَوران میں بعض اوقات الفاظ لکھے ہوئے نظر آجاتے تھے۔(سیرۃ المہدی جلد اول صفحہ592-593)

خطبہ الہامیہ کو حفظ کرنے کی تحریک

خطبہ چونکہ ایک زبردست علمی نشان تھا اس لیے اس کی خاص اہمیت کے پیش نظر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے اپنے خدام میں تحریک فرمائی کہ اسے حفظ کیا جائے۔ چنانچہ اس کی تعمیل میں صوفی غلام محمد صاحب، حضرت میر محمد اسماعیل صاحب ،مفتی محمد صادق صاحب او رمولوی محمد علی صاحب کے علاوہ بعض اور اصحاب نے اسے زبانی یاد کیا۔ بلکہ مؤخر الذکردواصحاب نے مسجد مبارک کی چھت پر مغرب و عشاء کے درمیان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مجلس میں بھی اسے زبانی سنایا۔ حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ جو انتہا درجہ ادبی ذوق رکھتے تھے وہ تو اس خطبہ کے اتنے عاشق تھے کہ اکثراسے سناتے رہتے تھے اور اس کی بعض عبارتوں پر تو وہ ہمیشہ وجد میں آجاتے۔ مولوی صاحب ایسے بلند پایہ عالم کو خطبہ الہامیہ کے اعجازی کلام پر وجد آنا ایک طبعی بات قراردی جاسکتی ہے مگر خدا کی طرف سے ایک تعجب انگیز امر یہ پید ا ہوا کہ تقریر سننے والے بچے بھی اس کی جذب و کشش سے خالی نہیں تھے۔ چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ وہ دن جس میں یہ تقریر کی گئی ابھی ڈوبا نہیں تھاکہ چھوٹے چھوٹے بچے جن کی عمر بارہ سال سے بھی کم تھی اس کے فقرے قادیان کے گلی کوچوں میں دہراتے پھرتے تھے جو ایک غیر معمولی بات تھی۔(تاریخ احمدیت جلددوم صفحہ83 تا 86)

حضورؑ کے ارشاد کی تعمیل میں خطبہ الہامیہ کی اشاعت کے بعد بہت سے دوستوں نے اس کو یاد کرنا شروع کیابعض نے پورا یاد کرلیا تو بعض نے تھوڑا مگر ان دنوں اکثر یہی شغل تھا اور ہر جگہ ،ہر مجلس میں اسی خطبہ یعنی خطبہ الہامیہ کے پڑھنے اور سننے سنانے کی مشق ہو اکرتی تھی۔ بعض روز شام کے دربار میں کوئی نہ کوئی دوست بھری مجلس میں حضرت اقدسؑ کے سامنے یاد کیا ہوا سنایا بھی کرتے تھے اور اسی طرح خد اکی اس نعمت کا چرچا رہتا تھا۔ میں نے بھی تین چار صفحات یاد کئے تھے۔(روایت حضرت بھائی عبدالرحمٰن صاحب قادیانیؓ۔سیرت المہدی جلد دوم صفحہ 365-371)

خطبہ الہامیہ بطور صداقت کا ثبوت

مولوی عبداللہ صاحب بوتالویؓ تحریر فرماتے ہیں:’’سید عبد الحی صاحب عرب جو عرب سے آ کر بہت دنوں تک قادیان میں بغرض تحقیق ٹھہرے رہے اور بعد میں انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی بیعت کی انہوں نے خاکسار سے اپنی بیعت کرنے کا حال اس طرح بیان کیا تھا۔ فرمایا کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی فصیح و بلیغ تصانیف کو پڑھ کر اس بات کا دل ہی دل میں قائل ہو گیا تھا کہ ایسا کلام سوائے تائید الٰہی کے اور کوئی لکھ نہیں سکتا۔ لیکن یہ مجھے یقین نہیں آتا تھا کہ یہ کلام خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کا ہے۔ اگرچہ مجھے حضرت مولوی نور الدین صاحب اور دیگر علماء اس بات کا یقین دلاتے اور شہادت دیتے تھے۔ لیکن میرے شبہ کو ان کا بیان دور نہ کر سکا اور میں نے مختلف طریقوں سے اس بات کا ثبوت مہیا کرنا شروع کر دیا کہ آیا واقعی یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کا اپنا ہی کلام ہے اور کسی دوسرے کی امداد اس میں شامل نہیں چنانچہ میں عربی میں بعض خطوط حضرت اقدسؑ کی خدمت میں لکھ کر ان کے جواب عربی میں حاصل کرتا۔ اور پھر اس عبارت کو غور سے پڑھتا اور اس کا مقابلہ حضور کی تصانیف سے کر کے معلوم کرتا تھا کہ یہ دونوں کلام ایک جیسے ہیں لیکن پھر بھی مجھے کچھ نہ کچھ ان میں فرق ہی نظر آتا جس کا جواب مجھے یہ دیا جاتا کہ حضرت اقدس کا عام کلام جو خطوں وغیرہ کے جواب میں تحریر ہوتا ہے اس میں معجزانہ رنگ اور خاص تائید الٰہی نہیں ہو سکتی چونکہ عربی تصانیف کو حضرت صاحب نے متحدّیانہ طور پر خدا تعالیٰ کے منشا اور حکم کے ماتحت اس کی خاص تائید سے لکھا ہے۔ اس لئے ان کا رنگ جدا ہوتا ہے اور جدا ہونا چاہیے۔ ورنہ عام لیاقت اور خاص تائید الٰہی میں کوئی فرق نہیں رہ جاتا۔ بہرحال میں قادیان میں اس بات کی تحقیقات کے واسطے ٹھہرا رہا تاکہ میں بھی کوئی اس قسم کی تائید الٰہی کا وقت بچشم خود ملاحظہ کروں۔ چنانچہ خطبۂ الہامیہ کے نزول کا وقت آ گیا اور مَیں نے اپنی آنکھوں سے اس الہامی اور معجزانہ کلام کے نزول کو دیکھا اور خود کانوں سے سنا کہ بلا امداد غیرے کس طرح وہ انسان روز روشن میں تمام لوگوں کے سامنے ایسا فصیح و بلیغ کلام سنا رہا ہے لہٰذا میں نے اس خطبہ کو سننے کے بعد شرح صدر سے بیعت کر لی۔‘‘(اصحاب احمد جلد ہفتم صفحہ 188)

اسی طرح حضرت صوفی سید حافظ تصور حسین رضی اللہ عنہ نے بھی خطبہ الہامیہ پڑھنے کے بعد حضورؑ کو بیعت کے لیے تحریر کیا تھا اور بعدازاں دستی بیعت کا شرف حاصل کیا تھا۔(مکتوبات احمد، زیر نام حضرت صوفی سید حافظ تصور حسین رضی اللہ عنہ /نوٹ از ایڈیٹر)

الٰہی نور اور چمک کا اظہار

حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم اُس وقت بچے تھے۔صرف سات آٹھ سال کی عمر تھی لیکن مجھے بھی وہ نظارہ یادہے۔ حضرت صاحب بڑی مسجد کے پرانے حصہ کے درمیانی در کے پاس صحن کی طرف منہ کیے ہوئے تھے اور اس وقت آپ کے چہرہ پر ایک خاص رونق اور چمک تھی اور آپ کی آوازمیں ایک خاص درد اور رعب تھا اور آپ کی آنکھیں قریباً بند تھیں۔(سیرت المہدی، جلد اول حصہ اول صفحہ 148تا 150 روایت نمبر 156)

حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے خطبہ فرمودہ 11؍اپریل 2014ء کو خطبہ الہامیہ کے عظیم الشان نشان ہونے کی بابت فرمایا:’’پس یہ وہ عظیم الشان نشان ہے، یہ عظیم الشان الفاظ ہیں، یہ دعوت ہے جو اللہ تعالیٰ کے حکم سے آپ نے دی۔ اللہ تعالیٰ کے الہام سے آپ نے دنیا کو دی اور یہ نشان جیسا کہ میں نے کہا 11؍اپریل 1900ء کو ظہور میں آیا، آج تک اپنی چمک دکھلا رہا ہے اور آج تک کوئی ماہر سے ماہر زبان دان اور بڑے سے بڑا عالم اور ادیب بھی چاہے وہ عرب کا رہنے والا ہے اس کا مقابلہ نہیں کر سکا۔ اور کس طرح یہ مقابلہ ہو سکتا ہے۔ یہ تو خدا تعالیٰ کا کلام تھا جو آپ علیہ السلام کی زبان سے ادا ہوا۔ اللہ تعالیٰ دنیا کو اور خاص طور پر عرب مسلمانوں کو عقل اور جرأت دے کہ وہ خدا تعالیٰ کے فرستادے کے پیغام کو سمجھیں اور امت مسلمہ کو آج پھر امت واحدہ بنانے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس غلام صادق کے مددگار بنیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اپنی ذمہ داریاں نبھانے کی توفیق عطا فرمائے۔‘‘

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button