یادِ رفتگاں

مکرم ڈاکٹر سیدتاثیر مجتبیٰ صاحب کا ذکرِ خیر

(ذیشان محمود۔ مربی سلسلہ سیرالیون)

سیکرٹری صاحب مجلس نصرت جہاں کی جانب سے ایک دن ڈاکٹر سید تاثیر مجتبیٰ صاحب کی وفات کا میسیج موصول ہوا۔ اناللہ و انا الیہ راجعون۔ اکتوبر21ء میں خاکسار کی فیملی سیرالیون آئی ۔ ان کو بتایا تو اہلیہ کہنے لگیں کہ آنے سے تین چار روز قبل ہسپتال میں دیکھا تھا نہایت آرام سے اپنے کمرے کی طرف جاتی سیڑھیاں چڑھ رہے تھے۔ لیکن بظاہر ٹھیک لگ رہے تھے۔

خاکسار کے لیے ڈاکٹر تاثیر صاحب کا نام نیا نہیں ہے۔ فضل عمر ہسپتال میں گذشتہ دو دہائیوں سے آپ سے علاج کے سلسلے میں رابطہ رہا۔

شاید سال 2008ء کی بات ہے، دوران تعلیم جامعہ ایک رات شدید درد گردہ ہوا۔ رات پانی پی پی کر گزاری۔ صبح میر صاحب (سابق پرنسپل جامعہ احمدیہ) سے اجازت لے کر جب ہسپتال پہنچا تو پاشا صاحب اور میاں صاحب کی پرچی تو حسب عادت علی الصبح ختم ہو چکی تھی۔ میڈیکل ڈاکٹر کا سوچ ہی رہا تھا کہ پرچی روم میں بیٹھے صاحب تکلیف کا پوچھ کر بولے ایک اَور آرتھوپیڈک ڈاکٹر بھی ہیں ان کو چیک کروا لیں۔ انہوں نے پرچی بنادی۔ نصف دن گزرنے کے باوجود پرچی پر تیسرا نمبر دیکھ کر حیرانی بھی ہوئی اور خوشی بھی کہ فوری چیک اپ ہو جائے گا۔

پرچی روم سے ڈاکٹر صاحب کا کمرہ دریافت کیا تو کہنے لگے کہ ایکسرے روم کی سیڑھیاں چڑھیں تو دائیں ہاتھ پہلا کمرہ ہے۔ یہ نشانی ذہن میں ہمیشہ کے لیے ٹھہر گئی جس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اسی کمرہ میں ہماری کلاس کا داخلہ جامعہ کے سلسلہ میں میڈیکل بورڈ ہوا تھا اور شاید اس وقت ڈاکٹر سید میر منیب صاحب اس کمرہ میں بیٹھتے تھے۔

تکلیف کے باعث کمر پر ہاتھ ٹکائے آہستہ آہستہ ڈاکٹر صاحب کے کمرے تک پہنچا تو مددگار نے سیدھا اندر جانے کو کہا۔ السلام علیکم کہہ کر کمرے میں داخل ہوا تو ڈاکٹر صاحب اخبار کھولے مطالعہ میں مصروف تھے۔ یہ امر تو ہمیشہ مشاہدہ میں آیا کہ جب بھی ڈاکٹر صاحب کے کمرے میں داخل ہوتے تو اخبار یا کسی ضخیم کتاب کا مطالعہ کر رہے ہوتے تھے۔

بعض ڈاکٹرز کے میز مختلف اشیاء، ادویات کے نمونوں، ڈاکٹری سازو سامان سے بھرے ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر تاثیر صاحب کا میز نفاست، ترتیب کا آئینہ دار اور غیر ضروری اشیاء سے خالی تھا۔ پہلی بار تو یوں لگا کہ ڈاکٹر صاحب کے پاس تو کوئی مریض ہی نہیں آتا یا یہ تاثر ٹھہرنے کے قریب تھا کہ دوسرے ڈاکٹر کی پرچی ہی بنوا لیتا۔

بہر حال ڈاکٹر صاحب نے چشمہ کے اوپر سے سر تا پا نظر ڈالی اور دھیمی سی آواز میں سلام کا جواب دیا اور فرمایا کہ تشریف رکھیں۔ اخبار آرام سے تہ کر کے ایک طرف رکھی اور پرچی پکڑ کر گویا ہوئے کہ کب سے تکلیف ہے۔ بتایا رات سے۔ آپ نے کہا فوری الٹراساؤنڈ کروا کر آئیں۔ ابھی اٹھنے ہی لگا کہ کہا ٹھہریں۔ آپ نے نچلی منزل میں شعبہ ریڈیالوجی میں انٹرکام کیا کہ جامعہ کا طالب علم ہے تکلیف میں ہے۔ فوری الٹرا ساؤنڈ کر دیں۔

آدھ گھنٹے میں ہی واپس آپ کے پاس رپورٹ لیے حاضر ہوا تو آپ خود بھی حیران ہوئے کہ اتنی جلدی رپورٹ آگئی۔ میں نے کہا کہ یہ وقت بھی پانی پینے میں صرف ہوا ورنہ آپ کی مہربانی سے تو وہ فوری ٹیسٹ کرنے کو تیار تھے۔

آپ نے رپورٹ پڑھی پھر پرچی لی اور اسے پلٹ کر پچھلی جانب ہومیو نسخہ تحریر کردیا اور کہا کہ جاتے ہوئے بازار سے بنوا لیں یا جامعہ کی ڈسپنسری سے بھی مل جائے گی۔ اور ساتھ چاول، ٹماٹر اور بڑے گوشت سے پرہیز اور پانی کے کثرت استعمال کا مشورہ دیا۔ ایک ہفتے دوا کے استعمال سے پتھری نکل گئی اور الحمد للہ تکلیف سے آرام آگیا۔

یہ آپ سے پہلی ملاقات تھی اور اس وقت یہ احساس بھی ہوا کہ بعض وقت بغیر طلب کے کوئی شفقت کر دے تو یہ احسان میں شامل ہے۔ اور یہی شفقت اور سہولت دینے کا پہلو آپ کا گرویدہ بنا گیا۔ ان دو دہائیوں میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ڈاکٹر صاحب کی پرچی کبھی نہ ملی ہو۔ جب بھی ضرورت پڑی پرچی لی اور بغیر انتظار کیے سیدھا آپ سے چیک اپ کروا لیا۔ معلوم نہیں کتنے مریض ایک دن میں چیک کرتے ہوں گےلیکن مستقل مزاجی سے ہر وقت دستیاب ہوتے۔ اس پہلی ملاقات میں آپ کی شخصیت کے متعلق یہ تاثر بھی قائم ہوا کہ آپ دھیمے مزاج کے اور خاموش طبع انسان ہیں۔

2018ء میں ساتویں یا آٹھویں روزے میں پھر تکلیف شروع ہوئی۔ ایمرجنسی میں جا کر درد کے لیے انجیکشنلگوایا اور صبح پھر ڈاکٹرصاحب کے پاس جاپہنچا۔ آپ سے قریباً دس سال بعد ملاقات ہوئی۔ آپ اسی انداز میں اخبار پکڑے کمرے میں بیٹھے تھے گویا کہ میں ابھی کل ہی آپ کے کمرے سے ہو کے گیا ہوں۔ چشمے کے اوپر سے دیکھتے ہوئے سلام کا جواب دیا۔ ڈھلتی عمر کے آثار پہلے سے کچھ نمایاں تھے۔ آپ نے پھر الٹراساؤنڈ کے لیے بھجوایا۔ بہرحال وہی تشخیص وہی نسخہ اور اسی پرہیز کا مشورہ ملا۔ لیکن ساتھ آرام سے ہدایت دی کہ باقی روزے سردیوں میں مکمل کریں۔ تکلیف کم ہونے پر جوش میں روزے نہ رکھ لیں۔

خاکسار نے عرض کی کہ یہ پتھری تو ایک بار نکل چکی ہے قریباً دس سال قبل۔ دوبارہ بھی ہوسکتی ہے تو کہا کہ ایک بار ہو جائے تو دوبارہ بھی ہو سکتی ہے اور شاید اتنے عرصہ بعد پھر ہو جائے۔ بہر حال پانی کا استعمال کریں۔ چاول اور بڑا گوشت کم استعمال کریں۔

پھر ڈاکٹر صاحب سے ملاقات اہلیہ کے پتے کے آپریشن کے سلسلے میں ہوئی۔ تکلیف کے دوران میاں صاحب سے علاج جاری تھا اور آپریشن کی تاریخ بھی طے ہو گئی۔ لیکن ایک دو روز قبل میاں صاحب اپنی بیماری کے باعث ہسپتال میں داخل ہو گئے اور آپریشن ملتوی ہو گیا۔ اہلیہ کو تکلیف تھی اس لیے وہی فائل لیے ڈاکٹر تاثیر صاحب کے پاس چلے گئے۔ آپ نے تسلی سے فائل کا مطالعہ کیا اور اگلے ہی آپریشن ڈے کی تاریخ دے دی۔ جیسا کہ پہلے بتایا کہ آپ مریض کو سہولت دینے والے تھے۔ بعض وجوہ کی بنا پر پرائیویٹ روم کی درخواست کی تو آپ نے اپنے ریفرنس سے پرچی پر ہی لکھ دیا کہ پرائیویٹ کمرہ دے دیں۔ آپریشن کے بعد جب بھی چیک اپ کے لیے آتے تو اہلیہ سے ساری تفصیل اور تکلیف کا پوچھتے اور تسلی سے سب باتوں کا تسلی بخش جواب دیتے۔ کبھی یہ نہیں ہوا کہ گئے اور فائل ہی دیکھ کر چلتا کیا۔

اسی آپریشن کے بعد جبکہ چیک اپ کے لیے آپ کے کمرے میں بیٹھے تھے ایک ڈاکٹرز کا جوڑا تشریف لایا۔ آپ نےان کو اپنی جگہ بٹھایا۔ اپنا میز ترتیب دیا اور خود دوسری کرسی پر بیٹھ گئے۔ اس وقت تو سمجھ نہ آیا کہ یہ کیا ہوا لیکن اب سمجھ آئی کہ جیسا حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے کسی ڈاکٹر کا ذکر فرمایا تھا کہ آپ سیکھنے کی غرض سے ڈاکٹرز کو اپنی کرسی پیش کر دیا کرتے تھے۔ شاید ایسا ہی کچھ ہوا تھا۔

اسی طرح ایک بار خاکسار کی بیٹی شعبہ سرجیکل کے پرائیویٹ وارڈ میں داخل تھی۔ جب راؤنڈ پر تشریف لاتے تو مختصر احوال دریافت کر کے دعائیہ الفاظ پڑھتے اور واپس چل دیتے۔ جب بھی راؤنڈ پر تشریف لاتے تو بیٹی سے بچوں کے انداز میں حال احوال دریافت کرتے۔

ڈاکٹرز کی ایسوسی ایشنAMAکی ایک کانفرنس میں الفضل ربوہ کے نمائندے کے طور پر شامل ہوا۔ ڈاکٹر صاحب کے ساتھ بیٹھنے کا موقع ملا۔ مختلف پریزنٹیشنز کو غور سے سنتے رہے اور نوٹس بھی لیتے رہے۔ حضورِ انورایدہ اللہ تعالیٰ نے بھی آپ کے ذکر خیر کے دوران آپ کے اکتسابِ علم کی لگن کا ذکر فرمایا۔

پاکستان میں تو ہر گلی محلہ میں کلینک یا ہسپتال قریب ہی تھا۔ ربوہ جیسے شہر میں فضلِ عمر ہسپتال کا ہونا واقعی ایک بڑا فضل ہے جہاں مریض فوری ہسپتال پہنچ جاتا ہے۔ افریقہ آکر معلوم ہوا کہ ہسپتال یا ڈاکٹر کا یوں قریب ہونا کتنی بڑی نعمت ہے۔

ایک دہائی ہونے کو آئی روکوپر سیرالیون کا احمدیہ ہسپتال تو بند ہوچکا ہے۔ اسی ہسپتال کے کمپاؤنڈ کے اسی گھر میں خاکسار رہائش پذیر ہے جس ہسپتال میں آپ کے والد محترم ڈاکٹر سید غلام مجتبیٰ صاحب کو مجلس نصرت جہاں کے تحت خدمت کی توفیق ملی۔

مکرم موسیٰ کے ڈی محمود صاحب پرنسپل روکوپر احمدیہ مسلم سیکنڈری سکول زمانہ طالب علمی میں باوجود ڈاکٹرتاثیر صاحب کے سینئر ہونے کے ان کی خاموش طبیعت کو یاد کرتے ہیں۔

افریقن احباب کوئی واقعہ بیان کرتے ہوئے یا اپنی کوئی یادداشت بتاتے ہوئے سابق مشنری، استاد یا سابق ڈاکٹر جو یہاں خدمات سر انجام دے چکے ہوں، کا نام لے کر بیان کرتے ہیں کہ اُس وقت کی بات ہے۔ اس لیے یہاں ڈاکٹرز، اساتذہ اور مبلغین کے نام اور خدمات بطور تاریخ بھی یاد رکھی جاتی ہے۔ جیسا کہ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے خطبہ جمعہ کے دوران ڈاکٹر تاثیر مجتبیٰ صاحب کی گھانا میں خدمات اور اس کے ثمرات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ’’ڈاکٹر نعیم صاحب جو آج کل اوسو کورے (Asokore) ہسپتال کے انچارج ہیں، وہ کہتے ہیں کہ بطور انچارج مشنری ڈاکٹر اوسو کورے (Asokore) میں اکیس سال خدمات بجا لاتے رہے اور کہتے ہیں آج ان کی وفات کی خبر سن کے بہت سارے لوگ اس قصبے کے بھی اور اس علاقے کے بھی آئے اور ان کا تعلق ڈاکٹر صاحب کے ساتھ تھا۔ سارے بہت رنجیدہ تھے اور خاص طور پر تعزیت کر رہے تھے اور کہتے تھے کہ ڈاکٹر صاحب بہت سادہ طبیعت، کم گو اور اپنے کام میں مگن رہنے والے غریب پرور اور نہایت مہمان نواز شخصیت کے حامل تھے…ڈاکٹر صاحب نے احمدیہ ہسپتال اوسو کورے (Asokore) میں بلا شبہ سرجری کے میدان میں بہت بہترین خدمات انجام دیں جس کا پھل آج بھی ہم ان مریضوں کی صورت میں دیکھتے ہیں جو مغربی افریقہ کے مختلف ممالک سے اس ہسپتال میں علاج اور شفا کی غرض سے آتے ہیں اور اپنی سادہ افریقن زبان میں مجتبیٰ کا ذکر کرتے ہیں۔ تاثیر مجتبیٰ ان کا نام تھا تو ڈاکٹر مجتبیٰ کے نام سے جانے جاتے تھے۔ ان کے والد بھی یہاں کچھ سال رہے ہیں۔ اسی نام سے پھر یہ نام آگے بھی چلتا رہا۔‘‘(خطبہ جمعہ 29؍اکتوبر2021ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 14 نومبر 2021ء)

ڈاکٹر صاحب سے اکثر ملاقاتیں ہسپتال میں سرِ راہ ہی ہوئیں۔ چشمہ گلے میں ڈالے، نظر جھکائے دھیرے دھیرے چلتے نظر آتے۔ السلام علیکم سن کر گردن اٹھا کے نظر ڈالتے اور جواب دیتے اور پھر اسی انداز میں چل پڑتے۔

حضور انور ایدہ اللہ فرماتے ہیں کہ’’حنیف صاحب نے لکھا ہے کہ ایک فرشتہ تھے۔ یقیناً ایک چلتا پھرتا فرشتہ تھے۔ اللہ تعالیٰ انہیں غریقِ رحمت کرے۔ درجات بلند کرے۔‘‘ (خطبہ جمعہ 29؍اکتوبر2021ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 14؍نومبر 2021ء)

اللہ تعالیٰ ڈاکٹر صاحب کو ان کی انسانیت کے لیے کی گئی خدمات کے بدلے جزائے احسن عطا فرمائے اور ان سے مغفرت کا سلوک فرماتے ہوئے اعلیٰ علیین میں شامل فرمائے۔ آمین

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button