متفرق مضامین

اہل کتاب کا قرآنی نظریہ

(انیس رئیس۔ مبلغ انچارج جاپان)

خدائے واحد پر ایمان لانے والے ابراہیمی مذاہب کے مابین تعاون و اشتراک اور موافقت کی تعلیم

چودہ صدیاں پیشتر اسلام نے دوسرے مذاہب اور ان کے معتقدین کے حوالے سے ایک ایسی فراخدلانہ تعلیم پیش فرمائی، جس کی نظیر کسی دوسرے مذہب کی تعلیم میں نہیں ملتی

تہذیبِ جدید کی بدولت جونئے تصورات دنیا میں رائج ہوئے ان میں مساوات، آزادئ اظہار، بین المذاہب رواداری اوربقائے باہمی جیسے الفاظ ایک خاص جذب وکشش کے حامل ہیں۔ مذاہب کے مابین مکالمہ اور موافقت کاتصور بھی بظاہر جدید مغربی اصطلاح معلوم ہوتی ہے۔ لیکن دراصل قرآن کریم کی تعلیم اور تاریخی واقعات اس بات کی شہادت دیتے ہیں کہ14سو سال قبل جب دنیا عالمگیریت کے تصور سے بھی نا آشنا تھی اور جب بقائے باہم کا تصور تک ناپید تھا، اسلام کی آمد ایسے انقلاب کی نوید ثابت ہوئی کہ جس نے تہذیب و تمدن کے اعلیٰ معیار پر مبنی ایک ایسے نظام نو کی بنیاد رکھی جس میں انسانیت کے شرف و اکرام کے ساتھ ساتھ آزادی ضمیر اور آزادی عقیدہ کی ضمانت کا تصور کارفرما تھا۔ قرآن کریم نے رب العالمین کے تصور کے ساتھ خدائے واحد کو مشرق و مغرب اور زمین و آسمان کا نور قرار دے کر اور ابنائے آدم کے خطاب سے انسانیت کو مخاطب کرتے ہوئے نسلی تفاخر اور قومی برتری کے تصورات کویکسر رد فرمادیا اورتمام انسانوں کو توحید پرستی کی دعوت دے کر ایک ازلی ابدی اور قادر وقیوم خدا کی عبادت کے نتیجہ میں دنیوی معبودوں اور طاقتور شہنشاہوں اور حکمرانوں کی غلامی سے ہمیشہ کےلیے آزادی کا تصور عطا فرمادیا۔

چودہ صدیاں پیشتر اسلام نے دوسرے مذاہب اور ان کے معتقدین کے حوالے سے ایک ایسی فراخدلانہ تعلیم پیش فرمائی، جس کی نظیر کسی دوسرے مذہب کی تعلیم میں نہیں ملتی۔ اگر تاریخ کے آئینے میں اس صورت حال کا جائزہ لیا جائے تو ساتویں صدی عیسوی میں ظہور اسلام کے ساتھ ہی قرآن کریم نے اہلِ کتا ب کو دعوتِ مکالمہ دینے میں پہل کرتے ہوئے مختلف سطح پر رابطہ اور تبادلہ خیال کی راہیں نکالیں۔ اس سلسلے میں بانئ اسلام حضرت محمد مصطفیٰﷺ کے نامہ ہائےمبارک، جو مختلف مسیحی و غیر مسیحی فرماں رواؤں کو لکھوائے گئے تھے، بین المذاہب مکالمے اور تہذیبوں کے مابین روابط کی اوّلین کاوشیں کہی جاسکتی ہیں۔ قرآن کریم نے دیگر مذاہب خصوصاً اہلِ کتاب کو باربار دعوتِ فکر دیتے ہوئے تعاون و اشتراک پر مبنی بین المذاہب مکالمے کا آغاز کرنے کی دعوت دی۔

اہل کتاب کون ہیں؟

جن قوموں کو اﷲ تعالیٰ کی طرف سے کتب عطا کی گئیں اُنہیں قرآن کریم ’’ اہل الکتاب ‘‘یا ’’الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡکِتٰبَ‘‘کے نام سے موسوم کرتاہے۔ قرآن کریم میں یہ اصطلاح کم و بیش 50مرتبہ استعمال ہوئی ہے۔ مشرکین عرب اور کفار کے علاوہ وحئ قرآن کے اوّلین مخاطب چونکہ یہود ونصاریٰ تھے لہٰذا قرآن کریم میں حاملین تورات و انجیل کوہی اہلِ کتاب سے تعبیر کیا گیا ہے۔ لیکن اسلامی ریاست کی حدود وسیع ہوجانے کے بعد مسلمان علماء اور حکمرانوں نےیہود ونصاریٰ کے علاوہ مجوسیوں (زرتشتیوں) بودھوں اور ہندوؤں کو بھی اہل کتاب میں شمار کیا ہےگو کہ ان کا مذہبی فلسفہ اور تعلیم ابراہیمی ادیان سے مختلف نکتہ ہائے نظر کی حامل ہے۔

اہل کتاب کی اصطلاح موافقت اور امتیاز پر مبنی ہے

قرآن کریم اہل کتاب کا ذکر کرتے ہوئے نسلِ ابراہیم کی دونوں شاخوں یعنی بنی اسرائیل اور بنی اسماعیل کے مابین موافقت و اشتراک کے امکانات پر مبنی ایک انقلاب انگیز منشور پیش فرماتا ہے۔ یہودو نصاریٰ کو اہل کتاب کے نام سے یاد کرنا در اصل ان مذاہب کو یہ باور کروانا ہے کہ اسلام دینِ ابراہیم کے پیروکاروں کو کفار اور مشرکین سے الگ ایک ایسی قوم تصور کرتا ہے جو توحید کی علمبردار اور شرک سے مجتنب ہونے کی وجہ سے امتیازی شان کی حامل ہے۔ قرآن کریم ان دونوں مذاہب کو نہایت اپنائیت اور شائستگی سے مخاطب کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ ’’ اِلٰـہُنَا وَ اِلٰـہُکُمۡ وَاحِدٌ‘‘یعنی ہمارا اورتمہارا معبود ایک ہی وجودہے۔ نیز یہودیوں اور مسیحیوں کو یا ددلایا گیا کہ قُلۡ اٰمَنَّا بِاللّٰہِ وَمَاۤ اُنۡزِلَ عَلَیۡنَا وَمَاۤ اُنۡزِلَ عَلٰۤی اِبۡرٰہِیۡمَ وَاِسۡمٰعِیۡلَ وَاِسۡحٰقَ وَیَعۡقُوۡبَ وَالۡاَسۡبَاطِ وَمَاۤ اُوۡتِیَ مُوۡسٰی وَعِیۡسٰی وَالنَّبِیُّوۡنَ مِنۡ رَّبِّہِمۡ ۪ لَا نُفَرِّقُ بَیۡنَ اَحَدٍ مِّنۡہُمۡ ۫ وَنَحۡنُ لَہٗ مُسۡلِمُوۡنَ(آل عمران: 85)تُو کہہ دے ہم ایمان لے آئے اللہ پر اور اس پر جو ہماری طرف اتارا گیا اور جو ابراہیم پر اتارا گیا اور اسماعیل پر اور اسحق پر اور یعقوب پر اور (اس کی) نسلوں پر اور جو موسیٰ اور عیسیٰ کو اور جو نبیوں کو اُن کے ربّ کی طرف سے دیا گیا۔ ہم ان میں سے کسی کے درمیان کوئی تفریق نہیں کرتے اور ہم اسی کی فرمانبرداری کرنے والے ہیں۔

حضرت ابراہیم ؑکا وجود ایک مشترکہ اساس

توحید پرستی اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے مبعوث ہونے والے انبیاء ومرسلین پر ایمان کا اقرار کرنے کے علاوہ قرآن کریم خصوصاًحضرت ابراہیم علیہ السلام کے وجود کو اہل کتاب اور مسلمانوں کے مابین موافقت کی کلید قرار دیتے ہوئے فرماتا ہے کہ ابراہیم نہ یہود تھے نہ نصرانی بلکہ توریت و انجیل سے قبل کے وجود ہیں، پس انہیں متنازعہ بنانے کی بجائے ان کی پیروی کا راستہ اختیار کیا جائےاور یہ یاد رکھا جائے کہ ابراہیم توخالص مؤحد اور خلیل اللہ تھے۔

یٰۤاَہۡلَ الۡکِتٰبِ لِمَ تُحَآجُّوۡنَ فِیۡۤ اِبۡرٰہِیۡمَ وَمَاۤ اُنۡزِلَتِ التَّوۡرٰٮۃُ وَالۡاِنۡجِیۡلُ اِلَّا مِنۡۢ بَعۡدِہٖ ؕ اَفَلَا تَعۡقِلُوۡنَ۔ (آل عمران: 66)اے اہلِ کتاب! تم ابراہیم کے بارے میں کیوں جھگڑتے ہو حالانکہ تورات اور انجیل اُن کے بعد نازل کی گئی ہیں۔ پس کیا تم عقل نہیں کرتے؟

مَا کَانَ اِبۡرٰہِیۡمُ یَہُوۡدِیًّا وَّلَا نَصۡرَانِیًّا وَّلٰکِنۡ کَانَ حَنِیۡفًا مُّسۡلِمًا ؕ وَمَا کَانَ مِنَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ۔ ( آل عمران: 68)ابراہیم نہ تو یہودی تھا نہ نصرانی بلکہ وہ تو (ہمیشہ اللہ کی طرف) جھکنے والا فرمانبردار تھا۔ اور وہ (ہرگز) مشرکوں میں سے نہیں تھا۔

اِنَّ اَوۡلَی النَّاسِ بِاِبۡرٰہِیۡمَ لَلَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡہُ وَہٰذَا النَّبِیُّ وَالَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا…۔ ( آل عمران: 69)یقیناً ابراہیم سے قریب تر تو وہی لوگ ہیں جنہوں نے اس کی پیروی کی اور یہ نبی بھی اور وہ لوگ بھی جو (اس پر) ایمان لائے۔

وَمَنۡ اَحۡسَنُ دِیۡنًا مِّمَّنۡ اَسۡلَمَ وَجۡہَہٗ لِلّٰہِ وَہُوَ مُحۡسِنٌ وَّاتَّبَعَ مِلَّۃَ اِبۡرٰہِیۡمَ حَنِیۡفًا ؕ وَاتَّخَذَ اللّٰہُ اِبۡرٰہِیۡمَ خَلِیۡلًا۔ (النساء: 126)اور دین میں اس سے بہتر کون ہو سکتا ہے جو اپنی تمام تر توجہ اللہ کی خاطر وقف کردے اور وہ احسان کرنے والا ہو اور اس نے ابراہیمِ حنیف کی ملت کی پیروی کی ہو اور اللہ نے ابراہیم کو دوست بنا لیا تھا۔

تورات اور انجیل میں رسول اللہﷺ کی بعثت کی خبر

قرآن کریم نےاہل کتاب سے موافقت اور اشتراک کا ایک انداز یہ اختیار فرمایا کہ اگر ہمارا معبود ایک ہے، اگر ہم ابراہیم سے محبت کے مشترکہ دعوےدار ہیں اور مسلمان ان تمام انبیاء اور رسولوں پر ایمان لاتے ہیں جو یہود و نصاریٰ کے نزدیک قابل احترام اور برگزیدہ ہستیاں ہیں تو آئیں اور محمد رسول اللہﷺ کو بھی اپنا ہادی و راہنما تسلیم کر لیں، کیونکہ ان کی خبرتو پہلے سے ہی توریت اور انجیل میں دی جاچکی ہے۔ سورة الاعراف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اَلَّذِیۡنَ یَتَّبِعُوۡنَ الرَّسُوۡلَ النَّبِیَّ الۡاُمِّیَّ الَّذِیۡ یَجِدُوۡنَہٗ مَکۡتُوۡبًا عِنۡدَہُمۡ فِی التَّوۡرٰٮۃِ وَالۡاِنۡجِیۡلِ ۫ یَاۡمُرُہُمۡ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَیَنۡہٰہُمۡ عَنِ الۡمُنۡکَرِ وَیُحِلُّ لَہُمُ الطَّیِّبٰتِ وَیُحَرِّمُ عَلَیۡہِمُ الۡخَبٰٓئِثَ وَیَضَعُ عَنۡہُمۡ اِصۡرَہُمۡ وَالۡاَغۡلٰلَ الَّتِیۡ کَانَتۡ عَلَیۡہِمۡ ؕ فَالَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا بِہٖ وَعَزَّرُوۡہُ وَنَصَرُوۡہُ وَاتَّبَعُوا النُّوۡرَ الَّذِیۡۤ اُنۡزِلَ مَعَہٗۤ ۙ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ۔ (الاعراف: 158)جواس رسول نبی اُمّی پر ایمان لاتے ہیں جسے وہ اپنے پاس تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں۔ وہ ان کو نیک باتوں کا حکم دیتا ہے اور انہیں بُری باتوں سے روکتا ہے اور اُن کے لئے پاکیزہ چیزیں حلال قرار دیتا ہے اور اُن پر ناپاک چیزیں حرام قرار دیتا ہے اور اُن سے اُن کے بوجھ اور طوق اتار دیتا ہے جو اُن پر پڑے ہوئے تھے۔ پس وہ لوگ جو اس پر ایمان لاتے ہیں اور اسے عزت دیتے ہیں اور اس کی مدد کرتے ہیں اور اس نور کی پیروی کرتے ہیں جو اس کے ساتھ اتارا گیا ہے یہی وہ لوگ ہیں جو کامیاب ہونے والے ہیں۔

اِنَّاۤ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلَیۡکَ کَمَاۤ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلٰی نُوۡحٍ وَّالنَّبِیّٖنَ مِنۡۢ بَعۡدِہٖ ۚ وَاَوۡحَیۡنَاۤ اِلٰۤی اِبۡرٰہِیۡمَ وَاِسۡمٰعِیۡلَ وَاِسۡحٰقَ وَیَعۡقُوۡبَ وَالۡاَسۡبَاطِ وَعِیۡسٰی وَاَیُّوۡبَ وَیُوۡنُسَ وَہٰرُوۡنَ وَسُلَیۡمٰنَ ۚ وَاٰتَیۡنَا دَاوٗدَ زَبُوۡرًا۔ (النساء: 164)ہم نے یقیناً تیری طرف ویسے ہی وحی کی جیسا نوح کی طرف وحی کی تھی اور اس کے بعد آنے والے نبیوں کی طرف۔ اور ہم نے وحی کی ابراہیم اور اسماعیل اور اسحاق اور یعقوب کی طرف اور (اس کی) ذریّت کی طرف اور عیسیٰ اور ایوب اور یونس اور ہارون اور سلیمان کی طرف۔ اور ہم نے داؤد کو زبور عطا کی۔

کفار اور مشرکین تو اپنے معبودوں کی پرستش میں گم تھے، نیز وہ انبیاء کی بعثت اور وحئ الٰہی کے نزول کے فلسفہ سے بھی ناآشنا تھا۔

لیکن توریت ا ور انجیل کی پیش خبریوں کے باعث اہل کتاب کے لیے یہ بات نسبتاً آسان تھی کہ وہ رسول اللہﷺ پر ایمان لے آتےاور اللہ تعالیٰ سے کیے گئے عہد کو پورا کرتے اور رسول عربیﷺ کی مدد اور نصرت کو آتے لیکن افسوس کہ انہوں نے تجاہل عارفانہ اختیار کیا اور اسلام قبول کرنے سے گریز کیا۔ اللہ تعالیٰ سورة البقرۃمیں فرماتا ہے:

اَلَّذِیۡنَ اٰتَیۡنٰہُمُ الۡکِتٰبَ یَعۡرِفُوۡنَہٗ کَمَا یَعۡرِفُوۡنَ اَبۡنَآءَہُمۡ ؕ وَاِنَّ فَرِیۡقًا مِّنۡہُمۡ لَیَکۡتُمُوۡنَ الۡحَقَّ وَہُمۡ یَعۡلَمُوۡنَ۔ (البقرۃ: 147)وہ لوگ جنہیں ہم نے کتاب دی ہے وہ اسے (یعنی رسول کو اس میں الٰہی آثار دیکھ کر) اسی طرح پہچانتے ہیں جیسے اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں۔ اور یقیناً ان میں ایک ایسا گروہ بھی ہے جو حق کو چھپاتے ہیں حالانکہ وہ جانتے ہیں۔

نیزقرآن کریم حسرت اور جذبات محبت کے ساتھ اہل کتاب کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ وَ لَوۡ اٰمَنَ اَہۡلُ الۡکِتٰبِ لَکَانَ خَیۡرًا لَّہُمۡ یعنی اگر اہل کتاب بھی ایمان لے آتے تو یہ ان کے لئے بہت بہتر ہوتا۔

اہل کتاب سے احسن انداز سے بحث کرنے کی نصیحت

دَورجدید میں بین المذاہب مکالمہ کی روایت ایک عام معمول بن چکی ہے اور مذہبی مباحثوں کے اصول وضوابط اور ادب آدب معمول کا حصہ متصور ہوتے ہیں۔ لیکن قرآن کریم چودہ صدیاں پیشتر مذہبی مناظروں کے دوران احسن اندا ز اختیار کرنےاور حکمت کے ساتھ نصیحت کرنے کی تلقین فرماتا ہے۔ خصوصاً اہل کتاب سے بات کرتے ہوئے مضبوط دلیل سے بات کرنے کے علاوہ حکمت کا انداز اختیار کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ ا للہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَلَا تُجَادِلُوۡۤا اَہۡلَ الۡکِتٰبِ اِلَّا بِالَّتِیۡ ہِیَ اَحۡسَنُ ٭ۖ اِلَّا الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا مِنۡہُمۡ وَقُوۡلُوۡۤا اٰمَنَّا بِالَّذِیۡۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡنَا وَاُنۡزِلَ اِلَیۡکُمۡ وَاِلٰـہُنَا وَاِلٰـہُکُمۡ وَاحِدٌ وَّنَحۡنُ لَہٗ مُسۡلِمُوۡنَ۔ (العنکبوت: 47)اور اہل کتاب سے بحث نہ کرو مگر اُس (دلیل) سے جو بہترین ہو سوائے اُن کے جنہوں نے اُن میں سے ظلم کیا ہو۔ اور (اُن سے) کہو کہ ہم ایمان لے آئے ہیں اس پر جو ہماری طرف اتارا گیا اور اُس پر (بھی) جو تمہاری طرف اتارا گیا اور ہمارا معبود اور تمہارا معبود ایک ہی ہے اور ہم اُسی کے فرمانبردار ہیں۔

اُدۡعُ اِلٰی سَبِیۡلِ رَبِّکَ بِالۡحِکۡمَۃِ وَالۡمَوۡعِظَۃِ الۡحَسَنَۃِ وَجَادِلۡہُمۡ بِالَّتِیۡ ہِیَ اَحۡسَنُ…۔ (النحل: 126)اپنے ربّ کے راستہ کی طرف حکمت کے ساتھ اور اچھی نصیحت کے ساتھ دعوت دے اور ان سے ایسی دلیل کے ساتھ بحث کر جو بہترین ہو۔

اہل کتاب کی خوبیوں کا برملااقرار

مذہبی اختلاف رکھنے والوں سے رواداری کا مظاہرہ کرنا، مخالفین کی خوبیوں کا اقرار کرنا اور ہر طرح کےمذہبی عناد سے بالا تر رہتے ہوئےعدل و انصاف کا مظاہر ہ کرنا ایک نہایت مشکل امر ہے۔ قرآنی تعلیم اس لحاظ سے بھی نہایت فراخدلانہ واقع ہوئی ہے کہ یہود و نصاریٰ کے ہر قسم کے بغض و نفرت کے باوجود برملا اس بات کا اظہار کرتی ہے کہ تورات اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ رشد وہدایت کا منبع تھی۔ فرمایا: ثُمَّ اٰتَیۡنَا مُوۡسَی الۡکِتٰبَ تَمَامًا عَلَی الَّذِیۡۤ اَحۡسَنَ وَتَفۡصِیۡلًا لِّکُلِّ شَیۡءٍ وَّہُدًی وَّرَحۡمَۃً لَّعَلَّہُمۡ بِلِقَآءِ رَبِّہِمۡ یُؤۡمِنُوۡنَ۔ (الانعام: 155)پھر موسیٰ کو بھی ہم نے کتاب دی جو ہر اس شخص کی ضرورت پر پوری اترتی تھی جو احسان سے کام لیتا، اور ہر چیز کی تفصیل پر مشتمل تھی اور ہدایت تھی اور رحمت تھی تا کہ وہ اپنے ربّ کی لِقاءپر ایمان لے آئیں۔

وَمِنۡ قَوۡمِ مُوۡسٰۤی اُمَّۃٌ یَّہۡدُوۡنَ بِالۡحَقِّ وَبِہٖ یَعۡدِلُوۡنَ۔ (الاعراف: 160)اور موسیٰ کی قوم میں بھی کچھ ایسے لوگ تھے جو حق کے ساتھ (لوگوں کو) ہدایت دیتے تھے اور اُسی کے ذریعہ سے انصاف کرتے تھے۔

اہل کتاب میں عبادت گزاروں اور صالحین کا گروہ

قرآن کریم اہل کتاب میں سے خصوصا ًیہود کا ذکر کرتے ہوئے بعض مقامات پر ا ن کی مخالفانہ چالوں کا ذکر کرتا اور اس بات پر ناپسندیدگی کا اظہار فرماتا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ سے کیے گئے عہد پر قائم نہ رہ سکے۔ نیز انبیاء کی مخالفت کے علاوہ کلامِ الٰہی میں تحریف کے بھی مرتکب ہوئے۔ لیکن یہاں بھی عدل و انصاف کے تقاضوں کو قائم رکھتے ہوئے افراط وتفریط سے پاک اس بات کے اظہار سے بھی نہیں رکتا کہ اہل کتاب میں صالحین اور نیکوکاروں کا ایک گروہ بھی موجود ہے، جو خشیت الٰہی کا حامل اور اللہ تعالیٰ کے اجر وثواب کا مستحق ہے۔ فرمایا: لَیۡسُوۡا سَوَآءً ؕ مِنۡ اَہۡلِ الۡکِتٰبِ اُمَّۃٌ قَآئِمَۃٌ یَّتۡلُوۡنَ اٰیٰتِ اللّٰہِ اٰنَآءَ الَّیۡلِ وَہُمۡ یَسۡجُدُوۡنَ۔ یُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَالۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَیَاۡمُرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَیَنۡہَوۡنَ عَنِ الۡمُنۡکَرِ وَیُسَارِعُوۡنَ فِی الۡخَیۡرٰتِ ؕ وَاُولٰٓئِکَ مِنَ الصّٰلِحِیۡنَ۔ (آل عمران: 114تا115)وہ سب ایک جیسے نہیں۔ اہل کتاب میں سے ایک جماعت (اپنے مسلک پر) قائم ہے۔ وہ رات کے اوقات میں اللہ کی آیات کی تلاوت کرتے ہیں اور وہ سجدے کر رہے ہوتے ہیں۔

وہ اللہ پر ایمان لاتے ہیں اور یومِ آخر پر اور اچھی باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بری باتوں سے روکتے ہیں اور نیکیوں میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور یہی ہیں وہ جو صالحین میں سے ہیں۔

وَاِنَّ مِنۡ اَہۡلِ الۡکِتٰبِ لَمَنۡ یُّؤۡمِنُ بِاللّٰہِ وَمَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکُمۡ وَمَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡہِمۡ خٰشِعِیۡنَ لِلّٰہِ ۙ لَا یَشۡتَرُوۡنَ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ ثَمَنًا قَلِیۡلًا ؕ اُولٰٓئِکَ لَہُمۡ اَجۡرُہُمۡ عِنۡدَ رَبِّہِمۡ…(آل عمران: 200)اور یقیناً اہل کتاب میں سے ایسے بھی ہیں جو اللہ پر ایمان لاتے ہیں اور اس پر بھی جو تمہاری طرف اتارا گیا ہے اور جو اُن کی طرف اتارا گیا تھا اللہ کے حضور عاجزانہ جھکتے ہوئے۔ وہ اللہ کی آیات معمولی قیمت کے بدلے نہیں بیچتے۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے لئے اُن کا اَجر اُن کے ربّ کے پاس ہے۔

معاشرتی ہم آہنگی کے قیام کے لیے اہل کتاب کا کھانا حلال اور اہل کتاب سے شادی کی اجازت

دین ابراہیم کے پیروکاروں کے مابین معاشرتی ہم آہنگی کے قیام اور باہم میل جول کے فروغ کے لیے قرآن کریم نے یہ تعلیم عطا فرمائی کہ اہل کتاب کا ذبیحہ مسلمانوں کے لیے جائز اور اہل کتاب عورت سے مسلمان مرد کو نکاح کی اجازت ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

اَلۡیَوۡمَ اُحِلَّ لَکُمُ الطَّیِّبٰتُ ؕ وَطَعَامُ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡکِتٰبَ حِلٌّ لَّکُمۡ ۪ وَطَعَامُکُمۡ حِلٌّ لَّہُمۡ ۫ وَالۡمُحۡصَنٰتُ مِنَ الۡمُؤۡمِنٰتِ وَالۡمُحۡصَنٰتُ مِنَ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡکِتٰبَ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ…۔ (المائدۃ: 6)آج کے دن تمہارے لئے تمام پاکیزہ چیزیں حلال قرار دی گئی ہیں اور اہلِ کتاب کا (پاکیزہ) کھانا بھی تمہارے لئے حلال ہے جبکہ تمہارا کھانا ان کے لئے حلال ہے اور پاکباز مومن عورتیں اور ان لوگوں میں سے پاکباز عورتیں بھی جن کو تم سے پہلے کتاب دی گئی تمہارے لئے حلال ہیں

اہل کتاب بھی اللہ تعالیٰ کے اجر کے مستحق ہوسکتے ہیں

دنیا کے ہر مذہبی فلسفہ کا مقصد ومنتہاء نجات کاحصول ہے۔ لیکن یہ نظریہ کہ حصولِ نجات کے لیے کسی مذہب میں داخل نہ ہونے والا ضرور واصلِ جہنم ہوگا ایک ایسا خیال ہے جہاں سے افتراق وتنازعات کے سوتے پھوٹتے ہیں۔ گویا یہ نظریہ رکھنے والے مذاہب اس بات کے قائل ہیں کہ انسانیت میں سے نجات کا حقدار صرف وہی ایک گروہ ہے۔ دیگر مذاہب کے ماننے والے خواہ کیسے ہی نیک اور صالح عمل کرنے والے کیوں نہ ہوں جہنم ان کا ٹھکانہ ہے۔ قرآن کریم اس سلسلہ میں نہایت قابلِ فہم انداز اختیار کرتے ہوئے فرماتا ہے کہاِنَّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَالَّذِیۡنَ ہَادُوۡا وَالنَّصٰرٰی وَالصّٰبِئِیۡنَ مَنۡ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَالۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَہُمۡ اَجۡرُہُمۡ عِنۡدَ رَبِّہِمۡ ۪ۚ وَلَا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ وَلَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ۔ (البقرۃ: 63)یقیناً وہ لوگ جو ایمان لائے اور وہ جو یہودی ہیں اور نصاریٰ اور دیگر الٰہی کتب کے ماننے والے جو بھی اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان لائے، اور نیک اعمال بجا لائے ان سب کے لئے اُن کا اجر اُن کے ربّ کے پاس ہے اور ان پر کوئی خوف نہیں اور نہ وہ غم کریں گے۔

لٰکِنِ الرّٰسِخُوۡنَ فِی الۡعِلۡمِ مِنۡہُمۡ وَالۡمُؤۡمِنُوۡنَ یُؤۡمِنُوۡنَ بِمَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ وَمَاۤ اُنۡزِلَ مِنۡ قَبۡلِکَ وَالۡمُقِیۡمِیۡنَ الصَّلٰوۃَ وَالۡمُؤۡتُوۡنَ الزَّکٰوۃَ وَالۡمُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَالۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ ؕ اُولٰٓئِکَ سَنُؤۡتِیۡہِمۡ اَجۡرًا عَظِیۡمًا۔ (النساء: 163)لیکن اُن (یہود) میں سے جو پختہ علم والے اور (سچے) مومن ہیں وہ اس پر ایمان لاتے ہیں جو تیری طرف اتارا گیا اور اس پر بھی جو تجھ سے پہلے اتارا گیا اور نمازقائم کرنے والے اور زکوٰۃ ادا کرنے والے اور اللہ اور یومِ آخر پر ایمان لانے والے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جنہیں ہم ضرور ایک بہت بڑا اجر عطا کریں گے۔

اہل کتاب کی بعض باتوں پر اظہار ناراضی اور ناپسندیدگی

قرآن کریم ایک ایسا ضابطہ حیات ہے جو منطقی ربط کا حامل ہے۔ قرآنی تعلیم جہاں موافقت اور اشتراک کی ہر ممکنہ صورت کو بروئے کار لاتے ہوئے معاشرتی عدل وانصاف اور امن وآشتی کی خواہاں ہے وہیں عدل وانصاف کے تقاضوں کے عین مطابق اظہارِ حق پر خاموشی اختیار کرنے کی بجائے اہل کتاب کو اللہ تعالیٰ سے کیے گئے وعدوں اور عہدوں کو پامال کرنے، توریت کی وحیٔ الٰہی میں تحریف کرنے اور انبیاء کی ناحق مخالف جیسے اعمال پر ناراضی اور ناپسندیدگی کا اظہار فرماتی ہے۔

قرآن کریم بر ملا اس بات کا اظہار فرماتا ہےیہود کی اخلاقی گراوٹ اس انتہا کو چھو رہی ہے کہ ضُرِبَتْ عَلَیْھِمُ الذِّلَّۃُ اور وَضُرِبَتْ عَلَیْھِمُ الْمَسْکَنَۃُ اللہ تعالیٰ کے نبیو ں کو قتل کرنے کے نتیجے میں اور اللہ تعالیٰ کی ناراضی مول لے کر یہ لوگ قعرِ مذلت میں گر چکے ہیں۔ اور ایسی پست ہمتی کا شکار ہیں کہ شکست و ریخت ان کا مقدر ہے۔

حضرت موسی علیہ السلام پر نازل ہونے والے کلام کو قرآن کریم ہدایت اور رحمت کامنبع قرار دیتا ہے۔ (الانعام: 155) لیکن بخت نصر کےیروشلم پر حملے، ہیکل سلمانی کی تباہی اور توریت کے مقدس نسخوں کے ضائع ہوجانے کے بعد یہودی علماء کی یادداشتوں اور حافظہ کی بنیاد پر جمع کی گئی باتوں کو کلام الٰہی قراردینے کے یہود کے عمل پر بھی ناراضی کا اظہار فرماتا ہے۔ کلام اللہ میں من مانی تبدیلیاں کرکے اصل صورت کو بگاڑدینے کا ذکر کرتے ہوئے قرآن کریم فرماتا ہے: یُحَرِّفُوۡنَ الۡکَلِمَ عَنۡ مَّوَاضِعِہٖ(البقرۃ: 14)یعنی وہ کلام الٰہی کو اس کی اصل جگہ سے ہٹا کر تحریف کے مرتکب ہوتے یہاں تک کہ یُحَرِّفُوۡنَہٗ مِنۡۢ بَعۡدِ مَا عَقَلُوۡہُ وَ ہُمۡ یَعۡلَمُوۡنَ (البقرۃ: 76)یعنی بسا اوقات جانتے بوجھتے ہوئے تحریف کی جسارت کی جاتی ہے۔ نیز فرمایا:

فَوَیۡلٌ لِّلَّذِیۡنَ یَکۡتُبُوۡنَ الۡکِتٰبَ بِاَیۡدِیۡہِمۡ ٭ ثُمَّ یَقُوۡلُوۡنَ ہٰذَا مِنۡ عِنۡدِ اللّٰہِ لِیَشۡتَرُوۡا بِہٖ ثَمَنًا قَلِیۡلًا ؕ فَوَیۡلٌ لَّہُمۡ مِّمَّا کَتَبَتۡ اَیۡدِیۡہِمۡ وَوَیۡلٌ لَّہُمۡ مِّمَّا یَکۡسِبُوۡنَ۔ (البقرة: 80)پس ہلاکت ہے ان کے لئے جو اپنے ہاتھوں سے کتاب لکھتے ہیں پھر کہتے ہیں کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے تاکہ وہ اس کے بدلے کچھ معمولی قیمت وصول کر لیں۔ پس ہلاکت ہے ان کے لئے اُس کے نتیجہ میں جو ان کے ہاتھوں نے لکھا اور ہلاکت ہے اُن کے لئے اس کی وجہ سے جو وہ کماتے ہیں۔

اسی طرح جب یہود نے اللہ تعالیٰ سے کیے گئے عہد اور وعدہ کو توڑ ڈالا اور قیامِ صلوٰة اور ایتاء زکوٰة کے علاوہ اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے پیغمبروں کی توہین و تکذیب کے مرتکب ہوئے تو فرمایا کہفَبِمَا نَقۡضِہِمۡ مِّیۡثَاقَہُمۡ لَعَنّٰہُمۡ وَجَعَلۡنَا قُلُوۡبَہُمۡ قٰسِیَۃً…۔ (المائدۃ: 14)پس اُن کے اپنا عہد توڑنے کی وجہ سے ہم نے ان پر لعنت کی اور ان کے دلوں کو سخت کر دیا۔

اہل کتاب سے دوستی کی ممانعت اور اس کا پس منظر

قرآن کریم یہود و نصاریٰ یا اہل کتاب سے تعاون واشتراک کا ذکرنے کے علاوہ یہود کی بڑھتی ہوئی شرارتوں اور ریشہ دوانیوں پر مسلمانوں کو خبردار کرتے ہوئے دومقامات پر انہیں محرمِ راز بنانے اور ان سے دوستی کرنے سےبھی منع فرماتا ہے۔ یہ دونوں آیات درج ذیل ہیں: یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَتَّخِذُوا الۡیَہُوۡدَ وَالنَّصٰرٰۤی اَوۡلِیَآءَ ۘؔ بَعۡضُہُمۡ اَوۡلِیَآءُ بَعۡضٍ ؕ وَمَنۡ یَّتَوَلَّہُمۡ مِّنۡکُمۡ فَاِنَّہٗ مِنۡہُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الظّٰلِمِیۡنَ۔ (المائدۃ: 52)اے وے لوگو جو ایمان لائے ہو! یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ پکڑو۔ وہ (آپس ہی میں ) ایک دوسرے کے دوست ہیں۔ اور تم میں سے جو اُن سے دوستی کرے گا وہ اُنہی کا ہو رہے گا۔ یقیناً اللہ ظالم قوم کو ہدایت نہیں دیتا۔

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَتَّخِذُوۡا بِطَانَۃً مِّنۡ دُوۡنِکُمۡ لَا یَاۡلُوۡنَکُمۡ خَبَالًا ؕ وَدُّوۡا مَا عَنِتُّمۡ ۚ قَدۡ بَدَتِ الۡبَغۡضَآءُ مِنۡ اَفۡوَاہِہِمۡ ۚۖ وَمَا تُخۡفِیۡ صُدُوۡرُہُمۡ اَکۡبَرُ ؕ قَدۡ بَیَّنَّا لَکُمُ الۡاٰیٰتِ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡقِلُوۡنَ۔ (آل عمران: 119)اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اپنے لوگوں کو چھوڑ کر دوسروں کو جگری دوست نہ بناؤ۔ وہ تم سے برائی کرنے میں کوئی کمی نہیں کرتے۔ وہ پسند کرتے ہیں کہ تم مشکل میں پڑو۔ یقیناً بُغض ان کے مُونہوں سے ظاہر ہو چکا ہے اور جو کچھ ان کے دل چھپاتے ہیں وہ اس سے بھی زیادہ ہے۔ یقیناً ہم تمہارے لئے آیات کو کھول کھول کر بیان کرچکے ہیں اگر تم عقل رکھتے ہو۔

ان دو آیات کو بنیاد بناتے ہوئے بعض طبائع میں یہ اشتباہ پیدا ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے یہود و نصاریٰ سے تعلقات اور دوستیاں اللہ تعالیٰ کے حکموں کے منافی اور قرآن کریم کی منشاء کے خلاف ہیں۔

لیکن قرآن کریم پر غور کے نتیجے میں معلوم ہوتا ہے کہ جب مسلمانوں کے لیے اہل کتاب کا ذبیحہ حلال قرار دیا گیا ہے، اوراہل کتاب عورت سے مسلمان مرد کو شادی کی اجازت عطا فرمادی گئی تو گویا اسلامی تعلیم کی یہ منشاء ہر گز نہیں کہ یہودو نصاریٰ سے معاشرتی تعلقات اور میل جول نہ رکھا جائے۔ اندریں صورت قرآن کریم کی دیگر آیات کی روشنی میں یہود ونصاریٰ سے دوستی کی ممانعت والی آیات کی تطبیق کی ضرورت ہے۔ قرآن کریم پر غور کریں تو سورة المائدہ ہی کی ایک اور آیت نصاریٰ کو مسلمانوں سے محبت میں قریب ترقرار دیتی ہے۔ اس آیت کی رو سے مندرجہ بالا آیات کو سمجھنے کی کوشش کریں تو یہ عقدہ بآسانی حل ہوسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: لَتَجِدَنَّ اَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَۃً لِّلَّذِیۡنَ اٰمَنُوا الۡیَہُوۡدَ وَالَّذِیۡنَ اَشۡرَکُوۡا ۚ وَلَتَجِدَنَّ اَقۡرَبَہُمۡ مَّوَدَّۃً لِّلَّذِیۡنَ اٰمَنُوا الَّذِیۡنَ قَالُوۡۤا اِنَّا نَصٰرٰی ؕ ذٰلِکَ بِاَنَّ مِنۡہُمۡ قِسِّیۡسِیۡنَ وَرُہۡبَانًا وَّاَنَّہُمۡ لَا یَسۡتَکۡبِرُوۡنَ۔ (المائدۃ: 83)اور یقیناً تُو مومنوں سے محبت میں قریب تر اُن لوگوں کو پائے گا جنہوں نے کہا کہ ہم نصرانی ہیں۔ یہ اس لئے ہے کہ ان میں سے کئی عبادت گزار اور رہبانیت اختیار کرنے والے ہیں اور اس وجہ سے کہ وہ اِستکبار نہیں کرتے۔

اسی طرح سورة المائدہ میں جہاں مسلمانوں کو اہل کتاب کے ساتھ دوستی سے منع کیا گیا، وہاں صراحت کے ساتھ وجوہات بھی بیان فرمائی گئی ہیں کہ وہ مسلمانوں کا تمسخر اڑاتےاور اسلامی شعار کو مذاق کا نشانہ بناتے ہیں، یہاں تک کہ اذان کی بھی نقلیں اُتارتے ہیں۔ سورة المائدہ میں فرمودہ اس پس منظر کی تفصیل حسب ذیل ہے۔

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَتَّخِذُوا الَّذِیۡنَ اتَّخَذُوۡا دِیۡنَکُمۡ ہُزُوًا وَّلَعِبًا مِّنَ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡکِتٰبَ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ وَالۡکُفَّارَ اَوۡلِیَآءَ ۚ وَاتَّقُوا اللّٰہَ اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِیۡنَ۔ (المائدۃ: 58)اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! ان لوگوں میں سے جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی اُن کو جنہوں نے تمہارے دین کو تمسخر اور کھیل تماشہ بنا رکھا ہے اور کفار کو اپنا دوست نہ بناؤ اور اللہ سے ڈرو اگر تم مومن ہو۔

وَاِذَا نَادَیۡتُمۡ اِلَی الصَّلٰوۃِ اتَّخَذُوۡہَا ہُزُوًا وَّلَعِبًا ؕ ذٰلِکَ بِاَنَّہُمۡ قَوۡمٌ لَّا یَعۡقِلُوۡنَ۔ (المائدۃ: 59)اور جب تم نماز کے لئے بلاتے ہو تو وہ اُسے مذاق اور کھیل تماشہ بنا لیتے ہیں۔ یہ اس بنا پر ہے کہ وہ ایسے لوگ ہیں جو عقل نہیں رکھتے۔

نیزسورة المائدہ میں نہایت لطیف پیرائے اور حکیمانہ اندا ز میں مسلمانوں کو یہ بات سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ مسلمانوں کا حقیقی ولی اور ان کا دوست اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ نیز اللہ کے رسولﷺ اوروہ مخلص مومنین مسلمانوں کے دوست اور ولی ہیں جو نمازوں کو قائم کرنے والے او ر زکوٰة ادا کرنے والے ہیں۔ فرمایا: اِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللّٰہُ وَرَسُوۡلُہٗ وَالَّذِیۡنَ اٰمَنُوا الَّذِیۡنَ یُقِیۡمُوۡنَ الصَّلٰوۃَ وَیُؤۡتُوۡنَ الزَّکٰوۃَ وَہُمۡ رٰکِعُوۡنَ۔ (المائدۃ: 56)یقیناً تمہارا دوست اللہ ہی ہے اور اس کا رسول اور وہ لوگ جو ایمان لائے جو نماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور وہ (خدا کے حضور) جھکے رہنے والے ہیں۔

اسی طرح سورہ ل عمران میں ان اہل کتاب کو محرمِ راز اور جگری دوست بنانے سے منع فرمایا گیا ہے جو بغضِ باطن کی وجہ سے مسلمانوں کے ساتھ غیر مخلص ہیں۔ اہل کتاب کے اس طرز عمل کے باوجود مسلمانوں کو اظہارِ نفرت کی تعلیم دینے کی بجائے صبر اور تقویٰ اختیار کرنے کی نصیحت فرمائی گئی ہے۔

تعاون و اشتراک کی تاریخی پیشکش جو قبول نہ کی گئی

اگر اہل کتاب توریت اور انجیل میں مکتوب پیش خبریوں کے مطابق مبعوث ہونے والے رسول اللہﷺ پر ایمان لے آتے اور اللہ تعالیٰ سے کیے گئے وعدہ کے موافق رسولِ خداﷺ کی عزت و توقیر کرتے تو نسل ابراہیم کی وحدت ویگانگت کے نتیجے میں روئے زمین پر ایک ایسا انقلاب عظیم برپا ہوتا جس کی نظیر تاریخ مذاہب میں ملنا مشکل ہے۔ لیکن جب اہل کتاب کے ارباب حل وعقد نے اسلام کے پیغام سے رُوگردانی کی اور مخاصمانہ روش برقرار رکھی تو قرآن کریم نے اہل کتاب سے مفاہمت اور موافقت کے لیے ایک نیا اسلوب اختیار فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے آنحضورﷺ کو ایک اور حکمت عملی اختیار کرنے کی تلقین فرماتے ہوئے مشترکہ اقدار کو بروئےکار لانے کی تجویز پیش کرنے کا ارشاد فرمایا ہے۔ سورت آل عمران میں اس عظیم الشان پیشکش کا ذکر ان الفاظ میں محفوظ ہے:

قُلۡ یٰۤاَہۡلَ الۡکِتٰبِ تَعَالَوۡا اِلٰی کَلِمَۃٍ سَوَآءٍۢ بَیۡنَنَا وَبَیۡنَکُمۡ اَلَّا نَعۡبُدَ اِلَّا اللّٰہَ وَلَا نُشۡرِکَ بِہٖ شَیۡئًا وَّلَا یَتَّخِذَ بَعۡضُنَا بَعۡضًا اَرۡبَابًا مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ ؕ فَاِنۡ تَوَلَّوۡا فَقُوۡلُوا اشۡہَدُوۡا بِاَنَّا مُسۡلِمُوۡنَ۔ (آل عمران: 65)تُو کہہ دے اے اہل کتاب! اس کلمہ کی طرف آ جاؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان مشترک ہے کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہیں کریں گے اور نہ ہی کسی چیز کو اُس کا شریک ٹھہرائیں گے اور ہم میں سے کوئی کسی دوسرے کو اللہ کے سوا ربّ نہیں بنائے گا۔ پس اگر وہ پھر جائیں تو تم کہہ دو کہ گواہ رہنا کہ یقیناً ہم مسلمان ہیں۔

یہ پیشکش جویہود و نصاریٰ اور مسلمانوں کو باہم محبت واخوت کی لڑی میں پرو کر وحدت ویگانگت کا ماحول پیدا کرسکتی تھی، افسوس کہ قابلِ التفات نہ سمجھی گئی اور اہل کتاب کے دونوں گروہ توحید کی عظیم الشان قدر مشترک کے باوجود امن و آشتی اور اتحاد و اتفاق کے عظیم موقع سے گریزاں ہوگئے۔

اہل کتاب کے قرآنی نظریہ، توحید کی قدرِ مشترک اور تینوں مذاہب کے نسلِ ابراہیم ہونے کے انقلابی منشور پر مشتمل قرآن کریم کی اس تعلیم کی روشنی میں بانئ اسلام حضرت محمد مصطفیٰﷺ نہایت حکمت اورکریمانہ انداز سے اہل کتاب کے دونوں گروہوں یعنی یہودیت اور مسیحیت کو یہ احساس دلاتے رہےکہ مشرکین اور کفار کے بالمقابل ہم دینِ ابراہیم کے پیرو اور کئی مشترکہ عقائد اور اقدار کے حامل ہیں۔ چنانچہ مشرکین کی بڑھتی ہوئی مخالفت اور ایذا رسانیوں کے باعث مکہ سے پہلی ہجرت کے لیے ایک مسیحی مملکت یعنی حبشہ کاا نتخاب کیا گیا، حبشہ کے مسیحی بادشاہ مسلمانوں کے لیے نہایت نیک دل ثابت ہوئے۔ اسی طرح آنحضورﷺ مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ تشریف لائے تو یہاں کچھ یہودی قبائل رہائش پذیر تھے۔ آنحضورﷺ نےمدینہ میں آباد اہل کتاب سے دوستانہ مراسم استوار کرنے کی کوشش کی اور سیاسی معاہدات کیے۔ احادیث میں آنحضورﷺ کا عمومی طرزِ عمل ان الفاظ میں بیان ہو اہے کہوَکَانَ رَسُولُ اللّٰہِ یُحِبُ مُوَافَقَةَ اَ ھْلِ الْکِتَابِ فِیْمَا لَمْ یُؤمَرْ فِیْہِ بِشَیْءِِ۔ (الجامع الصحیح للبخاری۔ کتاب المناقب۔ باب صفة النبیﷺ )یعنی جن معاملات میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی حکم نازل نہ ہوا ہوتا، رسول اللہﷺ اہل کتاب سے موافقت کو پسند فرماتے تھے۔

مدینہ میں پہلی اسلامی ریاست کی تشکیل کے بعد آنحضورﷺ نے مدینہ میں آبادیہود سے بقائے باہمی کا معاہدہ کرتے ہوئے انہیں مذہبی آزادیاں عطا فرمائیں۔ اس معاہدےکی رُو سےآپﷺ مسلمانوں اور یہودکو ایک امت قرار دیتے ہوئے فرماتےہیں: اِنَّ یَھُودَ بَنِیْ عَوْفِِ اُمّةمَعَ الْمُؤمِنِیْنَ، لِلْیَہُودِ دِیْنُھُمْ وَلِلْمُسْلِمیْن دِیْنُھُمْ۔ (السیرة النبویہ لابن ھشام جلد 2صفحہ 499)یعنی یہودِ بنی عوف مسلمانوں کے ساتھ ایک ہی قرار دیے جاتے ہیں۔ لیکن یہود اپنے دین پر اور مسلمان اپنے دین پر ( عمل پیرا رہیں گے)

اس خیر خواہانہ اور دوستانہ طرزِ عمل کے باوجود اہلِ کتاب بالخصوص یہودنےنبیٔ کریمﷺ اور مسلمانوں کے خلاف مخاصمانہ چلن برقراررکھا۔ بسا اوقات منافقین اور مشرکینِ عرب کے ہمنوا ہوکروہ مسلمانوں کے خلاف سازشوں میں ملوث ہو جاتے۔ نوبت یہاں تک جاپہنچی کہ نبیٔ کریمﷺ اگر رات کو گھر سے نکلتے تو یہودیوں کی طرف سے حملے کا خطرہ رہتا۔ درپردہ کارروائیوں، عہدشکنی کے متعددواقعات اور منافقانہ چالوں کے بعد یہودِمدینہ معاہدات کو توڑ کر کھلم کھلا آمادۂ جنگ ہو گئے۔ اندریں صورت ریاستی امن و امان برقرار رکھنے کے لیے مدینہ میں آباد یہودی قبائل اور مسلمانوں کے مابین تصادم کے بعض ناخوشگوارواقعات بھی پیش آئے، لیکن اس وقت اُن واقعات کی تفصیل بے محل تصور ہوگی۔

قرآن کریم میں اہل کتاب کے دوسرے گروہ یعنی مسیحیوں کو قرب و مؤدت کے لحاظ سے مسلمانوں سے قریب تر قرار دیا گیا ہے۔ نصاریٰ سے آنحضورﷺ کی رواداری کا مشاہدہ کرنا ہو تو اس کے لیے اہل نجران کی مدینہ آمد اور مسجدنبوی میں ان کی مہمان نوازی پر غور کریں آپﷺ نے نہ صرف یہ کہ انہیں مدینہ کے سب سے مقدس مقام مسجد نبوی میں خوش آمدید کہا بلکہ ان کی عبادت کا وقت ہوا تو مسجد نبوی میں ہی انہیں عبادت کی اجازت مرحمت فرمادی۔

اسی طرح رسول اللہﷺ اور اہل نجران کے مابین جب صلح کا معاہدہ طے پایا تو آپﷺ نے اہل نجران کے مسیحیوں کے لیے ایک امان تحریر فرمائی جس کے الفاظ یہ ہیں: اللہ اوراس کے رسول اہل نجران ا ور ان کے حلیفوں کے لیے، ان کی جانوں، ان کی جائیدادوں، ان کے مذہب، ان کے راہبوں اور پادریوں، ان کے موجود اور غیر موجود افراد اور قافلوں اور ان کے مذہبی مقامات وغیرہ کے ضامن اور ذمہ دار ہیں۔ انہیں ان کے دین سے ہٹنے پر مجبور نہ کیا جائے۔ ان کے حقوق اور ان کی عبادت گاہوں کے حقو ق میں کوئی تبدیلی نہ کی جائے۔ نہ کسی پادری کو، نہ کسی راہب کو، نہ کسی سردار کو اور نہ کسی عبادت گاہ کو اور نہ کسی خادم کو( کوئی نقصان پہنچایا جائے)۔ بعض روایات میں ان کے اموال کے ساتھ ان کی عورتوں اور بچوں کی حفاظت کی بھی امان عطا فرمائی گئی۔ (بیھقی، ابن سعد، ابن عساکر)

یہ توآغاز اِسلام کی مثالیں ہیں جب سرزمینِ عرب کی ایک چھوٹی سی بستی میں پہلی اسلامی حکومت یعنی ’’ریاستِ مدینہ‘‘کی داغ بیل ڈالی جارہی تھی۔ اہل کتاب سے موافقت کے قرآنی نظریہ اوررسول اللہﷺ کے فیضانِ تربیت کا نتیجہ تھا کہ اسلام کی طاقت و سطوت کے زمانے میں بھی مسلمان بادشاہ اور حکمران دیگر مذاہب کے لیے عموماًاور اہل کتا ب کے لیے خصوصاً نہایت نرم خُو واقع ہوئے۔ مسلمان ریاستوں میں انہیں مذہبی آزادیاں نصیب رہیں، مسلمانوں کی طرف سے زکوٰة کی ادائیگی کے بالمقابل اہل کتاب جزیہ کی معمولی رقم ادا کرکے ’’ ذمی‘‘ کا درجہ حاصل کرتے یعنی جن کی حفاظت اسلامی ریاست کی ذمہ داری ہوتی، یہاں تک کہ مسلمان سلطنتوں میں یہود ونصاریٰ بھی اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوسکتے تھے۔ اندلس میں یہودیوں کے ساتھ مسلمانوں کے حسن سلوک پر ایک مشہور یہودی مصنفPoliakov نے عہدِہسپانیہ کو یہودیوں کے سنہری دور سے تعبیر کیا ہے۔ قرون اولیٰ سے قرونِ وسطیٰ تک اسلام کی سطوت وشوکت کے دور میں بھی مسلم ریاستوں میں مذہبی آزادیوں اور اہل کتاب سے مفاہمانہ تعلقات کا دَور دورہ رہا۔ صدیوں پر پھیلی ہوئی تاریخ اسلام کو اس پہلو سے پرکھنے کی خاطر دعوتِ مطالعہ دیتے ہوئے اس مضمون کو خلیفہ ثانی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرف سے عطا کی گئی اُس امان کے الفاظ پر ختم کروں گا جو آپ نے اہل یروشلم کو عطا فرمائی، جسے یہود ایلیا اور مسلمان بیت المقدس یا القدس شریف بھی کہتے ہیں۔

بازنطینی مسیحیوں اور مسلمانوں کے مابین تصادم کے نتیجے میں جب بلادِ شام اور فلسطین مسلمانوں کے ماتحت ہوگئے اور وہ شہرِ مبارک جس کے گردو نواح کو اللہ تعالیٰ نے برکت بخشی تھی توحید کے پرستاروں کے تسلط میں آگیا تو چشمِ فلک نے ایک عجیب نظارہ دیکھا۔ خلیفہ ثانی حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ جو فتح مکہ کے موقع پر اپنے آقا کے عجز وانکسار کو بچشمِ خود ملاحظہ فرما چکے تھے ایسی عاجزانہ شان سے بیت المقدس میں داخل ہوئے کہ یہ واقعہ فاتحین کی تاریخ میں سنہری حرفوں سے لکھے جانے کے قابل ہے۔ ایک خادم کی ہم راہی میں شام سے بیت المقدس آتے ہوئے سواری کے لیے ایک اونٹ تھا جس پر کبھی امیر المومنین اور کبھی خادم سوار ہوجاتے۔ حضرت ابو عبیدہ بن الجراحؓ کی معیت میں کچھ مخلصین استقبال کے لیے جمع تھے۔ جب آپ ان کے قریب پہنچے تھے تو دیکھا کہ خادم اونٹ پر سوار ہیں اور امیر المومنین پیدل چلے آتے ہیں۔ اگلے دن بیت المقدس کے مسیحی حکمرانوں نے شہر کا اختیارامیر المومنین حضرت عمر بن خطابؓ کے سپرد کردیا اور یوں 638ء میں جب بخت نصر کے ہاتھوں ہیکل سلیمانی کی تباہی پر پانچ سے زائد صدیاں بیت چکی تھیں اور تب سے یہود ی اپنے مقدس مقامات کی زیارت سے محروم تھے۔ فتحِ بیت المقدس اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی امان کے نتیجے میں یہودی صدیوں بعد یروشلم کی زیارت سے فیضیاب ہوئے اور مسیحیوں کوبھی مذہبی آزادی کے ساتھ حضرت مسیح علیہ السلام کی یادگاروں کے جلو میں بودو باش اختیار کرنے کا موقع میسر رہا۔ لیکن اس زمانہ میں مسیحیوں اور یہود کے مابین شدید عداوت کے باعث یہود کو صرف یہ اجازت دی گئی کہ وہ جب چاہیں اس شہرِ مبارک کی زیارت کو آسکتے ہیں لیکن انہیں یہاں رہائش رکھنے کی اجازت نہ ہوگی۔ حضرت عمرؓ کی طرف سے عطا کی گئی امان کے الفاظ حسب ذیل ہیں: ’’یہ وہ امان ہے جو اللہ کے بندے عمر بن الخطاب امیر المومنین نے اہل ایلیا( یروشلم کے رہنے والوں ) کو دی ہے۔ ان کی جانوں، ان کے اموال، ان کے گرجے(کنیسے)، ان کی صلیبوں، ان کے بیماروں، ان کے صحت مندوں اور ان کی ساری قوم کو امان دی گئی ہے۔ ان کے گرجوں کو رہائش گاہ نہیں بنایاجائے گا۔ نہ انہیں مسمار کیا جائے گا۔ نہ ان میں کمی کی جائے گی نہ ان کے احاطے چھوٹے کئے جائیں گے، نہ ان کی صلیبوں کو نقصان پہنچایا جائے گا اور نہ ہی ان کے اموال کو کچھ نقصان پہنچایا جائے گا۔ انہیں کوئی تکلیف نہ پہنچائی جائے گی۔ نہ انہیں ان کے دین بدلنے پر مجبور کیا جائے گا اور یہود کو اس شہر میں مسیحیوں کے ساتھ رہنے کی اجازت نہ ہوگی۔ ‘‘( تاریخ الامم والملوک للطبری جلد 2صفحہ 449)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button