کلام امام الزمان علیہ الصلاۃ والسلام

ہماری جماعت کے لئے خاص کر تقویٰ کی ضرورت ہے

اپنی جماعت کی خیر خواہی کے لئے زیادہ ضروری بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ تقویٰ کی بابت نصیحت کی جاوے۔ کیونکہ یہ بات عقلمند کے نزدیک ظاہر ہے کہ بجز تقویٰ کے اور کسی بات سے اللہ تعالیٰ راضی نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیۡنَ اتَّقَوۡا وَّالَّذِیۡنَ ہُمۡ مُّحۡسِنُوۡنَ (النحل: 129)

ہماری جماعت کے لئے خاص کر تقویٰ کی ضرورت ہے۔ خصوصاً اس خیال سے بھی کہ وہ ایک ایسے شخص سے تعلق رکھتے ہیں اور اس کے سلسلہٴ بیعت میں ہیں جس کا دعوےٰ ماموریت کا ہے تا وہ لوگ جو خواہ کسی قسم کے بغضوں، کینوں یا شرکوں میں مبتلا تھے یا کیسے ہی رو بہ دنیا تھے۔ ان تمام آفات سے نجات پاویں۔

(ملفوظات جلد 1صفحہ 10، ایڈیشن 1984ء)

پس ہمیشہ دیکھنا چاہئے کہ ہم نے تقویٰ و طہارت میں کہاں تک ترقی کی ہے۔ اس کا معیار قرآن ہے۔ اللہ تعالیٰ نے متقی کے نشانوں میں ایک یہ بھی نشان رکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ متقی کو مکروہاتِ دنیا سے آزاد کرکے اس کے کاموں کا خود متکفل ہو جاتا ہے۔ جیسے کہ فرمایا وَمَنۡ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجۡعَلۡ لَّہٗ مَخۡرَجًا۔ وَّیَرۡزُقۡہُ مِنۡ حَیۡثُ لَا یَحۡتَسِبُ (الطلاق: 3-4) جو شخص خداتعالیٰ سے ڈرتا ہے، اللہ تعالیٰ ہر ایک مصیبت میں اس کے لئے راستہ مخلصی کا نکال دیتا ہے اور اس کے لئے ایسے روزی کے سامان پیدا کر دیتاہے کہ اس کے علم و گمان میں نہ ہوں۔ یعنی یہ بھی ایک علامت متقی کی ہے کہ اللہ تعالیٰ متقی کو نابکار ضرورتوں کا محتاج نہیں کرتا۔ مثلاً ایک دوکاندار یہ خیال کرتا ہے کہ دروغگوئی کے سوا اُس کا کام ہی نہیں چل سکتا۔ اِس لئے وہ دروغ گوئی سے باز نہیں آتا۔ اور جھوٹ بھولنے کے لئے وہ مجبوری ظاہر کرتا ہے۔ لیکن یہ امر ہرگز سچ نہیں۔ خداتعالیٰ متقی کا خود محافظ ہو جاتا اور اُسے ایسے موقع سے بچا لیتا ہے جو خلافِ حق پر مجبور کرنے والے ہوں۔ یاد رکھو جب اللہ تعالیٰ کو کسی نے چھوڑا، تو خدا نے اسے چھوڑ دیا۔ جب رحمان نے چھوڑ دیا۔ تو ضرور شیطان اپنا رشتہ جوڑے گا۔

( ملفوظات جلد 1صفحہ 12، ایڈیشن 1984ء)

تقویٰ ہی ایک ایسی چیز ہے جس کو شریعت کا خلاصہ کہہ سکتے ہیں۔ اور اگر شریعت کو مختصر طور پر بیان کرنا چاہیں تو مغزِ شریعت تقویٰ ہی ہوسکتا ہے۔ تقویٰ کے مدارج اور مراتب بہت ہیں۔ لیکن اگرطالبِ صادق ہو کر ابتدائی مراتب اور مراحل کو استقلال اور خلوص سے طے کرے تو وہ اس راستی اور طلبِ صدق کی وجہ سے اعلیٰ مدارج کو پالیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللّٰہُ مِنَ الۡمُتَّقِیۡنَ(المائدہ: 28) گویا اللہ تعالیٰ متقیوں کی دعاوٴں کو قبول فرماتا ہے۔ …لہٰذا ہماری جماعت کو لازم ہے کہ جہاں تک ممکن ہو ہر ایک ان میں سے تقویٰ کی راہوں پر قدم مارے۔ تاکہ قبولیتِ دعا کا سرور اور حظ حاصل کرے اور زیادتی ایمان کا حصہ لے۔

(ملفوظات جلد 1صفحہ 108-109، ایڈیشن 1984ء)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button