یادِ رفتگاں

محترم ڈاکٹر راجہ منیر احمد صاحب (مرحوم)

(‘اے اے امجد’)

محترم ڈاکٹر راجہ منیر احمد 9؍اکتوبر 1936ء کو موضع ہجکہ(بھیرہ)ضلع سرگودھا میں پیدا ہوئے۔آپ کے والد محترم راجہ غلام حیدر صاحب تھے۔جنہوں نے خاندان میں سب سے پہلے حضرت مصلح موعودؓ کے ہاتھ پر احمدیت قبول کی۔آپ محکمہ نہر (سندھ ) میں ملازم تھے،بعدازاں آپ نے کچھ عرصہ گائوں میں ہی ہومیو پیتھی کی پریکٹس بھی کی۔اپنے والد اور والدہ کی تربیت کے نتیجے میں بچپن ہی سے احمدیت سے وابستگی اور دعا کی قبولیت پر یقین حاصل تھا۔اسی کا نتیجہ تھا کہ اسکول کے زمانے سے ہی اساتذہ اور دیگر طلبہ کے ساتھ احمدیت کے سلسلے میں مباحثات ہوتے رہتے تھے۔

ابتدائی تعلیم اورملازمت

آپ نے ابتدائی تعلیم بھیرہ سے حاصل کی،بعدمیں کراچی اور پھر ٹنڈو جام ایگریکلچر کالج (بعدازاں یونیورسٹی)سے بی ایس سی کی۔گھریلومشکلات کی بنا پر اپنی تعلیم کافی مشکل حالات میں حاصل کی اور پارٹ ٹائم نوکری کرکے یونیورسٹی کے تعلیمی اخراجات پورے کیے۔یونیورسٹی میں علاقائی تعصب کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ ایک مرتبہ ایک سندھی پروفیسر نے اسی تعصب میں جان بوجھ کر آپ کو فیل کردیا۔اس نے خود 35نمبر لگا کر آپ کودکھائے(جبکہ پاس ہونے کے لیے 50نمبر درکار ہوتے تھے)اور بتا یاکہ میں تمہیں فیل کررہا ہوں۔آپ نے خود بھی دعا کی اور اسی وقت حضرت مصلح موعودؓ نیز دیگر جماعتی بزرگان کی خدمت میں بھی دعا کی درخواست کی۔اللہ تعالیٰ نے خاص فضل فرمایا اور اسی پرچے میں آپ کے 65نمبر آئے،جس کو آپ خدا تعالیٰ کا فضل اور دعائوں کا نتیجہ قرار دیتے تھے۔سندھ میں خدام الاحمدیہ کے تحت مختلف شعبو ں کے علا وہ آپ کو بطور قائد بھی خدمت کا موقع ملا۔تعلیم مکمل کرنےکےبعد سندھ میں ہی محکمہ زراعت میں آپ نے ملازمت اختیار کرلی۔1972ءمیں سندھی تعصب کی بنا پر آپ کو ملازمت میں پریشان کیاجانے لگا تو آپ ملازمت کو خیر باد کہہ کر ربوہ آگئے۔کچھ عرصہ ربوہ میں رہنے کے بعد 1973ءمیں جرمنی چلے گئے۔تین سال کاعرصہ جرمنی میں گزارا لیکن دل مطمئن نہ ہونے کی وجہ سے واپس ربوہ آگئے۔

دوران ملازمت خدمات

مکرم راجہ منیر احمد صاحب کے بیٹے مکرم راجہ بصیر احمد ابصار صاحب نے اپنے والد صاحب کی دوران ملازمت خدمات کا ذکر کرتےہوئے بتایاکہ ایک مرتبہ سندھ میں ملازمت کےدوران آپ کی ڈیوٹی ایک تجرباتی زرعی فارم پرتھی۔اسی دوران آپ کو حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ کی تحریک وقف عارضی کے بارے میں علم ہوا توآپ نے بھی وقف عارضی فارم پُر کرکے بھجوادیا اورآپ کو دفتر سےکسی مقام پروقف عارضی کے لیے ہدایات موصول ہوگئیں۔آپ نے اپنے محکمہ سے ان ایام میں رخصت طلب کی لیکن اتفاق سےانہی ایام میں ایک افسر بالا نے اس زرعی فارم کے معائنہ کے لیے بھی آنا تھا۔لہٰذا آپ کی رخصت منظور نہ ہوئی،جس پر آپ نے حضورؒ کی خدمت میں تحریر کیا۔اس پرحضورؒ نےجواب میں فرمایاکہ اپنی ملازمت پررہیں اور وقف عارضی پرنہ جائیں لیکن یہ جواب بروقت موصول نہ ہوا اورآپ بغیررخصت وقف عارضی پرچلےگئے۔اس وقف عارضی پر آپ کو بہت دعائیں کرنے کی توفیق ملی۔آئندہ کی خوشخبریاں بھی ملیں۔دوسری طرف جب متعلقہ افسر معائنہ کےلیے آپ کےزرعی فارم پر پہنچا تو اسے بہت اچھے انتظامات دیکھنےکو ملے۔صفائی کامعیار بھی بہت اچھاتھا اور خداتعالیٰ نے یہ تصرف فرمایاکہ بجائے اس کےکہ وہ آپ کی غیرحاضری پر کوئی اعتراض کرتا،اس نے اس بات پر خوشنودی کا اظہار کیاکہ ان کی غیرموجودگی میں بھی تمام کام نہایت خوش اسلوبی اور باقاعدہ نظام کے تحت جاری ہے۔

ایک جرمن کمپنی نے قطر میں کوئی پراجیکٹ شروع کیاتو آپ کو اس میں ملازمت مل گئی اور آپ 1976ءمیں وہاں تشریف لے گئے۔یہ ایک نہایت معقول ملازمت تھی اور آپ اس سے مطمئن بھی بہت تھےلیکن تقریباًایک سال بعد ہی وہاں پر کام کرنےوالے ایک متعصب جماعت شخص نے حکومت قطر کو شکایت کردی کہ یہاں پر کچھ احمدی موجود ہیں جو تبلیغ بھی کرتے ہیں جبکہ انہیں ان کے اپنے ملک پاکستان میں کافر قرار دے دیا گیا ہےلہٰذا نہیں یہاں سے نکالا جائے۔اس پر حکومت قطر نے آ پ سمیت سات افراد (جن میں سے چھ احمدی تھے)کو گرفتار کرلیاجس کے نتیجے میں آپ کو کئی دن جیل میں رہنا پڑا اوراس طرح آپ کو اسیر راہ مولیٰ رہنے کا اعزازبھی حاصل ہوا۔عدالت میں ایک سرسری سماعت کے بعد انہیں ملک بدر کردینے کی سزا سنادی گئی اور آئندہ کے لیے قطر اور دیگر عرب ممالک میں داخلہ پرپابندی لگادی گئی۔

واپسی کے دوران ایک عجیب واقعہ بھی پیش آیا۔اس وقت تک راجہ صاحب کی فیملی کے پاس اپنا مکان نہیں تھا۔واپسی کےدوران جہاز پر ایک عزیز نےکہا کہ اگر آپ چند سال یہاں پر ملازمت کرلیتے تو آپ اپنا مکان بناسکتےتھے۔اس پر محترم راجہ صاحب نے جواب دیاکہ جو خدا اس ملک کے رزق سےمکان دےسکتا ہے وہ وہاں جاکر بھی مکان دے دےگا۔خداکا کرناایسا ہوا کہ ٹھیک تین سال بعد خدا تعالیٰ نےاپنے فضل سےراجہ صاحب کو محلہ باب الابواب میں اپنے مکان سے نواز دیا(یعنی اتنےہی عرصہ بعد جس کاذکران صاحب نے کیا تھا)اورا س کے نوسال بعد محلہ دارالصدر میں اس سےدوگنی مکانیت کے مکان سے نوازا۔محض اللہ تعالیٰ کےفضل سےربوہ آنےکے کچھ عرصہ بعد ایک دوست کی وساطت سےگورنمنٹ کے محکمہ پاسکو میں آپ کو ملازمت مل گئی جوریٹائرمنٹ کی عمر تک جاری رہی۔

پاسکو میں ملازمت کے دوران ایک مرتبہ افسران کی ترقیاں ہونی تھیں۔آپ جس افسر کےتحت کام کررہے تھےوہ اگرچہ انہی کے رینک کاتھالیکن بہت زیادہ سنیارٹی کی وجہ سےاسے بڑا عہدہ حاصل تھااور اسی سنیارٹی کے حساب سے آپ کانمبر بہت پیچھےتھا اور سب کو معلوم تھا کہ محدود افراد کی ترقیاں ہونی ہیں،اس حساب سے آپ کانمبر بہت دور تھا اورآپ کی ترقی کاکوئی امکان نہ تھا۔لیکن جب ترقی کرنےوالے افسرا ن کی فہرست موصول ہوئی تو اس میں آپ کانام موجود تھااورآپ کےافسر کانہیں تھا۔سندھ میں رہتے ہوئے آپ نے ہومیو پیتھک سے بھی دلچسپی رکھی تھی اور اپنی رجسٹریشن بطور ڈاکٹر بھی کروالی تھی نیز گاہے بگاہے پریکٹس بھی کرتے رہتے تھے۔ریٹائرمنٹ کے بعد آپ کے بڑے بھائی محترم ڈاکٹر راجہ نذیر احمد ظفر صاحب نے انہیں ساتھ کام کرنے کو کہا۔آپ نے یہ پیشکش قبول کرلی اور بطور ڈاکٹر کلینک کو چلاتے رہے بلکہ کیوریٹو میڈیسن کمپنی کی مناسب طورپر راہنمائی بھی کرتےرہے۔

شادی اور اولاد

آپ کی شادی موضع ڈلوال ضلع چکوال کے ایک رئیس مکرم راجہ فضل داد خان صاحب کی بیٹی سےہوئی اوران سے آپ کے تین بیٹے اور دو بیٹیاں پیدا ہوئیں۔

خلافت احمدیہ سے تعلق اور جماعتی خدمات

خلافت احمدیہ سے گہرا عشق اور وفاکاتعلق تھا۔حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ سے آپ کےقریبی تعلقا ت تھے۔خلافت سےقبل ہی حضورؒ کےساتھ سلام دعا قائم تھی،خلافت کےبعد یہ تعلق مزید مضبوط ہوگیا۔ایک مرتبہ آپ نےحضور ؒکی خدمت میں ایک خط تحریر کیا جس کے جواب میں حضورؒ نےخود اپنے دست مبارک سےدوصفحوں کا خط تحریر فرماکر عنایت فرمایا۔تمام خاندان اور دیگر جاننے والے آپ کی اس خوش بختی پر رشک کرتے رہے۔

2011ء میں آپ جلسہ سالانہ یوکے پر تشریف لے گئے۔ اس موقع پر سیدناحضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزسے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔بعد میں آپ نے اس ایمان افروز ملاقات کی روداد سنائی کہ میں نےحضور انور کی خدمت اقدس میں اپنی زندگی وقف کرنے کی درخواست کی تو حضور انور نے فرمایاکہ آپ جماعتی کام کریں۔چنانچہ اس کےبعد آپ نے مزید نئے جذبےاور اخلاص کےساتھ خدمت دین کا سفر شروع کیا جو تادم واپسیں جاری رہا۔ آپ کو خدا کے فضل سے ربوہ میں مختلف جماعتی خدمات کی توفیق ملتی رہی۔آپ کو لمبا عرصہ سیکرٹری وقف نو،سیکرٹری اصلاح و ارشاد اور نائب صدر محلہ کے علاوہ دومرتبہ صد رمحلہ کے طور پر خدمت کی توفیق ملی۔نومبر2005ءمیں جب محلہ دارالصدر شمالی ہدیٰ کا قیام عمل میں آیا تو آپ کو اس کے پہلے صدر محلہ کے طورپر مقرر کیاگیا۔ یہ خدمت جون 2010ءتک جاری رہی اس کے بعد ستمبر2013ءمیں دوبارہ آپ کو صدر محلہ کی ذمہ داری ملی جو وفات تک جاری رہی۔

تمام شعبہ جات کے سیکرٹریان کے ساتھ ایک ذاتی رابطہ تھا۔خاکسار کو سیکرٹری مال کے طور پر خدمت کاموقع ملا۔شعبہ مال کی ٹیم کے ساتھ آپ کوایک قلبی لگائو تھا۔اس سلسلے میں جب کبھی آپ سے دورہ جات کے لیے جانے کی درخواست کی جاتی توآپ بخوشی ہمارے ساتھ شامل ہوجاتے۔تحریک جدید،وقف جدید اور دیگر مالی تحریکات میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے اور سیکرٹریان کی حوصلہ افزائی فرماتے جس سے ان میں ایک نیا حوصلہ اور جذبہ پیدا ہوجاتا۔اکثر جماعتی میٹنگز کا انعقاداپنے گھر پر کرتے او رمہمان نوازی بھی کرتے۔

آپ کے ساتھ جماعتی کاموں کےدوران خاکسار کو بہت سی باتیں سیکھنے کا موقع ملا۔خاکسار کو جنرل سیکرٹری کے طورپربھی کام کرنے کا موقع ملا۔اکثر عاملہ کی میٹنگ ہوتی تومجھےارشاد فرماتے کہ میٹنگ کا باقاعدہ ایجنڈا بنائیں پھر اس کے مطابق میٹنگ ہوتی۔

آپ میٹنگز میں سیکرٹریان کو ہر شعبہ کے متعلق تفصیلی بریفنگ دیتے اور نئے کام کرنے والوں کی راہنمائی فرماتے۔

آپ نے اپنے گھر میں باہر والا کمرہ جماعتی کاموں کے لیے وقف کررکھا تھا۔آپ کا اٹھنا بیٹھنا جماعت کے لیے وقف تھا۔جس دن آپ کو برین ہیمر ج کا اٹیک ہوا اس سے ایک روز قبل میری آپ سے ملاقات ہوئی۔اس موقع پر بھی آپ نے بعض جماعتی امور پر بات شروع کردی کہ مجلس عاملہ کی میٹنگ کب کرنی ہے۔پھر فرمایا کہ جلسہ سالانہ جرمنی کےبعد کریں گے۔اس وقت کیا خبر تھی کہ کل یہ سانحہ ہوجائے گا۔

نماز باجماعت کی پابندی

آپ نماز باجماعت کےنہایت پابند تھے۔نماز تہجد بھی باقاعدگی سےادا کرتے۔سندھ میں دوران ملازمت اکثر ایسے مقامات پرڈیوٹی ہوتی تھی جہاں آپ اکیلے احمدی ہوتے تھے۔وہاں پر بھی نماز باجماعت کا خاص التزام فرماتے اور گھر میں جوبھی موجود ہوتا اس کو ساتھ کھڑ اکرکے نماز باجماعت ادا کرتے۔کوئی نماز میں سست ہوتا تو اسے پیار ومحبت سےسمجھاتے۔کوئی فنکشن ہوتا توہمیشہ نماز کو مقدم رکھتے۔ہمیشہ کہا کرتے کہ میرا تجربہ ہےکہ نماز پڑ ھ کر جائیں تو بڑی برکت ہوتی ہے اس لیے کسی سفر پر جانا ہوتاتو نماز کو مقدم رکھتے اور فرماتے کہ ساری برکتیں نماز میں ہیں۔آپ کی زندگی کا آخری شعوری فعل بھی نماز کی ادائیگی ہی تھا اورنماز ظہر کی ادائیگی کے دوران سجدہ کی حالت میں دل پر حملہ ہوا اور آپ کا دل بند ہوگیا۔بعدازاں ڈاکٹر کی کوششوں سے دل کی حرکت بحال کی گئی لیکن بہت دیر ہوجانے کی وجہ سےآپ مسلسل بےہوشی کی حالت میں چلے گئےاور بالآخر اکیس دن بعدمورخہ 21؍جون 2015ء کو اپنے مولیٰ کے حضور حاضر ہوگئے۔

فالج کا حملہ اور معجزانہ شفا

وفات سے چندماہ قبل آپ کو رات کے وقت سوتے ہوئےاچانک فالج کا حملہ ہوا جس کے نتیجے میں آپ کا آدھا دھڑ مفلوج ہوگیا۔آپ نے اس سلسلےمیں بعد میں خود بتایاکہ کہ آپ کی زبان بھی مفلوج ہوگئی اور آپ نے اپنے گھر والوں کو ہاتھ کے اشارے سے بتایاکہ مجھے فالج کا حملہ ہوا ہے اور میری زبان بھی مفلوج ہوگئی ہے۔ گھروالوں نے فوری طورپر طاہر ہارٹ سے ایمبولینس منگوائی۔ لیکن حیرت انگیز طورپر خدا نے آپ کومعجزانہ شفا عطا فرمائی اور آپ ایمبولینس کے آنے سے پہلے پہلے ٹھیک ہوچکے تھے اور خود چل کر ایمبولینس میں بیٹھے۔طاہر ہارٹ میں آپ کے تمام ٹیسٹ لیے گئے۔تمام ٹیسٹ کلیئر تھے۔خدا کے فضل سے چند گھنٹوں میں معجزانہ طور پر ٹھیک ہوچکے تھے۔طاہر ہارٹ میں کچھ عرصہ رکنے کے بعد جب آپ واپس گھر آرہے تھے تو آپ نے اپنے بیٹے سے کہاکہ دیکھو مجھے خدا نے معجزانہ شفا دی ہے اس لیے میں اپنے گھر جانے کی بجائے کلینک میں جاکر اپنے مریضوں کودیکھنا چاہتا ہوں پتا نہیں وہ کب سے میرا انتظار کررہے ہوں گے۔چنانچہ آپ ہسپتال سے سیدھے اپنے کلینک گئے اور اپنے مریضوں کو اٹینڈ کیا۔ اس کے بعد حسب معمول اپنے گھر واپس آئے۔نماز ظہر کا وقت ہوا تو مسجد میں گئے اور نماز کی امامت کروائی۔اسی طرح نماز عصر کی امامت بھی کروائی۔

اوصاف حمیدہ کی ایک جھلک

آپ کی طبیعت نہایت خوش باش اور نہایت ملنسار تھی۔بچوں اوربڑوں سب سے بڑی محبت سے پیش آتے۔نہایت خوش اخلاق تھے۔ جب بھی کسی کو ملتے تو ایک بھرپور مسکراہٹ سے استقبال کرتے۔میں نےآپ کے چہرے پر ہمیشہ ایک زندہ مسکراہٹ دیکھی کبھی ایسا نہیں ہوا کہ آپ کو افسردہ دیکھا ہو۔آپ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کے ماٹو ہمیشہ مسکراتے رہو کی عملی تصویر تھے۔ مختلف معاملات میں آپ کا فریقین کو سمجھانے کا انداز نہایت ہی پرحکمت ہوتا۔آپ ایسے دلنشیں انداز میں سمجھاتے کہ پتھر دل فریقین کے دل بھی نرم ہوجاتے۔آپ ہمیشہ کہاکرتے کہ سختی کرنے کی بجائے پیار کی چھڑی سے مارو۔کبھی کسی سے سختی سے کلام نہ کرتے۔جب بھی کسی سےملتے توہمیشہ خود سلام میں پہل کرتے اور خیریت دریافت فرماتے۔اس طرح ہر ملنے والاآپ کے اخلاق کا گرویدہ ہوجاتا۔آپ اپنے اخلا ق سے دلوں کو موہ لیتے۔آپ نہ صرف ذاتی طور پر اخلاق حسنہ کا نمونہ پیش فرماتے بلکہ اپنی مجلس عاملہ کے ممبران کو بھی یہی تلقین فرماتے کہ ہمیشہ نرمی اور محبت سے کام لیا کروآپ سختی کے قائل نہیں تھے۔ہم نےآپ سے تربیت کے گر سیکھے۔ اکثر اہم فیصلوں سے قبل بہت دعا کرتے اور پھر کوئی قدم اٹھاتے۔جماعتی کاموں کو ہمیشہ اولین ترجیح دیتے۔ اپنی ذاتی مصروفیات چھوڑ کر جماعتی کاموں میں حصہ لیتے۔ مسجد سے ایک خاص تعلق تھا۔ تمام عمر خدمت دین کو حرز جاں بنائے رکھا۔آپ ایک علم دوست شخصیت تھے۔علمی شخصیات کی قدر کرتے اور ان سے مل کر بہت خوش ہوتے۔ علمی پروگراموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے۔اور ایسے پروگراموں کی خوب حوصلہ افزائی فرماتے۔بعض علم دوست احباب اکٹھے ہوتے تو ان کو اپنے گھر بلاکر مجلس مشاعرہ یادیگر علمی مجالس کا انعقاد کرواتے۔جماعتی کام کرنے والوں سے بے حد محبت کرتے اور ان کی حوصلہ افزائی فرماتے۔

مسجد ہدیٰ کی تعمیر کے سلسلے میں خدمات

محلہ دارالصدرشمالی ہدیٰ کے قیام کے بعد 2006ءمیں اس حلقہ کے لیے مسجد ہدیٰ کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔اس وقت آپ صدر محلہ کے علاوہ مسجد ہدیٰ کمیٹی کےصدر بھی تھے۔تعمیر سے قبل آپ اس کمیٹی کے فعال ممبر تھے۔مسجد کے نقشہ کی منظور ی سےتعمیر کے مراحل تک آپ نہایت جانفشانی اور سرگرمی سے مختلف امور سرانجام دیتے رہے۔تعمیر کے دوران بعض مشکلا ت کاسامنا بھی کرنا پڑا۔مخالفین نے محراب کی تعمیر پر اعتراض کیا۔چنانچہ محراب کے آگے لکڑی کے تختے لگاکر اس کی شکل تبدیل کی گئی۔اس وقت ہم نیچے تہ خانہ میں نماز پڑھا کرتے تھے۔ان مشکلات کی وجہ سے احباب محلہ کو پریشانی ہوئی لیکن آپ اکثر نماز کے بعد کھڑے ہوکراحباب کو صبر اور دعا وٴں کی تلقین کرتے اور حوصلہ دیتے کہ انشاء اللہ جلد حالات تبدیل ہوں گے۔پھر حضور انور کی خدمت میں دعائیہ خطوط لکھے۔آخر کار صورتحال بہتر ہوگئی اور محراب کی اصل شکل بحال کردی گئی۔جس دن حضور انور کی طرف سے اس مسجد کا نام رکھا گیا آپ بہت خوش تھے اور مسجد میں تشریف لاکر تمام احباب کو حضور انور کا خط پڑھ کرسُنایا اور مبارکباد بھی دی۔آپ کو خدا کے گھر سے ایک دلی لگاوٴتھا ہمیشہ اول وقت میں نماز باجماعت کے لیے تشریف لاتے۔نماز کے بعد بھی نوافل میں مصروف رہتے اور سب سے آخرمیں واپس جاتے۔

خدمت انسانیت

آپ چونکہ ایک ہومیو پیتھک ڈاکٹر بھی تھے۔ چنانچہ اپنے مریضوں کا باقاعدگی سے علاج کرتے۔ بعض مریض دور دراز علاقوں سے آکر آپ سے اپنا علاج کرواتے۔خدا نے آپ کو دست شفا سے نوازا تھا۔اپنے حلقہ میں کسی کی بیماری کا پتا چلتا تو خود جاکرعیادت کرتےاور پھر اس کے علاج کا بھی انتظام کرتے۔ آپ کا کئی سالوں سے یہ معمول تھا کہ اپنے حلقے کے بیمار اور صاحب فراش بزرگوں کی عیادت کے لیے جاتے اور ان کی دل جوئی کا سامان کرتے اسی طرح عید ین کے موقع پر نادار اور بیمار احباب کو فراموش نہ کرتے اور مجلس عاملہ کے ممبران کے وفد کے ساتھ ان کےگھر جاتے اور انہیں عید کی خوشیوں میں شامل کرتے۔

آپ کی زندگی کا لمحہ لمحہ دین اور انسانیت کی خدمت کے لیے وقف تھا صبح سے لےکر شام تک آپ کا دن بہت مصروف گزرتا۔ دیگر جماعتی کاموں کے ساتھ ساتھ اپنے مریضوں کو بھی اٹینڈ کرتے۔اکثر میں نے دیکھا کہ آپ کے کلینک پر بعض غریب مردو خواتین آجاتے ان کی مشکلات سنتے اور ان کی راہنمائی فرماتے۔ اس کے علاوہ حتی الوسع ان کی مالی مدد بھی فرماتے۔آپ یہ سارے کام نہایت بشاشت کے ساتھ کرتے۔ زندہ دلی کے ساتھ کرتے یہی وجہ ہے کہ آپ کے ساتھ کام کرنے والے بھی کبھی بوریت محسوس نہ کرتے۔آپ کی شگفتہ مزاجی ماحول کو خوشگوار رکھتی اور ایک نیا جذبہ پیدا کرتی۔

آپ کے کلینک میں کام کرنے والے ایک کارکن مکرم سجاد احمد صاحب نے مجھے بتا یا کہ خاکسار نے مکرم ڈاکٹر راجہ صاحب کے ساتھ کئی سال کام کیا ہے جب مریض آپ کے پاس چیک اپ کے لیے آتے تو خاکسار ان کی پرچی بناکر ڈاکٹر صاحب کو دیتا۔ڈاکٹر صاحب مریض کو چیک کرنے سے پہلے پوچھتے کہ کیا کام کرتےہو۔غرباءسے فیس اور دوائی کے پیسے نہیں لیتے تھے۔آپ نہایت حکمت کے ساتھ مریض کو چیک بھی کرتے اور ساتھ ساتھ جماعت کا تعارف بھی کرواتے۔مکرم سجاد صاحب نے بتا یاکہ جس دن ڈاکٹر صاحب کی طبیعت خراب ہوئی اس دن بھی آپ حسب معمول پورے ٹائم پر کلینک میں آگئے تھے اور بالکل ٹھیک ٹھا ک تھے۔آپ مجھے کلینک کے باہر ملے اورکہنے لگے کہ آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی۔آپ مجھے ملیں میں آپ کو دوائی لکھ کر دوںگا۔میں نے کہا کہ ٹھیک ہے میں آپ کو ملتا ہوں۔جب میں دوپہر کاکھا نا کھا نے کےلیے گھر جارہا تھا تو ڈاکٹر صاحب نے شکوہ کیا کہ آپ دوائی لکھوانے کے لیے آئے نہیں۔میں نےکہا جی ٹھیک ہے میں واپسی پر آکرملتاہوں۔اس وقت آپ نماز ظہر کی ادائیگی کے لیے وضو کررہے تھے۔جب میں واپس آیا تو پتا چلاکہ ڈاکٹر صاحب نماز ظہر پڑھارہے ہیں۔جب آپ سجدہ میں گئے تو سجدہ بہت لمبا ہوگیا کسی نے توجہ دلائی جب آپ کو ہاتھ لگاکر چیک کیاگیا تو آپ گر گئے۔آپ بیہوش ہوچکے تھے۔آپ کو فوری طورپر طاہر ہارٹ انسٹیٹیوٹ لے جایا گیا جہاں کچھ دن بعد آپ وفات پاگئے۔

پسماندگان

محترم راجہ صاحب نے اپنےپیچھے اہلیہ کےساتھ تین بیٹے اور دو بیٹیاں یادگار چھوڑی ہیں۔

راجہ بصیرا حمد ابصار صاحب

مکرمہ آسیہ رفیق صاحبہ اہلیہ راجہ رفیق احمد صاحب

مکرم راجہ عتیق احمد صاحب جرمنی

مکرم راجہ خبیر احمد صاحب جرمنی

مکرمہ رابعہ احسن صاحبہ اہلیہ احسن محمود صاحب یوکے

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ محترم راجہ صاحب کے درجات بلند فرماتا چلاجائےاور ان کی نیکیاں ان کی نسلوں میں بھی جاری رہیں۔آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button