حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

رشتوں میں مضبوطی پیدا کرنے کے لیے دعائیں کر یں

حضرت خلیفۃ المسیح الخا مس ایدہ اللہ تعا لیٰ بنصرہ العزیز نے فرما یا:۔ ’’ شعبہ تر بیت کو ہر جگہ، ہر لیول (level) پر جماعتی اور ذ یلی تنظیموں میں فعال ہو نے کی بہت زیا دہ ضرورت ہے۔ اسلام نے ہمیں اپنے گھر یلو تعلقات کو قائم رکھنے اور محبت و پیار کی فضا پیدا کرنے کے لئے کتنی خوبصورت تعلیم دی ہے۔ ایسے لوگوں پر حیرت اور افسوس ہوتا ہے جو پھر بھی اپنی انَا ؤں کے جا ل میں پھنس کر دو گھروں، دو خا ندانوں اور اکثر اوقات پھر نسلوں کی بربادی کے سامان کر رہے ہو تے ہیں۔ اللہ رحم کرے۔ اسلا می نکا ح کی یا اس بندھن کے اعلان کی یہ حکمت ہے کہ مردوعورت جو اللہ تعا لیٰ کے حکم کے مطا بق میاں اور بیوی کے رشتے میں پروئے جا رہے ہو تے ہیں، نکا ح کے وقت یہ عہد کر رہے ہو تے ہیں کہ ہم ان ارشادات الٰہی پر عمل کرنے کی کو شش کریں گے جو ہمارے سامنے پڑ ھے گئے ہیں۔ ان آیات قرآنی پر عمل کر نے کی کوشش کریں گے جو ہمارے نکاح کے وقت اس لئے تلاوت کی گئیں تاکہ ہم ان کے مطا بق اپنی زندگیوں کو ڈ ھا لیں۔ اور ان میں سےسب سے پہلی نصیحت یہ ہے کہ تقویٰ پر قدم مارو، تقویٰ اختیار کرو۔ تو نکاح کے وقت اس نصیحت کے تحت ایجاب و قبول کر رہے ہو تے ہیں، نکاح کی منظوری دے رہے ہو تے ہیں کہ ہم ان پر عمل کریں گے۔ کیونکہ اگر حقیقت میں تمہارے اندر تمہارے اس رب کا، اس پیارے رب کا پیار اور خوف رہے گا جس نے پیدائش کے وقت سے لے کر بلکہ اس سے بھی پہلے تمہاری تمام ضرورتوں کا خیال رکھا ہے، تمام ضرورتوں کو پورا کیا ہے تو تم ہمیشہ وہ کام کرو گے جو اس کی رضا کے کام ہیں اور اس کے نتیجے میں پھر اُن انعامات کے وارث ٹھہرو گے۔ میاں بیوی جب ایک عہد کے ذ ریعہ سے ایک دوسرے کے ساتھ بندھ گئے اور ایک دوسرے کا خیال رکھنے کا عہد کیا… ان کی عزت کر رہے ہوں گے، ان کو عزت دے رہے ہوں گے تو رشتوں میں دراڑ یں ڈا لنے کے لئے پھو نکیں ما رنے والوں کے حملے ہمیشہ ناکام رہیں گے کیو نکہ باہر سے ماحول کا اثر بھی ہو رہا ہوتا ہے۔ آپ کی بنیاد کیو نکہ تقویٰ پر ہو گی اور تقویٰ پر چلنے والے کو خدا تعا لیٰ شیطانی وساوس کے حملوں سے بچا تا رہتا ہے۔ جب تقویٰ پر چلتے ہو ئے میاں بیوی میں اعتماد کا رشتہ ہو گا تو پھر بھڑ کا نے والے کو چاہے وہ کتنا ہی قریبی کیو ں نہ ہو یا اس کا بہت زیادہ اثر ہی کیوں نہ ہو اس کو پھر یہی جواب ملے گا کہ میں اپنی بیوی کو یا بیوی کہے گی میں اپنے خا وند کو جا نتا ہو ں یا جانتی ہوں، آپ کو کوئی غلط فہمی ہو ئی ہے، ابھی معاملہ صا ف کر لیتے ہیں۔ اورایسا شخص جو کسی بھی فر یق کودوسرے فریق کے متعلق بات پہنچانے والا ہے۔ اگر وہ سچا ہے تو یہ کبھی نہیں کہے گا کہ اپنے خا وند سے یا بیو ی سے میرا نام لے کر نہ پوچھنا، میں نے یہ بات اس لئے نہیں کہی کہ تم پو چھنے لگ جاؤ۔ بات کرکے پھر اس کو آگے نہ کرنے کا کہنے والا جو بھی ہو تو سمجھ لیں کہ وہ رشتے میں دراڑیں ڈا لنے وا لا ہے، اس میں فاصلے پیدا کرنے والاہےاور جھوٹ سے کام لے رہا ہے۔ اگر کسی کو ہمدردی ہےاوراصلاح مطلوب ہے، اصلاح چاہتا ہے تو وہ ہمیشہ ایسی بات کرے گاجس سے میاں بیوی کا رشتہ مضبوط ہو۔ پس مردوں، عورتوں دونوں کو ہمیشہ یہ پیش نظر رکھنا چاہئے کہ تقویٰ سے کام لینا ہے، رشتوں میں مضبوطی پیدا کرنے کے لئے دعا کرنی ہے، ایک دوسرے کے عزیزوں اور رشتہ داروں کا احترام کرنا ہے، ان کو عزت دینی ہے اور جب بھی کو ئی بات سنی جائے، چاہے وہ کہنے والا کتنا ہی قریبی ہومیاں بیوی آپس میں بیٹھ کر پیار محبت سے اس بات کو صاف کریں تا کہ غلط بیانی کرنے والے کا پول کھل جائے۔ اگر دلوں میں جمع کرتے جائیں گے تو پھر سوائے نفرتوں کے اور دُوریا ں پیدا ہونے کے اور گھروں کے ٹوٹنے کے کچھ حا صل نہیں ہوگا۔

(’’الازھار لذوات الخمار‘‘ جلد سوم حصہ دوم، خطبہ جمعہ فرمودہ 10؍نومبر2006ء بمقام بیت الفتوح،لندن(برطانیہ)، صفحہ 63تا64)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button