متفرق مضامین

سلطان القلم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے تحریر کرنے کا طریق

(فرحان احمد حمزہ قریشی۔ استاد جامعہ احمدیہ کینیڈا)

’’میرے ہاتھ سے آسمانی نشان ظاہر ہو رہے ہیں اور میری قلم سے قرآنی حقائق ومعارف چمک رہے ہیں۔ اٹھو اورتمام دنیا میں تلاش کرو کہ کیا کوئی عیسائیوں میں سے یا سکھوں میں سے یا یہودیوں میں سے یا کسی اَور فرقہ میں سے کوئی ایسا ہے کہ آسمانی نشانوں کے دکھلانے اور معارف اورحقائق کے بیان کرنے میں میرا مقابلہ کر سکے۔ ‘‘

ہمارے پیارے آقا حضرت اقدس محمد مصطفیٰﷺ نے مسیحِ موعود و مہدیٴ معہود کے ظہور کی علامات میں سے ایک بڑی علامت یہ بیان فرمائی کہ آپ تلوار کے جہاد کا التوا فرما دیں گے۔ چنانچہ فرمایا کہ یَضَعُ الْحَرْبَیعنی مسیح جب آئے گا تو دینی جنگوں کا خاتمہ کر دے گا۔ (صحیح بخاری، کتاب احادیث الانبیاء، باب نزول عیسیٰ بن مریم)

جس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے سیّدنا حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلوٰة والسلام کو مسیح و مہدیٴ موعود بنا کر مبعوث فرمایا، ہندوستان میں خصوصاً ہر طرف سے اسلام پر حملے کیے جا رہے تھے۔ دین کی حقیقی روح اور اس کا ادراک مفقود تھا اور دینِ محمدﷺ کےلیے مرثیے لکھے جا رہے تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے منظوم کلام میں اس صورتحال کا نقشہ یوں کھینچا:

کھا رہا ہے دیں طمانچے ہاتھ سے قوموں کے آج

اِک تزلزل میں پڑا اِسلام کا عالی منار

لیکن یہ حملے تلوار کے ذریعے نہیں کیے جا رہے تھے بلکہ قلم کے ساتھ اسلام پر یہ تَبرَ پڑ رہے تھے۔ لہٰذا لازم تھا کہ ان حملوں کا جواب بھی قلم کے ذریعے ہی دیا جائے۔ ایسے نازک وقت میں اسلام کے اِس بطلِ جلیل نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے تنِ تنہا ان ظالمانہ حملوں کے مقابل پر قلم اٹھایا اور دشمنوں کے منہ بند کر دیے۔

آپؑ فرماتے ہیں: ’’اس زمانہ میں خدا تعالیٰ نے چاہا ہے کہ سیف (تلوار)کا کام قلم سے لیا جائے۔ اور تحریر سے مقابلہ کر کے مخالفوں کو پست کیا جائے۔ … اُس نے مجھے متوجہ کیا ہے کہ میں قلمی اسلحہ پہن کر اس سائنس اور علمی ترقی کے میدان کارزار میں اُتروں اور اسلام کی روحانی شجاعت اور باطنی قوت کا کرشمہ بھی دکھلاؤں۔ ‘‘(ملفوظات جلد 1صفحہ 59تا 60، ایڈیشن 1984ء)

خدائے عزّ و جل نے آپ کو سلطان القلم اور آپ کے قلم کو ذوالفقارِ علی کے لقب عطا فرمائے۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’اس میں یہی سر ہے کہ یہ زمانہ جنگ وجدل کا نہیں ہے، بلکہ قلم کا زمانہ ہے۔ ‘‘(ملفوظات جلد 1صفحہ232، ایڈیشن 1984ء)

پھر اپنی تصنیفِ لطیف ’’نشانِ آسمانی‘‘ میں حضور علیہ السلام نے فرمایا: ’’میں نے قصد کیا ہے کہ اب قلم اٹھا کر پھر اس کو اس وقت تک موقوف نہ رکھا جائے جب تک کہ خدائے تعالیٰ اندرونی اور بیرونی مخالفوں پر کامل طور پر حجت پوری کر کے حقیقت عیسویہ کے حربہ سےحقیقتِ دجالیہ کو پاش پاش نہ کرے۔ ‘‘(نشانِ آسمانی، روحانی خزائن جلد4صفحہ 430)

تائیدِ الٰہی سے تحریر کرنا

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی تمام تحریرات کے پیچھے اللہ تعالیٰ کی خاص تائید و نصرت کا ہاتھ تھا۔ بلکہ آپ نے قلم اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہی اٹھایا تھا۔ چنانچہ آپؑ کو الہام ہوا: ’’لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ، فَاکْتُبْ وَ لْیُطْبَعْ وَ لِیُرْسَلْ فِی الْأَرْضِ‘‘(براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد1صفحہ 267حاشیہ در حاشیہ)یعنی اللہ کے سوائے کوئی معبود نہیں۔ پس تو لکھ اور وہ طبع کیا جائے اور چاہیے کہ ساری زمین میں بھیجا جائے۔

حضور علیہ السلام نے اس حکم کی تعمیل میں 90سے زائدکتب و رسائل تصنیف فرمائے اور آپؑ کے مکتوبات اور اشتہارات اس کے علاوہ ہیں۔ آج خلافتِ احمدیہ کی عظیم اور بابرکت قیادت میں ان تحریرات کی کُل عالم میں اشاعت ہو رہی ہے۔ پس یہ الہام نہایت شان سے پورا ہوا اور ہو رہا ہے۔

اپنی تصنیف’’نزول المسیح‘‘ میں تائید باری تعالیٰ کے متعلق تحریر فرماتے ہیں کہ’’میں خاص طور پر خدائے تعالیٰ کی اعجاز نمائی کو انشاء پردازی کے وقت بھی اپنی نسبت دیکھتا ہوں کیونکہ جب میں عربی میں یا اردو میں کوئی عبارت لکھتا ہوں تو میں محسوس کرتا ہوں کہ کوئی اندر سے مجھے تعلیم دے رہا ہے۔‘‘ (نزول المسیح، روحانی خزائن جلد 18صفحہ 434)

پھر اسی تسلسل میں آگے بیان فرمایا: ’’میری تحریر گو عربی ہو یا اردو یا فارسی دو حصّہ پر منقسم ہوتی ہے۔ (۱) ایک تو یہ کہ بڑی سہولت سے سلسلہ الفاظ اور معانی کا میرے سامنے آتا جاتا ہےاور میں اس کو لکھتا جاتا ہوں …یعنی الفاظ اور معانی ایسے ہوتے ہیں کہ اگر خدا تعالیٰ کی ایک خاص رنگ میں تائید نہ ہوتی تب بھی اس کے فضل کے ساتھ ممکن تھا کہ اس کی معمولی تائید کی برکت سے جو لازمہ فطرت خواص انسانی ہے کسی قدر مشقت اٹھا کر اور بہت سا وقت لے کر ان مضامین کو میں لکھ سکتا۔ واللہ اعلم۔(۲) دوسرا حصہ میری تحریر کا محض خارق عادت کے طور پر ہے اور وہ یہ ہے کہ جب میں مثلاً ایک عربی عبارت لکھتا ہوں اور سلسلہ عبارت میں بعض ایسے الفاظ کی حاجت پڑتی ہے کہ وہ مجھے معلوم نہیں ہیں تب اُن کی نسبت خدا تعالیٰ کی وحی رہنمائی کرتی ہےاور وہ لفظ وحی متلو کی طرح روح القدس میرے دل میں ڈالتا ہےاور زبان پر جاری کرتا ہے اور اس وقت میں اپنی حس سے غائب ہوتا ہوں۔ … عربی تحریروں کے وقت میں صدہا بنے ہوئے فقرات وحی متلو کی طرح دل پر وارد ہوتے ہیں اور یا یہ کہ کوئی فرشتہ ایک کاغذ پر لکھے ہوئے وہ فقرات دکھا دیتا ہے‘‘(نزول المسیح، روحانی خزائن جلد 18صفحہ 434تا 435)

اس حوالہ سے حضرت حافظ روشن علی صاحب رضی اللہ عنہ کی ایک روایت سیرت المہدی میں درج ہے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ ’’کئی دفعہ حضور فرماتے تھے کہ بعض الفاظ خود بخود ہمارے قلم سے لکھے جاتے ہیں اور ہمیں ان کے معنی معلوم نہیں ہو تے۔ … کئی دفعہ حضرت صاحب سے ایسا محاورہ لکھا جاتا تھا کہ جس کا عام لغت میں بھی استعمال نہ ملتا تھالیکن پھر بہت تلاش سے پتہ چل جاتا تھا۔ ‘‘(سیرت المہدی، روایت نمبر 105)

تحریر میں سرعت

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے قلبِ مطہر میں اسلام کی تبلیغ اور اس کی حمیت کا جو بحر ذخّار موجزن تھا اس کا کچھ اندازہ ہمیں آپ کی تحریر میں سرعت کو دیکھ کر ہوتا ہے۔ آپ بہت تیزی سے تحریر فرمایا کرتے تھے لیکن اس تیزی کے باوجود آپ کی تحریر نہایت پختہ اور مدلّل تھی جو اس کے ہر ایک قاری پر واضح ہے۔

چنانچہ حضرت چودھری محمد حیات خان صاحب رضی اللہ عنہ آف گڑھی اعوان حافظ آباد (بیعت: 20؍فروری 1892ء۔ وفات: 7؍جنوری 1939ء) حضرت اقدس علیہ السلام کے سفر سیالکوٹ 1904ء کی روداد بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں: ’’…دوسرے دن پھر میں حاضر ہوا کہ انتظام وغیرہ مناسب دیکھ لوں، حضور کی نسبت دریافت پر معلوم ہوا کہ بالاخانہ کے سقف پر لیکچر تحریر فرما رہے ہیں، تنہا آپ ہیں کسی کو جانے کی نسبت حکیم صاحب (مراد حضرت حکیم میر حسام الدین صاحب۔ ناقل) نے منع کیا ہوا ہے، ملاقاتی لوگ واپس جارہے ہیں اگرچہ خلاف ورزی حکم حکیم حسام الدین صاحب تھی نیز ان کی طبیعت بھی غصہ والی تھی، سب گھر والے، دوست آشنا ان سے ڈرتے تھے مگر میرے دل میں یہ ایک عشق تھا کہ دیکھوں حضرت صاحب کس طرح مصروف ہیں، حکیم صاحب نے اگر دیکھ لیا یا کسی نے بتادیا تو اُن کے خفا ہوتے جلدی جلدی نکل جاؤں گا، یہ بھی ممکن تھا کہ مجھے وردی میں ملبوس دیکھ کر حکیم صاحب معاف کردیں گے۔ یہی بات دل میں ٹھان کر زینہ کے راستہ کوٹھے پر چلا گیا اور آخری دروازہ کی اوٹ میں خاموشی سے کھڑا ہوگیا۔

میں حلفیہ بیان کے ساتھ کہتا ہوں کہ سقف مکان کے اوپر چاروں کونوں پر چھوٹے چھوٹے شہ نشین تھے اور اُن کے اندر بڑی بڑی چار دواتیں سیاہی کی ہر شہ نشین پر ایک ایک کر کے پڑی ہوئی تھیں، حضرت صاحب کے ہاتھ میں لوہے کا قلم تھا، سر پر چھوٹی سی اُونی ٹوپی جو دستار مبارک میں رکھتے تھے، پہنی ہوئی تھی اور جلدی جلدی چلتے جاتے تھے اور دوات کا ڈوبہ ایک جگہ سے لے کر پھر دوسری جگہ سے لیتے تھے اور کاغذات لکھ لکھ کر لپیٹتے جاتے تھے…کہ اتنے میں ایک لڑکا جوان عمر کا آیا اور جلدی میں سب کاغذات لے کر چلا گیا، میں نے آہستہ آہستہ اس سے پوچھا تم کیا کرو گے؟ اُس نے کہا کہ میں کاپی نویس ہوں اور میری مدد پر دو چار آدمی نیچے بیٹھے ہیں۔ کوئی کتاب نہیں دیکھی، خدا کا جری چلتے چلتے لکھتا جاتا ہے اور کاغذات کے انبار پھر ہوجاتے ہیں، دوسرا کاپی نویس آیا اور وہ لے گیا، سلطان القلم کا نقشہ میرے سامنے آگیا۔

دوستو! آپ بھی منشی ہیں، میں بھی نوشت خواند کے کام میں محکمہ پولیس میں مشہور تھا مگر ایک خط کسی دوست کو یا کوئی سرکاری رپورٹ لکھنی ہو تو کس قدر محنت و میز کرسی یا تکیہ غالیچہ کے فرش پر بیٹھ کر لکھتے ہیں۔ ان ایام میں مَیں نے کوشش کی کہ ایک کارڈ چلتے چلتے لکھوں مگر لکھ نہ سکا۔ ‘‘(الحکم قادیان، 7؍14؍جولائی 1938ءصفحہ 3)

دہلی کے ایک قابل وقائع نگار اور اخبار ’’صحیفہ قدسی‘‘ کے ایڈیٹر و مالک مولانا عبدالقدوس قدسی صاحب گو کہ احمدی نہ تھے لیکن حضرت اقدس علیہ السلام سے عقیدت رکھتے تھے۔ حضور علیہ السلام کے سفر دہلی 1892ء کے موقع پر وہ بھی حاضر خدمت ہوتےبلکہ مولوی محمد بشیر بھوپالوی صاحب کے ساتھ ہونے والے حضرت اقدسؑ کے تحریری مباحثہ میں حضور علیہ السلام کا تحریر کردہ پرچہ نقل کرنے میں شامل تھے۔ حضرت منشی ظفر احمد کپورتھلوی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: …مولوی محمد بشیر صاحب مباحثہ کے لیے آگئے …جب وہ اپنا مضمون تیار کر چکے تو ہم نے حضرت صاحب کے پاس پہنچا دیا…حضور نے …جواب لکھنا شروع کردیا۔ جب دو ورقہ تیار ہوگیا تو میں نیچے نقل کرنے کے لیے دے آیا۔ دوورقے کو ایک ایک ورق کر کے ایک مولوی عبدالکریم صاحب نے نقل کرنا شروع کیا اور ایک عبدالقدوس نے۔ اس طرح میں اوپر سے جب دو ورقہ تیار ہوتا، لے آتااور یہ نقل کرتے رہتے۔ حضرت صاحب اس قدر جلد لکھ رہے تھے کہ ایک دو ورقہ نقل کرنے والوں کے ذمہ فاضل رہتا تھا۔ عبدالقدوس جو خود بہت زود نویس تھا، حیران ہوگیا اور ہاتھ لگا کر سیاہی کو دیکھنے لگا کہ یہ پہلے کا تو لکھا ہوا نہیں۔ میں نے کہا اگر ایسا ہو تو یہ ایک عظیم الشان معجزہ ہے کہ جواب پہلے سے لکھا ہو۔ (ماخوذازاصحاب احمد، جلد چہارم، مؤلفہ ملک صلاح الدین ایم اے، صفحہ 191، 192)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی کئی کتب اور بعض فصیح و بلیغ عربی قصائد نہایت مختصر وقت میں تصنیف فرمائے گئے۔ چنانچہ آپ نے اپنے معروف قصیدہ ’’بُشْرٰی لَکُمْ یَا مَعْشَرَ الْاِخْوَانِ‘‘(جس کے کُل 110 اشعار ہیں ) کے آخر پر تحریر فرمایا

’’قَدْ قُلْتُ مُرْتَجِلًا فَجَاءَتْ ھٰذِہٖ

کَالدُّرَرِ اَوْ کَسَبِیْکَةِ الْعِقْیَانِ

ترجمہ: میں نے یہ قصیدہ جلدی سے کہا ہے اور یہ قصیدہ موتی کی طرح ہے یا اس سونے کی طرح جو کٹھالی سے نکلتا ہے۔‘‘

لیکن آپ کے نزدیک اس میں آپ کا کوئی ذاتی ہنر یا کمال نہ تھا بلکہ یہ سب خدا تعالیٰ کی تائید کا نتیجہ تھا۔ لہٰذا اس کے اگلے ہی شعر میں فرمایا:

’’مَا قُلْتُھَا مِنْ قُوَّتِیْ لٰکِنَّھَا

دُرَرٌ مِّنَ الْمَوْلٰی وَنَظْمُ بَنَانِیْ

ترجمہ: میں نے اس کو اپنی قوت سے نہیں کہا مگر وہ موتی خدا تعالیٰ سے ہیں اور میرے ہاتھوں نے پروئے ہیں۔‘‘(نورالحق الحصة الثانیة، روحانی خزائن جلد 8صفحہ 227)

پھر تحریر میں سرعت کے متعلق ایک اَور مثال ہمیں حضورؑ کی کتاب ’’اعجازِ احمدی‘‘ کی صورت میں ملتی ہے جو آپؑ نے اواخر 1902ء میں مولوی ثناء اللہ امرتسری کے اعتراضات کے جواب میں تحریر فرمائی، اور جس میں 533 اشعار کا ایک لمبا عربی قصیدہ ’’اَلْقَصِیْدَةُ الْاِعْجَازِیَّةُ‘‘(یعنی اعجازی قصیدہ) کے نام سے تحریر فرمایا۔ اس قصیدے کے بارے میں فرماتے ہیں کہ’’…روح القدس سے ایک خارق عادت مجھے تائید ملی اور وہ قصیدہ پانچ دن میں ہی میں نےختم کر لیا۔ کاش اگر کوئی اور شغل مجبور نہ کرتا تو وہ قصیدہ ایک دن میں ہی ختم ہو جاتا۔‘‘(اعجاز احمدی، روحانی خزائن جلد 19صفحہ 146)

اسی عبارت کے حاشیہ میں یہ نوٹ دیا: ’’دیر کا ایک یہ بھی باعث ہوا کہ مجھے منصف صاحب کی عدالت میں تاریخ 7؍ نومبر 1902ء کو بٹالہ جانا پڑا اصل تالیف کا زمانہ تو محض تین دن تھے اور دو دِن باعث حرج اور زائد ہو گئے۔ ‘‘(اعجاز احمدی، روحانی خزائن جلد 19صفحہ 146 حاشیہ)

محنت سے تحریر کرنا

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نہایت محنت سے تحریر کا کام سرانجام فرماتے تھے۔ آدھی رات تک یا بسااوقات ساری رات تحریر کرنے، کاپیاں پڑھنے یا پروف دیکھنے میں مصروف رہتے۔ حضرت اُم المومنین سیّدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ’’…رات کا زیادہ حصہ آپؑ جاگ کر گزارتے تھے جس کی وجہ یہ تھی کہ …آپ کو اکثر اوقات رات کے وقت بھی مضامین لکھنے پڑتے تھے جو آپ عموماً دیر تک لکھتے تھے۔ ‘‘(سیرت المہدی، روایت نمبر 4)

اوائل جنوری 1903ء میں کتاب ’’مواہب الرحمٰن ‘‘ تصنیف فرمانے میں آپ بہت مصروف تھے اور رات گئے کام کرتے رہتے تھے۔ چنانچہ 14؍جنوری 1903ء کو نمازِ فجر کے وقت حضورؑ نے فرمایا: ’’میں کتاب تو ختم کر چکا ہوں۔ رات آدھی رات تک بیٹھا رہا۔ نیّت تو ساری رات کی تھی مگر کام جلدی ہی ہو گیا۔ اس لئے سو رہا۔ اس کا نام مواہب الرحمٰن رکھا ہے۔ ‘‘(ملفوظات جلد 4صفحہ 413، ایڈیشن 1984ء)

پھر اس کے اگلے روز علی الصباح فرمایا: ’’رات تین بجے تک جاگتا رہا تو کاپیاں اور پروف صحیح ہوئے۔ …یہ بھی ایک جہاد ہی تھا۔ رات کو انسان کو جاگنے کا اتفاق تو ہوا کرتا ہےمگر کیا خوش وہ وقت ہے جو خدا کے کام میں گذارے۔ ‘‘

حضرت مسیح پاک علیہ الصلوٰة والسلام کا خدمتِ دینِ محمدﷺ کے لیے جذبہ دیکھیے کہ آگے فرمایا: ’’میرے اعضاء تو بے شک تھک جاتے ہیں مگر دل نہیں تھکتا۔ وہ چاہتا ہےکہ کام کئے جاؤ۔ ‘‘(ملفوظات جلد 4صفحہ 414، ایڈیشن 1984ء)

غرض متعدد تصنیفات کو تیار کرنے کے سلسلے میں حضور علیہ السلام نے جاگتے ہوئے راتیں کاٹیں۔

دین کی خدمت کرتے ہوئے آپؑ کبھی نہ تھکتے تھے۔ نہ آپؑ کو موسم کی شدّت نے کبھی سست کیا۔ ایک دفعہ قادیان میں شدید گرمی پڑی۔ اس گرمی کی شدت کا نقشہ حضرت مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹی رضی اللہ عنہ نے اپنے ایک مضمون میں کھینچا اور اس میں یہ جملہ بھی لکھا کہ ’’گرمی ایسی سخت ہے کہ اس کے سبب سے خدا کی مشین بھی بند ہو گئی ہے۔ ‘‘ مراد یہ تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی شدید گرمی کے باعث کام چھوڑ دیا ہے۔ جب حضور علیہ السلام نے یہ بات سنی تو آپ نے فرمایا کہ ’’یہ تو غلط ہے ہم نے تو کام نہیں چھوڑا‘‘۔ (ذکرِ حبیب، صفحہ 126، مطبوعہ 2008ء)

آپؑ نے اپنی جماعت کو بھی محنت اور جفاکشی کی عادت پیدا کرنے کی تلقین کی۔ چنانچہ ایک مرتبہ احباب کو مخاطب ہو کر فرمایا: ’’یہ وقت بھی ایک قسم کے جہاد کاہے۔ میں رات کے تین تین بجے تک جاگتا ہوں اس لئے ہر ایک کو چاہئے کہ اس میں حصہ لے اور دینی ضرورتوں اور دینی کاموں میں دن رات ایک کر دے۔ ‘‘(ملفوظات جلد 4 صفحہ 196، ایڈیشن 1984ء)

یہاں یہ بات بھی بیان کرنی ضروری ہے کہ سیّدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نہایت عرق ریزی سے کتب کے مسوّدات کو پڑھتے اور کاتب کی غلطیوں کی اصلاح فرماتے۔ چنانچہ حضرت مفتی محمد صادق صاحب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ’’حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام جب کوئی مسوّدہ کسی کتاب یا اشتہار کے واسطے لکھتے تھے تو اُسے دوبارہ اور بعض دفعہ کئی بار پڑھتے اور اصلاح کرتے تھے اور کاتب کو بھی مسوّدہ دینے سے قبل عموماً اُن خدام کو جو قادیان میں موجود ہوتے، مسودہ خود پڑھ کر سنایا کرتے اور جب کاتب کاپی لکھ لیتا تو خود کاپی پڑھتے اور بعض جگہ پھر کچھ اصلاح کرتے اور عبارت زیادہ کرتے۔ جب کاپی پتھر پر لگ جاتی تو پروف خود پڑھتے اور بعض جگہ تشریح کے طور پر کچھ عبارت بڑھاتے، جو پتھر پر لکھی جاتی۔ یا کم کرتے۔ حضورؑ کی عادت تھی کہ ہر ایک مضمون کو ایسا واضح اور آسان کر دیتے تھے کہ پڑھنے والا اسے اچھی طرح سے سمجھ جائے اور اسی خیال سے بعض مضامین کی تشریح حاشیہ اور حاشیہ در حاشیہ لکھا کرتے۔ ‘‘(ذکر حبیب، صفحہ 155 تا 156، مطبوعہ 2008ء)

تحریرکے کام میں انہماک

کام میں استغراق کا یہ عالَم تھا کہ اِرد گرد کےماحول کا آپؑ پر قطعاً کوئی اثر نہ ہوتا اور نہ ہی آپ کے کام میں کوئی شور وغیرہ مخل ہوتا۔ حضرت مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹی رضی اللہ عنہ نےاپنا مشاہدہ بیان فرمایا کہ حضور علیہ السلام بڑی فصیح و بلیغ کتب تحریر فرما رہے ہوتے اور اِرد گرد بچوں اور دیگر احباب وغیرہ کی باتوں کا شور ہوتا۔ لیکن حضورؑ اس قدر کام میں مستغرق ہوتے کہ گویا علیحدہ کسی کمرہ میں بیٹھے ہیں۔ آپؓ مزید بیان کرتے ہیں کہ ’’میں نے ایک دفعہ پوچھا اتنے شور میں حضور کو لکھنے میں یا سوچنے میں ذرا بھی تشویش نہیں ہوتی۔ مسکرا کر فرمایا میں سنتا نہیں تشویش کیا ہو اور کیونکر ہو۔ ‘‘(سیرت حضرت مسیح موعودؑ، مؤلفہ حضرت مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹیؓ، صفحہ 23)

مصنفین حضرات جانتے ہیں کہ ہلکے شور میں بھی تحریر کا کام کرنا کس قدر مشکل ہوتا ہے۔ ایک جملہ ہی لکھنا دشوار ہوتا ہے۔ لیکن ہمارے پیارے آقا علیہ الصلوٰة والسلام کو ان باتوں سے کوئی فرق نہ پڑتا تھا بلکہ عام گھریلو ماحول میں ہی ایسے شاہکار تحریر فرمائے جن سے بنی نوع انسان قیامت تک مستفیض ہوتی رہے گی۔ اِن شاء اللہ العزیز

تحریر کرتے وقت آپ کی کیفیت

اپنے آقا و مطاع حضرت محمدرسول اللہﷺ کی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طبیعت نہایت سادہ تھی اور آپ کی سیرت ِ طیبہ آیت وَ مَاۤ اَنَا مِنَ الۡمُتَکَلِّفِیۡن کی عملی تصویر پیش کرتی ہے۔ تحریر ہو کہ تقریر، آپ کا کلام ہر قسم کے تکلفات سے پاک تھا۔

لکھنے والے اکثر باقاعدہ میز اور کرسی اور الماری وغیرہ اور دیگر لوازمات کے بغیر کام کرنا پسند نہیں کرتے۔ بلکہ بیشتر ایسے ہوتے ہیں جنہوں نے کافی خرچہ کر کے مہنگا اور قیمتی سامان اکٹھا کر کے اپنا دفتر تیار کیا ہوتا ہے۔ لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سادگی کا یہ عالم تھا کہ آپ ان اشیاء کے محتاج نہ تھے۔ چنانچہ حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ’’تحریر وغیرہ کا سب کام پلنگ پر ہی اکثر فرمایا کرتے اور دوات، قلم، بستہ اور کتابیں یہ سب چیزیں پلنگ پر موجود رہا کرتی تھیں کیونکہ یہی جگہ میز کرسی اور لائبریری سب کا کام دیتی تھی۔ ‘‘(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر447)

ایک اَور روایت میں حضرت میر صاحبؓ موصوف حضرت اقدس علیہ السلام کے تصنیف کے وقت آپؑ کے بستوں اور کاغذات کا ذکر کرتے ہیں جس میں حضورؑ کی حد درجہ سادگی نمایاں نظر آتی ہے ’’تصنیف کے تمام کاغذات بستوں میں بندھے رہتے تھے ایک ایک وقت میں اس قسم کے تین تین بستے جمع ہو جاتے تھے۔ عموماً دو بستے تو ضرور رہتے تھے یہ بستے سلے ہوئے نہیں ہوتے تھے۔ بلکہ صرف ایک چورس کپڑا ہوتا تھا۔ جس میں کاغذ اور کتابیں رکھ کر دونوں طرف سے گانٹھیں دے لیا کرتے تھے۔ تصنیف کے وقت آپ کا سارا دفتر آپ کا پلنگ ہوتا تھا۔ اسی واسطے ہمیشہ بڑے پلنگ پر سویا کرتے تھے۔‘‘ (سیرت المہدی، روایت نمبر 698)

اسی روایت کے تحت حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے رضی اللہ عنہ نے نوٹ دیا ہے کہ ’’مَیں نے حضرت صاحب کو کبھی میز کرسی لگا کر کام کرتے نہیں دیکھا۔ البتہ بسا اوقات ٹہلتے ہوئے تصنیف کا کام کیا کرتے تھے اور اکثر پلنگ یا فرش پر بیٹھ کر کام کرتے تھے۔ ‘‘(سیرت المہدی، روایت نمبر 698)

متعدد روایات سے ہمیں یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ حضور علیہ السلام لکھتے ہوئے ٹہلتے جاتے تھے۔ آپ کا انداز بالکل بے تکلفانہ اور نہایت سادہ ہوتا۔ چنانچہ گھر میں ’’خصوصاً اگر پختہ فرش ہوتا تھا تو بعض اوقات ننگے پاؤں ٹہلتے بھی رہتے تھے اور تصنیف بھی کرتے جاتے تھے۔ ‘‘(سیرت المہدی، روایت نمبر 819)

حضرت سکینہ بیگم صاحبہؓ اہلیہ ماسٹر احمد حسین صاحب فریدآبادی بیان کرتی ہیں کہ’’ میں نے کئی بار آپ کو صحن میں ٹہلتے ٹہلتے لکھتے دیکھا۔ دو دواتیں ہوتی تھیں۔ اِدھر گئے تو اِدھر سے دوات سے قلم بھر لیتے تھے اور لکھتے، اُدھر گئے تو اُدھر سے قلم بھر لیتے اور لکھتے۔ ‘‘(سیرت المہدی، روایت نمبر 1573)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے تحریر کرنے کا طریق بیان کرتے ہوئے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ فرماتے ہیں کہ’’ آپ کی عادت تھی کہ کاغذ لے کر اس کی دو جانب شکن ڈال لیتے تھے تا کہ دونوں طرف سفید حاشیہ رہے اور آپ کالی روشنائی سے بھی لکھ لیتے تھے اور بلیو، بلیک سے بھی اور مٹی کا اُپلہ سا بنوا کر اپنی دوات اس میں نصب کروا لیتے تھے تا کہ گرنے کا خطرہ نہ رہے۔ آپ بالعموم لکھتے ہوئے ٹہلتے بھی جاتے تھے یعنی ٹہلتے بھی جاتے تھے اور لکھتے بھی اور دوات ایک جگہ رکھ دیتے تھے جب اس کے پاس سے گزرتے نب کو تر کر لیتے۔ اور لکھنے کے ساتھ ساتھ اپنی تحریر کو پڑھتے بھی جاتے تھے اور آپ کی عادت تھی کہ جب آپ اپنے طور پر پڑھتے تھے تو آپ کے ہونٹوں سے گنگنانے کی آواز آتی تھی اور سننے والا الفاظ صاف نہیں سمجھ سکتا تھا۔ ‘‘(سیرت المہدی، روایت نمبر 23)

طرزِ خط

حضور علیہ السلام کےطرزِ خط کے بارے میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ’’آپ کی تحریر پختہ مگر شکستہ ہو تی تھی۔ جس کو عادت نہ ہو وہ صاف نہیں پڑھ سکتا تھا۔ لکھے ہوئے کو کاٹ کر بدل بھی دیتے تھے۔ چنانچہ آ پ کی تحریر میں کئی جگہ کٹے ہوئے حصّے نظر آتے تھے اور آپ کا خط بہت باریک ہوتا تھا۔ ‘‘(سیرت المہدی، روایت نمبر 23)

آپ کا قلم مبارک

اوائل میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کلک کےقلم سے لکھا کرتے تھے اور حضرت مفتی محمد صادق صاحب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں ایک وقت میں چار چار پانچ پانچ قلمیں بنوا کر رکھ لیتا تھا تاکہ جب ضرورت پڑے تو حضورؑ کو پیش کر سکوں اور کام میں کوئی تاخیر نہ ہو۔ پھر آپؓ آگے بیان کرتے ہیں کہ ’’ایک دن جب کہ عید کا موقعہ تھامیں نے حضور کی خدمت میں بطور تحفہ دو ٹیڑھی نبیں پیش کیں۔ اس وقت تو حضرت صاحب نے خاموشی کے ساتھ رکھ لیں لیکن جب میں لاہور واپس گیا تو دو تین دن کے بعد حضرت کا خط آیا کہ آپ کی وہ نبیں بہت اچھی ثابت ہوئی ہیں۔ اور اب میں انہیں سے لکھا کروں گا۔ آپ ایک ڈبیہ ویسی نبوں کی بھیج دیں۔ چنانچہ میں نے ایک ڈبیہ بھجوا دی اور اس کے بعد میں اسی قسم کی نبیں حضور کی خدمت میں پیش کر تا رہا۔ لیکن جیسا کہ ولایتی چیزوں کا قاعدہ ہو تا ہے کہ کچھ عرصہ کے بعد مال میں کچھ نقص پید ا ہو گیا اور حضر ت صاحب نے مجھ سے ذکر فرمایاکہ اب یہ نب اچھا نہیں لکھتا جس پر مجھے آئندہ کےلئے اس ثواب سے محروم ہو جانے کا فکر د امنگیرہوا اور میں نے کارخانہ کے مالک کو ولایت میں خط لکھا کہ میں اس طرح حضر ت مسیح موعودؑ کی خد مت میں تمہارے کارخانہ کی نبیں پیش کیا کرتا تھا لیکن اب تمہارا مال خراب آنے لگا ہے اور مجھے اندیشہ ہے کہ حضرت صاحب اس نب کے استعمال کو چھوڑ دیں گے اور اس طرح تمہاری وجہ سے میں اس ثواب سے محروم ہو جاؤں گا اور اس خط میں میں نے یہ بھی لکھا کہ تم جانتے ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ن ہیں؟ اور پھر میں نے حضور کے دعاوی وغیرہ کا ذکر کر کے اس کو اچھی طرح تبلیغ بھی کر دی۔ کچھ عرصہ کے بعد اس کا جواب آیا جس میں اس نے معذرت کی اور ٹیڑھی نبوں کی ایک اعلیٰ قسم کی ڈبیا مفت ارسال کی جو میں نے حضرت کے حضور پیش کر دی۔ ‘‘(سیرت المہدی، روایت نمبر 434)

یہ کمپنی جن کا نِب حضور علیہ السلام استعمال فرماتے تھے انگلینڈ کی مشہور کمپنی M. Myers & Son Ltd. تھی جو Birmingham میں Charlotte Streetپر واقع تھی۔ حضرت مفتی صاحبؓ نے کمپنی کے نام جس خط اور ان کے جواب کا ذکر فرمایا ہے، یہ خط و کتابت اخبار الحکم 30؍اپریل 1902ء صفحہ 13تا 15 پر شائع شدہ ہے۔

نیز انگلینڈ سے منگوائے گئے قلموں کے بارے میں حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں حضرت مفتی صاحب کا ایک خط آپ کی کتاب ’’ذکرِ حبیب ‘‘ میں نقل کیا گیا ہے (دیکھئے: ذکرِ حبیب، صفحہ 297، مطبوعہ 2008ء)۔ نمونہ کے طور پر M. Myers & Son Ltdکے بنائے ہوئے ایک نِب کی تصویر نیچے دی جارہی ہے۔ غالباً اس قسم کا نِب حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام استعمال فرماتے تھے۔ واللہ اعلم

پس حضور علیہ السلام لوہے کے قلم سے لکھنا پسند فرماتے تھے۔ ایک دفعہ آپ سے آیت وَ اَنۡزَلۡنَا الۡحَدِیۡدَ فِیۡہِ بَاۡسٌ شَدِیۡدٌ وَّ مَنَافِعُ لِلنَّاسِ۔ (الحدید: 26)یعنی ہم نے لوہا اُتارا جس میں سخت لڑائی کا سامان اور انسانوں کے لئے بہت سے فوائد ہیں کےبارہ میں استفسار ہوا تو فرمایا: ’’میں بھی سارے مضمون لوہے کے قلم ہی سے لکھتا ہوں۔ مجھے بار بار قلم بنانے کی عادت نہیں ہے۔ اس لئے لوہے کے قلم استعمال کرتا ہوں۔ آنحضرتؐ نے لوہے سے کا م لیا ہم بھی لوہے ہی سے لے رہے ہیں اور وہی لوہے کی قلم تلوار کا کام دے رہی ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد4صفحہ283تا284، ایڈیشن 1984ء)

اس کے نیچے ایڈیٹر صاحب اخبار البدر نے درج ذیل نوٹ دیا کہ’’حضرت اقدس جس قلم سے لکھا کرتے ہیں وہ ایک خاص قسم کا ہوتا ہے۔ جس کی نوک آگے سے داہنی طرف کو مڑی ہوئی ہوتی ہے اور اس کی شکل تلوار کی سی ہوتی ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد 4 صفحہ284، ایڈیشن 1984ء)

گویا لوہے کے قلم کا استعمال جہاد بالقلم کا ایک عملی اظہار تھا۔ اپنے منظوم کلام میں حضورؑ نے کس خوبصورتی سے یہ ارشاد فرمایا کہ

صفِ دشمن کو کیا ہم نے بحُجّت پامال

سیف کا کام قلم سے ہی دکھایا ہم نے

اختتام

سیّدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے نہایت محنت سے کتب تصنیف فرمائیں۔ آپ کی زندگی کا ہر لمحہ اللہ تعالیٰ کی محبت، اپنے آقا و مطاع حضرت محمد مصطفیٰﷺ کے عشق اور خدمتِ اسلام میں گزرا۔ آپ کی عظیم الشان تحریرات اس کی گواہی دیتی ہیں۔ یہی وہ تحریرات ہیں جن سے دنیا میں ایک عظیم انقلاب برپا ہو رہا ہے اور جن کے ذریعہ اسلام کی آخری فتح مقدر ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان روحانی خزائن سے حتی المقدور مستفیض ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!

حضور علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’میرے ہاتھ سے آسمانی نشان ظاہر ہو رہے ہیں اور میری قلم سے قرآنی حقائق اور معارف چمک رہے ہیں۔ اٹھو اورتمام دنیا میں تلاش کرو کہ کیا کوئی عیسائیوں میں سے یا سکھوں میں سے یا یہودیوں میں سے یا کسی اَور فرقہ میں سے کوئی ایسا ہے کہ آسمانی نشانوں کے دکھلانے اور معارف اورحقائق کے بیان کرنے میں میرا مقابلہ کر سکے۔‘‘ (تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد15صفحہ267)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button